اہل ِ غزہ کی پکار اور ہمارا کردار
شجاع الدین شیخ‘ امیر تنظیم اسلامی پاکستان
اسلام آباد میں منعقدہ قومی کانفرنس میں خطاب
( ۱۰ /اپریل ۲۰۲۵ ء بمطابق ۱۱ شوال ۱۴۴۶ ھ )
قابل ِصد احترام قائدین ِ ملّت وعمائدین ِ اُمّت!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
{وَ مَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآءِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ ۤ اَخْرِجْنَا مِنْ هٰذِهِ الْقَرْیَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا ۚ وَ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّا وَّ اجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِیْرًا(۷۵)} (النّساء)
’’ فلسطین اور اُمّت ِمسلمہ کی ذمہ داری‘‘ جیسے موضوع پر غور و فکر کرنے اور کوئی اجتماعی لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے آج ہم یہاں اکٹھے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ انتہائی دقیق ‘ تفصیل طلب اور کثیر الجہتی موضوع ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی توفیق سے اس اہم ترین معاملے پر چند باتیں انتہائی مختصر انداز میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا مقصود ہے ۔
ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی۷۷ سالہ تاریخ فلسطینی مسلمانوں کے قتل ِ عام‘ نسل کشی اور درندگی و بہیمیت سے لت پت ہے۔مسلمانوں کے نزدیک اس خطہ کی اہمیت کیا ہے‘ یہ اہل ِعلم سے پوشیدہ نہیں ہے‘لہٰذا اس کی وضاحت کی احتیاج نہیں ہے۔
اسرائیل کے اہداف
یہود جو فلسطین پر ناجائز قبضہ جما کر بیٹھے ہوئے ہیں‘آخر وہ کیوں غزہ میں قتل و غارت کررہے ہیں؟حقیقت یہ ہے کہ اُن کا ہدف صرف غزہ ہے ہی نہیںبلکہ لبنان‘ شام‘ عراق‘ اردن‘ مصرکا ڈیلٹا اور مدینہ تک سعودی عرب کا شمالی حصہ بھی ان کا ہدف ہے۔وہ اس پورے علاقہ میں گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں‘جیسا کہ نیتن یا ہو نے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ ان کے پیشِ نظر پورے مشرقِ وسطیٰ کے نقشہ کو تبدیل کرنا ہے۔
آپ کے علم میں ہے کہ یہود تحریف شدہ’’تورات‘‘اور’’تالمود‘‘کی تعلیمات کی بنیاد پر اپنے ’’مسایاح‘‘ کا انتظار کر رہے ہیں‘ جو اصل میں حضور اکرمﷺ کی حدیث کے مطابق دجّال ہوگا۔گویا یہود کے نزدیک مسایاح(جو درحقیقت دجال ہوگا)نے ابھی آنا ہے۔اس دجّال کی عالمی حکومت قائم کرانے کے لیے یہود کا ایجنڈا درج ذیل ہے:
۱) اَلۡمَلۡحَمَۃُ الۡعُظۡمیٰ(Armageddon)یعنی ایک بڑی جنگ برپا کرنا۔
۲) اس کے نتیجہ میں گریٹر اسرائیل کا قیام۔
۳) مسجد اقصیٰ اور قُبَّۃ الصَّخۡرَہ (گنبد ِ سنگ ۔The Dome of Rock)کو منہدم کرکے ان کی جگہThird Temple تعمیر کرنا۔
۴) اس تھرڈ ٹیمپل میں تخت ِ داؤدی لا کر رکھنا اور اس پر دجّال کی تاج پوشی کرنا۔
اسرائیل اور پاکستان
اسرائیل‘ گریٹر اسرائیل کے قیام میں اپنے راستے کی رکاوٹ صرف پاکستان کو سمجھتا ہے جیسا کہ بن گوریان۱۹۶۷ء میں پیرس میں ایک تقریب میں اس بات کا اظہار بھی کر چکا ہے۔
