سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ
مدرّس:ڈاکٹر اسرار احمدؒ
نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo} (آمین)
خطبہ مسنونہ کے بعد:
آج ہم اللہ کانام لےکر ’’اُمّ القرآن‘‘ یعنی سورۃ الفاتحہ پر غوروفکر شروع کررہے ہیں۔ اس ضمن میں پہلے تو مَیں یہ چاہوں گا کہ ہمارے ’’مطالعہ قرآن حکیم کامنتخب نصاب‘‘ میں یہ سورئہ مبارکہ جس مقام پر ہے اور اس میں مضمون کا جو ربط و تعلق ہے اس کو سمجھ لیا جائے ۔
’’منتخب نصاب‘‘ میں سورۃ الفاتحہ کا مقام
’’منتخب نصاب‘‘ کے کل چھ حصے ہیں۔ پہلے حصے میں چارجامع اسباق ہیں ‘ جن میں سب سےپہلاسبق جو اس پورے منتخب نصاب کے لیے بمنزلہ اساس و بنیاد ہے وہ سورۃ ’’العصر‘‘ہے ‘جس میں انسان کی نجات کی چار شرائط ہمارے سامنے آئی ہیں:
{وَالْعَصْرِ (۱) اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ(۲) اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(۳)}
(۱)ایمان‘(۲) اچھے عمل‘ (۳)حق و صداقت کی تبلیغ و اشاعت اور اس کا اعلان‘ (۴)(نتیجتاً ملنے والی تکالیف پر)صبرکی تلقین۔ یہ چار چیزیں لوازمِ نجات اورانسان کی کامیابی کی شرائط ہیں۔
دوسرا سبق ’’آیۃُ البِر‘‘ پر مشتمل ہے‘ اُس میں بھی جامعیت کے ساتھ یہ چاروں چیزیں سامنے آئی ہیں۔
تیسرا سبق سورئہ لقمان کے دوسرے رکوع پر مشتمل ہے اور اس میں بھی نہایت جامعیت کے ساتھ یہ چاروں چیزیں سامنے آئی ہیں ‘لیکن وہاں ایک نہایت عظیم آیت آئی ہے: {اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳)}(لقمان) یعنی سب سے بڑی ناانصافی‘ سب سے بڑا ظلم‘ سب سے بڑی دھاندلی ’’شرک‘‘ ہے۔ ہمارے دین میں سب سے بڑا گناہ اور ناقابل معافی جرم شرک ہے۔اسلام دین توحیدہے اورشرک توحید کی ضد ہے‘ لہٰذا اس اہمیت کے پیش نظر سورئہ لقمان کے دوسرے رکوع کےدرس کے ضمن ہی میں ’’حقیقت و اقسامِ شرک‘‘ کے عنوان سے چھ تقاریر کی گئیں۔
’’منتخب نصاب‘‘ کے جامع اسباق میں سے چوتھا سبق سورئہ حٰـمٓ السجدۃ کی آیات ۳۰ تا ۳۶ پر مشتمل ہے‘ لیکن اس کو میں عام طور پر اس منتخب نصاب کے دوسرے حصے جو ایمان کے مباحث پر محیط ہے‘ اس کے آخر میں رکھتا ہوں۔ ورنہ بحث بہت پھیل جائے گی اور جب گفتگو پھیل جائے تو پھر اُسے ایک نکتہ کی طرف لانے کے لیے ایک جامع سبق کی ضرورت ہے جو اگر چہ اصلا ً پہلے حصے سے متعلق ہے لیکن درس میں ہم اسے دوسرے حصے کے آخر میں رکھتے ہیں۔ سورۃ العصر میں مذکور چار شرائط نجات میں سے پہلی شرط ایمان ہے‘ اور اس سلسلے میں کچھ تفصیلی مباحث ’’منتخب نصاب‘‘کے دوسرے حصے میں مذکور ہیں۔ اس ضمن میں سب سے پہلا مقام سورۃ الفاتحہ ہے‘ جس پر آج ہم غوروفکر شروع کررہے ہیں۔
حکمت : سلامتی ٔفطرت و سلامتی ٔعقل کا مجموعہ
اب ذرا معنوی ربط سمجھ لیجیے۔ سورئہ لقمان کے دوسرے رکوع کے مطالعے سے حضرت لقمان کی شخصیت ہمارے سامنے آتی ہے‘ اورمَیں یہ بات تفصیل سے عرض کر چکا ہوں کہ نہ وہ نبی تھے اورنہ ہی کسی رسول یا نبی کے اُمّتی تھے‘ بلکہ وہ صرف ایک حکیم اور دانا انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ} (لقمٰن:۱۲) ’’اور یقیناً ہم نے لقمان کو حکمت سے نوازا تھا!‘‘حکمت کیا چیزہے؟ یہ دوچیزوں کے امتزاج سےوجود میں آنے والی شے ہے :سلامتی ٔفطرت اور سلامتی ٔعقل۔ انسان کی فطرت مسخ نہ ہو بلکہ درست ہو‘ اپنی صحت وتندرستی پر برقرار ہو تو اسے ہمسلیم الفطرت انسان کہتےہیں اوراُس کی عقل بھی صحیح طور پر کام کررہی ہوتو وہ سلیم العقل انسان ہے۔ چنانچہ جس انسان میں یہ دونوں چیزیں (سلامتیٔ فطرت اور سلامتیٔ عقل) جمع ہو جائیں تو وہ حکیم کہلائے گا۔ لہٰذا جب وہ اپنی فطرت کی رہنمائی میں اپنی عقل سے کام لیتے ہوئے غوروفکر کرے گا تو اس کائنات کے جو بعض بڑے اور بنیادی حقائق ہیں اُن کے قریب تر پہنچ جائے گا۔ مَیں نے بہت جان بوجھ کر محتاط لفظ ’’قریب تر‘‘ استعمال کیا ہے‘ اس لیے کہ ان حقائق تک کماحقہ پہنچ جانا تو ممکن نہیں ہے۔ وہ تو درحقیقت وحی کی راہنمائی ہی ہے جو انسان کو آخری منزل تک پہنچانے والی ہے‘ البتہ حکیم شخص قریب تر پہنچ سکتا ہے۔ بقول علامہ اقبال ؎
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی قسمت میں پر حضور نہیں!عقل انسان کو آستانے کے قریب تر ضرورپہنچادیتی ہے لیکن حاضری اور حضوری عقل کی رسائی سے دور ہے۔ اسی لیے علامہ بیان کرتے ہیں: ؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے‘ منزل نہیں ہے!اس شعر میں کمال توازن ہے کہ عقل کو نور کہہ رہے ہیں لیکن اس کی بھی limitation ہے۔ اگرچہ یہ نور ہے لیکن یہ جان لو کہ اس کی رسائی کی بھی ایک حدہے۔ علامہ نے یہ بات نہایت شان وشوکت کے ساتھ ایک فارسی شعر میں بیان کی ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری کا اصل حسن تو اُن کے فارسی کلام میں نکھر کر سامنے آتا ہے ۔ چنانچہ فرمایا: ؎
بُوعلی اندر غبارِ ناقہ گم
دست رومی پردئہ محمل گرفتعظیم دانشور بوعلی سینا ہمارے ہاں اُن فلاسفہ میں سے ہیں جن کو یہاں گویا کہ عقلیت کے ایک مجسمے کے طور پر بطور استعارہ لایا جا رہا ہے ۔ علامہ کے نزدیک وہ بھی اس اونٹنی کے آس پاس تو پہنچ گئے ہیں جس پر محمل (کجاوہ) میں محبوب سوارہے لیکن اُس اونٹنی کے چلنے سے جو گرد و غبار اُڑ رہا ہے وہ اُسی کے اندر گم ہو کر رہ گئے ہیں‘ جبکہ رومی کا ہاتھ محمل کے پردے کو جاکر تھام لیتاہے۔
مَیں نے یہ باتیں اس لیے دُہرا دی ہیں کہ حضرت لقمان کی شخصیت جن کا ذکر سورئہ لقمان میں آیا ہے ‘درحقیقت اُن کی حیثیت ایک علامت (symbol)کی سی ہے‘ جن کے حوالے سے قرآن یہ سمجھارہا ہے کہ انسان بغیر وحی کے‘ اپنی عقل اوراپنی فطرت کی راہنمائی میں بھی بہت سا سفر طے کرسکتاہے ۔اور وہ سفر کیا ہے ؟
