اسلام میں خواتین کامقامڈاکٹر اسرار احمدؒ
خطبہ مسنونہ اورتلاوتِ آیات کے بعد!
مجھے اس وقت قرآن حکیم کی رو سے خواتین کے مقام پر گفتگو کرنی ہے۔ ہمارے ملک میں اس وقت یہ بحث جس طرح چل نکلی ہے وہ آپ کے علم میں ہے ۔ جس طرح کے دو متضاد خیالات اور رجحانات شدومد کے ساتھ ہمارے اخبارات میں پیش ہو رہے ہیں‘ ان سے ہر پڑھا لکھا شخص بخوبی واقف ہے۔ سب سے پہلے تو مجھے ایک اصولی وضاحت کرنی ہے کہ میرا ایک مستقل موقف ہے‘ اسی پر میری عملی جدّوجُہد مبنی ہے۔ چنانچہ میرے کچھ خیالات و نظریات ہیں سماجی مسائل کے بارے میں بھی ‘معاشی مسائل کے بارے میں بھی اور سیاسی مسائل کے بارے میں بھی۔ معاشی مسائل کے حوالے سے میری آراء میں سے کسی ایک کو موضوع بنا کر اگر کوئی مہم چلائی جائے گی تو مجھے اندیشہ ہے کہ موجودہ حالات میں اس کا سارا فائدہ کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں کو پہنچے گا۔ اسی طریقے سے میرے سیاسی نظریات پر اگر کوئی عوامی تحریک اٹھائی جائے تو اس کا سارا فائدہ سیکولر جمہوریت کے قائدین کو پہنچےگا۔ اسی طرح جو سماجی برائیاں ہیں ان میں سے کسی ایک کو موضوع بنا کر کوئی مہم چلانا ‘کوئی تحریک برپا کرنا بھی میرے پیش نظر نہیں ہے۔ میرا مستقل تجزیہ یہ ہے کہ ہماری اصل کمزوری اور تمام برائیوں کی جڑ ہمارا دین سے دور ہو جانا ‘ ہمارے ایمان کا کمزور ہو جانا اورمضمحل ہو جاناہے۔ یہیں سے وہ ساری شاخیں پھوٹتی ہیں۔ چنانچہ مختلف شاخوں کے ساتھ کشتی کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا بلکہ اصل ہدف اس جڑ کو بنانا ہوگا۔
میری جو عملی جدّوجُہد ہے‘ جو بھی حقیر توانائیاں ہیں‘ قوتیں ہیں‘ صلاحیتیں ہیں‘ اوقات ہیں وہ دو کاموں پر صرف ہو رہے ہیں ۔ پہلا کام قرآن حکیم کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر اور اعلیٰ سطح پر پھیلانے اور عام کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اسے دعوت رجوع القرآن کہہ لیں‘ تعلّم و تعلیم قرآن کہہ لیں۔ میری جو مساعی ہے ان میں پیش نظر یہ ہے کہ قرآن ہی اصل میں ایمان کا منبع اور سرچشمہ ہے ۔ ایمان کے اضمحلال‘ ایمان کے ضعف کا ازالہ اگر ہو سکتا ہے تو اسی قرآن کے ذریعے سے ۔جب ایمان پیدا ہو جائے اور اپنے دینی فرائض کا احساس ابھرے تو پھرجدّوجُہد کی دوسری سطح یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو منظم کیا جائے۔ ایک جماعتی شکل اختیار کر کے وہ کوشش کریں کہ اس معاشرے میں یہ دینی تبدیلی پائیدار ‘ محکم بنیادوں پر اور وسیع پیمانے پر برپاہو۔ اس کے لیے تنظیم اسلامی کا قیام ہوا‘جو ابھی ایک بہت ہی مختصر سا قافلہ ہے لیکن بہرحال میری توانائیاں اس میں لگ رہی ہیں۔ لہٰذا یہ دواصل کام ہیں جن میں مَیں لگا ہوا ہوں۔ باقی میرے سارے کام ضمنی ہیں۔ اگر ملک کی مجلس شوریٰ میں شمولیت ہو گئی تو وہ میری ایک ضمنی مصروفیت ہے‘ بنیادی مصروفیت نہیں۔ اس کی گواہی ہر وہ شخص دے گا کہ جو مجھ سے کسی بھی درجے میں واقف ہے۔ ۱۶سال سے اب میں لاہور ہی میں ہوں اور یہاں کا گوشہ گوشہ اور چپاچپا گواہی دے گا کہ میں نے کن کن کونوں کھدروں میں پہنچ کر قرآن مجید کی دعوت پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مطالعہ قرآن کے حلقے قائم کیے ہیں۔بہرحال میرے نزدیک اصلاحی طرز کی جدّوجُہد یا سیاسی طرز کی کوشش سے اقامت ِدین کا فرض ادا کرنا اگر ناممکن نہیں تومحال کے درجے میں ضرور ہے ۔اس کے لیے ایک انقلابی جدّوجُہد کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی امکانی حد تک زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی ہے کہ صحیح اسلامی بنیادوں پر انقلاب برپا ہو۔
دینی اور اخلاقی سطح پر عورت کا مقام
سب سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ از روئے اسلام یا از روئے قرآن عورت کا مقام کیا ہے۔ بالخصوص جو اصل مسئلہ ہے کہ مَرد کے ساتھ مساوات یا عدم مساوات کی کیفیت جو ہمارے دین کا مزاج ہے ‘ ہمارے سامنے آئے۔ جہاں تک دینی اور اخلاقی سطح کا تعلق ہے‘ قرآن اور اسلام کی تعلیمات مَرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں کرتیں۔ نیکی اور بدی کمانے میں ان کا ایک مکمل اخلاقی تشخص ہے۔ مَرد کا اپنا ہے ‘عورت کا اپنا ہے۔ مَرد کوئی نیکی کماتا ہے تو اپنے لیے اوربدی کماتا ہے تو اس کا بوجھ اُس پر ہو گا جبکہ عورت نے اگر کوئی نیکی کمائی ہے تو اپنے لیے اور کوئی غلط کام کیا ہے تو اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا۔ سورۃ التحریم میں یہ مضمون بہت کھل کرآیا ہے کہ عورت کا ایک کامل تشخص ہے‘ وہ دینی یا اخلاقی اعتبار سے مَرد کے تابع نہیں۔ چنانچہ اس سورہ میں یہ اَمر نمایاں کیا گیا کہ بہترین مَردوں کے گھر میں بدترین عورتیں رہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کی مثال دی گئی۔ اگر عورت دینی اور اخلاقی اعتبار سے مَرد کے تابع ہوتی تو حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویاں دینی امور میں ان کی اطاعت کرتیں۔
{ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰــھُمَا} (آیت۱۰)
’’وہ دونوں ہمارے دو بہت صالح بندوں کے عقد میں تھیں تو انہوں نے ان سے خیانت کی ۔‘‘
معلوم ہوا کہ اخلاقی اور دینی اعتبار سے ان کا معاملہ بالکل جدا ہے۔ سورۃ التحریم میں مثال پیش کی گئی کہ حضرت آسیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرعون کے گھر میں تھیں۔ فرعون اللہ کا دشمن ‘اللہ کا باغی لیکن اس کی بیوی ایک نیک اور خدا پرست خاتون ۔معلوم ہوا کہ دینی اور اخلاقی پہلوئوں کے اعتبار سے عورت مَرد کے تابع نہیں ہے ۔عورت کا ایک کامل اخلاقی اور دینی تشخص ہے۔ سورئہ آل عمران کے آخری حصے میں فرمایا گیا :
{اَنِّیْ لَا اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی ج بَعْضُکُمْ مِّنْۢ
بَعْضٍ ۚ} (آیت ۱۹۵)
’’کہ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کے کسی بھی عمل کو ضائع کرنے والا نہیں ہوں‘ خواہ وہ (عمل کرنے والا) مَرد ہو یا عورت ۔ تم سب ایک دوسرے ہی میں سے ہو ۔‘‘
یہ تمدن کی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ ان کی جسمانی ساخت مختلف ہے‘ نفسیاتی ساخت مختلف ہے۔ ایسا تمدنی ضرورت کے تحت ہے ۔انسان ہونے کے ناطے اگرچہ وہ بالکل مساوی ہیں ‘تاہم دینی اور اخلاقی اعتبار سے دونوں کا تشخص جداگانہ ہے۔ وہ اپنی اپنی شخصیت کے خود ذمہ دار ہیں ۔یہ بات سورۃ الاحزاب کی ایک آیت میں بڑے ہی پیارے انداز میں آئی ہے‘ جو قرآن مجید کی بڑی طویل آیت ہے۔ فرمایا گیا:
{اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِیْنَ اللہَ کَثِیْرًا وَّالذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللہُ لَہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا(۳۵)}
’’یقیناً مسلمان مَرد اور مسلمان عورتیں‘ اور مؤمن مَرد اور مؤمن عورتیں‘ اور فرماں بردار مَرد اور فرماں بردار عورتیں‘ اور راست باز مَرد اور راست باز عورتیں‘ اور صبر کرنے والے مَرد اور صبر کرنے والی عورتیں‘ اور خشوع کرنے والے مَرد اور خشوع کرنے والی عورتیں‘ اور صدقہ دینے والے مَرد اور صدقہ دینے والی عورتیں‘ اور روزہ رکھنے والے مَرد اور روزہ رکھنے والی عورتیں‘ اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مَرد اور (اپنی شرم گاہوں کی) حفاظت کرنے والی عورتیں‘ اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مَرد اور ذکر کرنے والی عورتیں‘ اللہ نے ان سب کے لیے مغفرت اور بہت بڑا اجر تیّار کر رکھا ہے۔‘‘
