علّامہ اقبال کی وابستگی ٔرسولؐڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
یہ حیاتِ اقبال کا ایک معروف واقعہ ہے‘ جسے خود اقبال نے اپنی فارسی مثنوی ’’رموزِ بے خودی‘‘ (۱۹۱۸ء) میں بیان کیا ہے۔ مثنوی کے متعلقہ حصے کا عنوان ہے: ’’درمعنیٔ ایں کہ حسنِ سیرتِ ملّیہ از تادّب بآدابِ محمدیہ است‘‘ یعنی اس مضمون کی وضاحت میں کہ ملّت اسلامیہ کا حسنِ سیرت و کردار‘ آدابِ محمدیہ(ﷺ) کی اتباع میں ہے۔
علّامہ اقبال بتاتے ہیں کہ میرے لڑکپن کا زمانہ ‘ بلکہ آغازِ عہدِشباب تھا۔ ایک روز ایک بھکاری ہمارے گھر کے دروازے پر آیا اور اُونچی اُونچی آواز سے بھیک مانگنے لگا۔ میں نے چاہا کہ وہ ٹل جائے مگر وہ پیہم صدا بلند کرتا رہا۔ مجھے غصہ آگیا۔ جوشِ جذبات میں مجھے اچھے بُرے کی تمیز نہ رہی‘ اور میں نے اس کے سر پر ایک لاٹھی دے ماری۔اس نے اِدھر اُدھر سے بھیک مانگ کر جو کچھ بھی جمع کیا تھا‘ وہ سب کچھ اس کی جھولی سے زمین پر گرگیا۔ والد صاحب یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ میری اس حرکت سے بے حد آزردہ ہوئے‘ چہرہ مرجھا گیا اور افسردگی چھا گئی۔ ان کے لبوں سے ایک جگرسوز آہ نکلی‘ اور دل سینے میں تڑپ اُٹھا۔ ستارے جیسا ایک آنسو آنکھوں سے نکلا‘ پلکوں پر چمکا اور گرگیا۔
یہ دیکھ کر مجھے بے حد ندامت اور خفت ہوئی کہ میں نے والد کو سخت تکلیف پہنچائی۔ اپنی اس حرکت پر بے قرار بھی ہوا (کہ اب تلافی کیسے ہو؟)۔اسی کیفیت میں والدماجد کہنے لگے: اُمّت ِمسلمہ کل اپنے آقا رسول اللہﷺ کے سامنے جمع ہوگی۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ ہوں گے: غازی‘ حفاظِ حدیث‘ شہداء‘ اکابر ِاُمّت‘ زاہد‘ عالم اور گنہگار بھی۔ اس موقع پر اس دردمند گدا کی صدا بلند ہوگی (وہ فریاد کرے گا کہ مجھ سے ایک نوجوان نے زیادتی کی ہے)۔ چنانچہ نبی کریمﷺ مجھ سے مخاطب ہوں گے: ؎
حق جوانے مسلمے با تو سپرد
کو نصیبے از دبستانم نبرد
از تو ایں یک کارِ آساں ہم نہ شد
یعنی آں انبارِ گِل آدم نہ شد!’’حق تعالیٰ نے ایک مسلمان نوجوان کو تیرے سپرد کیا تھا (کہ تو اسے صحیح تعلیم و تربیت دے) لیکن اس نوجوان نے میری ادب گاہ سے کوئی سبق حاصل نہ کیا۔ (حضورﷺفرمائیں گے کہ) تو اس آسان سے کام کو بھی انجام نہ دے سکا‘ یعنی تجھ سے ایک تودۂ مٹی آدمی نہ بن سکا۔‘‘
والد نے فرمایا کہ اگرچہ آنحضورﷺ اس ملامت میں بھی نرم گفتار ہی ہوں مگر میں تو سخت خفیف اور شرمندہ ہوں گا اور اُمیدوبیم میں گرفتار ہوں گا۔ پھر مجھے مخاطب ہوکر کہا: بیٹا! ذرا سوچو اور رسول اللہﷺ کی اُمت کے جمع ہونے کامنظر تصور میں لائو‘ پھر میری یہ سفید ڈاڑھی دیکھو اور میرے اُمیدوبیم کے لرزے کو نگاہ میں رکھو۔ اس کے بعد بڑے دردمندانہ لہجے میں کہنے لگے:؎
بر پدر ایں جورِ نازیبا مکن
پیشِ مولا بندہ را رسوا مکن
غنچہ ای از شاخسارِ مصطفیٰؐ
گل شو از بادِ بہار مصطفیٰؐ
از بہارش رنگ و بو باید گرفت
بہرۂ از خلقِ اُو باید گرفت’’(دیکھو‘ بیٹا) اپنے باپ پر یہ نازیبا ظلم نہ کرو ۔(کل) آقا کے سامنے غلام کو رسوا نہ کرنا۔ تو شاخسارِ مصطفیٰﷺ کا ایک غنچہ ہے‘ حضوؐر ہی کی نسیمِ بہار سے شگفتہ ہوکر پھول بن جا۔ تجھے آپﷺ کی بہار سے رنگ وبو حاصل کرنی چاہیے اور تجھے آپؐ کے خلقِ عظیم کی اتباع کرنی چاہیے۔‘‘