اس وقت تمام عرب ممالک اس کے زیر ِنگیں آ چکے ہیں‘ کچھ کو امریکہ اور اسرائیل مل کر تباہ کر چکے‘ باقی رہے سہےایک ایک کر کے طوعاًوکرہاً اس کے ساتھ تعلقات بڑھا رہے ہیں۔کچھ سفارتی سطح پر اسے تسلیم کر چکے ہیں اور کچھ تسلیم کرنے کے لیے تیار بیٹھےہیں۔ ان کو بخوبی معلوم ہے کہ ایٹمی صلاحیت رکھنے والا پاکستان( جو قائم ہی اسلام کے نام پر ہواہے) اور خراسان سے کالے جھنڈوں والے لشکر نکلیں گے جو امام مہدی ؑکے ساتھ مل کر صہیونی ریاست کا قلع قمع کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ بقولِ اقبال:؎
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے‘ میرا وطن وہی ہے!موجودہ صورتِ حال میں اہل ِ پاکستان کا کردار
فلسطین کی موجودہ ہنگامی صورتِ حال کے پیش نظر اسرائیل کے معاشی بائیکاٹ اور اس کے خلاف عملی و عسکری اقدامات کے لیے بھر پور کو ششوں کی ضرورت ہے ۔سب سے اہم کام یہ ہے کہ اکابرین ِ دین اورعمائدین ِ ملّت ون پوائنٹ ایجنڈا’’غزہ بچاؤ‘‘کے لیے باہم مل کر ایک متفقہ فورم بنائیں اور مل کر جدّوجُہد کریں۔
اس کے علاوہ فلسطین کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر ہماری نگا ہ میں درج ذیل اقدامات ملکی اور اُمّت کی سطح پر مفید ہوں گے‘ان شاء اللہ تعالیٰ :
۱) پاکستان کی تمام مساجد میں نمازوں میں دعاؤں خصوصاًقنوتِ نازلہ کا اہتمام کیا جائے‘ اور اللہ تعالیٰ سے یہودی فتنہ کے خاتمہ کے لیے خاص طور پر دعا کی جائے۔
۲) اسرائیل کے ناپاک عزائم‘ اُمّت ِمسلمہ کا مستقبل اور اس پس منظر میں خاص طور پر پاکستان کو درپیش خطرات سے عمومی آگاہی خطابات ِجمعہ‘ مختلف اجتماعات اور خصوصی طور پر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر دی جائے۔
۳) تمام مکاتب ِفکرکے علماء کی جانب سے جہاد کا ایک متفقہ فتویٰ جاری ہونا چاہیے اور عالمی سطح پربھی اس نوع کا فتویٰ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یعنی اسرائیل کے خلاف عسکری و معاشی (جانی و مالی) جہاد حکومتی سطح پرنیز فرداً فرداً ہر مسلمان پر حسب ِاستطاعت فرض ہے۔
۴) اکابرین اور عمائدین ِ ملّت کا ایک وفد صدرِ پاکستان‘ وزیر اعظم ‘ آرمی چیف‘ چیئرمین سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز سے ملاقات کرکے ان کے سامنے اپنا موقف رکھے کہ پاکستان کو غزہ کے معاملے پر ایک سخت اور واضح موقف اختیار کرنا چاہیے۔ نیزحکومت ِ پاکستان دوسرے ممالک کی حکومتوں اور مقتدر طبقات سے رابطہ کر کے اس بات کو آگے بڑھائے۔ اس ضمن میں مسلمانوں کے دینی مرکزمکّہ مکرمہ میں اجلاس / کانفرنس بلا کر متفقہ طور پر لائحۂ عمل طے کیا جائے تو ‘ان شاءاللہ‘ اس کے زیادہ بہتر اثرات ہوں گے۔
۵) حکومت ِ پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اسرائیلی سہولت کار کمپنیوں کی مصنوعات کا معاشی بائیکاٹ کرے۔ان مصنوعات کی درآمد بند کی جائےاوراسرائیل نواز کمپنیوں کے کاروبار بند اور ان کے کاروباری لائسنس منسوخ کیے جائیں۔بلاشبہ معاشی بائیکاٹ نے ان کمپنیوں کو متاثر کیا ہے اور وہ اس کا توڑ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ لہٰذا اس کام کو مزیدآگے بڑھانےکی ضرورت ہے ۔
۶) اکابرین اور عمائدین ِ ملّت کا نمائندہ وفد مسلمان ممالک کے سفراء سے ملاقات کرے اور ان کے سامنے درج ذیل نکات رکھے جائیں:
i) اسلامی برادری کے رشتہ کی بنیاد پر مظلوم مسلمانوں کی داد رسی کے لیے عملی اقدامات ہماری دینی ذمہ داری ہے۔
ii) تمام مسلم ممالک UNO کا دوہرا اورمنافقانہ معیاراُجاگر کریں جس نے اپنے آپ کو امریکہ کی کنیز ثابت کردیا ہے اور اس سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کریں۔
iii) اس ضمن میں ہمیں OIC کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ۳۴ممالک کی مشترکہ فوج جس کے سربراہ ہمارے سابقہ آرمی چیف ہیں‘اس کو بھی OIC کے تحت فعال کیا جائے‘کیونکہ مسلمانانِ فلسطین کی مدد اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے عسکری ا قدامات بھی OIC کے چارٹر کا حصّہ ہے۔
iv) مسلم ممالک کو ایک مشترکہ اقتصادی ‘ دفاعی اور اقدامی معاہدہ کرنا چاہیےجس میں پاکستان کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔مسلم ممالک اندرونی طور پرکافی حد تک خود کفیل ہیں‘اگر وہ باہم تعاون کریں تو مغربی استعمار اور اس کی معاشی جکڑ بندی کا بآسانی مقابلہ کرسکتے ہیں۔
v) یہی اقدامات اسرائیل اور مغربی استعماری قوتوں کو مسلمانوں کا استحصال کرنے سے روک سکیں گے۔
۷) علماء کرام اور دینی تناظیم’’ اسرائیلی عزائم اور اُمّت ِمسلمہ کا مستقبل‘‘اور’’اسرائیل کے قیام کی تاریخ‘‘ کے متعلق نوجوانوں اور بچوں کو آگاہی دینے کا اہتمام کریں ۔
۸) طلبہ میں جوشِ جہاد اور شوقِ شہادت پیدا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے مالکان اور سربراہان کو راغب کیا جائے۔
۹) ایسی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اسرائیل کی مدد کرتی ہیں ‘اور جو دکاندار ایسی اشیاء رکھتے ہوں ان سے خریداری سے اجتناب کیا جائے اور دینی غیرت کے تقاضے کی طرف ان کی توجّہ دلائی جائے۔
۱۰) پاکستانی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جائے کہ وہ ایسی مصنوعات کے متبادل مارکیٹ میں لانے کے لیے سرمایہ کاری کریں۔
۱۱) عوام الناس سے غزہ کے مسلمانوں اور تحریک مزاحمت کے لیے مالی امداد کی اپیل کی جائے۔
۱۲) فلسطین کے مسلمانوں پر بے انتہا ظلم و ستم کے خلاف ہمیں اجتماعی سطح پر بڑے پیمانے پر مظاہرے کرنے چاہئیں تاکہ پوری دنیا کو معلوم ہو سکے کہ مسلمان متحد ہیں اور ایک دوسرے کے درد کو محسوس کرتے ہیں۔ نیز یہ مسلمانانِ فلسطین کی بھی دل جوئی اور ہمت بڑھانے کا باعث ہوگا۔
۱۳) اللہ کے دین کے غلبے کے لیے جدّوجُہد جاری رکھی جائے۔پاکستان نہ صرف عطیۂ خداوندی ہے بلکہ بقول ڈاکٹر اسرار احمد ؒ اسرائیل کے توڑ ہی کے لیے وجود میں آیا ہے۔ دونوں ممالک نظریہ کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں اور شاید اسی لیےاللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ہمیں ایٹمی صلاحیت سے بھی نوازا ہے۔تاہم ہنود و یہود کے خلاف بھی ہم تبھی ڈٹ کر کھڑے ہوسکتے ہیں جبکہ ایک طرف تو ہم سب آپس میں متحد و متفق ہوں ‘ ملک میں بھائی چارہ کی فضا قائم ہو ‘ آپس کی نفرتیں ختم ہوں اور دوسری طرف نظریۂ پاکستان’’ایک ہو ںمسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ کو عملی تعبیر دے کر اسلام کو نافذ و غالب کرنے کی جدّوجُہد کریں۔