مطلب یہ کہ دینی ‘ اخلاقی‘ روحانی لحاظ سے جتنے بھی مقامات ہیں‘ اعلیٰ مدارج ہیں ان میں کوئی روک نہیں ہے کہ عورت وہاں نہ پہنچ سکتی ہو یا وہ کسی کمتر درجے کی حامل ہو ‘بلکہ ان پہلوئوں سے اس کا تشخص کامل ہے اور وہ مَرد کے ساتھ کامل مساوات رکھتی ہے ۔
لفظ ’’کسب‘‘ کی تشریح
اسی طرح سورۃ النساءمیں فرمایا گیا:
{لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط}
(آیت ۲۵)
’’مَردوں کے لیے حصّہ ہے اس میں سے جو وہ کمائیں ‘اور عورتوں کے لیے حصّہ ہے اس میں سے جو وہ کمائیں۔ ‘‘
یہ بھی درحقیقت اسی اخلاقی اور دینی سطح کا موضوع ہے جو اس آیت میں زیر بحث آیا ہے۔ اس آیت کو خاص طو رپر یہاں اس لیے quote کیا گیا ہے کہ ہماری کچھ بہنیں اس سے بڑے مغالطے میں پڑ گئی ہیں کہ یہاں لفظ ’’کسب‘‘ چونکہ مَردوں اور عورتوں دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے‘ اس کے معنی یہ ہوئے کہ عورت بھی اسی طرح کما سکتی ہےجیسے ایک مَرد کما سکتا ہے۔ جان لیجیے کہ قرآن مجید میں لفظ ’’کسب‘‘ اکثر و بیشتر نیکی یا بدی کمانے کے لیے آیاہے ۔اس دنیا میں رزق کے معاملے کو تو قرآن ’’فضل‘‘قرار دیتا ہے کہ یہ اللہ کا فضل ہے‘ تمہاری کمائی نہیں ہے۔ محنت تم کرتے ہو‘ مشقت تم کرتے ہو لیکن جو کچھ تمہیں ملتا ہے اسے کبھی یہ نہ سمجھنا کہ یہ میری محنت اور مشقت کا حاصل ہے بلکہ یہی سمجھنا کہ یہ اللہ کافضل ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ تم محنت کیے جاؤ اور ہاتھ کچھ بھی نہ آئے!یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ذہین اور فطین انسان سونے میں ہاتھ ڈالتا ہے اور وہ راکھ بن جاتا ہے ۔ اس کے برعکس ایک عام شخص مٹی میں ہاتھ ڈالتا ہے تو وہ سونا بن جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ‘رزق کی کشاد گی اورتنگی اُسی کی جانب سے ہے ۔ یہ اصل میں فضل ہے۔ میرے علم کی حد تک قرآن مجید میں کمائی کے معنی میں کسب کالفظ صرف ایک مرتبہ آیا ہے اور وہ سورۃالبقرۃ کا وہ مقام ہے جہاں انفاق فی سبیل اللہ پر زور دیا گیا ہے:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ.....}(آیت۲۶۷)
’’اے ایمان والو! اپنے کمائے ہوئے پاکیزہ مال میں سے خرچ کرو.....‘‘
لفظ ’’کسب‘‘ دونوں معنی میں آ جاتا ہے‘ نیکی کمانے میں بھی اور بدی کمانے میں بھی‘ تاہم اکتساب کا لفظ عام طور پر صرف بدی کمانے کے لیے آتا ہے۔ یہاں بھی درحقیقت اخلاقی اور دینی اعتبار سے یہ بات کہی گئی ہے کہ مَردوں کے لیے وہ ہے جو مَردوں نے کمائی کی اور عورتوں کے لیے وہ ہے کہ جو عورتوں نے کمایا۔مَردوں کی نیکی ہے تو وہ ان کے لیے ہے ‘اس سے عورتوں کو فائدہ نہیں ہو جائے گا جبکہ عورتوں کی کوئی نیکی ہے تو وہ ان کے لیے ہے ‘وہ مَردوں کے حساب میں درج نہیں ہو جائے گی۔
یہ بھی نوٹ کیجیے کہ { نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط } کے الفاظ ہیں‘ ورنہ دنیاوی کمائی کے لیے یہ ہوتا تو’’ نَصِیب‘‘ نہیں‘ پھر توپوری کمائی ہے۔ اگرپچاس روپے یومیہ کی دیہاڑی کسی مَرد نےکی ہے تو پچاس روپے پورے ملیں گے‘ نَصِیْبٌ مِّنْہُ نہیں ملیں گے کہ اس کا ایک جزو ملے۔ چنانچہ یہاں جو اسلوب اختیار کیا گیاہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ انسان جو نیکی کماتا ہے‘ ضروری نہیں ہے کہ اسی مقدار میں اس کا بدلہ بھی مل جائے۔ ہوسکتا ہے کہ حسن نیت میں کہیں کوئی کمی ہو‘ لہٰذا اس کا اجر کم ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ اخلاص پورا ہو تو اسے اس کا اجر زیادہ مل جائے۔ لہٰذا یہ معاملہ {لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط} اخلاقی کمائی اور دینی اعمال کے لیے ہے‘ نہ کہ دنیاوی کمائی جس کے حوالے سے ہم عام طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے ہیں۔
عورت کا قانونی تشخص
غور کیا جائے تو تاریخ انسانی میں شاید پہلی مرتبہ اسلام نے عورت کو قانونی تشخص عطا کیا ‘ لیگل سٹیٹس دیا ۔اس کی ایک قانونی حیثیت ہے‘ وہ ملکیت رکھ سکتی ہے ۔ یہ قانونی تشخص جس درجے میں اسلام نے عورت کو دیا ہے ‘میرے علم میں نہیں ہے کہ کسی اور مذہب میں عورت کا وہ تشخص تسلیم کیا گیا ہو یا اسے دیا گیا ہو۔روحانی اعتبار سے تو ہمیشہ سمجھا گیا ہے کہ عورت شر کی بنیاد ہے‘ یہ گندگی کی پوٹلی ہے۔ کہتے ہیں کہ evil کا لفظ Eve سے بنا ہے ‘یعنی حضرت حوا۔ یہ تصور عیسائیت کا ہے لیکن اسلام کا تصور یہ نہیں ہے۔ اس نےعورت کو بھرپور قانونی تشخص دیا ہے۔
البتہ جو لوگ بھی قرآن کی پیروی کرنا چاہتے ہیں وہ نوٹ کریں کہ قانونی سطح پر مَرد اور عورت کو برابر نہیں رکھا گیا۔ اخلاقی اور دینی سطح پر کامل مساوات ہے لیکن قانونی سطح پر ایسا نہیں ہے۔قرآن مجید سے دو باتیں تو بالکل ایسی ثابت ہیں کہ جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ نمبر ایک یہ کہ اسلام نے بیٹیوں یا بیویوں کو وراثت کے اندر حصّہ دیا ہے لیکن یہ مَردوں کے برابر نہیں ۔بیٹی کا حصّہ بیٹے سے آدھا‘ ماں کا حصّہ باپ سے آدھا ۔ کون شخص ہے کہ جو قرآن کا ماننے والا ہو‘ قرآن پر ایمان رکھتا ہو اور کسی درجے میں قرآن سے واقف ہو اور یہ نہ جانتا ہو کہ کس قدر تفصیل سے قانونِ وراثت قرآن مجید میں آیا ہے ۔ وہاں پر عورت کو وراثت میں جو حق دیا گیا ہے وہ مَرد سے آدھا ہے۔ ا س کا سبب کیا ہے؟ چونکہ معاشی کفالت کا بوجھ اسلام مَرد پر ڈالتاہے‘ لہٰذا اسے وراثت میں بھی دوہرا حصّہ دیا۔ بیٹی کو جو کچھ ملے گا وہ بیوی کی حیثیت سے لے کر کسی شوہر کے گھر چلی جائے گی اور اس کی اپنی کفالت بھی اس شوہر کے ذمہ ہے۔ لہٰذا یہ اب اس کی ایک پرسنل پراپرٹی کی حیثیت سے رہے گی ۔اسے اپنے شوہر کی کفالت نہیں کرنی ہے بلکہ وہ خود شوہرکے ذمے ہے ۔البتہ بیٹے کو آگے اپنے خاندان کی کفالت کرنی ہے۔ لہٰذا یہ بالکل منطقی طور پر جڑی ہوئی اور مربوط چیزیں ہیں کہ بیٹی کو حصّہ بیٹے کی نسبت سے آدھا دیاجائے گا۔
اسی طریقے سے قانون میں شہادت بڑی اہمیت رکھنے والی چیز ہے۔ اس حوالےسے بھی سورۃالبقرۃ کے آخری حصے میں ایک مَرد کے مقابلے میں دو خواتین کی گواہی برابر شمار کی گئی ہے۔ یہ صراحتاً مذکور ہے‘ اور یہ بھی بلا سبب نہیں ہے ۔قرآن نے وہیں بیان کیا کہ ’’ان میں سے اگر ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے۔‘‘ نسیان مَرد کو بھی لاحق ہو سکتا ہے‘ بھول مَرد بھی سکتا ہے لیکن قرآن مجید کا یہ انداز بتا رہا ہے کہ نسیان کا زیادہ امکان عورت کے معاملے میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ساخت ایسی بنائی ہے۔
{ اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ط وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ(۱۴)} (الملک)
’’کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے؟ اور وہ بہت باریک بین ہے‘ ہر شے کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
اس نے عورت کے مزاج میں جذبات کا عنصر غالب رکھا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ’’نہ ہر زن زن است ونہ ہر مَرد مَرد‘ خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد!‘‘ ہوسکتا ہے بہت سے مَرد عورتوں سے زیادہ جذباتی ہوں اور بہت سی عورتیں مَردوں کی نسبت زیادہ کول مائنڈڈ ہوں۔ لیکن یہ exceptions ہوں گی ۔ جو ایوریج نکالیں گے تو معلوم ہوگا کہ مَرد زیادہ متحمل مزاج ہے جبکہ عورت کے اندر جذبات کا عنصر زیادہ ہے۔ یہ بھی درحقیقت فطرت نےجو فرائض منصبی اس کے حوالے کیے ہیں ان کے ساتھ مناسبت رکھنے والی چیز ہے۔ اس اعتبار سے عورت کے معاملے میں نسیان کا زیادہ امکان ہے بنسبت مَرد کے۔ لہٰذاہمارے ہاں گواہی کا نصاب یا تو دو مَرد ہیں۔ اگر ایک مَرد ہے تو ساتھ دو عورتیں گواہ ہوں تو وہ نصاب پورا ہو سکے گا۔ گویا اسلامی قانون میں عورت کی گواہی کو مَرد کی گواہی سے آدھارکھا گیا ہے ۔چنانچہ یہ عورت پر اسلام کا بہت بڑا احسان ہے کہ اسے قانونی تشخص دیا گیا ہے لیکن یہ مَرد کے مساوی نہیں ہے بلکہ اس میں کچھ فرق ہے۔