پہلی بات: کائنا ت کے خالق اور مالک کو پہچاننااوراُس کی توحید سے آگاہ ہوجانا۔یہ وہ منزل ہے کہ جس تک انسان اپنی عقل اور فطرت کی رہنمائی میں پہنچ سکتاہے۔ چنانچہ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
{یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللہِ ط اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(۱۳)}
’’اے میرے بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک مت کرنا‘ یقیناً شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘
دوسری بات : انسان کے اعمال‘ نیکیاں اوربدیاں ضائع جانے والی نہیں ہیں ۔ عقل اسے تسلیم نہیں کرتی۔ عام قاعدہ کلیہ ہے : ع ’’گندم از گندم بروید جو ز جو‘‘ گند م سے گندم پیدا ہوتی ہے اور جو سے جو اُگتے ہیں‘ لیکن دنیا میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نتیجہ اُلٹا بھی نکلتا ہے۔آپ کسی کے ساتھ بھلائی کرتے ہیں اور وہ آپ کے ساتھ برائی کرتا ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ سے بڑھ کر بھلائی کرنے والاکون ہوگا ؟ اُن کے ساتھ جتنا بُرا سلوک ہوا ہے‘ اُس کا تصور کرلیجیے۔صرف غیروں کے ہاتھوں نہیں اپنوں کے ہاتھوں سے بھی ‘ جو بظاہر آپؐ کے نام کا کلمہ پڑھنے والے تھے۔ عبداللہ بن اُبی کون تھا ؟اُس نے اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت دھری‘ جس کا صدمہ جس قدر نبی اکرمﷺ کو ہوا وہ آپؐ کے بعض فرمودات سے واضح ہوتا ہے۔ جو الفاظِ مبارکہ آپؐ کی زبان سے ادا ہوئے ہیں اُن سے شدتِ صدمہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں رہا جو اس شخص کی ایذا رسانی سے مجھے بچا سکے!ذرا اندازہ کیجیےکہ اس جملے کےاندر کس قدر درد اور رنج وغم ہے !یہ اُس کی طرف سے پہنچ رہا ہے جو بظاہر کلمہ گو ہے۔ معلوم ہو اکہ اس دنیا میں ’’گندم از گندم بروید جو ز جو‘‘ والامعاملہ شاید ہی کبھی ہوتا ہو اور وہ بھی اُس نسبت اورتناسب سے نہیں ہوتا۔ لہٰذا ایک اور عالم درکارہے‘ ایک اورزندگی ہونی چاہیے جس میں تمام اعمال کےحسب ِحقیقت نتیجے نکلیں۔ یہ بھی فطرت اورعقل کے مطابق معاملہ ہے ‘یہاں تک بھی عقل کے ذریعے رسائی ہو سکتی ہے۔لہٰذا حضرت لقمان کی دوسری نصیحت یہ تھی :
{ یٰـبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللہُ ط اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(۱۶) }
’’اے میرے بیٹے !(اس حقیقت کو ذہن نشین کرلے‘ پلّے باندھ لے کہ انسانی اعمال ‘خواہ وہ نیکیاں ہوں یا بدیاں ‘ پھر )خواہ وہ رائی کے دانے کے برابر ہم وزن ہوں ‘ پھر خواہ وہ کسی چٹان کے اندر ہوں‘ خواہ آسمانوں میں ہوں یا زمین میں ‘اللہ ان سب کو لے آئے گا۔یقیناًاللہ لطیف اورخبیر ہے۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ ایمانیاتِ ثلاثہ میں سے توحید اور آخرت تک تو انسان کی رسائی ہو سکتی ہے۔ تیسری چیز جو انسان اپنی عقل اور فطرت کی روشنی میں پہچان سکتا ہے وہ نیکی اور بدی‘ خیر اور شر‘ بھلائی اور برائی میں فرق ہے۔ جوبنیادی اسلامی اخلاقیات ہیں ان کے لیے انسان وحی کا محتاج نہیں ہے۔فطرت ِانسانی یہ جانتی ہے کہ سچ بولنا اچھا ہے اورجھوٹ بولنا بُرا ہے‘ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی وحی کی ضرورت نہیں ہے جو حقیقت کوروشن کرے ۔ انسان فطرتاً اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ وعدہ پورا کرنا اچھائی ہے اوروعدہ خلافی کرنا بُرائی ہے‘ یہ بات ذہن میں بٹھانے کے لیے کسی وحی کی ضرورت نہیں ۔
رسالت و نبوت اور وحی کی ضرورت
ان حقائق کو سمجھنے کے بعد اب ایک بہت بڑا سوالیہ نشان اپنے سامنے لے آیئے کہ: پھر رسالت و نبوت اور وحی کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ضرورت دو اعتبار سے سامنے آتی ہے۔پہلی بات یہ کہ ایمان کا جو خاکہ ہمیں عقل اور فطرت سے ملتا ہے اس میں گہر ائی اور گیرائی وحی سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک اجمالی علم ہے‘ ایک ابتدائی خاکہ ہے جو آپ نے بنا لیا ہے‘اب اُس کے اندر تفصیلات اوریقین کی گہرائی کا پیدا ہونا ضروری ہے‘ یہ مقصد بغیر وحی کے ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کو آپ نے مان لیا اورجان لیا لیکن اللہ تعالیٰ کے اَسماء وصفات کا علم بغیر وحی کے نہیں ہوسکتا ‘یہ کہ وہ ’’عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘ ہے‘ وہ ’’بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ‘‘ ہے۔ اسی لیے آپ نے دیکھا کہ ’’ایمانِ مجمل‘‘ میں صرف اللہ کومان لینا ایمان نہیں ہے جب تک کہ اُس کے ساتھ اَسماء و صفاتِ باری تعالیٰ کا علم شامل نہ کیا جائے۔
آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَـَما ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِالِّلسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ
’’میں اللہ پر ایمان لایا جیسا کہ وہ اپنے اَسماء و صفات کے ساتھ ہے اور میں نے اس کے تمام احکام کو قبول کیا‘ زبان سے اقرار اور دل کی تصدیق کے ساتھ۔‘‘
مَیں نے اس کے لیے دوالفا ظ استعمال کیے ہیں :گہرائی اور گیرائی‘ یعنی اس کے اندر وسعت او ر پختگی ہو۔ یہ دونوں علم نبوت اورعلم وحی سے انسان کو حاصل ہوتے ہیں۔معلوم ہوا کہ عقل او ر فطرت کے ذریعے اجمالی علم یا بنیادی تصور حاصل ہو سکتا ہے لیکن مقامِ حضوری وحی کی رہنمائی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔
جہاں تک ’’ایمان بالآخرت‘‘ کا معاملہ ہے وہ اور بھی زیادہ ضروری ہے ‘اس پہلو سے کہ مجرد یہ جان لینا کہ ایک اور ’’عالَم ہونا چاہیے‘‘ کہ جس میں جزا و سزا ہو‘ یہ انسان کے عملی رویے کو درست رکھنے کے لیے کافی نہیں ہے۔جب تک کہ انسان میں ’’ہونا چاہیے‘‘کی بجائے ’’یہ معاملہ امر واقعہ میں ہے ‘‘کا رنگ پیدا نہ ہو۔ ایسا عالم ہونا چاہیے ایک تصور و خیال ہے جبکہ ایسا فی الواقع موجود ہے ایک یقینی خبر ہے ‘اور یہ تب ممکن ہے جب کوئی پختہ یقین کے ساتھ یہ خبر دینے والاہو۔ یہ خبر دینے والاکون ہوگا؟ ع ’’پیمبر ہرچہ گوید دیدہ گوید!‘‘ جس کو جنّت کا پیشگی کھلی آنکھوں مشاہدہ کرادیا گیا ہو‘ جس کو دوزخ کا پیشگی مشاہدہ کرادیا گیا ہو تو وہ اس یقین کے ساتھ گواہی دے کہ مَیں تمہیں خبر دے رہا ہوں کہ یہ سب کچھ موجود ہے۔ ایک حکیم اور دانا انسان ’’ہونا چاہیے‘‘ کی حد تک تو پہنچ جائےگا لیکن وحی نبوت اوروحی رسالت کے ذریعہ اس میں یقین کی گہرائی پیدا ہوگی۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو ایمان بالآخرت کی تفاصیل ہیں :بعث بعد الموت‘ حشر ونشر‘ جزا وسزا‘ وزنِ اعمال‘ جنت اوردوزخ‘ جنت کی نعمتوںاور دوزخ کی عقوبتوں کی تفصیلات‘ ظاہر بات ہے کہ یہ سب عقل ِانسانی کی گرفت سے باہر ہے۔ یہ سب کچھ تو وحی ہی کے ذریعہ سے معلوم ہوگا‘ اوروحی ہی کے ذریعہ سے اس خاکہ میں تفصیلی رنگ بھرا جائےگا۔ وہی بات جو مَیں نے پہلے عرض کی کہ اس میں گہرائی اور گیرائی دونوں چیزیں درحقیقت وحی ہی کے ذریعہ سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ یہ تو معاملہ ہوا یمان بالآخرت کا۔
انسانی تمدن کے تین عقدہ ہائے لاینحل
اس سے بھی اہم تر بات یہ ہے کہ انسانی زندگی میں جو اُس کا عملی رُخ ہے‘ اُس میں اخلاقیات سے متعلق موٹی موٹی باتیں‘ مثلاًجھوٹ اور سچ‘وعدہ اور ایفائے عہد وغیرہ تو انسانی فطرت میں شامل ہے‘لیکن انسانی تمد ن کے جو پیچیدہ مسائل ہیں ‘ ان کا حل عقل انسانی ہرگز نہیں کرسکتی۔ ان کے حل کے لیے وہ وحی آسمانی کی سراپا محتاج ہے‘ اس لیے کہ انسان حالات سے متاثرہوتاہے۔ ایک مرد غور و فکر کرنے کے بعد بھی عورت کے احساسات کو نہیں جان سکتا۔ وہ اگر کسی عائلی عقدے کا حل کرے گا تو ایک مرد کے اعتبار سے کرے گا‘ مرد ہونے کے رُخ سے کرے گا‘ وہ عورت کےساتھ انصاف نہیں کرپائےگا۔ اگر عورت سوچے گی تو وہ اپنےاحساسات کو مقد م رکھے گی‘ تمدن کی دوسری مصلحتیں اُس کے پیش نظر نہیں رہ سکیں گی۔ مرد جب غور کرے گا تو وہ اپنے انفرادی حقوق کی طرف زیادہ زور دے گا جبکہ اجتماعی مصلحتوں سے اُ س کی توجہ ہٹ جائے گی۔ کوئی اصحاب ِحکومت ہوں گے تو وہ اجتماعی مصلحتوں کا زیادہ رونا روئیں گے‘ ان کی نگاہ میں افراد کےحقوق کی اتنی اہمیت نہ رہے گی۔ مزدور ہوگا تو اُس کےسامنےاپنا مسئلہ تو ہوگا لیکن وہ سرمایہ دار یا کارخانہ دار کے نقطۂ نگاہ سے غور نہیں کرسکتا‘ جبکہ کارخانہ دار یا سرمایہ دار اپنی اُلجھنوں کو تو خوب سمجھتاہے‘ اُن کے حل کے لیے تو بے تاب ہو گا لیکن مزدور کی جگہ کھڑے ہوکر نہیں سوچ سکتا کہ اُ س کے احساسات کیا ہیں ! یہ جو انسانی تمدن کی پیچیدگیاں ہیں ‘ان کو سلجھانے کے لیے وحی کی راہنمائی ضروری ہے۔
مَیں نے سادہ الفاظ میں دراصل تین اہم حقیقتیں آپ کے سامنے رکھی ہیں ‘ جوعقدہ ہائے لا ینحل ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ مرد اور عورت میں حقوق اور ذِمہ داریوں کا توازن کیا ہوگا ؟ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عورت کو بھیڑ بکری کی طرح ملکیت بنالیا جاتاہے‘ مرد اُس پر حکومت کرتاہے‘ حکم چلاتا ہے‘ اُس کا آقا بن جاتاہے‘ وہ اُس کی باندی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسے مرد کے پائوں کی جوتی قرار دیا جاتا ہے۔ یا یہ انتہا ہوگی اوریا دوسری انتہا ہوگی کہ کوئی عورت قلوپطرہ بن کر کسی ملک کی قسمت کا بیڑا غرق کردے گی ۔چنانچہ یہ دو انتہائیں ہیں۔ یا وہ عورت شمع محفل بن جائے یا اُس کا استحصال کیا جا رہا ہو‘ اُس کےنسوانی اعضا ء کی تشہیر کی جارہی ہو اور اس طرح عورت کو بکائو مال بنا دیا گیا ہو۔ان دو انتہائوں میں توازن کیا ہے؟ یہ بہت ہی کٹھن سوال ہے‘ جس کا حل عقل انسانی کے بس کاروگ نہیں۔
اسی طرح ایک مسئلہ ہے فرداورجماعت کے حقوق و فرائض طےکرنے کا۔ فرد کے حقوق زیا دہ ہیں یااجتماعیت کے حقوق زیادہ ہیں؟ دُنیا میں اس وقت دو نظام رائج ہیں۔ ڈیموکریٹک نظام میں زیادہ زور افراد کے حقوق پر دیا جاتا ہے۔ یا پھر مطلق العنان(totalitarian) نظام ہوگا‘ کوئی مستبد آمرانہ نظام‘ کوئی فاشسٹ regime‘ جو افراد کے حقوق کو کچل دے گی اور معاشرہ واجتماعیت کے حقوق کا زیادہ پرچار کرے گی۔ یہی عدم توازن دنیا میں چلا آ رہا ہے۔
یہی معاملہ معاشی مسائل کا بھی ہے جنہوں نے خاص طو رپر صنعتی انقلاب کے بعد ایک گمبھیر اور لاینحل عقدے کی صورت اختیار کر لی ہے‘ یعنی یہ کہ سرمایہ اور محنت کے مابین صحیح توازن کیسے قائم کیا جائے۔ جب تک مشین ایجاد نہیں ہوئی تھی یہ بڑا سادہ مسئلہ تھا لیکن مشین نے انسان کی قوتِ کا ر کوہزار گنا بڑھادیا ہے۔ مشین سرمائے سے خریدی جاتی ہے‘ محنت کی حیثیت گھٹ گئی ہے‘ سرمائے کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔چنانچہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں ایک بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ محنت(labour) اور سرمائے(capital) کے درمیان توازن کیسے قائم کیا جائے اور اقتصادی معاملات میں عدل و اعتدال کے تقاضے کیسے پورے کیے جائیں!
