سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ(۲)مدرّس:ڈاکٹر اسرار احمدؒ
ہمارے دین میں سورئہ فاتحہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ اس کے فہم و تدبر پر کئی اجتماعات ہو جائیں تو بھی یقیناً یہ اس کا حق ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس سورئہ مبارکہ کو سمجھانے کا حق اداکرنا کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ جس سورت کی عظمت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ فرمارہے ہوں کہ اس جیسی سورت نہ تورات میں نازل ہوئی‘ نہ انجیل میں نازل ہوئی ‘ اورنہ ہی قرآن مجید میں اس کی کوئی مثل ‘ نظیر اور ہم پلہ کوئی دوسری سورت ہے(حوالہ گزر چکا ہے)‘ ذرا غور کریں کہ اس سورت کا حق ادا کرنا کس انسان کے بس میں ہے! ہمارے اس زمانے میں مولانا ابوالکلام آزادنے سورئہ فاتحہ کی تفسیر’’اُمّ الکتاب‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔کوئی شک نہیں کہ وہ معارفِ قرآنی کابہت بڑاخزانہ ہے‘ پھر یہ کہ وہ اردو ادب کا بھی بہت بڑا شاہکار ہے ‘ اسے اردو ادب کےclassics میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس کےباوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس سورئہ مبارکہ کا جیسےحق اداہوناچاہیے تھا وہ ادا ہوگیاہے۔مَیں حیران ہوںکہ سورئہ فاتحہ کی سات آیات میں سے ایک آیت کاتو انہوں نے کسی درجہ میں بھی حق ادا نہیں کیا‘ وہ بڑا مختصر سا پیرا لکھ کر گزر گئے‘ حالانکہ وہ اس سورئہ مبارکہ کی مرکزی آیت ہے : { اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ}۔اس مرکزی اور بنیادی آیت پر کچھ نہیں لکھا۔ ربوبیت ‘رحمت ‘ ہدایت‘ جو سورئہ فاتحہ کے بنیادی مضامین ہیں ‘ اُن پر بڑی مفصل گفتگو کی ہے اور مَیں یہ کہہ سکتاہوں کہ سورئہ فاتحہ کے ان تین مباحث کی تفسیر میں جس مقام تک مولانا ابوالکلام آزاد پہنچ گئے تھے‘ کسی دوسرے کے لیے وہاں تک پہنچنا ممکن نہ ہوگا۔
مضامین کا تجزیہ : حدیث ِقدسی کی روشنی میں
اصل میں تجزیہ سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی شے کے یا کسی پیچیدہ بحث کےاجزاء معیّن کرلیں تو اُ ن کو سمجھ کر یاد رکھنا اور حسب ِضرورت انہیں ذہن میں تازہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
اس سورہ مبارکہ کے مضامین کا تجزیہ بھی ہمیں ایک حدیث ِ قدسی سے ملتاہے۔اس حدیث کےراوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ‘ اورشیخین میں سے اما م مسلمؒ نے اس کوروایت کیا ہے ۔ ان کے علاوہ امام مالک ‘ امام ترمذی ‘ امام ابوداؤد ‘ امام نسائی او رامام ابن ماجہ رحمہم اللہ نے اس روایت کواپنی اپنی کتابوں میں لیا ہے۔ اس سے ایک تویہ معلوم ہوجائےگا کہ یہی سورئہ فاتحہ ہماری نماز کا جزو لاینفک اور اس کی اصل روح ہے۔ نیز اس اختلافی مسئلہ کاحل بھی مل جائےگا کہ آیا آیت بسم اللہ اس سورئہ مبارکہ کاجزو ہے یا نہیں!
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ صَلّٰى صَلَاةً لَمْ يَقْرَاْ فِيْهَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ۔ثَلَاثًا۔ غَيْرُ تَمَامٍ))
’’جس نے کوئی بھی نماز پڑھی اوراس میں سورئہ فاتحہ نہیں پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے‘نامکمل ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ فَھِیَ خِدَاجٌ حضور ﷺ نے تین مرتبہ دہرایا۔ اس کے بعد حضور ﷺ کے اپنے ہی الفاظ ہیں: غيرتمام یعنی وہ مکمل نماز نہیں ہے۔ گویا لفظ ’’خِدَاج‘‘ کی آپﷺ نے خود ہی وضاحت فرمادی۔
فَقِيْلَ لِاَبِيْ هُرَيْرَةَ: إنَّا نَكُوْنُ وَرَاءَ الْإِمَام حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا گیاکہ ہم تو امام کےپیچھے ہوتے ہیں۔ یعنی اما م پڑھ رہا ہوتا ہے تو ہم کیا کریں؟ معلوم ہوا کہ فاتحہ خلف الامام کا مسئلہ اتنا عملی مسئلہ ہے کہ دورِ صحابہ ؓ اوردورِ تابعینؒ میں بھی اس مسئلے پر سوالات پید ا ہوگئےتھے۔ فَقَالَ: اِقْرَأْ بِهَا فِيْ نَفْسِكَ ’’فرمایا:ایسی صورت میںتم اس کو اپنے دل میں پڑھا کرو۔‘‘ یعنی آواز ظاہر نہ ہو کہ جماعت متاثر ہو ‘ لیکن امام کے ساتھ ساتھ پڑھا کرو۔ یہ اُن کا اپنا قول ہے‘ حضور ﷺ کا قول نہیں ہے۔یہ ان کا اپنا اجتہاد ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں:اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ یَقُوْلُ: قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: ’’مَیں نےخود سناہے نبی اکرمﷺ کو فرماتےہوئے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔‘‘
اب یہاں سے حدیث ِ قدسی شروع ہوگئی۔ حضور ﷺ بصراحت بیان فرمارہے ہیں کہ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ((قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ))’’ مَیں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کرلیا ہے۔‘‘معلوم ہوا کہ اگلی تفصیلات سورئہ فاتحہ کی شرح ہیں۔ پہلی بات یہ معلوم ہوئی کہ سورئہ فاتحہ ہی اصل نماز ہے۔ فرمایا:((وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ))’’اور میرے بندے کے لیے ہے جو اُس نے مانگا۔‘‘ اب یہاں حدیث کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ حدیث قدسی ختم ہو گئی ہے۔ اب آگے حضورﷺ مزید وضاحت کے ساتھ اس حدیث قدسی کی شرح فرما رہے ہیں: ((فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ : اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ قَالَ اللّٰہ تَعَالیٰ : أَثْنٰى عَلَيَّ عَبْدِي)) ’’پس جب بندہ کہتا ہے: اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی۔‘‘ ((وَإِذَا قَالَ: الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰى: أَثْنٰى عَلَيَّ عَبْدِي)) ’’اورجب بندہ کہتا ہے : الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تواللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا کی۔‘‘ ((وَإِذَا قَالَ: مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ قَالَ اللّٰہ تعالیٰ: مَجَّدَنِي عَبْدِي)) ’’اور جب بندہ کہتا ہے: مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ۔‘‘ ایک مرتبہ حضورﷺ نے یہاں یہ الفاظ بدل کر فرمائے کہ ’’جب بندہ یہ کہتا ہے : مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے اپنے آپ کو میرے حوالے کر دیا۔‘‘یعنی مجھے اپنا مالک تسلیم کر لیا‘ میرے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ہونے کا مطلق اختیار مان لیا۔ ((فَإِذَا قَالَ: اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ قَالَ اللّٰہ تعالیٰ: ھٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَاَلَ)) ’’پھر جب بندہ کہتا ہے : اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے : یہ میرے اور میرے بندے کے مابین ہے‘ اور مَیں نے اپنے بندے کودیا جو اُس نے مانگا۔‘‘((فَإِذَا قَالَ..... قَالَ هٰذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ)) ’’پھرجب بندہ کہتا ہے : اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّآلِّينَ)) تواللہ فرماتا ہے: یہ میرے بندے کا حصّہ ہے اور مَیں نے اپنے بندے کو عطا فرمایا جو اُس نے مانگا۔‘‘(۱۱)