عورت بحیثیت ماں
عورت کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ماں ہے۔ اس معاملے میں تو واقعہ یہ ہے کہ ماں کے ساتھ جس قدر احترام اور حسن سلوک کا حکم قرآن مجید اور احادیث نبویہؐ میں آیا ہے‘ شاید ہی کہیں اس کی نظیر ملے۔ سورئہ بنی اسرائیل ‘ سورۃ الانعام ‘ سورۃ النساء ‘ سورئہ لقمان میں اللہ تعالیٰ کے حق کے فوراً بعد جو ذکر ہوتا ہے وہ والدین کے حق کا ہے:
{وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاط }
(بنی اسرائیل: ۲۳)
’’اور فیصلہ کر دیا ہے آپؐکے رب نے کہ مت عبادت کرو کسی کی سوائے اُس کے ‘اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو۔‘‘
والدین میں جب نسبت دیکھتے ہیں قرآن اور حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ حسنِ سلوک کے حوالے سے والدہ کا حق والد کے مقابلے میں کم سے کم تین گنا ہے۔ چنانچہ سورئہ لقمان میں جب فرمایا کہ {وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ج } ’’ہم نے انسان کو تاکید کی ہے اُس کے والدین کے بارے میں‘‘ تو اس کے فوراً بعد ماں کا ذکر ہے:
{حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴)}
’’اُس کو اٹھائے رکھا اُس کی ماں نے (اپنے پیٹ میں) کمزوری پر کمزوری جھیل کر‘ اور اُس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں‘ کہ تم شکر کرو میرا اور اپنے والدین کا! اور میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہو گا ۔‘‘
ماں نے یہ جو خاص مشقت جھیلی ہے اور حمل‘ پیدائش‘ رضاعت اور تربیت کے حوالے سے جو خاص تکلیفیں اٹھائی ہیں اس کے اعتبار سے وہ حسنِ سلوک میں باپ کے مقابلے میں تین درجے مقدم ہے۔ یہ تین کا لفظ حدیث میں آگیاہے۔ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک صحابی نے پوچھا: ((مَنْ اَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ؟))’’تمام انسانوں میں میرے حسن سلوک کا اولین مستحق کون ہے؟‘‘ حضورﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں!‘‘ انہوں نے پھر سوال کیا: ان کے بعد کون؟ آپﷺ نے پھر فرمایا: ’’تیری والدہ!‘‘ تیسری مرتبہ پھر پوچھا: ان کے بعد کون؟ حضورﷺ نے پھر فرمایا: ’’تیری والدہ!‘‘ چوتھی مرتبہ پوچھا: ان کے بعدکون؟ تو فرمایا: ’’تیرے والد‘‘۔ (متفق علیہ)یہاں نبی اکرمﷺ نے قرآن حکیم کی اس آیت میں جو بات مضمر تھی اس کو کھول دیا۔ یہ تو آپﷺ کا فرض منصبی ہے کہ قرآن میں لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے جو بھی نازل کیا گیا‘ اسے آپؐ کھول کر بیان کریں: {لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ} (النحل:۴۴)۔ لہٰذاحسن سلوک کے اعتبار سے والدہ تین درجے مقدم ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ((الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ)) ’’جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔‘‘
اس کو ہمیں objectively سمجھنا چاہیے کہ اسلام کا منشا کیا ہے۔ اسلامی قانون کا رجحان کیا ہے‘ میلان کیا ہے۔ قانونی اعتبار سے اولاد باپ کی ہے‘ ماں کی نہیں ۔ اگر علیحدگی ہو جائے‘ طلاق ہو جائے تو اولاد پر والدہ کا کوئی قانونی کلیم نہیں ہے۔ سورۃ البقرہ میں جہاں رضاعت کے بڑے تفصیلی احکام آئے ہیں‘بتایا گیا ہے کہ طلاق کے بعد اگر بچہ شیرخوار ہے تو یہ باپ کی مرضی پر ہے کہ وہ چاہے تو اس ماں سے اسے دودھ پلوائے جس کو طلاق دی گئی ہے۔ چنانچہ قانون کا معاملہ یہ ہے کہ اس میں اولیت ‘اقدمیت ‘ افضلیت باپ کی ہے جبکہ حسن سلوک اور ادب واحترام میں اس کو بیلنس کیا گیا ہے کہ تین درجے ماں کو مقدّم رکھ دیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ ان چیزوں پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ قانون اللہ ہی کا دیا ہوا ہے ۔عقل انسانی اس طرح کے معاملات کو حل نہیں کرسکتی۔ قانونی اعتبار سے مَرد کو اگر تفوق نہ دیا جائے تو خاندانی نظام میں گڑبڑ ہوتی ہے جبکہ مقصود اس نظام کو مضبوط رکھنا ہے ۔اگر قانونی اعتبار سے کسی کو زیادہ اختیار دے دیا گیا ہے تو اخلاقی سطح پر اس کی تلافی کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ لہٰذا یہ نظام کسی حکیم مطلق ہستی ہی کا تجویز کردہ ہو سکتا ہے ‘انسان کے بس کی بات نہیں۔ اس معاملے میں ہماری بہنوں کو خاص طور پر یہ سوچنا چاہیے کہ جوانی کے بعد بڑھاپا بھی آنے والا ہے۔ اگر مغربی تہذیب سے اتنی شیفتگی ہے اور اس کی اتنی دلدادگی ہو گئی ہے تو انہیں مغرب میں جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں والدین کا حشر کیا ہوتا ہے‘ ان کا بڑھاپاکس حال میں گزرتا ہے۔ اس معاشرے میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی رمق نہیں رہی۔ والدین ترستے رہتے ہیں کہ کبھی ان کی اولاد آ کر مل لے‘ انہیں شکل ہی دکھا دے۔ حکومتی سطح پر ان کے لیے اہتمام ہے کہ بوڑھوں کے لیے علیحدہ ادارے قائم کر دیے گئے۔ وہاں ٹیلی ویژن بھی ان کے لیے موجود ہے ‘لیکن ٹیلی ویژن کا دیکھنا اور شے ہے جبکہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو دیکھنا بالکل اور شے ہے جس کے لیے وہ ترستے اور تڑپتے رہتے ہیں ۔ اگر اس تہذیب کو بحیثیت کُل اختیار کرنا ہے تو پھر ان نتائج کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے ‘ اوروہ نکل کر رہیں گے ۔ جو بھی اس کے نتائج نکلے ہیں ان کو ہم جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں‘ بچشم ِسر اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔یہ ایسی کوئی علمی و نظری بات نہیں ہے کہ جس کو verifyنہ کیا جا سکے۔
عورت بحیثیت بیٹی
اسی طریقے سے بیٹی کی حیثیت سے اسلام نے جو مقام دیا ہے‘ اس کے حوالے سے ذرا عرب کا ماحول ذہن میں لایئے کہ جہاں بیٹی کی پیدائش کے بعد باپ اپنا چہرہ چھپائے پھر رہا ہے‘ شرمندہ ہے ۔لوگوں کے سامنے آنہیں سکتا جب تک کہ وہ اس بیٹی کو کہیں کسی گڑھے میں جا کر دفن نہ کر آئے ۔قرآن حکیم میں قیامت کی ہولناکیوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہ بھی فرمایا گیا ہے:
{وَاِذَا الْمَوْئٗ دَۃُ سُئِلَتْ(۸) بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ(۹)}(التکویر)
’’اور جب زندہ دفن کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا ‘کہ وہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی تھی؟ ‘‘
اسلام نے آ کر اس صورت حال کو بدلا۔اس وقت چونکہ اختصار سے کام لینا ہے‘ صرف ایک حدیث پر اکتفا کر رہا ہوں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
((مَن عالَ جارِيَتَيْنِ حتَّى تَبْلُغا جاءَ يَومَ القِيامَةِ أنا وَهُوَ، وضَمَّ أصابِعَهُ)) (صحیح مسلم: ۲۶۳۱)
’’ جس شخص نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئیں‘ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ مَیں اور وہ اس طرح (ساتھ ساتھ) ہوں گے (جیسے کہ یہ انگلیاں جڑی ہوئی ہیں) حضورﷺ نے اپنی انگلیوں کوجوڑ کر بتایا۔‘‘
