(عرض احوال) جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا … - رضاء الحق

7 /

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا …

مئی کا مہینہ ہمارے لیےشمسی سال کے پانچویں مہینے سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ البتہ آج چند بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کے سوا شاید کسی کو یہ علم نہیں ہے کہ رومن عہد میں اِس مہینے کی نسبت ’’مایا دیوی‘‘ سے منسوب تھی ۔ اُن کے عقیدے کے مطابق یہ دیوی زرخیزی اور نشوونما لے کر آتی تھی ۔ گزشتہ کم و بیش ڈیڑھ صدی سے مئی کا مہینہ مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے نسبت حاصل کر چکا ہے۔یکم مئی محنت کشوں کا عالمی دن ہے‘ جو ان کی قربانیوں پر خراج عقیدت پیش کرنے اور محنت کی عظمت کااحترام کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔یکم مئی ۱۸۸۶ء کو امریکی ریاست شکاگو میں محنت کشوں نے اپنے حقوق کے حصول کے لیے باقاعدہ جدّوجُہد کرنے کا اعلان کیا اور اس کے لیے سینکڑوں جانوں کی قربانی بھی دی۔ ان کی قربانیوں کے نتیجے میں۱۹۱۹ءمیں عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے قائم ہونے پر محنت کشوں کے حقِ تنظیم سازی کو تسلیم کر لیا گیا ۔
مزدور کسی بھی معیشت کی وہ بنیادی اکائی ہے کہ اِس کے بغیر کام کاج کا تصوّر بھی محال ہے ۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ کے فضل کے بعد مزدور کی محنت ہی سے کائنات میں رنگ اور مارکیٹ میں مال دستیاب ہے۔ایک مزدور کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے ہاتھ سے کام کرنے والے کو اللہ کا دوست قرار دیا ہے۔ تاہم آج مزدور صرف وہی نہیں ہے کہ جو اینٹ یا گارا اُٹھانے کا کام کرتا ہے بلکہ ہر وہ شخص مزدور تصوّر کیا جاتا ہے جو اُجرت پر کام کرتا ہے اور آجر اور مستاجر کے طے شدہ مفہوم کے تحت آتا ہے۔
امریکہ جو آج انسانی حقوق کا علم بردار بناہوا ہے‘ وہاں ایک صدی قبل حالات ایسے نہیں تھے۔ رنگ اور نسل کے علاوہ معاشی حالات کے حوالے سے بھی واضح تفریق نظر آتی تھی۔ ایک دیہاڑی دار مزدور اور غلام میں کوئی فرق روانہیں رکھا جاتا تھا۔ مزدور کو اُس کی محنت کی اصل اجرت ملتی ہی نہیں تھی‘ خصوصاً کارخانوں میں۔ آج وہاں صورت حال کچھ ایسی ہے کہ دنیا کو دکھانے کے لیے تو حالات بہت اچھے ہیں مگر اندر کھاتے حالات ایسے ہیں کہ مائیکروسافٹ جیسی عالمگیر کمپنی نے ایسے ملازمین کو صرف اِس لیے برطرف کر دیا کہ اُنہوں نے کمپنی کے کرتا دھرتاؤں کو یہ بتایا تھا کہ آپ کی اسرائیل نواز پالیسیوں سے انسانیت کوسنگین نقصان پہنچ رہا ہے۔