سورۃ الفاتحہ : رواں ترجمہ
یہ تین مسئلے انسانی تمدن کے پیچیدہ ترین مسائل ہیں جن کو حل کرنا عقل انسانی کے بس کا روگ نہیں ‘یہاں انسان بالکل محتاج ہے آسمانی ہدایت کا‘ اللہ کی دستگیری کا۔ چنانچہ وہ گھٹنے ٹیک کر درخواست کرے گاکہ اے رب ! تو ہی بتا وہ صراطِ مستقیم کون سی ہے جس پر چل کر ہم اپنی سعادت اورفوزوفلاح سے ہمکنارہوسکیں۔ یہ ہے مقام سورۃ الفاتحہ کا۔ اب اس کا ترجمہ دیکھیے :
{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo }
’’کل شکر اورکل ثنا( حمد) اللہ کی ہے جو تمام جہانوں کا مالک بھی ہے اور پروردگا ر بھی۔ ‘‘
{الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo}
’’اُ س کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر جیسی بھی ہے اور مستقل‘ دائم اورپائیدار بھی۔ ‘‘
{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}
’’وہ جزا اورسزا کے دن کا مختارِمطلق بھی ہے۔ ‘‘
{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo}
’’(اے ربّ!) ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اورکریں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اورمانگیں گے۔ ‘‘
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo}
’’ہدایت بخش ہمیں سیدھے راستے کی۔ ‘‘
{صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵}
’’راستہ اُن لوگوںکا جن پر تیرا انعام نازل ہوا۔ ‘‘
{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ}
’’جن پر نہ تو تیر اغضب نازل ہوا۔ ‘‘
{وَلَا الضَّآلِّیْنَo}
’’اور نہ ہی وہ گمراہ ہوئے۔ ‘‘
سورۃ الفاتحہ اور سورئہ لقمان (رکوع۲) میں ربط
اب ذرا غور کیجیے ! جو شخص یہ الفاظ زبان سے نکال رہا ہے اُ س کی پوزیشن معین ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کو جانتا اور مانتا ہے۔ یہ بھی جانتا ہےکہ کل حمد‘ کل ثنا‘ کل شکر اُسی کے لیے ہے۔ یہ جانتا ہے کہ وہ تمام جہانوں کا پروردگا ر ہے۔ یہ جانتا ہے کہ وہ رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔ گویا کہ اُس کی توحید کامل ہے ‘توحید میں کہیں کوئی کمی نہیں۔ پھر وہ اجمالا ً جانتا ہےکہ جزا وسزا ہوگی: {مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}۔ اس کا اقرار کررہا ہے اوریہ بھی کہہ رہا ہے کہ جزا وسزا کا مطلق اختیا ربھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ اجمالاً ایمان بالآخرۃ ہے ۔ اس کا جو نتیجہ نکلنا چاہیے کہ پھر اُسی کا ہوکر رہے‘ اُسی کی بندگی کرے۔ اپنے آپ کو اُسی کے حوالے کرے‘ اُسی کے سامنے جھک جائے‘ اس کا بھی وہ زبان سے اقرار کررہا ہے: {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo}۔
یہاں تک وہ پہنچا ہوا ہے۔ یہی مقام ہے حضرت لقمان کا‘ وہ یہیں تک پہنچے ہوئے تھے۔ ایک سلیم الفطرت انسان‘ ایک سلیم العقل انسان‘ اپنی اُس سلیم فطرت اور سلیم عقل کی راہنمائی میں جہاں تک پہنچ سکتا تھا ‘ وہاں تک آ گیا ہے۔ اب آگے اُس کا مقامِ احتیاج آگیا ہے‘ جہاں اُسے گھٹنے ٹیک کر درخواست پیش کرنی ہے۔ وہاں پہنچ کر وہ کہہ رہا ہے: {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo }’’اے میرے ربّ ! مجھے سیدھا راستہ دکھا!‘ ‘ میری زند گی کی پرپیچ راہیں ہیں ‘ اس میں قدم قدم پر چوراہے ہیں ‘ سہ راہے ہیں ‘ مَیں کہیں غلط موڑ نہ مڑ جائوں۔ میںکسی مسئلہ میں عدم توازن کا شکار نہ ہوجاؤں‘ کسی عمل یا ردّ عمل کا شکا ر نہ بن جاؤں۔ تُو ہی ہدایت کے ذریعے میری دستگیری فرما۔ زندگی کی یہ پیچید ہ اور پُر پیچ راہیں اور تمدن کے یہ پیچیدہ اور لاینحل عقدے اورمسئلے ہیں‘ ان میں تُو ہی دستگیری فرمائے گاتو مَیں سلامتی کے ساتھ گزرپاؤں گا۔ معلوم ہو ا کہ یہ ہے وہ مقام کہ جہاں آکر انسان ہدایت ِربانی کا محتاج ہے ۔
جان لیجیے کہ اسی درخواست کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے وحی کا سلسلہ جاری فرمایا۔ فطرت ِانسانی کی ترجمانی یہاں کردی گئی ہے کہ انسان اپنی عقل و فطرت کی راہنمائی میں یہاں تک پہنچ سکتا ہے‘ یہاں سے آگے اُسے راہنمائی درکا رہے‘ اسی لیے ہم نے نبی بھیجے‘ وحی نازل کی‘ سلسلہ نبوت ورسالت جاری کیا‘ اسی لیے ہم نےکتابیں اُتاریں ‘ ہم نے شریعت نازل فرمائی۔ چنانچہ یہیں سے آگے جواب شروع ہوجائےگا:
{ الٓـمّٓ (۱) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ ج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(۲)}
’’الف ‘ لام‘ میم۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں ادنیٰ بھی شک و شبہ نہیں۔سچے طلب گاروں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘
یہ ہے وہ قرآن کریم جو سیدھاراستہ دکھانےوالی کتاب ہے۔ جس شخص میں اُس صراطِ مستقیم کی طلب پیداہوگئی ہو جس کا اظہار سورۃ الفاتحہ کی شکل میں دعا کی صورت میں کیا گیا ہے‘ اُس کی درخواست کے جواب میں پورا قرآن مجید نازل کیا گیا ہے‘ بالخصوص سورۃ البقرۃ اور سورۃ النسا ء جن میں شریعت کی بہت سی تفصیلات جامعیت کے ساتھ آئی ہیں۔ اس طرح یہ دو ربط سامنے آ گئے۔منتخب نصاب میں ایمان کے مباحث سورۃ الفاتحہ سے شروع ہو رہے ہیں اور اس کا ربط سورئہ لقمان کے دوسرے رکوع کے ساتھ ہے۔ حضرت لقمان کی شخصیت کو اگر ہم ایک علامتی (symbolic) حیثیت دیں کہ فطرتِ انسانی اور عقل انسانی انسان کو اس مقام تک لے آتی ہے جس کوقرآن نے حضرت لقمان کے حوالے سے واضح کیا تو اس مقام پر کھڑے ہو کر انسان کو جو مزید ضرورت ہے‘ انسان اپنے رب سے جو طلب کرے گا‘ اس کی اس طلب کو الفاظ کا جامہ پہنا کر اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفاتحہ کی صورت میں نازل فرما دیا اور اس کو اپنی کتاب کے آغاز میں لگا کر بہت ہی حسین ربط پیدا کر دیا کہ گویا اس طلب کا جواب ہے قرآن مجید۔ فطرتِ انسانی کی پکار پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو اجابت ہوئی ہے وہ ہے یہ کلام پاک‘ وہ ہے یہ صراطِ مستقیم‘ وہ ہے یہ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(۲) کہ جس کو لےکر یہ قرآن مجید نازل ہوا۔
سورۃ الفاتحہ کے مختلف نام