اگر کوئی شخص پوری خوش دلی کے ساتھ‘ محبت کے ساتھ‘ شفقت کے ساتھ بچیوں کی پرورش کر رہا ہے تو اس کا اجر و ثواب ہے۔ اور بھی بہت سی حکمتیں ہوں گی‘ اس وقت ان کا استحصاء مقصود نہیں ہے‘ لیکن یہ بھی حکمت نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کو بیٹیاں دیں۔ چار بیٹیوں کا باپ بنایا‘چاروں کو حضورﷺ نے محبت اور شفقت کے ساتھ پالا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آتی تھیں تو حضورﷺ کھڑے ہو جاتے تھے‘ ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے تھے‘ ان کے لیے اپنی جگہ چھوڑ دیتے تھے۔ بیٹیوں کایہ احترام محمد رسول اللہﷺ نے کر کے دکھایا ہے۔ یہ بھی ایک حکمت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ لوگوں کے سامنے یہ نمونہ آئے کہ اگر بیٹی کا باپ ہونا کسی درجے میں بھی باعث شرم ہوتا تو کیا اللہ تعالیٰ اپنے حبیبﷺ کو بیٹیاں عطا کرتا؟ اُس وقت کے لوگوں نے تو طعنے دیےتھے جب حضورﷺ کے صاحب زادے کا انتقال ہوا۔ کہا گیا کہ یہ ابتر ہو گئے ہیں‘ ان کی تو جڑ کٹ گئی۔ اب ان کا نام لینے والا کوئی نہیں رہے گا۔ اس پر پھر وہ وعید آئی :
{اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَالْاَبْـتَرُ(۳)} (الکوثر)
اے نبیﷺ! ابتر تو یہ لوگ ہوں گے جو آپ کے دشمن ہیں۔آپ کی تو معنوی اور روحانی اولاد اتنی ہوگی کہ وہ آسمان کے تاروں اور زمین میں ریت کے ذروں کی طرح گنی نہ جاسکے گی۔چنانچہ جن لوگوں نے طعنے دیے تھے‘ ان کا کوئی نام لیوا باقی نہ رہا۔ حضورﷺکی پوری زندگی شاہد ہے کہ بیٹیوں سے آپؐ کو جو محبت تھی‘ جو انس تھا‘ جس طرح شفقت کے ساتھ آپ ﷺنے انہیں پالا ہے۔
عورت بحیثیت بیوی
عورت کی تیسری حیثیت بیوی ہونے کے اعتبار سے ہے۔ جس طرح والدہ اور والد کے درمیان حسن سلوک کا معاملہ ایک طرف اور قانون کا معاملہ دوسری طرف ہے‘ یہی معاملہ ہمیں شوہر اور بیوی کے درمیان اسلام کے عائلی نظام میں نظر آتا ہے۔ قانونی اعتبار سے مَرد کو غلبہ دیا گیا ہے۔ میں جان بوجھ کر لفظ حاکمیت استعمال کر رہا ہوں کہ اسے حاکم بنایا گیا ہے:
{اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ } (النساء:۳۴)
’’مَرد حاکم ہیں عورتوں پر۔‘‘
البتہ اخلاقی سطح پر اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کی انتہائی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا :
((الدُّنْيَا مَتَاعٌ ، وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ))
(صحیح مسلم: ۳۶۴۹)
’’دنیا متاع (کچھ وقت تک کے لیے فائدہ اٹھانے کی چیز) ہے ‘اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔‘‘
دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں انسان کو عطا کی ہیں ان میں بہترین نعمت نیک عورت ہے۔ اگر مَردوں نے عورتوں پر ظلم روا رکھا ہے ‘زیادتی کی ہے ‘ ان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی ہے ‘ان کے اس قانونی تشخص کو کچلا ہے‘ ان کے اخلاقی حقوق جو اللہ نے دیے ہیں ان کی رعایت نہیں کی ہے اوراس کی وجہ سے اگر خواتین میں ردّ ِعمل پیدا ہوا تو اس برائی کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کے ہاں ان لوگوں پر آئے گی کہ جو اس رویے کو اختیار نہیں کر رہے ہیں کہ جو شریعت نے دیا ہے۔
مَرد کی قوامیت
البتہ اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ جہاں تک قانونی حیثیت کا تعلق ہے‘ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ خاندان کے ادارے کو مستحکم کرنے کے لیے اسلام نے مَرد کی برتری اور اس کی قوامیت کو بڑے واشگاف الفاظ میں بیان کیا۔اس سطح پر آ کر مَرد اور عورت ہرگزمساوی نہیں ۔ ان کا مساوی ہونا عقل کے خلاف بھی ہے۔ اس لیے کہ خاندان کا ادارہ ایک انتظامی یونٹ ہے اور کسی بھی انتظامی یونٹ میں بالکل مساوی اختیارات والےدو سربراہ نہیں ہو سکتے۔ یہ ناممکن ہے۔ آپ پورے انسانی تمدن کا جائزہ لے لیجیے‘ کہیں چھوٹے سے چھوٹا ادارہ ایسا نہیں مل سکتا جس کے سربراہ دو ہوں اور وہ بالکل مساوی اختیارات والے ہوں۔ لہٰذا اگر تو یہ پیش نظر ہو جیسا کہ اسلام کا نظام چاہتا ہے کہ خاندان کے ادارے کو مستحکم کیا جائے‘ مضبوط بنایا جائے تو اس میں ایک کو برتری دینی ہوگی قانونی اعتبار سے‘ اختیارات کے اعتبار سے۔ اس کے بغیر وہ ادارہ مستحکم نہیں ہو سکتا۔ قرآن مجید اس کو واضح کرتا ہے کہ خاندان کے ادارے میں دو بنیادوں اور دو اساسات پر یہ برتری مَرد کو حاصل ہے:
{وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۠ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ۭ}
(البقرۃ: ۲۲۸)
’’اور عورتوں کے لیے اسی طرح حقوق ہیں جس طرح ان پر ذمہ داریاں ہیں دستور کے مطابق‘ اور مَردوں کے لیے ان پر ایک درجہ فوقیت کاہے۔ ‘‘
جتنے کچھ ان کے اوپر مَردوں کے حقوق ہیں اسی کی مناسبت سے خواتین کے لیے بھی حقوق ہیں جو اللہ تعالیٰ نے معین کر دیے ہیں۔ خواتین کے حقوق اور فرائض کا ایک توازن ہے۔ لام آتا ہے کسی کے حق میں کوئی چیز اور علیٰ کسی کے خلاف جانے والی کوئی چیز۔ فرض کو تو تعبیر کیا جائے گا علیٰ سے کہ یہ فریضہ مجھ پر عائد ہوتا ہے‘ جبکہ میرا جو حق ہے یہ لام کے ساتھ آئے گا۔ {وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ } جیسے کچھ ان کے فرائض ہیں جو ان پر عائد کیے گئے ہیں‘ اسی کی مناسبت سے شریعت اسلامی نے ان کو حقوق عطا کیے ہیں معروف طور پر۔ البتہ ایک اصول کے طور پر {وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ ۭ}’’ مَردوں کو ان پر ایک درجہ فضیلت کا حاصل ہے۔‘‘ یہ گویا کہ ڈائریکشن ہے‘ جیسے جوئے اور شراب کے بارے میں سورۃ البقرہ میں پہلا حکم آیا کہ یہ آپ سے جوئے اور شراب کے بارے میں پوچھ رہے ہیں تو آپ ان سے کہہ دیجیے کہ ان میں بہت بڑے گناہ کے پہلو میں اورکچھ منفعتیں بھی ہیں‘ لیکن ان کے گناہ کا پہلو ان کے منفعت والے پہلو سے بڑا ہے: {وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا}(آیت۲۱۹) ۔بات یہیں چھوڑ دی گئی‘ ابھی حرمت وغیرہ کی بات نہیں آئی ۔البتہ ایک سمت معین ہو گئی کہ ہوا کا رخ کیا ہے۔ اسی طریقے سے اس معاملے میں سورۃ البقرہ کی اس آیت میں ہوا کا رخ معین کر دیا گیا کہ جان لو مَردوں کو ان پر ایک درجہ فضیلت کا حاصل ہے۔ سورۃ النساء کی آیت۳۲ میں یہ مضمون زیادہ واضح ہو کر آتا ہےاور ہمارے سامنے فضیلت کا ایک فلسفہ آتا ہے ۔ فرمایا:
{وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ ط لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْاط وَلِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ ط وَسْئَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّ اللہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمًا(۳۲)}
’’اور تمنّا نہ کیا کرو اُس شے کی جس کے ذریعے سے اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دے دی ہے۔مَردوں کے لیے حصّہ ہے اُس میں سے جو وہ کمائیں گے‘ اور عورتوں کے لیے حصّہ ہے اُس میں سے جو وہ کمائیں گی۔ اور اللہ سے اُس کا فضل طلب کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر شے کا علم رکھتا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر جو فضیلت دے دی ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ یعنی یہ کہ اگر کسی کو کسی پہلو سے اللہ نے مجھ پر فضیلت دے دی ہے تو اب میں پیچ وتاب کھاؤں کہ یہ کیوں ہوا‘ مجھے اس کے برابر کیوں نہیں دیا گیا ‘ اس کا حاصل کچھ نہیں ہوگا سوائے اس کے کہ میری صلاحیتیں اورمیرے اوقات ضائع ہوںگے۔ اگر اللہ نے تخلیق میں کسی کو کسی پر برتری دے دی ہے تواس کوکھلے دل کے ساتھ قبول کیجیے ‘اس کے ساتھ reconcile کیجیے کہ ٹھیک ہے۔ مجھے جو کچھ دیا ہے‘ میرا محاسبہ اس کے اعتبار سے ہوگا۔ مجھے اپنی آخرت سنوارنے کے اعتبار سے یہ سوچنا چاہیے کہ جوکچھ مجھے دیا گیا ہے اس کے اعتبار سے میں نے اپنے فرائض ادا کیےکہ نہیں !
