اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جدّوجُہد اور
تحریک چلانا ضروری ہے یا نہیں؟
تحریک اسلامی انقلاب کا استفتاء اور علماء کرام کے جوابات
استفتاء
(۱) اس وقت پاکستان میں اسلامی آئین نافذ ہے یا نہیں؟
(۲) اسلامی آئین کے نفاذ کی شرعی حیثیت اور ضرورت کیا ہے؟
(۳) اگر کسی ملک میں اسلامی آئین نافذ نہیں تو اس ملک کے عوام اور علماء و مشائخ پر ازروئے شرع کیا ذِمہ داری عائد ہوتی ہے؟نیز اس ذِمہ داری سے عہدہ برآ نہ ہونے کی صورت میں ان کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟
(۴) اسلامی نظام کے نفاذ کےلیے جدّوجُہد اور تحریک چلانا کس قدر ضروری ہے یا نہیں؟ اور اس جدّوجُہد میں مجروح یا مر جانے والے کا شرعی حکم کیا ہے؟
(۵) اگر کسی اسلامی ملک کا سربراہ اسلامی آئین نافذ نہیں کرتا تو اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ نیز اس سے تعاون یا اس کی مخالفت کرنا ازروئے شرع کیسا ہے؟
از محمد زمان
(ناظم قمر العلوم فریدیہ‘ ماری پور روڈ‘ کراچی)
ان علماء کرام کے اسمائے گرامی جن کے جوابات ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں:
(۱) مولانا بشیر احمد چشتی‘ خطیب اعظم ‘پنڈی گھیپ
(۲) مولانا مشتاق احمد چشتی‘ شیخ الحدیث انوار العلوم ‘ملتان
(۳) جناب پروفیسر ساجد میر‘ ناظم اعلیٰ جمعیت اہل حدیث پاکستان‘ لاہور
(۴) مولانا مفتی محمد رفیق الحسنی‘ مہتمم گلزار حبیب ‘کراچی
(۵) مولانا ابوالنصر منظور احمد‘ مہتمم جامعہ فریدیہ ‘ساہیوال
٭٭٭
سوال(۱) : کیا اس وقت پاکستان میں اسلامی آئین نافذ ہے یا نہیں؟
جواب :
٭ اب تک ملک پاکستان میں اسلامی نظام کی بو تک بھی نہیں آئی! جو کچھ بظاہر بتایا جاتا ہے وہ سب کچھ اسلام کے خلاف ایک مزاح ہے۔ (مولانا بشیر احمد چشتی)
٭ اس وقت پاکستان میں کامل طور پر اسلامی آئین نافذ نہیں ہے۔ چند جزوی شقیں نافذ ہیں لیکن بموجب ارشادِ خداوندی ’’ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً‘‘ مکمل طور پر اسلامی آئین نافذ کرنا ضروری ہے۔ (مولانا مشتاق احمد چشتی)
٭ پاکستان میں اس وقت مکمل اسلامی نظام نافذ نہیں ہے۔ (پروفیسر ساجد میر)
٭ یہ بات اظہر من الشمس ہے اور دورِ حاضر کے سربراہ نے تسلیم بھی کیا ہے کہ اس وقت اسلامی آئین نافذ نہیں ہے‘ بلکہ رومی آئین نافذ ہے ۔ عدالتیں اسی آئین کے قوانین کے مطابق فیصلے کرتی ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت یا نظامِ زکوٰۃ جیسے امور کو اسلامی آئین کے نفاذ سے تعبیر کرنا اس مقدّس آئین سے مذاق ہے اور عوام اور خلق کائنات سے بدعہدی کے ساتھ ساتھ دجل و مکرو فریب ہے۔ وَاللہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (مفتی محمد رفیق الحسنی)
٭ اللہ کرے پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہو‘ تاحال اس دولت سے محروم ہیں۔
(مولانا منظور احمد)
٭٭٭
سوال(۲) : اسلامی آئین کے نفاذ کی شرعی حیثیت اور ضرورت کیا ہے؟
جواب :
٭ اسلامی آئین قرآن پاک ہے‘ جس کانفاذ کائناتِ ارضی پر خالق ِکائنات نے کر رکھاہے۔ اس کے نیک بندے اسی کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ فقط باغیوں اور سرکشوں کے لیے سزا بظاہر نہیں مل رہی۔ اس کی جواب دہی قبر اور حشرمیں ہم سب کی ہوگی!(مولانا بشیر احمد چشتی)
٭ اسلامی آئین کا نفاذ اس لیے ضروری ہے کہ اس ملک کا حصول خالصتاً اسلامی نظریے کے تحت ممکن ہوا‘ اور غالباً اس وقت کرئہ ارض پر پاکستان واحد ملک ہے جو خالصتاً اسلامی نظریےکے تحت معرضِ وجود میں آیا۔ لہٰذا یہاں اسلامی آئین نافذ نہ کرنا اس ملک کی اساس اور بنیادی مقصد سے غداری کے مترادف ہے۔ (مولانا مشتاق احمد چشتی)
٭ اسلامی آئین کا نفاذ شرعاً فرض ہے‘ کیونکہ جب کوئی اسلام قبول کرتا ہے تو اقرار کرتاہے کہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کے تحت گزارے گا۔
(پروفیسر ساجد میر )
