جاہلیت ِجدیدہ کے خلاف جہاد بالقرآن(تنظیم اسلامی کے سالانہ اجتماع منعقدہ۲۰۲۴ء کے موقع پر خطاب)ڈاکٹر انوار علی
امیر تنظیم اسلامی ‘ حلقہ کراچی شرقی
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے مارچ ۱۹۸۴ء میں ’’جہاد بالقرآن‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا تھا۔اس کے بعد انہوں نے جون ۱۹۸۴ء میں ایک اور مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس کا عنوان تھا :’’ جہاد بالقرآن اور اس کے پانچ محاذ‘‘۔ انہوں نے جو پانچ محاذ گنوائے ‘ وہ بالترتیب شرک ‘ الحاد‘ بےیقینی‘ نفس و شیطان اورفرقہ واریت تھے۔ یہ ڈاکٹر صاحبؒ کی دُوررَس نگاہیں تھیں جن کی بدولت انہوں نے نہ صرف اُس دور بلکہ آنے والے اَدوار کے بدترین فتنے یعنی الحاد اور اس سے منسلک جاہلیت کے خلاف جہاد بالقرآن کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
لفظ’’ جاہل‘‘ کا اطلاق ہر اس شخص پر ہوتا ہے جو جذباتی ‘اکھڑ ‘ ناشائستہ‘ شہوات و لذات کے سہارے جینے والا عقل پرست ہو۔ اصطلاحاً ہر وہ شے جو قرآن وسُنّت کے منافی ہو‘ جہالت ہے۔ جنابِ رسول اللہ ﷺنے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا :
((اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مِنْ اَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ تَحْتَ قَدَمِیْ مَوْضُوْعٌ))(رواہ مسلم و ابوداوٗد)
’’خبردار‘ زمانۂ جاہلیت کی ساری قدریں آج میرے پاؤں کے نیچے رکھی دی گئی ہیں۔‘‘
جہاں تک جاہلیت ِقدیمہ کی بات ہے ‘اس کی بنیاد نسلی تفاخر اور عصبیت پر تھی۔ فتح مکہ کے موقع پر جب رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان دی تو ایک قریشی نے ‘ جو یہ منظر دیکھ رہا تھا ‘ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اور بولا :’’ میرا باپ کتنا خوش نصیب تھاجو یہ منظر دیکھنے سے پہلے ہی دنیا سے چلا گیا‘‘۔ یہ نسلی تفاخرہی ہے جو انسانیت کو ہمیشہ سےدرجہ بہ درجہ شرک کی دلدل میں دھنسانے کا سبب بنتارہا ہے۔ بہر حال قدیم دور کی جاہلیت کا عملی اظہار شرک کی صورت میں ہوا ‘جس میں خدا کا انکار تو نہیں تھا ‘البتہ خدا ئےواحد کے ساتھ دیگر خود ساختہ خداؤں کا تصور پیدا ہوتا رہا۔ وہ جس انسان کو اعلیٰ و برتر سمجھتے‘ اس کی تعظیم میں اتنا غلو کرتے کہ اسے خدائے واحد کا شریک ٹھہرادیتے ۔یہ جہالت آج بھی جاری ہے اور توحید کےعَلم برداروں کا ہمیشہ سے اسی کے ساتھ ٹکراؤ رہا ہے ۔قرآن کریم کا ایک بہت بڑا حصہ اسی جاہلیت کے رَدّ میں دلائل دیتا نظر آتا ہے۔
انسانی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جاہلیت کی ایک صورت الحاد یعنی خدا کے انکار کی صورت میں سامنے آئی ۔ قرآن کریم میں وہ مقامات بھی نظر آتے ہیں جہاں خدا کے انکار یا بالفاظِ دیگر مادہ پرستی کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایک ملحدجو بظاہر کسی خدا کو نہیں مانتا‘اس کا مادہ پرستی سے کیا تعلق ہے!دراصل اگر کوئی شخص خدا کے وجود کا انکاری ہے تو لازماً وہ مادہ کوخدا مانےبیٹھا ہے ‘کیونکہ اس کے عقیدہ کے مطابق مادہ ہی قدیم ہے‘ یعنی اپنا خالق خود ہے۔ مادہ پرستی کا ایک مظہر یقیناًشرک بھی ہے جس میں مبتلا شخص خدا کے وجود کا انکار تو نہیں کرتا البتہ مادہ کو ایک طاقت مانتے ہوئے خدا کے مقابل لاکھڑا کرتا ہے۔ یہ مادہ پرستی کا شرک جب زور پکڑتا ہے تو انسان کا اپنے حواس اور اسباب پر توکّل اس درجہ غلبہ پالیتا ہے کہ وہ مادہ ہی کو سب کچھ سمجھتے ہوئے آخر کاردرمیان میں سے خدا کو نکال دیتا ہے ۔ انسان نے ایسا اس لیے بھی کیا کیونکہ خدا ہی وہ ذات تھی جو اسباب پرستی کی دوڑ میں اس کے سامنے حائل تھی۔ یہ ملحدین ہمیشہ سے تعداد میں بہت کم رہے ہیں البتہ پچھلے ادوار میں ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کا ایک بڑا سبب پاپا ئیت رہی ہے۔ تقریباً تین سو برس قبل جب ملوکیت اور پاپائیت کے خلاف اصلاحِ مذہب (Reformation) اور احیاء العلوم (Renaissance) کی تحریکوں نے زور پکڑا تو دورِ جدید کے تقاضوں اور کلیسا کی ہٹ دھرمی کے درمیان ہونے والی جنگوں نے بالعموم مذہب پرستوں کو مذہب بیزار وں میں تبدیل کرنا شروع کردیا۔
جاہلیت ِ جدیدہ اور جاہلیت ِقدیمہ
آ ج کے دور کی جاہلیت کو اگر اصطلاحاً بیان کرنا چاہیں تو وہ الحاد ہے۔ البتہ یہ الحاد نظری سے زیادہ عملی ہےجس کی جڑوں میں نسلی تفاخر نہیں بلکہ مال کا تفاخر ہے۔ اس معنوی الحاد میں کوئی بھی ظاہر میں اپنے قول سے خدا کے وجود کا انکاری نہیں ہے لیکن اپنی عملی زندگی میں وہ خدا سے اس حد تک بیزار ہے کہ اس کا نام سننا بھی اسے گوارا نہیں۔ ’’خدا کی شریعت‘‘ ‘’’ خدا کے قوانین‘‘‘ ’’خدا کا نظام‘‘ وہ ضربیں ہیں جو انسان کو سیخ پا کردیتی ہیں۔ وہ ان تمام ممنوعہ اشیاء کو اپنا حق سمجھے بیٹھا ہے جن کا حصول خدا پرستی کے ساتھ ممکن نہیں۔ یہ ’’معنوی الحاد‘‘ یا ’’عملی الحاد‘‘ یا ’’الحاد ِخفی‘‘ ہے جو دور ِجدیدہ کی تمام جہالتوں کی ماں ہے۔ اس معنوی الحاد کی طرف جانے والے راستے کی پہلی سیڑھی آخرت کا انکار ہے ۔ ایمان بالآخرہ یعنی بعث بعدالموت ہی وہ عملی ایمان ہے جو انسان کو اس عارضی دنیا کی حقیقت سمجھاتا ہے ۔اگر یہاں کوئی کمزور ہے تو اس کا لازمی نتیجہ خدا بیزاری یا عملی زندگی میں خدا کے تصور تک کو ترک کردینے کی صورت میں نکلے گا۔
شماریات کو سامنے رکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید ملحدین کو کوئی ایسے دلائل مل گئے ہیں جن کی بنا پر وہ دنیا بھر میں پھیلتے جارہے ہیں۔ میڈیا پر ملحدین کے اعدادوشمار یقیناً بہت نمایاں ہیں ۔صرف پاکستان ہی میں یہ تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے۔ البتہ یہ حقیقت سامنے رہے کہ الحاد پرستوں کے پاس کبھی بھی کوئی واضح دلیل نہ تھی اور نہ ہی ہے۔ ان کے دلائل کا نہ صرف مسلم علماء بلکہ غیر مسلم مفکرین بھی بھرپور جواب دے چکے ہیں۔ عقل پرستی اور حواس پرستی اس قابل نہیں ہیں کہ علمی بنیاد پر خدا کا انکار کرسکیں ۔ پھر اس سیلاب کے یوںآگے بڑھنے کی وجہ کیا ہے؟دراصل یہ خدا کا انکار نہیں بلکہ خدا بیزاری ہے جس کی بنیادی وجہ لذات و شہوات کی دنیا میں گم گمشدہ قلوب ہیں۔ ہوس زدہ عقل و فہم کو شریعت کے نام ہی سے نفرت ہوچکی ہے۔ انسان نما حیوانوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جو پابندیوں سے گھبرائے ہوئے ہیں اور حیوانیت کے اصولوں پر جینا چاہتے ہیں۔ایک طرف شرک ہے اور دوسری طرف یہ حیوان نما انسان ہیں۔ مشرک اپنے نفس کو خدا کے ساتھ شریک کیے ہوئے ہے جبکہ حیوان نما انسان اپنے نفس کو خدا ئےواحد بنائے بیٹھے ہیں۔ منہ سے کہہ نہیںپاتے کہ خدا نہیں ہے لیکن جیسے ہی خدا کا نام لیا جائے تویہ غصہ سے دانت چبانے لگتے ہیں۔ (عیاذاً باللہ!)
