عورت جنسِ تجارت نہیں ہے!شجاع الدین شیخ
مغربی تہذیب ایک عرصے سے اپنے طے شدہ سوشل انجینئرنگ ایجنڈے پر کاربند ہے اور مملکت ِخداداد پاکستان میں بھی اسے اپنے دجالی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے دست و بازو میسر ہیں۔ اس نام نہاد مہذب مغربی تہذیب کی تقلید نے ہمارے معاشرے میں عورتوں کو اُن کے اسلامی حقوق و فرائض سے دُور کر دیا ہے۔اب وہ سڑکوں پر آکر یا سوشل میڈیا پر اوچھی حرکتیں کرتے ہوئے ایسے مطالبات کرتی ہیں جن کا پس منظر اور پیش منظر بھی انہیں معلوم نہیں ہوتا۔ بہت سی تو محض اس لیے عورت مارچ جیسی سرگرمی میں شرکت کے لیے آجاتی ہیں کہ کچھ شہرت ہو جائے گی۔
قارئین کرام! دین ِ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے جو مرد او ر عورت دونوں کے لیے زندگی کے انفرادی اور اجتماعی گوشوں میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔نبی اکرمﷺ کی آمد سے قبل دورِ جاہلیت میں عورت کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا تھا ۔ حقیقت میں تو انہیں غلاموں سے بھی کمتر حیثیت حاصل تھی ۔ا ُنہیں ایسی ہی پراپرٹی سمجھا جاتا تھا جیسی بھیڑبکریاں یا دیگر اموال‘ حتیٰ کہ باپ کے مر جانے کے بعد اُس کی بیویوں کی حیثیت بھی متروکہ مال کے برابر ہی تھی ۔یہ قرآن و سُنّت کی تعلیمات ہی تو تھیں کہ دنیا میں پہلی مرتبہ عورتوں کو نہ صرف اُن کے حقوق دیے گئے بلکہ اُنہیں عملی طور پر نافذ بھی کر دیا گیا۔جہاں بیٹیوں کو بوجھ سمجھا جاتا تھا اور اُنہیں پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا ‘وہاں ان کو اس قدر اہمیت ملی کہ دو بیٹیوں کی اچھی طرح سے پرورش کرنے والے کو جنت کی بشارت دے دی گئی ۔عورتوں کو وراثت میں حق دار قرار دیا گیا ۔ آج مہذب ہونے کے دعوے دار کئی نظام ہائے زندگی عورت کو نہ تو جائیداد کا وارث تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی اُن کو صائب الرائے تصور کیا جاتا ہے ۔اسلام نے عورت کو شرفِ انسانیت بخشا اور بحیثیت انسان اُس کے حقوق کا تعین کیا ۔
دنیا بھر کی خواتین کو ورغلانے والا مغربی ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔انسانی حقوق کے چیمپئن ہونے کے دعوےدار امریکہ میں صرف ایک سو سال پہلے کسی عورت کو ووٹ کا حق ملا جبکہ مسلمان عورتوں کو یہ حق چودہ سو سال پہلے مل گیا تھا۔ عورتوں کو برابری کے حقوق دینے کے لیے آج سب سے زیادہ آواز اٹھانے والے ملک امریکہ میں گزشتہ دو سو سال سے کوئی خاتون صدر نہیں بنی مگر اس کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے کئی اسلامی اور غیر اسلامی ممالک میں خواتین سربراہ مملکت یا حکومت بنی ہیں ‘ اگرچہ کسی اسلامی مملکت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
درحقیقت اسلام نے عورت کو جو عزت بخشی تھی آج مغربی تہذیب نام نہاد آزادی اور حقوق کے نام پر وہ اس سے چھیننا چاہتی ہے ۔بدقسمتی یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں عورت کی حیثیت مالِ تجارت سے زیادہ کچھ نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں عورت کو بے پردہ کرنے پر زور دیا جا رہا ہے ۔آج ہمارے ہاں ایک طبقہ مغرب والوں کو مہذب اور خود کو دقیانوس خیال کرتا ہے۔ اپنے اسی احساسِ کمتری کو دور کرنے کےلیے وہ مغرب سے آنے والی ہر بات کو اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مغرب والے کب سے ایسے مہذب ہوئے ہیں؟اِس کا جواب یہ ہےکہ ۱۹۶۰ء سے پہلے وہاں پر بھی عورت اور مرد باقاعدہ شادی کیا کرتے تھے۔اُن کے گھر ‘خاندان اور بچے ہوتے تھے۔ بچوں کو والدین کا ادب کرنا سکھایا جاتا تھا۔ ۱۹۴۵ ء سے پہلے کسی عورت کا اگرٹخنہ بھی برہنہ ہوتا تو اُس کو براسمجھا جاتا تھا ۔ عورتوں کا لباس مکمل ہوتا تھا۔۱۹۶۰ ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کاSexualریزولوشن آیا تو نکاح ‘ شادی ‘ گھر اور خاندان کا تصوّر ہی ختم ہوتا گیا ۔اِن حالات میں بخوبی یہ فیصلہ کیا جاسکتا ہے کہ مغرب ۱۹۶۰ ء سے پہلے مہذب تھا یا بعد میں ہوا !
