علالت اور عیادتپروفیسر محمد یونس جنجوعہانسان پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں۔ ان میں سب سے بڑی نعمت صحت ہے۔ مرزا قربان علی بیگ سالک نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ؎
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے!تندرستی وہ نعمت ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے انسان ہر نعمت کے چھن جانے کو برداشت کر سکتا ہے‘ مگر صحت نہ ہو تو مال و دولت اور دنیا بھرکی سہولتیں اس کے لیے بے کار ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ سے ہر وقت تندرستی کی دعا ہی کرنی چاہیے۔ تندرست آدمی جہاں معاشی جدوجہد اور دوسرے ضروری کام کر سکتا ہے وہاں وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد بھی پورے کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے صحت و تندرستی طلب کرنا ایک مسنون عمل ہے جس کے ضمن میں نبی اکرم ﷺ نے کئی دعائیں سکھائی ہیں۔ مثال کے طو رپر یہ دعا:
((اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃَ، اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَدُنْیَایَ وَاَھْلِیْ وَمَالِیْ)) (سنن ابی داوٗد:۵۰۷۴)
’’اے اللہ! بے شک میں آپ سے دنیا اور آخرت میں عافیت مانگتا ہوں۔ اے اللہ ! بے شک میں آپ سے درگزر کا اورعافیت کا سوال کرتا ہوں اپنے دین میں‘اپنی دنیا میں ‘اپنے اہل خانہ میں اور اپنے مال میں۔‘‘
اس دعا میں جہاں دنیاوی زندگی میں صحت و عافیت کے لیے دعا مانگی گئی ہے وہاں آخرت میں بھی عافیت طلب کی گئی ہے‘کیونکہ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ بندہ اگلی حقیقی اور نہ ختم ہونے والی زندگی میں عافیت حاصل کر لے۔
صحت و عافیت مانگنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہی دعا سکھائی ہے جو خود شفا دینے والا ہے ۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے الفاظ وارد ہوئےہیں:{وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ(۸۰)} (الشعراء) ’’اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہی (اللہ) مجھے شفا دیتا ہے۔‘‘جو شخص کسی مرض میں مبتلا ہوتا ہے وہ ہر وقت پریشان رہتا ہے ۔ بیماری نہ صرف اس کے خیالات بلکہ معمولات کو بھی بر ی طرح متاثر کرتی ہے جس کی وجہ سے اس کی طبیعت میں اعتدال نہیں رہتا۔ لہٰذ ا اس کے پاس جانا چاہیے اور اس سے صحت کے معاملے میں پُرامید رہنے کی گفتگو کرنی چاہیے۔ اسی کو عیادت کہتے ہیں۔ رسول اللہﷺ جب کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتے تو اس کی شفا کے لیے دعا فرماتے اور کہتے :
((اَذْھِبِ الْبَأسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لَا شِفَاءَ اِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لَّا یُغَادِرُ سَقَمًا ))(متفق علیہ)
’’اے اللہ! اے لوگوں کے پروردگار! بیماری کو دور کر اور شفا عطا فرما‘ تو ہی شفا عطا فرمانے والا ہے ۔ تیری شفا کے بغیر کوئی شفا نہیں‘ ایسی شفا(عطافرما) جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے۔‘‘
رسول اللہﷺ بیمار کے پاس بیٹھتے تو اس کے ساتھ حوصلہ افزا باتیں کرتے‘ تندرستی کی امید دلاتے اور فرماتے :
((لَا بَاْسَ طَھُوْرٌ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ)) (رواہ البخاری)
’’کوئی حرج نہیں‘ اِن شاء اللہ یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے۔‘‘
اگر کوئی مریض درد کی شکایت کرتا تو آپﷺ اسے درد سے نجات کی امید دلاتے۔ حضرت ابوعبداللہ عثمان بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے اس درد کی شکایت کی جو اُن کو اپنے جسم میں محسوس ہو رہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا: ’’تمہارے جسم میں جس جگہ درد ہے وہاں اپنا ہاتھ رکھو اور تین مرتبہ بسم اللہ کہو‘ پھر سات مرتبہ یہ دعا پڑھو:
((اَعُوْذُ بِعِزَّۃِ اللّٰہِ وَقُدْرَتِہٖ مِنْ شَرِّ مَا اَجِدُ وَاُحَاذِرُ)) (رواہ مسلم)
’’میں پناہ مانگتا ہوںاللہ تعالیٰ کی عزت اور قدرت کے ذریعے سے اس چیز کے شر سے جس کو پاتا ہوں اور جس (کی کثرت) سے ڈرتا ہوں۔‘‘
رسول اللہﷺ خود مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے ۔ تسلی اور اُمید کی خوش کن باتیں کر کے مریض کو اطمینان دلاتے۔ رسول اللہﷺ کی زبان سے دعائیہ کلمات اور پُرامید باتیں سن کر مریض راحت محسوس کرتا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے میری عیادت کی‘ پھر آپؐ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما ۔اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما ۔اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما۔ ‘‘ (رواہ مسلم)