٭ اسلامی آئین کا نفاذ فرضِ عین ہے‘ اس کا ترک استخفافاًواستحقاراًکفر ہے‘ اور کاہلی اور عذرِ غیر شرعی کی صورت میں گناہِ کبیرہ اور ظلم ہے۔ (مفتی محمد رفیق الحسنی)
٭ اسلام ہی حق آگاہی کا راستہ ہے جسے اختیار کیے بغیر حق شناسی ناممکن ہے۔ دنیوی کامیابی واُخروی نجات کا انحصاراسی میں مضمر ہے۔ (مولانا منظور احمد)
٭٭٭
سوال(۳) : اگر کسی ملک میں اسلامی آئین نافذ نہیں تو اس ملک کے عوام اور علماء و مشائخ پر ازوئے شرع کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟نیز اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہ ہونے کی صورت میں ان کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟
جواب :
٭ بہت ہی عجیب سوال ہے۔ درحقیقت علماء اور مشائخ ہی فرقہ واریت ‘ انانیت اور غفلت کی وجہ سے ذمہ دار ہیں ! اسلام کا منشاء ساری دھرتی پر خدا تعالیٰ کے دین کا نفاذ ہے۔ جب تک ساری دھرتی پر اسلام نافذ نہیں ہو جاتا جہاد ساقط نہیں ہوتا۔ افسوس کہ منبر و خانقاہ کے اکثر مقامات پر سب باتیں ہوتی ہیں‘ سوائے جہاد کے! جہاد کے بغیر مسلمان قوم کبھی سرخرو نہ ہوئی ہے نہ ہو گی! سب مسائل کے باوجود جذبہ جہاد کے بغیر مؤمن کی موت ایمان پر نہ ہو گی! (مولانا بشیر احمد چشتی)
٭ اگر کسی اسلامی ملک میں اسلامی آئین نافذ نہ ہو تو اس ملک کے عوام‘ علماء اور مشائخ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ حدودِ شرعی کی پابندی کرتے ہوئے ایسے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کریں جن سے اسلامی آئین کی راہ ہموار ہو سکے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے خود شرعی احکام کی پابندی کی جائے اور پھر وقت کے حکمرانوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ بھی شریعت کے پابند بنیں اور ملک میں اسلامی آئین نافذ کریں۔ (مولانا مشتاق احمد چشتی)
٭ جو ملک اسلامی آئین کی تجربہ گاہ کے طور پر بنایا گیا ہو‘ مگر اس میں اسلامی نظام نافذ نہ کیا جائے‘ تو عوام‘ مشائخ اور علماء کو ممکنہ حد تک اس کے نفاذ کے لیے جدّوجُہد کرنی چاہیے۔ اس ذمہ داری کو محسوس نہ کرنا اور اس کے لیے عملی جدّوجُہد سے گریز کرنا ایمان کے تقاضے کی خلاف ورزی ہے۔ (پروفیسر ساجد میر)
٭ اگر اسلامی ملک میں اسلامی آئین نافذ نہ ہو تو ملک کے عوام‘ علماء‘ مشائخ سب پر حسب استطاعت اسلامی آئین کے نفاذ کےلیے سعی اور کوشش واجب ہے۔ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ہر وہ طریقہ کار اور عمل واجب ہے جس سے اسلامی آئین کا نفاذ ممکن ہو سکے۔ اگر عوام‘ مشائخ اور علماء اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو تارک الواجب ہونے کی وجہ سے گناہگار ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے مساعی اور حسب حال کوششیں شروع کرنا ضروری ہے۔ (مفتی محمد رفیق الحسنی)
٭ علماء و مشائخ‘ عوام و خواص سبھی پر لازم ہے کہ اس کے نفاذ کے سلسلہ میں میدانِ عمل میں آئیں اور امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کریں۔ (مولانا منظور احمد)
٭٭٭
سوال(۴) : اسلامی نظام کے نفاذ کےلیے جدّوجُہد اور تحریک چلانا کس قدر ضروری ہے یا نہیں؟ اور اس جدّوجُہد میں مجروح یا مر جانے والے کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب :
٭ اسلامی نظام کے نفاذ کی سعی فرضِ اوّلین ہے‘ بشرطیکہ اسلام کو سمجھا جائے۔ محض مُلّا کا اسلام فساداور فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ حالانکہ اسلام تسلیم و رضا اور ایمان و سلامتی کا نام ہے ! فساد و فتنہ دعویٰ ملکیت سے پید اہوتا ہے‘ترکِ دعویٰ سے نہیں ہوتا۔ ہم سب خدا تعالیٰ کے خلیفہ فی الارض ہیں نہ کہ مطلق العنان مالک ہیں۔ ملائکہ نے اسی لیے عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ تُو توخلیفہ بنا رہا ہے اور یہ مالک بن بیٹھے گا۔ ساری کائناتِ ارضی پر دعویٰ ملکیت کا مزہ دیکھ لیں! تفصیلات کسی وقت پھر عرض کروں گا قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں! (مولانا بشیر احمد چشتی)
