(درسِ قرآن ) درس آیت بسم اللہ - ڈاکٹر اسرار احمد

17 /

درس آیت بسم اللہ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
مدرّس:ڈاکٹر اسرار احمدؒداعیٔ قرآن ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے شہرئہ آفاق دورئہ ترجمہ قرآن پر مبنی ’’بیان القرآن‘‘ کی سلسلہ وار اشاعت ’’میثاق‘‘ کے گزشتہ شمارے میں پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی تھی۔ فالحمد للّٰہ علٰی ذٰلک!زیر ِنظر شمارے سے محترم ڈاکٹر صاحب ؒ کے مفصل دروسِ قرآن کی اشاعت کا آغاز کیا جا رہا ہے جو ۱۹۹۱ء میں قرآن آڈیٹوریم لاہور میں ہوئے۔ اس سلسلے کا پہلا درس (آیت بسم اللہ) ہدیۂ قارئین ہے۔

نَحُمَدُہُ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیم ---- اَمَّابَعْدُ:
اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

ہم اللہ تعالیٰ کی تائید ‘توفیق اوربھروسے پر اعتماد کرتے ہوئے قرآن حکیم کے ابتدا سے سلسلہ وار دروس شروع کررہے ہیں۔ یہ قرآن حکیم ہے لیکن ٹیکنیکل اصطلاح میں  جوکتاب میرے سامنے ہے‘ اِسے ’’مصحف عثمانؓ‘‘ کہاجاتاہے۔ ہمارے ہاں جمعہ کے خطبوں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام کے ساتھ’’جامعُ آیاتِ القُرآن‘‘ کے الفاظ کہہ دیے جاتے ہیں‘ جس کی وجہ سے عام طور پر لوگوں کے ذہنوں میں کچھ مغالطے موجود ہیں۔اس بنا پر میں سمجھتاہوں کہ غیر شعوری طور پر قرآن حکیم سے سوء ِظن اوربے اعتمادی کی ایک فضا بھی موجود ہے۔ چنانچہ عام طور پر اس کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ قرآن مجید کو پہلی مرتبہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمع کیاتھا۔ یہ بات بہت بڑا مغالطہ اوربہت بڑی گمراہی کی بنیاد ہے‘ اس لیے کہ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ رسول اللہ ﷺ کے انتقال کے لگ بھگ پندرہ برس بعد قرآن مجید جمع ہوا۔چاہے ہم اپنے جامد اعتقا د کی وجہ سے کچھ نہ کہتے ہوں لیکن تحت الشعور میں ایک شبہ ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا پندرہ سال یا بارہ سال اس صورت میں گزرےکہ قرآن مرتّب شکل میں موجود نہ تھا! یہ اصل میں ان الفاظ ہی کاپیدا کردہ مغالطہ ہے۔
جمع و تدوین ِقرآن کے مراحل
اس حوالے سے یہ حقیقت جان لیجیے کہ قرآن مجید کی ترتیب خود محمدرسول اللہ ﷺ  نے مکمل فرما کر اسے اُمّت کے حوالے کیاتھا۔یہ وہ بات ہے جس کا وعدہ بالکل ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ سے فرمایا تھا۔ جب قرآن مجید کی تنزیل شروع ہوئی تو حضورﷺ خصوصی مشقت کے ساتھ اس کویاد کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت اپنے نبی ﷺ کے لیے جوش میں آئی اورحضورﷺ کو مخاطب کر کے فرمایاگیا:
{لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ (۱۶) اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ(۱۷)} (القیامۃ)
’’(اے نبیﷺ !) آپ اپنی زبان کوتیزی سے حرکت نہ دیں اس قرآن کے ساتھ کہ جلدی سے اس کو یاد کرلیں۔ یقیناً اس کوجمع کرنا اور پھراس کوپڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
گویاوہ اندیشہ نبی اکرمﷺ کے ذہن سے اتار لیاگیاکہ کہیں ایسا نہ ہوکہ مَیں اس قرآن کی کوئی آیت بھول جائوں۔ اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر لے لی‘ جیسے کہ قرآن مجید کی ہمیشہ ہمیش کے لیے حفاظت کاذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا۔ ازروئے الفاظِ قرآنی: {اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹)} (الحجر)’’یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور بلاشبہ ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘
اسی طرح ابتدا ہی میں اس کو جمع کرکے پڑھوا دینے کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ نے خود لے لی۔ چنانچہ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ ہررمضان المبارک میں نبی اکرمﷺ اورحضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن مجید کا مذاکرہ (باہمی دہرائی) فرمایا کرتے تھے اور آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کے آخری ماہ رمضان المبارک میں دومرتبہ دہرائی کی گئی۔(ملاحظہ ہو: صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب کان جبریل یعرض القرآن علی النبی ﷺ) پھر یہ کہ ہمیں دورِ نبویؐ ہی میں ’’حزب‘‘ جیسی اصطلاحات ملتی ہیں۔ اگر فی الواقع قرآن مرتّب نہ ہوا ہوتا تو یہ احزاب کیسے بن سکتے تھے؟ چنانچہ یہ جوخیال ذہنوں میں پیدا ہوگیاہے اس کی اصل حقیقت کوجان لیجیے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ عہدِنبویؐ میں قرآن مرتّب ہوچکا تھا‘ لیکن ایک مجلد کتاب کی صورت میں (ما بین الدُّفَّتَین یعنی جلد کے دو گتوں کے درمیان) موجود نہیں تھا۔ آیتیں سورتوں کی شکل میں مرتّب ہوچکی تھیں۔ سورتوں کی باہمی ترتیب معیّن ہوچکی تھی۔ اسی ترتیب کے ساتھ قرآن مجید کونمازوں میں پڑھاجاتا تھا۔ رمضان المبارک میں خود رسول اللہﷺ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ اسی ترتیب سے اس کا مذاکرہ فرماتے تھے‘ البتہ قرآن مجید کسی یکجا مجلد کتاب کی صورت میں دورِنبویؐ میںموجود نہیں تھا ۔ جمع قرآن کا یہ مرحلہ بھی حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدخلافت تک ملتوی نہیں ہوا‘ بلکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں یہ کام ہوگیاتھا‘ اس لیے کہ جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم شہید ہوگئےتوایک بڑی تشویش پیدا ہوئی۔