وجوہات تو اور بھی ہیں‘ مثلاً اقبال کے گھرانے کی دین سے گہری وابستگی‘ مذہبی شعائر کی پابندی‘ والدۂ اقبال کا جذبۂ خدمت ِخلق‘ پھر علّامہ میرحسن کی علمی اور اخلاقی تربیت اور خود اقبال کے والد شیخ نورمحمد کا روحانی مزاج‘ نیک نفسی‘ اور پرہیزگاری وغیرہ -------لیکن راقم کی دانست میں یہی وہ واقعہ ہے جس نے اقبال کے قلب و ذہن میں‘ آخرت میں جواب دہی کے احساس و شعور کو بیدار کیا اور ان کے نیک طینت والد نے اپنی مذکورہ بالا دل سوز و دردمندانہ گفتگو اور پندونصیحت کے ذریعے‘ ان کے دل میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ دلی محبت اوروابستگی کا بیج بویا ------- اقبال کی شاعری اور شخصیت میں یہ بیج ایک تن آور‘ اور بلندوبالا اور اطراف میں خوب پھیلی ہوئی شاخوں والا گھنا درخت بن کر نمودار ہوا ------- {کَشَجَرۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُھَا فِی السَّمَآئِ} (ابراھیم: ۲۴)
عین ممکن ہے اقبال کے لڑکپن میں اسی طرح کے کچھ اور واقعات بھی رونما ہوئے ہوں‘ تاہم بالیقین یہ واقعہ اقبال کی محبت ِرسولؐ میں ایک کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔ اوائل عمر کے بعض وقوعات انسانی ذہن پر گہرے اور دُور رس اثرات مرتب کرتے ہیں۔ متذکرہ بالا واقعہ نوجوان محمداقبال کے قلب ودماغ پر مرتسم ہوکر رہ گیا اور پھر پایانِ عمر وقتاً فوقتاً اورطرح طرح سے اظہار ہوتا رہا۔
علّامہ اقبال کی زندگی‘ شخصیت‘ شاعری اور نثرنگاری کا مطالعہ کریں تو نبی اکرم ﷺ کے ساتھ ان کا تعلق خاطر‘ ایک قلبی و ذہنی وابستگی اور عشق و محبت کا جذبہ مطالعۂ اقبال کا ایک نمایاں اور زرّیں باب نظر آتا ہے۔ ان کی زندگی کے ہر دور میں عشقِ رسولؐ ایک زندہ‘ توانا اور انقلاب انگیز جذبے کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ یہ حکایت دراز ہے اور لذیذ بھی‘ لیکن فی الوقت یہاںاس کے فقط چند پہلو پیش کیے جارہے ہیں:
ابتدا ہی سے اقبال کی شاعری میں جذبۂ عشق ِرسولﷺ کا ایک والہانہ اظہار ملتا ہے مگر اظہارِ عقیدت کا انداز بالعموم رسمی و روایتی ہے۔ وہ اس عبوری دور سے آگے بڑھتے ہیں تو اُن کی توصیف ِمحمدﷺ میں ہمیں ایک خاص معنویت نظر آتی ہے‘ مثلاًآںحضورﷺ کی پیغمبرانہ اور بشری عظمت اور آپؐ کی رحمت و شفقت کا پہلو اُن کے لیے سب سے زیادہ جذب و کشش کا باعث بنتا ہے۔ ابتدائی نظموں میں سے ’’نالۂ یتیم‘‘ کا یہ شعر ملاحظہ ہو : ؎
درد جو انساں کا تھا ‘ وہ تیرے پہلو سے اُٹھا
قلزمِ جوشِ محبت ‘ تیرے آنسو سے اُٹھانظم ’’فریادِ اُمّت‘‘ کے متعدد شعروں میں عشق و محبت سے اقبال کی مراد دردِ انسانیت ہے‘ اور یہ درد عشقِ رسولﷺ ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ ؎
تیری اُلفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا(۱)پھر ’’رموز بے خودی‘‘ میں کہتے ہیں : ؎
تا دمِ تو آتشے از گِل کشود
تودہ ہائے خاک را آدم نمود’’آپؐ کے نفسِ گرم سے مٹی کے پیکروں نے آگ پیدا کی اور خاک کے تودوں نے آدم کی صورت اختیار کرلی۔‘‘
گویا‘ اقبال کے نزدیک نبی کریم ﷺ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ آپؐ نے ’’انسان سازی‘‘ کی عظیم الشان خدمت انجام دی۔ آپؐ نے اپنی ۲۳ سالہ مثالی زندگی میں جو گوناگوں کارنامے انجام دیے‘ اقبال کی شاعری میں مختلف مقامات پر ان کا ذکر ملتا ہے۔ ایک مفصل تذکرہ تو ’’رموزِ بے خودی‘‘ کے آخری باب بعنوان: ’’عرضِ حالِ مصنف بحضورِ رحمت للعالمینؐ ‘‘ میں کیا گیا ہے: ؎
اے ظہورِ تو شبابِ زندگی
جلوہ اَت تعبیر خوابِ زندگی’’حضورِ والاؐ! آپ کا ظہور زندگی کے لیے شباب کا باعث ہے۔ آپ کا جلوہ خوابِ زندگی کی تعبیر ہے۔‘‘
فارسی مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوامِ شرق ‘‘میں ’’درِحضورِ رسالت مآبﷺ‘‘ کے عنوان سے ایک نظم شامل ہے جسے اقبال نے پروفیسر سلاح الدین محمد الیاس برنی کے نام ایک خط میں (حضوراکرمﷺ کی خدمت میں ایک)’’عرض داشت‘‘ کہا ہے۔ یہ ان کی نعتیہ شاعری کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔ اس میں ملّت اسلامیہ کی کس مپرسی‘ بے چارگی اور خواری و زبوں حالی کا حوالہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔
علّامہ اقبال سب سے پہلے انسانیت پر نبی کریمﷺ کے احسانِ عظیم کا ذکر کرتے ہیں کہ آپؐ نے اُسے لات و منات اور چوپایوں اور کاہنوں کی عبدیت (غلامی) کے بوجھ سے آزاد کیا اور اُمراء و سلاطین کی غلامی کے چنگل سے نجات دلائی۔ پھر افرادِ اُمّت کی موجودہ حالت ِ زبوں کا ذکر کرتے ہوئے افرادِ اُمّت کے مختلف طبقوں (نوجوانوں‘ اہل ِ مکتب‘ افرنگ کے نقالوں) کی ذہنی پستی اور پس ماندگی پر رنج وتأسف کا اظہار کرتے ہیں: ؎
در عجم گردیدم و ہم در عرب
مصطفیٰ نایاب و ارزاں بولہب
ایں مسلماں زادۂ روشن دماغ
ظلمت آباد ضمیرش بے چراغ
در جوانی نرم و نازک چوں حریر
آرزو در سینۂ او زود میر
ایں غلام ابنِ غلام ابنِ غلام
حریت اندیشۂ او را حرام’’میں عجم میں بھی پھرا ہوں اور عرب میں بھی۔ بولہب زیادہ ہیں اور آپﷺ کے رنگ میں رنگے ہوئے لوگ نایاب ہیں۔ یہ روشن دماغ مسلمان زادہ‘ اس کے ضمیر کی اندھیرنگری چراغ کے بغیر ہے۔ یہ جوانی میں ریشم کی طرح نرم و نازک ہے۔ اس کے سینے میں آرزوئیں پیداہوتے ہی مرجاتی ہیں۔ اس غلام ابن غلام ابن غلام پر آزادی کی سوچ حرام ہے۔‘‘
پھر کہتے ہیں کہ جدید تعلیم نے اس سے دین کا جذبہ چھین لیا ہے۔ اور اب تو وہ ایک بے جان لاشہ ہے‘ اس کا وجود: ’’ایں قدر دانم کہ بود‘‘ (اتنا جانتا ہوں کہ کبھی ’’تھا‘‘---------)یہ نوجوان اپنے آپ سے ناآشنا ہے اور افکارِ فرنگ میں مست ہے۔ یہ صرف اتنا چاہتا ہے کہ فرنگیوں کے ہاتھ سے اسے جو کی روٹی مل جائے۔ اس فاقہ کش نے اپنی جانِ پاک دے کر روٹی خریدی۔ اس کے اس طرزِعمل نے ہمیں دردناک نالوں پر مجبورکردیا۔ یہ پالتو پرندوں کی طرح (دوسروں کے ہاتھ سے) دانہ چگتا ہے اور فضائے نیلگوں کی پہنائیوں سے ناآشنا ہے۔ فرنگیوں کی آگ نے اسے پگھلا دیا ہے۔ اس دوزخ نے اس کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اسکول کا استاد نالائق اور کم نظر ہے‘ اس نے نوجوان کو اس کے حقیقی مقام سے آگاہ نہیں کیا۔
اقبال اُمّت کے امراض سے بخوبی واقف تھے‘ جن میں سے ایک بڑی بیماری ’’ترسِ مرگ‘‘ ہے۔ اس نظم کے ابتدا میں انہوں نے فریاد کی تھی کہ: ؎
اے تو ما بے چارگاں را ساز و برگ
وارہاں ایں قوم را از ترسِ مرگ!’’حضورﷺ! آپ ہم بے چارہ لوگوں کا بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ اس قوم کو موت کے خوف سے نجات دلایئے۔‘‘
یہاں وہ اس تأسف کا اظہار کرتے ہیں کہ ؎
مومن و از رمزِ مرگ آگاہ نیست
در دلش لا غالب اِلا اللہ نیست’’مؤمن ہے اور موت کی رمز سے آگاہ نہیں۔اس کا دل لاغالب الا اللہ (کے تصور) سے خالی ہے۔‘‘
اقبال نے اس نوحہ و فریاد میں ایک ایسی بات کہی ہے جو ان کے دور میں تو سچی تھی ہی‘ آج ۷۰سال بعد‘ دورِاقبال سے کہیں زیادہ ہمارے حسبِ حال ہے ------- کہتے ہیں :؎
ما ہمہ افسونیٔ تہذیبِ غرب
کشتۂ افرنگیاں بے حرب و ضرب’’ہم سب مغرب کی تہذیب کے سحر زدہ ہیں۔ ہمیں افرنگیوں نے بغیر جدال و قتال کے قتل کردیا ہے۔‘‘
تاہم‘ اقبال کو علم نہیں تھا کہ جب یہ سخت جان اُمت‘ صرف تعلیم اور (نام نہاد)ثقافتی حربوں کے ذریعے پوری طرح بے جان نہ ہوسکے گی تو فرنگی جدال و قتال پر بھی اتر آئیں گے ------- (یہ الگ بات ہے کہ اس محاذ پر بھی انہیں منہ کی کھانی پڑے گی۔)
