(تذکر و تدبر) حقیقت ِعمل ِصالح - محمد رشید عمر

10 /

حقیقت ِعمل ِصالحمحمد رشید عمر

اس وقت پوری اُمّت ِمسلمہ (اِلا ماشاء اللہ) کی پستی‘ بے عملی اور لاعلمی کی سطح اس قدر گرچکی ہے کہ اگر یہ اپنے آپ کو عیسائیت‘ یہودیت‘ مشرکوں اور بے خدائوں پر پیش کریں کہ ہمیں بھی اپنے اندر شامل کر لو تو وہ ان کی یہ پیش کش بھی قبول نہ کریں‘ البتہ اپنے اسلحہ کی ہلاکت خیزی کو جانچنے کے لیے بطور تجربہ گاہ بنانے کے لیے تیار ہیں‘ سو وہ کر رہے ہیں۔ اُمّت کے حالات دیکھ کر{اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَاج }(البقرۃ:۲۵۹) ’’اللہ تعالیٰ اس کو اس کے مردہ ہونے کے بعدکیسے زندہ کرے گا؟‘‘کی کیفیت نظر آتی ہے۔
اس دور میں جس طرح محترم ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے دین کے صحیح تصوّر کو اور سیرتِ نبویﷺ کے انقلابی پہلو کو پیش کر کے احیائی فکر میں جان ڈالی ہے‘ یہ کام مزید کرنے کا ہے۔ خاص طور پر عمل صالح کیا ہے‘ اس کا صحیح تصور اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کن اعمال کو بطور اعمالِ صالحہ شمار کیا ہے؟ نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کا ان اعمال کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ انسانی خدمات کے اعمال‘ خاندانی اقدار‘ تعمیر سیرت کے لیے دی گئی ہدایات اصل اعمالِ صالحہ بجا لانے میں کیسے معاون اور ممد ثابت ہوتے ہیں؟ اس پہلو کو عوام کے سامنے کھول کر پیش کرنا اس دور کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اصل اعمالِ صالحہ کو اپنائے بغیر اللہ کے حضور پیش ہوئے تو وہاں کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس وقت خیر کے چھوٹے چھوٹے اعمال لوگوں کے لیے نشہ کی گولیاں ثابت ہو رہے ہیں اور انہی کے بدلے میں جنتوں کے وارث بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اصل اعمالِ صالحہ جن کو اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اعمال صالحہ کہا ہے‘ ان کو جاننے کے لیے سورۃ التوبہ کی ان آیات کو دیکھیے:
{یٰٓــاَیـُّــہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(۱۱۹) مَا کَانَ لِاَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ وَمَنْ حَوْلَہُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللہِ وَلَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِہِمْ عَنْ نَّفْسِہٖ ط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ لَا یُصِیْبُہُمْ ظَمَاٌ وَّلَا نَصَبٌ وَّلَا مَخْمَصَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا یَطَئُوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّ نَّیْلًا اِلَّا کُتِبَ لَہُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌ ط اِنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(۱۲۰) وَلَا یُنْفِقُوْنَ نَفَقَۃً صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً وَّلَا یَقْطَعُوْنَ وَادِیًا اِلَّا کُتِبَ لَہُمْ لِیَجْزِیَہُمُ اللہُ اَحْسَنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۲۱) }
’’اے ایمان والو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔ نہ چاہیے مدینہ والوں کو اور ان کے گرد اَعراب کو کہ پیچھے رہ جائیں رسول اللہ(ﷺ) کا ساتھ دینے میں اور نہ اپنی جان کو چاہیں زیادہ رسولؐ کی جان سے۔ یہ اس واسطے کہ جہاد کرنے والوں کو نہیں پہنچتی پیاس اور نہ محنت اور نہ بھوک اللہ کی راہ میں اور نہیں قدم رکھتے کہیں جس سے خفا ہوں کافر اور نہ چھینتے ہیں دشمن سے کوئی چیز مگر لکھا جاتا ہے ان کے لیے بدلے میں عمل صالح۔ بے شک اللہ ضائع نہیں کرتا حق نیکی کرنے والوں کا۔ نہ خرچ کرتے ہیں کوئی خرچ چھوٹا نہ بڑا اور نہ طے کرتے ہیں کوئی میدان مگر لکھ لیا جاتا ہے ان کے واسطے‘ تاکہ بدلہ دے ان کو اللہ بہتر اس کام کا جو وہ کرتے ہیں۔‘‘
آیت۱۱۹ میں دو باتوں کا حکم دیا گیا ہے: تقویٰ اختیار کرنے کا اور سچوں کا ساتھ دینے کا۔ یہ سچے لوگ اور تقویٰ اختیار کرنے والے لوگ کون ہیں؟ سورۃ البقرہ میں فرمایا:
{وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَاۗءِ وَالضَّرَّاۗءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ ۭ اُولٰۗئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا ۭ وَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۱۷۷)}