یہ جان لیجیے کہ اصل میں یہ قرآن ’’لوحِ محفوظ‘‘ میں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {بَلْ ہُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ(۲۱) فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ(۲۲)}(البروج) ’’بلکہ یہ قرآن بلند پایہ ہے‘ اس لوح میں نقش ہے جو محفوظ ہے۔‘‘لوحِ محفوظ کو دوسری جگہ پر ’’کتابِ مکنون‘‘ کہاگیا ہے: {اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ (۷۷) فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ (۷۸) لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (۷۹)} (الواقعۃ)’’یہ ایک بلند پایہ قرآن ہے‘ ایک محفوظ کتاب میں ثبت ہے‘ جسے مطہرین کے سوا کوئی چھو نہیں سکتا۔‘‘بہرحال ا س کی پہلی جمع و تدوین لوگوں کے سینوں میں ہوئی۔ ارشاد ہوتا ہے: { بَلْ ہُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ ط } (العنکبوت:۴۹)’’بلکہ یہ تو روشن آیات ہیں‘ ان لوگوں کے سینوں میں جن کو علم دیا گیا ہے۔‘‘اس کے بعدکتابی شکل میں اس کی تدوین ہوئی اوراس کو مجلدکتاب کی صورت میں مرتّب کرنے کا کام حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہدِ خلافت میں ہوا۔ اس ضمن میں یہ تفصیل بھی ملتی ہے کہ جب بہت سے صحابہؓ نےحضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی ضرورت کااحساس دلایا تو انہیں تأمل تھا کہ جب یہ کام رسول اللہ ﷺنے اپنی حیاتِ طیبہ میں نہیں کیا تو میں کیسے کروں! چونکہ مقامِ صدیقیت مقامِ نبوت سے بہت نزدیک اوربہت ملحق ہوتاہے ‘ تو اتباعِ کامل کی شکل ہمیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت میں نظر آتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ کواس پر اطمینان نہ تھا۔ لیکن پھرجب وہ واقعات اورشواہد سامنے آئے اور صحابہؓ کااس پرتقریباً اجماع ہواتوآپؓ کے حکم پر تمام کاتبین ِوحی کوجمع کیا گیا ‘ خاص طورپرحضرت زیدبن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس خدمت پر مامور کیا گیا اور انہوں نے قرآن مجید کے مختلف اجزاء جمع کیے۔ صورتِ حال یہ تھی کہ کسی کے پاس کوئی سورت اونٹ کے شانے کی ہڈی پرلکھی ہوئی تھی‘ کسی کے پاس کاغذوں پر اور کسی کے پاس کپڑوں پرلکھی ہوئی کچھ سورتیں تھیں۔ البتہ سینوں میں مکمل قرآن اسی ترتیب کےساتھ موجود تھا۔ بہرحال مکتوب حالت میں یہ جو اجزا ء تھے ان کو جمع کیا گیا اور ’’ما بین الدُّفَّتَین‘‘ قرآن مجید کی جمع وتدوین کایہ کام عہدخلافت ِصدیقی ؓکے اندر مکمل ہوگیا۔
حضرت عثمانؓ :جامعُ الاُمَّۃِ علی القرآن
اس کے بعد دوسرا مرحلہ لہجوں کے فرق کا درپیش تھا۔ ہر ملک میں‘خواہ زبان ایک ہی ہو‘پھر بھی لہجے بہت سے ہوتے ہیں ۔ خود پنجابی زبان کا لہجہ ہر پچاس میل پربدل جاتاہے۔ اسی طرح لوگ لہجوں کے فرق کے ساتھ قرآن کو پڑھتے تھے اورلہجوں کے اسی فرق کی وجہ سے قرآن کے لکھنے میں بھی فرق پیدا ہورہاتھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں یہ اندیشہ محسوس ہوا کہ لہجوں کے اختلاف کی وجہ سے یہ جو لکھنے کے اندر کچھ فرق پیدا ہورہاہے‘ یہ بھی بعد میں کسی بہت بڑے فتنے کاموجب ہوسکتا ہے ۔لہٰذا پوری اُمّت کو ایک ’’مصحف‘‘ پرجمع کرناآپؓ کاکارنامہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ’’جامِعُ آیاتِ القرآن‘‘ کے الفاظ ہی غلط ہیں۔ وہ تو ’’جامِعُ الاُمَّۃِ علی القرآن‘‘ یعنی اُمّت کو قرآن پر جمع کرنے والے ہیں۔
آپؓ نے قرآن مجید کا وہ نسخہ منگوایا جو اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھا اور اس کو ’’مصحف ِعثمان‘‘ کی شکل دے دی گئی۔ اسی مصحف کی بڑے پیمانے پرنقلیں کرائی گئیں اور تمام بڑے بڑے شہروں کو بھیجا گیا۔ یہی مصحف ِعثمان ہے جو اَب پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ باقی جوذرا ذرا فرق نظر آتا ہے وہ رسم ِکتابت کا ہے جس سے تلاوت میں کوئی فرق نہیں آتا ۔اس کے بعد جو نسخے بچے تھے انہیں جمع کر کے آگ کے سپرد کر دیا گیا۔ اس طریقے سے یہ مصحف ِعثمان پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اسی کی ہم سب تلاوت کرتے ہیں اوریہی پوری اُمّت کے پاس قرآن مجید کامتفق علیہ نسخہ ہے۔
سورتوں کے آغاز میں آیت بسم اللہ کی حیثیت
اس تمہید کے بعدآج ہمیں صرف آیت ’’بسم اللہ‘‘ پرغور کرناہے۔ یہ آیہ مبارکہ قرآن مجید کی سورتوں میں سے صرف ایک سورت سورۃ النمل میں آئی ہے اوروہ اس خط کے آغاز میں ہے جوحضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سبا کولکھاتھا۔وہاں ارشاد ہوتاہے :
{اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(۳۰) } (النمل)
’’یہ خط سلیمان کی طرف سے ہے اوراس کاآغاز ہے اللہ کے نام سے جورحمٰن اوررحیم ہے۔ ‘‘
اس طرح بسم اللہ کے الفاظ ایک سورت کے درمیان میں بطور آیت وارد ہو گئے ہیں ۔  ویسے قرآن حکیم کی ۱۱۴ سورتوں میں سے ۱۱۳ سورتوں کے آغاز میں یہ آیت لکھی جاتی ہے‘ صرف ایک سورت سورۃ التوبہ (دوسرا نام البراءۃ) کے شروع میں آیت بسم اللہ درج نہیں ہوتی۔ اس میں اب قراء اور فقہاء کا اختلاف ہے کہ:۱۱۳ سورتوں کے آغاز میں جو آیت بسم اللہ لکھی ہوئی ہے‘ آیایہ تمام سورتوں کاجزو قرار پائے گی؟ یااس کو ہر سورت کاجزو تو نہیں مانا جائے گا‘ البتہ قرآن مجید کی آیات کی گنتی کرتے ہوئے ان ۱۱۳ آیات کو بھی شمار کیاجائے گا؟ یا یہ کہ نہ یہ ان سورتوں کا جزو ہے نہ یہ شمار میں آئیں گی‘ بلکہ یہ صرف سورتوں کے فصل کے طورپربطور علامت درج ہیں‘کہ معلوم ہوجائے کہ یہاں ایک سورت ختم ہوگئی ہے اور دوسری سورت شروع ہوگئی ہے۔ چنانچہ مختلف آراء موجود ہیں ۔
اس ضمن میں امام شافعی ؒ اوران کے شاگردوں کی رائے یہ ہے کہ ہرسورت کے شروع میں جوبسم اللہ لکھی ہوئی ہے وہ اس سورت کاجزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں نماز میں جب سورۃ الفاتحہ کی جہری قراء ت کی جاتی ہے تو اس کا آغاز بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے ہوتا ہے‘ اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ آیت سورۃ الفاتحہ کاجزو ہے اوربقیہ تمام سورتوں کابھی جزو ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒاورا ن کے شاگردوں کی رائے یہ ہے کہ سورتوں کے شروع میں درج بسم اللہ کسی بھی سورت کا جزو نہیں ہے‘ اور یہ بطور علامت ِفصل درج کی جاتی ہے کہ معلوم ہوجائے کہ یہاں ایک سورت ختم ہوگئی اور دوسری سورت شروع ہوگئی۔