امریکہ آج کا ہو یا ماضی کا‘ اُس نے غریب اور محنت کش طبقے کی بجائے امیر اور سرمایہ دار طبقے ہی کی سرپرستی کی ہے۔ اِس پر مستزاد یہ کہ آج کا امریکہ اب’’ امریکہ فرسٹ‘‘ کی پالیسی کو اپنا چکا ہے۔ دوسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے موجودہ صدر نے اپنی انتخابی مہم میں اِسی نعرہ کو ہتھیار بنایا تھا‘ جو یقیناً کامیاب بھی ہو اہے ۔گزشتہ ماہ جب امریکی صدرنے یہ اعلان کیا کہ وہ قومی مفادمیں امریکہ میں ہونے والی درآمدات پر ٹیرف میں اضافہ کر دیں گے تو ہمارے ہاں بہت سے لوگ یہی سمجھے کہ اس سے چین کو بہت زیادہ نقصان ہونے والا ہے۔ چین کے متوقع نقصان کی خبر کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ اِس بڑھے ہوئے ٹیرف کی وجہ سے تو پاکستان کی اپنی معیشت زمین بوس ہو گئی ہے تو اُن کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں خاص طور۱۹۸۰ء کی دہائی کے بعد سے امریکہ پر اِنحصار اِس قدر بڑھ چکا ہے کہ دنیا میں اِس کی مثال ڈھونڈے سے نہ ملے۔ امریکہ بہادر کی پالیسیوں پر عمل درآمد ہی کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستانی صنعت کا پہیہ بالکل جام ہوکر رہ گیاہے۔ پاکستان جو کہ ایک زرعی ملک تھا‘ اِس کی زمینوں کو زراعت میں کھپانے کی بجائے امریکی پالیسیوں پر عمل کرتے ہوئے صنعتی استعمال میں لایا گیا۔ جب وہ صنعتیں اپنے جوبن پر پہنچیں تو اُن کی پیداوار کی منڈیوں کو محدود کر دیا گیا‘حتیٰ کہ اپنے ملک میں بھی مقامی کی بجائے درآمدی مصنوعات سستے داموں ملنے لگیں۔ چند سال پہلے تک صورت حال یہ تھی کہ بازار میں بعض پاکستانی برانڈز کی عام مصنوعات غیر ملکی خاص برانڈز کی مصنوعات سےمہنگی ملتی تھیں۔ اوپر سے مہنگائی ایسی کہ عام آدمی ملکی مصنوعات کو ترجیح دینے کی بجائے چند روپوں کی بچت کے لیے غیر ملکی مصنوعات کو ترجیح دینے لگا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کے صنعت کاروں نے یہاں اپنا کام بند کردیا اور فیکٹریاں اونے پونے بیچ کر کسی ایسے ملک میں سرمایہ کاری کرنے چلے گئے جہاں اُنہیں کاروبار کرنے کے بہتر مواقع میسر تھے۔ فیصل آباد‘گوجرانوالہ‘ لاہور‘ کراچی جیسے صنعتی شہروں کے لاکھوں محنت کش بیکار ہو کر گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہوگئے۔ اُن میں سے کچھ تو ہاتھ پیر مارتے جائز و ناجائز طریقوں سےدیارِ غیر پہنچ کر اپنا اور اہل خانہ کے پیٹ کا دوزخ بھرتے رہے۔پھر کرونا کی وبا پھیلی اور دنیا بھر میں صنعتیں اور کاروبار بند ہونے لگے تو ایک مرتبہ پھر اُنہیں بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ گیا۔اگرجائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر آ جاتا ہے کہ ہر موڑ پر غلط فیصلے اور غلط حکمت عملی اختیار کی گئی۔ مزدور اور کم مراعات یافتہ طبقے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیاجبکہ بااثر اور طاقتور طبقے یعنی اشرافیہ کو فائدہ دیا گیا۔ ملک کے حکمران مزدور طبقے کو دھوکا دیتے رہے۔
۱۹۸۰ء کی دہائی سے پہلے بے شک پاکستان کی معیشت اس قدر مضبوط تھی کہ آج کے کئی بڑے ممالک کو قرض نہیں امداد دیا کرتا تھا‘ پھر حالات پلٹے اور ریکارڈ خسارے کے بجٹوں کا سلسلہ چل نکلا۔ آئی ایم ایف کا اونٹ غریب پاکستان کے خیمے میں گھس آیا۔ آج پاکستان کا غریب اور مزدور طبقہ آئی ایم ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے دن رات محنت کرتا ہے۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا ہے ۔کبھی غریب اور امیر طبقے کے درمیان ایک بڑی تعداد متوسط طبقہ کی بھی ہوتی تھی‘ جو کم ہوتے ہوتے اب بالکل ختم ہی ہو گیا ہے۔
