(ظروف و احوال) اسرائیلی مظالم اور فلسطین و لبنان کی حالت - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

7 /

اسرائیلی مظالم اور فلسطین و لبنان کی حالت
ایک تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
قلم کار‘ روزنامہ ایکسپریس و جنگ ‘کراچی

فلسطین اور لبنان میں جاری اسرائیلی جارحیت ایک طویل المیعاد مسئلہ ہے جو کئی دہائیوں سے مشرقِ وسطیٰ کے امن کو داؤ پر لگا چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں خاص طور پر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر مسلسل بمباری‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں‘ گھروں کی مسماری‘ بچوں اور عورتوں کی ہلاکتیں‘ اور بنیادی سہولیات کی تباہی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ چکی ہیں۔ لبنان‘ جو بارہا اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنا ہے‘ اپنی بقا کے لیے سیاسی و عسکری مزاحمت کی راہ پر گامزن ہے۔
فلسطین کا تاریخی پس منظر
فلسطین کا مسئلہ صرف زمینی تنازع نہیں بلکہ ایک قوم کی شناخت‘ بقا‘ اور آزادی کی جنگ ہے۔ ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے‘ جنہیں آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔۱۹۴۷ء میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ (UN Partition Plan) پیش کیا گیا‘ جس کے تحت فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کیا جانا تھا: ایک یہودی ریاست اور ایک عرب ریاست۔ عرب ممالک اور فلسطینیوں نے اس تقسیم کو غیر منصفانہ قرار دے کر مسترد کر دیا‘ جس کے نتیجے میں ۱۹۴۸ء کی عرب اسرائیل جنگ ہوئی۔ اسرائیل نے اس جنگ میں نہ صرف اپنے لیے مختص زمین پر قبضہ کیا بلکہ اضافی عرب علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا‘ جسے فلسطینی ’’نکبہ‘‘یعنی تباہی کہتے ہیں۔
غزہ کی پٹی: ایک کھلی جیل
غزہ کی پٹی۲۰۰۶ء سے اسرائیلی ناکہ بندی کا شکار ہے‘ جس کے باعث یہاں بنیادی ضروریاتِ زندگی جیسے خوراک‘ پانی‘ ادویات‘ بجلی‘ اور تعلیمی وسائل کی شدید کمی ہے۔ اسرائیل ہر چند سال بعد غزہ پر بڑی فوجی کارروائیاں کرتا ہے‘ جن میں ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔۲۰۰۳ء سے۲۰۲۴ء کے دوران اسرائیل کی بمباری سے غزہ میں ہسپتال‘ اسکول‘ رہائشی عمارات‘ اور پناہ گزین کیمپ تباہ کیے گئے۔۷اکتوبر۲۰۲۳ء سےجاری اسرائیلی جارحیت میں  شہداءکی مجموعی تعداد پچاس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ (جن میں۶۰ فیصد بچے اور عورتیں شامل ہیں)‘۱۱۵۰۰۰ سے زائد زخمی‘تقریباً۵ ملین افراد بے گھر‘جبکہ۹۰فیصد سے زائد عمارات تباہ ہوگئیں۔
ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل کی کارروائیاں صرف عسکری نہیں بلکہ عام شہریوں کو ہدف بنانے کے مترادف ہیں‘ جو بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔ افسوس صد افسوس‘ سال رواں کے ماہ رمضان المبارک میں بھی معصوم فلسطینی و لبنانی اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے رہےجبکہ تمام عالم اسلام خاموش تماشائی بنارہا۔ تباہی و بربادی کا یہ سفاکانہ کھیل جاری ہے اور اس ضمن میں مسلم امہ کا قابل ذکر کردار کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔
مغربی کنارےکی صورتِ حال