اسلام نے ہی پہلی مرتبہ عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سمیت کئی صحابیات نہ صرف عالمہ تھیں بلکہ کئی احادیث کی راوی بھی تھیں ۔عورت کا اوّلین دائرۂ عمل اُس کا گھر ہے‘ لہٰذا وہ صرف اپنے دائرہ کار میں فرائض کی ادائیگی کے لیے حصولِ علم کی ذمہ دار ہےاور اِسی حد تک اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہے۔ اس کے لیے لازمی تعلیم صرف وہ ہے جو اُس کو ایک بہترین بندی‘ بیوی‘ بہن‘ بیٹی اور ماں بننے کے لیے درکار ہو۔عورت کو کمائی کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا ۔مردکی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تمام ضروریات کو پورا کرے۔ البتہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے یعنی اُن شعبوں میں جہاں پردہ کا اہتمام اور مَردوں سےاختلاط کا امکان نہ ہو‘جائز کاروبار یا کسی بھی شعبہ میں ملازمت کر کے کسب ِ معاش کا حق بھی اُسے حاصل ہے ۔اسلام نے عورت کو نہ صرف حق ِملکیت دیا بلکہ اپنی ملکیت میں موجود مال پر تصرف کا پورا اختیار بھی دیا ہے۔وراثت میں عورتوں کا حصّہ مقررکیا گیا اور اُسے حدود اللہ قرار دیا ہے ۔
اسلام ایک عورت کو اپنے شوہر کے انتخاب کا حق دیتا ہے ۔نکاح کرنے کی صورت میں مہر کو عور ت کا حق قرار دیا گیا جس کا ادا کرنا شوہر پر لازم ہے ۔نکاح سے پہلے ایک عورت کی کفالت کی مکمل ذمہ داری اُس کے والد یابھائی پر ہے جبکہ نکاح کے بعد اُس کے شوہر پر ۔اگر اُس کا کوئی بھی کفیل نہیں ہے تو ریاست اُس کی مکمل کفالت کرتی ہے ۔ ناپسندیدہ ‘ ظالم یا نا کارہ شوہر سےعورت کو خلع اور تفریق کاحق دیا گیا ہے جو آج بھی کئی تہذیبوں میں کسی عورت کو حاصل نہیں ہے ۔ بیوہ اور مطلقہ کو دوبارہ نکاح کا غیر مشروط حق دیاگیا ہے ۔
عورت مسلم ہو یا غیر مسلم ‘تعلیم یافتہ ہو یا اَن پڑھ‘ اُس کا حق ہے کہ معاشرے میں اُسے باوقار حیثیت دی جائے ۔تجارت کی افزائش کے لیے اشتہاری شے نہ بنایا جائے اور نہ ہی ونی‘ سوارہ‘ کاروکاری اور قرآن سے شادی جیسی باطل‘ فرسودہ اور غیر اسلامی رسومات کی بھینٹ چڑھایا جائے ۔ حکومت کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ مملکت ِ خداداد پاکستان میں اسلام کے معاشرتی نظام کے سنہری اصولوں کو مکمل طور پر قائم اورنافذ کرے ۔ عورتوں کو وہ تمام حقوق دیے جائیں جو اسلام نے طے کیے ہیں۔ مغرب کی دجالی یلغار کے سامنے بند باندھا جائے تاکہ ایک صالح معاشرہ تشکیل پا سکے اور ہماری آئندہ نسلوں کو مغربی تہذیب کی شیطنت سے محفوظ رکھا جا سکے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025