جاہلیت کا غلبہ
پچھلے دور میں جاہلیت عقل پرستی پر ناز کرتی تھی ‘آج اُس عقل پرستی نے تھوڑا سا خم کھایا ہے اور اب یہ طبیعیاتی عقل پرستی میں ڈھل چکی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے خدا کے انکار کی بنیاد یہ رہی کہ چونکہ وہ حواسِ خمسہ میں نہیں آتا تو نہ مانو ‘اب دلیل یہ ہے کہ چونکہ NASAکی دوربین میں بھی خدانظر نہیں آرہا تو ثابت ہوا کہ وہ موجود ہی نہیں۔ یہ سب مرحلہ وار ہوا ہے۔ ذہن سازی کی گئی۔ معاشروں میں ان لوگوں کو نمایاں مقام دلایا گیا جو اندر سے خدا بیزار تھے۔ ان میں صحافی‘ مصنّفین ‘ دانشور‘ خطیب (آج کی اصطلاح میں motivational speakers) اور ایسےعلماءِ سوء بھی شامل ہیں جنہوں نے چیخ چیخ کر لوگوں کو زندگی کا وہ مطلب سمجھایا جس میں کامیابی صرف اور صرف مال سے وابستہ ہوتی ہے۔ کھیلوں ‘ ڈراموں اور فلموں پر بلاوجہ ہی اتنی investments نہیں کی جاتیں۔ ان کے پیچھے وہی سازشی دماغ ہیں جن کا تانا بانا ابلیس سے جاملتا ہے۔ اصلی زندگی کو غیر حقیقی معیارات کے ذریعے مصنوعی زندگی میں تبدیل کیا گیا۔ اس مصنوعی زندگی اور اس سے منسلک ضروریات کو یوںہوا دی گئی کہ توجہات کا ارتکاز مادے پر ہوتا چلا گیا۔
کامیابی یا achievement کی تعریف بھی تبدیل کردی گئی ۔اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ آج اگر ایک مسلمان بچے کی نماز چھوٹ جائے ‘ وہ روزہ نہ رکھے‘ قرآن کی تلاوت نہ کرے‘ بھلے جھوٹ بولتا ہو ‘ بد کردار ہو ‘ بے حیا ہو توان تمام باتوں سے معمولی سا فرق بھی نہیں پڑتا ‘البتہ اگر ایک دن اسکول کی چھٹی ہوجائے تو اسے غیر معمولی عمل سمجھا جاتا ہے ۔کسی امتحان میں بچے کے۹۰ فیصد سے کم نمبر آ جائیں تو گھر میں میت کا سماں بن جاتا ہے۔ قیامت کا منظر تو تب ہوتا ہے جب میٹرک یا انٹر کے رزلٹ میں وہ مطلوبہ گریڈ نہ آئے جو ڈاکٹر یا انجینئربننے کے لیے چاہیے۔
تعلیمی نصاب اور تدریسی نظام پر خصوصی محنت کی گئی ۔ آج پورے تعلیمی نظام کا نچوڑ یہ ہے کہ غلامانہ ذہنیت کے حامل ایسے نوکر (servants)پیدا کیے جائیں جو اس نظام کی خدمت میں تن من لگادیں‘ اس امید پر کہ انہیں دھن ملے گا۔ ان کی زندگی کا مقصد صرف آرام و آسائش کا حصول ہو‘ جہاں خوشی صرف bonus اور increment کا نام ہو ۔ علوم ہوں کہ فنون ‘ فلسفہ ہو کہ نفسیات ‘اس تعلیمی سفر سے گزرنے والا اپنی نفسانی خواہشات کا ایسا دل دادہ بن جاتا ہے کہ ایمان اور روحانیت کے نام سے بھی اسے ایک طرح کی خفت محسوس ہوتی ہے۔
ابلیسی اہل کاروں نے بڑی محنت کی اور رفتہ رفتہ پورا فلسفہ ٔ اخلاق بدل دیا گیا ۔ اخلاقی قدریں بس اتنی ہی ٹھہرائی گئیں کہ وہ ایک ترقی یافتہ حیوان ہے۔ صرف ایک social animal جوجبلتوں کی دوڑ میں نسبتاً کم مبتلا ہے۔یہ انسان بس اتنا انسان ہے کہ اپنے بوڑھے والدین کو اپنے خرچہ پر old house میں جمع کروادیتا ہے تاکہ اس کی انفرادیت متاثر نہ ہو۔
کسی معاشرے کو تباہ کرنا ہو تو اس میں بسنے والے افراد کو نہیں بلکہ اس معاشرے کی اقدار کو قتل کیا جاتا ہے۔اپنی تہذیب و تمدن کو مرعوبیت کی بھینٹ چڑھادینے والے اذہان پیدا کیے جاتے ہیں۔وہ اپنی زبان ‘ اپنے لباس اور اپنے رہن سہن کو نحوست اور ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹ سمجھنے لگتے ہیں ۔ انہیں ترقی کی تعریف ہی وہ سمجھائی جاتی ہے جس کا ان کی اپنی تہذیب وتمدن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