بسم اللہ کے شروع میں ایک لفظ کو محذوف مانا جاتا ہے: اَشْرَعُ ’’میں شروع کرتاہوں‘‘: {بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} ’’ اللہ کے نام سے جورحمان ہے اوررحیم ہے۔‘‘’’باء‘‘ حرفِ جار ہے اوراس کے بعد جولفظ آیا ہے اسے اگر علیحدہ لکھاجائے تو ’’اسم‘‘ لکھیں گے‘ لیکن جب ’’بِ‘‘ اس کے ساتھ آکرجڑی ہے تو ہمزۂ وصل گر گیا۔ اس طرح بِاسْم کے بجائے بِسْم بن گیا۔ اس لفظ ’’اسم‘‘ کو بھی سمجھ لیجیے‘ ویسے یہ معروف ہے‘ جاناپہچانالفظ ہے۔ اسم کے معنی نام کے ہوتے ہیں‘ لیکن یہ کہ اس کی جڑ کیا ہے؟ یہ کہاں سے نکلاہے؟ اس کا مادہ ہے: سین‘ میم اور وائو۔ اسی سے لفظ ’’سماء ‘‘بنا ہے۔ ’’سمو‘‘ کہتے ہیں بلندی کواور’’سماء‘‘کا معنی بھی بلندی ہے۔ بلندی چونکہ نمایاں ہوتی ہے لہٰذا کسی بھی شے کا وہ وصف جوبہت نمایاں ہواور جس سے اس کی پہچان ہوجائے وہ اس کا’’اسم‘‘ قرار پاتاہے۔ کوئی بھی چیز جس وصف سے پہچان میں آجائے ‘جس سے اس کاتعارف ہوجائے وہ اس کااسم کہلاتا ہے۔
لفظ ’’اللہ‘‘: مشتق یا جامد؟
یہاں اللہ تعالیٰ کے تین اَسماء آرہے ہیں ۔ سب سے پہلے لفظ ’’اللہ‘‘ ہے۔ یہ قر آن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے سب سے زیادہ کثیر الاستعمال نام ہے۔(’’المعجم المفھرس لالفاظ القرآن الکریم‘‘کے شمار کے مطابق قرآن مجید میں لفظ ’’اللہ‘‘ ۹۸۰ دفعہ آیا ہے۔) اس کے بارے میں ہمارے ہاں ایک بڑا بنیادی اختلاف ہے۔ بعض محققین اور صوفیاء کی اکثریت کارجحان یہ ہے کہ لفظ’’ اللہ‘‘ اسم جامد ہے‘ یہ کسی اورلفظ سے نہیں نکلا۔ گویا کہ یہ مشتق نہیں ہے‘ بلکہ یہ اسم علم ہے۔ اسم علم وہ ہوتا ہے جوکسی چیز کی علامت کے طورپر نام رکھ دیاجائے۔ جیسے لفظ ’’لاہور‘‘ کہاں سے نکلا‘ اس پرکوئی بحث نہیں ہوگی۔ لاہورتوبس ایک شہر کانام ہے‘اسم علم ہے۔ چنانچہ جن لوگوں کی یہ رائے ہے وہ لفظ ’’اللہ‘‘ کو ذاتِ باری تعالیٰ کا اسم ذات قرار دیتے ہیں اورباقی تمام ناموں کوصفاتی نام قرار دیتے ہیں ۔ یہ بات ان کے طرزعمل سے بھی مطابقت رکھتی ہے‘ اس لیےکہ پھراسم ذات ہی کاذکران کے ہاں اشغال اورسلوک میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :{ وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ}(المزمل:۸‘الانسان:۲۵) ’’اوراپنے رب کے نام کو یاد کرو۔‘‘ ان کی رائے میں کوئی نام ایساممتاز ہوناچاہیے جسے اللہ کی ہستی کا اسمِ ذات قرار دیا جا سکے (اور اس نام کی مالا جپی جائے)۔غالباًاسی ذوق اوراسی رجحان کی وجہ سے اُن کی رائے یہ بنی کہ لفظ ِاللہ اسم جامد ہے‘ مشتق نہیں ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا اسمِ علم ہے۔ اسمِ ذات ہےاُس ہستی کاجواِس کائنات کی خالق ‘مالک اورربّ ہے۔
البتہ ایک دوسری رائےپراہل ِنحو کاتقریباً اجماع ہے کہ وہ اس نام کو بھی ایک صفاتی نام قرار دیتے ہیںاوراسے بھی مشتق مانتے ہیں ‘جیسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دیگر تمام صفاتی نام کسی اسم نکرہ ‘اسم صفت پرالف لام داخل کرکے بنے ہیں۔ ’’رحمان‘‘ مبالغے کاصیغہ ہے (جیسے فَعلان‘ غَضبان‘ سَکران‘ جَوعان‘ عَطشان)جب الف لام لگ گیاتو الرَّحمٰن ہوا۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام بن گیا۔ ’’رَحِیْم‘‘ صفت مشبہ کا صیغہ ہے‘ مراد ہے وہ ہستی جس میں صفت ِرحمت مستقل پائی جائے۔ اس پر الف لام داخل ہوا تو ’’الرَّحِیْم‘‘ بن گیا۔ اس طرح یہ اللہ کا صفاتی نام ہو گیا۔ ’’حَیّ‘‘ زندہ‘ صاحبِ حیات ۔ اس پرالف لام داخل ہوا تو ’’اَلْحَیّ‘‘ ہوگیا۔ اس طرح یہ اللہ کا صفاتی نام ہو گیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی نام ہیں وہ سب صفاتی ہیں یعنی اسم نکرہ پر الف لام داخل کر کے ’’معرف باللام‘‘ کر کے انہیں اللہ کا صفاتی نام بنایا گیا۔ اہل نحو کی رائے یہ ہے کہ بالکل اسی طرح لفظ ’’اِلٰہ‘‘ پرالف لام داخل ہواتو ’’الالٰہ‘‘بن گیااوربیچ میں سے الف حذف ہو گیا تو ’’اللّٰہ‘‘ بن گیا۔ اس طرح یہ بھی درحقیقت مشتق نام ہے اور ’’الف لام‘‘ کے داخل ہونے سے اسم معرفہ بنا ہے۔ البتہ یہ بات اہل نحو بھی مانتے ہیں کہ اب لفظ ’’اللہ‘‘ بطور اسمِ علم استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے کہ عربی زبان میں قاعدہ یہ ہے کہ اسم نکرہ پراگر ’’یائے ندا‘‘ داخل کی جائے تو رحیم سے یا رحیم‘ علیم سے یا علیم بولا جائے گا‘لیکن الف لام والے جو اَسماء ہیں اُن پر ’’یَا‘‘براہِ راست نہیں لگ سکتا‘ بلکہ ’’یاایُّھَا‘‘ کہناپڑتاہے۔ جیسے انسان سے ’’یاانسان‘‘ اورجب الف لام لگانے کے بعد ’’الانسان‘‘ ہوگا تو ’’یاایھا الانسان‘‘کہیں گے۔قرآن حکیم میں فرمایا گیا : { یٰٓــاَیُّہَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ(۶)}(الانفطار) لیکن ’’اللہ ‘‘ کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں براہِ راست ’’یائے ندا‘‘ لگتی ہے: یااللّٰہ۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ لفظ اللہ یہاں بطور اسم علم استعمال ہو رہا ہے۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ اس طرح ان دونوں آراء کوجمع کیاجاسکتا ہے۔ محسوس ہوتاہے کہ اس لفظ کی اصل تویہی ہے کہ لفظ ِ الٰہ پر’’الف لام‘‘ داخل کرکےاللہ بنا ہے لیکن اب یہ ہر اعتبار سے باری تعالیٰ کے اسم ذات کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور بطور علم ہی استعمال ہو رہا ہے۔ اس طور سے گویا وہ دونوں آراء جمع ہو گئیں۔ اب اگر پہلی رائے کو سامنے رکھیں تو پھر معنی اس کے سوا کچھ ہوں گے ہی نہیں‘ یعنی صرف وہ ذاتِ باری تعالیٰ۔ لاہور کے کیا معنی ہیں؟ اس سے مراد ایک شہرہے جس کانام لاہور ہے۔ لیکن اگر دوسری رائے ہے توپھرتعین کرناپڑے گاکہ اس کامادہ کیاہے‘ یہ کہاں سے نکلا ہے اور اسی سے پھر متعین ہو گا کہ اس کے معانی کیا ہیں!