اب یہ جو بڑی پیاری وضاحت ہمیں اس حدیث ِ قدسی سے مل گئی ‘ جو صحیحین کے رتبے کی ہے ‘اس سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوا کہ نماز کا اصل جوہر‘ اصل لب ِلباب‘ گویا اصل نماز سورئہ فاتحہ ہے۔ دوسری بات یہ بھی معلوم ہو گئی کہ آیت ’’بِسْمِ اللّٰہِ‘‘ سورئہ فاتحہ کا جزو نہیں ہے۔امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی یہ رائے بڑی وزنی ہے‘ اس لیے کہ اس حدیث میں آیت ’’بِسْمِ اللّٰہ‘‘ کا ذکر نہیں ہے۔ ویسے بھی ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ، الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ‘‘ یہ تکرار ذوقِ سلیم کے مطابق نہیں ہے۔ بہرحال ’’بسم اللہ‘‘ ایک علیحدہ آیت ہے اور یہاں اس لیے درج ہے کہ وہ سورۃ التوبہ کے سوا ہر سورت کے شروع میں بطور ایک علامت درج کی جاتی ہے کہ اب ایک نئی سورت شروع ہورہی ہے۔اس طرح ثابت ہوا کہ سورئہ فاتحہ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِينَ سے شروع ہوتی ہے۔
تین حصوں پر مشتمل سورت
ان تمہیدی و اصولی باتوں کو ذہن میں رکھیے تو معلوم ہوگا کہ اس سورئہ مبارکہ کے تین حصے بن جاتے ہیں۔ ایک حصّہ جو پہلی تین آیا ت پرمشتمل ہے وہ کُل کا کُل اللہ کے لیے ہے۔ تمام تر حمد اللہ کی ‘ ثنا اللہ کی ‘ تمجید اللہ کی‘تویہ حصّہ کلیتاً اللہ کا ہوا:
{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}
سورت کی آخری تین آیات دعا و درخواست پر مشتمل ہیں:
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo}
یہ ہدایت بندہ کی احتیاج ہے ‘ بندہ کی ضرورت ہے۔لہٰذا اس کےبارے میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ یہ میرے بندے کے لیے ہےاورمیرے بندےنے جو مجھ سے مانگامَیں نے اسے دے دیا ۔پہلی تین آیا ت خالص اللہ کے لیے ‘ آخری تین آیات خالص بندے کے لیے ‘ اب درمیانی آیت وہ مرکزی آیت ہے جو ان دونوں حصوںکو جوڑنےوالی ہے:
{اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo }
اس حدیث پر جب انسان نحوی اصولوں کے مطابق غورکرتاہےتو جو پہلو سامنے آتےہیں ‘ ان میں سے ہر پہلو انسان کی بصیرتِ باطنی میں اضافہ کرنےوالا ہے۔ عجیب بات ہےکہ آیات تین ہیں لیکن گرامر کی رُوسے جملہ ایک ہی ہے ‘ اس لیے کہ{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo}کے بعد{الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo} اللہ کی صفات ہیں۔ یہ علیحدہ جملہ نہیں ‘بلکہ اُسی کےساتھ ملتا ہے۔ {مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo} میں ’’مٰلِکِ‘‘ بھی مجرور ہے۔ اس کے آخری حرف’’کاف‘‘پر زیر آرہاہے ‘ یہ بھی اُسی کےساتھ جڑا ہوا ہے۔ تو عربی قواعدکی روسے پہلی تین آیا ت ایک ’’جملہ اسمیہ خبریہ‘‘ بنتی ہیں۔اسی طریقے سے آخری تین آیات بھی ایک ہی ’’جملہ انشائیہ‘‘ بنتی ہیں:{ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} کے بعد اسی کی صفات اور بدل ہیں: {صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۵ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo}۔
انگریزی میں جملے کا جو analyses کرتے ہیں ‘ اس کےاعتبار سے {اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo} principal clause اور اگلی دو آیات {الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo} دو subordinate clauses مل کر ایک مکمل جملہ بنتا ہے۔ اسی طرح آخری تین آیات میں اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ principal clause ہے اور صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo یہ subordinate clauses ہیں اور پھر مل کر جملہ ایک ہی بنتا ہے۔ البتہ درمیانی و مرکزی ایک آیت میں دوجملے ہیں ۔{اِیَّاکَ نَعْبُدُ} مکمل جملہ ہے۔ اس میں فعل‘ فاعل اورمفعول تینوں چیزیں بیک وقت موجود ہیں ۔ اسی طرح {اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} بھی مکمل جملہ ہے۔پہلی تین آیا ت ایک جملہ ‘ آخری تین آیات ایک جملہ‘ درمیانی آیت ایک لیکن جملے دو‘ تاکہ تقسیم بالکل برابر ہوجائے۔
آیاتِ فاتحہ: ترازو کی مانند
درمیانی آیت کے دو جملوں کے درمیان واؤ عطف آیاہے: اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اس کو یوں سمجھ لیجیے ‘ جب آپ ترازو کو ہاتھ میں پکڑتے ہیں تو جس حصے کو مٹھی میں لیتے ہیں وہ ہے واؤ۔ واؤ سےپہلے اِیَّاکَ نَعْبُدُ اوراس کے ساتھ ابتدائی تین آیات پہلا حصّہ تھا۔ ترازو کےپلڑے میں عموماً ڈوریاں تین ہی ہوتی ہیں۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo ان تین ڈوریوں سے ایک پلڑا بنا جو اللہ کا ہے اوریہ جڑ گیا اِیَّاکَ نَعْبُدُ سے۔پھر وہ واؤ ہے جہاں سے ترازو ہاتھ میں لیاگیا۔ پھر اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ سے تین ڈوریاں دعا کو جوڑے ہوئے ہیں: اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo یہ دوسرا حصّہ بندے کے لیے ہے۔ اس طرح سورئہ فاتحہ کی مکمل تقسیم نصفین میں ہوجاتی ہے۔
حصّہ اوّل (حمد و ربوبیت) کی تفہیماس تجزیہ کو ذہن میں رکھ کرہم پہلے حصے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے ۔ فلسفہ قرآن کے حوالے سے یہ بہت اہم بحث ہے۔(۱۲)
’’حمد‘‘ کا معنی و مفہوم
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo ’’حَمْد‘‘ کے معنی کے بارے میں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ اس کے اندر دومفہوم ہیں۔بنیادی مفہوم شکر کاہے۔اس شکر کو ہم سورئہ لقمان میں پڑھ چکے ہیں ۔فرمایا:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلہِ ط وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ ج }
’’اور ہم نےلقمان کو دانائی عطا فرمائی کہ کر شکر اللہ کا۔ اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ شکر کرتا ہے اپنے بھلے کو۔‘‘