سب سے زیادہ کاری ضرب جو اس جنگ میں لگائی گئی ‘وہ یہ تھی کہ حیاکی تعریف تبدیل کردی گئی۔وہ امور جن کو بے حیائی سمجھا جاتا تھا‘ زندگی میں ایسے شامل کردیے گئے گویا وہ انسان کے بنیادی حقوق ہیں۔ عورت کو گھر سے باہر نکالنے کے لیے دنیا کے ذہین ترین ‘فتنہ پرور افراد کے ذریعے دلائل جمع کیے گئے۔ فلم‘ ڈرامہ اور ادب میںاس معاملے کو ایسے اٹھایا گیا گویا ایک مرد سے بھی زیادہ حق عورت کا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلے۔ ستر و حجاب کو ایک گالی بنا دیا گیا۔پردہ ‘ چادر اور چار دیواری پر تہمتیں لگائی گئیں اور ان کا احساس کرنے والوں کو دورِ جدید کے مجرموں کی فہرست میں لاکھڑا کیا گیا۔ پچھلا دورِ جاہلیت عورت کا استحصال کرتا تھا اور اسے انسان کا درجہ دینے کو بھی تیار نہ تھا۔ آج کی جاہلیت نے عورت کو حقوق کا جھانسا دے کر اسے محض جنسی تسکین کا ایک ذریعہ بنادیا اور المیہ یہ ہے کہ عورت کو قائل بھی کرلیا کہ یہ اس کے حق میں بہتر ہوا ہے‘ لہٰذا وہ خود اس پر بضد ہے۔ انتہا تو یہ ہے کہ آج کے دور کی ایک بےپردہ عورت اللہ کی طرف سے دیے گئے لازمی حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی اپنے آپ کو اللہ کاولی سمجھتی ہے۔
جاہلیت ِقدیمہ اور جاہلیت ِجدیدہ میں فرق یہ ہے کہ پہلے صرف اپنے خدائوں کا طواف کرتے وقت برہنہ ہوا جاتا تھا‘جبکہ آج عام زندگی میں بے لباسی کا دور دورہ ہے۔ خدا بھی بدل گئے ہیں۔ اب مال و دولت خدا ہیں تو ان کا طواف ہورہا ہے۔ اس فتنہ میں جو اصل رنگ بھرا گیاجس کی وجہ سے اس سیلاب نے پوری پوری نسلوں کو نگل لیا ‘وہ ہے personality complex کا مسئلہ۔نوجوان لڑکے لڑکیاں ہی نہیں ‘بڑی عمر کے افراد بھی اس بیماری کے مریض بنا دیے گئے ۔ انہیں اس حال تک پہنچانے میں شوبز کی دنیا نے اہم کردار ادا کیا۔ اداکاری کرنے والے جو کسی زمانے میں میراثی اور بھانڈ کہلاتے تھے‘ انہیں ’’ستاروں‘‘ کا لقب دے دیا گیا (معاذَاللہ! جب کہ رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ’’ستارے‘‘ کہا تھا)۔ بظاہر یہ بات معمولی لگتی ہے مگر ذراسوچیے کہ اگر کسی نوجوان پر یہ احساس غالب ہوجائے کہ وہ ’’خوب صورت‘‘‘’’اسمارٹ‘‘‘ ’’ہینڈسم‘‘یا ’’چارمنگ‘‘ نہیں تو یہ امر اسے لازماً اس سوچ کی طرف لے جائے گا کہ اس کے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ وہ یا تو ڈپریشن کا مریض بن کر کاسمیٹکس کی صنعت کے منافع کا سبب بنتا رہے گا یا ایک طرح کے انتقامی جذبہ کا شکار ہوکر پہلے تو خدا کی مخلوق سے اپنے ساتھ ہونے والے ’’ظلم‘‘ کا بدلہ لے گا اور پھر اس کا یہ غصہ بالآخر خدا پر نکلے گا (معاذاللہ) ۔ کچھ اور کرسکے یا نہیں ‘البتہ خدا کو اپنی زندگی سے ضرور نکال دے گا۔
جاہلیت ِجدیدہ کی بنیاد