’’اور صبر کرنے والے مشکل میں‘ تکلیف میں اور دورانِ جنگ‘ یہی سچے ہیں اور یہی متقی ہیں۔‘‘
سورۃ الحجرات میں تو جان و مال سے جہادِ مسلسل کو ایمان کی دلیل تسلیم کیا گیا ہے:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۱۵)} (الحجرات)
’’مومن تو بس وہ ہیں جو ایمان لائے اللہ اور اُس کے رسول(ﷺ) پر‘ پھر شک میں نہیں پڑے اور انہوںنے جہا د کیا اللہ کی راہ میں اپنی جانوں اور مالوں سے۔ یہی لوگ ہیں جو (اپنے دعوائے ایمان میں) سچےہیں۔‘‘
اسلام دشمن قوتوں کے خلاف مال و جان سے جہاد کرنا ان کی سچائی کی دلیل ہے۔ جہاد کے دوران کیا کچھ درپیش آتا ہے‘سورۃ التوبہ کی متذکرہ بالا آیات میں واضح فرما دیا:
(۱) اللہ اور اُس کے رسولﷺ کے دین کی سربلندی کے مقابلے میں انہیں اپنی جانوں کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔
(۲) ان کے تمام اعمال جیسے سفر کی مشقت‘ بھوک‘ پیاس اور ہر چال جس سے دشمن کو نقصان پہنچتا ہے اوراس پر غلبہ حاصل کرکے مالِ غنیمت کا حصول یہ سب اللہ تعالیٰ ان کے حق میں اعمالِ صالحہ کے طور پر لکھ لیتے ہیں۔ ان مہمات میں لگا ہوا ایک ایک لمحہ ضائع نہیں جاتا۔ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے گئے اخراجات اور اسے گھیرنے کے لیے چلت پھرت سب کو بہترین عمل صالح کے طور پر ان کے اعمال نامہ میں درج کیا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ِایمان کو اس جہاد کا حکم دیا ہے‘ یہاں تک فرمایا کہ اس نے اس کام کے لیے تمہیں منتخب فرمایا۔
{وَجَاہِدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ط ہُوَ اجْتَبٰـىکُمْ } (الحج:۷۸)
’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسے جہاد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمہیں چن لیا ہے۔‘‘
اپنے پیارے نبیﷺ کو اس کا حکم دیا اور ساتھ میں اہل ایمان کو اس کا شوق دلانے کا بھی حکم دیا:
{فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ج لَا تُـکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ ج عَسَی اللہُ اَنْ یَّــکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاط } (النساء:۸۴)
’’(اے نبیﷺ!) اللہ کی راہ میں جنگ کیجیے‘ آپ صرف اپنی جان کے مکلف ہیں‘ اور اہل ِایمان کو شوق دلایئے۔ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کافروں کی سختی کو ختم کر دے۔‘‘
سورۃ الانفال میں فرمایا:
{یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ ط اِنْ یَّـکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ ج وَاِنْ یَّــکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ یَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ(۶۵)}
’’اے نبی(ﷺ!) اہل ِایمان کو (اللہ کی راہ میں) جنگ کرنے کا شوق دلائیے۔ اگر تم میں صبر کرنے والے بیس ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے‘ اور اگر ایسے ڈٹ کر لڑنے والے سو ہوں گے تو وہ ایک ہزار پر غالب آجائیں گے۔‘‘
سورۃ التوبہ میں فرمایا:
{قَاتِلُوْہُمْ یُعَذِّبْہُمُ اللہُ بِاَیْدِیْکُمْ وَیُخْزِہِمْ وَیَنْصُرْکُمْ عَلَیْہِمْ وَیَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۴) وَیُذْہِبْ غَیْظَ قُلُوْبِہِمْ ط }
’’ان کے ساتھ جنگ کریں‘ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں سے انہیں عذاب دے گا‘ اور انہیں رسوا کرے گا ‘اور ان کے خلاف تمہاری مدد کرے گا‘ اور اہل ِایمان کے سینوں کو ٹھنڈک عطا فرمائے گا‘ اور ان کے دلوں کے غضب کو دُور کر دے گا۔‘‘
سورۃ التوبہ میں مزید فرمایا:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَـکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَلْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃًط وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ(۱۲۳) }
’’اے اہل ِایمان! تمہارے قریب جو کُفّار ہیں ان سے جنگ جاری رکھو‘ چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں۔ اور جان لو اللہ متقین کے ساتھ ہے۔‘‘
کفر کو اسلام کے آگے سرنگوں کرنے کے لیے یہ سارے اعمال و کیفیات اللہ کو راضی کرنے والی ہیں جن کا اجر بطور اعمال صالحہ لکھ لیا جاتا ہے۔ اس کام کے لیے دو چیزوں کی ضرورت ہے:
(i) اسلحہ اور جنگی صلاحیت میں برتری
(ii) آپس میں رحیم و شفیق اور دشمن کے مقابلہ میں فولاد کی دیوار
پہلا تقاضا ہے جنگی صلاحیت میں اضافہ۔ فرمایا:
{وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ ج لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ ج اَللہُ یَعْلَمُہُمْ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْ ئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ(۶۰)} (الانفال)
’’پوری استطاعت کے مطابق قوت اور پلے ہوئے گھوڑے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رکھو تاکہ اس کے ذریعے تم اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو ڈرا سکو اور سامنے کے دشمنوں کے علاوہ ان کو بھی جن کو تم نہیں جانتے ‘اللہ ان کو جانتا ہے۔ اور اللہ کی راہ میں جو تم خرچ کرو گے اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تمہارا حق مارا نہیں جائے گا۔‘‘
نبی کریمﷺ کے مندرجہ ذیل فرمودات ملاحظہ فرمائیے۔ان تینوں حدیثوں کے راوی حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور یہ مشکاۃ المصابیح ‘ کتاب الجہاد میں موجود ہیں۔
(۱) حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیںکہ مَیں نے رسولِ کریمﷺ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا :
وَاَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ (الأنفال:۶۰) أَلَا اِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ، أَلَا اِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ، أَلَا اِنَّ الْقُوَّۃَ الرَّمْیُ(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ‘ح۴۹۴۶)
’’ تم کافروں سے جنگ کے لیے اپنی طاقت و قوت کی جو بھی چیز تیار اور فراہم کر سکتے ہو کرو۔ یاد رکھو تیر اندازی قوت ہے‘ یاد رکھو تیراندازی قوت ہے۔‘‘
آج کے دور میں تمام قسم کی فائر پاور اس ذیل میں آجائے گی۔ بندوق کی گولی سے ایٹم بم‘ لیزر اور تمام اقسام کی شعاعوں کا ممکنہ استعمال ‘روبوٹک جنگی صلاحیت سب اس میں شمار ہوگا۔
(۲) ((مَنْ عَلِمَ الرَّمْیَ‘ ثُمَّ تَرَکَہُ فَلَیْسَ مِنَّا، أَوْ قَدْ عَصٰی)) (صحیح مسلم،کتاب الامارۃ‘ح۴۹۴۹)
’’جس نے تیر اندازی سیکھی اور پھر اس کو چھوڑ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ یا فرمایا: ’’ اُس نے نافرمانی کی۔‘‘
(۳) ((اِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُدْخِلُ بِالسَّہْمِ الْوَاحِدِ ثَلَاثَۃَ نَفَرٍ الْجَنَّۃَ: صَانِعَہُ یَحْتَسِبُ فِی صَنْعَتِہِ الْخَیْرَ، وَالرَّامِیَ بِہٖ، وَ مُنَبِّلَہُ))(سنن النسائی‘ کتاب الخیل‘ح۳۶۰۸)
’’ اللہ تعالیٰ (کُفّار پر چلانے والے) ایک تیر کے بدلے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتا ہے: ایک تو اس تیر کو بنانے والے کو جبکہ وہ اپنے روزگار کے ساتھ ثواب کی امید رکھے (یعنی جب وہ تیر بنائے تو اپنے روزگار کے ساتھ نیت بھی رکھے کہ میں یہ تیر جہاد میں کام آنے کے لیے تیار کر رہا ہوں)‘ دوسرے جہاد میں تیر چلانے والے کو اور تیسرے تیر دینے والے کو۔‘‘
نبی کریمﷺ کے زمانے میں اسلحہ میں تیر‘ تلوار اور نیزہ وغیرہ استعمال ہوتا تھا جس کے بنانے‘ چلانے اور چلانا سیکھنے والوں کو آپﷺ نے جنت کی بشارت عطا فرمائی۔ کُفّار کے ساتھ جنگ ایک مستقل ذمہ داری تھی‘ جس کے لیے اسلحہ کی بھی ہمہ وقت ضرورت تھی۔ اسلحہ سازی میں وقت کے ساتھ جدت پیدا ہوگئی۔ مسلمان اس ذمہ داری سے غافل ہوئے تو اسلحہ سازی کی اہمیت بھی وہ نہ رہی جو ہونی چاہیے تھی۔ یہاں تک کہ کافر قوتیں اس فن میں اتنی آگے بڑھ گئیں کہ ان کا مقابلہ کرنا ہی مشکل ہوگیا۔ اسلحہ سازی کی اہمیت اور جدید فنونِ حرب کی ضرورت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتاہے کہ فرض کریں کہ آج کے کُفّار (یہود و نصاریٰ اور مشرکین) کے پاس جتنا جنگی ساز و سامان ہے‘ اگر یہ کُفّار نبی کریمﷺ کے زمانے میں ہوتے تو ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انسانی سطح پر آپﷺ کیا منصوبہ بندی کرتے۔ کفر سے مقابلہ کرنا اعمال کا وہ سلسلہ ہے جو اللہ کی رضا اور جنتوں میں دخول کا سیدھا راستہ ہے۔ اس کے ذریعے ایک کمتر درجے کا مسلمان بھی آخرت میں اعلیٰ مقام حاصل کر سکتا ہے۔ اہل ِدین ریاضتوں اور باطنی صفائیوں کے کاموں میں گم ہوگئے۔ حکمران اس ذمہ داری سے غافل ہو کر عیاشیوں میں پڑ کر کاہلی اور کم کوشیوں کا شکار ہوگئے۔