اس ربط کو سمجھنے کے بعد اب مَیں یہ چاہوں گاکہ اس سورہ مبارکہ کےبارے میں چند بنیادی باتیں بیان کروں۔ سب سے پہلے ملاحظہ کیجیے سورۃ الفاتحہ کےنام۔ عربوں کا یہ مزاج اور ذوق ہے کہ انہیں جس شے سے زیادہ محبت ہوتی ہے اُس کے نام زیادہ رکھتے ہیں ‘ اُس شے کا ہر وقت کے حساب سے ایک نام رکھ لیتے ہیں۔ گھوڑا عربوں کی بڑی قیمتی اور محبوب متاع ہے تو گھوڑے کے لیے سینکڑوں نام ہیں۔ تلوار عربوں کی بڑی قیمتی متا ع تھی تو تلوار کے لیے بھی ہزاروں نام ملتے ہیں۔ اسی طرح سورۃ الفاتحہ کے بہت سارے نام پائے جاتے ہیں۔ ’’الفاتحہ‘‘ اس کا سب سے زیادہ مشہور و معروف اور زبان زدِ خاص و عام نام ہے‘ جو ’’ف ت ح‘‘ مادّہ سے بنا ہے۔ ’’فَتَحَ یَفْتَحُ‘‘ کے معنی ہیں کسی چیز کو کھولنا۔ اسی سے لفظ ’’افتتاح‘‘ ہے ‘لہٰذا ’’الفاتحہ‘‘ کے معنی ہوئے ’’قرآن مجید کی افتتاحی سورت‘‘ (The Opening Surah of the Quran)۔ اس سے قرآن کریم کا افتتاح ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے اس سورت نام سورۃ الفاتحہ ہے۔ اس کا ایک نام ’’الکافیہ‘‘ (۱) یعنی کفایت کرنے والی ہے‘ اس لیے کہ فلسفہ قرآن کالب ِلُباب اس میں موجود ہے۔اس کا ایک نام ’’الشافیہ‘‘ (۲) یعنی شفا دینے والی ہے ‘کیونکہ قرآن مجید اپنے آپ کو شفا قرار دیتا ہے: {وَشِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِلا }(یونس:۵۷) یعنی جو کچھ سینوں کےاندر روگ (بیماریاں) ہیں اُ ن کے لیے یہ شفا ہے۔ تویہ سورت قرآن کے شفا ہونےکے لحاظ سے بھی اُ س کا خلاصہ ہے ‘تو الشافیہ: شفا دینے والی۔ دیگر ناموں کی طرح ایک نام ’’الرقیۃ‘‘ (دم) بھی آیا ہے۔(۳) اس کا ایک بہت اہم نام ہے اُ مّ القرآن(۴): قرآن مجید کے لیے جڑ۔ اساس القرآن: قرآن مجید کےلیے بنیاد۔اس کے لیے ’’اُ مّ الکتاب‘‘ کالفظ تو ایک حدیث میں بھی آیا ہے۔ ’’فاتحۃ الکتاب‘‘کا لفظ بھی حدیث میں آیا ہے: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ))(۵) ’’اُ س شخص کی کوئی نماز نہیں جس نےفاتحۃ الکتاب نہیں پڑھی۔ یہ اس کے بہت سے نام ہیں ۔
رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والی پہلی مکمل سورۃ
دوسری بات یہ جانیے کہ یہ سب سے پہلی مکمل سورت ہے جو نبی اکرم ﷺ پر نازل ہوئی۔ اس سے پہلے متفرق آیا ت نازل ہوئیں۔ سب سے پہلی وحی سورۃ العلق کی پانچ آیات ہیں:
{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(۱) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(۲) اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ (۳) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ(۵)}
اس کے بعد ------ اگرچہ یہ چیز بالکل متفق علیہ تو نہیں ہے ‘البتہ تقریباً جو اجماع سامنے آیاہے وہ مَیں عرض کررہا ہوں ------ دوسری وحی سورۃ القلم یا سورہ نٓ کی پہلی سات آیات پر مشتمل ہے:
{نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَ(۱) مَـآ اَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ(۲) وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍ(۳) وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) فَسَتُبْصِرُ وَیُبْصِرُوْنَ(۵) بِاَیِّکُمُ الْمَفْتُوْنُ(۶) اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ ص وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ(۷) }
پھر تیسری وحی سورۃ المزمل کی ابتدائی سات آیات ہیں:
{یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(۲) نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا(۳) اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا(۴) اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(۵) اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّــیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا(۶) اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا(۷)}
پھر چوتھی وحی سورۃ المدثر کی ابتدائی سات آیا ت ہیں:
{یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(۱) قُمْ فَاَنْذِرْ(۲) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳) وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ(۴) وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ(۵) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ(۶) وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ(۷) }
پانچویں وحی یہ سورۃ الفاتحہ ہے۔ یہ بھی سات آیات پر مشتمل ہے اوریہ پہلی مکمل سورت ہے۔ اس سے پہلے جو آیات وحی کی صورت میں نازل ہوئی ہیں وہ ان سورتوں کی ابتدائی آیات ہیں۔ سورۃ العلق کی پانچ‘سورۃن کی سات‘ سورۃ المزمل کی سات ‘ سورۃ المدثر کی سات اورپھر سورۃ الفاتحہ کی سات آیا ت ہیں۔ دلچسپی کے لیے اور یا درکھنے کے لیے یہ سہولت ہوجائے گی‘ پانچ سے شروع ہوئے تھے‘ پھر پانچ پر چلے جائیے۔ چھٹی وحی سورۃ اللہب ہے:
{تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَہَبٍ وَّتَبَّ(۱) مَـآ اَغْنٰی عَنْہُ مَالُہٗ وَمَا کَسَبَ(۲) سَیَصْلٰی نَارًا ذَاتَ لَہَبٍ(۳) وَّامْرَاَتُہٗ ط حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ(۴) فِیْ جِیْدِہَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ(۵)}
یہ بھی پانچ آیات پر مشتمل ہے۔
عظیم ترین نعمت ِخداوندی
اس سورئہ مبارکہ کے بارے میں تیسری بات جانیے کہ اس کی عظمت کو خود قرآن کریم نے ایک مقام پر نہایت شاندار طور پر بیان کیا ہے۔ سورۃ الحجر میں نبی اکرم ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاگیا :اے نبیﷺ! کافروں اور مشرکوں کو جو ہم نے بہت سی دولت‘ سرمایہ اوردنیاوی حیثیت دی ہوئی ہے آپؐ کا قلب ِ مبارک اس سے قطعا ً کوئی تأثر قبول نہ کرے‘ آپ ؐکی نگاہ بھی ان کی طرف نہ اُٹھے۔
{ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَا بِہٖ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ } (آیت۸۸)
’’آپ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں اس مال و متاع کی طرف جو ہم نے ان کے مختلف گروہوں کو دے رکھا ہے۔‘‘
آپؐ کی نگاہ میں ان کی وقعت پر ِ کاہ کے برابر بھی نہیں ہونی چاہیے‘ آپ ؐ کوتو ہم نے وہ دولت دی ہے کہ جس کی دنیا کی کوئی دوسری نعمت برابری کا تصور نہیں کرسکتی:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(۸۷) } (الحجر)
’’اور ہم نے آپ کو دی ہیں سات باربار پڑھی جانے والی آیات اور عظمت والا قرآن۔‘‘
یہ سورۃ الفاتحہ کی سات آیات ہیں۔یہ جان لیجیے کہ یہ کسی کا اجتہادی قول نہیں ہے‘ بلکہ حضور ﷺ کی حدیث ہے‘ سورۃ الفا تحہ کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا :
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیُّ وَالْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ الَّذِیْ اُوْتِیْتُہٗ)) (۶)
’’سورۃ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہی ’’سبع مثانی‘‘ اور ’’قرآن عظیم‘‘ ہے جو مجھے عطا ہوئی ہے۔‘‘