جدید جاہلیت کی بنیاد تین طرح کی ذہنیتوں پر ہے: مرعوبیت‘ غلامی اور بغاوت۔ایک ذہن وہ ہے جو مغرب کی چکا چوند سے مرعوب ہے ‘کیونکہ بظاہر نظر آنے والی سائنس و ٹیکنالوجی کے کارنامے اپنی اہمیت سے کہیں زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں۔ کچھ ایجادات یقیناً ایسی ہیں جن سے انسان کو بڑی سہولت ہوئی ہے‘ لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ زیادہ تر ایجادات نے انسان سے اس کا سکون چھین کر اس کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے۔ایک مرعوب ذہن جب اس مصنوعی ترقی کو دیکھتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ مذہب انسان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔دوسری ذہنیت اصل میں غلامانہ ذہنیت ہے ۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم یہ ذہنیت اپنی عقل کا سودا کرچکی اور ان کی سوچ محض اس کلمہ کا ورد کرتی ہے کہ ’’مستند ہے مغرب کا فرمایا ہوا۔‘‘ یہ اپنا دل ودماغ اپنے آقاؤں کے حوالے کرکے بدلے میں ان سے مراعات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بعض اس میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔تیسری ذہنیت جس کی اب اکثریت ہوتی جارہی ہے‘ بغاوت پر مبنی ہے۔اس ذہنیت کے حامل افراد کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف حیوانی شہوات اور داعیات کی تسکین ٹھہرتا ہے۔انسان کے جبلی تقاضوں اور ان میں سے بھی جنسی جذبہ کی مکمل تسکین نہ تو مذہب کا موضوع ہے اور نہ ہی کسی بھی شریعت کے دائرے میں ممکن ہے۔ مذہب ہو یا شریعت ‘اصل موضوع تو خدا ہی ہے ‘لہٰذایہ باغی ذہنیت خدا کو اپنے راستے سے ہٹانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہے۔
جہاد بالقرآن
جاہلیت چاہے قدیم ہو یا جدید ‘اس کے خلاف سب سے اہم اور مؤثر آلہ جہاد بالقرآن ہی ہے‘ کیونکہ قرآن ہی عالمِ اسباب میں اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ یہ قرآن ہی ہے جو اللہ کے بندوں کےلیے ڈھارس بھی ہے اور ہر طرح کی جاہلیت کے خلاف لڑنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہے۔ قرآن کا من جانب اللہ ہونا اس کے ہر قاری پر واضح ہے۔ تمام طاغوتی قوتیں مل کر بھی اس قرآن کی مثل کچھ لانے پر قادر نہیں ‘کیونکہ یہ مخلوق کا نہیں بلکہ خالق کا کلام ہے اور خالق صرف ایک ہی ہے جو اللہ ہے۔
{قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّـاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا(۸۸) } (بنی اسرائیل)
’’کہہ دو اگر تمام انسان اور جنّات جمع ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا لے آئیں تو وہ اس جیسا نہیں لا سکتے‘ اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار ہی کیوں نہ ہوں۔‘‘
قرآن ہی وہ خزانہ ہے جس میں علوم و معارف اور فصاحت و بلاغت کے تمام موتی پرو دیے گئے۔ آیات اور مضامین کی حسنِ ترتیب ہو ‘ الفاظ کا چناؤ ہو یا اندازِ بیاں ‘ ہر پہلو اس کے کلام اللہ ہونے کی دلیل ہے۔تاریخ ہو یا مستقبل‘ علومِ غیبیہ ہوں یا علومِ دُنیوی‘ ہر جہت کا بنیادی اصول اس میں ہے۔ یہ محض قرآن کا اعجاز ہے کہ اَن پڑھ ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ ‘ عالم ہو کہ عامی ‘ خواص ہوں یاعوام ‘ امیر ہویاغریب‘ ذہین یا کند ذہن‘ طاقتور یا کمزور ‘ شوہر یا بیوی ‘ بھائی یا بہن ‘ بیٹا یا بیٹی ‘ ماں باپ یا اولاد ‘سب اپنے حصے کی ہدایت اسی سے پاتے ہیں۔قرآن مجید قیامت تک کے تمام معاملات کے لیے رہنمائی فراہم کرنے آیا ہے:
{وَنَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْءٍ } (النحل:۸۹)
’’اور ہم نے آپؐ پر وہ عظیم کتاب نازل فرمائی ہے جو ہر چیز کا بڑا واضح بیان ہے۔ ‘‘
{مَا فَرَّطْنَا فِی الْكِتٰبِ مِنْ شَیْءٍ} (الانعام:۳۸)
’’ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔‘‘
{وَ كُلَّ شَیْءٍ فَصَّلْنٰهُ تَفْصِیْلًا(۱۲)} (بني اِسرائيل)
’’اور ہم نے (قرآن میں) ہر چیز کو پوری تفصیل سے واضح کر دیا ہے۔ ‘‘
{وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُہَآ اِلَّا ہُوَط وَیَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَۃٍ اِلَّا یَعْلَمُہَا وَلَاحَبَّۃٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۵۹)} (الانعام)
’’اور اللہ ہی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں‘ انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور وہ جانتاہے جو کچھ خشکی اور سمندر میں ہے۔ اور کوئی پتّا نہیں گرتا مگر وہ اسے جانتا ہے‘ اور نہ کوئی دانہ زمین کی تاریکیوں میں‘ اور نہ کوئی تر یا خشک چیز ہے مگر وہ ایک واضح کتاب میں ہے۔‘‘
قرآن مجید جب متقین کی صفات بیان کرتا ہے تو واضح طور پر{اَلَّذِیْنَ یؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ}(البقرۃ:۳) کی صدا لگا کر ظاہر پرستی کی نفی کردیتا ہے۔تقدیر پر کامل ایمان صرف قرآن کے قاری ہی کوحاصل ہوتا ہے جب اسے یہ سمجھ آجاتا ہے کہ{وَمَا تَشَآءُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ(۲۹)}(التکویر) ’’اور تم وہی کچھ چاہ سکتے ہو جو اللہ چاہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔‘‘ زندگی کا مطلب اور اس کی اصل حقیقت ایک آزمائش ہے۔ امیری یا غریبی‘ صحت یابیماری ‘خوشی یا غم سب کچھ ایک حکمت کے تحت ہے۔ یہ وہی جان پائے گا جو سمجھ لے گا کہ:{الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاط}(الملک:۲) ’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے؟‘‘ اور وہ شخص کبھی شکوہ نہ کرے گا جس کو یقین آجائے کہ :{وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ} (حٰمٓ السجدۃ) ’’اور آپؐ کا ربّ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔‘‘
جاہلیت ِجدیدہ کے خلاف اگر جہاد کرنا ہے توسب سے پہلی شے جو قرآن سے لینی ہوگی وہ ہے توکّل علی اللہ:{وَعَلَی اللہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۱۳)} سورۃ التغابن کی اس آیت سے پہلے بڑےحکمت آمیز انداز میں توکّل کی جزئیات بیان کی گئی ہیں۔ اللہ بصیر ہے‘ سمیع ہے‘ خبیر ہے‘ علیم بذات الصدور ہے۔ یہ جزئیات اصل میں ایمان باللہ کے مختلف مظاہر ہیں جن پر کامل ایمان کے بغیر اللہ کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی۔دیکھنے اور سننے والا تو انسان بھی ہے مگر اس کی محدودیت اُس السمیع اور البصیر کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔قرآن اپنے قاری کو یہ فہم بھی دیتا ہے کہ سماعت وبصارت اور حواس ہی عقل کا منبع ہیں۔ جب یہ محدود ہیں تو عقل کیسے لامحدود ہوسکتی ہے؟