بہرحال اس فضیلت کو کوئی بھی انسان آسانی سے قبول نہیں کرتا۔ اگر مَردوں کی فضیلت عورتوں پر ہے تو بحیثیت مجموعی عورتوں کے اندر اس کے بارے میں ایک احساس پیدا ہونا فطری ہے۔ اس کا علاج بتایا جا رہا ہےکہ مَردوں کے لیے حصّہ ہے اس میں سے جو کمائی وہ کرتے ہیں اور عورتوں کے لیے حصّہ ہے اس میں سے جو کمائی وہ کرتی ہیں۔ البتہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرو‘ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے۔ اُس نے اگر کسی کو کسی پر کوئی فضیلت دی ہے تو لاعلمی میں نہیں دے دی ۔ ایسے ہی اٹکل پچو نہیں دے دی۔ وہ اپنے علم کامل کی بنیاد پر دی ہے‘ حکمت کاملہ کی بنیاد پر دی ہے۔ یہ بات آگے چل کر سورۃ النساء ہی کی آیت ۳۴ میں کھلتی ہے: {اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ } ’’مَرد حاکم ہیں عورتوں پر۔‘‘ یہ قرآن کا اسلوب ہے۔ پہلے (آیت ۳۲ میں ) تمہید ہے ‘ذہن کو تیار کیا جا رہا ہے کہ اللہ نے جس کو کسی پر فوقیت یا فضیلت دے دی ہے تو اس کو تسلیم کرنا چاہیے۔اس پر کوئی شکوہ یا شکایت کی بجائے اسے تسلیم کر کے اپنے طرز عمل کو درست کیا جائے۔ اب (آیت ۳۴ میں) واضح کر دیا گیا کہ مَرد عورتوں پر قوام ہیں‘ان پر نگران ہیں۔ قائم کہتے ہیں کھڑا‘ اس سے قوام‘ جیسے فاعل سے فعال‘ یہ مبالغے کا صیغہ ہے۔ اس میں قائم سے بڑھ کر مبالغہ ہے یعنی نگران کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے یا حاکم کی حیثیت سے کھڑا ہوا ہے۔ وہ جو علامہ اقبال نے کہا کہ : ع ’’نسوانیت ِزن کا نگہباں ہے فقط مَرد!‘‘ نگہبانی‘ نگرانی‘ حکمرانی کے سارے مفہوم’’ قوام‘‘ کے اندر شامل ہیں۔
اس قوامیت کی بنیاد کو بھی ساتھ ہی بیان کر دیا گیا: {بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ} ’’بسبب اُس فضیلت کے جو اللہ نے بعض کو بعض پر دی ہے۔‘‘ایک تو تخلیقی فضیلت ہے۔ مَردوں میں جسمانی قوت زیادہ ہے‘ توانائی زیادہ ہے‘ بھاگ دوڑ کی صلاحیت زیادہ ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے تخلیقی تفضیل ہے جومَرد کو عطا کردی گئی۔ایک دوسری بنیاد اس کی یہ ہے کہ {وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ} ’’ اور بسبب اس کے کہ جو وہ خرچ کرتے ہیں اپنے مال۔‘‘ خرچ کرنے والا مَرد ہے ۔ مہر مَرد دیتا ہے‘ عورت نہیں دیتی۔ نان نفقہ مَرد کے ذمہ ہے‘ عورت کے نہیں۔ خاندان کا کفیل مَرد ہے‘ عورت نہیں۔ چنانچہ یہ دو چیزیں ہو گئیں۔ ایک تو تخلیقی فضیلت ہے جو اللہ نے مَرد کو دی ہے۔ اور ایک جو عائلی نظام بنایا گیا ہے اس میں کمائی اور معاشی کفالت کا بوجھ مَرد پر ڈالا گیا ہے۔ لہٰذا ان دو بنیادوں پر مَرد کی قوامیت قائم ہے۔
اب نتیجہ یہ نکلنا چاہیےکہ جو اللہ نے بنا دیا‘ جو اللہ نے مقام معین کر دیا اس کو قبول کیجیے‘ اس کے مطابق طرزِ عمل اختیار کیجیے۔ اس میں ہماری کامیابی ہے‘ دنیاوی بھی اور اُخروی بھی ۔ عورت کے طرز عمل کو اسی آیت میں نہایت واضح الفاظ میں بیان کر دیا :
{فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللہُ ط }
’’پس جو نیک بیویاں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں‘ غیب میں حفاظت کرنے والیاں اللہ کی حفاظت سے۔ ‘‘
اسلام کے نزدیک قابلِ تعریف کردار اس خاتون کا ہے جس میں دو وصف موجود ہوں۔ ایک شوہر کی فرماںبرداری کہ اُس کا حکم مانے! وہ حاکم ہی کیا ہوا جس کا حکم نہ مانا جا رہا ہو۔ یہ ضرور ہے کہ حاکم مطلق صرف اللہ ہے‘ شوہر کا حکم اگر اللہ کے حکم کے خلاف ہے تو نہیں مانا جائے گا۔ اب یہاں معیّن ہو گیا کہ گھر میں حکومت مَرد کی ہے ‘ شوہر کی ہے۔دوسرے غیب کی پوری حفاظت کرنے والیاں۔ اس میں بڑی جامع بات آگئی کہ اپنی عصمت کی حفاظت بھی۔ وہ در حقیقت صرف اس کی عصمت نہیں ہے بلکہ مَرد کی ناموس ہے۔ جب تک اس کی شادی نہیں ہوتی‘ یہ عصمت اس کی ذاتی ہے لیکن جب وہ ایک شخص کے ساتھ ازدواجی رشتے میں منسلک ہو گئی ہے تو یہ اضافی طور پر اُس مَرد کی عزت اور ناموس ہے۔ اسی طرح شوہر کے رازوں سےجس قدر بیوی واقف ہے کوئی اور واقف نہیں ہو سکتا۔شوہر کی کمزوریوں کو جتنابیوی جانتی ہے کوئی اور نہیں جان سکتا ہے۔ ایک صالح بیوی کا طرز عمل یہ ہوگا کہ وہ ان رازوں کو چھپائے‘ ان کی حفاظت کرے ۔ اگر شوہر کے راز افشا کرتی ہے تو یہ اس طرز عمل کے منافی ہوگا جو ایک آئیڈیل بیوی کا قرآن مجید اور حدیث نبویؐ سے ہمارے سامنے آتا ہے۔
عُقدۃُ النِّکاح میں بھی فرق و تفاوت ہے۔ اس گرہ کے بندھنے میں عورت کی مرضی بھی یقیناً شامل ہے۔عورت کی اجازت سے اس کا ولی ایجاب کرتا ہے‘ دولہا کو پیشکش کرتا ہے۔ مرد قبول کرتا ہے۔ اگر عورت کی مرضی نہیں ہے تو یہ بندھن نہیں بندھے گا۔ اس قانونی اختیار میں یہ وضاحت کر دی گئی ہے کہ اگر لڑکی کنواری ہے تو اس کے سامنے ذکر کردیا جائے اور وہ خاموش رہے تو خاموشی ہی اس کی اجازت شمار ہو گی۔ہمارے ہاں عام بول چال میں کہا جاتا ہے۔ الخاموشی نیم رضا‘ حالانکہ خاموشی عربی کا لفظ نہیں ہے لیکن ’’ال‘‘ اس پر بھی لگاتے ہیں۔یہ بہت ہی مضحکہ خیز صورت ہے۔بہرحال خاموشی نیم رضا شمار ہوتی ہے ۔ البتہ اگر وہ ثَیِّبہ ہے یعنی مطلقہ یا بیوہ ہے تو جب تک وہ صراحت کے ساتھ زبان سے نہ کہے بات پوری نہیں ہوگی۔تاہم نکاح کی گرہ بندھ جانے کے بعد اب مَرد اور عورت کے درمیان معاملہ مساوی نہیں ہے۔ اب وہ گرہ مَرد کے ہاتھ میں ہے۔ اسے اختیار ہے کہ وہ جب چاہے کھول دے ‘ جب چاہے طلاق دے دے ۔ اس پر اگر تحدید ہے تو اخلاقی ہے۔ اگر وہ بغیر کسی حقیقی سبب کے ایسا کر رہا ہے تو بہت بڑا ظلم کر رہا ہے۔ اللہ کے ہاں جواب دہی کرے گا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ((أَبْغَضُ الْحَلالِ إلَى اللّٰهِ تعالیٰ الطَّلاق)) (سنن ابی داوٗد) ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میںسب سے ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔‘‘ قانون اپنی جگہ اور اخلاقی تعلیم اپنی جگہ‘ اس کو ذہن میں رکھیے۔
ان دونوں کے مابین توازن کی یہ تیسری مثال آج کی گفتگو میں آگئی۔ اختیار مَرد کو حاصل ہے کہ وہ جب چاہے طلاق دے دے ۔اگر واقعتاً کوئی حقیقی سبب تھا تب تو معاملہ اور ہے لیکن اگر بلا سبب اس نے کسی عورت کی زندگی تباہ کی ہے تو وہ شخص اللہ کے ہاں بہت بڑا مجرم بن کر پیش ہوگا اور اس کی بہت سخت جواب دہی ہوگی ۔ البتہ بیوی کو اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ جب چاہے اس گرہ کو کھول دے بلکہ وہ قاضی کے ذریعے سے خلع حاصل کر سکتی ہے ‘یا خاندان کےبزرگوں کے توسط سے ایک عورت اسباب پیش کر سکتی ہے کہ میں اس کے گھر میں نہیں بس سکتی۔اس کو یہاں تک بھی اختیار دیا گیا ہے کہ مجرد اس وجہ سے کہ اسے شوہر پسند نہیں ہے‘ خلع کی درخواست دے سکتی ہے۔ اس لیے کہ خاندانی نظام کے لیے جو بھی مودّت اور مزاج کی موافقت درکار ہے‘ اگر وہ نہیں ہے تو پھر یہ بندھن کیسے چلےگا۔ لہٰذا جیسے مَرد کی رغبت عورت کی طرف ہونی ضروری ہے ایسے ہی عورت کی رغبت بھی مَرد کی طرف ضروری ہے۔ لہٰذا یہ بھی خلع کا سبب بن سکتا ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ عورت جب چاہے خود اس گرہ کو کھول دے بلکہ اسے کچھ بات اپنے بڑوں کو سمجھانی ہوگی۔اگر ان کے سامنے واقعی یہ بات آ جائے کہ عورت جذبات میں آ کر ایسی بات نہیں کر رہی بلکہ واقعی کوئی سبب ہے تو خلع ہو جائے گا۔ طلاق اور خلعاپنے سٹیٹس کے اعتبار سے بالکل علیحدہ ہیں‘ان کو مساوی نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں بھی ان کو مساوی کیا گیا ہے‘ اس سے رونما ہونے والا فساد دنیا کے اندر خوب جانا پہچانا ہے۔
ستر اور حجاب
تیسری چیز ہے ستر اور حجاب۔ستر اور حجاب کے سلسلے میں اصل الاصول یہ ہے کہ ان کے بارے میں احکام سورۃ الاحزاب اور سورۃا لنور میں آئے ہیں۔ ان دونوں سورتوں کے زمانہ نزول کو سامنے رکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ پہلا کون سا ہے‘ دوسرا کون سا۔ سورۃ الاحزاب غزوئہ احزاب کے دوران یا اس کے فوراً بعد نازل ہوئی ہے ۔ اس کے بعد غزوئہ بنی مصطلق ہوا ہے ‘ جس میں واقعہ افک پیش آیا ہے۔ اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا وہ ہار جوگم ہو گیا تھا ‘ اس کا ذکر سورۃا لنور میں ہے۔ سورۃالنور بعد میں نازل ہوئی اور سورۃ الاحزاب پہلے نازل ہوئی۔ سورۃ الاحزاب میں حجاب کے ابتدائی احکام ہیں جبکہ سورۃ النور میں ان کی تکمیل ہوگئی۔