لفظ ’’اللہ‘‘ کامادہ اور حروفِ اصلی
اب یہ عجیب بات ہے کہ اس کے مادّئہ اشتقاق کے بارے میں بھی متعدد آراء پائی جاتی ہیں ۔میرے نزدیک یہ بھی ایک بڑا معجزہ ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ ایک ذہنی ونفسیاتی رابطہ اوررشتہ قائم کرنے میں جتنی نسبتیں ہوسکتی ہیں وہ تمام نسبتیں اس مادہ کے اصل لغوی مفہوم کے اندر پائی جاتی ہیں ۔ چنانچہ تین آراء موجود ہیں: (۱) ’’اِلٰہ‘‘ سے مشتق ہے‘ اس کے حروف اصلیہ: ’’ا،ل،ہ‘‘ ہیں ۔(۲) ’’ولہ‘‘ سے بنا ہے اور اس کے حروفِ اصلیہ ’’و،ل،ہ‘‘ ہیں ۔(۳) ’’لاہ‘‘ سے بنا ہے اور ’’ ل،ی،ہ‘‘ اس کے حروفِ اصلیہ ہیں ۔ عربی زبان میں تعلیلات کامعاملہ بڑا مشکل ہوا کرتاہےاور حروفِ علت (الف‘ واو‘یا) میں آپس میں بڑا ردّوبدل ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذایہ تینوں آراء موجود ہیں‘ جن کا امام راغب اصفہانیؒ نے ذکر کیا ہے۔(مفردات القرآن للراغب: ج۱‘ ص ۵۹۔)
اب ان تینوں مادوں کے بنیادی مفہوم ملاحظہ کریں۔ ا،ل،ہ کامادہ دومعنی دیتاہے۔ کہا جاتا ہے’’ اَلَہَ الْفَصِیلُ اِلٰی اُمِّہِ‘‘۔ اگر کسی اونٹنی کادودھ پیتا بچہ ماں سے جدا کرلیاگیا ہو‘ آپ نے اسے کہیں دور باندھا ہوا ہو اور اُس کی رسّی کھل جائے یا وہ رسّی تڑا لے تو جس طرح وہ اپنی ماں کی طرف لپکتا ہے اور خاص طور پر ماں کے بھی تھنوں کی طرف جاتا ہے‘ جانور کے بچے کی یہ کیفیت ’’ا،ل،ہ‘‘ کے مادہ کے اندربنیادی مفہوم کے طور پر شامل ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ ’’اَلَہَ ای تحیَّر‘‘ یعنی حیران ہو جانا‘ حیرت زدہ ہو جانا۔ انسان کسی شے کی کنہ تک نہ پہنچ پائے اور متحیر ہو کر رہ جائے ‘حیران اور ششدر ہوکررہ جائے۔ یہ بھی اس کے بنیادی مفہوم میں شامل ہے۔
’’ولہ‘‘کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے آپ بڑی آسانی سے لفظ یاد رکھ سکتے ہیں :والہانہ عشق‘ جوہم اردو میں بولتے ہیں ۔ ’’وَلَہ‘‘ کابنیادی مفہوم کسی کی ذات سے انتہائی محبت کی کیفیت ہے۔ والہانہ عشق ایک معروف اورجانی پہچانی کیفیت ہے‘ جس کوہم ان الفاظ کے حوالے سے جانتے ہیں۔’’لاہ‘‘کابنیادی مفہوم ہے: ’’لاہ ای احتجب‘‘یعنی کسی چیز کامخفی ہوجانا‘چھپ جانا‘اوٹ میں ہوجانا‘پردے میں ہوجانا۔
اللہ سے تعلق کی مختلف سطحیں
اب ان چاروں کیفیات کوجمع کریں گے توا س میں تین نسبتیں نکلتی ہیں:(۱) کسی ہستی کی طرف اپنی احتیاجات کے لیے رجوع کرنا۔ بے ساختہ‘ بے اختیار کسی کی طرف لپکنا‘جیسےماں سے بچھڑا ہوا بچہ ماں کی طرف لپکتا ہے۔ (۲)کسی ہستی کی انتہائی محبت دل میں پیدا ہوجانا‘اور(۳) کسی ہستی کے بارے میں متحیر ہوکررہ جانا۔ یہ تینوں بنیادی کیفیات سامنے رکھیے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہی تینوں نسبتیں ذہنی اورنفسیاتی طور پر ممکن ہیں۔ وہ ہستی کہ جسے ہم خالق ِکائنات‘ مالک ِکائنات اور ربّ السماوات والارض کے حوالوں سے جانتے ہیں ‘اس کے بارے میں اگر تجزیہ کیاجائے تو اپنی ذہنی سطح کے اعتبار سے تین قسم کے انسان آپ کو ملیں گے اور وہ اپنے شعور کی سطح کی نسبت سے اس ہستی کے ساتھ ایک ذہنی یانفسیاتی رشتہ یاکیفیت کے حامل ہوںگے۔ ایک بالکل عوامی سطح ہے۔اس سطح پرانسان اپنی ذاتی احتیاجات‘ اپنی تکالیف‘ اپنی مصیبتوں اور اپنی مشکلات ہی میں ڈوبا ہوا رہتا ہے۔ وہ اسی میں مصروف ہے۔ روزی کمانے کے لیے جدّوجُہد کرنا ہے‘ کہیں حوادثِ زمانہ ہیں‘ کہیں مصائب ہیں‘ کہیں تکالیف ہیں‘ کوئی بیماری آ گئی ہے‘ کوئی مشکلات آن پڑی ہیں‘ کوئی کسی مقدّمہ میں پھنس گیا ہے۔ عام انسان اس سطح سے بلند نہیں ہوپاتا۔ اس سطح پراللہ کا یہی تصوّر اس کے سامنے رہے گا۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر اس کی یہ نسبت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذہنی اور نفسیاتی طور پر قائم ہوجائے تویہ اس کے لیے کفایت کرجائے گی کہ اللہ ہی رازق ہے‘ وہی روزی رساں ہے‘ وہی حاجات کاپورا کرنے والا ہے‘ وہی تکالیف کودور کرنے والا ہے‘ وہی پریشانیوں سے نجات دلانے والا ہے: {وَالَّذِیْ ہُوَ یُطْعِمُنِیْ وَیَسْقِیْنِ(۷۹) وَاِذَا مَرِضْتُ فَہُوَ یَشْفِیْنِ(۸۰) } (الشعراء) ’’اور وہی ہے جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اورجب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفابخشتا ہے۔‘‘
اسی نسبت کوذرا ایک دوسرے اعتبار سے کہیے کہ اُس کے سوا کوئی روزی رساں نہیں ہے‘اُس کے سوا کوئی حاجت روا نہیں ہے‘ اُس کے سوا کوئی مشکل کشا ‘ کوئی تکلیف دور کرنے والا نہیں ہے ‘اُس کے سوا کوئی شفادینے والا نہیں ہے ۔ آپ دیکھیں گے ‘اپنے ہاں کی بڑی بوڑھی خواتین جب بچوں کو دوا پلا رہی ہوں تو ساتھ ہی ساتھ کہہ رہی ہوتی ہیں کہ اللہ شافی‘ اللہ کافی۔ یعنی شفادوا میں نہیں ہے‘ شفا اللہ دے گا۔ ایک ذریعہ کے طورپرہم اس دوا کو اختیار کررہے ہیں‘ لیکن شفا اس دوامیں نہیں ہے۔ لَا شَافِیَ اِلَّا ھُوَ، وَلَا رَازِقَ اِلَّا ھُو۔ اگر کسی کو یہ درجہ حاصل ہوگیا ہے تو یہ اسے کفایت کرتاہے‘ اس کی توحید مکمل ہوگئی۔ یہ توہے وہ کیفیت جیسے کہ ایک بچہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے ماں کی طرف لپکتا ہے۔ اس کے اندر اپنی احتیاجات کا بس اتنا ہی شعور ہے۔
اس سے ذرابلند ترسطحیں دو ہیں۔ ایک بلندترسطح فلاسفہ ‘اہل منطق اور علماء کی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اس پہلے والی سطح سے بلند تر ہیں۔ وہ غور کرتے ہیں کہ یہ کائنات کیاہے!ان کے ہاں ممکن الوجود اور واجب الوجود کی تقسیم ہے۔ واجب الوجود کی صفات پر بحث ہے۔پھریہ کہ ان دونوں یعنی خالق اورمخلوق کے مابین کیا تعلق ہے؟ یہ سارے مسائل ایسے ہیں جن کی آخری حد تک پہنچتے پہنچتے انسان متحیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ جو بیچارے حقیقت کو پانے سے محروم رہ جاتے ہیں وہ لاادریت (Agnosticism) اور ارتیابیت (Scepticism)کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں‘ یعنی بے یقینی اور شک و شبہ کی کیفیت کہ کچھ پتا نہیں ۔ ع ’’کہ کس نکشود و نکشاید بہ حکمت ایں معما را!‘‘ یہ معاملہ سمجھ میں نہیں آسکتا‘ اس کی تہ کو کوئی نہیں جان سکتا‘ اصل حقیقت کو کوئی نہیں پاسکتا ۔ یہ’’لاادریت‘‘ ہے اور اس سے بھی ایک کم تر سطح ’’ارتیابیت‘‘ کی ہے‘ پتا نہیں کچھ ہے بھی یا نہیں ! کہیں یہ سارا سراب ہی نہ ہو۔ ع ’’رہا یہ وہم کہ ہم ہیں تویہ بھی کیا معلوم!‘‘البتہ جو اس سطح سے اوپر بھی پہنچیں گے وہ بھی اس حد تک ہی پہنچ پائیں گے کہ بس ایک ذات موجود ہے ۔ ؎
دور بینانِ بارگاہِ الست
غیر ازیں پے نبردہ اند کہ ہست!
ان کے غور و فکر کے مطابق ہے تو سہی ایک ذات‘ لیکن وہ ذات کیسی ہے؟ یہ معلوم نہیں! یہ جان لیجیے کہ فلسفہ کی سطح پرصفات اور ذات کاجوباہمی ربط ہے وہی لاینحل ہے۔ ع ’’ہیں صفاتِ ذاتِ حق ‘ حق سے جدا یا عینِ ذات!‘‘ یہ مسئلہ حل ہی نہیں ہوا۔ چنانچہ فلاسفہ کے ہاں اس بات پر آ کر پھر اکتفا کرنا پڑا کہ ’’لاعین ولا غیر‘‘ یعنی صفات نہ عین ذات ہیں اور نہ غیر ذات ہیں۔ تو پھر کیا ہیں؟یہ ہے تحیریعنی حیران و ششدر رہ جانا۔ یہ دوسری سطح ہے۔
میں عرض کیاکرتا ہوں کہ وہ فلسفی بڑا محروم رہے گاکہ جوصوفی نہ بن جائے۔ خالص فلسفہ اول تو’’ارتیابیت‘‘ پر روک دے گا ‘ وہاں سے آگے بڑھے گا تو ’’لاادریت‘‘پر پہنچ جائے گا ‘ مزید اوپر جائے گا تو تحیر کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے کہ وہ ذات مخفی ہے (احتجب)۔ اگرچہ اس کے احتجاب کی شان امام فخرالدین الرازیؒ کے الفاظ میں یہ ہے : فسبحان من احتجب عن الظھور بشدّۃ ظھورہ۔ یعنی پاک ہے وہ ذات جو چھپ گئی ہے‘ اپنے ظہور کی شدّت کے پردے میں۔ شدّتِ ظہور اس قدرہے کہ وہ ایک پردہ بن گیاہےاوروہ ذات اس پردے کے اندر چھپ گئی ہے۔ جیسے کہ بہت تیز روشنی ہوتوآپ کی آنکھیں چندھیا جائیں گی اورآپ کواندھیرا محسوس ہوگا‘ آپ کچھ دیکھ نہیں سکیں گے۔ پس وہ مُحْتَجِب (پردے میں) تو ہے لیکن اپنے شدتِ ظہور کی وجہ سے چھپ گیا ہے۔ بفحوائے الفاظِ قرآنی : {ہُوَالْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ج} (الحدید:۳)الظاہر بھی وہی ہے اور الباطن بھی وہی ہے۔ بہرحال یہ ہے وہ دوسری سطح۔
تیسری سطح بلند ترین ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کے دل میں اپنے ربّ کی ایک والہانہ محبت پیدا ہو۔اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کا ایسا رشتہ پیدا ہو جائے جسے قرآن بایں الفاظ بیان کر رہا ہے:{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ط}(البقرۃ:۱۶۵)’’اور جو لوگ واقعتاً صاحب ایمان ہوئے ہیں ان کی شدید ترین محبت اللہ کے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘ چنانچہ ’’الٰہ‘‘وہ ہستی ہے کہ جو سب سے بڑھ کر محبوب ہو‘ جس کی محبت سب سے بڑھ کرقلب پرقبضہ کرلے‘ مستولی ہوجائے‘ چھاجائے۔ اب یہ تین سطحیں ہیں اورتین ہی نسبتیں ہوسکتی ہیں ۔ لفظ ’’الٰہ‘‘ پرالف لام داخل کر کے ’’اللّٰہ‘‘ مانا جائے تو اس کے اندر یہ تینوں مفہوم شامل ہو جاتے ہیں۔
رحمٰن اور رحیم : مفہوم اور فرق
بقیہ دواسماء ’’الرَّحْمٰن الرَّحِیم‘‘ کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ صفاتی نام ہیں۔ دونوں کا مادہ ’’رحمت‘‘ہے‘ لیکن رحمت کی یہ دومختلف شانیں ہیں جودو مختلف الفاظ میں بیان ہو رہی ہیں۔ اس میں کچھ لوگوں کودِقتیں بھی ہوئی ہیں جبکہ کچھ ذہین لوگوں نے انہیں اپنی ذہانت اورفطانت کی جولان گاہ بھی بنایا ہے‘ اور بڑے بڑے نکتے ان میں سے نکالے ہیں۔ بنیادی طورپریہ جان لیجیے کہ عربی زبان میں فَعلان کاوزن مبالغے کے صیغے کے طور پر آتاہے اوراس میں کسی کیفیت کی شدّت‘جوش وخروش اورایک ہیجانی و طوفانی کیفیت کانقشہ سامنے آتاہے(لفظ ہیجان بھی فعلان کے وزن پرہے)۔ مثلاً یہ کہ اگر کوئی عرب کہے : انا عَطشان! تواس کے معنی ہوں گے کہ ’’میں شدّت ِپیاس سے مرا جا رہا ہوں۔‘‘ غَضبان (بہت شدید حالت غصہ میں)کا لفظ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اس کیفیت کوظاہر کرنے کے لیے آیاہے جو آپؑ پر طاری ہوئی تھی کہ جب آپـؑ نے کوہِ طورسے واپس آکریہ دیکھاکہ قوم بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہوگئی ہے ۔ وہاں یہ الفاظ آئے ہیں: {غَضْبَانَ اَسِفًا} (الاعراف:۱۵۰) یعنی انتہائی غضب ناک۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ویسے ہی بڑی جلالی طبیعت کے آدمی تھے۔ان کامزاج جلالی اور پھر اس پر’’ غَضْبَان‘‘ کی کیفیت۔ اس وزن پرجب لفظ ’’رحمٰن‘‘ آیاتواس میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت کی ایک شان سامنے آرہی ہے‘ جس کوہم یوں تعبیر کرسکتے ہیں کہ جیسے ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو جس میں اونچی اونچی لہریں اٹھ رہی ہوں‘تموج ( ہیجانی کیفیت) ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی یہ شان لفظ ’’رحمٰن‘‘ میں پائی جاتی ہے۔
البتہ اس میں ایک نکتہ اوربھی ہے۔ عام طور پر اس کیفیت میں دوام نہیں ہوتا۔ اس قسم کی کیفیت تھوڑی دیر کے لیے آتی اور چلی جاتی ہے‘ لہٰذا اس میں کچھ عارضی ہونے کا معاملہ بھی پایا جاتا ہے ‘ جو دوام اوراستمرار کی ضد ہے ۔جوش آتا ہے لیکن ہمیشہ نہیں رہتا‘ جلد ختم ہوجاتا ہے ۔ غضبناکی کی کیفیت آتی ضرور ہے لیکن اس میں دوام نہیں ہوتا ‘جلد زائل بھی ہوجاتی ہے۔جبکہ عربی زبان میں’’فعیل‘‘ کاوزن کسی صفت کے دوام واستمرار اورپائیداری کو ظاہر کرنے کے لیے آتاہے۔ جس صفت میں استقلال ہووہ صفت مستقل طورپراپنے موصوف میں موجود ہوتی ہے۔ اب دونوں الفاظ کوسامنے رکھ کرعلماء اورمحققین نے کچھ آراء دی ہیں۔ چنانچہ عام طورپرآپ کو ایک جملہ ملے گا :رحمٰنُ الدُّنیا وَ رَحِیمُ الآخِرۃ! اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کی نسبت کی گئی دنیا کی طرف کیونکہ دنیاعارضی ہے اور صفت رحیمیت یاشانِ رحیمیت کو آخرت کی طرف منسوب کیا گیا کہ وہ دائم ہے‘ باقی رہنے والی ہے۔ ازروئے الفاظ قرآنی: {وَالْاٰخِرَۃُ خَیْـرٌ وَّاَبْقٰی(۱۷)} (الاعلٰی) یہ اس وجہ سے کہ فَعلان کے اندرایک عارضی پن کی کیفیت ہوتی ہے جبکہ فَعِیل میں دوام اوراستمرار ہوتاہے۔ تویہ آپ کو عام طورپرمصحف‘ تراجم یاحواشی میں ملے گا:رحـمٰن الدُّنیا ورَحِیمُ الآخرۃ۔