توکّل کا دوسرا عملی مظہر اللہ تعالیٰ کے ’’ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر‘‘ ہونے پر ایمان ہے۔ اللہ ہی واحد ہستی ہے جس کے فیصلے آسمانوں اور زمین پر جاری و ساری ہیں اور اسی کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے۔ کسی کے کرنے سے کچھ نہیں ہوتا‘ صرف اللہ کے کرنے سے ہوتا ہے۔ انسان اللہ کی ذات کو ماننے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرنے کا حق رکھتا ہے۔ وہ سوال کرسکتا ہے ‘ اعتراض کرسکتا ہے لیکن جب اس کی عقل اور شعور اس بات کی گواہی دے دیں کہ یہ قرآن اُس خالق کا کلام ہے جو اللہ ہے اور وہ ایک ہے ‘ تو اب اس کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ کے فیصلوں پر اعتراض کرے ۔{اِنَّنِىْٓ اَنَا اللّٰهُ لَآ اِلٰـهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِىْ ۙ وَاَقِمِ الصَّلوٰةَ لِـذِكْرِىْ(۱۴)} (طٰہٰ) ’’بے شک میں ہی اللہ ہوں‘ میرے سوا کوئی معبود نہیں‘ سو تم میری ہی عبادت کرو اور میری یاد کی خاطر نماز قائم کیا کرو۔‘‘ یعنی جب اس ذات کو اللہ مان لیا ہے تواب اُس کی بات تو ماننی ہی ہوگی۔
قرآن انسان کے فہم و شعور کو دعوت دیتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر چیز کو دیکھے ‘ تحقیق کرے ‘یہاں تک کہ خود اپنے اندر جھانکے اور اس اعلیٰ ترین مخلوق یعنی انسان کو دیکھ کر اس کے خالق کی قدرت اور طاقت کو پہچانے۔ ایک داعی جو قرآن کے پیغام کو ان لاعلموں تک پہنچانا چاہتا ہے جو جہالت کی دلدل میں ڈوبے ہوئے ہیں ‘ اس کو قرآن کا یہ پہلو خاص طور پر اُجاگر کرنا ہوگا جس میں قرآن تفکر کی دعوت دیتا ہے۔قرآن ان نشانیوں سے بھرا پڑا ہے۔ سورۃ الانعام میں توجّہ دلائی گئی:
{اُنْظُرُوْٓا اِلٰی ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَیَنْعِہٖ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکُمْ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(۹۹)}
’’ اس کے پھل کی طرف دیکھو جب وہ پھل لائے اور اس کے پکنے کی طرف۔ بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو ایمان لاتے ہیں۔‘‘
سبحان اللہ! کیا قدرت ہے اس اللہ کی۔ ایک مردہ بیج جو زمین میں بودیا جائے جس میں نہ تنفس ہے ‘نہ کوئی metabolism اور پھر اچانک وہ زندہ ہوجاتا ہے۔ ایک کونپل نکلتی ہے جو زمین سے اوپر کی طرف بڑھتی ہے اور دوسری جڑ ہے جو زمین کی گہرائیوں کارخ کرتی ہے۔جسے باہر نظر آنا ہے اس کو خوب صورت رنگ دینے والا اور جسے اندر ہی رہنا ہے اسے بے رنگ رکھنے والا وہ خالق ہی ہے جسے دیکھا نہیں جاسکتا مگر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ پودا جب پھول لاتا ہے تو نہ جانے کہاں سے اس میں دل فریب رنگ آجاتے ہیں۔ پھر یہی پھول پھل میں بدل جاتا ہے۔ یہ پھل بدذائقہ اور سخت رہتا ہے جب تک اپنے پورے حجم کو نہ پہنچ جائے اور پھر یک دم اس میں پکنے کا عمل (ripening) ہوتا ہے جس میں اس کا چھلکا نرم اور خوشبودار ہوجاتا ہے۔ ذائقہ تو آتا ہی ہے‘ ساتھ ہی کیسے کیسے غذائی اجزاء اس میں سما جاتے ہیں ۔ انسان غور کرے کہ اگر یہ پھل پہلے دن ہی سےنرم ‘خوشبودار اور ذائقہ دار ہوتا تو پرندے اور کیڑے اس کوچٹ کرجاتے جبکہ انسان کے ہاتھ کچھ نہ آتا۔ اس مہربان خالق نے اسے محفوظ کیا تاکہ انسان کے کام آسکے۔