سب سے پہلے ایک اصل الاصول سمجھ لیجیے۔ سورۃ الاحزاب میں ایک آیت آئی ہے جو سیرت کی تقاریر میں ہر ایک نے سنی ہوگی :
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ }(آیت۲۱)
’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول(ﷺ) کی زندگی میں ایک نہایت عمدہ نمونہ ہے۔‘‘
اس کو دیکھو‘ اسے آئیڈیل بناؤ‘ اس کی پیروی کرو۔اس کے قریب سے قریب تر ہونے کی کوشش کرو۔ یہ تمہارے لیے نمونہ ہے‘ اُسوۂ کاملہ ہے۔ یہاں غور کیجیے کہ مسلمان مَرد کے لیےتو ہر اعتبار سے مکمل نمونہ یقیناً حضورﷺ ہیں۔ مسلمان مَرد کی ایک حیثیت شوہر کی ہے‘جس کے لیے بھی حضورﷺ کامل نمونہ ہیں۔ البتہ مسلمان خواتین کے لیے حضورﷺ کی زندگی مکمل نمونہ نہیں بن سکتی۔ بطور بیوی‘ بطور بیٹی جو اسوہ ہے‘ یہ حضور ﷺکی زندگی میں نہیں ملے گا حالانکہ یہ بہت ضروری ہے۔خواتین کے لیے بھی تو کوئی نمونہ ہونا چاہیے جس کو دیکھ کر وہ تاقیام قیامت اپنے طرزِ عمل کو معین کریں۔ حضورﷺ کی زندگی میں بعض پہلو خواتین کے لیے بھی یقینا ًاسوہ ہیں۔ عبادت عورتوں کو بھی کرنی ہے تو وہ حضورﷺ کی زندگی میں عبادت کا نقشہ دیکھیں اور پیروی کریں۔روزہ انہیں بھی رکھنا ہے تو حضورﷺ کی زندگی میں روزے کو دیکھیں اور اس کی پیروی کریں۔البتہ جو مسائل اور معاملات خواتین کے لیے مخصوص ہیں ان کے لیے اسوہ کون ہوگا؟ اس سوال کو ذہن میں رکھیے۔اس سے یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ جس سورئہ مبارکہ میں یہ آیت آئی: {لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ } اسی میں ازواجِ مطہرات سے خطاب ہو رہا ہے کہ درحقیقت اُمّت کی خواتین کے لیے ہمیشہ ہمیش کے لیے نمونہ انہیں بننا ہے ۔ خاص طور پر وہ معاملات جوخواتین ہی کے ہیں‘ ان میں تو ظاہر ہے کہ نمونہ بننے والی ہوسکتی ہیں امہات المومنین یعنی ازواج النبی رضی اللہ تعالیٰ عنہن ۔
میں نے یہ بات اس لیے بیان کی ہے کہ سورۃ الاحزاب میں احکام میں خطاب بظاہر حضورﷺ کی بیویوں سے ہے ۔ یوں ہماری بعض بہنیں اس مغالطے میں مبتلا ہوگئی ہیں کہ یہ احکام صرف حضورﷺ کی بیویوں سے متعلق ہیں‘یہاں عام مسلمان خواتین سے توبات نہیں ہورہی ۔ یہ چیز ان کی غلط فہمی کا بہت بڑا سبب بن گئی۔ لہٰذا اس کو درست کرنا چاہیے۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کو مسلمان خواتین کے لیے ان معاملات میں آئیڈیل بننا ہے جومخصوص ہیں خواتین کے‘ ورنہ بحیثیت مجموعی آئیڈیل محمدرسول اللہﷺ ہی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خطاب ہو رہا ہے:
{یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ }
’’اے نبی(ﷺ) کی بیویو! تم عام عورتوں کے مانند نہیں ہو ‘‘
بلکہ تمہیں عام عورتوں کے لیے نمونہ بننا ہے۔ تمہیں چونکہ آئیڈیل بننا ہے‘ لہٰذا تمہارے لیے جو احکام دیے جا رہے ہیں وہ خصوصی ہیں۔ البتہ یہ کہ تمہیں اس پر اجر دہرا مل جائے گا‘ اور اگر تم نے کوئی کمی کی تو تمہاری سزا بھی دگنی ہو جائے گی۔ اس لیے کہ تمہاری لغزش تو بہت سی عورتوں کی لغزش کا سبب بن جائےگی۔ تمہاری عزیمت‘ تمہاری نیکی بہت سی خواتین کے لیے عزیمت اور نیکی کے راستے پر چلنے کا سبب بنے گی۔ لہٰذا تمہارا معاملہ مسلمان خواتین کے لیے اسوہ کا ہے۔ لہٰذا نوٹ کیجیے:
{اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا(۳۲)}
’’اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو گفتگو میں نرمی پیدا نہ کرو کہ کسی لالچ میں پڑ جائے وہ شخص جس کے دل میں روگ ہے ‘ اور بات کرو معروف انداز میں۔‘‘
پہلی بات یہ فرمائی کہ اگر کسی سے گفتگو ہورہی ہو تو اپنی آواز میں لوچ پیدا نہ کرو بلکہ آواز کرخت ہو۔یہ نسوانی حسن کا ایک جزو ہے کہ آواز کے اندر بھی ایک جاذبیت ہے‘ کشش ہے۔ یہ اللہ نے کسی سبب سے رکھی ہے لیکن اگر کسی نامحرم کے ساتھ گفتگو کا موقع ہو رہا ہو تو وہاں حکم دیا جا رہا ہے کہ ذرا کرخت انداز میں گفتگو کرو‘ مبادا اس آواز کے لوچ کی وجہ سے وہ کوئی طمع اپنے دل کے اندر جگا لے۔پھر فرمایا کہ بات بھی کرو تو بالکل صاف صاف واضح ۔
{ وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَـبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَاَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَاَطِعْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ط}
’’اور تم اپنے گھروں میں قرار پکڑو اور مت نکلو بن سنور کر پہلے دورِ جاہلیت کی طرح اور نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت پر کاربند رہو۔‘‘
گھروں میں وقار کے ساتھ‘ سکینت کے ساتھ رہو ۔ جیسے جاہلیت کے دور میں خواتین بن سنور کر نکلا کرتی تھیں ‘ایسے نہ نکلو۔ یہ ستر اور حجاب کے سلسلے میں پہلا حکم ہے جس نے ڈائریکشن معین کر دی کہ عورت کا اصل مقام کیا ہے۔ان کا اصل دائرہ عمل‘ دائرہ کار‘ تمدنی ذمہ داریوں کا اصل مقام گھر ہے۔ یہ ہے درحقیقت ان کے لیے اصل جگہ‘ نہ یہ کہ بازاروں میں جاؤاور باہر نکلو۔ اگر کوئی ناگزیر تمدنی معاملہ ہے تو بات دوسری ہوگی‘جس کے لیے آگے چل کر احکام دے دیے گئے۔ بغیر کسی حقیقی ضرورت کے مسلمان عورت گھر سےنہیں نکلے گی ‘ گھر میں رہے گی۔ یہ پہلا directive principle ہو گیا۔ اس کے بعد آیت۵۳ میں حکم دیا گیا:
{وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ط}
’’اور جب تمہیں ان (نبی ﷺکی بیویوں) سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔‘‘
اب یہ مسلمان مَردوں کو حکم دیا جا رہا ہے اگر تمہیں نبیﷺ کی بیویوں سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے اوٹ سے مانگو۔ بعض خواتین اخبارات میں لکھ رہی ہیں کہ حجاب کا قرآن میں کہیں ذکر نہیں ہے۔ وہ نوٹ کریں کہ یہ لفظ حجاب آخر کس لیے آیا؟ پردے کی اوٹ میں ہونا کیا ظاہر کر رہا ہے اگر رُودر رُو ہونے میں‘ بے حجابانہ گفتگو کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے؟ نوٹ کیجیے کہ وہ امہات المومنین ہیں‘ مائوں کے درجے میں۔ ان کے لیے حضور ﷺکے انتقال کے بعد بھی کسی سے نکاح کرنے کا کوئی امکان نہیں۔آخری درجے میں اگر کوئی امکان ہو تو کم سے کم ایسا ہوگا کہ کسی کے دل میں کوئی برا خیال پیدا ہو‘ لیکن حکم دیا جا رہا ہے کہ ان سے بھی کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے اوٹ سے مانگو۔ مزید فرمایا:
{ذٰلِکُمْ اَطْہَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِہِنَّ ط }
’’(اے مسلمانو!) یہ طرزِ عمل زیادہ پاکیزہ ہے تمہارے دلوں کے لیے بھی اور اُنؓ کے دلوں کے لیے بھی۔‘‘
اللہ فاطر ہے‘ وہ فطرت جانتا ہے۔ ہم لاکھ پردے ڈالیں ‘ ملمع سازی کریں اور تہذیب اور تمدن کے بہانے بنائیں لیکن ایک مَرد اور ایک عورت کے مابین جو فطری میلان رکھا گیا ہے ‘ داعیہ ہے اسے فاطر ِ فطرت سے بڑھ کر جاننے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ یہ فرما رہا ہے کہ یہی تمہارے دلوں کی پاکیزگی کے لیے زیادہ صحیح ہے اور ان کے لیےبھی۔
آگے آیت۵۹میں اس بات کو اور واضح کر دیا گیا کہ اگر مسلمان عورت کا اصل دائرۂ کار اس کا گھر ہے تو گھر سے باہر اگر نکلنا ہو تو کیا کرے :
{یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ط }
’’اے نبی(ﷺ)! کہہ دیجیے اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور اہل ِ ایمان کی عورتوں سے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصّہ لٹکا لیا کریں۔‘‘