اللہ ربّ العزت نے آپ ﷺ کو اتنی بڑی دولت دی ہے‘ اتنی بڑی نعمت دی ہے کہ کل دنیا ومافیہا اور اُس کی تما م نعمتیں ان کے مقابلے میں ہیچ ہیں۔لفظ ’’مثانی‘‘ ثنا سے بنا ہے‘ تثنیہ بھی اسی سے بنا ہے۔ ثنا کہتے ہیں کسی کے وصف کو اُ س کی طرف لوٹانا۔آپ نے کسی کے حسن کی تعریف کی‘ گویا آپ نے اُس کے وصف کو اُس کی طر ف لوٹادیا۔کسی کو یوں کہیے کہ وہ بہت فراخ دل ہے‘ سخی ہے‘اس میں سخاوت پائی جاتی ہے‘ آپ نے اُس کی سخاوت کی تعریف کی تو گویا آپ نے اُ س کےوصف کو اُ س کی طرف لوٹادیا۔ اس کو ثنا کہتے ہیں۔ دراصل عربی زبان میں ثاء‘ نون اور یاء کا مادہ لوٹانے کے لیے‘ دہرانے کے لیے آتا ہے‘تو ’’مثانی‘‘ دہر ائی جانےوالیا ں‘ اس لیے کہ نماز کی ہر رکعت میں یہ سات آیات پڑھتے ہیں۔دن رات میں‘ ایک مسلمان کئی مرتبہ نماز میں ان سات آیات کا ورد کرتا ہے:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ(۸۷) } (الحجر)
’’(اے نبیﷺ!) ہم نے آپ کو سات دہرائی جانے والی آیات عطا فرمائی ہیں اور قرآن عظیم عطا فرمایا ہے۔‘‘
اس قرآن عظیم کے بارے میں بھی حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس سے مراد بھی سورۃ الفاتحہ ہی ہے۔ یہ اپنی جگہ مجسم قرآن ہے‘ مکمل قرآن ہے‘ قرآن عظیم ہے۔ یہ سورۃ الفاتحہ کی ثنا ہے جو اللہ تعا لیٰ خود فرمارہا ہے‘ جس کا یہ کلام ہے۔
حضور ﷺ کی زبان سے مزید سن لیجیے۔ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک انصاری صحابی ہیں‘ اُ ن کا ایک خاص وصف خود حضور ﷺ نے یہ فرمایا:((أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللّٰهِ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ))(۷) یعنی تمام صحابہ ؓ کی جماعت میں قرآن کی قراءت سے سب سے زیادہ واقف اُبی بن کعب ہیں۔حضور ﷺ کا انداز ِ تعلیم وتربیت بڑا فطری تھا۔ آپؐ سوال کیا کرتے تھے تاکہ جو طالب ِ علم ہےوہ خو دمتوجہ ہوجائے‘ غور کرے‘ اُ س کی خوابیدہ صلاحیتیں بیدا رہوجائیں۔ آپ ﷺ نے اُبی بن کعب سے سوال کیا: ’’کیا مَیں تمہیں وہ سورت تلقین نہ کروں جس کے مثل نہ تورات میں نازل ہوئی ‘ نہ انجیل میں نازل ہوئی اور نہ خو د قرآن میں اس کی کوئی نظیر ہے؟‘‘ حضر ت اُبی ؓنے فوراً کہا: بَلیٰ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ’’حضورﷺ کیوں نہیں !‘‘ ضرور فرمائیے! اب آپﷺ نے دوسرا سوال کیا : ((کَیْفَ تَقْرَأُ فِی الصَّلَاۃِ؟))’’اچھا تم مجھے یہ بتاؤ کہ نماز میں تم کیاپڑھتے ہو ؟‘‘ اُبی بن کعب ؓ نے سورۃ الفاتحہ پڑھی تو حضور ﷺ نے فرمایا:
((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا، وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُهُ))(۸)
’’اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے‘ اس سورت کےمثل نہ تورات میں نازل ہوئی‘ نہ انجیل میں‘ اور نہ خو د قرآن میں اس کے ہم پلہ کوئی سورت ہے۔ یہیسبع مثانی اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا ہوئی ہے۔‘ ‘
یہ بات مَیںنے کئی مرتبہ آپ کو بتائی ہے کہ قرآن مجید میں سورتیں جوڑوں کی صورت میں ہیں۔ آخری دوسورتیں ’’معوذتین‘‘ جوڑا ہیں ‘ سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر جوڑا ہیں‘ لیکن سورۃ الفاتحہ کا کوئی جوڑا نہیں ‘ یہ یکتا ہے‘ بے مثل ہے۔ اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا:’’ جس کی نظیر نہ تورات میں اتری‘ نہ انجیل میں اور خود قرآن میں بھی اس کی مثل موجود نہیں ہے۔‘ ‘
اللہ تعالیٰ کے کلام کی عظمت سے خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اُس کے رسولﷺ سے زیادہ واقف کون ہو سکتا ہے؟ ع قدرِ گوہر شاہ داندیا بداند جوہری ! ’’ہیرے اور موتی کی قدر وقیمت کوئی بادشاہ جانتاہے یا جوہری جانتاہے۔‘ ‘ ایک بے چارہ دہقان کیا جانے گا! وہ شیشے کے ٹکڑے اور ہیرے موتی میں کیا فرق کرے گا! چنانچہ سورۃ الفاتحہ کی عظمت میں نے ان دونوں حوالوں سے بتادی۔
آیت بسم اللہ: سورۃ الفاتحہ کا جزو ہے یا نہیں؟
اب آئیے چوتھی بات کی طرف کہ اس سورئہ مبارکہ کی آیات کی تعداد تو مجمع علیہ ہے‘ کوئی اختلاف نہیں کہ یہ سات آیات ہیں۔ وہ تو ظاہر بات ہے قرآن کی نص ہے {سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِیْ}‘ اس میں کوئی اختلاف ہو ہی نہیں سکتا ۔البتہ اس میں ایک اختلاف یہ ہےکہ بعض ائمہ کرام آیت بسم اللہ کو بھی سورۃ الفاتحہ کا جزو مانتے ہیں ‘ جبکہ اکثر ائمہ آیت بسم اللہ کو اس کا جزو نہیں مانتے۔ ہمارے ائمہ اربعہ میں سے ایک بہت بڑے امام‘ امام شافعیؒ اور فن قراءت کے ائمہ میں سے بھی بعض اس کے قائل ہیں کہ آیت بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھتے ہوں گے کہ بعض لوگ جہری نماز پڑھتے وقت بسم اللہ بھی بلند آواز سے پڑھتے ہیں:{بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِoاَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ}اور جن لوگوں کی یہ رائے نہیں ہے وہ آیت بسم اللہ بلند آواز سے نہیں پڑھتے۔ جن حضرات کے نزدیک آیت بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا جزو ہے وہ {صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo}کو ایک آیت سمجھتے ہیں۔ اس طرح آیات کی تعداد سات ہی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ قرآنی مصحف میں بقیہ تمام آیات کے آخر میں گول آیت کا نشان دیکھیں گے ‘ البتہ اس آیت میں ’’اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ‘‘کے بعد پانچ کا ہندسہ ہوتا ہےاور اس کے نیچے چھ کا عدد لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ چھٹی آیت ہے‘ لیکن چونکہ متفق علیہ نہیں ہےاس لیے آیت کانشان گول دائرہ نہیں لگاتے۔ اس طرح اِن حضرات کے نزدیک {بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo} ایک آیت‘ {اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo} دوسری آیت‘ { الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo} تیسری آیت‘ { مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}چوتھی آیت‘ {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo} پانچویں آیت‘ { اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} چھٹی آیت‘ {صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo} ساتویں آیت بنتی ہے۔
دوسری رائے امام اعظم ابوحنیفہؒ کی ہے اور ائمہ فن میں سے بھی بہت سارے قراء اس رائے کے ماننے والے ہیں ۔ یہ حضرات بسم اللہ کو سورۃ الفاتحہ کا جزو نہیں مانتے۔وہ آیت ضرور ہے لیکن سورۃ الفاتحہ سے علیحدہ ہے ۔ امام ابوحنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ آیت بسم اللہ علیحدہ ہے اور سورۃالفاتحہ شروع ہو رہی ہے {اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo} سے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں چونکہ احناف کی غالب اکثریت ہے‘ جہری نماز جب بھی پڑھی جاتی ہے تو امام قراءت {اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo} سے شرع کرتا ہے۔ بسم اللہ اگر وہ پڑھتا بھی ہے تو خاموشی سے پڑھتا ہے ‘اس کی جہری قراءت نہیں کرتا ۔