شکر منعم کےکسی احسان اور انعام پر ادا کیا جاتا ہے۔ جس نے آپ کے ساتھ بھلائی کی‘ آپ کی کوئی ضرورت پوری کی ‘آپ کی کوئی تکلیف دُورکی ‘ تو آپ اس کا شکر ادا کرتے ہیں ۔اس سے ذرا آگے بڑھ کر ایک ایسی ہستی کا تصوّرکیجیے جس میں کمالات ہیں ‘ محاسن ہیں ‘ چاہےآپ کو اُن سے کوئی براہ ِ راست فائدہ نہ پہنچ رہا ہو۔مثلاً آپ نے ایک پھول دیکھا جو بہت خوبصور ت ہے۔ اس کو دیکھنے سے آپ کی کوئی ضرورت تو پوری نہیں ہوئی ‘ لیکن آ پ اس کی تعریف کرتے ہیں کہ عمدہ ہے ‘ بہت خوبصورت ہے ‘ اس کی خوشبو بہت اعلیٰ ہے۔ یہ ہے اس کے حسن یا کمال کی تعریف۔ اسی طریقہ سےکسی بہت عمدہ ‘ بہت ہی اعلیٰ منظر کی آپ تعریف کرتے ہیں ۔ کسی شخص میں کوئی ایسا وصف پایا جاتا ہے جو محمود ہے ‘ عمدہ ہے ‘ آپ اس کی ثنا کرتے ہیں‘ تعریف بیان کرتے ہیں‘ چاہے اُس کےوصف سے آپ کو کوئی فائدہ پہنچاہویا نہ پہنچا ہو۔ چنانچہ اگرکسی ہستی سے آپ کو کوئی فیض پہنچا ہے توآپ شکر کرتے ہیں اوراگرکسی میں کوئی حسن ہے ‘کوئی کمال ہے ‘ کوئی خیر ہے ‘کوئی خوبی ہے ‘ چاہے براہِ راست اس سے آپ کو کوئی فائدہ نہ پہنچا ہو ‘ تو آپ اس کی تعریف کرتے ہیں۔ جب آپ شکر اور تعریف کو جمع کر لیں گے تو یہ لفظ حمدبن جائے گا۔ لفظ ِ حمد کا ترجمہ ہمارے ہاں صرف تعریف سے کر دیاجاتا ہے: ’’ کُل تعریف اللہ کے لیے ہے‘‘لیکن اس سے بات پوری نہیں ہوتی۔ حمد کے لفظ میں شکر اور ثنا دونوں چیزیں جمع ہیں۔
تعریف کا لفظ بھی عربی کا ہے‘لیکن عربی میں تعریف کا لفظ اُس معنی میں نہیں بولا جاتا جس معنی میں ہم اُردو میں بولتے ہیں۔ عربی میں تعریف کے لیے لفظ ِثنا ہے ‘ ثنا کے معنی دہرانے اور لوٹانے کے ہیں۔کسی میں کوئی وصف ہو‘ آپ نے وہ وصف اُس کے سامنے بیان کیا توگویا اُس کاوصف اُسی کی طرف لوٹا دیا۔ کسی پھول کی خوبصورتی بیان کی تواُ س کے وصف کو اسی کی طرف لوٹادیا۔یہ لوٹانا ‘ دہرانا ہی دراصل ثنا کا مفہوم ہے۔ ثنا یہ ہے کہ کسی کے حسن ‘ کمال ‘ خوبی کو بیان کیاجائے ۔اگر اس میں کوئی نفع ‘ خیر‘ بھلائی ہو جو آپ کو پہنچی ہو تو اب یہ صرف ثنا نہیں ہو گی بلکہ یہ شکر ہو جائے گا۔ پھران دونوں کوجب جمع کریں گے تو یہ لفظ ِحمد بن جائے گا۔
حمد کا ہمارے دین سے تعلق
لفظِ’’ حمد‘‘کا ہمارے دین سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ہمار ی اس اُمّت کا نام ہی ’’حَمَّادون‘‘ آیاہے‘ یعنی بہت زیادہ حمد کرنےوالے لوگ۔ ہمارے پیارے آقا نبی کریم ﷺ کے نام اسی حمد کے مادہ سے ماخوذہیں۔ قرآن مجید میں آپ ﷺ کا نام محمد(۱۳) اور احمد (الصف:۶)آیا ۔احمد ’’حمد‘‘ سے تفضیل کا صیغہ ہے جبکہ محمد’’ تحمید‘‘ سے اسم مفعول ہےیعنی جس کی انتہائی حمد کی گئی ہے۔حضور اکرمﷺ فرماتے ہیں:((اَنَا مُحَمَّدٌ وَاَنَا اَحْمَدُ))(۱۴)۔آپﷺ کے ناموں میں حامد اور محمود بھی ہے۔گویا آپ ﷺ کےاکثر اسماءگرامی اس لفظ ’’حمد‘‘ سے ماخوذہیں۔ پھر یہ کہ قیامت کے دن جو مقام آپ ﷺ کو ملنے والا ہے ‘اس کو قرآن نے’’مقامِ محمود‘‘ کا نام دیا ہے:{عَسٰى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹)}(بنی اسرائیل) ’’کیا عجب ہے (اے نبی ﷺ) آپ کو آپ کا ربّ مقامِ محمود عطا فرمادے۔‘‘ایک حدیث میں آتاہے کہ میدا نِ حشر کے حوالے سے حضور ﷺ اپنے بارے میں فرماتے ہیں : ((وَبِیَدِیْ لِوَاءُ الْحَمْدِ))(۱۵) ’’اوراللہ کی حمد کا جھنڈامیرے ہاتھ میں ہوگا۔‘‘جب میدانِ حشر میں دربارِ خداوندی لگے گاتو اللہ تعالیٰ مجھے اپنی حمد کے الفاظ الہام کرے گا جن سے میں اُس کی حمدکروں گا۔ چونکہ پوری نوعِ انسانیت کے گل سرسبد آپ ﷺہیں‘آپ ﷺ ہی پوری نوعِ انسانی کے سردار ہیں(۱۶) ‘آپﷺ گویا حاصل انسانیت ہیں‘ لہٰذا آپﷺ کو روزِ محشر یہ مقام عطا فرمایا جائے گا۔مجھے امیر خسروکا شعر یاد آگیا ہے ؎
خدا خود میر مجلس بود اندر لامکاں خسروؔ
محمد ؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم !تشبیہ کے انداز میں امیر خسرو ایک لامکاں کی محفل کا تذکرہ کررہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ میرمحفل ہوں گے اورمحمد ﷺ شمع ِمحفل ہوں گے۔ وہ کیفیت کس درجے میں ہو گی کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت لگی ہوگی اور نوعِ انسانی کھڑی ہوگی۔ اس دن محمدﷺ اللہ کی حمد کرنے والے ہوں گے‘ اور حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اُس روز جو مَیں اللہ کی حمد کروں گا وہ آج نہیں کرسکتا۔(۱۷)اس لیے کہ اُس وقت عظمت ِ خداوندی کے نئے نئے انکشافات ہوں گے‘تو ظاہر ہے کہ کسی چیز کی حمد انکشافِ حقیقت کی نسبت ہی سے کی جاسکتی ہےکہ جو کسی پر ہوا ہو۔
معرفت ِخداوندی کے ضمن میں ہمیں یہ بات بھی نبی اکرمﷺ نے بتائی : ((اَلتَّسْبِيْحُ نِصْفُ الْـمِيْزَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰه یَمْلَؤُہُ))(۱۸) ’’تسبیح ( یعنی کلمہ سبحان اللہ کہنے) سے میزانِ معرفت الٰہی نصف ہوجاتی ہے اورالحمد للہ کاکلمہ کہنے سےپُر ہوجاتی ہے۔‘‘بعض روایات میں الفاظ آئے ہیں: ((تَمْلَأُ مَا بَیْنَ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ))(۱۹) یعنی زمین وآسمان کے درمیان کا کُل خلا اس کلمہ ’’الحَمْدُ لِلہ‘‘ سے پُر ہوجاتاہے۔چنانچہ یہ ہے اس لفظ ِ حمد کی اہمیت۔
حمد سے شرک کی مکمل نفی
قرآن کریم میں مجھے عجیب نظر آیا کہ بالکل ایک جیسے وقفوں کے بعدوہ سورتیں آتی ہیں جو کلمہ اَلْحَمْد سے شروع ہوتی ہیں۔ سورئہ فاتحہ کے بعدذرا آگے چلیے تو تقریباً چھ سات پاروں کے وقفے کے بعد سورۃ الانعام ملے گی ‘جو اَلْحَمْدُ لِلہِ سے شروع ہوتی ہے۔پھر پندرہویں پارے میں سورۃ الکہف ہےـ: {اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ وَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عِوَجًا(۱)} ۔پھر بائیسویں پارے میں دوسورتیں یکجا مل جائیں گی سورئہ سبا اورسورئہ فاطر۔دونوں کا آغاز کلمہ اَلْحَمْدُ لِلہِ سے ہو رہا ہے۔
غورکیجے کہ اس سے کس طرح شرک کی جڑکٹ گئی ہے۔شرک کی توبنیاد ہی یہ ہے کہ کسی شے میں کوئی عظمت نظر آئی اور اُس کی عظمت کااس قدر اِحساس پیدا ہوا کہ دل خود بخود جھک گیا۔ جب انسان اس حقیقت کو پالیتاہے کہ کسی شے میں کوئی عظمت نہیں ہے‘ عظمت کُل کی کُل صرف اللہ کے لیے ہے اَلْعَظْمَۃُ لِلّٰہِ ،کسی شے کااپناکوئی حسن ہے ہی نہیں‘ حسن صرف اللہ کا ہے تو وہ شرک سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ مثلاً سورج میں اپناتوکچھ نہیں ہے‘کوئی کمال اس کا ذاتی نہیں ہے بلکہ اللہ کا ودیعت کردہ ہے۔اسی طرح چاند میں کوئی شے اپنی نہیں بلکہ اللہ کی پیدا کردہ ہے۔ آگ میں کوئی وصف اپنانہیں کہ اُسے ’’اگنی دیوی‘‘ مان کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑ لیں۔ یہ سب وصف اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں۔ پانی کی کوئی تاثیر اپنی نہیں کہ اسے ’’جل دیوتا‘‘ قرار دے کر اس کے آگے ہاتھ جوڑ کرکھڑے ہوجائیں۔ اس میں جو تاثیر ہے وہ اللہ کی پیدا کردہ ہے۔پھول میں حسن اپنانہیں بلکہ اللہ کاپیدا کردہ ہے۔جوانسان صرف پھول کی تعریف کرتا ہے وہ بڑا ہی ظاہر بین ہے۔ حقیقت تک پہنچنے والا انسان جب پھول کی خوبصورتی کودیکھے گاتواُس کی زبان سے ’’سبحان اللہ!‘‘ کے الفاظ نکلیں گے۔
