سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ(۳)
مدرّس:ڈاکٹر اسرار احمدؒ
اللہ عزّوجل کا تعارف
اب ان اَسماء (رحمان و رحیم) کا پہلی آیت کےساتھ جوخاص ربط ہے‘اُسے سمجھ لیجیے۔ ان دوآیات میں اللہ تعالیٰ کا ایک تعارف ہمارے سامنے آتاہے۔ ظاہر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کو اُس کے اسماء وصفات کے حوالے ہی سے جانتے ہیں۔ ذات ِ باری تعالیٰ تو ہمارےعلم و فہم ‘تخیل اور وہم سے بلند تر ‘ وراء الوریٰ‘ ثم وراء الوریٰ ہے ۔ ذرا غور کیجیے کہ ان دوآیا ت میں ہمیں اللہ تعالیٰ کی جو معرفت حاصل ہوئی‘اُس میں کہیں بھی کوئی خوف یا ڈرانے والا پہلو نہیں ہے۔ کوئی خوف ناک تصور سامنےنہیں آرہا‘ بلکہ ہر لفظ پر غورکریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ محبت کےقابل اورمحبت کرنے والی ‘ وَدُود اور رحیم ہستی ہے۔
سب سے پہلےلفظ ِ اللہ ہے۔اس کےبارے میں لوگوں نے مختلف آراء ظاہر کی ہیں کہ یہ اَلِہَ یَلَہُ سے ہے یا وَلَہَ یَلِہُ سے۔ ان آراء میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ کہ ایک ایسی ہستی جس سے محبت کی جائے‘ایک ایسی ہستی جس کی طرف انسان اپنی تکلیف کو رفع کرنے کے لیے اوراپنی حاجت براری کے لیے لپکتا ہے۔ جیسے کسی گا ئے یا اونٹنی کے بچے کو ماں سے علیحدہ کر کے کہیں باندھاہوا ہواور کسی طرح اُس کی رسّی کھل جائےتو جس طرح وہ والہانہ انداز میں اپنی ماں کی طرف لپکے گا‘ یہ کیفیت اس لفظ کے اندر ہے۔ یہ والہانہ انداز میں محبت کرنا ہے۔ ایک مفہوم یہ بھی لیاگیا کہ اَلِہَ کے معنی ہیں تَحَیَّرَ کہ انسان متحیر ہوجائے۔ یعنی وہ ہستی جس کی ذا ت کی کُنہ تک توہم نہیں پہنچ سکتے‘ سوائے تحیر(حیرانی) کے ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ‘ البتہ جس کی طرف ہم لپکتے ہیں‘ اپنی تکالیف میں اُ س سے مدد چاہتے ہیں ‘ مشکلات میں اُس کو پکارتےہیں۔ اُس سے رزق طلب کرتے ہیں ‘ پھر اُ س سے محبت کرتے ہیں۔ تو لفظ ِ اللہ میں بھی آپ نے دیکھاکہ خوف پیدا کرنے والا کوئی پہلوموجود نہیں ہے۔
پھر ’’رَبّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘کے دو معنی سامنےآئےتھے۔ ایک معنی تو پالن ہار‘ پروردگار‘ پرورش کنندہ کا ہے۔ اس میں بھی شفقت ‘ محبت اور عنایت ہے ۔کوئی قہاری والا پہلو ‘ کوئی بھی ایسی چیز کہ جس کا خو ف سے تعلق بنتا ہو‘ وہ نہیں ہے۔ البتہ ایک پہلو اس میں ضرور ہے کہ ربّ کے معنی مالک کے ہیں اورجو مالک ہوتا ہے وہ اپنی ملکیت میں تصرف کرتاہے۔ اُس تصرف میں اُ س کا اپنا اختیار اور اپنی پسند ہی آخری اور فیصلہ کن چیزہوتی ہے۔ یہاں کچھ ہلکا سا پہلو نکل سکتا ہےکہ مالک اپنی مِلک میں ہر طرح تصرف کرنے میں آزادہوتا ہے ‘ وہ اس کا پابند نہیں ہے کہ اپنی ملکیت سے ہی پوچھے کہ مَیں کیا کرو ں اور کیا نہ کروں ! مَیں سمجھتاہوں کہ اس پہلوکی تلافی کے لیے یہ ’’الرَّحْمٰن‘‘ اور ’’الرَّحِیْم‘‘ دونوں اسما ء جو رحمت سے بنے ہیں‘ اُن کو لایا گیا کہ وہ مالک تو ہے مگر سخت گیر مالک نہیں ہے ۔وہ مالک تو ہے لیکن جابر نہیں ہے۔ وہ یقیناًمالک ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں‘ اُ س کا اختیارمطلق ہے وہ جو چاہے کرے ‘ لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ رحمٰن بھی ہے اور بیک وقت وہ رحیم بھی ہے۔ چنانچہ اُس ذات میں اگر کسی درجے میں سختی یا جبرکا کوئی پہلو نکلتاتھا‘ یا اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف والہانہ انداز میں بڑھنے کی بجائے اس کے اندر کوئی خوف (awe)کا جذبہ پیدا ہو سکتا تھا تو یہ دو اسماء {الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} لاکر اُس کی ایسی تلافی کی ہےکہ وہ مالک ہے مگر انتہائی شفیق‘ نہایت رحیم ‘نہایت وَدُود‘ نہایت رحم کرنےوالا۔وہ رحمٰن بھی اوررحیم بھی ہے۔