یہ ساری گفتگو اسی لیے ہو رہی تھی کہ تمام مسلمان خواتین کے لیے ہدایت مقصود ہے‘ اگرچہ اولین خطاب حضورﷺ کی ازواج سے ہو رہا ہے۔ یہاں اس کو کھول دیا گیا۔یہ’’ جلباب‘‘ کیا ہے‘ اسےاچھی طرح جان لیجیے۔ سورۃ النور میں ایک لفظ آئے گا خُمُرِھِنَّ۔ یہ تو ہے دوپٹا کہ جو عورت گھر میں بھی پہنتی ہے۔ ایک بڑی چادر ہوتی تھی جس کو باہر پہنتی تھیں۔ جاہلیت کے دور میں کام کرنے والی کنیزوں اور لونڈیوں کا معاملہ اور تھا لیکن شریف گھرانوں کی خواتین جب باہر نکلتی تھیں تو ایک بڑی سی چادر اپنے پورے جسم کےگرد لپیٹ لیتی تھیں۔ ایام جاہلیت میں بھی یہ ان کے لباس کا جز و تھا۔ اس میں جو اضافہ کیا جا رہا ہے وہ یہ کہ ذرا اس کا ایک حصّہ اپنے چہروں پر لٹکا لیاکرو۔ یہاں سے چہرے کا وہ پردہ شروع ہوا جس کے بعد احادیث میں تفصیل آتی ہے کہ ازواجِ مطہرات اور مسلمان خواتین اس چادر کو یوں اوڑھتی تھیں کہ صرف ایک آنکھ کھلی رہ جاتی تھی‘ باقی پورے کا پورا چہرہ ڈھک جاتا تھا۔ شاید پہلے بھی اس کا رواج ہو لیکن میں نے اس دور میں یہ دیکھا ہے کہ ایرانی خواتین میں کم سے کم یہ چیز بتمام و کمال موجود ہے۔چادر‘جو ان کے تقریباً ٹخنوں تک یا ذرا سی اونچی پنڈلی اور ٹخنے کے درمیان تک آئی ہوتی ہے‘ وہ پورے جسم کو اس طرح ڈھانپتی ہے کہ مجال نہیں کہ جسم کا کوئی حصّہ نظر آ جائے۔ چہرے پر بھی وہ اس کو اس طریقے سے پکڑتی ہیں کہ ایک آنکھ کھلی رہ جاتی ہے جس سے وہ راستہ دیکھ لیں‘ باقی پورا چہرہ ڈھکاہوا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح منشا ہے ان الفاظ کا: {یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ} کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے چہروں پر لٹکا لیا کریں۔ یہ پردے کا پہلا حکم ہوا گھر سے باہر نکلنے میں۔
یہ مضمون سورۃ النور میں جا کر مکمل ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ گھر میں رہتے ہوئے مسلمان خاتون کے لیے کیا حکم ہے؟سورۃالنور کا پردہ‘ اس کے احکام گھر کے اندر کے پردے کے لیے ہیں۔ایک ہےگھر سے باہر کا پردہ ‘ جو جلباب ہے‘ چادر ہے اور اس کو چہرے کے آگے لٹکا کر نکلناہے ۔ایک ہے گھر میں کیا کرنا ہے ۔اس ضمن میں فرمایا:
{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ(۳۰)}
’’(اے نبیﷺ!) مؤمنین سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ یقیناً اللہ با خبر ہے اُس سے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔‘‘
{وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ص}
’’اور مؤمن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ‘ اور وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں‘ سوائے اس کے جو اس میں سے از خود ظاہر ہو جائے‘ اور چاہیے کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مار لیا کریں۔‘‘
اب اس کوجن لوگوں نے سمجھا ہے کہ یہ سڑک پر چلتے ہوئے نیچے رکھنے کا حکم ہے‘تو یہ ہے اصل میں اس مغالطے کی بنیاد۔ سڑک پر چلتے ہوئے تو وہ معاملہ آ رہا ہےکہ اپنی جلباب میں لپٹ کر نکلو اور چہرے کو چھپا کر نکلو بلکہ اس کے آگے بھی ڈالو اس چادر کو۔ نگاہیں نیچی رکھنا گھر کے اندر کی بات ہے۔دوسرا حکم دیا گیا کہ اپنی اوڑھنیوں کے بکل اپنے سینوں پر مار لیا کریں۔ گھر میں رہتے ہوئے بھی یہ چیز پسندیدہ نہیں ہے کہ ایک نوجوان مسلمان لڑکی کا سینہ بالکل کھلا ہوا ہو ‘ کپڑے بھی اس کے تنگ ہوں اور وہ گھوم رہی ہو ۔ بھائیوں کے سامنے بھی اس کی اجازت نہیں ‘ بلکہ یہ ہے کہ اس کا لباس بھی ساتر ہو۔ اس کا پورا جسم ستر ہے سوائے ہاتھ ‘ چہرے اور پاؤں کے۔ باقی پورا جسم تو ہر حال میں ڈھکا رہنا ہے ۔ ان تین حصوں کے سوا کسی باپ کو بھی اپنی بیٹی کے جسم کا کوئی حصّہ دیکھنا جائز نہیں ‘کسی بھائی کو اپنے بہن کے جسم کا کوئی حصّہ دیکھنا جائز نہیں۔ یہ ستر کہلاتا ہے۔ مَرد کاستر ناف سے گھٹنے کے نیچے تک ہے جبکہ عورت کا ستراُس کا پورا جسم ہےسوائے چہرے‘ ہاتھ اور پائوں کے۔ وہ ہمیشہ ڈھکا ہوا رہنا چاہیے۔ جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں وہ بھی تنگ نہ ہوں‘ باریک نہ ہوں۔ ان میں جسم کے خدوخال نمایاں نہ ہوں۔سینے کا ابھار تو کتنا ہی کھلا کپڑا پہن لیں ‘ نہیں چھپے گا۔ چنانچہ اس کے بارے میں فرمایاکہ وہ اپنے سینوں پر‘ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مار لیا کریں۔
{وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآئِہِنَّ اَوْ اَبْنَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِہِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِہِنَّ اَوْ نِسَآئِہِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُنَّ اَوِ التَّابِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْہَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآئِ ص}
’’اور وہ ظاہر نہ کریں اپنی زینت کو (کسی پر) سوائے اپنے شوہروں کے‘ یا اپنے باپوں کے‘ یا اپنے شوہروں کے باپوں کے‘ یا اپنے بیٹوں کے‘ یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے‘ یا اپنے بھائیوں کے‘ یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں) کے‘ یا اپنی بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں) کے‘ یا اپنی (جان پہچان کی) عورتوں کے‘ یا اُن کے جن کے مالک ہیں ان کے داہنے ہاتھ‘ یا ایسے زیردست مَردوں کے جو اس طرح کی غرض نہیں رکھتے‘ یا اُن لڑکوں کے جو عورتوں کے مخفی معاملات سے ابھی ناواقف ہیں۔ ‘‘
ایک عورت کی یہ جو زینت ہے وہ گھر میں ہے۔ لباس اُس نے پورا پہنا ہوا ہے‘ پھر بھی اُس کا چہرہ اور اُس کے ہاتھ کھلے ہیں۔ اُس نے اوڑھنی اوڑھی ہوئی ہے‘ پھر بھی اس کا ایک نسوانی وجود ہے۔اس زینت میں سے جو حصّہ از خود ظاہر ہو رہا ہے‘ ایک عورت اس کو کیسے چھپائے گی؟ چنانچہ یہاں تفصیل بیان کر دی گئی کہ یہ محرم ہیں‘ ان کے سامنے عورت ستر کے ساتھ آ سکتی ہے۔ ستر اس کا پورا ہو‘ پورا جسم ڈھکا ہوا ہو تو وہ کھلے چہرے کے ساتھ محرم کے سامنے آ جائے گی۔ وہ محرم یہ ہیں: ان کے شوہر‘ ان کے والد یا ان کے شوہروں کے والد‘ یا اُن کے اپنے بیٹے یا ان کے شوہروں کے بیٹے یعنی سوتیلے بیٹے‘ یا ان کے بھائی یا ان کے بھائیوں کے بیٹے‘ یا اُن کی بہنوں کے بیٹے‘ یا اُن کی وہ خواتین جو گھروں میں آنے جانے والی ہیں‘ یا ان کی لونڈیاں‘ یا وہ ملازم جو اتنے زیردست ہوتے ہیں کہ کوئی امکان نہیں ہوتا کہ وہ گھر والوں کے بارے میں کوئی بھی خیال اپنے دل میں لا سکیں‘ یا وہ بچے جو ابھی عورتوں کے معاملات سے واقف نہیں ہیں۔ یہ تفصیل ہے محارم کی کہ عورت نے اپنے جسم کو پورے ستر میں ڈھانپا ہوا ہو تو ان کے سامنے آ جائے گی‘ اگرچہ اس کی کچھ نہ کچھ زینت ظاہر ہو رہی ہو۔ اس کا پورا وجود ہی ایک زینت ہے ‘جو چھپ نہیں سکتی۔ البتہ جب باہر نکلے گی تو نامحرم سے پردہ ہے۔ اب وہ اپنی چادر اپنے جسم کے گرد پوری لپیٹ کر اورصرف ایک آنکھ کھلی ہوئی یا اتنا کہ جس سے وہ راستہ دیکھ سکے‘ اس طریقے سے مستور ہو کر نکلے گی۔
ایک مغالطہ کا ازالہ
باہر کا پردہ سورۃ الاحزاب میں دیکھیے اور گھر کے اندر کا پردہ سورۃ النور میں۔ اگر کوئی ارادہ ہے اللہ کی کتاب کی پیروی کا‘ اللہ کی شریعت کو ماننے کا تب تو یہ ہیں قرآن و حدیث کی ہدایات۔ اس سلسلے میں ایک حدیث آپ کو سنا دینا چاہتا ہوں‘ اس لیے کہ ایک بڑا مغالطہ یہ ہے کہ خواتین جنگوں میں شامل ہوتی رہی ہیں۔ یہ معاملہ بھی اصل میں اس طرح مغالطہ کا باعث ہو جاتا ہے کہ حجاب کے احکام تدریجاً آئے ہیں۔ غزوۂ بدر اور غزوہ ٔاحد پہلے ہوئے‘ پھر غزوۂ خندق ہے۔ سورۃ الاحزاب غزوۂ خندق کے بعد نازل ہو رہی ہے۔ چنانچہ ان تینوں غزوات کے دوران خواتین کا طرز عمل آیاتِ حجاب کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔ لہٰذا اس حوالے سے اگر کوئی واقعہ ہے تو وہ دلیل نہیں بنے گا‘ اس لیے کہ ابھی تو پردے کے احکام آئے نہیں۔ اس کے بعد غزوۂ خیبر کا ایک واقعہ ہے جو میں آپ کو سنا دیتا ہوں تاکہ مسلمان خواتین خدا کے لیے غور کریں کہ جو دلیلیں وہ لے آتی ہیں وہ کس طور سے غلط ہیں اور ان کو بھی نہ سمجھنا اصل میں مغالطے کی بنیاد بن رہا ہے۔
حشرج بن زیادؒ اپنی دادی سے یہ واقعہ نقل کر رہے ہیں۔ وہ فرماتی ہیں:
أَنَّهَا خَرَجَتْ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ خَيْبَرَ سَادِسَ سِتِّ نِسْوَةٍ ، فَبَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَبَعَثَ إِلَيْنَا فَجِئْنَا فَرَأَيْنَا فِيهِ الْغَضَبَ فَقَالَ:((مَعَ مَنْ خَرَجْتُنَّ وَبِإِذْنِ مَنْ خَرَجْتُنَّ؟)) فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللّٰهِ خَرَجْنَا نَغْزِلُ الشَّعَرَ وَنُعِينُ بِهِ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَمَعَنَا دَوَاءُ الْجَرْحَى وَنُنَاوِلُ السِّهَامَ وَنَسْقِي السَّوِيقَ، فَقَالَ:((قُمْنَ)). حتَّى إِذَا فَتَحَ اللّٰهُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ أَسْهَمَ لَنَا كَمَا أَسْهَمَ لِلرِّجَالِ، قَالَ: قُلْتُ لَهَا: يَا جَدَّةُ وَمَا كَانَ ذَلِكَ قَالَتْ: تَمْرًا. (رواہ احمد و ابوداوٗد)