علّامہ اقبال کے حُب ِرسولؐ کے جذبے پر ایک اور پہلو سے بھی نظر ڈالنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں حُب ِرسولؐ اور عشق ِ رسولؐ کا جذبہ چند ظاہری آداب (نعت نویسی‘ نعت خوانی‘ مجلس میلاد‘ میلادالنبیﷺ کا جلوس یا رسمی و روایتی انداز میں دھواں دھار تقریروں) تک محدود ہوکر رہ گیا ہے‘ اور الا ماشاء اللہ اب یہ ہمارا ایک ’’ثقافتی مظہر‘‘ ہے۔ لیکن علّامہ اقبال کی محبت ِرسولؐ فقط آپؐ کی زبانی کلامی توصیف و تحسین یا درود و سلام تک محدود نہیں (گو کہ علّامہ اقبال نے نبی کریمﷺ پر بکثرت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی ہے)۔ وہ
محبت ِرسولؐ کو خدمت ِرسولؐ اور خدمت ِرسولؐ کو خدمت ِدین کے مترادف سمجھتے ہیں‘ یعنی ان کے نزدیک:
محبت ِرسولؐ= خدمت ِرسولؐ
اور:
خدمت ِرسولؐ = خدمت ِاسلام
چنانچہ متذکرہ بالا ’’عرض داشت‘‘ پیش کرتے ہوئے انہیں خیال آتا ہے کہ ہم مسلمانوں نے نہ تو اپنی نسبت ِرسولؐ کا خیال رکھا اور نہ محمدﷺ کے نام لیوا ہونے کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا۔ ہم مسلمان ہیں تو اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ رسالت ِمحمدیہ(ﷺ) پر ہمارا ایمان ہے تو اس کے تقاضے کیا ہیں؟ -------افراد ِاُمّت‘ اس ضمن میں ایک عمومی غفلت کا شکار ہیں۔ اقبال کے لیے یہ چیز دلی اذیت کا باعث ہے۔ اس کیفیت کو وہ ذاتی حوالے سے اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’میں تو جب کبھی سوچتا ہوں‘ شرم و ندامت سے میری گردن جھک جاتی ہے کہ کیا ہم مسلمان آج اس قابل ہیں کہ رسول اللہﷺ ہم پر فخر کریں؟ ہاں‘ جب ہم اس نور کو اپنے دلوں میں زندہ کرلیں گے‘ جو رسول اللہ ﷺ نے ہم میں داخل کیا تھا‘ تو اس وقت اس قابل ہوسکیں گے کہ حضورﷺ ہم پر فخر کریں۔‘‘
وہ نور کیا تھا جو آپﷺ نے ہمیں عطا کیا؟ اسلام کی نعمت‘ قرآن حکیم کی دولت‘ احکامِ الٰہی کا سرمایہ اور خدمت ِدین کا جذبہ ------- یہ سب عشقِ رسولﷺ کا تقاضا اور اس کے ثمرات ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’اقبال کے تجربے میں تو عشق رسولؐ ہی ایسی نعمت ہے‘ جس کے ذریعے وہ اپنے تمام فکری مسائل حل کرسکتے تھے‘‘۔ اقبال کے نزدیک حُب ِرسولؐ کے ذریعے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت کا حصول ممکن ہے‘ بلکہ زمین و آسمان کی ساری عزتیں اور ساری نعمتیں صرف اسی طریقے سے مل سکتی ہیں ۔ ؎
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا‘ لوح وقلم تیرے ہیں!اور: ؎
ہر کہ عشقِ مصطفیٰ سامانِ او ست
بحر و بر در گوشۂ دامانِ اوست’’جس شخص کو بھی عشقِ مصطفیﷺ کی نعمت مل جاتی ہے‘ وہ دریا و صحرا دونوں پر متصرف ہوجاتا ہے۔‘‘
لیکن جیساکہ اکثر ابنائے زمانہ کا شیوہ ہے‘انسان غفلت کا اسیر رہتا ہے‘ مکروہاتِ زمانہ ہی سے فرصت نہیں ملتی‘یا ساری تگ و دو حصولِ دنیا کے لیے وقف رہتی ہے۔ دین کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ ہمارے گردوپیش بہت کم لوگ ہوں گے جنہیں تفہیم دین‘ خدمت ِاسلام یا اتباعِ رسولﷺ کا حقیقی شعور ہو اور وہ ان فرائض کو اداکرنے کااحساس بھی رکھتے ہوں۔ اقبال کو اس کا احساس تھا مگر انہیں ایک گونہ ندامت ہوتی تھی کہ وہ اتباعِ رسولؐ کے تقاضوں کو خاطرخواہ طریقے سے پورا نہیں کرسکے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’میں جو اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ خدا تعالیٰ نے مجھ کو قوائے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے۔ اگر یہ قویٰ دینی علوم کے پڑھنے میں صرف ہوتے‘ تو آج خدا کے رسولؐ کی مَیں کوئی خدمت کرسکتا ۔اور جب مجھے یاد آتا ہے کہ والد ِمکرم مجھے علوم دینی ہی پڑھانا چاہتے تھے‘ تو مجھے اوربھی قلق ہوتا ہے کہ باوجود اس کے‘ کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی‘ تو بھی وقت کے حالات نے اس راہ پر چلنے نہ دیا۔ بہرحال جو کچھ خدا کے علم میں تھا‘ ہوا‘ اور مجھ سے بھی جو کچھ ہوسکا‘ مَیں نے کیا‘ لیکن دل چاہتا ہے کہ جو کچھ ہوا‘ اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا‘ اور زندگی تمام و کمال نبی کریمﷺ کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی۔‘‘