ا س ضمن میں ایک نکتہ مولاناعبیداللہ سندھی ؒ نےایک حدیث کے حوالے سے پیش کیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّ لِلّٰہِ مِائَۃَ رَحْمَۃٍ، اَنْزَلَ مِنْھَا رَحْمَۃً وَاحِدَۃً بَیْنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ وَالْبَھَائِمِ وَالْھَوَامِّ، فَبِھَا یَتَعَاطَفُوْنَ، وَبِھَا یَتَرَاحَمُوْنَ، وَبِھَا تَعْطِفُ الْوَحْشُ عَلٰی وَلَدِھَا، وَاَخَّرَ اللّٰہُ تِسْعًا وَتِسْعِیْنَ رَحْمَۃً، یَرْحَمُ بِھَا عِبَادَہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ))(صحیح البخاری‘ کتاب الادب‘ باب جعل اللّٰہ الرحمۃ فی مأۃ جزء‘ ح۵۶۵۴ وصحیح مسلم‘ کتاب التوبۃ‘ باب فی سعۃ رحمۃ اللّٰہ‘ ح۲۷۵۲ (واللفظ لہ))
’’اللہ تعالیٰ کے پاس رحمت کے سو حصے ہیں۔ اُس نے اس رحمت میں سے ایک حصہ جنوں ‘ انسانوں‘ جانوروں اور کیڑوں مکوڑوں میں اتارا۔ اسی وجہ سے وہ آپس میں ایک دوسرے سے نرمی اور رحم کا معاملہ کرتے ہیں اور اسی وجہ سے جانور اپنے بچے پر پیار رکھتا ہے۔ رحمت کے ننانوے حصے اللہ تعالیٰ نے بچا رکھے ہیں جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے سوحصے کیے ‘ننانوے حصے اپنے پاس رکھے اورایک حصہ کُل مخلوقات میں تقسیم کردیا۔ تمام والدین خواہ وہ انسانوں میں سے ہوں ‘جنوں میں سے ہوں‘حیوانات میں سے ہوں‘یا دیگر مخلوقات میں سے ہوں ‘ان کے دلوں میں جورحمت ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اُس سوویں حصے کاظہورہے۔ اس رحمت کو مولانا عبید اللہ سندھی ؒ نےایک مثال سے بیان کیاہے۔ ظاہر ہے کہ کسی دانش مند کاذہن جب اس طرف جائے گا تو وہ کوئی نکتہ نکال لے گا۔
والدین میں رحمت کی دوکیفیات ہوتی ہیں ۔ والد کی رحمت اورشفقت کی شکل کچھ اورہےجبکہ والدہ کی رحمت کی شکل کچھ اور۔ والد کی شفقت میں یہ چیز مدّ ِنظر ہوگی کہ اولاد ترقی کرے‘ اعلیٰ مراتب پرپہنچے‘ چاہے اسے مشقت جھیلنی پڑے‘ تکلیف اٹھانی پڑے۔ والد کے سامنے کچھ اور مقاصد ہوتے ہیں اوروہ ان اعلیٰ تر مقاصدکے حصول کے لیے اولاد کی تکلیف اورمشقت کوبھی جھیلنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ والدہ کی رحمت کامعاملہ بالکل اورہوتا ہے کہ بچے کو تکلیف نہ پہنچے۔ جوذاتی عافیت و راحت ہے‘ والدہ کی رحمت اس درجے کےاندر رہے گی۔ علامہ موصوف کا کہناہے کہ تمام مخلوقات میں جوباپ کی رحمت وشفقت ہے اس کوجمع کرکے سوسے ضرب دیجیے تووہ لفظ رحمان کاظہور بن جائے گا‘ جبکہ والدہ کی شفقت اوررحمت کوتمام مخلوقات کی اس سطح پرجمع کرکے اس کو سوسے ضرب دیجیے تویہ لفظ رحیم کاظہوربن جائے گا۔
رحمان اوررحیم دونوں میں نسبت کوظاہر کرنے کے لیے ایک بہت ہی پیاری تمثیل اور تشبیہ ہے کہ آپ کہیں کسی سڑک سے گزر رہے ہوں اور وہاں پر اسی وقت کوئی حادثہ ہوا ہو اور بہت سے لوگ اس میں ہلاک ہوگئے ہوں۔ فرض کیجیے کہ کوئی شخص دیکھے کہ ایک ماں ہے جواس حادثےمیں ہلاک ہوگئی ہے اور اس کا دودھ پیتا بچہ اُس کی چھاتی سے چمٹا ہواہے‘ وہ بچ گیا ہے۔ اب ہرشخص اپنے دل کو ٹٹولے اور اس حالت کو اپنے اوپر طاری کر کے دیکھے کہ اس کی کیفیت کیا ہو گی۔ ایسے میں ہرشخص یہ چاہے گاکہ اس بچے کی پرورش میں اپنے ذمہ لے لوں۔ یہ بے کس ابھی عمر کی اس سطح پرہے کہ اپنے وجود کوخود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کوئی اس کی کفالت کی ذمہ داری لے۔ کیسا ہی کٹھور دل انسان ہو ‘واقعہ یہ ہے کہ اس منظر کودیکھ کروہ رہ نہیں سکتااور اس بچے کی کفالت اورپرورش کاذمہ لے لے گا۔ البتہ یہ جذباتی کیفیت عارضی ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چنددن کے بعد وہ جوش و خروش ختم ہو تو آدمی پچھتائے کہ یہ کیابوجھ میں اپنے ذمہ لے بیٹھا ہوں۔وہ تو ایک وقتی اور جذباتی کیفیت تھی جو آئی اور چلی گئی۔ میری ذمہ داریاں پہلے ہی بہت تھیں‘ وقتی طور پر میں نے جوش میں آ کر یہ ایک اضافی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے۔ ہم میں سے اکثر کا حال یہی ہو گا کہ بعد میں شاید ہم پچھتائیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان میں جوش والی کیفیت تو ہے ‘ لیکن مستقل مزاجی والی نہیں ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اندر یہ دونوں شانیں موجود ہیں ۔ ہیجان والی شان بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ استقلال و استمرار والی شان بھی ہے۔
ان دونوں صفات کا تقابل کرتے ہوئے جن حضرات کو عارضی پن کا احساس ہواہے وہ میری ناقص رائے میں مغالطہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تمام شانیں مستقل بالذات ہیں ‘ پائیدار ہیں ۔ رحمت خداوندی کی یہ دونوں شانیں بیک وقت موجود ہیں ۔ اگرہمارے اندر کسی شان کاکوئی ہلکاساپرتوآجائے تو ہمیں کچھ سمجھنے میں مدد مل جاتی ہے‘ ورنہ ہم توواقعتاً کسی شے کے دوام اوراستمرار کاتصور بھی نہیں کرسکتے۔ پھریہ کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اندازہ ہمارے تخیل اور ہماری قوتِ واہمہ سے بھی بعید ہے‘اس کے باوجود کچھ کیفیات وارد ہوتی ہیں جن کے حوالے سے ہم کچھ سمجھ سکتے ہیں۔ ان صفات باری تعالیٰ کے بارے میں کچھ تمثیلیں مفید اورممد ہیں‘لیکن ہم بتمام وکمال ان پرقیا س نہیں کرسکتے۔ اللہ کی رحمانیت (جوش والی رحمت) مستقل ہے اوراللہ کی رحیمیت (ہمیشہ رہنے والی رحمت) بھی مستقل ہے۔ یہ دونوں شانیں ہمیشہ ہیں‘ہروقت ہیں‘ بیک وقت موجودہیں ۔
اس میں ایک نکتہ اوربھی ہے کہ تخلیق کو اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کااور ربوبیت کو اللہ تعالیٰ کی صفت ِرحیمیت کامظہرمانا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو اپنی رحمانیت کے جوش میں تخلیق فرمایااوراس کی مستقل ربوبیت فرمار ہاہے۔ یہ ربوبیت یعنی اس کی پرورش‘ نگہداشت اور تربیت اُس کی صفت رحیمیت کاثمرہ ہے۔ بہرحال ان دونوں  ناموں کو سامنے رکھیے اوراس پراضافہ کیجیے اللہ کے نام نامی اسم گرامی اللہ کا‘ جسے اسم ذات ماناگیاہے۔