’’ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر کی جنگ میں نکلیں‘ یہ چھ عورتوں میں سے چھٹی تھیں۔ جب رسول اللہ ﷺ کو یہ بات پہنچی تو آپ نے ہمیں بلا بھیجا‘ ہم آئے تو ہم نے آپﷺ کے چہرۂ مبارک پر غصے کے آثار دیکھے۔ آپ ﷺ نے پوچھا: ’’تم کس کے ساتھ نکلیں؟ اور کس کے حکم سے نکلیں؟‘‘ ہم نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! ہم چلی آئی ہیں‘ ہم اون کاتیں گی اور اس سے اللہ کی راہ میں مدد پہنچائیں گی۔ ہمارے پاس کچھ مرہم پٹی کا سامان بھی ہے‘ ہم مجاہدین کو تیر پکڑا دیں گی اور ستو گھول کر پلائیں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’چلو واپس جاؤ۔‘‘ پھر جب اللہ تعالیٰ نے خیبر فتح کرا دیا تو آپؐ نے ہمیں مَردوں کی طرح حصّہ دیا۔ حشرج بن زیاد کہتے ہیں: مَیں نے ان سے پوچھا: دادی! وہ حصّہ کیا تھا؟ تو وہ کہنے لگیں: کچھ کھجوریں تھیں ۔‘‘
یہ حدیث واضح طور پر یہ بات سامنے لا رہی ہے کہ یہ پورا استدلال اگر کسی سابقہ غزوے کے واقعے سے کیا جا رہا ہو تو انہیں جان لینا چاہیے کہ قرآن مجید میں جب تک شراب کی آخری حرمت نہیں آئی تو لوگ شراب پیتے رہے۔ کیا اس سے دلیل لائیں گے شراب کے حلال ہونے پر؟ جب تک سود کا آخری حکم نہیں ہوا اور سودکا لین دین جاری رہا تو کیا اس سے سود کے حلال ہونے کے لیے دلیل آئے گی؟ اس میں دیکھنا پڑے گا کہ احکام تدریجاً آئے ہیں اور جب دین مکمل ہوا:
{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط}
’’آج کے دن مَیں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کر دیا ہے اور تم پر اِتمام فرما دیا ہے اپنی نعمت کا اور تمہارے لیے مَیں نے پسند کر لیا ہے اسلام کو بحیثیت دین کے۔‘‘
تو یہ حضوررﷺ کی حیاتِ طیبہ کا آخری زمانہ ہے۔ ہمیں اُس وقت کی ہدایات مدّ ِنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
مسلمانوں کے نزدیک دین کی اہم ترین چیز نماز ہے۔ مسلمان عورت پر نمازِ باجماعت فرض نہیں ہے۔ مسلمان عورت کو ترغیب یہ ہے کہ وہ گھر میں نماز ادا کرے۔ ہمارے کچھ مفتیانِ کرام جو اِس وقت خواتین کو اجازت دے رہے ہیں کہ وہ دفتروں میں کام کر سکتی ہیں‘ انہی سے اگر آپ فتویٰ لیں گے کہ کیا عورت مسجد میں آ کر نماز پڑھ سکتی ہے تو آپ خود دیکھیے کہ ان کا فتویٰ کیا ہوگا۔ان کا تضاد اس وقت بہت نمایاں ہو کر آ رہا ہے جو گروہی یا سیاسی مصلحتوں کی خاطر ایسا کہہ رہے ہیں ۔بقول اقبال:؎
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!وہ مسجدوں میں عورت کا آنا گوارا نہیں کرتے لیکن دفتروں میں عورت کے جانے کے لیے وہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی قباحت نہیں۔ع ’’بہ بیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا!‘‘ خواتین کے لیے نماز کے بارے میں حضوررﷺ کی واضح تاکید ہے کہ ان کے مسجد میں نماز پڑھنے سے گھر میں پڑھنا افضل ہے۔ گھر کے صحن سے گھر کے دالان میں پڑھیں تو وہ بہتر ہے ۔دالان کی نسبت کمرے میں پڑھیں تو اس سے بہتر ہے ۔کمرے سے آگے بھی کوئی اندرونی کوٹھڑی ہو وہاں پڑھیں تو اور بہتر۔ یہ ہے ایک ترتیب ۔پنجگانہ نماز جو فرض ہے اس میں ان کا آنا قطعاً ضروری نہیں۔ البتہ جمعہ اور عیدین کا معاملہ ذرا مختلف ہوگا ۔اگرچہ ہمارے اکثر مفتی حضرات اس میں بھی اجازت نہیں دیتے لیکن اس میں سوچا جا سکتا ہے کہ چونکہ خطبہ ہوتا ہے ‘تعلیم اور تلقین کا معاملہ ہے ‘ مسلمان خواتین کو بھی اس کی ضرورت ہے ۔البتہ عام نمازوں میں تو ہمارے ہاں خواتین نہیں آتیں ۔ کیوں نہیں آتیں؟ سوچیے دین کا مزاج کیا ہے۔
اگر کسی مسلمان عورت کو واقعتاً کوئی مجبوری ہو جائے تو میں بھی اس بات کی اجازت دوں گا کہ وہ کام کرے ۔اوّل تو باہر نکل کر کام کر رہی ہے تو ستر اور حجاب کے پورے احکام کو ملحوظ رکھ کر کام کرے ۔ بہتر یہ ہے کہ کوئی ایسا ذریعہ معاش تلاش کرے جو گھر میں رہ کر اختیار کیا جاسکتا ہو۔ کیا ہی اچھا ہو اگر حکومتی سطح پریہ پالیسی طے ہو جائے !آخر ایک اسلامی ملک میں جو حکومت قائم ہوتی ہے ‘ اسلامی احکام کا نفاذ اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اس میں صورت یہ ہو کہ ایسی کاٹیج انڈسٹریز کا بندوبست کیا جائے جہاںخواتین گھروں میں رہتے ہوئے ملک کے معاشی استحکام میں حصّہ ڈال سکیں۔ اگر حکومت کی طرف سے یہ پالیسی بن جائے تو پورا نظام بن سکتا ہے ۔اس کا اہتمام ہو سکتا ہےکہ مَردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنا نہ ہو بلکہ خواتین کے علیحدہ ادارے بنا دیے جائیں جہاں وہ کام کریں‘ یا گھروں میں رہ کر کام کریں۔ اگر مجبوراً کوئی معاملہ ہے تو عورت نکلے مگر ستر اور حجاب کے ساتھ ۔
پھر دیہات کی خواتین کے بارے میں دلیل دی گئی ۔اس میں جو زمین آسمان کا فرق ہے اس کو لوگ نوٹ نہیں کر رہے ۔بحثا بحثی اور ضدم ضدامیں ہر چیز نگاہوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔ اول تو یہ نوٹ کیجیے کہ اکثر خواتین جو دیہات میں کام کرتی ہیں کیا وہ نامحرموں کے ساتھ کام کرتی ہیں؟ اگر وہ کھیت پر روٹی لے کر گئی ہیں تو کس کے لیے؟ باپ کے لیے‘بھائی کے لیے ‘بیٹے کے لیے ‘شوہر کے لیے ۔اپنے کھیت میں اگر وہ کام کر رہی ہے تو کیا وہاں ان کے ساتھ نامحرم کام کرر ہے ہیں ؟یا اپنے گھر میں اپنے ڈھورڈنگروں کو دیکھ رہی ہیں تو وہاں بھی نامحرموں کے ساتھ معاملہ نہیں ہے ۔ پھر یہ کہ ہمارے دفتروں کا جو ماحول ہے جس میں بننا سنورنا اگر نہ بھی ہو تب بھی یہ عورت کی فطرت ہے کہ وہ مرد کے لیے کشش رکھتی ہے ۔کیا دیہات میں کام کرنے والی خواتین اور ان میں کوئی نسبت ہے؟ یہ فرق وتفاوت سامنے رکھیے ۔زمین آسمان کا فرق ہے!
آخری بات میں یہ عرض کروں گا کہ ہمارے ہاں دیہات میں اگر کوئی چیز غلط ہورہی ہو تو کیا اس کو سامنے رکھ کر آپ دین کو بدل دیں گے؟ دیہات میں اگر غلط رسومات ہیں تو ہمیں ان کی اصلاح کرنی ہے نہ کہ ان کو دلیل بنا کر ہم ان رسومات کو عام کردیں۔ وہاں بھی اگر ستر اور حجاب کے احکام کی پابندی نہیں ہو رہی تو کرنے کی ضرورت ہے‘ بجائے اس کے کہ وہاں سے دلیل یہا ں کے لیے لائیں۔ اگر وہاں کوئی کمی نظر آرہی ہے تو اس کمی کو پورا کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ ہمارا امام قرآن ہے‘ہمارے لیے حاکم قرآن ہے ۔ہمارے لیے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام واجب العمل ہیں‘نہ کہ ہمارے دیہات کا ماحول دلیل و برہان ہے۔
میں نے عرب میں بدو خواتین کو دیکھا ہے۔ وہاں شہروں میں تو جو پردہ اس وقت رائج ہے وہ حکومت کا جبری نافذ کردہ ایک برقع ہے۔ اس برقعے کےاندر ستر بھی نہیں ہے‘ معاملہ بہت ہی خراب ہے۔ البتہ دین کی رمق عرب کےدیہات میں جا کر اب بھی دیکھ لیجیے ۔میںنے دیکھا ہے کہ اونٹوں کی ڈار لے کر کوئی خاتون جا رہی ہے یا بھیڑبکریوں کا گلہ ہے‘ ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہوئے چرواہے کے فرائض ادا کر رہی ہے لیکن پورا جسم برقع کے اندر ہے۔ ہاتھوں پر دستانے ہیں‘پاؤں پر جرابیں ہیں ۔مجال نہیں ہے کہ اس کے جسم کا کوئی حصّہ آپ کو نظر آجائے۔ اگر وہاں کی عورت یہ کام کر سکتی ہے ‘ ڈھور ڈنگروں کی دیکھ بھال کر سکتی ہے ‘پانی پلا کر لا سکتی ہے ‘انہیں چرانے کے لیے جنگل میں لے جا سکتی ہے اور اپنے ستر و حجاب کا پورا لحاظ کر سکتی ہے تو ہمارے دیہات کی خواتین کیوں نہیں کر سکتیں؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس علم کو عام کیا جائے ‘پھیلایا جائے ۔دین کی اصل تعلیمات کو لوگوں تک پہنچایا جائے ۔ساری کمی اصل میں اس کی ہو رہی ہے اور اسی کی کسی ادنیٰ درجے میں تلافی کی ایک کوشش میں نے آج کی ہے ۔
اللہ تعالیٰ ٰہمیں بھی راہِ ہدایت دکھائے اور ہدایت کو ذہناً اور عملاً قبول کرنے کی توفیق دے اور ہمارے تمام بھائیوں اورتمام بہنوں کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ دین کو اپنے پیچھے لگانے کے بجائے خود دین کی پیروی کا عزم مصمم کرلیں۔
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
(۱۹۸۲ء میں کیا گیا ایک خطاب)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025