ہماری تہذیب میں‘ہمارے تمدن میں‘ یہ فکر اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے کہ آپ نے پانی پیا‘پیاس بجھی‘بے کلی اوربے چینی دور ہوئی تو آپ کی زبان سے کلمہ نکلا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہ! پانی کی تعریف نہیں ہے‘ پانی میں کوئی وصف نہیں ہے‘یہ وصف اللہ کا ہے ‘ تعریف اللہ کی ہے۔ پھول دیکھااور پھول میں آپ کوحسن ورعنائی اور رنگ و بو کی نہایت حسین آمیزش نظر آئی تو کہا: سُبْحَانَ اللّٰہ! سورۃ الکہف میں آیاہے : {وَلَوْلَآ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَآئَ اللہُ لا لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ ج}(آیت۳۹) یعنی جب تواپنے باغ میں داخل ہوااور تُونے دیکھاکہ باغ لہلہا رہاہے‘ درخت پھلوں سے لدے ہوئے ہیں تو یہ منظر دیکھ کرکیوں نہ فوراً تیری زبان سے نکلا:مَاشَاءَ اللّٰہ! یہ جوکچھ ہے مشیت ِخداوندی سے ہے‘ اللہ کے بدون کسی کو کوئی قوت حاصل نہیں ہے۔ اللہ نے چاہا تو اس شکل میں موجود ہے ‘ اللہ نہ چاہتا توکچھ نہ ہوتا۔ لاکھ محنتیں ہوتیں‘ لاکھ آب پاشی کانظام قائم کر لیا ہوتا‘ لاکھ اس کے اوپرسرتوڑ محنت کی ہوتی‘ اگر اللہ نہ چاہتا توکچھ نہ ہوتا۔اگر کچھ ہے تواُس کی مرضی سے ہے۔تویہ تمام کلمات (اَلْحُمْدُ لِلّٰہِ‘ سُبْحَانَ اللّٰہ! مَاشَاءَ اللّٰہ!) درحقیقت شرک کاسرکچلنے والے کلمات ہیں۔
یہ دوسری بات ہے کہ وہ صرف ایک عادتِ ثانیہ بن جائیں۔سبحان اللہ‘ الحمدللہ ‘ ماشاء اللہ ‘صرف تکیہ کلام کی حیثیت سے زبان سے نکلتا رہے اوراس کی حقیقت کاکوئی اثر آپ کے احساسات پر نہ ہو ۔اگر کسی درجے میں بھی اس کا پَرتو انسان کے باطن پرپڑ رہا ہو‘ اوریہ کلمات ایک گہرے تاثر کے ساتھ ادا ہورہے ہوں تو سمجھ لیجیے کہ شرک کی جڑ کٹ گئی‘ اب کسی اورمعبود کے لیے کیاباقی رہ گیا! کسی کے لیے نہ شکر ہے‘ نہ ثنا ہے۔ کُل کا کُل شکر اور ثنا اللہ کے لیے ہے۔ ہمیں جو کچھ مل رہاہے اُس کی عطا سے مل رہا ہے۔ کھانا کھایا‘ چاہے کتنے ہی وسائل و ذرائع سے وہ کھانا تیار ہوا۔ کسی کاشت کار کی محنت ہےجو اُس نے زمین پرکی ہے‘ بیج اس نے ڈالاہے ‘کھیت اس نے سینچا ہے ‘ پھر اس فصل کو کاٹا ہے۔ پھر نہ معلوم کن کن مراحل سے گزر کروہ دانہ بوریوں میں بھرکرکہاں سے ہوکر منڈیوں میں پہنچاہے ‘پھرآپ کے پاس آیاہے ‘اس کو پیس کرآٹا بناکراس سے روٹی پکائی گئی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ کتنالمباسلسلہ ہے۔ مزید برآں اس گندم کےدانے کے وجود میں آنے تک سورج کی کتنی توانائی لگی ہے‘کتنی قوتیںزمین کی صرف ہوئی ہیں۔ ؎
پالتا ہے بیج کو مٹّی کی تاریکی میں کون؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے بادِ سازگار؟گندم کے اس ایک دانے کو بنانے کے لیے پوری کائنات لگی ہوئی ہے لیکن اس تمام سلسلہ کونظر انداز کرکے ہم اصل مسبّب الاسباب کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ کھاناکھا کراگر ضعف کم ہوگیااوربھوک کی وجہ سے جوانسان پرکمزوری تھی وہ دور ہو گئی تو فوراً زبان پر کلمات آئیں گے:اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ(۲۰) ’’اُس اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا۔‘‘ اب بتائیے کہ شرک کاامکان کہاں ہے؟ نہ مظاہر پرستی کا امکان رہا‘ نہ شمس پرستی کا امکان رہا‘ نہ زمین اور پانی کی پوجا کاامکان رہا۔ کسی چیز کاکوئی امکان نہیں‘ نہ کوئی اَن داتاہے۔ اَن داتا ایک ہی ہے‘ کوئی دوسرا نہیں ہے جوکسی کو رزق بہم پہنچا سکتا ہو‘صرف وہی ایک رَزَّاق ہے: {اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْـقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ(۵۸) } (الذّٰریٰت) ’’یقیناً اللہ ہی سب کو رزق دینے والا ‘زبردست قوت والا ہے۔‘‘وہی ہے کہ جورزق پہنچا رہا ہے۔ جب آپ نے یہ تمام باتیں اللہ کے قدموں میں ڈال دیںتواب کسی اورکو دینے کے لیےآپ کے پاس کچھ ہے ہی نہیں۔
حمد : شکر اوّل ‘ ثنا ثانوی
الحمد میں جو الف لام ہے اس کوکہیں گے کہ یہ حصر (یا استغراق) کاکلمہ ہے۔کُل حمد‘کُل شکر‘کُل ثنا اللہ کی ہے۔ اس میں شکر کو اہمیت اولیٰ حاصل ہے اورثنا ثانوی درجے میں ہے۔ اس پراوّل تومیں نے یہ کچھ دعائیں سنائی بھی ہیں‘ ان سے بھی یہ بات پورے طورپرسامنے آجاتی ہے کہ جہاں مقامِ شکر ہے وہاں قرآ ن مجید اورحدیث کی دعائوں میں لفظ حمدملے گا۔
کھاناکھایابھوک مٹی‘ یہ مقامِ شکر ہے تو زبان پر حمد کے کلمات آ گئے۔ بیت الخلا گئے اور فضلات جسم سے خارج ہوگئے ‘طبیعت کو بالکل انشراح ہوگیا‘ہلکے پھلکے ہوکرباہرنکلے ‘ اب یہ مقامِ شکر ہے اور زبان پرالفاظ آنے چاہئیں: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَذْھَبَ عَنِّی الْاَذٰی وَعَافَانِیْ(۲۱) ’’اُس اللہ کا شکر ہےجس نے مجھ سے اذیت بخش چیز کودور کردیااور مجھے عافیت بخشی۔‘‘ اگرپیشاب رک جائے توکیاقیامت برپا ہوگی! اگر یہ فضلات جسم کے اندر رک جائیں تواسی سے انسانی جسم کے نظام میں سارا فساد پیدا ہوجائے گا۔ چنانچہ اس اذیت بخش چیز کو ہم سے دُور کردیا‘اس پر اللہ کاشکر ہے۔
اسی طرح صبح ہی صبح اُٹھے۔ رات کو سوگئے تھے ‘اب دوبارہ آنکھ کھلی۔اللہ نے زندگی کاایک نیادن عطا کیا۔اسی نیند کی حالت میں موت بھی واقع ہوسکتی تھی جبکہ خود نیندکو موت کی بہن کہا گیا ہے۔ نیند میں شعور سلب کرلیاجاتاہے‘ اور یہ امر واقعہ ہے کہ ہم ہیں تو اپنے شعور ہی کے حوالے سے۔ہمارا وجود کچھ بھی ہوا کرے ‘اصل شے اس میں شعور ہے اوروہ شعور نیند کی حالت میں نہیں ہوتا۔ خودشعوری ختم ہوجاتی ہے۔صبح جب دوبارہ آنکھ کھلی اورشعور کی کیفیت محسوس ہوئی تواب وہ مقامِ شکر آیا اور زبان پر یہ کلمات آنے چاہئیں: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ(۲۲) ’’اللہ کا شکر ہے جس نے ہمیں ازسر ِنوزندگی عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم پرموت وارد ہوگئی تھی اور اُسی کی طرف ہمارا جی اُٹھنا ہے۔‘‘اسی طرح ایک روز ہم اپنے ربّ کی طرف چلیں گے۔ ایک نیندا وربھی آنی ہےجس کو ہم موت کہتے ہیں ۔اس سے بھی صبح قیامت کو اُٹھیں گے‘ جیسے روزانہ صبح کو اُٹھ جاتے ہیں اور پھرہم اپنے ربّ کے حضور پیش ہوجائیں گے۔
قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کاقول نقل ہوا:{اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ ط} (ابراھیم:۳۹) یہ مقامِ شکر ہے‘ مقامِ ثنا نہیں ہے۔ ثنا اُس چیز میں ہوتی ہے کہ جوایک وصف تو ہے‘حسن اورکمال کامظہرتو ہے لیکن اس سے آپ کو براہِ راست کوئی فیض نہیں پہنچ رہا۔ جہاں آپ کو کوئی چیز ملی ہے یہ مقامِ شکر ہے۔ اس واقعہ میں ایک بوڑھے انسان کو۸۷برس کی عمر میں ایک بیٹا ملا‘ پھر اللہ تعالیٰ نے سو برس کی عمرمیں دوسرابیٹا عطا فرمایا۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت ہوئی اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام ۸۷برس کے تھے۔جب حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت ہوئی اس وقت آپؑ سو برس کے تھے۔ اب اس مبارک موقع پر جودعانکلی ہے وہ حمدکاترانہ اور شکرکے کلمات ہیں :
{اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ ط اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآئِ(۳۹)} (ابراھیم)