٭ اسلامی نظام کے نفاذ کےلیے ہر ایسی پُرخلوص جدّوجُہد کی جائے جو سیاسی مقاصد سے بالاتر ہو کر محض نظامِ مصطفیٰﷺ کو برسراقتدار لانے کے لیے ہو۔ ظاہر ہے ایسے نیک مقصد کے لیے تکلیف اٹھانا یقیناً بہت بڑے اجر و ثواب کا موجب ہو گا۔ { ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ لَا یُصِیْبُہُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا یَطَئُوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا اِلَّا کُتِبَ لَہُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ط } (التوبۃ:۱۲۰) (مولانا مشتاق احمد چشتی)
٭ ایک مسلمان کے لیے دین کو بطور نظام نافذ کرانے کے لیے تن من دھن کے ساتھ پوری طرح کوشش کرنی چاہیے۔ اور اس راہ میں اگر کوئی تکلیف پہنچے تو انسان صبر کرتا رہے۔ اگر خالص رضائے الٰہی کے لیے ہے تو اس راہ میں موت‘ شہادت ہے۔ ان شاء اللہ! (پروفیسر ساجد میر)
٭ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے تحریک اور ہر ایسی جدّوجُہد جو کہ شرعی حدود میں ہو‘ میں شریک ہونے والے مجاہدین اور ایسی جدّوجُہد میں مر جانے والے شہید ہوں گے۔اور ایسی تحریک جس کی بنیاد ((مَنْ رَآی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ، فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ، وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ، اَوْ کَـَما قَالَ)) ہو‘ فرض ہے۔ (مفتی محمد رفیق الحسنی)
٭ نظام مصطفیٰﷺ کے نفاذ کے سلسلے میں کام آنے والے مجاہدین‘ شہیدین مقبولین بارگاہ ہیں۔ (مولانا منظور احمد)
٭٭٭
سوال(۵) : اگر کسی اسلامی ملک کا سربراہ اسلامی آئین نافذ نہیں کرتا تو اس کے متعلق شرعی حکم کیا ہے؟ نیز اس سے تعاون یا اس کی مخالفت کرنا ازروئے شرع کیسا ہے؟
جواب :
٭ اسے نافذ نہ کرنے والے کے خلاف سعی کرنا ملّت کی استطاعت اور بصیرت کے ساتھ وابستہ ہے۔ مروّجہ سیاسی جماعتوں کا طریق تعاون اور مخالفت قطعی اسلام کے خلاف ہے! خدا تعالیٰ سچی اور کامل بصیرت و ہمت عطا فرما دے! (مولانا بشیر احمد چشتی)
٭ اگر کسی اسلامی ملک کا سربراہ اسلامی آئین نافذ نہیں کرتا تو نہ صر ف یہ کہ وہ عند اللہ مجرم ہوگا بلکہ عند الخلق بھی اس سے جواب طلبی کی جائے گی۔ اور اس سے صرف اسی صورت میں تعاون کیا جائے گا جب کہ وہ اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے کوئی مستحسن قدم اٹھانے پر تیار ہو جائے۔ ارشادِ خداوندی ہے : { وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی ص وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ص } (المائدۃ:۲)’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں باہمی تعاون کرو‘ اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں معاون نہ بنو۔‘‘ (مولانا مشتاق احمد چشتی)
٭ اگر کسی ملک کا مسلمان سربراہ اسلامی نظام نافذ نہیں کرتا تو وہ ظالم‘ کافر اور فاسق ہے۔ {وَمَنْ لَّــمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰفِرُوْنَ(۴۴) ....... وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (۴۵) ....... وَمَنْ لَّـمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۴۷)}(المائدۃ) اس کے خلاف بھرپور جدّوجُہد کرنی چاہیے۔ (پروفیسر ساجد میر)
٭ ایسےسربراہ اور حاکم وقت کی اطاعت واجب نہیں ہے۔ اس کے ساتھ تعاون علی الاطلاق تعاون علیہ السلام ہونے کی وجہ سے ممنوع ہے۔ بلکہ ایسی کوششیں ضروری ہیں جس سے وقت کا سربراہ اسلامی آئین نافذ کرنے پر مجبور ہو جائے۔ (مفتی محمد رفیق الحسنی)
٭ نظامِ مصطفیٰﷺ کے نفاذ کی راہ میں حائل ہونے والی ہر چھوٹی بڑی رکاوٹ کا ہٹانا نہایت ہی ضروری ہے۔ وَصَلَّی اللّٰہ تعالیٰ عَلٰی حبیبہٖ محمد وآلہ وأصحابہ وَسَلَّم! (مولانا منظور احمد)
(شائع شدہ:میثاق‘ اگست۱۹۹۴ء)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025