(دعوتِ فکر) .......ہاں باقی وہ رہ جائے گا! - ایوب بیگ مرزا

10 /

… ہاں باقی وہ رہ جائے گا!ایوب بیگ مرزا

جماعت کی تعریف شاید اس سے بہتر ممکن نہ ہو کہ یکساں ہدف رکھنے والے ہم مقصد افراد کا ایسا گروہ جو کسی ایک نظم سے منسلک ہو۔ یہ نظم جماعت کے دستور کے تحت قائم ہوتا ہے‘ اور تمام وابستگانِ جماعت اپنی ذمہ داری اس دستور کے مطابق ادا کرتے ہیں ۔ وہ دستور ہی کے حوالے سے نظم بالا کو جو اب دہ ہوتے ہیں اور اُن سب کی اصل وفاداری جماعت کے دستور کے ساتھ ہوتی ہے۔ جماعت کا سربراہ بھی دستور کا پابند ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں دنیا بھر میں جماعت سازی کا یہی چلن ہے۔ آج دنیا میں حصولِ قوت و اقتدار کے لیے سیاسی داؤ پیچ جو حیثیت اختیار کر گئے ہیں‘ اُن کی بنا پر بھی ایک کامیاب سیاست دان بننے کے لیے کسی باقاعدہ سیاسی جماعت سے منسلک ہونا نا گزیر ہے۔ دنیا کے اکثر یتی حصہ میں چونکہ سیکولرازم ایک نظام کی حیثیت سے تسلط حاصل کر چکا ہے‘ اس ماحول اور پس منظر میں مذہب اور ریاست بہتے دریا کے دو کناروں کی طرح ہیں ‘جو کبھی مل نہ سکیں گے۔ لہٰذا آج کسی سیاسی کارکن کے دو ہی بڑے مقاصد ہو سکتے ہیں: اولاًملک و قوم کی خدمت کی جائے اور اس کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالا جائے۔ دوسرا اقتدار یا سیاسی قوت کے بل بوتے پر ذاتی مفادات کی تکمیل کی جائے۔
سیاسی جماعتوں کے وجود کے حوالہ سے برصغیر یورپ سے بہت پیچھے ہے ۔یہاں مغل حکمرانوں کا خاتمہ ہوا تو سات سمندر پار سے گورے آگئے۔۱۸۵۷ء تک اہل ِہندوستان آزادی حاصل کرنے کے لیے عسکری جدّوجُہد کرتے رہے‘ لیکن باہمی چپقلش کی وجہ سے نا کام ہو گئے۔ بعد ازاں مسلمانوں میں سے روایتی مذہبی طبقہ تو اسی راستہ پر گامزن رہا‘ لیکن ہندو اور عام مسلمان نے آزادی کے لیے سیاسی راستہ اختیار کیا۔۱۸۸۵ء میں ہندو ئوںنے کانگریس کے نام سے سیاسی جماعت بنائی اور ۱۹۰۶ءمیں مسلمانوں نے مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جدّوجُہد کے لیے جماعت تشکیل دی۔ کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دونوں کا مطمح نظر انگریزسے آزادی کا حصول تھا‘ لیکن مسلم لیگ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے ساتھ ہندوستان کو تقسیم کر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن حاصل کرنے کی جدّوجُہد بھی کرتی رہی‘ جس سے کانگریس اور مسلم لیگ میں ایک فرق واقع ہو گیا ۔ کانگریس صرف یہ چاہتی تھی کہ انگریز ہندوستان سے رخصت ہو جائے۔ انگریز نے ہندوستان سے اپنی رخصتی کو اصولی طور پر قبول بھی کر لیا تھا۔ لہٰذا اختلاف صرف وقت اور رخصتی کے انداز کا تھا۔ یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ کانگریس کو ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے مضبوط بنیادیں فراہم کرنے اور تنظیم سازی کے لیے ہندوئوں کو مناسب وقت مل گیاجب کہ مسلم لیگ کو پاکستان بنانے کے لیے ایک زور دار تحریک چلانا پڑی‘ لہٰذا تنظیم سازی کا نہ وقت تھا نہ موقع۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے چونکہ مذہب کی بنیاد پر الگ وطن کا مطالبہ کیا تھا‘ لوگوں کو پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ بتایا گیا تھا‘ لہٰذا اس تحریک کو مذہبی جذبات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھایا گیا۔
ہم قارئین خصوصاًتنظیم اسلامی کے رفقاء کی خدمت میں اصلاً یہ عرض کرنا چاہ رہے ہیں کہ پاکستان کی گھٹی میں جذباتیت ہے۔ اس کی تعمیراتی فزیالوجی میں جذباتیت ہے۔ لہٰذا قیام پاکستان کے بعد جتنی بھی نئی سیاسی اور مذہبی جماعتیں قائم ہوئیں‘ اُن میں لیڈر حضرات نے جذبات کو فوکس کیا۔ مثلاً مذہبی جماعتوں نے اپنے اپنے مسلک کی دُہائی دی‘ مسلکی جذبات کو بھڑکایا اور مسلک کی بنیاد پر الگ جماعت بنا لی۔ جمعیت علمائے اسلام‘ جمعیت علمائے پاکستان‘ جمعیت اہل ِحدیث ‘ اہل تشیع کی جماعت تحریک جعفریہ وغیرہ۔ سیاسی جماعتوں نے جو حقیقت میں سب سیکولر جماعتیں ہیں‘ بنیادی انسانی ضروریات کی تکمیل کا لالچ دیا۔ مثلاً کسی نے روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ بلند کر کے اور کسی نے لسانی اور علاقائی تعصب کو ہوا دے کر جذبات کو بھڑکایا اور ہم زبانوں یا علاقہ پرستوں(جنہیں قوم پرست کہا جاتا ہے) کو اپنے گرد اکٹھا کر کے جماعت بنا لی۔ گویا صورتِ حال یہ بنی کہ سندھ کے کراچی اور حیدر آباد جیسے بڑے شہروں میں آسانی سے لسانی بنیادوں پر جماعت بن گئی۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں میں شیعہ حضرات کوتحریک نفاذ جعفریہ کی اور اہل ِحدیث حضرات کو جمعیت اہل حدیث کی دعوت دینا اور دعوت قبول کرنا بہت آسان ہے۔ ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی نوع کی عصبیت کی پکار لگا کر جماعت بنانا بھی آسان ہے اور اسے چلانا اور قائم رکھنا بھی آسان ہے۔
تنظیم اسلامی کے رفقاء سے ہمارا ٹریلین ڈالر سوال یہ ہے کہ وہ کس عصبیت کی صدا لگائیں گے؟ وہ کس طرح کے جذبات کو مہمیز لگائیں گے؟ ہم نے جو آغاز میں جماعت کی تعریف بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس میں صرف پہلے جملے کا ابتدائی جزو تنظیم اسلامی پر صادق آتا ہے‘ یعنی یکساں ہدف رکھنے والے ہم مقصد افراد جو ایک نظم سے منسلک ہیں۔ اس کے بعد پاکستان کی دوسری تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے تعمیری اور عملی اختلاف شروع ہو جاتا ہے۔ تنظیم اسلامی دستوری نہیں بلکہ شخصی بیعت کی بنیاد پر قائم ہے‘ جس کا بنیادی فلسفہ یا اصول یہ ہے کہ جس شخص کے ہاتھ پر بیعت کی جا رہی ہے اُس کے ہر حکم کی بےچون و چرا پابندی کرنا ہو گی‘ بشرطیکہ وہ حکم شریعت کے دائرے کے اندر ہو۔