مریض کی عیادت کرنا بڑی فضیلت کا باعث ہے۔ اس سے نہ صرف مریض تسلی پاتا ہے بلکہ عیادت کرنے والا بھی بڑااجر پاتا ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے جو کسی مسلمان کی صبح کو عیادت کرتا ہے مگر یہ کہ شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے رحمت اور مغفرت کی دعا کرتے ہیں‘ اور اگر شام کو عیادت کرتا ہے تو صبح ہونے تک ستر ہزار فرشتے اُس کے لیے دعا کرتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں ایک پھلوں کا باغ مقرر کر دیاجاتا ہے۔ ‘‘(ترمذی)
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا : ’’ایک مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہ برابر جنت کے خرفہ میں رہتا ہے جب تک کہ واپس نہ آئے۔‘‘ دریافت کیا گیا : یارسول اللہﷺ! خرفہ جنت کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:’’جنت کے پھل۔‘‘ (رواہ مسلم)
جہاں آپﷺ نے نیکی کے دوسرے کام بتائے وہاں عیادت کا بھی ذکرفرمایا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:((عُودُوا الْمَرِیضَ ، وَاَطْعِمُوا لْجَائِعَ ، وَفَـکُّو الْعَانِیَ))(صحیح البخاری) ’’مریض کی عیادت کرو ‘ بھوکوں کوکھانا کھلائو اور قیدیوں کو رہائی دلائو۔‘‘
رسول اللہﷺ نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان بھائی کے پانچ حقوق بیان فرمائے ۔ ان میں ایک حق مریض کی عیادت کرنا بھی ہے۔ (متفق علیہ)
عیادت ہر مریض کاحق ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم بھی بیمار ہے تو اس کی بیمارپرسی کرنا سُنّت ہے۔آپﷺ نے منافقوں اور یہودیوں کی بھی بیمار پرسی فرمائی۔ ان کو صحت کی امید دلائی اور حق کو اپنانے کی تلقین کی۔
جس طرح زندگی میں خوشی کے ساتھ غم بھی ہوتے ہیں اسی طرح صحت کے ساتھ بیماری بھی ہے۔ بیماری میں انسان معمول کے کام کاج نہیں کر سکتا بلکہ تکلیف میں ہوتا ہے۔ جو شخص بیمار ہو ‘ وہ اس میں صبر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ سے شفا کی دعا کرتا رہے تو اس کے صبر کے نتیجے میں اسے اجرعظیم عطا کیا جاتا ہے اور اس کے گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’کسی مردِ مؤمن کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے مرض سے یا اس کے علاوہ تواللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جس طرح خزاں رسیدہ درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے۔ ‘‘(متفق علیہ) بیماری تکلیف دہ شے ہے لیکن جب اسے گناہوں کو مٹانے والی اور درجات کو بلند کرنے والی سمجھ لیا جائے تو اس کا برداشت کرنا سہل ہو جاتا ہے۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’کسی بندئہ مؤمن کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا بلند مقام طے ہو جاتا ہے جس کو وہ اپنے عمل سے نہیں پا سکتا‘ تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی جسمانی یا مالی تکلیف میں یا اولاد کی طرف سے کسی صدمہ اور پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے‘ پھر اس کو صبر کی توفیق دے دیتا ہے‘ یہاں تک کہ (ان مصائب و تکالیف اور ان پر صبر کرنے کی وجہ سے) اس بلند مقام پر پہنچا دیتا ہے جو اس کے لیے پہلے سے طے ہو چکا تھا۔‘‘ (مسند احمد‘ سنن ابی دائود)
رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن جب ان بندوں کو جو دنیا میں مبتلائے مصائب رہے‘ ان مصائب کے عوض اجر و ثواب دیا جائے گا تو وہ لوگ جو دنیا میں ہمیشہ آرام وچین سے رہے حسرت کریں گے کہ کاش دنیا میں ہماری کھالیں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں۔‘‘ (رواہ الترمذی‘ عن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
بیماری صرف دکھ اور مصیبت نہیں بلکہ اس میں رحمت کا پہلوبھی ہے۔ اس سے گناہوں کی صفائی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سعادت مند بندوں کو چاہیے کہ مصیبت اور بیماری سے سبق حاصل کریں ‘اور صحت ملنے پر اپنی اصلاح کی فکر اور کوشش کریں۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مرد مؤمن کو جو بھی دکھ‘ جو بھی بیماری ‘ جو بھی پریشانی ‘جو بھی رنج و غم اور جو بھی اذیت پہنچتی ہے‘یہاں تک کہ کانٹا بھی اگر اس کو لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے ذریعہ اس کے گناہوں کی صفائی کر دیتا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
ہر کام کے کچھ آداب ہوتے ہیں جو اس کام کو نتیجہ خیز بنادیتے ہیں ۔ عیادت کرنے والے کوبھی یہ آداب ملحوظ رکھنے چاہئیں۔ مریض کے آرام کا خیال رکھے۔ ایسا نہ ہو کہ عیادت کے لیے آنے والے کی آمد مریض کے لیے پریشانی کا باعث بن جائے۔ مریض کو شفا کی امید دلائے اور اس بیماری کو گناہوں کی بخشش کا سبب بتائے۔ صبر کے ساتھ یہ مشکل وقت گزارنے کی تلقین کرے۔ ذِکر الٰہی میں مشغول رہنے کو کہے۔ مریض کے پاس بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتوں میں نہ لگے۔ تھوڑی دیر بیٹھے اور جلدی اُٹھ جائے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025