’’اُس اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحاق (جیسے فرزند) عطا فرمائے۔واقعہ یہ ہے کہ میرا ربّ دعا کا سننے والاہے۔‘‘
جان لیجیے کہ حمد کا تقریباًتین چوتھائی حصّہ شکر ہوتا ہے جبکہ صرف ایک چوتھائی تعریف کا جزو ہے‘ لیکن ہمارے ہاں قرآن کریم کے تراجم میں بس تعریف ہی تعریف رہ گیا‘ شکر کا حصّہ ذہنوں سے بالکل خارج ہوگیا۔ اسی کے حوالے سے ہمارے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے تیسرے اور چوتھے سبق جڑ گئے۔ تیسرے سبق کاپہلا تصوّر (concept) ’’شکر‘‘ہے:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلہِ ط} (لقمٰن:۱۲)
’’اور یقیناً ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘
اور چوتھے سبق میں پہلاکلمہ : َالْحَمْدُہے ‘یعنی کُل کاکُل شکراورکُل کی کُل ثنا۔
شکر اور ثنا میں مماثلت
اس ضمن میں ایک باریک بات اور بھی ذہن نشین کر لیں۔ اگرچہ میں نے شکر اور ثنا میں فرق کر کےسمجھایا ہے‘ تاہم ذرا گہرائی میں اُتر کردیکھیں گے تومعلوم ہوگاکہ ان دونوںمیں فرق کوئی زیادہ نہیں ہے۔ اگر کہیں کوئی حسن ہے‘ کوئی خوبی ہے تو چاہے آپ کواس سے کوئی مادّی فائدہ نہ پہنچا ہو‘ ایک غیر محسوس فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے۔ پھول کو دیکھ کر احساسات میں ایک تازگی پیدا ہوتی ہے۔ اچھا منظر دیکھ کر باطن میں ایک انشراح کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔لہٰذا کسی بھی مظہرحسن وکمال کودیکھ کریہ کہناصحیح نہیں ہے کہ اس سے بالکل کوئی فائدہ نہیں پہنچتا‘ کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور پہنچتا ہے‘ اگرچہ فائدے کے درجات مختلف ہوتے ہیں ۔ ایک ہماری مادّی ضروریات ہیں۔ پیٹ کھانے کو مانگتاہے یا کوئی اورمحسوس قسم کی ضرورت پوری ہوئی۔دوسری طرف ہمارے باطنی احساسات ہیں۔ اگر باطنی احساسات کو جِلاحاصل ہوئی ہو تویہ بھی ایک فائدہ ہے جو حاصل کیاگیا۔
ہمارے میٹرک کے نصاب میں ولیم ورڈز ورتھ کی انگریزی نظم تھی‘جس کاعنوان تھا: Daffodils ۔ اس کامرکزی خیال بھی یہی ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ مَیں ایک روز ایسے ہی گھوم پھر رہا تھا ۔ ایک پہاڑی پر پہنچا ‘اچانک نگاہ آگے گئی تو دیکھا کہ وادی میں daffodils کے پھولوں کاایک تختہ ہے جس پر وہ پھول لہرا رہے ہیں۔ ان پودوں سے پوری وادی بھری ہوئی ہے ۔ہوا چل رہی ہے اور پھولوں کا تختہ ہل رہا ہے۔
I gazed and gazed but little thought
what wealth the show to me had brought
مَیں دیکھتا رہا‘دیکھتا رہا ‘لیکن اس وقت مجھے ہرگز خیال نہیں آیاکہ مجرد اس منظر کو دیکھنے سے مجھے کتنی بڑی دولت نصیب ہوئی۔
For oft, when on my couch I lie
In vacant or in pensive mood
They flash upon that inward eye
Which is the bliss of solitude
And then my heart with pleasure fills
And dances with the daffodils
کبھی ایسا ہوتاہے کہ طبیعت پرافسردگی سی ہوتی ہے ‘انسان کسی خیال میں بہت ہی زیادہ سرافگندہ ہوتاہے۔ شاعر کہتاہے کہ جب میں اس طرح کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہوں تو اچانک وہ پھولوں والا منظر میری نگاہوں کے سامنے آجاتاہے اورمیری طبیعت پراس کا ایسا اثر ہوتاہے کہ جس طرح daffodils ہوا میں رقص کررہے تھے اسی طرح میرادل بھی اس غم کی کیفیت سے نکل کرایک انبساط اور خوشی محسوس کرنے لگتاہے۔چنانچہ شاعر کو یہ ایک غیر محسوس دولت حاصل ہوئی‘ وہ کوئی محسوس چیز نہیں تھی۔ لہٰذا اگر گہرائی میں اُتر کردیکھاجائے توشکراور ثنا ایک ہوجائیں گے۔جہاں جاکریہ شکراورثنا ایک ہوجاتے ہیں وہی کلمہ حمد ہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ! کُل شکر‘کُل ثنا‘ کُل تعریف‘ کُل حمداللہ کی ہے جو ربّ العالمین ہے۔
کُل حمد’’اللہ‘‘ کے لیے ہے!
اب لام جو لِلہِ [لِ +اللّٰہ] میں آیاہے اس پربھی غور کرلیجیے۔ لام حرف’’ جار‘‘ ہے اور عربی میں بہت سے معنی دیتاہے‘لیکن یہاں دومعنی ضرور ذہن میں رکھیے۔ایک تویہ [اختصاص] کہ کُل تعریف اللہ ہی کے لیے ہے ‘اسی کو اس کاحق پہنچتا ہے ‘مستحق وہی ہے۔ دوسروں کوتوہم صرف اتنا ہی دےسکتے ہیں جواللہ تعالیٰ دلوا دے۔جیسے ’’آیت الکرسی‘‘ میں ہے کہ کُل علم اللہ کے پاس ہے ‘ہاںاس میں سے جتناوہ کسی کو چاہے دے دے۔ ارشادہوتاہے :
{وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ ج} (البقرۃ:۲۵۵)
’’اوروہ احاطہ نہیں کر سکتے اللہ کے علم میں سے کسی شے کا بھی سوائے اس کے جو وہ چاہے۔‘‘
اصل میں شکر اللہ کے لیے ہے‘البتہ اللہ ہی کا حکم ہے کہ کچھ شکر اپنے والدین کابھی کیاکرو۔کچھ شکر اپنے اساتذہ کابھی کیاکرو۔جس سے کوئی خیرحاصل ہوجائے‘ جس سے نیکی کاکوئی کلمہ میسر آجائے‘جس نے تمہارا رخ کسی بھی درجے میں کسی بھلائی کی طرف موڑ دیاہو‘ان سب کا بھی شکر ادا کیاکرو۔یہ شکرہم ادا کر رہے ہیں ‘اس لیے کہ اللہ نے ہمیں اس کا حکم دے دیا۔ جیسے فرمایا:{اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ} ’’کہ شکرکرو میرا اور اپنے والدین کا‘‘ حالانکہ وہاں ساری بات والدین کے بارے میں تھی۔ ارشاد ہوا:
{وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ج حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّفِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط } (لقمٰن:۱۴)
’’اور ہم نے وصیت کی انسان کو اُس کے والدین کے بارے میں۔ اس کو اٹھائے رکھا اس کی ماں نے (اپنے پیٹ میں) کمزوری پر کمزوری جھیل کر اور اس کا دودھ چھڑانا ہوا دو سال میں کہ تم شکر کرو میرا اور اپنے والدین کا !‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو مقدم رکھاکہ اصلاً تو شکر میرا ہے ۔والدین کے دل میں یہ محبت کس نے ڈالی؟ ماں جو رات بھرجاگ رہی ہے ‘کس نے اس کے دل میں یہ شفقت پیدا کردی؟ جیسے اس زمین میں روئیدگی پید اکرنے والا مَیں ہوں‘اسی طرح ماں کے دل میں وہ شفقت کے جذبات پیدا کرنے والابھی میں ہوں‘لہٰذا شکرمیرا مقدّم ہے۔ اصل میں تو شکر میرا ہے‘ البتہ میرے طفیل یہ شکر اوروں کے اندر بھی تقسیم ہوجائے گا۔ اسی طریقے سے تعریف تو کُل کی کُل اللہ کی ہے‘ اُسی کو سزاوار ہے ‘ لیکن مجازاًہم پھول کی تعریف کر دیں تو ٹھیک ہے ‘وہ کفر نہیں ہوجائے گا۔ البتہ ذہن میں یہ رہے کہ اصل تعریف اللہ کی ہے۔ یہ تومجاز کےپردے ہیں کہ: ؎
معمور ہو رہا ہے عالم میں نور تیرا
از ماہتاب و ماہی سب ہے ظہور تیرا!یہاں جوبھی کوئی خیرہے ‘جوبھی خوبی اورکمال نظر آرہاہے وہ سب کا سب اللہ کا ہے‘ کسی شے کااپنا کوئی کمال نہیں ہے۔ یہ کلمہ ہرنوع کے شرک کی جڑکاٹ دینے والاہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo شکرکُل کاکُل‘ثناکُل کی کُل اللہ ہی کے لیے ہے اوراللہ ہی کی ہے۔ فی الواقع بھی اُسی کی ہے۔ اس میں سے جتناوہ کسی کودلوا دے یہ اس کے اختیار میں ہے۔