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی چوکیاں‘ غیر قانونی بستیوں کی تعمیر‘ فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ‘ اور نقل و حرکت پر پابندیاں معمول بن چکی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی‘ نمازیوں پر حملے اور پُرامن مظاہرین پر گولیاں چلانا روز مرہ کا عمل ہے۔۲۰۲۴ء میں مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر نے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے‘ جبکہ فلسطینی کسانوں‘ طلبہ‘ اور صحافیوں کو آئے روز گرفتار یا شہید کیا جاتا رہا۔ یہ سب انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں ہیں۔
لبنان میں اسرائیلی مظالم
لبنان خصوصاً جنوبی لبنان‘ اسرائیلی جارحیت کا مستقل نشانہ رہا ہے۔۱۹۸۲ء میں اسرائیلی افواج نے بیروت پر حملہ کیا اور ہزاروں شہریوں کو نشانہ بنایا۔ صابرا اور شتیلا کے مہاجر کیمپوں میں قتل عام تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔۲۰۰۶ء کی جنگ میں اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف کارروائی کے نام پر لبنان کے انفراسٹرکچر کو تباہ کر دیا۔ اسکول‘ ہسپتال‘ پل‘ سڑکیں اور بجلی گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے۔ حالیہ مہینوں میں جنوبی لبنان ایک بار پھر حملوں کی زد میں ہے اور کئی دیہات خالی کروائے جا چکے ہیں۔
انسانی بحران اور بین الاقوامی ردِ عمل
فلسطین اور لبنان میں جاری اسرائیلی مظالم نے انسانی بحران کو جنم دیا ہے۔لاکھوں افراد مہاجر کیمپوں میں مقیم ہیں۔ غذائی قلت‘ ادویات کی عدم دستیابی اور بیماریوں کا پھیلاؤ عام ہے۔بچوں کی تعلیم‘ عورتوں کی صحت اور نوجوانوں کا مستقبل شدید خطرے میں ہے۔اقوامِ متحدہ‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اور دیگر ادارے متعدد بار اسرائیل کو تنبیہہ کر چکے ہیں‘ مگر کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ مغربی دنیا خصوصاً امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں‘ جبکہ مسلم دنیا کی اکثریت محض بیانات تک محدود ہے۔
بین الاقوامی قوانین اور اسرائیلی خلاف ورزیاں
بین الاقوامی قوانین کے تحت شہریوں کو جنگ کے دوران تحفظ حاصل ہوتا ہے‘ جن میں درج ذیل ضوابط شامل ہیں:
جنیوا کنونشنز(۱۹۴۹ء) ‘ اقوامِ متحدہ کا چارٹر‘انسانی حقوق کا عالمی منشور
ان قوانین کے مطابق کسی بھی ریاست کو شہری آبادی پر بمباری کی اجازت نہیں۔ بنیادی ضروریات جیسے پانی‘ بجلی‘ اور صحت کی تنصیبات کو تباہ نہیں کیا جا سکتا۔ بچوں اور خواتین کو خصوصی تحفظ حاصل ہے۔ اسرائیل نے ان تمام قوانین کی خلاف ورزی کی ہے‘ مگر کوئی سزا یا مؤثر پابندی نہیں لگائی گئی‘ جو بین الاقوامی نظام کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔
مسلم دنیا کا کردار
مسلم ممالک کی تنظیم OIC (آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) محض قراردادیں منظور کرنے اور بیانات دینے تک محدود ہے۔ فلسطین اور لبنان کی حمایت کے لیے عملی اقدامات (جیسےاسرائیل کے خلاف سفارتی و معاشی بائیکاٹ‘ فلسطینیوں کی مالی و طبی امداد‘ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف مؤثر قراردادیں لانا) نظر نہیں آتے۔ پاکستان‘ ترکی‘ ایران‘ ملائشیا اور قطر نے کچھ حد تک آواز بلند کی ہے‘ مگر باقی دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