جب انسان قرآن میں{لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ(۴)}(التین) ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا!‘‘اور {وَصَوَّرَكُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَكُمْ}(المؤمن:۶۴) ’’اورتمہیں شکل و صورت بخشی تو تمہاری بہترین صورت گری کی۔‘‘ پڑھتا ہے تو وہ جان لیتا ہے کہ خوب صورتی کا معیار اصلاً وہ نہیں جو انسان بتاتا ہے بلکہ وہ ہے جو قرآن طے کرتا ہے۔ وہ اپنی قدر تو جان ہی لیتا ہے ‘اصلاً وہ اپنے اللہ کی قدر بھی جان لیتا ہے ‘جس نے اسے خوبصورت ترین صورت میں تخلیق فرمایا ہے۔وہ جان لیتا ہے کہ خوب صورتی اور ظاہری شکل وصورت کے انسانی معیارات محض distractions ہیں جن کا زندگی کے اصل مقصد سے کچھ لینا دینا نہیں۔اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر دو گاڑیوں میں ریس ہورہی ہو تو کوئی بے وقوف ہی یہ کہے گا کہ فلاں گاڑی چونکہ سفید رنگ کی ہے‘ لہٰذا جیت جائے گی۔ گاڑی کا جیتنا اور اپنی منزل تک پہنچنا اس کے رنگ یا شکل پر نہیں بلکہ اس کے انجن کی طاقت پر منحصر ہے۔ اسی طرح انسان کی منزل یعنی رضائے رب کو پانے کے لیے جو کچھ بھی انسان کو چاہیے وہ ربّ نے اسے عطا کیا ہوا ہے۔ رنگ اور شکل کا اصل مقصد ِزندگی سے کچھ لینا دینا نہیں۔
اسی طرح وہ رب جو عدل کا حکم دیتا ہے وہ نا انصافی کیسے کرسکتا ہے!{اِنَّ اللهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ}(النحل:۹۰)’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے عدل کا اور احسان کا‘‘۔ ایک باپ اپنے بیٹوں میں سے کسی کو روز کے جیب خرچ میں سے کچھ کمی کرکے اس کے مستقبل کے لیے محفوظ کردے تو کس طور اس باپ پر ناانصافی کا الزام لگائیں گے؟ اصل میں تو اس نے احسان کیا ہے۔ اسی طرح دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقسیم کی گئی نعمتیں اس عارضی دنیا تک ہی محدود ہیں۔ اس مہربان ربّ نے اپنے بندوں میں سے کچھ کو ان کے حصے کی نعمتوں میں سے دنیا میں زیادہ حصہ دے دیا ہے جبکہ کچھ کا زیادہ حصہ اس ابدی زندگی کے لیے روک لیا ہے ۔ آزمائش یہ بھی ہے اور آزمائش وہ بھی ہے‘ البتہ صبر اور شکر شرط ہے۔
اگر اس جاہلیت ِجدیدہ اور اس کی مغلظات کا مقابلہ کرنا ہے تو علومِ قرآنی کے حصول کے لیے وقت لگانا ہوگا۔ پھر ان علوم کو وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر پیش کرنا ہوگا ۔ اس بات پر خود بھی ایمان لانا ہوگا کہ قرآن صرف حصولِ ثواب کے لیے نازل نہیں کیا گیا بلکہ قیامت تک آنے والے تمام طاغوتی نظریات و افکار اور اغیار کی تمام تر سازشوں کا منہ توڑ جواب اسی قرآن میں موجود ہے۔ یہ قرآن ہی ہے جو منبع ایمان تھا ‘ہے اور رہے گا!
اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس جاہلیت جدیدہ کےخلاف صحیح معنوں میں جہاد بذریعہ قرآن کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025