ہوئے تم دوست جس کے.....شجاع الدین شیخ‘ امیر تنظیم اسلامی
بھارت کی چھیڑی ہوئی جنگ گزشتہ دنوں امریکی صدر ٹرمپ کے اشارے پر رک گئی تو جہاں پاکستان میں اِس پر خوشیاں منائی گئیں ‘وہاں بھارت میں اِس پر سوگ منایا گیا۔اِس میں شک نہیں ہے کہ اگریہ جنگ جاری رہتی تو بھارت کو ناقابل تلافی نقصان اُٹھانا پڑتا۔یہ الگ بات ہے کہ جنگ بندی یا سیز فائر ہونے کے باوجود بھی بھارت پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی ایک موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دے رہا۔ اِس جارحیت کا کریڈٹ کس کو جائے گا‘ بہرحال ایک جواب طلب موضوع ہے۔دوسری طرف امریکی صدر نے پاکستان کومسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے اور پاکستانی قیادت کو معاملہ فہمی کے اعتبار سے مضبوط قرار دیا ہے۔اُدھر امریکا اور یورپ کا دورہ کرنے والے پاکستانی سفارتی مشن کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی صدر ٹرمپ سے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی کے عمل کو مستقل شکل دینے‘ کشمیر سمیت تمام معاملات پر بامعنی مذاکرات کے لیے مودی حکومت کو میز پر لانے میں اپنا فعال کردار ادا کریں ۔
پاکستانی سفارتی مشن کی امریکی حکام اور کانگرس کے ارکان سے ملاقاتوں کو بھی خوش آئند کہا جارہا ہے۔ اسی امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری‘ غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی اور انسانی امداد کی بلارکاوٹ فراہمی کے مطالبے پر مبنی قرارداد کو ویٹو کردیاہے جس کی وجہ سے بطور سپر پاور امریکا کا منافقانہ کردار کھل کر سامنے آگیا ہے۔ ادھر امریکی صدر کا پاکستانی قیادت پر اعتبار کرنا یقیناً اِس بات کی دلیل ہے کہ یہ قیادت امریکی صدر کی ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں ملانے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔
ایک پاکستانی ہونے کے ناتے اِس خطے میں امن ہونا یقیناً ہمیں بہت اچھا لگ رہا ہے‘البتہ اپنی اس خوشی میں اہل ِغزہ کے کرب کو فراموش کردینا درست نہ ہو گا‘ کیونکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث مبارک ہے کہ مومنوں کی مثال ایک جسم کی مانند ہے کہ جب اس کا کوئی ایک عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو اُس کا پورا جسم اس کی وجہ سے تکلیف میں مبتلا رہتا ہے۔ایسے میں اگر غزہ سے باہر کے مسلمان اہل غزہ کی تکلیف کو محسوس نہیں کرتے تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم مسلمان ہیں!۱۰ ممالک کی جانب سے پیش کی گئی اِس قرارداد میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے فوری خاتمے اور انسانی امداد کی فراہمی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔۱۵ رکنی کونسل کے۱۴ ارکان نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا مگر امریکا کے ویٹو نے اِسے منظور ہونے سے روک دیا۔ ووٹنگ سے قبل اقوام متحدہ میں امریکا کی قائم مقام سفیر ڈوروتھی شیا نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کسی ایسی قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتا جو حماس کی مذمت نہ کرے اور اُس کے غیر مسلح ہو کر غزہ سے انخلا کا مطالبہ نہ کرے۔اُس نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والی کسی بھی چیز کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔پاک بھارت جنگ رکوانے سے پہلے صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر کو بھی جنگ بند کرنے کے لیے کہا تھا اوریہ بیان دیا تھا کہ اب امریکا یوکرین کی مزید سرپرستی نہیں کرے گا ‘مگر یوکرین کے تازہ حملوں کو دیکھ کر صدر ٹرمپ کے اِس دعوے کی قلعی کھل گئی ہے۔عالمی میڈیا کے سامنے کیے گئے ڈرامے اور حقیقت میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ اِس سے قبل بھی اسرائیل اور حماس کو جنگ بند کرنے کے لیے کہا گیا تھا مگر موقع ملتے ہی اسرائیل نے جنگ بندی کو ختم کرتے ہوئے وہ تباہی برپا کی کہ اِس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
پاکستانی وفد کے دورئہ امریکا پر امریکی محکمہ خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر ٹرمپ اپنے دور میں مسئلہ کشمیر حل کر لیں گے۔کیسے کریں گے:دونوں ممالک کی قیادت کو مدعو کرکے مذاکرات کے ذریعے یا کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی حمایت کرکے؟ اِس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ صدر ٹرمپ کے ذہن میں کیا ہے!صدر ٹرمپ کے ذہن میں جو کچھ بھی ہے اُس کو جاننے کے لیےکسی خاص کوشش یا کاوش کی ضرورت بھی نہیں ہے۔اُن کا ایک ایک عمل بتا رہا ہے کہ وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں‘ اور وہ جو کرتےہیں اس کا ذکر نہیں کرتے یا کہہ کر بھول جاتے ہیں۔ ایرانی صدر مسعود پزشکیان گزشتہ کئی مہینوں سے یہ کہتے چلے آرہے تھے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا خواہاں نہیں مگر ایران کو یورینیم کی افزودگی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اِس ضمن میں ایران کی تمام تر سرگرمیاں آئی اے ای اے کی زیر نگرانی اور مکمل شفاف ہیں اور اس کی کوئی ایسی تنصیب یا سرگرمی نہیں جو ظاہر نہ کی گئی ہو۔ اِس سب کے باوجود اسرائیل نے امریکا کی زیرسرپرستی ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری کرکے اُنہیں تباہ کردیا ہے ۔ امریکا اِس جنگ میں اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے بلکہ اسرائیل کی طرف سے ایران کو مکمل تباہ و برباد کرنے کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔اسرائیل کا ایران پر یہ پہلا حملہ نہیں ہے ‘اِس سے قبل وہ کئی مرتبہ اعلانیہ اور کئی مرتبہ غیر اعلانیہ ایران کا نقصان کرچکا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے وہ جس طرح مشرقِ وسطیٰ میں تباہی پھیلا رہا ہے ‘ ایران اِس خوںریزی کے حوالے سے اُس کی ’’ویٹنگ لسٹ ‘‘میں تھا ۔صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملہ کرنے سے پہلےانہوں نے مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کے لیے کہا تھا جبکہ حملہ کے بعد امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ہمیں مطلع کیا تھا کہ وہ یہ کارروائی اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھتا ہے۔ہماری اولین ترجیح مشرقِ وسطیٰ میں تعینات امریکی افواج کا تحفظ ہے۔اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے ایران کو سخت تنبیہ کرتے ہوئے کہاہے کہ اسے امریکی مفادات یا اہل کاروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔
ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکا نےجہاں بھی ثالثی کی ہے‘ محض اپنے مفاد میں کی ہے ۔اِن حالات میں کشمیر پر ثالثی کے لیے امریکا کو دعوت دینا کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔یہاں یہودی‘ سابق امریکی سفارت کار ہنری الفریڈ کسنجر کی بات کا حوالہ دینا برمحل ہو گا کہ ’’امریکا کے دوستوں نے اس کے دشمنوں کی نسبت زیادہ نقصان اُٹھایا ہے۔‘‘لہٰذا امریکی صدر کو کشمیر کے مسئلہ میں ثالثی کے لیے دعوت دینا دو بلیوں کا کیک کے تنازعے پر بندر کو ثالث بنانے کے مترادف ہو گا۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025