اگرچہ جیسا اُوپر بھی ذکر ہوا‘ علّامہ اقبال نے آنحضورﷺ پر بہ کثرت درود شریف پڑھنے کی تلقین کی ہے‘ مگر درجِ بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عشق ِ رسولﷺ ان کے نزدیک محض درود شریف پڑھنے اور محبت کے زبانی کلامی دعووں یا ان کی یاد میں آنسو بہانے تک محدود نہیں۔ عشق رسولؐ کا حقیقی تقاضا ’’نبی ٔکریمﷺ کی خدمت ‘‘ہے۔ یہ خدمت ِرسولؐ کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کا احیا اور اس کا نفاذ ------- یعنی خدمت ِرسولؐ‘ خدمت ِ اسلام کے مترادف ہے۔ سیدغلام میراں شاہ کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ آپ کو اس امر کی توفیق دے کہ آپ اپنی قوت‘ ہمت‘ اثر‘ رسوخ اور دولت و عظمت کو حقائقِ اسلام کی نشرواشاعت میں صرف کریں۔ اس تاریک زمانے میں حضورِ رسالت مآبﷺ کی سب سے بڑی خدمت یہی ہے۔‘‘
آں حضورﷺ کی پوری زندگی باطل کے خلاف سراپا جہاد تھی۔ عصرِحاضر میں بھی گوناگوں باطل نظریات‘ اسلام کے راستے کی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کے خاتمے کے لیے کوشش و کاوش ایک طرح سے سنت ِنبویؐ ہے‘ خدمت ِرسولؐ بھی اور خدمت ِدین بھی۔ علّامہ اقبال کے نزدیک ایک مؤمن کی زندگی کا یہی مشن ہونا چاہیے۔ اپنی زندگی میں انہیں ’’نازک زمانے میں اسلام کی حفاظت‘‘کی فکر برابر دامن گیر رہی اور وہ ’’اسلام کی منتشر قوتوں کو جمع کرکے اس کے مستقبل کو محفوظ‘‘ کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے رہے۔ ۲۲ اپریل ۱۹۳۱ء کو مولوی صالح محمد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’مسلمانوں کو ابھی تک اس کا احساس نہیں ہوا کہ جہاںتک اسلام کا تعلق ہے‘ اس ملک ہندوستان میں کیا ہو رہا ہے‘ اوراگر وقت پر موجودہ حالت کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کی گئی تو مسلمانوں اور اسلام کا مستقبل‘ اس ملک میں کیا ہوجائے گا؟ آیندہ نسلوں کی فکر کرنا ہمارا فرض ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ان کی زندگی گونڈ اور بھیل اقوام کی طرح ہوجائے اور رفتہ رفتہ ان کا دین اور کلچر اس ملک سے فنا ہوجائے۔ آپ خواجہ صاحب کے دل میں بھی یہی تڑپ پیدا کریں کہ وہ اپنے دیگر احباب میں بھی یہی تحریک کریں‘ ورنہ ہم سب لوگ قیامت کے روز خدا اور رسولؐ کے سامنے جواب دہ ہوں گے۔‘‘
اسی تسلسل میں ۳۰ جولائی ۱۹۳۴ء کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’اس وقت مسلمان کا فرض ہے کہ جو قوت خداتعالیٰ نے اسے عطا کی ہے‘ اسے اسلام کی خدمت اور اقوام و مللِ اسلامیہ کے احیا و بیداری میں صرف کردے۔‘‘
یہاں یہ عرض کرنا بے جا نہ ہوگا کہ اسلام کی نشا ٔۃ ِثانیہ کے بارے میں علّامہ اقبال کارجائی ذہن بہت واضح تھا۔ شاعری کے علاوہ خطوں میں بھی یہ رجائیت‘ اپنی جھلک دکھاتی ہے۔ ایک صاحب نے خواب میں رسولِ پاکﷺ کی زیارت کی تعبیر دریافت کی‘ اقبال انہیں جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’عام مسلمانوں کی طرح میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ حضورِ رسالت مآبﷺ کی زیارت خیروبرکت کا باعث ہے۔ گزشتہ دس پندرہ سال میں کئی لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے حضورِ رسالت مآبﷺ کو جلالی رنگ میں یا سپاہیانہ لباس میں خواب میں دیکھا ہے۔ میرے خیال میں یہ علامت احیائے اسلام کی ہے۔‘‘