تیرہ سال قبل راقم نے’’ مسلمانوں کی تاریخی غلطیاں‘‘ کے نام سے ایک مضمون رقم کیا تھا‘ جس میں عرض کیا گیا تھا کہ اگر مسلمانوں نے جدید اسلحہ سازی اور ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل نہ کی تو جنگ کی صورت میں مسلمانوں کا یک طرفہ ذبح عظیم ہوگا۔ وہ صورت حال اس وقت بالکل عیاں ہے۔ اس مضمون کو دوبارہ یہاں ذکر کر رہا ہوں۔
(۱) سائنسی علوم کے حصول اور اس میں ترقی کے بارے میں اہل دین کی یکسر خاموشی اور عدم توجہ ہے‘ جس کی وجہ سے شیطانی ٹولے کو بے پناہ قوتِ حرب و ضرب حاصل ہوئی۔ جدید ترین اسلحہ کا مقابلہ آج اُمّت ِمسلمہ کے بس کی بات نظر نہیں آتا۔ گائیڈڈ میزائل جیسے ہتھیاروں سے اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کو تباہ کرتا ہے‘ جیسے سورۃ الذاریات میں فرمایا:
{قَالُوْٓا اِنَّآ اُرْسِلْنَآ اِلٰی قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَ (۳۲) لِنُرْسِلَ عَلَیْہِمْ حِجَارَۃً مِّنْ طِیْنٍ(۳۳) مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَ(۳۴) }
’’ہم مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں‘ تاکہ ان پر ایسے پتھر برسائیں جو مٹی سے تیار کیے گئے ہیں‘ اور ہر پتھر زیادتی کرنے والوں (کو ہلاک کرنے) کے لیے تیرے رب کی طرف سے نشان زدہ کر دیا گیا ہے۔‘‘
یعنی ہر پتھر کو باری تعالیٰ کی طرف سے پروگرام دیا جاتا تھا کہ اس نے کس دشمن ِخدا کو ٹھکانے لگانا ہے۔ آج یہ صلاحیت شیطانی ٹولے نے حاصل کر لی ہے۔
(۲) بے پناہ قوتِ ابلاغ شیطانی ٹولے کو حاصل ہےجبکہ دین کی تبلیغ کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسولﷺ کو دیا۔ آپﷺ نے ہر فردِ اُمت کی ذمہ داری لگا دی کہ : ((بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً)) ’’پہنچائو میری جانب سے خواہ ایک ہی آیت ہو۔‘‘
آج شیطانی ٹولے کو اپنے نظریات اور پیغام پہنچانے کی جو صلاحیت حاصل ہے‘ افرادِ اُمّت ِمسلمہ اس کے سامنے عاجز ہیں۔ سمارٹ فون اور اینڈرائڈ( جنہیں راقم لتر اور تھپڑ کہتا ہے) ہر چھوٹے بڑے‘ امیر غریب‘ عالم جاہل کی جیبوں میں ڈال دیے گئے ہیں اور ہم وہ کچھ دیکھنے کے لیے مجبور ہیں جو ہمیں دیکھنا حرام ہے اور وہ کچھ سننے پر مجبور ہیں جو ہمارے لیے ناجائز ہے ۔ اس صورت میں ان کا استعمال ایسے ہی ہے جیسے ہمارے منہ پر تھپڑ مارے جا رہے ہیں۔
(۳) تحقیق و ایجاد کے ذریعے شیطانی ٹولا بے تحاشا معاشی فوائد حاصل کر رہا ہے۔ طاقت کے زور پر دنیاکے وسائل لوٹ کر اور اپنی ایجادات کو دنیا میں فروخت کر کے وہ جو بےانتہا معاشی فوائد حاصل کر رہے ہیں‘ اس سے انہوں نے اپنے معاشروں کو بہترین‘ فلاحی‘ مادر پدر آزاد‘ شیطانی جبکہ اپنے ملکوں کو بہترین شیطانی جنتیں بنا دیا ہے‘ جہاں ہر کسی کو آزادی اور عزتِ نفس کا ماحول میسر ہے۔ آپ کسی کی بہن یا بیٹی کی عزت خاک میں ملائیں یا مرد ہوتے ہوئے اپنی عزت کسی دوسرے مرد کی شہوتِ نفس کے ہاتھوں پامال کروائیں‘ کوئی قانون رکاوٹ نہیں بنے گا اور نہ کسی ملامت کا خوف ہوگا۔ اُمّت ِمسلمہ کے کم ہی افراد ہوں گے جن کے دل میں وہاں کے نظاروں سے لطف حاصل کرنے کی اُمنگ اور تڑپ نہ ہو۔ ان کی اس ترقی کے آگے ہمارے حکمران سجدہ ریز نظر آتے ہیں۔
اس عاجز کر دینے والی برتری نے ہمیں ذلت آمیز مصالحت پر مجبور کیا ہوا ہے‘ جس کا مظہر یہ ہے کہ ہمارے دانشور اُن کے غلیظ فلسفوں کی جگالی کرتے نظر آتے ہیں۔ گویا خود نادانستہ ان کی نشر و اشاعت میں لگے رہتے ہیں۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ان کی جدید ایجادات کو خرید کر معاشرے میں اپنے آپ کو اعلیٰ محض اس وجہ سے سمجھتا ہے کہ ان جدید تعیشاتِ زندگی تک اس کو دسترس حاصل ہے۔ اتنی شرم و غیرت نہیں کہ یہ اشیاء کیا اُس نے خود یا اس کے ابنائے ملت نے تیار کی ہیں یا کسی اور نے اس کی جیب کاٹ کر اس کو مہیا کی ہیں۔ ساتھ ہی اس کے دماغ میں تکبر کا خناس بھی بھر دیا گیا ہے۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ ایک اخباری خبر کے مطابق اہل پاکستان نے تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ سہولت سے مستفید ہونے کے لیے ایک سال میں اڑسٹھ ارب روپے خرچ کیے ہیں۔ عوام الناس ان کے عمل کے ثمرات یعنی مکینکل اور الیکٹریکل ایجادات کھول کر جوڑنے کی اکیڈمیاں قائم کرتے رہتے ہیں اور بقیہ ان میں کورسز کر کے روزی کمانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔
حل
قرآن و حدیث کی نصوص کی بنیاد پر یہ روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ دین کی سربلندی کی خاطر اس کے دشمنوں کے ساتھ جہاد کے لیے اسلحہ کی برتری کا حصول اور ایک عادلانہ رحمانی فلاحی معاشرہ قائم کرنا دین کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ تحقیق و ایجاد کی باگ ڈور اُمّت ِمسلمہ اپنے ہاتھ میں لے۔ اس کام کی اہمیت کی طرف ہمیں مولانا مودودیؒ نے اپنی کتاب’’تجدید و احیائے دین‘‘ میں متوجہ کیا۔’’اسبابِ ناکامی‘‘ کے عنوان کے تحت فرماتے ہیں:
’’وہاں علم و فن کے محققین‘ مکتشفین اور موجدین اس کثرت سے پیدا ہوئے کہ انہوں نے ایک دنیا کی دنیا بدل ڈالی۔‘‘
مناظر احسن گیلانی صاحبؒ اپنی کتاب ’’سورۃ الکہف کی تفسیر کے تناظر میں دجالی فتنے کے نمایاں خدوخال‘‘ کے صفحہ ۲۰ پر رقم طراز ہیں:
’’میرا مطلب یہ ہے کہ قوانین قدرت پر غیر معمولی اقتدار بجائے خود ایسی چیز نہیں ہے جو آدمی کو دجال بنا دے‘ بلکہ قرآنی تعلیم کی رو سے تو قدرت کے قوانین سے استفادہ نسل ِ انسانی کے مقامِ خلافت کا عام اقتضا ہے۔ آدم کو اسماء کا جو علم بخشا گیا تھا‘ اسی اجمال کی یہ تفسیر ہے۔‘‘
’’تفسیر عثمانی‘‘ میں سورۃ الانبیاء کی آیت ۸۲ پر بڑا معنی خیز تبصرہ موجود ہے:
’’ معلوم ہوتا ہے جس قسم کے حیرت انگیز کام اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے مادی قوتوں سے کرائے ہیں‘ اس وقت مخفی اور روحی قوتوں سے کرائے جاتے تھے۔‘‘ (حاشیہ۳)
علامہ اقبال مرحوم نے ان علوم کے حصول پر کتنا زور دیا ہے‘ ملاحظہ فرمائیں:
(۱) مولانا گرامی کی خدمت میں لکھتے ہیں:
’’مندرجہ ذیل اشعار کو تنقیدی نگاہ سے دیکھئے۔ مضمون یہ ہے کہ دنیا کی قوتوں کو سمجھنا اور ان کو قابو میں لانا چاہیے۔ ؎
عالم ایجاد لوحِ سادہ نیست
ایں کہن ساز از نوا افتادہ نیست
برق آہنگ است ہشیارش زنند
خویش را چوں زخمہ بر تارش زنند!
’’یہ عالم ایجاد سادہ تختی نہیں ہے۔ پرانا ساز نغموں سے خالی نہیں ہوا‘ برق آہنگ ہے‘ اس لیے اسے ہشیاری سے بجاتے ہیں۔خود کو مضراب کی طرح اس کے تاروں پر مارتے ہیں۔‘‘ (مکاتیب اقبال‘ ج۱‘ص ۵۸۵‘ مولانا گرامی کے نام خط)
(۲) خواجہ غلام السیدین کے نام پورا خط ہی اس موضوع پر ہے۔ لکھتے ہیں:
’’علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا دارو مدار حواس پر ہے۔ عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے ایک طبعی قوت ہاتھ میں آتی ہے‘ جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہیے۔ اگر دین کے ماتحت نہ رہے تو شیطانیت ہے۔ یہ علم حق کی ابتدا ہے‘ جیسے میں نے’’ جاوید نامہ‘‘ میں لکھا ہے: ؎
علم حق اوّل حواس آخر حضور
آخر او می نگنجد در شعور!
وہ علم جو شعور میں نہیں سما سکتا جو علم حق کی آخری منزل ہے‘ اس کا دوسرا نام عشق ہے۔
علم و عشق کے تعلق میں’’ جاوید نامہ‘‘ میں کئی اشعار ہیں۔ ؎
علم بے عشق است از طاغوطیاں
علم با عشق است از لاہوتیاں!
مسلمان کے لیے لازم ہے کہ علم کو(یعنی اس علم کو جس کا مدار حواس پر ہے اور جس سے بے پناہ قوت پیدا ہوتی ہے) مسلمان کرے۔ بولہب را حیدر ِکرار کن! اگر یہ بولہب حیدرِ کرار بن جائے‘ یا یوں کہیے کہ اس کی قوت دین کے تابع ہوجائے تو نوعِ انسانی کے لیے سراسر رحمت ہے۔‘‘ (مکاتیب اقبال‘ ج۴‘ ص ۳۲۴)
(۳) چودھری حسین کے نام خط میں لکھتے ہیں:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن تجربے اور مشاہدہ کی طرف بار بار اپیل کرتا ہے اور نظام عالم کی قوائے تسخیر پر مومن کو آمادہ کرتا ہے۔‘‘ (مکاتیب اقبال‘ ج۴‘ ص ۱۰۲۲)
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں معلوم نہیں کتنی بار جہانِ نو کی تعمیر کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اسی روز و شب میں اُلجھ کر رہ جانے کی بجائے نئے صبح و شام‘ نئے زمان و مکاں پیدا کرنے کی تلقین کی ہے۔ ان کے اشعار پر سر دھننے والے ان کے پیغام عمل کو جو بے تحاشا محنت کا متقاضی ہے‘ جس سے جنت ابدی وجود میں آتی ہے‘ نظر انداز کر رہے ہیں۔ ؎
گفتند جہانِ ما آیا بتو می سازد
گفتم کہ نمی سازد ‘ گفتند کہ برہم زن!
