(عرض احوال) سفید جھنڈے اور کالے جھنڈے! - رضاء الحق

10 /

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سفید جھنڈے اور کالے جھنڈے!

گزشتہ دنوں تقریباً تمام بڑے اخبارات نے ایک شہ سرخی لگائی کہ وزیر اعظم پاکستان نے کہا ہے کہ ’’بھارت سے۱۹۷۱ءکی جنگ کا بدلہ لے لیا ہے۔‘‘ اس میں شک نہیں ہے کہ بھارت کے آپریشن ’’سندور‘‘ کے مقابلے میں پاکستان کے آپریشن ’’بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ‘‘ کو کامیابی ملی۔ اس کے نتیجے میں کوئی فیلڈ مارشل قرار پایا تو کسی کو چیف برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔پہلے اس امر میں اختلاف تھا کہ پاکستان نے بھارت کے پانچ رافیل طیارے گرائے ہیں یا تین ‘ پھرجب تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ پانچ نہیں چھ طیارے مار گرائے گئے تھے ۔
پاکستان کی اِس کامیابی سے شاید ہی کوئی محبِ وطن انکار کرے ‘مگر اِس کامیابی کو ۱۹۷۱ء کی جنگ کا بدلہ قرار دینا ہر گز درست نہیں۔آج کی نوجوان نسل بلکہ وہ نسل بھی جو گزشتہ پانچ سات سال سے عملی زندگی میں قدم رکھ چکی ہے‘ کو تو شاید یہ بھی علم نہیں ہے کہ بنگلہ دیش۱۹۷۱ء سے پہلے مشرقی پاکستان ہوا کرتا تھا۔تاہم اچھی بات یہ ہے کہ ۱۹۷۱ء کی جنگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ابھی زندہ ہیں اور ہر سال ۱۶دسمبر کا دن اُنہیں اُداس کر جاتا ہے ۔اِس صدی کے آغاز میں پاکستان کے عنانِ اقتدار پر فائز فوجی حکمران کی پالیسیوں کی بدولت قوم کے اذہان سے یہ صدمہ تقریباًمحو کرا ہی دیا گیا تھا کہ دس سال پہلے اسی تاریخ کو پشاور میں سانحہ اے پی ایس سے قوم کا غم دو آتشہ ہوگیا تھا۔بےشک نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرجانے کے بعد۱۰ مئی ۲۰۲۵ء کو پہلی مرتبہ اِس قوم کو عزت کا سانس لینے کو ملا ہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان سے پاکستان کے عوام کو بڑی خوشی ملی ہے ‘ جنہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اُس جنگ میں ہم نے آدھاپاکستان کھو دیا تھا اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں کے مطابق ۹۰ ہزار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا گیا تھا۔ چونکہ بھاگتے چور کی لنگوٹی بھی کافی ہوتی ہے اِس لیے ہم یہ آسانی سےکہہ سکتے ہیں کہ بھارت سے ۱۹۷۱ء کی جنگ کا بدلہ لے لیا گیاہے۔
وزیراعظم یہ بیان دیتے ہوئے نجانے مشرقی پاکستان کا کھو جانا کیوں بھول گئے؟۹۰ہزار نہ سہی ‘ نو ہزار ہی سہی فوجی قیدی کیوں بھول گئے ہیں؟عزت مآب وزیراعظم صاحب سے سوال ہے کہ مئی ۲۰۲۵ء کی جنگ میں کیا ہم نے بنگلہ دیش کو مشرقی پاکستان بنا لیا ہے‘ یا بھارت کے دس ہزار فوجیوں کو قیدی بنا لیا ہے‘ یاپاکستان نے بھارت کے ایک انچ علاقے کو ہی فتح کر کے وہاں اپنا جھنڈا لہرادیاہے؟ البتہ چین سے آنے والی خبروں سے یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ چین نے بھارت کی ریاست اروناچل پردیش کے کچھ حصوں کو اپنی حدود میں شامل کرکے وہاں نہ صرف چینی پرچم لہرا دیا ہے بلکہ اُس علاقے کا نام بھی بدل کر ’’زنان‘‘ رکھ دیا ہے‘ جبکہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔اگر بھارتی دعویٰ کو نظر انداز کرتے ہوئے چینی دعویٰ ہی کو لے کر چلیں تو پھر بھی چینی کامیابی کو اپنی کامیابی خیال کرنا دانش مندی تو نہیں کہا جاسکتا۔ پاکستانی میڈیا اب چند سال پہلے والا میڈیا نہیں رہا ہے ‘مگر عوام تو یہی سمجھتے ہیں کہ جو کچھ معلومات بھی اُنہیں مل رہی ہے وہ سچ کے سوا کچھ نہیں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ ‘بھارت کی درخواست پر بند ہوئی ہے‘جسے پاکستانی قوم اپنی فتح خیال کررہی ہے۔