خود علّامہ اقبال اپنے تئیں احیائے اسلام کے لیے کاوش و کوشش کا فریضہ ادا کرنے کی سعی کرتے رہے‘ اور انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے خدمت ِاسلام اور خدمت ِرسولﷺ میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
محبت ِ رسولﷺ کے ضمن میں علّامہ اقبال کو اپنی ’’نسبت ِحجازی‘‘بھی بہت عزیز تھی۔ وہ آنحضورﷺ کی زبانِ مبارک سے خود کو’’اے عندلیب ِباغِ حجاز‘‘ کہلوا کر فخرومسرت اور روحانی لذت و سرشاری محسوس کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے حالات میں حجازِ مقدس کے سفر اور زیارتِ روضۂ رسولؐ کی تمنا کا بہ تکرار اظہار ملتا ہے۔ بارہا سفرِحجاز کا ارادہ بھی کیا مگر بوجوہ یہ ارادہ بروئے کار نہ آسکا۔
آخری زمانے میں نبی پاکﷺ کے لیے ان کا ذوق و شوق بڑھ گیا تھا۔ اس بنا پر آنحضورﷺ کا ذکر آتے ہی وہ آبدیدہ ہوجاتے اور اکثر اوقات ان پر رقت طاری ہوجاتی۔ غلام رسول مہر کا بیان ہے :
’’آپﷺ کا نام زبان پر آتے ہی چہرہ سرخ ہوجاتا تھا اور آنکھوں میں آنسو بھر آتے تھے۔ آپؐ کی ذاتِ بابرکات کے ساتھ اقبال کا عشق‘ بیان کا متحمل نہیں۔ ان کی تصانیف میں جو اشعار حضورﷺ کے متعلق ہیں‘ ان میں سے ایک شعر بھی ایسا نہیں جسے انہوں نے سنایا ہو اور اس پر بے اختیار اشک بار نہ ہوئے ہوں۔‘‘
وفات سے کوئی آٹھ دس ماہ پہلے‘ علّامہ کے ایک دوست مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ نے حج بیت اللہ کا عزم کیا اور غالباً ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ جواباً انہیں لکھا کہ حج بیت اللہ کی آرزو تو گزشتہ دو تین سال سے میرے دل میں بھی ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے استطاعت عطا فرمائے‘ تو یہ آرزو پوری ہو‘ اور اگر آپ رفیق راہِ ہوں تو مزید برکت کا باعث ہو۔ آپ ایسے باہمت جوان کے لیے تو یہ سفر قطعاً مشکل نہیں۔ ہمت تو میری بھی بلند ہے لیکن بدن عاجز و ناتواں ہے۔ کیا عجب کہ خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور آپ کی معیت اس سفر میں نصیب کرے۔
یہی زمانہ تھا‘ جب وہ’ ’حضورِ رسالتؐ‘‘ (جو اَب ’’ارمغانِ حجاز‘‘ میں شامل ہیں) کے عنوان سے فارسی رباعیات لکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے حج پر جانے کے لیے مختلف جہاز ران کمپنیوں سے خط کتابت بھی شروع کردی تھی‘ گویا عملاً حالت ِسفر میں تھے۔ اسی زمانے کی رباعی ہے: ؎
بہ ایں پیری رہِ یثرب گرفتم
نوا خواں از سرورِ عاشقانہ
چوں آں مرغے کہ در صحرا سرِشام
کشاید پر بہ فکر آشیانہ’’اس بڑھاپے میں‘ مَیں مدینے کی طرف سرورِعاشقی سے مست‘ گاتا چلا جا رہا ہوں اور میرا حال اُس پرندے کی طرح ہے جو صحرا میں شام ہوتے ہی اپنے آشیانے کی طرف لوٹنے کی فکر کرتا ہے۔‘‘
اپنی بیماری کے سبب‘ اقبال کے لیے جسمانی طور پر سفر بہت مشکل ہوگیا تھا ‘چنانچہ عالمِ خیال ہی میں وہ مدینہ طیبہ کی جانب رواں دواں رہے۔ اپنی علالت کے حوالے سے اسی زمانے کی حسبِ ذیل رباعی ان کے حسب ِ حال تھی:
سحر با ناقہ گفتم نرم تر رَو
کہ راکب خستہ و بیمار و پیر است
قدم مستانہ زد چنداں کہ گوئی
بہ پایش ریگِ ایں صحرا حریر است’’بوقت صبح میں نے اُونٹنی سے کہا کہ ذرا آہستہ چل ‘کیوں کہ سوار خستہ‘ بیمار اور بوڑھا ہے۔ اس پر وہ اس طرح مستانہ انداز میں قدم زن ہوئی گویا اس کے پائوں کے نیچے پھیلی ہوئی ریگِ صحرا‘ ریت نہیں ریشم ہے۔‘‘
مگر اثنائے سفر کی لذت ایسی سرور انگیز اور وجدآفریں ہے کہ مسافر‘ سارباں کو راہِ دراز اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے تاکہ سفرِشوق میں مسرت کے لمحات دراز تر ہوسکیں: ؎
غمِ راہی نشاط آمیز تر کن
فغانش را جنوں انگیز تر کن!