’’ربّ‘‘ کا معنی و مفہوم
اب’’ ربّ‘‘ کے لفظ کوسمجھیے۔یہ ’’اللہ‘‘ کی صفت ہے۔ عربی زبان میں اس کوصفت بھی کہتے ہیں‘ نعت بھی کہتے ہیں۔ہمارے ہاں ’’نعت‘‘ کالفظ ’’نعت ِرسولﷺ‘‘ کے لیے عام ہو گیا ہے۔ ہم جب حضورﷺ کی صفات بیان کرتے ہیں تووہ نعت کہلاتی ہے۔ نعت عربی گرامرکاایک عام لفظ ہے۔ جس طرح صفت موصوف ہے اسی طرح نعت منعوت ہے۔ جس چیز کی صفت بیان کی جائے وہ منعوت ہے اورنعت صفت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہاں پرتین صفات آرہی ہیں۔سب سے پہلی یہ ہے کہ وہ ربّ العالمین ہے‘ تمام جہانوں کارب۔ اب یہاں دو الفاظ جاننے ہوں گے۔ ’’ربّ‘‘ کا مفہوم کیا ہے اور عَالَمِین کسے کہتے ہیں؟
عربی زبان میں’’ربّ‘‘کے دو بنیادی مفہوم ہیں۔ ایک مالک اور دوسرے پرورش کرنے والا۔’’ر ب ی‘‘ کامادّہ عربی زبان میں آتاہے کسی چیز کو تربیت دینا‘ بڑھانا‘ نشوونما دینا‘ پروان چڑھانا‘ جبکہ ’’رب ب‘‘ کا مادّہ بھی اس کے بالکل قریب ہے۔ قریب المادہ الفاظ مفہوم میں بھی بہت مشابہ ہوتے ہیں۔ جس طرح ’’ر ب ی‘‘ سے تربیت بنااسی طرح ’’رب ب‘‘ سے ’’ربّ‘‘ بناہے۔ ’’ربّ‘‘ وہ ہے جوہرچیز کونشوونما دے رہاہو ‘ پال رہا ہو ‘پوس رہاہو۔ اس کے لیے فارسی زبان میں پروردگار‘پرورش کنندہ اور ہندی میں پالن ہار کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
اردو زبان کے ابتدائی قرآنی تراجم میں ہندی الفاظ کافی ہیں ۔ شاہ عبدالقادرؒ اورشاہ رفیع الدین ؒ کے ترجموں میں بھی ہندی کے کلمات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں‘ کیونکہ وہ آج سے پونے دو سو برس پہلے کی اردو ہے۔ ولی دکنی (۱۶۶۷ء -۱۷۰۷ء)یااس سے پہلے کی اردو میں آپ کو۷۵فیصد الفاظ ہندی کے مل جائیں گے‘ بلکہ اس کی ترکیبیں اوراس کا اندازبالکل ہندی کاسا ہوگا ۔اصل میں یہ اردوزبان میں فارسی اور عربی کا ذخیرئہ الفاظ رفتہ رفتہ غالب آیا ہے جبکہ ہندی الفاظ آہستہ آہستہ نکلتے گئے۔ چنانچہ پرانے تراجم میں پالن ہار کا لفظ مل جائے گا۔
پالن ہار ‘پرورش کنندہ‘پروردگار (Cherisher) وہ ذات ہے جو ہر شے میں موجود دبی ہوئی صلاحیتوں کوتدریجاًنشوونمادے کراس کے تکمیلی مقام تک پہنچانے والی ہے۔ وہ ربّ ہے‘ اورجو ربّ ہوگاوہی مالک ہوگا۔ {اَلَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط} (الاعراف:۵۴) ’’یاد رکھو! وہی پیدا کرتا ہے اور اُسی کا حکم چلتا ہے۔‘‘جو خالق ہے اسی کو اس بات کا اختیار ہے کہ اسے کیاکرناہے اورکیانہیں کرناہے۔جس نے پرورش کی ہے‘ جوپالن ہارہے‘ جوپروردگار ہے وہی مالک بھی ہے۔تولفظ ربّ مالک کے مفہوم میں بھی آتاہے۔چنانچہ ربّ البیت‘ربّ الدار گھر کے مالک‘ گھر کے آقا کو کہیں گے۔ جو صاحب البیت ہے وہی ربّ البیت ہے۔ اسی معنی میں فرعون نے دعویٰ کیاتھا: {اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی(۲۴)}(النازعات) ’’مَیں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔‘‘ وہ بھی اتنا احمق اور پاگل نہیں تھا کہ یہ سمجھتا ہو اور یہ دعویٰ کرتا ہو کہ مَیں آسمانوں اور زمین کا خالق ہوں اور نہ لوگ اتنے پاگل تھے کہ اس کو اپنا حقیقی ربّ مان لیتے۔کتنے ہی بڑےبوڑھے وہاں ہوں گے جنہوں نے فرعون کی پیدائش کاوقت بھی دیکھا ہوگااوراس کو گھٹنوں کے بل چلتے بھی دیکھا ہوگا ۔اس کو کیسے کوئی مان لیتاکہ یہ خالق ہے۔اصل میں اس کا دعویٰ {اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی} اس معنی میں تھا کہ اختیار میراہے۔ اسی آیت کی شرح سورۃالزخرف میں آتی ہے جہاں اُس نے کھل کراپنے دعوے کو بیان کیا ہے:
{ اَلَـیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ ج } (آیت۵۱)
’’کیامصر کی پادشاہی میری نہیں ہے‘ اوریہ ساراآبپاشی کا نظام میرے ہاتھ میں نہیں ہے؟ ‘‘
مَیں جس کو چاہوں اور جتنا چاہوں پانی دے دوں۔ جس طرف مَیں پانی دے دوں تو ادھر کی زمینیں جل تھل ہو جائیں گی ‘ ان میں خوب فصل آئے گی اور مَیں جدھر کا پانی چاہوں کاٹ دوں۔ یہ اختیار میرا ہے۔ جب اختیار میرا ہے تو حکم بھی میرا چلے گا۔ مالک مَیں ہوں۔ مَلِک اور مٰلِک میں کچھ فرق بھی نہیں ہے۔ سورۃالفاتحہ کی تیسری آیت میں {مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ} آتاہے۔ اس کی ایک اور قراءت مَلِکِ یومِ الدِّین بھی ہے۔ مصری قراء سے آپ نے یہ قراء ت سنی ہوگی۔ تو مَلِک کا معنی ہوا بادشاہ‘ صاحب ِ اختیارجبکہ مالک بھی صاحب ِاختیارکو کہتے ہیں۔ جوکسی شے کامالک ہے اسی کو اختیار حاصل ہے کہ زیر ملکیت شے کے بارے میں جوچاہے کرے۔لہٰذا ’’ربّ‘‘ کےاندر یہ مفہوم ہے۔ اسی معنی میں فرعون نے دعویٰ کیاتھاکہ مصر میں اختیار میرا چلے گا کیونکہ یہاں کاربّ میں ہوں‘یہاںکا مالک اورمختار میں ہوں۔
نظری اور عملی اعتبار سے توحید کی تکمیل
سورئہ فاتحہ میں ہم پڑھتے ہیں: رَبِّ الْعٰلَمِین ‘یہاں ’’رَبِّ‘‘ کی زیر کیوں ہے؟ یہ مجرور کیوں ہے؟ اس لیے کہ لفظ اللہ پر زیر آئی ہے تو اب ان آیات میں لفظ اللہ کے ساتھ جڑی ہوئی تمام صفات زیر کے ساتھ آئیں گی۔البتہ جب علیحدہ کہاجائے گاکہ تو’’ربُّ العالمین‘‘ کہاجائے گا۔جب ’’ربُّ الْعَالَمِیْن‘‘ کے معنی واضح ہوگئے کہ تو غیر اللہ سے ملکیت کی نفی ہوگئی ۔یہاں کی ہرشے کامالک اللہ ہے‘ ہر شے کا مختار مطلق اللہ ہے۔ عملی اعتبار سے سوچیے تو اَلْحَمْدُ لِلہِ کہنے سے نظری اعتبار سے توحیدکی تکمیل ہوگئی اور رَبِّ الْعٰلَمِیْن کہنے سے عملی اعتبار سے توحید کی تکمیل ہوگئی کہ مالک وہ ہے تو اختیار بھی اُسی کا چلے گا۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ))(۲۳)
’’مخلوقات میں سے کسی کی اطاعت نہیں ہوگی جس میںخالق کی معصیت لازم آتی ہو۔‘‘
ربّ وہ ہے ‘مالک وہ ہے‘ ملکیت تامہ اُسی کی ہے۔ دوسروں کے پاس جوکچھ ہے یہ فریب ہے کہ یہ میرا ہے۔ تمہارا کہاں ہے‘یہ اللہ کاہے۔ ؎
ایں امانت چند روزہ نزدِ ما ست
درحقیقت مالکِ ہر شے خدا ست!تمہیں محسوس ہوتارہا ہے کہ اختیار تمہارے ہاتھ میں ہے ‘جوچاہو کر گزرو۔ یہ بھی بہت بڑا دھوکا ہے اور لازماً اس کے غلط نتائج نکلیں گے۔ تم اسے غلط استعمال کربیٹھوگے۔تمہارے لیے صحیح روش یہ ہے کہ اپنے اختیارات اللہ ہی کے قدموںمیں ڈال دو‘ اس لیے کہ اصل میں یہ اختیار اسی کا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ’’ رَبُّ الْعَالَمِیْن‘‘ کے الفاظ نے درحقیقت عملی شرک کی ساری جڑ کاٹ دی ہے اور’’اَلْحَمْدُ لِلہِ‘‘ کے الفاظ نے شرک کی طرف لے جانے والے نظری‘ فکری اور اعتقادی سارے راستے بالکل بند کر دیے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اس پہلی آیت سے نظری اورعملی دونوں اعتبارات سے توحید کابیان مکمل ہوگیا۔
’’العَالَمین‘‘ کا معنی ومفہوم