یعنی نئے سرے سے توحید اور سنت پر مبنی نظام پر چلنے والے جہان کی تعمیر کرو۔
غلبہ دین کے لیے جہاد فی سبیل اللہ میں برابر کی قوت کے حصول کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لینا اُمّت ِمسلمہ کا فریضہ ہے۔ اس کے لیے علماء دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے حصول کی اہمیت مسلمانوں کے سوادِ اعظم کے سامنے رکھیں۔ حکمت لقمان کی روشنی میں دانش مسلم کو بروئے کار لانے کی ترغیب دیں۔ٹیکنالوجی میں ترقی بلکہ یورپ سے آگے نکل جانے کے لیے تسخیر ِمادہ کی اہمیت اُجاگر کریں۔اس میدان میں محنت کرنے والوں کو اعلیٰ اجر و ثواب کی بشارتیں دیں۔علوم ِعقیلہ کی حوصلہ افزائی اس قدر کریں کہ دنیاوی تعلیم کے معلّمین اور متعلّمین کے دل ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے غیرت سے بھر دیں اور اس میدان میں مسلم سوادِ اعظم کو نظریے کی بنیاد پر عالم ِکفر سے برسر پیکار کر دیں۔ اس تصادم سے دینی تعلیم اور تزکیہ کی اہمیت اُبھر کر سامنے آئے گی اور اللہ اور رسول ﷺ کی پیروی باعث ِعزت و افتخار بن جائے گی۔ آج مدرسہ اور سکول میں جو مغایرت ہے وہ بھی ختم ہوجائے گی اور یہ بات واضح ہوجائے گی کہ علمائے دین نے نماز‘ روزہ اور قرآن و سنت کو محض اپنی ڈھال نہیں بنایا ۔ انہیں ملت ِاسلامیہ کی حربی قوت‘ معاشی برتری اور عادلانہ فلاحی رحمانی معاشرے کے قیام کی جدّوجُہد کا انشراح حاصل ہے۔ وہ ایک واضح ہدایت نامہ بھی قوم کے سامنے رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ جو قرآن و سُنّت پر عمل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
مزید برآں:
(۱ ) ہم اپنے سائنس دانوں اور تحقیق کاروں کو اسلامی اخلاقیات کے زیور سے آراستہ کریں۔
(۲) تحقیق و ایجاد میں یہود و نصاریٰ کو شکست دینے کے لیے ہماری رہنمائی کے لیے دنیا کی بہترین کتاب (قرآن مجید) موجود ہے مگر علم کے حوالے سے ہم ساری دنیا سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ آج تمام ایجادات اور دریافتیں مسلمانوں کی بجائے دوسری قومیں کر رہی ہیں۔ ہماری کتاب کی ایک ایک آیت کے ترجمہ و تفسیر پر متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ان کی تحقیق اور ریسرچ کے ذریعے نہ صرف دنیا بلکہ پوری کائنات میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
(۳) تحقیق و ایجاد کی دوڑ میں برتری حاصل کرنے کا کام انتہائی کٹھن اور محنت طلب ہے۔ اس راہ میں اُمّت ِمسلمہ کے لیے اتنی ہی مشکلات ہیں جتنا دین کو بالفعل دنیا پر غالب کرنے کی جدّوجُہد میں درپیش ہیں۔ چنانچہ اس کے لیے:
(i) ہمارے سائنس دانوں اور تحقیق کاروں کو اب تک کی ترقی کو سیڑھی کے طور پر اسی طرح استعمال کرنا چاہیے جیسے ان اقوام کے زیرک افراد نے مسلمانوں کی ترقی کو بطور سیڑھی استعمال کیا تھا۔
(ii) اپنے منصوبوں کو صیغۂ راز میں رکھا جائے۔
(iii) مالی ضرورتوں کے لیے مسلمانوں کے جذبہ انفاق کو استعمال کر کے ایک بڑا ترقیاتی بیت المال قائم کیا جائے ۔ تحقیقی کارکنوں کو اسلام کے دائرئہ اخلاق میں رہتے ہوئے زندگی کی سہولتیں اعلیٰ معیار پر فراہم کی جائیں۔
دوسرا تقاضا یہ ہے کہ کفر سے نبرد آزما مجاہدین کے پیچھے پوری اُمّت ایک وحدت کی شکل میں کھڑی ہو۔ باہم رحیم و شفیق اور دشمن کے خلاف انتہائی سخت۔ اللہ تعالیٰ کا یہی منشا ہے جس کو باری تعالیٰ نے سورۃ الفتح میں فرمایا:
{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرٰىہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّـبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللہِ وَرِضْوَانًاز سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِط ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰىۃِج وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ قف کَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْئَـہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَط وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا(۲۹) } (الفتح)
’’محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں‘ اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت‘ آپس میں نرم دل ہیں۔ تم انہیں رکوع کرتے ہوئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھو گے‘ اللہ کا فضل و رضا چاہتے ہیں۔ ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدوں کے نشان سے ہے۔ یہ ان کی صفت تورات میں (مذکور) ہے ‘اور ان کی صفت انجیل میں (مذکور) ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی باریک سی کونپل نکالی ‘پھر اسے طاقت دی‘ پھر وہ موٹی ہوگئی ‘پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی‘ کسانوں کو اچھی لگتی ہے (اللہ نے مسلمانوں کی یہ شان اس لیے بڑھائی) تاکہ ان سے کافروں کے دل جلائے۔ اللہ نے ان میں سے ایمان والوں اور اعمالِ صالحہ کرنے والوں سے بخشش اور بڑے ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
سورۃ المائدۃمیں تو یہ بات اس وعید کے ساتھ فرمائی کہ اگر تم یہ اوصاف نہیں اپنائو گے تو اللہ تعالیٰ کسی اور قوم سے یہ کام لے لے گا:
{یٰٓاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْـکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ ز یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ط ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُــؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۵۴)}
’’اے ایمان والو! جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو عنقریب اللہ ایسی قوم کو لائے گا کہ جن سے اللہ محبت رکھتا ہےاور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘ مسلمانوں پر نرم دل ہوں گے اور کافروں پر زبردست‘ اللہ کی راہ میں لڑیں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دیتا ہے‘ اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے۔‘‘
چنانچہ دین اسلام کے عقائد و نظریات‘ نظامِ عبادت اور نظامِ اخلاق و معاملات کے مقاصد میں جہاں اولین مقصد اللہ کی رضا‘ انسانیت کا روحانی ترفع یعنی انسان کے اندر ملکوتی صفات پیدا کرنا ہے وہاں یہ سب کچھ تمام اُمت میں وحدت‘ مروت اور شفقت پیدا کرنے کا ذریعہ بھی ہے اور ان کو بطورپیکج اختیار کرنے کا حکم ہے۔ ان میں سے کسی ایک میں بھی اپنی طرف سے کمی یا زیادتی سخت سزا اور عذاب کا مستحق بنا دیتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے ہدایات جن کا اتباع امت کو مقام بلند پر قائم رکھ سکتا ہے اس کو ہم اجتماعی عمل بنانے سے غافل ہو چکے ہیں۔ اسلام کی تعلیمات کسی بھی خطے میں اجتماعیت پر نافذ نہیں ہیں۔ رنگ و نسل ‘زبانوں کا اختلاف ‘مختلف علاقوں میں ان کی موجودگی جو اللہ کی نشانیوں میں سے اور صرف پہچان کا ذریعہ تھی انہی کی بنیاد پر آج اُمّت ۵۸ قطعات میں بٹ چکی ہے اور اس فرمان کی تصویر بنی ہوئی ہے:
{وَقَطَّعْنٰـہُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًاج مِنْہُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَمِنْہُمْ دُوْنَ ذٰلِکَ ز وَبَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(۱۶۸)} (الاعراف)
’’اور متفرق کر دیا ہم نے ان کو زمین میں فرقے فرقے‘ ان میں سے کچھ نیک تھے اور کچھ اس کے علاوہ تھے ۔اور ہم نے اچھے حالات اور برے حالات کے ساتھ ان کی آزمائش کی کہ شاید وہ باز آجائیں۔‘‘
آج مصریوں کو سوڈانیوں سے کوئی غرض نہیں‘ سعودیوں ‘ اُردنیوں‘ اہل ِامارات کو فلسطینیوں سے کوئی غرض نہیں‘ پاکستانیوں کو افغانیوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ پوری اُمت کا یہی حال ہے۔ الگ الگ ہو کر دشمن کے لیے تر نوالہ بنے ہوئے ہیں بلکہ ذلت آمیز طریقے سے ان کے ساتھ مصالحت کرنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ ایک ملک کے باشندے قومیّتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں۔ عبادات سے متعلق اختلافِ رائے نے لوگوں کو فرقوں میں بانٹا ہوا ہے۔ زبوں حالی کی کیفیت اپنی انتہا کو چھو رہی ہے۔ یہودی بنوقریظہ کے قتل کا بدلہ فلسطینیوں سے مسلسل لے رہے ہیں۔ پوری اُمت کے اندر سکت نہیں کہ بھوکے پیاسے فلسطینی کو ایک گلاس پانی یا دو لقمے خوراک کے اپنی مرضی سے فراہم کر سکے۔ حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ مسلمان ملکوں میں سے کسی بھی ملک کے ساتھ وہ ایسا سلوک کرنا شروع کر دیں تو وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔ جس نظام کی بنیاد احتساب پر تھی اس کے ماننے والوں کی معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی حالت کسی قاعدے کلیے کی پابند نہیں رہی۔ معصیت اور سرکشی کے ذرائع آسان اور وافر مقدار میں ہر فرد کو میسر ہیں۔ حکمران طبقات ان اُمور کی قیادت کر رہے ہیں۔ اصلاح کی ڈور کا سرا ہاتھ آئے تو کیسے آئے!حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا:
’’ انسانی زندگی میں بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ پکڑلے اور جب کسی کی خوف زدہ آواز یا کسی کے فریاد کرنے کی آواز سنے تو عجلت کے ساتھ گھوڑے کی پشت پر سوار ہوجائے اور اس خوف زدہ آواز کی طرف دوڑتا ہوا چلا جائے اور اپنی موت یا اس جگہ کو تلاش کرتا پھرے جہاں موت کا گمان ہو (یعنی جب وہ کسی خوف زدہ کی چیخ و پکار یا فریاداور مدد چاہنے والے کی آواز سنے تو عجلت کے ساتھ چل پڑے اور اس آواز کو تلاش کرتا پھرے تاکہ موقع پر پہنچ کر فریاد کرنے والے کی مدد کرے ‘اور اس بات سے نہ ڈرے کہ کہیں میری جان پر نہ بن جائے اور مجھے اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھونے پڑجائیں) یا بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو کچھ بکریوں کے ساتھ ان پہاڑوں میں سے کسی پہاڑ کی چوٹی پر یا ان وادیوں میں سے کسی وادی میں پناہ گزیں ہے‘ نماز پڑھتا ہے‘ زکوٰۃ دیتا ہے اور پروردگار کی عبادت میں مشغول رہتاہے یہاں تک کہ اس کو موت آجائے۔ یہ شخص انسانوں کا شریک نہیں بلکہ صرف بھلائی کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم ’ بحوالہ مشکوٰۃ)
حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص دنیا والوں سے الگ تھلگ رہ کر ان کی برائیوں اور ان کے فتنہ و شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے اور اپنے فتنہ و شر سے دنیا والوں کو بچاتا ہے۔ اس حدیث کا حاصل دراصل دشمنانِ اسلام کے مقابلہ پر جہاد کے لیے اپنے نفس و شیطان سے مجاہدہ اور دنیا کی فانی لذتوں اور نفس کی باطل خواہشات و شہوات سے اجتناب کی طرف راغب کرتا ہے۔ نیز اس بات کی آگاہی دیتا ہے کہ اگر دین کی تائید اور شریعت کی تقویت کے لیے لوگوں کے درمیان رہن سہن اختیار کرے تو بہتر ہے‘ ورنہ گوشۂ عافیت اختیار کرے۔ (یہ تشریح مشکوٰۃ سے ماخوذ ہے)
