(ارکانِ اسلام) حج کے روحانی ثمرات - احمد علی محمودی

10 /

حج کے روحانی ثمراتاحمد علی محمودی

حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے ۔ یہ ایک مقدس اور عظیم عبادت ہے جو ہر صاحب ِاستطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک بار فرض ہے ۔ حج ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں مکہ مکرمہ میں ادا کیا جاتا ہے ۔ یہ محض جسمانی سفر نہیں ‘ بلکہ ایک روحانی اور قلبی تجدید کا ذریعہ بھی ہے ۔ یہ انسان کے دل و دماغ ‘ روح اور زندگی میں مکمل تبدیلی کا پیغام ہے ۔ جب ایک مسلمان احرام باندھ کر خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوتا ہے ‘ تو اُس کا دل صرف اللہ کی رضا کے لیے دھڑکنے لگتا ہے اور وہ دنیاوی تعلقات ‘ جاہ وغرور ‘ مال و دولت اور اپنی ذات کی تمام ترجیحات کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔ حج ہمیں عاجزی ‘ اتحاد ‘ قربانی اور اطاعت کا سبق دیتا ہے ۔ عرفات کا میدان انسان کو اُس کے گناہوں کا احساس دلاتا ہے اور توبہ کے آنسو بہاکر اُسے ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے ۔ منیٰ کی وادی میں شیطان کو کنکریاں مار کر ہم اپنی زندگی کے شیطانی وسوسوں کو ردّ کرنے کا عہد کرتے ہیں۔یہ سفر دراصل ایک نئے انسان کی پیدائش کا عمل ہے جو اللہ سے قریب تر ہو ‘ اپنے نفس کو پہچان چکا ہو ‘ اور دنیا میں امن ‘ محبت اور نیکی کا پیغام بر ہو ۔ حج کے ذریعے ایک مسلمان کی روح پاکیزگی اور قربِ الٰہی کے ایک منفرد تجربے سے گزرتی ہے ۔
تقویٰ اور صبر کی تربیت
حج ایک عظیم عبادت ہے جو نہ صرف جسمانی مشقت کا تقاضا کرتی ہے بلکہ روحانی تزکیہ اور اخلاقی تربیت کا بھی ذریعہ بنتی ہے ۔ حج کے مختلف مراحل انسان کو تقویٰ ( اللہ کا ڈر اور اطاعت) اور صبر ( برداشت اور استقامت) سکھاتے ہیں ۔ قرآن کریم میں ارشاد ِباری تعالیٰ ہے :
{ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی} (البقرہ:۱۹۷)
’’اور( حج کے سفر میں)زادِراہ ساتھ لے لیا کرو‘ پس یقیناً بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے ۔ ‘‘
حج ایک ایسا سفر ہے جو صبر ‘ ایثار اور تقویٰ کی حقیقی آزمائش ہے ۔ جب حاجی احرام باندھتا ہے تو وہ بہت سے جائزکاموں سے بھی رک جاتا ہے ۔ یہ تقویٰ کی علامت ہے کہ انسان اللہ کی رضا کے لیے اپنے نفس کی خواہشات کو قابو میں رکھے ۔ ہر حاجی’’لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ‘‘ کہہ کر اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے ‘ جو کہ تقویٰ کا کامل مظہر ہے ۔ مناسک ِحج (طواف ‘ سعی ‘ وقوفِ عرفہ ‘ رمی جماراور قربانی وغیرہ) صرف اللہ کی رضا کے لیے کیے جاتے ہیں ‘ جو انسان کو اخلاص ‘ خوفِ خدا اور پرہیزگاری کی طرف لے جاتے ہیں ۔ حج کے دوران کئی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جیسے ہجوم ‘ تھکن ‘ موسم کی شدت اور محدود سہولیات ۔ ان حالات میں حاجی کو صبر کا دامن تھامنا پڑتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا ہوتا ہے ۔ یہی صبر اور برداشت حاجی کی روح کو مضبوط بناتے ہیں اور اُسے عملی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں ۔صفا و مروہ کی سعی سے حاجی حضرت ہاجرہؑ کی قربانی کو یاد کر کے صبر و توکّل سیکھتا ہے ۔ وقوفِ عرفات میں دھوپ میں کھڑے ہو کر دعائیں مانگنا صبر و عاجزی کی بہترین مثال ہے ۔ حج انسان کو سکھاتا ہے کہ زندگی میں اللہ کی رضا کے لیے تقویٰ اور صبر کے ساتھ چلنا چاہیے ۔ یہی صفات ایک مسلمان کی کامیابی کی ضمانت ہیں ۔