جہاد ِ فلسطین کا فتویٰ : سلفیہ کا ردّ ِ عمل
دعوہ سلفیہ کے رہنما ڈاکٹر یاسر برہامی نے انٹرنیشنل یونین آف مسلم سکالرز کی طرف سے جاری کردہ فتویٰ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اہل غزہ نے جنگ شروع کرنے سے پہلے مشورہ نہیں کیا۔وہ صرف ایران کو اعتماد میں لے کر جنگ میں کود گئے‘ حالانکہ انھیں دیگر اسلامی ملکوں سے بھی بات کرنی چاہیے تھی تاکہ وہ یہودیوں سے کیے گئے معاہدے کو ختم کر کے جنگ میں شریک ہو جاتے۔فی الحال اسلامی ممالک معاہدے کے پابند ہیں اور اگر معاہدہ ختم کرنے تک بات گئی تو جنگ صرف اسرائیل کے ساتھ نہیں ہو گی بلکہ امریکہ اور اس کے حواری بھی مدمقابل ہوں گے۔انہوں نے قرآنی آیت:
{وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ ط }(الانفال:۷۲)
’’اگر وہ تم سے دین کے معاملے میں مدد مانگیں تو اُن کی مدد کرنا تم پر واجب ہے‘ مگر کسی ایسی قوم کے خلاف (نہیں) کہ اُن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو۔‘‘
کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دینی بھائیوں کی مدد صرف اس قوم کے خلاف کرنے کا حکم ہے جس کے ساتھ معاہدہ نہ ہوا ہو۔
حضرت موسی علیہ السلام کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فرعون نے اسّی ہزار بچے قتل کر دیے تھے لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے یہی کہا تھا کہ{اسْتَعِیْنُوْا بِاللہِ وَاصْبِرُوْاج}(الاعراف:۱۲۸)’’ اللہ سے مدد مانگتے رہو اور صبر کا مظاہرہ کرو‘‘ کیونکہ ان کے پاس طاقت نہیں تھی۔ ڈاکٹر یاسر برہامی نے سورۃالکہف میں مذکور حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعے کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت خضر نے حضرت موسیٰ ؑ سے یہ نہیں کہا تھا کہ آؤ ظالم بادشاہ کا مقابلہ کریں‘ بلکہ انہوں نے صرف کشتی کو سوراخ کر کے ظلم سے بچنے کی تدبیر کی تھی‘ اس لیے کہ ان کے پاس طاقت نہیں تھی کہ اس بادشاہ کےظلم کا مقابلہ کر سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اہل غزہ نے اپنے طور پر کیا تھا اس لیے اس کا خمیازہ بھی انہی کو بھگتنا ہو گا۔ ڈاکٹر یاسر جماعت نور سلفیہ کی طرف سے مصر کے رکن اسمبلی بھی رہے ہیں‘ اور ان خیالات کا اظہار انہوں نے اس فتویٰ کے ردعمل میں کیا جو شیخ علی القرداغی نے جاری کیا تھا۔
یہ مسئلہ چونکہ حساس موضوع سے متعلق ہے‘ اس لیے تحقیق و احتیاط دونوں لازم ہیں۔ یہ فتویٰ اور اس پر ڈاکٹر یاسر برہامی کا ردعمل ‘ اس کا پس منظر اور سیاق و سباق جانچنا ضروری ہے تاکہ درست معلومات حاصل کی جا سکیں۔
فتویٰ کی نسبت:شیخ علی القرداغی انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز (IUMS) کے سیکرٹری جنرل رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں یونین نے فلسطین کے حالیہ حالات میں جہاد اور مزاحمت کے حق میں فتاویٰ جاری کیے ہیں۔
فتویٰ کا خلاصہ: یہ فتاویٰ عام طور پر اہل غزہ کی مزاحمت کو’’مشروع دفاعی جہاد‘‘قرار دیتے ہیں‘ اور امت مسلمہ کو ان کی حمایت کا حکم دیتے ہیں‘ خاص طور پر جب فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں۔