مَیں اگرچہ ان معاملات میں اپنی رائے دینا پسند نہیں کرتا ‘جہاں اتنے بڑے بڑے ائمہ کےدرمیان اختلاف ہو‘ اُ س میں ہم جیسوں کو بات کرنا زیب نہیں دیتا‘ لیکن اس میں مجھے ایک حدیث ِ قدسی سے راہنمائی ملی ہےجس کی روشنی میں آیت بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا جزو نہیں ہے۔ یہ حدیث قدسی ہے۔ محمد رسول اللہ ﷺ اس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نقل فرما رہے ہیں۔ اُس میں ایک بات قطعی طورپر سامنے آئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ حدیث امام شافعی ؒ تک نہ پہنچی ہو۔ حدیثوں کی جمع وتدوین میں بڑ ا وقت لگاہے۔ ائمہ فقہاء کے زمانے میںسار ی حدیثیں تو موجود نہیں تھیں۔ اما م مالک ؒ کے پاس وہی احادیث موجود تھیں جو انہوں نے ’’موطا‘‘ میں درج کر دی ہیں تو اس میں کسی پر الزام نہیں دھرا جا سکتا۔ امام ابوحنیفہ ؒ کے زمانے تک بھی بہت کم احادیث جمع ہوئی تھیں۔ اما م احمد بن حنبلؒ ائمہ اربعہ میں سے آخری ہیں ‘ ان کے زمانے میں احادیث کے بڑے ذخیرے جمع ہوچکے تھے۔ چونکہ امام شافعی ؒپہلے زمانے کے ہیں ‘ اس لیے عین ممکن ہے کہ یہ روایت انہیں نہ پہنچی ہو۔ اگر پہنچی ہوتی تو وہ یقیناً یہی رائے قائم کرتے۔ یہ مسلم شریف کی حدیث ہے ‘ معمولی درجے کی روایت نہیں‘ بالکل صحیح ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے راوی ہیں۔ بعد میں ہم یہ حدیث تفصیل سے پڑھیں گے‘ مطالب کےبیان کےضمن میں اسے تفصیل کے ساتھ آپ کے سامنے رکھوں گا‘ اس وقت اس مسئلے کے حل کے لیے رکھ رہا ہوں ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مَیں نے اللہ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ((قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ)) ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مَیں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کردیا ہے۔‘‘ ((وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ))’’اور میرے بندے کے لیے ہے جو اُس نے مانگا‘‘۔ یہ جملہ تو حدیث قدسی ہے۔ یہاں تک تو اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا اور حضورﷺ نے اسے نقل کیا۔ اب حضورﷺ فرما رہے ہیں: ((فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ))’’جب بندہ کہتا ہے :الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ‘‘ ((قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى: حَمِدَنِي عَبْدِي))’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد کی‘‘۔ ((وَإِذَا قَالَ: الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ)) ’’اور جب بندہ کہتا ہے : الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‘‘ ((قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى: أَثْنٰى عَلَيَّ عَبْدِي))’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا کی‘‘۔ ((وَإِذَا قَالَ: مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ))’’اور جب بندہ کہتا ہے: مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ‘‘ ((قَالَ: مَجَّدَنِي عَبْدِي)) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی‘‘((وَقَالَ مَرَّةً: فَوَّضَ إِلَيَّ عَبْدِي))’’اور ایک دفعہ فرمایا: میرے بندے نے اپنے آپ کو میرے حوالے کر دیا۔‘‘((فَإِذَا قَالَ: اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ)) ’’اور جب بندہ کہتا ہے : اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ‘‘((قَالَ: هٰذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ)) ’’اللہ تعالیٰ فرماتاہے: یہ میرے اور میرے بندے کے مابین ہے‘ اور مَیں نے اپنے بندے کودیا جو اُس نے مانگا‘‘((فَإِذَا قَالَ: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ)) ’’اور جب بندہ کہتا ہے : اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ((قَالَ: هٰذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ)) ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ میرے بندے کا حصہ ہے اور میرے بندے کا ہو گیا جو اُس نے مجھ سے مانگا۔‘‘(۹)
یہ حدیث پوری سورۃ الفاتحہ کی شرح ہے اور اس میں آیت بسم اللہ کا ذکر نہیں۔ یہ حدیث ِنبویؐ سے بہت قوی دلیل ہے۔اگر آیت بسم اللہ اس سورۃ کا جزو ہوتی تو اس حدیث کو بسم اللہ سے شروع ہونا چاہیے تھا۔ پھر ابتدا یوں ہوتی: جب بندہ کہتا ہے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم تو اللہ تعالیٰ جواب میں کچھ فرماتا ‘جبکہ اس کا کوئی ذکر نہیں۔ لہٰذا اس حدیث کو اس وقت صرف حوالے کے طور پر نوٹ کر لیجیے کہ بسم اللہ سورۃ الفاتحہ کا حصہ نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ اور ان ائمہ فن قراء ت کی رائے بہت قوی ہے جو آیت بسم اللہ کو سورۃ الفاتحہ کا جزو نہیں سمجھتے۔لیکن اس کے باوجود اس اختلاف کو زیادہ اہمیت نہیں دینی چاہیے۔ اگر ائمہ دین میں سے دوسرے بہت بڑے امام دوسری رائے کے قائل ہیں تو کوئی بات نہیں‘ اور ان کی رائے پر کوئی عمل کر رہا ہے تو اس پر منفی ردّ ِعمل کااظہار نہیں کرنا چاہیے‘ گھبرانا نہیں چاہیے۔ یہ محسوس نہ کریں کہ دوسری رائے رکھنے والے کچھ اور ہو گئے اور ہم کچھ اور ہو گئے‘ بلکہ فرق صرف یہ ہے کہ دونوں کی اجتہادی رائے مختلف ہے۔
لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَا یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ
پانچویں چیز: اس روایت سے دو نتائج نکل رہے ہیں‘ مَیں ان کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔ پہلا یہ کہ ’’الصَّلَاۃ‘‘ اصل نماز یہی سورۃ الفاتحہ ہی ہے۔ حدیث کے الفاظ کیا ہیں؟ ((قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ))’’میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان تقسیم کر لیا ہے۔‘‘کیا معلوم ہوا؟جبکہ نماز میں تو سجدہ بھی ہے ‘ رکوع بھی ہے‘ تشہد بھی ہے‘ جلسہ بھی ہے‘ قعدہ بھی ہے‘ بہت سارے اعمال ہیں۔ اصل نماز سورۃ الفاتحہ ہے‘ یہ نماز کا لب لباب ہے‘ نماز کا خلاصہ ہے‘ نماز کی روح ہے‘ نماز کا جوہر ہے۔ حدیث میں ساری گفتگو سورۃ الفاتحہ کی ہے۔ یہی بات ہے جو حضورﷺ نے بایں الفاظ فرمائی: ((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ)) (۱۰) ’’جس شخص نے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی اُس کی کوئی نماز نہیں ۔