اللہ کی قربت اور ایمان میں اضافہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا گیا : کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
((اِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ)) قِیْلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ((اَلْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ))‘ قِیْلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: ((حَجٌّ مَبْرُوْرٌ)) ( صحيح مسلم: ۲۴۸)
’’ اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لانا ۔‘‘کہا گیا: اس کے بعد کون سا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔‘‘ کہا گیا: پھر کیا ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا : ’’حج مبرور۔‏‘‘
حج ایک ایسا عمل ہے جو بندے کو براہِ راست اللہ کے قریب کر دیتا ہے ۔حج کے مناسک بندے کو دنیاوی خواہشات سے دور کر کے مکمل طور پر اللہ کے سامنے جھکنے کی تربیت دیتے ہیں۔ جب ایک مومن احرام باندھ کر دنیاوی وابستگیوں کو چھوڑ دیتا ہے اور لبیک کی صدا بلند کرتا ہے تو درحقیقت وہ دنیا کی ظاہری زیب و زینت کو چھوڑ کر صرف اپنے رب کی رضا کے لیے نکلتا ہے۔طوافِ کعبہ‘ عرفات میں دعا ‘ مزدلفہ میں قیام ‘ جمرات کی رمی اور قربانی یہ سب اعمال روح کو پاکیزہ اور انسان کے دل میں اللہ کی محبت کو مزید پختہ اور اس کے ایمان کو تروتازہ کردیتے ہیں ۔ خانہ کعبہ کے طواف سے صفا و مروہ کی سعی تک ‘ ہر لمحہ بندے کو اپنے رب کی یاد دلاتا ہے ۔ جب بندہ اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے اُس پر کھول دیتاہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایمان میں اضافہ محسوس ہوتا ہے ‘ دل نرم ہوتا ہے اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں ۔ حج انسان کو اس کی اصل فطرت یعنی بندگی کی طرف واپس لے آتا ہے ۔ اس سفر کے بعد انسان کا دل اللہ کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی میں ایک روحانی انقلاب آتا ہے ۔
گناہوں کی معافی اور روحانی پاکیزگی
جو بندہ خلوصِ نیت اور صحیح طریقے سے حج ادا کرتا ہے ‘ اس کے لیے یہ گناہوں کی معافی اور روحانی پاکیزگی کا بھی بہترین ذریعہ ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا :
((مَنْ حَجَّ لِلّٰهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ))(صحيح البخاري)
’’ جس نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس دوران فحش بات اور گناہ نہ کیا ‘ وہ (حج کے بعد) ایسا لوٹے گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے ابھی جنا ہو ۔ ‘‘
یعنی حج گناہوں کو ایسے دھو دیتا ہے جیسے وہ کبھی کیے ہی نہ ہوں ۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((اَلْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ))(متفق علیہ)
’’ ایک عمرہ دوسرے عمرے تک گناہوں کا کفارہ ہے ‘اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔‘‘
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ)) (صحیح مسلم:۳۲۱)
’’ بلاشبہ حج کی ادائیگی سے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں ۔ ‘‘
درج بالا احادیث اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ حج ایک ایسی عبادت ہے جو بندے کے سابقہ گناہوں کو مٹا کر اسے نئی زندگی عطا کرتی ہے ۔ انسان جب اپنی سابقہ خطاؤں سے توبہ کرتا ہے اور اللہ کے حضور اپنی اصلاح کا عہد کرتا ہے ‘ تو اُس کی روح گناہوں کے بوجھ سے آزاد ہو کر ہلکی اور پاکیزہ ہو جاتی ہے۔
فقر سے نجات
