اسرائیل نواز کمپنیوں سے معاہدے؟شجاع الدین شیخ
کھیلوں کے مقابلے کبھی صرف اِس لیے ہوتے تھے کہ بہترین کھلاڑی اور ٹیم کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے اُس کو انعام و اکرام دیا جائے۔ایسے کھلاڑی حقیقت میں زندگی کے دیگر معاملات میں بھی عام لوگوں سے بہتر ہی ہوتے تھے۔گزشتہ چند دہائیوں میں جہاں اور بہت سے شعبوں میں مادہ پرستی آئی ہے‘وہاں کھیلوں میں بھی یہ خرابی دَر آئی ہے۔اب کسی بھی کھلاڑی کی اصل پہچان صرف اور صرف اُس کاکھیل ہی ہے۔اُس کا کردار یا اخلاق کیسا ہے‘ یہ امر ثانوی بلکہ غیر ضروری ہو کر رہ گیا ہے۔کھلاڑیوں کے ذاتی کردار اور اخلاق کے حوالے سے ماضی میں ایسی کئی خبریں سامنے آچکی ہیں جن سے شاید اُنہیں خود تو کوئی خاص فرق نہیں پڑا مگر ملک و قوم کو اُن کی وجہ سے بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ اِس حمام میں تقریباً سب ہی برہنہ ہیں۔میچ فکسنگ ہو یا کسی بیرونی عنصر کے ایما پر اپنی کارکردگی میں تبدیلی لانا ہو‘اب یہ ایک معمول کی بات ہے ۔یہی وجہ کہ اب سنجیدہ طبقے نے کھیلوں کے ایسے مقابلوں میں دلچسپی لینا ہی چھوڑ دیا ہے جبکہ عوام کھلاڑیوں کی کارکردگی پر غم وغصہ کا اظہار کرکے اپنے جذبات کی تسکین (ـcatharsis) کرتے رہتے ہیں ۔ ارباب اختیار بھی تسلی رکھتے ہیں کہ عوام نے catharsis کرلیا ہے تو اگلے سیزن میں اُس سے بھی آگے کی کوئی بات لے کر آجاتے ہیں جس کی خرابیاں بھی اُن پر میچوں کے دوران ہی کھلتی ہیں۔
اِس وقت کرکٹ کے نام پر ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے‘ اُس کو ایک صحت مند سرگرمی خیال کرنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ پی ایس ایل جیسی لغو سرگرمی کھیل کے نام پر جوئے‘ سٹے اور بےحیائی کا گڑھ بن چکی ہے ۔ یہ عوام کے وقت کے ضیاع کا بھی بہت بڑاذریعہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل اپنے پشت پناہوں کے ساتھ مل کر فلسطین خصوصاً غزہ کے مسلمانوں پر ۲۰ ماہ سے مسلسل شدید ترین ظلم ڈھا رہا ہے‘ پی ایس ایل جیسی بیہودہ سرگرمی کا انعقاد درحقیقت قوم کی غیرتِ ایمانی اور دینی حمیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ماضی میں کئی کھلاڑیوں نے کرکٹ ٹیم میں رہتے ہوئے نہ صرف خود کو بدلا بلکہ دوسرے کئی کھلاڑیوں کے کردار میں بھی اس طرح تبدیلی لائے کہ وہ منکرات سے بچ کر کھیلنے لگے۔ ایسی بھی مثال ہے کہ غیر مسلم کھلاڑیوں نے اسلام قبول کیا اور پھر باعمل مسلمان بن گئے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے کھلاڑیوں کو وقت سے پہلے ہی ٹیم سے فارغ کردیا گیا اوراُن کی جگہ ایسے کھلاڑیوں کو لایا گیا جن میں منکرات سے بچ کر چلنے کا جذبہ کم از کم ہو۔ پاکستان کے۲۴کروڑ عوام میں سے۲۴ لاکھ بھی شاید ایسے نہیں ہیں کہ جنہیں یہ ادراک ہو کہ پی ایس ایل اور اِس نوع کے دیگر ٹورنامنٹ دراصل فروغِ کرکٹ کے لیے نہیں بلکہ ان کا اصل مقصد فروغِ بے حیائی اور فروغِ ناجائز ذرائع آمدن ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بیشتر مسلمان تو یہ بھی سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ کہیں اُن کی آمدن میں سود کی تو کوئی آمیزش نہیں ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکمران اور اربابِ اختیارسودی نظام کو جاری رکھنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ اِن حالات میںکون یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ اِس وقت جب کہ عوام اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرچکی ہے اور اِن کمپنیوں کو اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے بہت جتن کرنے پڑ رہے ہیں ‘ پی ایس ایل کی تشہیری مہم کے حقوق اُن کمپنیوں کو دے دیے گیے ہیں جو اسرائیل کو فائدہ پہنچا رہی ہیں۔ اربابِ اختیار کا یہ عمل انتہائی شرم ناک ہے اور اِس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
پی ایس ایل کا اثر و رسوخ بلا شبہ بین الاقوامی ہے مگر اِس کے تمام تر اربابِ اختیار پاکستانی اور یقیناً مسلمان بھی ہیں۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اسرائیل نواز کمپنیوں کو تشہیری مہم کے اختیارات دیتے ہوئے کیا اُنہیں یہ خیال نہیں آیا کہ اِس عمل سے صہیونی ریاست اسرائیل کو کس قدر خوشی ہوئی ہو گی؟ ایسے ارباب اختیار شاید یہ نہیں جانتے کہ اُن کے اس عمل سے اسرائیل اور اسرائیل نواز کمپنیاں خود کو’’ فاتح ِپاکستان‘‘ خیال کررہی ہیں‘ کیونکہ اسرائیل کو دنیا میں اگر کسی ملک سے حقیقی طور پر کوئی خطرہ ہے تو وہ صرف اسلامی جمہوریہ پاکستان ہی ہے۔پی ایس ایل کے اربابِ اختیار کو اپنی کاروباری مصروفیات کے باعث ممکن ہے یہ معلوم نہ ہو سکا ہو کہ غزہ کے مسلمانوں پر مسلسل اورشدید ترین اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں بچوں‘ عورتوں اور بوڑھوں سمیت تقریباً۶۰ ہزار مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ دنیا بھر کےمسلمان جسد ِ واحد کی مانند ہیں‘ جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو سارا جسم اِسے محسوس کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر علماء کرام نے قومی فلسطین کانفرنس میں اہل ِغزہ کی مدد کے لیے اسرائیل کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور اسرائیل کے تمام معاونین کے مکمل معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ پی ایس ایل کے اربابِ اختیار نے انفرادی طور پر اپنے ارد گرد لوگوں کو مرتے ہوئے تو دیکھا ہی ہو گا۔اُنہیں یہ بھی علم ہو گا کہ ایک دن اُنہیں بھی چلے جانا ہے‘ اور جاتے ہوئے وہ دنیا میں کمائی ہوئی یہ دولت یہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے ۔ایسے میں کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ وہ اب بھی اسرائیل نواز کمپنیوں کے ساتھ معاہدے ختم کردیں اور اپنی عاقبت کو سنوار لیں!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025