بگیر اے سارباں راہِ درازے
مرا سوزِ جدائی تیز تر کن!’’اے سارباں! تو مسافر کے غم میں نشاط اور کیف کی آمیزش بڑھا دے اور اس کی آہ و زاری میں جنوں کا عنصر زیادہ کردے۔ اے سارباں! لمبا راستہ اختیار کر اور یوں میرے سوزِ جدائی کو تیز تر کردے۔‘‘
علّامہ اقبال کو ۱۹۳۱ء میں دوسری گول میز کانفرنس کے سلسلے میں لندن کا سفر درپیش ہوا۔ واپسی پر مؤتمرعالم اسلامی میں شرکت کے لیے بیت المقدس گئے۔ وہاں سے مصر گئے اور پھر براہِ راست ہندوستان چلے آئے۔ اس پر بعض لوگوں نے سوال اٹھایا ہے کہ علّامہ نے عمرے اور روضۂ رسولﷺ پر حاضری کے اس موقعے سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا! اس ضمن میں ’’روزگارِ فقیر‘‘ کے مؤلف فقیر سید وحیدالدین کی ایک روایت قابلِ غور ہے۔ [فقیرسیدوحیدالدین کے والد فقیر سیدنجم الدین علّامہ اقبال کے قریبی اور بے تکلف دوستوں میں شامل تھے] وہ بتاتے ہیں کہ علّامہ یورپ سے واپس آئے تو والدمرحوم اس موقعے پر ان سے ملنے گئے۔ بڑی مدّت کے بعد ایک دوسرے سے ملاقات ہوئی تھی‘ اس لیے بڑے تپاک سے ملے‘اور ڈاکٹرصاحب سے ان کے سفر کے تجربات کے متعلق گفتگو ہونے لگی۔ والدمرحوم نے اثنائے گفتگو میں کہا: ’’اقبال! تم یورپ ہوآئے ہو‘ مصر اور فلسطین کی سیر بھی کی‘ کیا اچھا ہوتا کہ واپسی پر روضۂ اطہر کی زیارت سے بھی آنکھیں نورانی کرلیتے۔‘‘ یہ سنتے ہی ڈاکٹرصاحب کی حالت دگرگوں ہوگئی‘ یعنی چہرے پر زردی چھاگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ چند لمحے تک یہی کیفیت رہی۔ پھر کہنے لگے: ’’فقیر! میں کس منہ سے روضۂ اطہر پر حاضر ہوتا۔‘‘
انہی دنوں کسی شخص نے دریافت کیا کہ :فلسطین سے زیارتِ حرمین کے لیے جانا مشکل نہ تھا‘ پھر کیاامر مانع ہواکہ آپ نے اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھایا؟ جواباً علّامہ نے انہیں لکھا:
’’مدینۃ النبیﷺ کی زیارت کا قصد تھا‘ مگر میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا کہ دنیوی مقاصد کے لیے سفر کرنے کے ضمن میں حرمِ نبویؐ کی زیارت کی جرأت کرنا سوئے ادب ہے۔ اس کے علاوہ بعض مقامی احباب سے وعدہ تھا کہ جب حرمِ نبویؐ کی زیارت کے لیے جائوں گا تو وہ میرے ہم عناں ہوں گے۔ ان دونوں خیالوں نے مجھے باز رکھا‘ ورنہ کچھ مشکل امر نہ تھا۔‘‘
بہ الفاظِ دیگر‘ انہیں دربارِ رسالت مآبﷺ میں ضمنی طور پر حاضر ہونا اچھا نہ لگا۔ دراصل آنحضورﷺکے ہر اُمتی کی طرح علّامہ اقبال کو بھی اپنے گناہوں اور کوتاہی ٔ فکروعمل کا شدید احساس تھا۔ احساسِ ندامت کے سبب‘ وہ روضۂ رسولؐ پر حاضری سے گریزاں تھے‘ اور غالباً اسی لیے وہ ایک جگہ بارگاہِ خداوندی میں اس طرح التماس کرتے ہیں: ؎
تُو غنی از ہر دو عالم‘ من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
وَر حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہِ مصطفیٰ پنہاں بگیر!(۲)’’(اے اللہ!) تُو سراپا غنی ہے(اور) میں تہی دست ہوں۔ روزِحشر مجھے جواب دہی سے معاف رکھنا۔ لیکن اگر جواب دہی ناگزیر ہو تو پھر آں حضورﷺ کی نظروں سے اوجھل ہوکر حساب لیجیو‘ تاکہ آپؐ کے سامنے میری رسوائی نہ ہو۔‘‘
بہرحال انہوں نے سفرِحجاز کا ارادہ ترک نہیں کیا‘ مگر سوئے اتفاق سے‘ یورپ سے واپسی کے چندماہ بعد وہ شدید طور پر علیل ہوگئے۔ انہیں وکالت ترک کرنی پڑی‘ معمولات متاثر ہوگئے‘ علاج معالجے کے لیے بار بار دہلی اور بھوپال جانا پڑا۔ بیماری کے نتیجے میں طرح طرح کے تفکرات اور غم ہائے روزگار نے گھیرلیا‘ مگر اس عالم میں بھی سرزمین مقدس کے لیے ان کے عزم و ارادے میں فرق نہیں آیا۔ ارادۂ سفر نہ صرف برقرار رہا‘ بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سفرِحجاز کی آرزو تیز تر ہوتی گئی۔ اس آرزو نے رسول اکرمﷺ کے ساتھ ان کی دل بستگی میں اضافہ کردیا تھا۔