اللہ تعالیٰ حج کی برکت سے بندے کی تنگ دستی ختم کر دیتا ہے اور اُس کے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ کَمَا يَنْفِي الْکِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ)) (سنن الترمذی:۸۱۰)
’’ حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرا ادا کرو‘ اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے‘ سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے۔ اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے ۔ ‘‘
اللہ کے مہمان
’’حجاج اللہ کے مہمان ‘‘ایک نہایت خوب صورت اور بامعنی جملہ ہے جو حج پر جانے والے مسلمانوں کی عظمت اور مرتبے کو بیان کرتا ہے۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان حج کے لیے جاتے ہیں ‘ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے مہمان ہوتے ہیں‘ اور اُن کی میزبانی اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے ۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((الْغَازِي فِي سَبِيلِ اللّٰهِ وَالْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللّٰهِ، دَعَاهُمْ فَأَجَابُوهُ، وَسَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ)) ( سنن ابن ماجہ :۲۸۹۳)
’’ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ‘ حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بلایا تو انہوں نے حاضری دی ‘ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ سے مانگا تو اُس نے اُنہیں عطا کیا ۔ ‘‘
اللہ کی ضمانت
حاجی اللہ تعالیٰ کی ضمانت میں ہوتا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((ثَلاَثَةٌ فِى ضَمَانِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ: رَجُـلٌ خَـرَجَ إِلٰى مَسْـجِـدٍ مِـنْ مَسَاجِدِ اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ، وَرَجُلٌ خَرَجَ غَازِيًا فِى سَبِيلِ اللّٰهِ، وَرَجُلٌ خَرَجَ حَاجًّا)) (السلسلۃ الصحیحة للالبانی:۶۰۹)
’’ تین شخص اللہ كی ضمانت میں ہیں:وہ شخص جو اللہ كی مساجدمیں سے كسی مسجد كی طرف نكلا‘ اور وہ شخص جو اللہ كے راستے میں جہاد كے لیے نكلا اور وہ شخص جو حج كرنے كے لیے نكلا۔‘‘
سفر حج میں موت
بندہ جب سفر حج پر نکلتا ہے اور اسی سفر میں وہ فوت ہوجاتا ہے تو قیامت تک اُس کے حق میں حج کا اجر وثواب لکھا جاتا رہے گا ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا :
((مَنْ خَرَجَ حَاجًّا فَمَاتَ کَتَبَ اللّٰهُ لَهُ أَجْرَ الْحَاجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ خَرَجَ مُعْتَمِرًا فَمَاتَ کَتَبَ اللّٰهُ لَهُ أَجْرَ الْمُعْتَمِرِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ خَرَجَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللّٰهِ فَمَاتَ کَتَبَ اللّٰهُ لَهُ أَجْرَ الْغَازِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ)) (المعجم الکبیر للطبرانی: ۸۰)
’’ جو شخص حج کرنے کے ارادے سے نکلا اورفوت ہوگیا ‘ قیامت تک اُس کےلیے حج کرنے والے کا ثواب لکھا جائے گا ‘ اور جو شخص عمرہ کرنے کےلیے نکلا اور وفات پا گیا ‘ قیامت تک اُس کےلیے عمرہ کرنے کا ثواب لکھاجائےگا ‘اور جو شخص اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کےلیے نکلا اوروفات پاگیا تو قیامت تک اُس کےلیے مجاہد کا اجر و ثواب لکھا جائے گا ۔ ‘‘
وہ کتنا خوش نصيب انسان ہے کہ اگر دورانِ حج یا سفر ِحج میں وفات پاگیا تو روز ِمحشر باری تعالیٰ کے ہاں تلبیہ کہتے ہوئے حاضر ہوگا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے ایک شخص میدانِ عرفہ میں ( احرام باندھے ہوئے) کھڑا ہوا تھا کہ اچانک اپنی سواری سے گر پڑا اور سواری نے اُسے کچل دیا۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :
((اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَکَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا)) (صحیح البخاری:۱۲۶۵)
’’پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دے کر دوکپڑوں میں اسے کفن دو اور یہ بھی ہدایت فرمائی کہ اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ اس کا سر چھپاؤ ‘ کیونکہ یہ قیامت کے دن تلبیہ کہتا ہوا اٹھے گا ۔ ‘‘
حج کے بدلے جنت
اللہ عزوجل حج کے بدلے جنت عطا فرماتا ہے ۔ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ‘ وہ فرماتے ہیں :
كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ ﷺ فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ، قَالَ :((لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَسَّرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، تَعْبُدُ اللَّهَ وَلاَ تُشْرِكْ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلاَةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ ، وَتَحُجُّ البَيْتَ)) (سنن الترمذي:۲۶۱۶)
’’ مَیں ایک سفر میں اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ ایک دن میں چلتے ہوئے آپ سے قریب ہو گیا تو عرض کیا : اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے ‘ جو مجھے جنت میں لے جائے اور جہنم سے دور رکھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ تم نے ایک بہت بڑی بات پوچھی ہے اور بے شک یہ عمل اُس شخص کے لیے آسان ہے ‘ جس کے لیے اللہ آسان کر دے ۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اُس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ‘ نماز قائم کرو ‘ زکوٰۃ دو ‘ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو ۔‘‘
حج سے محروم ‘خیر سے محروم
جو لوگ صاحب ِثروت ہیں اُنہیں چاہیے کہ حج کریں‘ کیوں کہ جو حج کی بھلائیوں سے محروم ہوگیا وہ خیر سے محروم ہوگیا ‘جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے ارشادفرمایا :
((إنَّ اللَّهَ يقول: إنَّ عبدًا اصححتُ لهُ جِسْمَهُ، ووسّعتُ عليه في المعيشة، تمضي عليه خمسة اعوام لا يفد إليَّ لمحروم)) (السلسلۃ الصحيحۃ للالبانی:۱۶۶۲)
’’ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مَیں نے اپنے بندے کا جسم تندرست رکھا ‘ اُس کی معیشت میں وسعت پیدا کی ‘ لیکن اس حالت میں پانچ سال بیت گئے اور وہ میری طرف ( حج کے لیے) نہیں آیا ‘ ایسا آدمی محروم ہے ۔‘ ‘
یہ حدیث سیدنا ابوسعید اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے ۔
مساوات اور اخوت کا درس
حج کے دوران تمام حاجی ایک ہی لباس (احرام) پہنتے ہیں ‘جو کہ دو غیر سلے ہوئے سفید کپڑوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ نہ کوئی امیر ہوتا ہے ‘ نہ غریب‘ نہ بادشاہ ‘ نہ فقیر —‘ سب ایک جیسے کپڑوں میں ‘ ایک ہی جگہ ‘ایک جیسے اعمال سرانجام دیتے ہیں ۔ حج ہمیں سکھاتا ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان کی قدر و قیمت اُس کے تقویٰ سے ہے ‘ نہ کہ مال و دولت یا رنگ ونسل سے ۔ دنیا بھر سے مسلمان حج کے لیے آتے ہیں ‘ مختلف زبانیں بولنے والے ‘ مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے ‘ لیکن ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کیے ‘ ایک ہی دعا مانگتے ہیں۔ اس اجتماع میں کوئی اجنبیت نہیں ‘ سب ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔ یہ منظر عملی طور پر اُمّت ِمسلمہ میں اخوت‘ محبت اور اتحاد کا مظہرہے۔حج ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک اُمّت ہیں ‘ اور ہمارا رب ایک ہے ‘ قبلہ ایک ہے ‘اور دین ایک ہے ۔ اختلافات کو چھوڑ کر ہم اللہ کے حضور ایک ہو جاتے ہیں ۔ حج ہمیں صرف عبادات کا طریقہ ہی نہیں سکھاتا بلکہ ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے — جہاں سب برابر ہوں‘ محبت ہو ‘ اتحاد ہو ‘اور کوئی تفریق نہ ہو ۔ یہی اسلام کا اصل پیغام ہے ۔