لفظ عالم اصل میں کسی بھی چیز کے لیے ایک مجموعی اورcollective نام ہے اورعالَمین اس کی جمع ہے بمعنی تمام جہان ۔ مختلف اعتبارات سے کئی عالم ہیں‘ مثلاً عالم دنیا‘ عالم آخرۃ‘ عالم برزخ۔ یہ تین عالم تووہ ہیں جوہم جانتے ہیں۔ یہ عالم دنیا ہے‘ آج یہاں آنکھ بند ہوئی توآپ عالم برزخ میں پہنچ گئے‘ اوروہاں سے جب اللہ کے اذن سے اُٹھنا ہوگا تو عالم آخرۃ شروع ہو جائے گا ۔ پھریہ کہ عالم اجساد اور عالم ارواح ‘ اس وقت بھی یہ دونوں عالم موجود ہیں۔اسی طرح عالم انس‘ عالم جِن‘ عالم ملائکہ‘یہ تین عالم اب بھی موجود ہیں۔ پھر عالم خلق اور عالم امر ہیں۔گنتے چلے جائیے۔ یہاں اس کی تعیین کی ضرورت نہیں بلکہ صرف حصر اور احاطہ مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کامالک اور پروردگار ہے اور کُل حمداور کُل ثنا اُسی کی ہے: { اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo} غور کیجیے کہ اگر یہ پہلی آیت ہی واقعتاً انسان کے احساسات اور شعور کی گہرائیوں سے نکلی ہو تو شرک کی تمام صورتوں کا یہاں ابطال ہو جاتا ہے۔ صرف ٹیپ ریکارڈر کی طرح ایک چیز زبان سے ادا ہو رہی ہو اور انسان کو اس کا شعور تک نہ ہو تو بات دوسری ہے۔
رحمٰن اور رحیم : چوٹی کی صفات
چونکہ شرک ایک منفی پہلو ہے لہٰذا اس کاابطال کرنے کے بعد اب جواگلی آیت آ رہی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی جومثبت صفات ہیں ‘اُس ذات کی صفاتِ محمودہ میں سے چوٹی کی صفت ’’رحمت ‘‘سے دو نام آئے ہیں‘ جو ایک ہی آیت میں آ گئے ہیں۔ فرمایا: {الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo } ’’بے پایاں رحمت کرنے والا اور مسلسل رحمت کرنے والا۔‘‘ دونوں الفاظ مجرور ہیں‘ان پر زیرآرہی ہے۔اس لیے کہ یہ نام اُسی اللہ کے لیے بطورِ صفات آرہے ہیں۔ چونکہ لفظ اللہ پر لام حرفِ جار کی وجہ سے زیر آیا تو یہ زیر آگےبیان ہونے والی صفات پر چلتا جائے گا: {اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}۔اصل میں principal clause ہے: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo اوراگلی دو آیات subordinate clauses ہیں۔
’’رحمان اوررحیم‘‘ دونوں کا مادّہ ایک ہی ہے ’’رحمت‘‘۔ سب سے پہلے اس رحمت کی اہمیت کوجان لیجیے۔انسان سب سے زیادہ محتاج اللہ تعالیٰ کے رحم اوراس کی رحمت کا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے کسی انسان سے اپنے عدل کے مطابق حساب لے لیا جیسا کہ حساب لینے کا حق ہے ‘تو وہ مارا جائے گا بلکہ تباہ و برباد ہو جائے۔(۲۴) اس لیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کس کس نعمت کا حساب دے سکیں گے؟ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo} ’’پس تم دونوں (گروہِ جِنّ و اِنس) اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں اور قدرتوں کا انکار کرو گے؟‘‘(سورۃ الرحمٰن میں یہ جملہ بار بار آیا ہے)
سمجھانے کے لیے بعض احادیث میں ان چیزوں کو تمثیل اورواقعہ کے پیرائے میں اس طرح بیان کیاگیاہے کہ ایک شخص بہت ہی عابداوربہت ہی زاہد تھا‘ ا س کی عبادت سالہاسال پر محیط تھی۔ اسے اپنی عبادت پر تھوڑا سا غرور ہوگیا‘کچھ زعم ہوگیا کہ میں نے توبڑی عبادت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کوامتحان میں ڈالا۔ ایک وقت میں کوئی ایسی کیفیت ہوئی کہ شدید پیاس سے دوچار ہوگیا۔ ارد گرد کہیں پانی نہیںہے۔اس وقت پھر کوئی فرشتہ امتحان کی غرض سےآتاہےاورکہتاہے :یہ دوگھونٹ پانی ہے ‘کیا اس کے بدلے میں اپنی ساری عبادت دو گے ؟اس وقت پیاس سے جان پر بنی ہوئی تھی ‘ اس نے دو گھونٹ پانی کے عوض اپنی کُل عبادت کاسودا کرلیا۔
یہ صورتِ حال ہم اپنے اوپر طاری کرکے سوچ سکتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے ہوانہ ہواورحبس شدید ہوجائے توجان پربن جاتی ہے ۔عام طور پر ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا کہ ہوا بھی کوئی نعمت ہے ‘لیکن ذرا اس ہوا کاپریشر کم ہوجائے تو اس کی قدر و قیمت معلوم ہو جاتی ہے۔ جولوگ ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں وہ ہرمرتبہ یہ وارننگ سنتے ہیں کہ اگر سفر (فلائٹ) کے دوران کہیں ہوا کاتوازن بگڑجائے توآکسیجن کااہتمام موجودہے۔ معلوم ہوا کہ یہ ہوا کتنی بڑی نعمت ہے جس کی ہم کوئی قیمت ادا نہیں کرتے۔یہ پانی کتنی بڑی نعمت ہے۔
ہمارا ایک ایک جوڑ جوحرکت کر رہاہے اس کاچلنااللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت اور کتنا بڑا احسان ہے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے‘ انسان کے ہر جوڑ کی صحت اور درستی پر اس کے ذمے ایک صدقہ (بطور شکر) واجب ہے۔ (۲۵) ہم کتناشکر کر سکتے ہیں؟ ایک جگہ پر شیخ سعدیؒ نے اس کو بایں الفاظ بیان کیا ہے: ’’پس بر ہر نفس دو شکر واجب است!‘‘ یعنی ہر سانس پر دو مرتبہ اللہ کا شکر واجب ہے ۔ سانس جب انسان کے جسم کے اندر جاتا ہے تو وہ موجب ِتقویت ہوتا ہے۔ آکسیجن اندر گئی‘ اسی آکسیجن کو آپ نے جلایا‘ آپ کو انرجی ملی اور جب وہ سانس باہرنکلتاہے تووہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اورنہ معلوم کیاکیاکچھ لے کر نکلتا ہے۔ اس طرح یہ جسم کی صفائی کاذریعہ بن رہاہے۔ لہٰذا ازروئے عقل ہرسانس پردومرتبہ شکرکرناواجب ہے ۔
اب سوچیے‘ اگر اللہ تعالیٰ حساب لینے پر آ جائےتو کیا بنے گا؟ اسی لیے وہ دعاہے : ((اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا))(۲۶) ’’پروردگار!مجھ سے آسان حساب لیجیو۔‘‘ ہم تیرے فضل اورتیری رحمت کے امیدوار ہیں۔ا پنے عمل پرہمارا تکیہ نہیں ہے۔ رحمت کے بارے میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کوئی شخص بھی اپنے عمل اورنیکی کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔‘‘اس پر کسی صحابی نے بڑی ہمت اور جرأت کا ثبوت دیتے ہوئے سوال کرلیاکہ :حضورﷺ!کیا آپ بھی نہیں ؟آپﷺ نے فرمایا:((وَلَا اَنَا، اِلَّا اَنْ یَتَغَمَّدَنِیْ رَبِّیْ بِرَحْمَۃٍ))(۲۷) ’’ہاں! میں بھی نہیں‘ مگر یہ کہ میرا رب مجھے اپنی رحمت کی آغوش میں لے لے۔‘‘اگر محمدرسول اللہﷺ کا یہ معاملہ ہے توہما شما تک کہاں بات پہنچے گی کہ ہم اپنے عمل پر نازاں ہوجائیں۔ ہمیں اگر تکیہ ہے تو صرف رحمت ِخداوندی پرہے۔
اس رحمت کے لیے یہاں دو الفاظ آئے: الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ- اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے یہ نام قرآن کریم میں کثرت سے بار بار آئے ہیں۔ ۱۱۴مرتبہ تویہ آیت بسم اللہ میں آگئے۔۱۱۳مرتبہ ہرسورت (سوائے سورۃ التوبہ) کے شروع میں اورایک مرتبہ سورۃ النمل کے درمیان میں آیت بسم اللہ آئی ہےجوحضرت سلیمان علیہ السلام نے ملکہ سباکوخط لکھاتھااوراس کاآغاز کیاتھا:
{اِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِنَّہٗ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ(۳۰)} (۲۸)