گزشتہ۷۷سال سے ہم نے اس سے جو غفلت برتی اور نفرتوں کے بیج بوئے‘ ان پر صدقِ دل سے انفرادی و اجتماعی توبہ کریں اور اللہ کی طرف واپس پلٹیں۔ جس طرح عالم کفر مسلمانوں کے مقابلے میں’’اَلکُفر مِلّۃٌ وَاحِدَۃ‘‘ بنا ہوا ہے‘ اسی طرح ہمیں بھی ’’الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا‘‘ کے مصداق جسد ِ واحد بن کر اورمل جل کر دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ تاہم ہماری اور عالم ِاسلام کی کامیابی دین کے غلبہ کے لیے جدّوجُہد کے ساتھ مشروط ہے‘بفحوائے الفاظِ قرآنی:{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(۷) }(محمد) ’’اے اہل ِ ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دےگا۔‘‘اللہ کی مدد یہی ہے کہ ہم اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدّوجُہد میں اپنا تن‘من‘دھن لگا دیں ‘تبھی ہم دنیا وآخرت میں سرخرو ہوسکیں گے۔
دین اسلام غالب ہوکر رہے گا‘ان شاء اللہ!
بہر حال قیامت سے قبل اللہ تعالیٰ کا دین کل روئے زمین پر غالب ہو کر رہے گااور ہنود و یہود اور مشرکین سب مغلوب اور ذلیل وخوار ہوکر رہیں گے‘ـان شاء اللہ تعالیٰ۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{هُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ بِالْهُدٰى وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّیْنِ كُلِّهٖ ۙ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (۳۳)}(التوبۃ)
’’وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول(ﷺ)کو الہدیٰ اور دین ِحق دے کر تا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر‘خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔‘‘
اور جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے بشارت عطا فرمائی ہے:
((إِنَّ اللّٰهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مُلْكُهَا مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا))(سنن الترمذی)
’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے ساری زمین کو سمیٹ دیا‘چنانچہ میں نے اس کے مشارق و مغارب کو دیکھ لیا‘اور میری اُمّت کی حکومت وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک کا علاقہ مجھے سمیٹ کر دکھایا گیا ہے۔‘‘
((لَا يَبْقَى عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللّٰهُ كلمةَ الاسْلَامِ بِعِزِّ عَزِيزٍ أَوْ بِذُلِّ ذَلِيْلٍ، إِمَّا يُعِزُّهُم اللّٰهُ عَزَّوَجلَّ فَيَجْعَلُهُمْ مِنْ أَهْلِهَا أَوْ يُذِلُّهُمْ فَيَدِينُونَ لَهَا)) (رواہ احمد)
’’اللہ تعالیٰ روئے زمین کے ہر شہر اور بستی کے ہر گھر میں کلمہ اسلام داخل فرما دے گا‘ خواہ اسے کوئی عزّت کے ساتھ قبول کر لے یا ذلت کے ساتھ زندہ رہے۔ وہ لوگ جنہیں اللہ عزّت عطا فرمائے گا تو وہ ان کو اس کا اہل (محافظ) بنا دے گا یا ان کو ذلیل کر دے گا تو وہ اس کی اطاعت اختیار کر لیں گے۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہدایت پر استقامت عطا فرمائے اور صحیح معنوں میں ہم قبلہ اوّل فلسطین اور اہل ِفلسطین کے لیے کچھ عملی اقدامات کرسکیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025