اِنذار‘ خوف اور تقویٰ
یہ و ضاحت مَیں نے اس لیےکی ہے کہ عیسائی مستشرقین نے قرآن اوراسلام پر یہ شدیداعتراض کیا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ کا تعارف ایسےانداز میں کراتی ہےجس میں ڈر کا پہلو نمایاں ہے۔اس میں جا بجایہ کہا گیا ہے کہ اللہ سےڈرو (اِتَّقُوا اللہَ)‘ اے نبیﷺ ! انہیں ڈراؤ (اَنْذِرْھُم)۔ بدقسمتی سےاس میں کچھ کوتاہی تو ہمارے مترجمین کی ہے۔ہر زبان کااپنا ایک پس منظر ہوتا ہے اور کسی زبان کا صحیح مفہوم دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ کو مناسب لفظ مل جائے۔ ’’خوف‘‘ کالفظ عربی زبان کا ہے‘ اس کا ترجمہ ہم اردو میں’’ڈر‘‘ اور انگریزی میںfearسے کر دیں گے۔ ’’تقویٰ ‘‘کا لفظ بھی عربی زبان کا ہے ‘اُ س کا ترجمہ بھی ’’ڈرنا‘‘ہوجائے گا ۔چنانچہ ’’اِتَّقُوا اللہَ ‘‘کا ترجمہ عام طور پر یہی کیا جاتا ہے: ’’ڈرو اللہ سے‘‘۔چنانچہ مختلف الفاظ میں جو فرق اورتفاوت ہے ‘ اُس کو ہم صحیح طور پر تراجم میں بیان نہیں کرپائے‘ وگرنہ واقعہ یہ ہے کہ تقویٰ اور شے ہےجبکہ خوف کسی اور شے کا نام ہے۔ اسی طرح اِنْذَار کےمعنی ڈرانا نہیں ہے‘خبردار(warn)کرنا ہے۔تقویٰ کے معنی ڈرنا نہیں ہے بلکہ اُ س میں ایک بچاؤ کا پہلو ہے۔ کسی سعادت مند بچے کو اپنے والد کی ناراضی کاڈر ہوتا ہے ۔یہ ڈر اور شے ہےجبکہ سانپ ‘بچھو ‘شیر کا ڈریا کسی غولِ بیابانی کا خوف‘یہ بالکل دوسری قسم کا ڈر ہے۔والدسے جو ڈر ہے اُس میں دراصل بنیادی چیز والد کی محبت ہے‘ بچے کے ساتھ والد کی شفقت ہے ۔ بچہ یہ نہیں چاہتا کہ میرےوالد مجھ سےناراض ہوں ۔ دراصل لفظ ’’تقویٰ‘‘ کا مفہوم یہ ہے‘ لیکن اس کا ترجمہ بھی ہم ڈر سے کردیں گے۔ خوف کا لفظ بھی قرآن میں آتا ہے‘ وہاں بھی ترجمہ ڈر سے کر دیں گے ۔
اِنذارکے معنی خبردار کرنے کے ہیں‘ ڈرانے کے نہیں ۔ ایک نابینا شخص سڑک پر چلاجارہاہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ آگے سڑک کھدی ہوئی ہے‘ توآپ اُسے خبردار کریں گے کہ دیکھو بھائی!آگے سڑک کھدی ہوئی ہے۔ اگرآپ کو محسو س ہو کہ صرف اندھا ہی نہیں ‘ بہرہ بھی ہے تو آپ بھاگ کر اُس کاہاتھ پکڑیں گے ‘کپڑا پکڑیں گے۔ یہ وہ بات ہے جس کو حضور ﷺ نے ایک تمثیل کے ذریعہ بیان فرمایا :
((إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ النَّاسِ، كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ، جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيهَا، فَجَعَلَ يَنْزِعُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيَقْتَحِمْنَ فِيهَا، فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ وَهُمْ يَقْتَحِمُونَ فِيهَا))(متفق علیہ)(۳۰)
’’ میری اور لوگوں کی مثال ایک ایسے شخص کی ہے جس نے آگ جلائی‘جب اس کے چاروں طرف روشنی ہو گئی تو پروانے اور پتنگے اس آگ میں گرنے لگے اور وہ شخص انہیں اس میں گرنے سے بچانے لگا لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آئے اور آگ میں گرتے رہے۔ اسی طرح میں تمہیں کمرسے پکڑ پکڑ کر آگ سے بچاتا ہوں اور تم ہو کہ اسی میں گرتے جاتے ہو۔‘‘