ڈاکٹر یاسر برہامی کا موقف: ڈاکٹر یاسر برہامی مصر کے ایک معروف سلفی عالم ہیں۔دعوہ سلفیہ (نور پارٹی) سے وابستہ رہے اور مصری پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ ان کا موقف سلفی مکتب فکر کے مخصوص سیاسی و فکری رجحانات کی نمائندگی کرتا ہے۔خاص طور پر جہاں تک بین الاقوامی معاہدات‘ طاقت کی کمی‘ اور مسلح جہاد کی شرائط کا تعلق ہے‘ان کا حوالہ دیا گیا ہے کہ: جہاد صرف اس صورت میں جائز ہے جب کوئی معاہدہ نہ ہو۔ اگر طاقت نہ ہو تو صبر اور دعا کی ہدایت دی گئی ہے۔ اہل غزہ نے دیگر اسلامی حکومتوں سے مشورہ نہیں کیا‘ لہٰذا اس کا نتیجہ بھی انہی کو بھگتنا ہوگا۔ یہ موقف عمومی سلفی سیاسی حلقوں کا نمائندہ ہے‘ خاص طور پر وہ حلقے جو مصری حکومت یا خلیجی ریاستوں کے قریب تر ہیں۔
قرآنی آیات و واقعات کے سیاق و سباق
(۱) {وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْکُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ ط}(الانفال:۷۲)
’’اوراگر وہ تم سے دین کے معاملے میں مدد مانگیں تو اُن کی مدد کرنا تم پر واجب ہے‘مگر کسی ایسی قوم کے خلاف (نہیں)کہ اُن کے اور تمہارے درمیان معاہدہ ہو۔‘‘
یہ آیت صلح اور معاہدات کے احترام سے متعلق ہے‘ لیکن فقہاء نے جہادِ دفاعی کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے جب ظلم و قتل عام جاری ہو۔
(۲) حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعات فردی حکمت ِ عملی پر روشنی ڈالتے ہیں۔ ان کو جہاد یا مزاحمت کے اجتماعی احکام پر قیاس کرنا محل نظر ہے۔
انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کا فتویٰ
انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کا فتویٰ جہاد کے حق میں ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس کی اشاعت موجودہ حالات میں ہوئی۔
’’لجنة الاجتهاد والفتوى بالاتحاد العالمي لعلماء المسلمين تصدر فتوى في نازلة استمرار العدوان على غزة ونقض الهدنة، أهم ما تضمنته ما يلی:(۱) وجوب الجهاد بالسلاح ضد الاحتلال في فلسطين على كل مسلم مستطيع في العالم الاسلامي.(۲) وجوب التدخل العسكري الفوري من الدول العربية والاسلامیۃ۔(۳) تحريم التطبيع مع الكيان الصهيوني المحتل تحريماً قطعياً۔‘‘
’’ انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کی اجتہاد اور فتویٰ کمیٹی نے غزہ پر جاری حملوں اور جنگ بندی کی خلاف ورزی کے تناظر میں ایک فتویٰ جاری کیا ہے‘ جس کے اہم نکات یہ ہیں:(۱) فلسطین میں قابض قوت کے خلاف ہر مستطیع مسلمان پر مسلح جہاد واجب ہے۔(۲)عرب اور اسلامی ممالک پر فوری فوجی مداخلت واجب ہے۔(۳) صہیونی قابض ریاست کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کو قطعی طور پر حرام قرار دیا گیا ہے۔‘‘
ڈاکٹر یاسر برہامی کا ردّ ِعمل:ڈاکٹر یاسر برہامی کا موقف ہے کہ جہاد کی مشروعیت کے لیے طاقت اور استطاعت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر مسلمان کمزور ہوں اور ان کے پاس مناسب طاقت نہ ہو تو مسلح جہاد کی بجائے صبر اور دعا کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔بین الاقوامی معاہدات کی پاس داری ضروری ہے۔ اگر کسی مسلم ملک نے کسی غیر مسلم ملک کے ساتھ امن معاہدہ کیا ہو تو اس معاہدے کی خلاف ورزی جائز نہیں‘ اِلایہ کہ معاہدہ توڑ دیا جائے یا اس کی مدت ختم ہو جائے۔ غزہ کی موجودہ صورت حال میں حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ بغیر مناسب تیاری اور علاقائی و بین الاقوامی مشاورت کے مسلح کارروائیاں نقصان دہ ہو سکتی ہیں اور عام مسلمانوں کے لیے مزید مشکلات کا باعث بن سکتی ہیں۔