‘‘ البتہ یہاں بھی ایک باریک سا اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس میں توکوئی اختلا ف نہیں کہ سورئہ فاتحہ نماز کا جزوِ لازم ہے۔ جب ایک شخص نماز پڑھے گا تو سورئہ فاتحہ کے بغیر اُ س کی کوئی رکعت ہے ہی نہیں۔ البتہ جماعت کی صورت میں اس میں اختلاف ہو جاتا ہے کہ آپ رکوع میں مل گئے تو کیا آپ کی رکعت ہو گئی؟ جبکہ سورئہ فاتحہ تو نہیں پڑھی گئی۔ ایک مسلک یہ کہتا ہے کہ چونکہ سورئہ فاتحہ پڑھنے کا موقع نہیں ملا‘ لہٰذا رکعت شمار نہیں ہو گی‘ جبکہ ایک مسلک یہ ہے کہ آپ رکوع میں امام کے ساتھ شریک ہو گئے تو رکعت شمار ہو گی ۔ نماز کا یونٹ ’’رکعت‘‘ ہے اور یہ رکوع سے ماخوذ ہے ‘چنانچہ جس کو رکوع مل گیا اس کو رکعت مل گئی۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ جب ایک شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تب تو کوئی اختلاف ہے ہی نہیں کہ سورئہ فاتحہ کے بغیر کوئی رکعت نہیں ۔ ایسی رکعت تو ہے کہ جس میں صرف سورئہ فاتحہ ہی ہے‘ اس کے بعد آپ کچھ اور نہیں ملاتے‘ لیکن یہ کہ بغیر سورئہ فاتحہ کے کوئی رکعت نہیں‘ یہ بات متفق علیہ ہے‘ اس میں اختلاف ہی نہیں۔ معلوم ہوا کہ بنیادی بات تو متفق علیہ ہے کہ سورئہ فاتحہ نماز کا جزوِ لازم ہے‘ اختلا ف اُس وقت ہو رہا ہے جب آپ جماعت کی شکل میں نماز ادا کر رہے ہیں۔اس میں ایک رائے یہ ہے کہ اگر آپ نے سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی‘ لیکن رکوع مل گیا‘ تب بھی آپ کی رکعت ہو گئی۔ دوسری رائے یہ ہے کہ رکعت نہیں ہوئی‘ سورئہ فاتحہ لازم ہے‘ اگر پڑھنے کا موقع مل گیا ہے تب تو رکعت ہو گئی وگرنہ رکعت نہیں ہوئی۔
پہلی رائے کے قائل حضرات کے نزدیک اگر آپ امام کے ساتھ ہیں تو امام کی قراءت ہی آپ کی قراءت ہے اور آپ کو اپنی پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ مسلک اس کو ’’وفد‘‘ پر قیاس کر رہا ہے۔ جب ہم جماعت کی شکل میں ہوتے ہیں تو گویا وفد کی صورت میں اللہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ وفد کا ایک ترجمان (spokesman) ہوتا ہے‘ وہ ترجمان جو بات عرض کرتا ہےوہ پورے وفد کی طرف سے شمارہوتی ہے۔لہٰذا امام جب سورئہ فاتحہ پڑھ رہا ہےتو اُس نے گویا تما م مقتدیوں کی طرف سے قراءت کردی۔یہ رائے قائم کرتے ہوئے بہت سی مصلحتیں سامنے آئی ہوں گی۔ فرض کیجیے کوئی ذرا بلندآوازسےپڑھنا شروع کردیتا ہے تو لوگوں کی توجہ منتشر ہوگی۔ اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ باقی لوگ خاموش رہیں ‘ صرف اما م ہی پڑھے۔ یہ امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے ہے‘ حنفی مسلک یہی ہے۔
دوسری رائے یہ ہے کہ جب حضور ﷺ نے فرمادیا کہ ہررکعت کے اندر سورئہ فاتحہ پڑھنا لازمی ہے اور جس شخص نے سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی اُ س کی تو نماز ہی نہیں‘ لہٰذا چاہے آپ امام کے ساتھ ہوں یا اکیلے ہوں ‘آپ کو سورئہ فاتحہ پڑھنی ہوگی‘ امام بھی پڑھ رہا ہے اورآپ بھی پڑھیے۔ یہ دوسری رائےامام شافعی ؒ کی ہے‘ اورہمارے ہاں موجود مسلک اہل حدیث کی بھی یہی رائے ہے۔
تیسری رائے بین بین ہے اور یہ اما م مالک ؒ کی رائے ہے۔ نیز اما م ابوحنیفہ ؒ کے ایک شاگرد اما م ابو محمدؒ کی رائے بھی یہی ہے۔ اُنہوں نے درمیانی راستہ نکالا کہ جب امام جہری رکعت میں بلند آواز سےپڑھ رہا ہو تو تم خاموش رہو اور سنو۔ اس طرح قرآن کے حکم پر عمل کرو: {وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا }(الاعراف:۲۰۴) ’’جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تواس کو توجہ سے سنو اور خاموش رہو۔‘‘ اورجب سری رکعت ہو کہ امام بھی خاموشی سے پڑھ رہا ہے تومقتدی بھی سورئہ فاتحہ پڑھے۔
ہمارے ہاں یہ تین مسالک پائے جاتے ہیں۔ پہلا مسلک یہ ہےکہ جب امام قراءت کررہا ہو تو آپ کو کسی صورت میں بھی نہیں پڑھنی‘ نہ جہری قراء ت والی نماز میں اور نہ سری قراءت والی نماز میں۔ مسلک حنفی کا مشہور قول یہی ہے ۔دوسری رائے یہ ہے کہ ہر صورت میں سورئہ فاتحہ پڑھنی چاہیے‘ خواہ نماز جہری ہو یا سِرّی۔ امام بھی پڑھے اور مقتدی بھی پڑھیں۔ ہمارے ہاں اہل ِحدیث مسلک اسی پر عمل کر رہا ہے ۔ تیسری رائے بیچ بیچ کی ہے جو امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی ہے کہ جو جہری رکعت ہے اُس میں خاموش رہو‘ خود نہ پڑھو بلکہ سنو اورجو سری رکعت ہے اُس میں تم خود بھی پڑھو۔
بہرحال یہ متفق علیہ چیز ہے‘ مجمع علیہ ہے کہ سورئہ فاتحہ نماز کا جزوِ لازم ہے‘ اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔اب یہ کہ جماعت کی شکل میں کیا ہونا چاہیے‘ زیادہ قرین مصلحت کیا ہے‘ قرین عقل کیا ہے‘ حضور ﷺ کے حکم کا تقاضا کیسے پورا ہوگا ؟قرآن کا یہ حکم کہ جب قرآن پڑھا جارہاہوتو توجہ سے سنو اور خاموش رہو‘ اس کا تقاضاکس طرح پورا ہوسکتا ہے؟ اس ضمن میں اجتہادی آرا ء ہیں‘ لہٰذا س سے بددل نہیں ہونا چاہیے‘ سینہ کشادہ رکھنا چاہیے۔ اما م شافعی ؒبھی ہمارے ہی امام ہیں ‘ امام مالک ؒ بھی ہمارے ہی ہیں‘ اما م ابوحنیفہ ؒ بھی ہمارے ہی امام ہیں ‘ امام محمد ؒ بھی ہمارے ہی امام ہیں ‘ امام احمد بن حنبل ؒ بھی ہمارے ہی امام ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے۔
آئندہ صفحات میں اس سورہ مبارکہ کےمضامین کا تجزیہ ہو گا ۔پہلے بحیثیت ِمجموعی اس کا تجزیہ پیش کروںگا‘ اس کےبعد تین علیحدہ علیحدہ حصے معیّن کرکے اس پر تفصیل سے گفتگو ہوگی۔
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
(جاری ہے)
حواشی
(۱) الکافیۃ: مختصراً ابن کثیر، مقدمہ سورۃ الفاتحہ۔
(۲) الشافیۃ: مختصر ابن کثیر، مقدمہ سورۃ الفاتحہ۔
(۳) صحیح البخاری کتاب فضائل القرآن، باب فضل سورۃ الفاتحہ۔
(۴) سنن ابی داوٗد، کتاب الصلاۃ، باب من ترک القراءۃ فی صلاتہ، ح۸۲۰۔
(۵) صحیح البخاری وصحیح مسلم، بحوالہ مشکاۃ المصابیح‘ح۸۲۲۔
(۶) صحیح البخاری، کتاب التفسیر، ح۴۲۰۴ باب قولہ {وَلَقَدْ اٰتَیْنٰکَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِیْ وَالْقُرْاٰنَ الْعَظِیْمَ}
(۷) سنن الترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب معاذ بن جبل و زید بن ثابت و اُبیّ....
(۸) سنن الترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب۔ امام البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ نیز ملاحظہ ہو: سنن ابن ماجہ ح۱۵۴ ومسند احمد ۳ / ۱۸۴ ومشکاۃ المصابیح، ح۴۱۶۔
(۹) صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ۔
(۱۰) صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ، باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، ح۳۹۴۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025