سورۃ الحشر کی آخری آیات میں بھی یہ دونوں الفاظ ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘اسی طرح جڑواں آئے ہیں ۔اسمائے خداوندی کا قرآن مجید میں یکجا عظیم ترین گلدستہ سورۃا لحشر کی آخری تین آیات میںآیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
{ہُوَ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ہُوَج عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِج ہُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ(۲۲)}
’’وہی ہے اللہ‘ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ جاننے والا ہے چھپے کا اور کھلے کا۔ وہ بہت رحم کرنے والا‘ نہایت مہربان ہے۔‘‘
{ہُوَ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَج اَلْمَلِکُ الْـقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُط سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ (۲۳)}
’’وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی الٰہ (معبود) نہیں۔ حقیقی بادشاہ‘ یکسرپاک‘ سراپا سلامتی ‘ امن دینے والا‘ پناہ میں لینے والا‘ زبردست (مطلق العنان ) ‘ اپنا حکم بزور طاقت نافذ کرنے والا‘ سب بڑائیوں کا مالک۔ اللہ پاک ہے اُن تمام چیزوں سے جو یہ شرک کرتے ہیں۔‘‘
{ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ط یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۲۴) }
’’وہی ہے اللہ ‘تخلیق کا منصوبہ بنانے والا‘ وجود بخشنے والا‘ صورت گری کرنے والا‘ تمام اچھے نام اُسی کے ہیں۔ اُسی کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے۔ اور وہ بہت زبردست ہے ‘کمال حکمت والا ہے۔‘‘
ان تین آیات میں اللہ تعالیٰ کے پندرہ نام یکجا ہیں۔ ان میں الرحمٰن اور الرَّحِیْم اسی شان کے ساتھ ہے کہ پہلی آیت کے شروع میں لفظ اللہ آیا اور پھر الرَّحْمٰن اور الرَّحِیْم‘ جس طریقے سے یہ الفاظ آیت بسم اللہ میں اور سورۃ الفاتحہ کے شروع میں آئے ہیں۔
الرَّحمٰن اور الرَّحِیْم میں ایک باریک سافرق ہے۔ کچھ لوگوں نے تو اس کے اندر یہ مفہوم پیدا کیاہے : رحمٰن الدنیا و رحیم الآخرۃ(۲۹) یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دو شانیںہیں۔دنیا میں شانِ ’’رحمانیت‘‘ ظاہر ہوتی ہے اور آخرت میں شانِ’’ رحیمیت‘‘ ظاہر ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ رحیم بوزنِ فعیل ہے۔ فعیل کے وزن پرصفت مشبہ آتی ہے اور فعیل میں دوام کا رنگ ہوتا ہے۔ آخرت چونکہ دائم ہے ‘ہمیشہ ہمیش کے لیے ہے لہٰذا رحیم کو لوگوں نے آخرت کے ساتھ متعلق مانا۔ رحمٰن فعلان کے وزن پر ہے۔ فعلان کے وزن پرعربی زبان میں وہ الفاظ آتے ہیں جن میں کسی کیفیت میں عارضی طورپربہت جوش پیدا ہو جاتا ہو ‘جوش وخروش کی کیفیت ہو۔ ظاہر ہے وہ عام طور پر عارضی ہوتی ہے ‘لہٰذا اس اعتبار سے رحمانیت کو دنیا سے متعلق مانا گیاہے کیونکہ یہ دنیا عارضی ہے۔ البتہ بات پوری طرح بنتی نہیں ہے۔اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ دونوں صفات اور دونوں شانیں بیک وقت بتمام و کمال موجود ہیں۔ وہ بیک وقت رحمٰن بھی ہے اور رحیم بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’’الرحمٰن ‘‘ اور ’’الرحیم‘‘ کے مابین حرفِ عطف ’’و‘‘ نہیں آیا۔ یہ دونوں صفات علیحدہ نہیں ہوسکتیں‘لہٰذا ان دونوں لفظوں کو علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔ کمال یہ ہے کہ سورۃ الحشر کی آخری تین آیات میں جو آٹھ اسماء آئے ہیں ان کے درمیان بھی کسی آیت میں کہیں کلمہ عطف نہیں ہے۔
اس حوالے سے مولانا حمید الدین فراہی ؒ نے یہ نکتہ نکالاہے کہ قرآن حکیم میں جہاں اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات بغیر حرفِ عطف کے آتے ہیں وہاں اس طرف راہنمائی ملتی ہے کہ صفاتِ ذاتِ خداوندی بیک وقت موجود ہیں‘ ان میں کوئی تقدیم وتاخیر نہیں ہے ‘کوئی زمانی فصل نہیںہے‘ کہ ایک وقت میں ایسا ہوتا ہے اورایک وقت میں ایسا۔ معاذ اللہ! یہ توہمارا تصوّر ہے۔ ہماری کیفیات ایسی ہوتی ہیں کہ ہمارے اندر ایک وقت میں خوشی ہوگی تو دوسرے وقت غمی ہوگی۔ کسی وقت طبیعت میں کشادگی ہو گی توکسی وقت طبیعت میں تنگی کی کیفیت ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے اسماءاورصفات میں کہیں اس نوع کی دوئی نہیں ہے۔ اللہ کی ذات واحد ہے اوربآنِ واحد اُس کی تمام صفات اس میں بیک وقت موجود ہیں۔ توالرحمٰن اورالرحیم کاکوئی وہ مفہوم ہمیں تلاش کرنا ہوگاجس میں علیحدہ علیحدہ زمانی یاکیفیاتی بُعد اورفصل والامعاملہ نہ ہو بلکہ بیک وقت وہ تسلیم کیا جائے ۔
(جاری ہے)
اقول قولی ھٰذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
حواشی
(۱۱) صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ‘ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ‘ح:۳۹۵
(۱۲) ہمارے منتخب نصاب کا تیسرا درس سورئہ لقمان کے دوسرے رکوع پر مشتمل ہے‘ جس کی ابتدائی آیات میں شکر سے متعلقہ مضامین ہم پڑھ چکے ہیں۔ ان کو آگے بڑھ کر ذرا سمجھیے تو سورۃ الفاتحہ کا پہلا حصّہ گویا انہی کا تسلسل ہے ۔فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo ذہن میں رکھیے گا کہ حقیقت واقسامِ شرک پر کی گئی تقریروںمیں جو مضامین آئے ہیں‘ آج ان کا ذکر دوسرے رُخ سے آجائے گا۔ توحید‘ شرک کی ضد ہے اور توحید پر سورئہ فاتحہ کا یہ حصّہ نہایت جامع ہے اس لیے کہ سورئہ فاتحہ کے نصف اوّل میں توحید خداوندی اور معرفت خداوندی کا تذکرہ ہے۔
(۱۳) آل عمران:۱۴۴و الاحزاب:۴۰ و محمد:۲ و الفتح:۲۹
(۱۴) صحیح مسلم‘ کتاب الفضائل‘ باب فی اسمائہﷺ۔
(۱۵) سنن الترمذی‘ ابواب المناقب‘ باب فی فضل النبیﷺ۔
(۱۶) حوالہ سابقہ
(۱۷) سنن الترمذی‘ ابواب تفسیرالقرآن‘ح ۳۱۴۸
(۱۸) سنن الترمذی‘ ابواب الدعوات‘ ح ۳۵۱۹
(۱۹) صحیح مسلم‘ کتاب الطھارۃ‘ ح ۵۳۴
(۲۰) سنن ابن ماجہ ‘ کتاب الاطعمۃ‘ باب ما یقال اذا فرع من الطعام‘ح ۳۲۸۳
(۲۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الطھارۃ۔
(۲۲) صحیح البخاری‘ کتاب الدعوات‘ ح ۶۳۲۴
(۲۳) رواہ فی شرح السُّنّۃ‘بحوالہ مشکاۃ المصابیح‘ح:۳۶۹۶
(۲۴) حدیث نبویؐ :((وَمَنْ نُوْقِشَ الْحِسَابَ ھَلَکَ)) (صحیح البخاری‘ ح ۴۹۳۹۔ وصحیح مسلم‘ ح۲۸۷۶)
(۲۵) صحیح البخاری‘ ح ۲۹۸۹وصحیح مسلم‘ ح ۱۰۰۹
(۲۶) مشکاۃ المصابیح ‘ح ۵۵۶۲ بحوالہ مسند احمد ‘امام البانی نے اس کو ’’جید‘‘ قرار دیا ہے۔
(۲۷) صحیح مسلم‘ کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار‘ ح ۷۱۱۳
(۲۸) علاوہ ازیں ’’المعجم المفھرس للالفاظ القرآن‘‘ میں محمد فواد عبدالباقی کے شمار کے مطابق لفظ ’’الرَّحْمٰن‘‘ ۵۷ دفعہ اور لفظ ’’الرَّحیم‘‘ ۹۵ دفعہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔
(۲۹) البتہ ’’رحمان الدنیا والآخرۃ ورحیمھما‘‘ کے الفاظ متعدد اسانید کے ساتھ روایت ہوئے ہیں‘ ملاحظہ ہو: الدر المنثور فی التفسیر والماثور للسیوطی‘ ج۱‘ ص ۲۴۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025