ایسے میں ہماری اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ پاکستانی قوم کی خواہشات اور توقعات کی تکمیل کر دے۔تاہم اِس میں شک نہیں ہے کہ آپریشن سندور بمقابلہ آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ میں پاکستان کا مالی و جانی نقصان بھارت کے نقصان کی نسبت بہت کم ہے اور اِس اعتبار سے پاکستان یہ معرکہ جیت چکا ہے ۔بھارت نے پاکستان کے نیلم جہلم منصوبے کو متاثر کیا ہے۔اس کا یہ اقدام سنگین جنگی جرم شمار ہوتا ہے جس پر خاموشی اختیار کرنا بذاتِ خود ایک بڑا جرم ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے آپریشن سندور اپنے مذموم مقاصد سے زیادہ اسرائیلی مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے شروع کیا تھا کہ پاکستان کواپنے دفاع کے چکر میں ڈالے رکھو اور اس دوران میں اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا آپریشن مکمل کر تے ہوئے عرب ممالک سےخود کو تسلیم کرنے کی سند بھی حاصل کرلے۔ اِس آپریشن کا وقت بھی وہ رکھا گیا تھاکہ جب صدر ٹرمپ دورئہ مشرقِ وسطیٰ میں مصروف تھے۔
اِس حوالے سے بھارت سے کچھ حسابی غلطیاں بھی ہوئی ہیں ۔اُس کے خیال میں اسرائیلی اسلحہ اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر جس طرح سے غزہ کے نہتے فلسطینیوں کاحشر کیا عین اُسی طرح پاکستان میں بھی ممکن تھا۔اُس کے نزدیک طاقت کا توازن کچھ اِس طرح سے تھا:
(۱)دورانِ جنگ بھارت کے کل وسائل =بھارتی وسائل +اسرائیلی وسائل +امریکی وسائل + پاکستان کے خلاف بھارت کا منفی پراپیگنڈا
(۲) دورانِ جنگ پاکستان کے کل وسائل=پاکستان کے کل وسائل(پاکستان کے اندرونی مسائل +مسلم اُمّہ کے مسائل+پاکستان کےپڑوسی ممالک سے خراب تعلقات)
جبکہ اصل صورتِ حال یہ تھی :
دورانِ جنگ پاکستان کے کل وسائل=پاکستان کے کل وسائل (پاکستان کے اندرونی مسائل + مسلم اُمّہ کے مسائل+پاکستان کے پڑوسی ممالک سے خراب تعلقات)+نصرتِ الٰہی
بے شک یہ معرکہ پاکستان نے صرف نصرتِ الٰہی کی وجہ سے ہی جیتا ہے۔ پاکستان اِس آپریشن سے قبل بھارت کو مسلسل متنبہ بھی کرتارہا ہے کہ وہ پاکستان کو نہ چھیڑے کیونکہ پاکستان ایک پُر امن ملک ہے اور پُر امن ہی رہنا چاہتاہے ۔اگر پاکستان کو چھیڑ ہی دیا گیا تو پھر بھارت کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ جب تک بھارت پاکستان پر حملے کرتا رہا‘پاکستان دنیا کوبتاتا رہا کہ بھارت زیادتی کررہاہے اسے روکا جائےمگر بھارت کو روکنے کے لیے کوئی بھی ملک سامنے نہیں آیا ۔ جیسے ہی پاکستان نے جوابی کارروائی کی تو امریکہ اور سعودی عرب سمیت کئی عالمی طاقتیں امن کے جھنڈے لے کر پاکستان کی طرف بڑھنے لگیں اور آخر کار امریکہ ’’بہادر‘‘کی کوششیں رنگ لے آئیں اور سیز فائر ہو گیا۔
بھارت اور پاکستان کے مابین سیز فائر کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی کم و بیش تین مرتبہ ہو چکا ہے اور ہمیشہ اُس وقت ہواہے جبکہ پاکستان اللہ کی مدد سے دشمن کو اُس کے گھر تک چھوڑ کر آنے پر پوری طرح قادر تھا۔یہ صورت حال دیہاتوں میں اکثر دیکھنے میں آتی ہے کہ جب ایک طاقتور کسی کمزور پر حملہ کرتا ہے تو گاؤں کے سارے طاقتور خاموش رہتے ہیں مگر جب کمزور طاقتور کی پٹائی کرنا شروع کرتا ہے تو سارے طاقتور صلح صفائی کے لیے میدان میں آجاتے ہیں ۔ کئی طاقتور تو ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو صلح صفائی کی غرض سے کمزور کو مکمل طور پر جکڑ لیتے ہیں اور طاقتور اُس کی خوب دھلائی کرتا رہتاہے اور جب وہ پٹائی کرتے کرتے ہانپنے لگتا ہے تو پھر صلح بھی کرادی جاتی ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ اِس مرتبہ پاکستان کے ساتھ ایسی صورت حال نہیں ہوئی ‘ماضی میں کبھی ہوئی ہو تو الگ بات ہے!