دورِ آخر میں وہ رسول اکرم ﷺ سے محبت اور دل بستگی کی جس کیفیت سے گزر رہے تھے‘ اس کا ذکر مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒنے بڑے عمدہ الفاظ میں کیا ہے:
’’زندگی کے آخری ایام میں پیمانۂ عشق اس طرح لبریز ہوا کہ مدینے کا نام آتے ہی اشک ِمحبت بے ساختہ جاری ہوجاتے۔ وہ اپنے اس کمزور جسم کے ساتھ مدینۃ الرسولؐ میں حاضر نہ ہوسکے لیکن اپنے مشتاق اور بے تاب دل‘ نیز اپنی قوتِ تخیل اور زورِ کلام کے ساتھ انہوں نے حجاز کی وجدانگیز فضائوں میں باربار پرواز کی اور ان کا طائر ِفکر ہمیشہ اسی آشیانے یا آستانے پر منڈلاتا رہا۔‘‘
مدینۃ النبیؐ اقبال کے خوابوں کا شہر تھا۔ وہاں ان کی عزیز ترین ہستی محو ِاستراحت تھی۔ ان کی دیرینہ آرزو تھی کہ انہیں حجاز جانے کا موقع ملے تو سرزمین مدینہ ہی میں پیوند ِخاک ہو جائیں۔ یہ تمنا بھی آپؐ سے ایک تعلق خاطر کی دلیل‘ اور قلبی وابستگی کی ایک شکل ہے جس کا اظہار ایک شعر میں اس طرح کیا ہے ؎
ہست شانِ رحمتت گیتی نواز
آرزو دارم کہ میرم در حجاز’’آپؐ کی شانِ رحمت ایک زمانے کو نوازتی ہے۔ میری آرزو یہ ہے کہ مجھے موت آئے تو سرزمین حجاز میں۔‘‘
اقبال کے سفرِحجاز کا خواب تو شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا اور نہ اُن کی ’’میرم درحجاز‘‘ کی تمنّابروئے کار آسکی۔ مگر ’’عرضِ حال مصنف بہ حضور رحمت للعالمینﷺ‘‘ (رموزِ بے خودی‘ ۱۹۱۸ء) کے ۲۰سال بعد (۱۹۳۸ء میں) جب وہ اس عالم فانی سے رخصت ہوکر عالم جاودانی کوسدھارے اور عالم گیری مسجد لاہور کے سایۂ دیوار میں سپردِ خاک ہوئے‘ تو ان کی آرزوتھی:؎
کوکبم را دیدۂ بیدار بخش
مرقدے در سایۂ دیوار بخش!
تا بیاساید دلِ بے تابِ من
بستگی پیدا کند سیمابِ من
با فلک گویم کہ آرامم نگر
دیدۂ آغازم‘ انجامم نگر!’’میری قسمت کے ستارے کو بھی دیدۂ بیدار عطا فرمایئے اور اپنی دیوار کے سایے میں آسودئہ خاک ہونے کے لیے ذرا سی جگہ عطا فرمایئے تاکہ میرے دلِ بے تاب کو سکون نصیب ہو اور میری سیمابیت کو قرار آجائے‘ اور مَیں فلک سے کہہ سکوں کہ دیکھو‘ مجھے کیسے آرام نصیب ہوا۔تُو میرا آغاز دیکھ چکا ہے‘ اب میرے انجام پر بھی نظر ڈال۔‘‘
اس آرزو کو ایک شکل میں تو یوں شرفِ قبولیت حاصل ہوا کہ وہ عالم گیری مسجد لاہورکی دیوار تلے آسودئہ خاک ہیں جہاں ۲۱ اپریل ۱۹۳۸ء سے آج تک‘ نماز اور زیارتِ مسجد کے لیے آنے والے ہزاروں لاکھوں مسلمان‘ ان کے لیے مستقلاً دست بدعا رہتے ہیں ------- یہ ’’رُتبہ بلند‘‘ ہرکسی کو نصیب نہیں ہوتا اور ایسا اعزاز و افتخار عشق ِ رسولﷺ کا دعویٰ کرنے والوں میں سے کم ہی لوگوں کے حصے میں آیا ہوگا۔
حواشی
(۱) مذکورہ بالا دونوں اشعار‘ اقبال کے متداول کلام میں شامل نہیں ہیں‘ بلکہ دوسرے شعر سے متصل ومابعد حسب ِذیل نہایت عمدہ شعر بھی اقبال نے‘ نمعلوم کیوں اپنے متداول کلام میں شامل نہیں کیا: ؎
یہ شہادت گہِ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا(۲) یہ رباعی‘ اقبال کے متداول کلام میں شامل نہیں ہے‘ اقبال نامہ (جدید یکجا اڈیشن‘ شائع کردہ: اقبال اکادمی پاکستان لاہور‘ ۲۰۰۵ء‘ ص ۲۵۶) میں موجود ہے۔ اس کا قصہ یوں ہے کہ مذکورہ رباعی اوائل ۱۹۳۷ء میں کسی اخبار یا رسالے میں شائع ہوئی تو ڈیرہ غازی خاں کے ایک مدرس محمدرمضان عطائی نے‘ علّامہ سے تحریراً درخواست کی کہ یہ رباعی مجھے عطا کریں۔ علّامہ کا ظرف دیکھیے کہ انہوں نے عطائی صاحب کو لکھا: ’’شعر کسی کی ملکیت نہیں۔ آپ بلاتکلف وہ رباعی جو آپ کو پسند آگئی ہے‘ اپنے نام سے مشہور کریں‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے -------‘‘اور علّامہ واقعی اس بے مثال رباعی سے دست بردار ہوگئے اور اسے اپنے مجموعۂ کلام میں شامل کرنے کی ممانعت کردی۔ تاہم راقم کی رائے میں‘ اب یہ رباعی ارمغانِ حجاز میں شامل کرلینی چاہیے۔
(تشکّر: ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن‘ اپریل۲۰۰۷ )
tanzeemdigitallibrary.com © 2025