(عرض احوال) ٹرمپ :رسّی جل گئی مگر بل نہیں گیا! - رضاء الحق

17 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ٹرمپ: رسّی جل گئی مگر بل نہیں گیا!


امریکی صدر ٹرمپ کو دوبارہ اقتدار میں آئے ہوئے ایک مہینہ بھی نہیں گزرا کہ اُن کی یادداشت سے وہ تمام دعوے اور بیانات محو ہوگئے ہیں جو اُنہوں نے الیکشن جیتنے کے لیے کیے تھے ‘خصوصاً عالمی امن کے حوالے سے۔اُن کا تاز ہ بیان ہے کہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو’’ اگر ہفتہ کے دن ۱۲ بجے تک رہا نہ کیا گیا تو غزہ سیز فائر ختم ہو جائے گی۔‘‘اِس سے قبل اُن کا یہ بیان بھی زیربحث رہا ہے کہ ’’ جنگ ختم ہونے کے بعداسرائیل غزہ کا علاقہ امریکا کے حوالے کردے گا‘‘ اور’’ غزہ کی تعمیر نو امریکا کرے گا اور امریکی اقدامات سے غزہ میں استحکام آئے گا۔‘‘ اِن بیانات کے پیش نظرعالم ِاسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ کیا دنیاپھر ایک اور جنگ کی تباہ کاریاں دیکھےگی! اہل ِ دانش میں سے ایک گروہ تو گزشتہ کئی سال سے کہہ رہاہے کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے جبکہ بعض کا خیال اِس کے برعکس ہے۔جنگ عالمی ہو یا محدود‘ اُس کی تباہ کاریوں اور مضر اثرات سے بہرحال پوری دنیا کے عوام متاثر ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کاتو دارومدار ہی اسلحہ کی تجارت پر ہے۔ گویا دنیا کے کسی خطے میں امن قائم ہونا اُن کی اپنی موت کے مترادف ہے۔۷/اکتوبر ۲۰۲۳ء سے قبل اسرائیل فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم کرتے ہوئے نہ صرف اُن کے علاقوں پر جبری قبضہ کرچکا تھا بلکہ کئی اسلامی ممالک بھی اُس قبضے کو قانونی ماننے کو تیار تھے ۔اِس سے قبل کہ یہ سب کچھ قانونی قرار دے دیا جاتا‘ حماس نے’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق اسرائیل پر زمینی حملہ کرکے دنیا بھر کو اس کے مذموم ارادوں سے باخبر کردیا۔اُس وقت دنیا بھر میں بڑی تعداد میں لوگوں کایہی خیال تھا کہ آج نہیں تو کل حماس کو اِس عظیم غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے اور اس کی قید میں اپنے فوجیوں کی رہائی کے لیے اپنی پوری توانائی استعمال کی مگر نہ تو وہ اپنے قیدیوں کو واپس لے سکا اور نہ ہی حماس کو ختم کرسکا ۔اِس سے انکار نہیں ہے کہ جنگ میں حماس کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔غزہ کا تمام تر انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔ سکول کالجز‘ہسپتال ‘شاپنگ مالز حتیٰ کہ پانی کے ذخائر تک تباہ کر دیے گئے۔کم وبیش پچاس ہزار خواتین‘ بچے‘بوڑھے‘جوان سمیت کئی بڑے رہنما شہید ہو گئے ۔ایک لاکھ سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے‘جن کے علاج کے لیے نہ کوئی معالج دستیاب ہے اور نہ ہی ہسپتال ۔بمباری سے شہید ہوجانے والے مسلمانوں کی لاشیں ابھی تک ملبے سے نکالی جارہی ہیں ۔تاہم‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن شہادتوں اور قربانیوں کے طفیل ہی تو اسرائیل کوجنگ بندی کا اَمن معاہدہ کرنا پڑا۔حماس کے ساتھ اسرائیل کےاِس اَمن معاہدے کو اگر اسرائیل کا غیر رسمی اعلانِ شکست کہا جائے تو غلط نہ ہوگا ‘کیونکہ نہتے فلسطینیوں نے دنیا کے بہترین اور مہنگے اسلحہ کی ساکھ ملیا میٹ کرکے رکھ دی۔اسی ساکھ اور دھاک کے بل بوتے پر تو اُس نے اہل فلسطین ہی نہیں بلکہ پورے خطہ عرب کو بھی مرعوب کرکے رکھا ہوا تھا ۔ اِس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جنگیں تو لڑی ہی ساکھ اور دھاک کو بچانے کے لیے جاتی ہیں ۔اِس جنگ سے پہلے حماس کی نہ تو کوئی ساکھ تھی اور نہ ہی دھاک کہ جس کے تحفظ کے لیے اُسے جنگ لڑنا پڑی۔اِن حالات میں یہ بات برملا کہی جاسکتی ہے کہ جنگ بندی کی اصل ضرورت اسرائیلی اور اُس کی حامی افواج کو تھی۔ حماس کے پاس اسرائیل کے وہ چند فوجی قید تھے کہ جن کے تبادلے میں ا سے اپنے ہزاروں قیدی واپس مل گئے۔ جن تین قیدیوں کے حوالے سے صدر ٹرمپ کو دھمکی آمیزبیان دینا پڑاوہ بھی حماس نے اپنی شرائط پر ہی چھوڑنے کی بات کی۔گویا امن ہو یا جنگ‘ فلسطینیوں کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘کیونکہ وہ تو اپنے وطن سے زیادہ ارض مقدس کے تحفظ کے لیے اپنی جانیں ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں۔ جنگ بندی کے حوالے سے اسرائیل پر اپنے عوام کی طرف سے بھی خاصا دباؤ رہا ہے جسے وہ کسی خاطر میں نہیں لاتا مگر موقع کی نزاکت کے حوالے سے اُسے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے۔
صدر ٹرمپ کے بیانات سے یہ بات تو کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ماضی میں اسرائیل کےتمام تر اقدامات کے پس پردہ امریکہ ہی تھا ۔ارضِ فلسطین پر امریکی جنگ لڑنے کی ذمہ داری اسرائیل پر اُسی طرح تھی جیسے افغانستان میں امریکی جنگ لڑنے کی ذمہ داری پاکستان پر تھی۔
اب خود کو امن کا پیغامبر کہلوانے والا ٹرمپ ارضِ فلسطین میں امن قائم کرنے کا ڈرامہ رچانے کے بعد اپنی مرضی سے ایک نئی جنگ چھیڑنے کو ہے۔ واضح رہے کہ غزہ ہو یا افغانستان‘ دونوں جگہ سے امریکہ بظاہر امن کا نام لے کر ہی نکلا ہے مگر حقیقت میں سخت ہزیمت اُٹھا کر اور رسوا ہوکر نکلا ہے۔’’رسی جل گئی مگر بل نہیں گیا ‘‘ کے مصداق سخت ہزیمت اُٹھانے کے بعد بھی وہ دونوں جگہ پر نئی جنگ کے لیے بہانے تلاش کرتا رہتاہے ۔غزہ میں حالیہ جنگ بندی سے جہاں اسرائیل کو سانس لینے کا موقع ملا ہے‘ اُس سے کہیں زیادہ فلسطینیوں کوتازہ دم ہونےکا وقت ملا ہے۔فلسطینیوں کے پاس گنوانے کو پہلے بھی کچھ نہیں تھا اور اب بھی کچھ نہیں ہوگا جبکہ امریکی صدر کے بیان کے بعد آئندہ اسرائیل کے ساتھ امریکہ بھی اپنی ساکھ ضرور گنوائے گا۔ امریکی کانگریس کے رُکن آل گرین نے کہا ہے کہ اگر ٹرمپ نے غزہ میں کوئی اپنا منصوبہ شروع کیا تو اُس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر دی جائے گی۔ اس سب کے باوجود امریکی صدر کے بیانات کوغیر سنجیدہ نہیں لیا جا سکتا۔اس بیان کے فوراً بعدہی اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نےکہا کہ میں صدر ٹرمپ کے دلیرانہ منصوبے کا خیرمقدم کرتا ہوں ‘ غزہ کے رہائشیوں کو آزادی سے ہجرت کی اجازت ہونی چاہیے جیسا کہ دنیا بھر میں قوانین ہیں۔اِس کے ساتھ ہی اُس نے فلسطینیوں کو زمینی‘ سمندری اور فضائی راستوں کے ذریعے غزہ کی پٹی سے نکالنے کا منصوبہ تیار کرنے کے لیے اپنی فوج کو احکامات بھی جاری کردیے ہیں۔
صدر ٹرمپ کو اپنے اِس اعلان پر عالمی برادری کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حماس نے کہا ہےکہ غزہ پٹی کے رہائشی کسی بھی قیمت پر اپنی سرزمین سے دستبردار نہیں ہوں گے‘ اِس کاانتظام چلانے کے لیے اُنہیں کسی دوسرے ملک کی ضرورت نہیں ۔چین نے بھی امریکی صدرٹرمپ کے بیان کی مخالفت میں کہا ہے کہ فلسطین پر فلسطینیوں کی حکمرانی بنیادی اصول ہے‘ وہ غزہ کے باشندوں کی جبری منتقلی کے خلاف ہے۔ایران نے ٹرمپ کے بیان کو غزہ پر قبضے کی منصوبہ سازی قرار دیا اور کہا کہ ایران غزہ سے فلسطینیوں کی کسی بھی طرح کی بےدخلی کو مسترد کرتا ہے۔ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ کسی کے پاس بھی غزہ کے لوگوں کو اُن کی زمین سے نکالنے کا اختیار نہیں۔ غزہ کے لوگ غزہ میں رہیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے زبردستی نقل مکانی کو ’’نسلی تطہیر‘‘ کے مترادف قرار دیا‘جبکہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا کہ فلسطینیوں کو اُن کے آبائی وطن سے جبری طور پر بے دخل کرنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ایسے بیانات سے حالات مزید خراب اور پیچیدگی کی طرف جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین کے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہیں ۔ غزہ کے مسئلے کا پُرامن اور مستقل حل تلاش کیا جائے اور اس کے لیے سب کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنا ہوگا۔ مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں اُسے مزید پیچیدہ نہیں بنانا چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ ہم بین الاقوامی قانون کی بنیادوں پر عمل پیرا رہیں اور نسلی صفائی کی کسی بھی صورت سے بچیں۔ہمیں دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنا ہوں گے۔واضح رہے کہ ہمارے اور اہل ِ غزہ کے نزدیک اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ فلسطین میں صرف اور صرف مسلمانوں کی حکومت قائم کی جائے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو ۔
صدر ٹرمپ کے بیان پردنیا بھر سے موصول ہونے والے شدیدردّ ِعمل کے بعد وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیوٹ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ امریکی صدر کا غزہ میں امریکی فوج بھیجنے کا ارادہ نہیں ہے۔وہ خطے میں استحکام کے لیے غزہ کی تعمیر نو کے لیے پُرعزم ہیں اور وہاںسے فلسطینیوں کی عارضی منتقلی چاہتے ہیں ‘ جس کے لیے امریکا کی شمولیت ضروری سمجھتے ہیں۔ اِس کے بعد ٹرمپ نے ایک اور بیان میں کہا کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اس کی ملکیت کے بیان پر قائم ہیں۔وہ فلسطینیوں کا خیال رکھیں گے‘ اُن کا قتل نہیں ہونے دیں گے۔ جب وہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک‘ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور مصر کے صدر سیسی سے بات چیت کریں گے اور صدر پیوٹن سے مناسب وقت پر ملاقات ہو گی تووہ فلسطینیوں کو اپنے ہاں بسانے پر تیار ہوجائیں گے۔
بے شک ٹرمپ بہت کائیاں ہیں۔اُن کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ ایک غیر روایتی امریکی صدر ہیں۔ وہ کام بھی کرتے ہیں جو نہیں کہتے اور جو کہتے ہیں وہ تو ضرور کرتے ہیں۔دنیا اُن کی تقریروں کو محض بیانات خیال کررہی ہے جبکہ وہ ایک ماہر پہلوان کی طرح مناسب داؤکی تلاش میں ہیں۔
ماضی میں امریکی صدر جمی کارٹر اسرائیلی صدر بیگن اور مصری صدر انورسادات کو بظاہر ایک امن معاہدے کے ذریعے پابند توکرگئے تھے مگر اُس معاہدے کا بھی اصل فائدہ فریقین یا خطے کے بجائے امریکہ ہی کو ہوا۔ اِن حالات میں مسلم ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ پاکستان کے مقتدر حلقوں کوبھی چاہیے کہ ٹرمپ یاہو گٹھ جوڑ اور صہیونیوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپس میں اتفاق و اتحاد پیدا کریں۔عوام کو اپنے قریب کرنے کے لیے اُن کی بات بھی سنیں۔ ’’پیکا‘‘ جیسے قوانین کا سہارا لے کرعارضی اقتدارتو حاصل کیا جا سکتا ہے مگر دنیا اور آخرت دونوں میں سرخرو ہو نے‘ باطل قوتوں کے ناپاک عزائم کو ناکام بنانے اور مسجد اقصیٰ کی حرمت کے لیے حقیقی اور عملی اقدامات درکار ہیں۔لہٰذا خلوصِ دل سے مسجد اقصیٰ کی حرمت کی بحالی کے لیے جدّوجُہد کریں۔
مسلمانانِ عالم اِس وقت رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے میں مصروف ہو چکے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دن کے روزے اور رات کے قیام سے خوب فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ اُمّت ِمسلمہ کو ہر نوع کی خیر و برکت عطا فرمائے۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے کہ مسلم اُمّہ کی اصل ضرورت کیا ہے۔مسلمان جہاں جہاں بھی مشکل میں ہیں ‘وہ اُن کی غیب سے مدد فرمائے اور خصوصاً مسلمانانِ فلسطین کی خصوصی نصرت فرمائے۔ مسجد ِاقصیٰ کی حرمت کے لیے مسلمان ممالک کو متحد ہوکر عملی اقدامات کی توفیق عطا فرمائے اور باطل قوتوں کو نیست و نابود فرمائے۔ آمین!