درحقیقت یہ جنگ بندی نہیں بلکہ آپریشن سندور اور آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ کے حوالے سے سیز فائر ہوا ہے جو عارضی ہے۔ذرائع کے مطابق‘اس کے بعد بھارت نے امریکہ سے مزید فضائی اسلحہ حاصل کیا ہے۔ بے شک رافیل طیاروں کا غم بھلانے سے بھولے گا۔حقیقت یہی ہے کہ بھارت اس دوران رسمی یاغیررسمی اور سرکاری یاغیر سرکاری طور پر پاکستان کو نقصان پہنچانے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کرے گا۔ ہمارامسئلہ یہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے ہی امن کا خواہاں و خوگر رہا ہے ‘اسی لیے اُس نے کبھی بھی جنگ کا آغاز نہیں کیا ۔ دوسری طرف بھارت یہ سمجھتا ہے کہ وہ جنگل کا شیر ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اُس کی رعایاہیں کہ وہ جس کا چاہے شکار کرلے۔یہود کا بھی یہی موقف ہے کہ دنیا میں عزّت سے رہنے کا حق صرف ان ہی کو حاصل ہے جبکہ غیر یہودی gentile یعنی انسان نما حیوان ہیں۔ان کے نزدیک یہ حشرات الارض کی حیثیت رکھتے ہیں جن کی جان و مال اور عزت کی اہمیت ہی نہیں ہے۔ اسی خیال سے وہ گزشتہ۷۷ برس سے فلسطینی مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں ۔ تقریباً ڈیڑھ برس پہلے جب حماس نے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق اسرائیل پر حملہ کیا توصہیونی یہودیوں کے ہوش ٹھکانے آگئے۔سالِ رواں کے آغازتک حماس نے اسرائیل کا جس قدر نقصان کردیا تھا ‘دنیا کی کسی بھی بڑی طاقت کو اس کی توقع ہی نہیں تھی ۔پھر دنیا کے طاقتور ممالک کو ہوش آیا اور اُنہوں نےجنگ بندی کرادی۔اِس جنگ سے غیر وابستہ اقوام بھی اس جنگ بندی پر خوش تھیں اور توقع کررہی تھیں کہ اب دنیا میں امن ہو جائے گا مگر چند ہفتوں کے بعد ہی اسرائیل نے عہد شکنی کرتے ہوئے غزہ پر وہ بمباری کی کہ جو اس سے پہلے کبھی بھی نہیں کی تھی۔اسرائیل کی اس حرکت کودنیا بھر میں کہیں بھی سراہا نہیں گیاتو کسی بھی طاقت نے اِس کی مذمت بھی نہیں کی۔
بھارت چونکہ اس وقت مکمل طور پر اسرائیلی گود میں ہے اور اُسی کی دی ہوئی تربیت کے مطابق عمل کررہا ہے توہمارا خیال ہے کہ پاکستان نے بھی سیز فائر کرتے ہوئے یقیناًاسرائیل اور اہلِ غزہ کی جنگ بندی کا انجام سامنے رکھا ہی ہوگا۔ ۶ اور ۷ مئی کی درمیانی رات کو میزائل حملوں کے بعد جب پاکستان نے جوابی کارروائی کی تو بھارت نے اپنی کئی سرحدی چوکیوں پر سفید جھنڈے لہرا دیے تھے جن کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ مزید جنگ نہیں کرنا چاہتا۔پھر جنگ پر اُکسانے والی طاقتوں کے ایما پروہ اپنے سفید جھنڈوں کو بھول گیا اور اپنی جارحیت کو جاری رکھا۔اِن حالات میں ہم تو یہی کہیں گے کہ بھارت اور اسرائیل کو تو اپنے سفید جھنڈوں کو بھول جانے کی عادت ہے مگر پاکستان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اُنہیں کالے جھنڈے لے کر ایلیا کی طرف جانا ہے۔ ایسے میں سیز فائر کے وعدے پر سکون کا سانس لینے یا بھنگڑے ڈالنے کی بجائے رسول اللہ ﷺ کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے اگلے محاذ کے لیے خود کو تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اگلا محاذ بلا شبہ المَلحَمَۃ الکُبْریٰ ہے جس میں ہمیں امام مہدی کا ساتھ دے کر دجال کو مات دینی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں دجال کو پہچاننے اور اُس کا مقابلہ کرنے کی بھرپور ہمت اور توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کا ایمان محفوظ فرمائے۔ آمین!