۱۹۸۰ء کی دہائی ہی میں سکولوں میں طلبہ کے ذہن میں یہ بات بھی ڈالی جانے لگی کہ عام تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘اِس کی بجائے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی جائے۔ ۷۰ ء کی دہائی میں وہ مزدور جس نے یہ خواب دیکھا تھا کہ وہ اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم سے روشناس کرا کے معاشرے کا ایک کامیاب اور مفید شہری بنائے گا اور ہر وہ سہولت فراہم کرے گاجو خود اُسے تاحال حاصل نہیں ہوسکی‘ اُس کے تمام تر خواب چکنا چور ہوگئے۔ اُس کا بیٹا بھی اُس کی طرح کا ہی ایک مزدوربنا دیا گیا جبکہ اُس کے برعکس امیر اور مراعات یافتہ طبقے کے بچے اپنے والدین سے زیادہ بہتر معیارِ زندگی کے حامل ہوگئے۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ معاشی بحران کسی حادثے کی وجہ سےسامنے آیا ہے تو یہ اُس کی خوش فہمی ہے۔ حقیقت میں تو یہ سب کچھ ایسی منصوبہ بندی سے کیا گیا تھا کہ حادثاتی ہی محسوس ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ معاشی بحران کے تمام فائدے بھی متقدر طبقے کو مل گئےجبکہ تمام تر نقصانات عوام کے حصّے میں آئے۔ اب تازہ ترین صورت حال میں بھی ایسا ہی ہے۔امریکی ٹیرف میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں تاریخی مندی دیکھنے میں آئی جس کی وجہ سے اسے عارضی طور پر بند بھی کرنا پڑا‘ مگر وقفے کے بعد صورت حال مزید خراب ہوگئی۔ اِس طرح سرمایہ کاروں کا کھربوں ڈالرز کا نقصان ہو گیا۔ہم کوئی معیشت دان تو نہیں ہیں مگر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ع
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا‘ ناپائیدار ہوگا!آج مسلمانوں کی بڑی بدنصیبی یہی ہے کہ اُنہیں کسی بھی مضبوط شاخ پر ٹھکانا بنانے کی نہ تو عالمی استعمار نے اجازت دی اور نہ وہ خود اسلام کے عادلانہ معاشی نظام کو قائم و نافذ کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ مملکت ِخداداد پاکستان ہی کو لے لیجیے۔ کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف اور دیگر اداروں نے اِسے سودی قرضہ کے ذریعے معاشی بلکہ سیاسی‘ اخلاقی اور معاشرتی سطح پر بھی جکڑ رکھا ہے۔ ایسے میں صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ماضی میں اپنے ساتھ کی گئی زیادتیوں اور اپنی نا اہلی اور بدعنوانی سے سبق سیکھتے ہوئے آئندہ کے لیے لائحۂ عمل تیار کریں۔ اسرائیل اور اُس کے معاون ممالک کی مصنوعات کا اگر تمام مسلم ممالک سرکاری سطح پر مل کر بائیکاٹ کریں اور صرف اپنے ملک میں بنی اشیاء کو استعمال میں لائیں تو دہرا فائدہ ہوگا۔ نہ صرف صہیونیوں کو گہرا زخم لگے گا بلکہ ملک کی اپنی صنعت اور اُس سے وابستہ مزدوروں کو بھی فائدہ ہوگا۔ پھر یہ کہ ہماری معیشت بہتر ہوجائے گی جسے گزشتہ۷۷ برس میں بڑی محنت سے بگاڑا گیا ہے۔