اللہ کا تعارف : اشکال اور جواب
آخری قابلِ توجّہ بات یہ ہے کہ قرآن مجید ذاتِ باری تعالیٰ کی ہستی کاتعارف کن الفاظ میں کرار ہاہے۔ اس میں درحقیقت ردّ اور جواب ہے اس اعتراض کاجوعیسائیوں کی طرف سےنہ صرف قرآن پر بلکہ اسلام پر کیا جاتا ہے کہ قرآن اللہ کا تعارف زیادہ تر ایک ایسی ہستی کے طور پر کراتا ہے جس سے ڈرا جائے‘ جس سے خوف کھایا جائے۔ اسلام میں تقویٰ پرزور ہے‘ خوف کوایک بنیادی محرک کی حیثیت سے ایکسپلائٹ کیا گیاہے کہ ڈرو اللہ سے‘ ڈرو جہنم سے‘ ڈرو آخرت کے حساب سے!اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر بحیثیت مجموعی قرآن کوپڑھیں تویہ رنگ واقعتاً غالب نظر آتا ہے۔عیسائیوں کایہ کہناہے کہ ہم جس خدا کومانتے ہیں ‘انجیل جس خدا کا تعارف پیش کرتی ہے ‘ وہ خدا ایک محبوب ہستی‘ ایک شفیق ہستی‘ ایک ودود ہستی اور ایک رحیم ہستی ہے۔ اُس ذات سے محبت پیدا ہوتی ہے جبکہ قرآن کے پیش کردہ خدا سے خوف پیدا ہوتا ہے۔ اس کا جواب درحقیقت اسی میں مضمرہے کہ آیت بسم اللہ جوہر سورت کے آغاز میں درج ہے‘ مزید برآں سورۃ الفاتحہ کی پہلی دوآیات میں پھرانہی تین ناموں ( اللہ + الرَّحْمٰن + الرَّحِیْم) کاحوالہ ہے :
{ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ oالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo } (الفاتحۃ)
’’کل شکر اور کل ثنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار (اور مالک) ہے۔ بہت رحم فرمانے والا‘ نہایت مہربان ہے۔‘‘
توبنیادی طورپرقرآن مجید اُس ہستی کا جواس کائنات کی خالق ومالک ہے‘یہ تعارف کراتاہے۔ بنیادی تصور تو یہی ہے۔ اس والہانہ عشق کاتصور کیجیے جو لفظ اللہ میں چھپا ہوا ہے اگر اس کو ولہ سے مشتق مانا جائے ۔پھررحمان‘ پھررحیم۔ اصل میں اللہ تعالیٰ کی یہ صفات ہیں جن کو قرآن مجید نمایاں کرتاہے۔ البتہ بگڑے ہوئے ماحول میں اِنذار ضروری ہے۔وہ جو علامہ اقبال نے کہا:؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتاہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
اور ع ’’نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی!‘‘جب منہ کاذائقہ بگڑ چکا ہوتوکڑوی کسیلی دوائیاں دینی پڑتی ہیں۔ مرض کے ازالے کے لیے صالح اور مرغن غذا نہیں دی جاتی‘بلکہ ہوسکتاہے دوا کے بڑے کڑوے اور کسیلے پیالے بھر بھر کے پلانے پڑیں۔ قرآن مجید رسولوں کی دعوت کااوررسولوں کے حالات کابار بار تذکرہ کرتاہے‘ اوررسول اسی وقت آتے رہے جب کہ قوموں کامزاج بگڑ چکا ہوتا تھا‘ اصلاح کی ضرورت ہوتی تھی‘ آخری حجت قائم کرنامقصود ہوتا تھا‘ لہٰذا اس وقت صورت یہی تھی۔ جس ندا سے دعوت کا آغاز ہوتا ہے اس کی کیفیت وہی ہے جس کو حالی نے اس شعر میں بیان کیا کہ ؎
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادیؐ
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
اس دعوت کے ذریعے ہلانا اور چونکانا مقصود ہوتا ہے ۔سوتےہوئوں کوجگانا ‘نیند کے ماتوں کوہوشیار کرنا ‘جو ہلاکت اوربربادی کی طرف جارہے ہیں انہیں خبردار کرنامقصود ہوتا ہے۔ لہٰذا اس میں اِنذار کا رنگ زیادہ نمایاں ہوتاہے ۔ ’’اِنذار‘‘ کاترجمہ عام طور پر ڈرانا کردیاجاتاہے جو درحقیقت صحیح نہیں ہے۔ انذار کاصحیح ترجمہ ہے: خبردار کرنا(to warn) ۔ وارننگ بالکل مختلف چیز ہے ‘جبکہ تخویف اور چیز ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآءَہٗ} (آل عمران:۱۷۵)
’’(اے مسلمانو!) یہ شیطان ہے جو تمہیں ڈراتا ہے اپنے ساتھیوں سے۔‘‘
قرآن مجید میں اس خوف کوعام طورپر شیطان کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ بندئہ مومن‘ اللہ کے دوست کے لیےتو قرآن مجیدکہتاہے :
{اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ(۶۲)} (یونس)
’’آگاہ ہو جائو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
خوف اورشے ہے‘ تقویٰ اورشے ہے‘ اِنذار اور شے ہے۔ ہمارے ہاں اردو تراجم میں بالعموم تقویٰ کا ترجمہ بھی ڈر‘ انذار کابھی ڈر اورخوف کابھی ڈر کیا گیا ہے۔ ایسے ترجموں سے پھر مغالطے پیدا ہوتے ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ انذار کا معنی ہے خبردار کرنا‘warn کرنا‘caution دینا کہ جس راستے پر جارہے ہووہ ہلاکت وبربادی کا راستہ ہے۔ تقویٰ کا معنی ہے بچنا اور اس سے مراد ایسی چیز سے بچنا بھی ہے جو فی الاصل خوفناک ہو اور یہ بچنا ایسا بھی ہے کہ اس بات سے بچو کہ کہیں تمہارے والد ناراض نہ ہو جائیں۔ اب یہ کچھ اورطرح کاخوف ہے۔ والد کا خوف کچھ اورہے جبکہ کسی درندے کا خوف اس سے مختلف ہے۔ والد کے خوف کے اندر ایک محبت اور شفقت لپٹی ہوئی ہوتی ہے‘ جبکہ دوسرا مجرد خوف ہے‘ جیسے ایک ڈرائونی چیز کاخوف‘ ایک مضر شے کا خوف۔لہٰذا ان دونوں میں بآسانی فرق کیا جا سکتا ہے۔ قرآن مجید لفظ ’’تقویٰ‘‘ استعمال کر تاہے تواس کے مفہوم کوجب سیاق و سباق کی روشنی میں سمجھ کر پڑھاجائے گا تو وہ اشکال نہیں ہوگا۔ اسی طرح قرآن مجید میں لفظ ’’انذار‘‘ آتا ہے۔ اس کے صحیح مفہوم کوسمجھیں گے تووہ اشکال نہیں ہوگا۔باقی اصل جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا ایک مثبت تعارف قرآن مجید جس طرح سے کرارہاہے وہ آیت بسم اللہ سے سمجھ میں آگیا: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ’’ اُس اللہ کے نام سے جورحمان ہے اورجو رحیم ہے۔‘‘ اس کی رحمتیں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند بھی ہیں اوربیک وقت ان میں دوام بھی ہے‘ استمرار بھی ہے‘ پائیداری بھی ہے۔
بسم اللہ : ہماری تہذیب و تمدن کا ایک جزو!