شیطان کے خلاف جہاد کا جذبہ
جب شیطان نے حضرت ابراہیم ‘ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمٰعیل علیہم السلام کو ورغلانے کی کوشش کی ‘ تو اُنہوں نے اُس پر کنکریاں ماریں۔ آج ایک مسلمان بھی یہی عمل دہرا کر اپنے ایمان کی تازگی کا اعلان کرتا ہے۔رمی جمار ( کنکریاں مارنا) درحقیقت ایک علامتی عمل ہے جو اس عزم کی تجدید کرتا ہے کہ حاجی زندگی بھر شیطان کے وسوسوں اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے گا ۔ یہ عمل ہمیں یاد دلاتا ہے کہ شیطان ہر دور میں ہمیں گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے ‘ اور ہم اللہ کی رضا کے لیے اُس پر کنکریاں مار کر اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہ عمل روح میں تقویٰ اور نیکی کی مضبوطی پیدا کرتا ہے اور شیطان کے خلاف مسلسل جہاد پر آمادہ کرتا ہے ۔ حج ہمیں سکھاتا ہے کہ شیطان سے نفرت صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے ہونی چاہیے ۔ ہر دن‘ ہر لمحہ ہمیں اپنے نفس اور شیطان کے خلاف جہاد کرنا ہے ‘ تاکہ ہم اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکیں ۔
دنیاوی محبتوں سے بے نیازی
حج عشق و قربانی کا وہ سفر ہے جو انسان کو دنیا کی فانی محبتوں سے نکال کر اللہ کی ابدی محبت سے جوڑ دیتا ہے ۔ جب بندہ احرام باندھتا ہے ‘ تو وہ نہ صرف ظاہری لباس اتارتا ہے بلکہ دل سے ہر دنیاوی تعلق ‘ غرور اور محبت کی چادر بھی اُتارنے کی کوشش کرتا ہے۔عرفات کی وادی میں کھڑے ہو کر جب وہ اپنے رب کے حضور ہاتھ اُٹھاتا ہے ‘ تو دنیا کی ہر محبت ماند پڑ جاتی ہے۔ وہ صرف اللہ پر بھروسا کرتا ہے اور اُس کی مدد کا طلب گار ہوتا ہے ۔ یہ تجربہ اُس کے دل میں اللہ کی محبت کو بڑھاتا ہے اور دنیاوی لذتوں اور خواہشات سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے۔ دل سے صرف ایک صدا بلند ہوتی ہے :لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک۔ یہی حج کا حقیقی پیغام ہے — ‘ دنیاوی محبتوں سے بے نیازی اور رب سے سچی وابستگی !
دعاؤں کی قبولیت اور قربِ الٰہی کا احساس
حج کے دوران خاص طور پر عرفات کے دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سننے اور قبول کرنے کا وعدہ فرماتا ہے۔ عرفات کا دن ’’ یومِ دعا ‘‘ کہلاتا ہے کیونکہ یہ وہ لمحہ ہے جب مسلمان اللہ کے حضور عاجزی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ‘ اور اُن کی دعائیں شرفِ قبولیت پاتی ہیں ۔ یہ روحانی تجربہ یہ احساس دلاتا ہے کہ اللہ اُس کے بہت قریب ہے اور وہ اُس کی دعا سن رہا ہے ۔ اس احساس سے دل اطمینان اور سکون پاتا ہے ۔
نئی زندگی کا آغاز
جب ایک مسلمان حج کے عظیم سفر سے گناہوں سے پاک ہو کرواپس آتا ہے ‘ تو اُس کے دل و دماغ میں ایک نئی روشنی ‘ ایک نئی امید ‘ اور اللہ کے قریب ہونے کا ایک نیا احساس ہوتا ہے ۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب وہ اپنی زندگی کو گناہوں سے پاک کر کے ایک نئی راہ پر ڈالنے کا عزم کرتا ہے اور یہی حج کا سب سے بڑا روحانی ثمر ہے ۔