بسم اللہ الرحمن الرحیم
ماہِ جون …
جون کا مہینہ پاکستان کی عوام کے لیے سال کا خوف ناک ترین مہینہ ہوتا ہے جو الحمدللہ گزر چکا ہے۔بہرحال یہ مہینہ حکمرانوں اور محصولات جمع کرنے والوں کے لیے بڑے بڑے اہداف حاصل کرنےکے بعد کامیابیاں لیے آتا ہے ۔جو افسر یا اہل کار جتنا بڑا ٹارگٹ حاصل کرتا ہے‘ اُسے اُتنا ہی بڑا انعام بھی ملتا ہے۔عوام الناس کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے اداروں کے علاوہ اب عام لوگ بھی سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔اگر آپ سیل فون استعمال کرتے ہیں تو یقیناًآپ بھی اِس بات کی گواہی دیں گے کہ ہفتے میں ایک آدھ مرتبہ کسی نئے نمبر سے آپ کو موصول ہونے والی کال یا ایس ایم ایس کے ذریعے این ٹی این نمبر حاصل کرنے کی دعوت ملتی رہتی ہے۔ ایسے لوگوں اور اداروں کی محنت رائیگاں ہرگز نہیں جاتی بلکہ ہر روز ہزاروں نئے افراد ٹیکس نیٹ میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اُن کی اِس محنت کو مدنظر رکھتے ہوئے عام آدمی یہ توقع کر رہا ہوتا ہے کہ اب تو ملک کے حالات ضروربدل جائیں گے اور ملک میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی‘ مگر ایسا ہوتا نہیں ہے ۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی بجٹ پیش کرنے پرعوام کو معلوم ہوا ہےکہ ۱۷۵ کھرب سے زائد کے وفاقی بجٹ میں تنخواہوں میں۱۰ اور پنشن میں ۷ فیصداضافہ کیا گیا ہے جبکہ انکم ٹیکس میں کمی کی تجویز بھی دی گئی ہے ۔بجٹ کے کل حجم میں سے ۸۲۰۷ ارب روپے صرف اور صرف سود کی ادائیگی پر خرچ ہوں گے جبکہ سود سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ دفاعی بجٹ میں ۲۰ فیصد اضافہ کر کے اس کا حجم ۲۵۵۰ ارب روپے کر دیا گیا ہے۔ آن لائن خریداری اور سولر پینلز پر ۱۸ فیصد ٹیکس عائد کردیا گیا ہے ۔
اپوزیشن کا خیال ہے کہ بجٹ ۲۰۲۵ - ۲۶ء صرف آئی ایم ایف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں عام آدمی کے نام پر اشرافیہ کو نوازا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے سے چند دن پہلے ہی اراکین اسمبلی ‘وزراء‘اور اسپیکر وغیرہ کی تنخواہوں اور مراعات میں پانچ گنا تک اضافہ کیا گیا حالانکہ اُنہیں اِس اضافے کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔بتایا گیا ہے کہ اراکین اسمبلی پارلیمنٹ ہائوس کے کیفے ٹیریا سے کھانا کھاکر جتنا بل (ادھار یا نقد) ادا کرتے ہیں‘اُس رقم سے دس گنا زیادہ رقم عام آدمی کسی ریستوران میں کھانا کھا کر ویٹر کو ٹپ دے دیتا ہے۔اِس بات میں تو مبالغہ ہوسکتا ہے مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ عوام پر تو ٹیکسوں پر ٹیکس لاد دیے جائیں اور اُنہیں کوئی ریلیف بھی نہ دیا جائے جبکہ عوام کی نمائندگی کرنے والوں کو ہر طرح کا ریلیف بھی مل جائے ‘ اُن کی تنخواہوں اور مراعات میںپچھلی تاریخ (back date)سے اضافے بھی کردیے جائیں اور پھر پراپیگنڈا یہ کیا جائے کہ بجٹ میں عام آدمی کو بڑا ریلیف دیا گیا ہے۔
حالیہ بجٹ میں یوں تو عوام میں سے ہر کسی نے ہی بڑھ چڑھ کر اپنے خون پسینے کی کمائی سے قربانی دی ہے‘ مگر وہ خواتین جن کی بیوگی کو دس سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا ہے‘ ان کی قربانی بہت بڑی ہے کیونکہ اب وہ فیملی پینشن لینے کی حق دار نہیں رہی ہیں۔پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر کاربن لیوی عائد کرنے کا اعلان کر کے ان کی قیمتیں ایک مرتبہ پھر اُسی سطح پر آگئی ہیں جہاں کچھ ماہ پہلے چند روپے کمی کر کے مہنگائی میں کمی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا۔بجٹ میں نان فائلرز کی جس بری طرح سے حوصلہ شکنی کی گئی ہے‘ شاید ہی کسی اور معاشرے میں کی گئی ہو اور وہ اس بات پر سخت پریشان ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں لاکھوں روپے سالانہ ٹیکس ادا کرنے والوں کو بھی مکمل پروٹوکول نہیں مل رہا تو نان فائلرزکو کون اور کیوں پوچھے !
قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کے تھوڑی ہی دیر بعد سینٹ میں بجٹ پیش کیا گیاتو وہاں بھی اپوزیشن نے احتجاج کیا۔اپوزیشن ہو یا عوام‘ ان کے احتجاج کو حکمران جماعت ایک رسم سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی اور کرتی وہی ہے جس کا اُنہیں حکم ملا ہوتا ہے۔ عوام اور حزبِ اختلاف کے احتجاجوں میں اگر کچھ اثر ہوتا تو یقیناًآج ملک و قوم کے حالات ایسے نہ ہوتے کہ سٹیٹ بنک کا گورنر پاکستان میں کسی بھی ادارے یا شخصیت کو جواب دہ ہی نہ ہو۔حکومت اپنے اللوں تللّوں کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے عوام کو یہ توبتاتی ہے کہ اُن پر آئی ایم ایف کی طرف سے بہت دبائو ہے مگر اُسی عوام کے سامنے وہ اشرافیہ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا بل بھی متفقہ طور پر منظور کرا لیتی ہے... جیسے ان کو مراعات نہیں ملیں گی تو آئی ایم ایف والے ناراض ہو کر چلے جائیں گے۔ آئی ایم ایف سے قرض ملنے پر حکومتی سطح پر جس طرح سے خوشیاں منائی جاتی ہیں حقیقت میں تو یہ انتہائی شرم ناک بات ہے۔گویا ؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن!گزشتہ کم و بیش نصف صدی سے ہمارا حال یہی ہے ۔ستر کی دہائی میں پیدا ہونے والی نسل کی تو ساری زندگی اسی آس میں گزر گئی ہے کہ قرض کی پی جانے والی مے کسی نہ کسی دن ضرور رنگ لائے گی۔ اِس دوران میں سونیا گاندھی برملا یہ کہہ چکی تھیں کہ ہم نے پاکستانی قوم کو ذہنی طور پر غلام بنا لیا ہے مگر ہم پھر بھی مُصر ہیں کہ ہم نے ۱۹۷۱ء کی جنگ کا بدلہ لے لیا ہے۔ بے شک ع ’’دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے !‘‘ مگرجناب اِس سے دل پاکستانیوں کے نہیں‘ کسی اور کے خوش ہوتے ہیں ۔مہربانی فرما کر کوئی ایسا کام بھی کر جائیں کہ جس سے پاکستانیوں کے دل بھی خوش ہو جائیں!
بجٹ پیش کرنے سے پہلے ہی منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر نے قوم سے پیشگی معذرت کرلی تھی کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی ترقیاتی بجٹ میں ۱۰۰ ارب روپے کی کٹوتی کی جارہی ہے اور ایک ہزار ارب روپے کے ۱۱۸ ترقیاتی منصوبے ختم کیے جارہے ہیں۔محدود وسائل کے باعث صرف انتہائی اہم اور قومی مفاد کے حامل منصوبوں کو ہی شامل کیا جارہاہے۔
ٹیکسوں پر ٹیکس ادا کر کے اور ہر طرح کی ذلت اُٹھا کر بھی اگر عوام کو یہ جملہ سننے کو ملنا ہے کہ ’’ہم معذرت خواہ ہیں‘‘ تو پھر عوام برے حالات میں کس سے مدد چاہیں گے؟ یقیناً اس سوال کا جواب بھی حکمرانوں نے کچھ سوچ ہی رکھا ہوگا۔بجٹ سے پہلے جب عوام کو یہ بتایا گیا کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں سے محصولات کا پچاس فیصد سے زائد حصّہ قرضوں کی ادائیگی میں خرچ کیا جائے گا تو سادہ عوام یہ سمجھ بیٹھے کہ اِس کے بعد قرض آدھا رہ جائے گا۔ اِن سادہ عوام کو کسی نے یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ بجٹ۲۰۲۵ - ۲۶ء کے کل حجم میں سے نصف سے زیادہ رقم ماضی قریب و دور میں حاصل کیے گئے قرضوں کا سود ادا کرنے میں چلا جائے گا جبکہ اصل سود تو وہیں کا وہیں موجود ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ سود کی مد میں ہم جتنی ادائیگیاں کر چکے ہیں وہ اصل قرض سے کہیں زیادہ ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ سودی قرضوں‘ اشرافیہ کی کرپشن ‘ٹیکسوں کی بھر ماراور آئی ایم ایف کی غلامی نے ملکی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا ہے تو غلط نہیں ہو گا۔بجٹ سے پہلے وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ قومی اقتصادی سروے برائے مالی سال۲۰۲۴ - ۲۵ءنے ہی یہ ثابت کر دیا تھا کہ حکومت نہ صرف اکثر معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے بلکہ گزشتہ مالی سال کے دوران اشرافیہ کو جس طرح سے نوازا گیا ہے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