دنیا سے الگ تھلگ رہ کر نماز ‘روزے کا اس درجہ کا پابند رہنا کہ انسان جنت کا مستحق بن جائے‘ اتنا ہی مشکل ہے جتنا جہاد فی سبیل اللہ میں دین کی سربلندی کے لیے تن من دھن لگا دینا۔ البتہ خلوص نیت سے جہاد فی سبیل اللہ دین کی‘ فرد کی‘ اُمّت کی سرفرازی اور سربلندی کا وہ راستہ ہے جس میں محض رات کے وقت حفاظتی پہرا دینے والا جو شہید ہوجائے‘ اللہ کے نزدیک بلند درجات کا مستحق اور مرنے کے بعد بھی اپنے عمل کا اجر پانے والا بن جاتا ہے جبکہ جنگ کے دوران شہید ہونے والوں کی زندگی کا تو ہمیں شعور ہی نہیں۔ اللہ کی رضا اور جنتوں کے حصول کے سیدھے راستے کو چھوڑ کر ہم بھول بھلیوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ چنانچہ ہمیں جہاد فی سبیل اللہ کی طرف لوٹنا ہوگا۔ منصب خلافت کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ جو سورۃ النور میں کیا گیا ہے وہ انہی اعمالِ صالحہ کا مرہونِ منّت ہے۔ فرمایا گیا:
{وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ص وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِّنْ  بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًاط یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًاط وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۵۵)}
’’اللہ نے وعدہ کر لیا تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے اور انہوں نے اعمالِ صالحہ اختیار کیے کہ بلاشبہ وہ انہیں زمین میں ضرور خلافت عطا فرمائے گا جس طرح ان لوگوں کو خلافت عطا کی جو ان سے پہلے تھے۔ اور یقیناً وہ ان کے دین کو اقتدار بخشے گا جو اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے اور یقیناً ان کی خوف کی حالت کو امن میں بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے‘ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے گا تووہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘
اعمالِ صالحہ کے ثمرات سمیٹنے والوں کے لیے مزید دوچیزوں کی ضرورت ہے: (۱) تربیتی نصاب (۲) جنگی اخلاقیات کی تعلیم جس کی رہنمائی قرآن و حدیث میں دی گئی ہے۔ تربیتی نصاب سورۃ الجمعہ ‘ سورئہ آل عمران‘ سورۃ البقرۃ میں بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ الجمعہ کی تین آیات کا مضمون پیش خدمت ہے :
{ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَق  وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَـبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۲) وَّاٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِہِمْ ط وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۳) ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُـؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۴)}
’’وہی تو ہے جس نے اُمّییّن میں ایک رسول مبعوث فرمایا ان ہی میں سے‘جو اُن کو اُس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے ‘ان کاتزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور بلاشبہ اس سے پہلے تووہ کھلی گمراہی میں تھے۔ اور ان ہی میں سے اُن دوسرے لوگوں میں بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے۔ اور وہ زبردست ہے‘ کمال حکمت والا ہے۔ یہ اللہ کا فضل ہے‘ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘
جو لوگ اس تربیتی نصاب کے بغیر علوم و فنون میں آگے بڑھتے ہیں ان کے علوم و فنون کے طوماروں کی مثال ایسے ہی ہے جیسے گدھوں پر کتابیں لادی ہوں اور وہ ان سے استفادہ نہیں کرسکتے‘ وہ گدھے ہی رہتے ہیں۔ آج انسانی معاشرے اس کی مثال بنے ہوئے ہے۔ اسی تربیتی نصاب کی برکات ہیں کہ عین اس معرکۂ حق و باطل میں جہاں ایک طرف گردنیں کٹ کر گر رہی ہوں‘ سینے چیرے جا رہے ہوں یہ مردانِ خدا اعلیٰ جنگی اخلاق پر قائم ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے ان کی مدد فرماتا ہے۔ جنگی اخلاق کی ایک مثال سورۃ الانفال میں بیان فرمائی:
{یٰٓـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَاذْکُرُوا اللہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۴۵) وَاَطِیْعُوا اللہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْاط  اِنَّ اللہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۴۶)}
’’اے ایمان والو! جب تمہارا ٹکرائو کسی (دشمن) گروہ سے ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔ اللہ اور اس کے رسول(ﷺ) کی اطاعت کرو اور آپس میں تنازع کھڑا نہ کرو‘ ورنہ تم کمزور پڑجائو گے اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی۔ میدانِ جنگ میں ڈٹ کر رہو۔ یقیناًاللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
سورۃ الانفال میں ایک جگہ پھر فرمایا:
{اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ(۱۲) }
’’جب آپ کا ربّ فرشتوں کو حکم دے رہا تھا کہ بے شک میں تمہارے ساتھ ہوں‘ پس تم اہل ِایمان (کےدلوں) کو ثابت قدم رکھو۔ میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دوں گا‘ سو ان کی گردنوں پر (تلوار) مارو اور ان کے جوڑ جوڑ الگ کر دو۔‘‘