’’بسم اللہ‘‘ ہمارے تمدن اورتہذیب کاایک جزو بن گیا ہے۔ کوئی کام کروبسم اللہ! اللہ کے نام کے ساتھ۔یہ ہماراکلچر ہے‘ ہماری تہذیب ہے‘ ہمارا تمدن ہے۔ اس میں فوراً انسان متوجّہ ہوتا ہے کہ میں جوکام کررہا ہوںوہ اللہ کی مرضی کے مطابق بھی ہے یا نہیں! اس میں پھروہ سہارا لیتاہے کہ میری کامیابی کا دارومدار اللہ کی مدد اورتوفیق پرہے۔ سب سے بڑھ کر قرآن مجید کی تلاوت کے وقت جب ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ پڑھیں گے تواس میں ایک امتثالِ امر(حکم کی تابع داری) ہوجائے کہ وہ پہلی آیت جو محمد رسول اللہﷺ پر نازل ہوئی تھی : {اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(۱) }(العلق) ’’پڑھواپنے اس رب کے نام سے جس نے پید افرمایا۔ ‘‘ گویاکہ آج آیت بسم اللہ کا درس اس پہلی آیت پر امتثالِ امر کی حیثیت رکھتاہے۔ ہم قرآن مجید کے مطالعہ کا آغاز کررہے ہیں اور {اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(۱) } کے مطابق ہم نے آج آیت ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کوسمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح فہم عطا فرمائے اور جس کا م کا آج ہم نے بیڑا اٹھایاہے اللہ کی تائید اورتوفیق کے بھروسے پر اوراُسی کے نام نامی اوراسم گرامی کے ساتھ ‘اب یہ اسی کے حوالے ہے کہ یہ کام تسلسل اورپابندی کے ساتھ ہوتا رہے‘ اس میں کوئی رخنے نہ آئیں اوراس طرح قرآن مجید کادرس مکمل ہو جائے۔ منزل بڑی لمبی ہے‘ سفربہت طویل ہے اور واقعہ یہ ہے کہ کام بہت کٹھن بھی ہے۔ وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز!
(ترتیب و تدوین : ابوعبدالرحمٰن شبیر احمد نورانی‘حافظ خالد محمود خضر)

دروسِ قرآن کی تاریخبانی تنظیم اسلامی ‘صدرِ مؤسس مرکزی انجمن خدام القرآن ڈاکٹر اسرار احمد ؒ فرماتے ہیں کہ ۱۹۴۲ء میں جب مَیں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا تو علامہ اقبال کی مشہور نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا یہ شعر دل میں پیوست ہو گیاکہ: ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر!
۱۹۵۴ء میں ایم بی بی ایس کے بعد ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے کراچی اور ساہیوال کے گرد و نواح میں درسِ قرآن شروع کیا تاوقتیکہ ۱۹۶۵ء میں لاہور منتقل ہوئے۔ ۱۹۶۶ء سے لاہور میں حلقہ ہائے دروسِ قرآن قائم کیے اور مختلف جگہوں پر دروسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا۔ ۱۹۶۸ء میں مسجد خضراء‘ سمن آباد سے سلسلہ وار درسِ قرآن کا آغاز ہوا۔ پھر۱۹۷۴ء میں مسجد شہداء‘ مال روڈ پر موقع ملا تو اس درسِ قرآن کو دوبارہ سے شروع کیا۔ وہ درسِ قرآن جو ۱۹۷۴ء سے سلسلہ وار شروع ہوا ‘ ۱۹۹۱ء میں اسی قرآن آڈیٹوریم میں اس کی تکمیل ہوئی۔
۱۹۹۱ء ہی میں یہیں پر درسِ قرآن کا دوبارہ آغاز کیا جو کہ فروری ۱۹۹۲ء میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۶۱ پر جا کر رُک گیا۔ پھر ڈھائی سال کا وقفہ رہا۔ اس دوران ڈاکٹر صاحبؒ نے اسی آڈیٹوریم میں تفصیلی منتخب نصاب کے دروس ریکارڈ کرائے جو تقریباً۱۵۰ گھنٹوں پر مشتمل ہیں۔ ۱۹۹۴ء میں یہ سلسلۂ درس وہیں سے دوبارہ شروع ہوا جہاں سے چھوڑا تھا۔ سورۃ البقرۃ کی آیت ۶۲ سے ۱۶۷ تک سلسلہ جاری رہا‘ جس کے بعد سوا پانچ سال کا فصل آیا۔ اس دوران ڈاکٹر صاحبؒ کا گھٹنوں کا آپریشن بھی ہوا اور بہت سارے غیر ملکی دورے بھی رہے۔ پھر اسی آڈیٹوریم میں ۹ اپریل ۲۰۰۰ء کو سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۶۸ سے دوبارہ سلسلہ شروع ہواجو فروری ۲۰۰۶ء تک جاری رہا۔ اس میں سورۃ المائدۃ کی تفسیر تک ڈاکٹر صاحبؒ نے ریکارڈنگ کروائی۔ ۵مارچ ۲۰۰۶ء کو ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ نے درسِ قرآن کی یہ ذمّہ داری محترم ڈاکٹر عارف رشید کے حوالے کی۔ محترم ڈاکٹر عارف رشید نے ۱۲ مارچ ۲۰۰۶ء کو یہ ذِمہ داری ادا کرنا شروع کی اور۱۴ جولائی ۲۰۲۴ء کو اسی جگہ درسِ قرآن کی تکمیل ہوئی۔ یہ مختصر تاریخ تھی درسِ قرآن کی جو ڈاکٹر صاحب نےشروع کیا!