افسوس تو یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک کی شرح نمو صرف ۲ء۷ فیصد رہی۔ پھر حالیہ پیش کیا گیا بجٹ بھی اشرافیہ کا ہی بجٹ ہے جس میں مہنگائی کے پہاڑ تلے پسی ہوئی عوام پر ۵۰۰ ارب روپے کے اضافی ٹیکس لاد دیے گئے ہیں۔دوسری طرف ۶ لاکھ سے ۱۲لاکھ تنخواہ پر ٹیکس ۵فیصد سے کم کرکے ایک فیصد اور ایک کروڑ سے زائد آمدن پر سرچارج بھی کم کر دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں وفاقی کابینہ کے اخراجات اور وفاقی وزراء‘ وزرائے مملکت‘ سینیٹرز‘ مشیروں اور معاونین کی تنخواہوں میں ہوش رُبا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
مہنگائی کو کم کرنے یا دکھانے کے لیے جو حربے استعمال کیے جارہے ہیں اُن سے مہنگائی حقیقت میں کم نہیں ہوتی بلکہ مزید بڑھتی ہے۔حکومت اگر حقیقت میں عوام کی فلاح کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہے تو فیڈرل شریعت کورٹ کے سود کے خلاف فیصلہ پر فوری اور مکمل عمل درآمد کرے۔ یہی ایک ’’مشکل ‘‘ کام ہے جسے انجام دے کر نا صرف تمام مشکل کاموں سے نجات مل سکتی ہے بلکہ عوام کے دل بھی صحیح معنوں میں جیتے جاسکتے ہیں۔
اب ذرا اسرائیل اور یہود کے عزائم کا بھی مختصر اعادہ کر لیں۔ یہود کے نزدیک مسیح علیہ السلام کی سیٹ ابھی خالی ہے کیونکہ انہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ شیطان نے انہیں ایسی پٹی پڑھائی کہ ان کی مذہبی کتب میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہوئی ہے کہ ارضِ مقدّس یعنی فلسطین کا علاقہ یہود کی میراث ہے اور۱۹۱۷ء کے بالفور ڈیکلریشن کےبعد ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل قائم ہونے تک یہودی دنیا بھر سے مقبوضہ فلسطین میں بستے چلے گئے‘اوریہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ان کے مطابق مسیح[جسے وہ مشائکھ (Mashiach)کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک یہی مسیح الدجال ہوگا] کے خروج کے لیے ایک بہت بڑی عالمی جنگ کا ہونا ناگزیر ہے۔ یہ جنگ جو کہ عیسائی مذہبی لٹریچر میں آرمگیڈون(Armageddon) کہلاتی ہے اور احادیث ِمبارکہ میں اس کا تذکرہ المَلحَمۃ العُظمٰی اور المَلحَمۃ الکُبریٰ کے طور پر آیا ہے‘ اس کے ذریعے اسرائیل اپنی سرحدیں وسیع کر کے گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس گریٹر اسرائیل کو دنیا بھر کے فیصلے کرنے کا اختیار ہوگا ۔ یہود مسجد ِاقصیٰ اورقبة الصخرة بلکہ پورے ٹیمپل ماؤنٹ کو ایک مرتبہ چٹیل میدان بنائیں گے اور پھر وہاں اپنی اس عبادت گاہ کو تعمیر کریں گے جسے وہ تھرڈ ٹیمپل کہتے ہیں۔ وہاں تخت ِداؤدی لا کر نصب کیا جائے گا‘جس پر بٹھا کر دجال (جو ان کے نزدیک ’’مسیح ‘‘ہوگا) کی تاج پوشی کی جائے گی‘ دجال کی عالمی حکومت قائم ہوگی اور یوں یہودیوں کا ’’سنہری دور‘‘ شروع ہو جائے گا ۔ یہاں انتہائی اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ معین شخصِ دجال سیکولر‘ لبرل صورت میں ظاہر نہیں ہوگا بلکہ مسیح ابن مریم علیہ السلام ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا۔لہٰذا المسیح الدجال ایک مذہبی شخصیت کا روپ دھارے گا۔وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایسی شعبدہ بازیاں کرے گا کہ دنیا کی عظیم اکثریت اس بات کی قائل ہوجائے گی کہ یہی اصل مسیح ہے (معاذ اللہ)۔ حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا کہ دنیا کے آغاز سے تاقیامِ قیامت انسانیت کے لیےیہ سب سے بڑا فتنہ ہوگا۔اللہ تعالیٰ ہمیں فتنہ دجال سے محفوظ فرمائے۔ آمین!جن جنگوں کا آغاز ہو چکا ہے اس میں پاکستان کو ابھی مزید گھسیٹا جائے گا۔ ہمیں اسرائیل کو ہدف بنانا ہوگا۔ لہٰذا دین کو دانتوں سے پکڑ لیں اور اپنی تمام توانائیاں ملت ِاسلامیہ کی نشا ٔۃِ ثانیہ کو برپا کرنے میں صرف کر دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو اس اہم ترین دینی ذمہ داری کوادا کرنے میں مقدمۃ الجیش بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025