تنظیم اسلامی نے اپنا اصل اور حقیقی ہدف رضائے الٰہی کو ٹھہرایا ہے ۔ اُس کا موقف یہ ہے کہ اپنے ہدف کے حصول کے لیے نظریۂ پاکستان کو عملی تعبیر دینا لازم ہے‘ بلکہ تقسیم سے قبل کے نعرے میں قیام پاکستان کے بعد ’’محمد رسول اللہ‘‘ کا اضافہ لازم اور ناگزیر ہے۔ شریعت ِ محمدیہﷺ کا نفاذ نہیں ہو گا تو بات محض جذباتیت تک محدود ہو کر رہ جائے گی اور نعرے لگاتے لگاتے جذبات بھی آخر کار سرد پڑ جائیں گے۔ اگرچہ پاکستان کی تمام مذہبی جماعتیں نعرہ تو نفاذِ اسلام ہی کالگاتی ہیں‘ لیکن جب وہ اسے اپنے مخصوص خول سے‘ مخصوص لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے لگاتی ہیں تو ہم مسلک لوگ اصل دعوت کو سمجھ لیتے ہیں۔ لہٰذا وہی لپکتے ہیںجنہیں حقیقت میں پکارا جاتا ہے۔ تنظیم اسلامی نے خود کو کسی خاص مسلک سے نتھی ہی نہیں کیا ہوا‘ لہٰذا اُسے مسلک ِ محمدی ﷺکی صدا لگانی ہے (جس کے لیے صحیح تر اصطلاح شریعت ِمحمدیﷺہے) اور تمام مسلمانوں کو دعوت دینی ہے۔ شریعت ِمحمدیﷺ کے مطابق تمام زمین اللہ کی ہے اور مسلمان کے لیے مسجد کی حیثیت رکھتی ہے‘ لہٰذا کسی زمینی عصبیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی لیے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر برتری حاصل نہیں۔ کسی گورے کو کالے پر‘ کالے کو گورے پر فوقیت نہیں۔ گویارنگ‘ نسل اور زبان یا کسی بھی نوع کی عصبیت کی پکار نہیں لگائی جا سکتی۔
پھر یہ کہ سیکولر سیاسی جماعتوں کی طرح دنیوی ساز و سامان اور عہدوں وغیرہ کے لالچ کا کوئی سوال ہی نہیں‘ اس لیے کہ ہر شخص یہ بات جانتا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے پر بھی تنظیم نے خود پر پابندی لگارکھی ہے۔ لہٰذا خالصتاً نفاذِ دین کے لیے کسی جماعت سے منسلک ہونے کی دعوت دینا اور لوگوں کو اپنے ساتھ جمع کر کے بڑی جماعت بنا لینا دنیا کا مشکل ترین کام ہے‘ اگرچہ نا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۵ کروڑ میں سے چند ہزار افراد کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے کہ وہ تنظیم اسلامی کے رفقاء اور رفیقات کہلاتے اور کہلاتی ہیں۔ البتہ اس حقیقت کا بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ مشکلات کی وجہ سے knockingہو رہی ہے۔ ایک ہچکچاہٹ اور تذبذب کی بہر حال کیفیت موجود ہے۔ ہماری رائے میں اس حوالہ سے مختلف لوگوں کی مختلف وجوہات ہیں۔
اگر رفقاء بُرا نہ مانیں تو ہم اس knockingکو مرض کا نام دیںگے اور ساتھ علاج تجویز کرنے کی کوشش کریںگے۔ مثلاً بعض ساتھی جو بڑے پُرعزم طریقے سے تنظیم میں شامل ہوئے‘ انہوں نے اقامت ِدین (یعنی دین کو عملاً قائم کر دینے) کو دینی اور شرعی فریضہ سمجھ لیا۔ حالانکہ ایک رفیق پر اقامت ِدین کی جدّوجُہد لازم ہے‘ اسلام کا بالفعل نفاذ اس کی ذمہ داری نہیں۔ ایسا رفیق جب زمینی حقائق پر نگاہ ڈالتا ہے اور حالات کی ناموافقت اس کے سامنے آتی ہے تو تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے۔ نتیجتاً یا تو سست روی کا شکار ہو جاتا ہے یا جلد بازی کا مظاہرہ کر کے انقلاب کے دُنیوی ہدف کو ہر قیمت پر حاصل کرنے کی فکر کرنے لگتا ہے اور نتائج سے مایوسی کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ اُسے اس بات کو ذہنی اور قلبی طور پر سمجھنا چاہیے کہ میری ذمہ داری تو دین قائم کرنے کے لیے سرتوڑ جدّوجُہد کرنا ہے ‘ مجھے تن من دھن لگانا ہے‘ لیکن میرا اصلی ہدف رضائے الٰہی ہے ۔ کیااللہ اپنی راہ میں مخلصانہ جدّوجُہد کو رد کرے گا ؟سورۂ محمد کی آیت ۷کامطالعہ کریں‘ وہ تو اسے یعنی اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کو اپنی مدد قرار دیتا ہے۔ کیا وہ اپنی مدد کرنے والوں کو بھلا دے گا؟ ہر گز نہیں‘ ہر گزنہیں! گویا کامیابی کا امکان صد فی صد ہے تو پھرتذبذب کیسا؟ معاشرے میں انقلاب آتا ہے یا نہیں ‘ یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔قطعی اور حقیقی اختیار صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔ آپ اپنا کام کریں‘ لوگوں کو اقامت دین کی جدّوجُہد کے لیے جمع ہونے اور نظم سے جُڑنے کی دعوت دیں اور دیتے چلے جائیں‘ دیتے چلے جائیں کہ یہی آپ کا فرضِ منصبی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے تو علامہ اقبال نے کہا تھا؎
اس دور میں سب مٹ جائیں گے‘ ہاں باقی وہ رہ جائے گا
جو قائم اپنی راہ پہ ہے اور پکا اپنی ہٹ کا ہے!
ضرورت اپنی راہ پر قائم رہنے کی اور ہٹ کا پکا ہونے کی ہے۔ یاد رکھیے‘ یہ اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں اور اللہ کی مدد کے حصول کے لیے دن کا شہسوار رہنے کے ساتھ رات کا راہب بھی بننا ہو گا۔ شیطانِ لعین سے اللہ کی پناہ حاصل کرنا ہو گی۔ دوسری بہت بڑی رکاوٹ حصولِ رزق کی مشکلات ہیں۔ اپنے اور اہل خانہ کی ضروریاتِ دُنیوی کی تکمیل ہے۔ یہ رکاوٹ اور مشکل یوں تو ہر دور میں رہی ہے‘ لیکن آج بہت گھمبیر اور پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اسے آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر انسان یہ طے کرلے کہ وہ کسی تیسرے کام میں اپنا وقت ضائع نہیں کرے گا اور اپنے اوقات کا سختی سے احتساب کرے گا تو ہمارا ایمان ہے‘ اور شاید تجربہ بھی‘ کہ دینی اور تنظیمی امور کی انجام دہی کے لیے وقت نکل ہی آتا ہے ۔ جسے نہیں نکالنا‘ اُسے پنج وقتہ نماز کے لیے بھی وقت نہیں ملتا۔ ضرورت عزم کی ہے۔ commitment قلبی‘ ذہنی اور روحانی ہو تو اللہ آسانیاں پیدا کر دیتا ہے۔ کوئی کام نا ممکن نہیں ہوتا‘ مشکل ضرور ہوتا ہے۔ صرف ہمارا امتحان درکار ہے۔ {وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْٓ اِلَی اللہِ ط اِنَّ اللہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ(۴۴)} پر ہمارا یقین ہونا چاہیے۔ رفقاء گرامی! یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ اللہ کا کام کریں اور اللہ آپ کا کام نہ کرے!