ان مسائل پر مختلف علماء کے درمیان اختلافِ رائے پایا جاتا ہے‘ اور ہر موقف کے پیچھے مخصوص فقہی اور سیاسی دلائل موجود ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان آراء کا مطالعہ کریں‘ قرآن و سنت کی روشنی میں غور کریں‘ اور اپنے حالات کے مطابق دانش مندانہ فیصلے کریں۔
جہاد کے بارے میں قرآن وسُنّت کی تعلیمات
اسلامی فقہ میں جہادِ دفاعی اُس وقت فرض عین قرار پاتا ہے جب مسلمان مظلوم ہوں‘ دشمن نے سرزمین پر حملہ کر دیا ہواورجان و مال‘ عزت و دین خطرے میں ہو۔ارشادِ الٰہی ہے:
{وَمَا لَکُمْ لَا تُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ} (النساء:۷۵)
’’اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان بے بس مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطر جنگ نہیں کرتے جو ظلم کا شکار ہیں؟‘‘
یہ آیت واضح طور پر ظلم کے خلاف جہاد کی فرضیت کی دلیل ہے۔نبی اکرمﷺ کا ارشادِ مبارک ہے :
((مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِهٖ فَهُوَ شَهِيْدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ عِرْضِهٖ فَهُوَ شَهِيْدٌ، وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ دَمِهٖ فَهُوَ شَهِيْدٌ)) (سنن الترمذی)
’’جو شخص اپنے مال‘ عزت یا جان کی حفاظت میں قتل کر دیا جائے‘ وہ شہید ہے۔‘‘
شرعی حیثیت
یہ فتویٰ مکمل طور پر قرآن کی مذکورہ آیات اور احادیث پر مبنی ہے۔ فلسطین میں دشمن نے حملہ کیا‘ معاہدات کی خلاف ورزی کی‘ لہٰذا مزاحمتی جہاد کی شرعی اجازت واضح ہے۔ امت مسلمہ پر مدد لازم ہے۔
فقہی اصول:فقہ حنفی‘ شافعی‘ مالکی‘ حنبلی سب کے نزدیک‘ جب مسلمان کسی حملے کا شکار ہوں‘ اور وہ مدد مانگیں تو باقی مسلمانوں پر ان کی مدد فرض ہے (فرض کفایہ یا عین بن سکتا ہے)۔
ڈاکٹر یاسر برہامی کا موقف:طاقت کی کمی‘ معاہدات کی موجودگی اور حکمت کے تقاضے کو بنیاد بنا کر صبر‘ دعا اور عدم مزاحمت کی تلقین۔
فقہی تجزیہ:یہ موقف فقہی اصول’’درء المفاسد مقدم علی جلب المصالح‘‘ (نقصان سے بچنا فائدہ حاصل کرنے سے زیادہ ضروری ہے) پر مبنی ہے۔ البتہ یہ اصول جہادِ دفاعی کی فرضیت کو معطل نہیں کرتا جب دشمن کھلی جارحیت پر اتر آئے۔
یہ موقف مظلوموں کو تنہا چھوڑنے اور استعمار کے سامنے جھکنے کے مترادف بن سکتا ہے۔قرآن میں معاہدات کی پاس داری صرف اس وقت لازم ہے جب دشمن ان کی پابندی کر رہا ہو۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{فَمَا اسْتَقَامُوْا لَکُمْ فَاسْتَقِیْمُوْا لَہُمْ ط  اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ(۷)}(التوبۃ)
’’تو جب تک وہ تمہارے لیے(اس پر) قائم رہیں تم بھی ان کے لیے(معاہدے پر) قائم رہو۔ بے شک اللہ متقین کو پسند کرتا ہے۔‘‘
حتمی رائے:قرآن و سُنّت کی روشنی میں انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کا فتویٰ زیادہ قابلِ رہنمائی ہے‘ کیونکہ یہ ظلم کے خلاف واضح موقف‘ شرعی بنیاد اور امت کی ذمہ داری کا مظہر ہے۔ ڈاکٹر برہامی کا موقف احتیاط پسند اور ریاستی دباؤ میں محدود فہم پر مبنی معلوم ہوتا ہے‘ جو عوامی جدوجہد سے ہٹانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔
قرآن و سُنّت کی روشنی میں جہاد اور فلسطین کی صورت حال
جہاد کی حقیقت:جہاد لغوی طور پر’’کوشش‘‘ یا’’جدوجہد‘‘ کے معنی میں آتا ہے‘ اور اسلامی فقہ میں یہ اللہ کی راہ میں جنگ کرنے یا کوشش کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ جہاد کا بنیادی مقصد دین اسلام کی حفاظت اور مسلمانوں کی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
قرآن و سُنّت میں جہاد کی تعریف
(۱)دفاعی جہاد: جب مسلمانوں کو غیر مسلم قوتوں کی طرف سے ظلم کا سامنا ہو۔اور وہ اپنی زندگی‘ مال اور دین کی حفاظت کے لیے لڑیں‘ تو یہ دفاعی جہاد کہلاتا ہے۔ارشادِ الٰہی ہے :
{وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا ۭ اِنَّ اللہَ لَایُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ (۱۹۰)}(البقرۃ)
’’اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں‘ لیکن حد سے تجاوز نہ کرو‘ کیونکہ اللہ تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
(۲) ظلم کے خلاف جہاد :قرآن میں اس بات کا ذکر ہے کہ جب لوگ ظلم کا شکار ہوں تو ان کی مدد کرنا اور ظلم کے خلاف لڑنا واجب ہو جاتا ہے۔
{وَمَا لَکُمْ لَا تُـقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّــنَــآ اَخْرِجْنَا مِنْ ہٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُہَاج وَاجْعَلْ لَّــنَا مِنْ لَّـدُنْکَ وَلِــیًّاج وَّاجْعَلْ لَّــنَا مِنْ لَّدُنْکَ نَصِیْرًا(۷۵)}(النساء)
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں قتال نہیں کرتے اور ان مظلوم مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی خاطرجو ظلم کے شکار ہیں‘جو دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں نکال اس بستی سے جس کے رہنے والے ظالم لوگ ہیں۔ اور ہمارے لیے اپنےپاس سے کوئی حمایتی بنا دے‘ اور ہمارے لیے خاص اپنے فضل سے کوئی مددگار بھیج دے۔‘‘
میڈیا کا کردار
بین الاقوامی میڈیا اکثر اسرائیلی بیانیے کو تقویت دیتا ہے‘ جس میں فلسطینیوں کو دہشت گرد اور اسرائیل کو مظلوم دکھایا جاتا ہے۔ البتہ الجزیرہ‘ پریس ٹی وی‘ TRT‘ اور چند آزاد صحافی فلسطینیوں کی اصل تصویر دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا نے اس بیانیے کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عام فلسطینی نوجوان‘ ڈاکٹرز‘ اساتذہ‘ اور صحافی اپنی کہانیاں خود سنانے لگے ہیں‘ جس سے عالمی عوام کی رائے میں تبدیلی آئی ہے۔
فلسطین اور لبنان میں اسرائیلی مظالم صرف زمینی تنازع نہیں بلکہ یہ انسانیت‘ آزادی اور بین الاقوامی انصاف کے لیے ایک امتحان ہیں۔ ہزاروں معصوم جانوں کا ضیاع‘ لاکھوں بے گھر افراد‘ تباہ حال معیشت‘ اور بین الاقوامی برادری کی مجرمانہ خاموشی انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ہے۔اب وقت آچکا ہے کہ عالمی طاقتیں‘ بین الاقوامی ادارے‘ اور بالخصوص مسلم دنیا اپنے ضمیر کو جھنجھوڑیں‘ اور اسرائیل کو اس کے جرائم کی سزا دینے کے لیے متحد ہو جائیں۔ اگر دنیا نے اپنی آنکھیں بند رکھیں تو فلسطین اور لبنان کے بعد ظلم کی یہ آگ باقی دنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