تمہیں حقیقت نظر نہیں آرہی ‘ تم صرف اس دنیا کو دیکھ رہے ہو ‘آخرت تمہاری نگاہوں کےسامنے نہیں ہے۔ وہ جہنم تمہیں نظر نہیں آرہی جبکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھا دی ہے۔ مَیں کپڑے پکڑ پکڑ کر تمہیں گھسیٹ رہاہوں کہ گڑھے میں مت گرو۔ اب یہ انذار کا تصور ہے جس میں ہمدردی ہے ‘ خلوص ہے ‘ خیر خواہی کا پہلو ہے۔ جس کو ڈرایا جارہا ہے اُ س کو ڈرانا مقصود نہیں بلکہ اُ س کی بھلائی مدّ ِ نظر ہے۔درحقیقت ایک تو ہمارے تراجم میں ہر جگہ جو لفظ ِ ڈر( یا fear ) آگیاہے تو اس وجہ سے مستشرقین کو کچھ کہنے کا موقع ملا ہے۔
بگڑے معاشرے میں اِنذار کی ضرورت
دوسری بات یہ ہے کہ کوئی شک نہیںکہ قرآن مجید میں انذاراور تقویٰ پر واقعتاً زورہے ‘ لیکن یہ زور(emphasis) کیوں ہے؟ رسول اللہﷺ کی زندگی میں اگر ماحول کو پیشِ نظر رکھا جائے تو بات سمجھ میں آجائے گی۔ ایک نارمل ماحول ہوتا ہے اور ایک بگڑا ہوا ماحول ہوتا ہے۔ ایک ہے نارمل اور صحت مندانسان ‘ جس کے منہ کا ذائقہ درست ہو اورایک ہے بخار میں مبتلا انسان‘ جس کا ذائقہ بگڑا ہوا ہو۔ لہٰذا جو بخار میں مبتلا ہے اُسےکڑوی کونین تودینی ہوگی۔ جب معاشرہ بگڑا ہو ا ہو تو تخویف کی بھی ضرورت پڑتی ہے اور انذار کی بھی ۔ لہٰذا انبیا ء کرام علیہم السلام کی دعوت میں ابتداء ًتخویف و انذار کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے ‘ جس کو علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر!جب سوچ بگڑ چکی ہو تو سب لوگ کلامِ نرم و نازک سے بات نہیں سمجھ سکتے۔سب لوگ محبت کے رمز آشنا نہیں ہوتے۔ وہاں ضرورت ہوتی ہے کچھ سخت گیری کی ‘ چاہےوہ زبان ہی کے ذریعہ سے ہو۔کچھ کوڑے اور تازیانےپڑیں ‘ تب انسان جاگتااورآنکھ کھولتا ہے۔اس پہلو سے دیکھیں‘ ابتدا میں ایک بگڑے ہوئے ماحول سے خطاب ہورہا ہو تو یقیناً انذار اور ڈرانے کا رنگ غالب ہوگا ۔ البتہ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ قرآن مجید سورۃ الفاتحہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا تعارف مثبت طورپر کرا رہا ہے‘ اور یہ وہ سورت ہے جو نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جارہی ہے ۔اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ ہمارا جو ذہنی وقلبی تعلق ہے وہ سب سے زیادہ اس سورئہ مبارکہ کے ذریعے سے ہے ۔یہاں پر اللہ تعالیٰ کاتعارف اُس کے جن اسماء وصفات سے ہورہاہے ‘ وہ لفظ ِ اللہ سے بھی ظاہر ہے‘ لفظ ِ رب سے بھی ظاہر ہے‘ اور پھر رحمٰن ورحیم کے دو اسماء سے بھی ظاہر ہےکہ یہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت ‘ اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ‘ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہونے کونمایاں کیا جارہاہے۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ
اب آئیے تیسری آیت کی طرف: {مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}۔ یہاں ذرا دوسرا رُخ ہے کہ صرف رحمت پر ہی جری نہ ہوجایا جائے بلکہ وہ عادل بھی ہے اور منصف بھی ۔ جزا اور سزادینے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ جزا وسزا کا وہ جو ایک دن آنے والا ہے ‘ اس کاوہ مختار ِمطلق ہے ‘مالک ہے۔ اس پہلو پر ذرا غور کرلیجیے۔ سورئہ لقمان کے دوسرے رکوع کے درس میں ہم ’’ حقیقت واَقسامِ شرک ‘‘پر کافی وقت لگاکر اس موضوع کو سمجھ چکے ہیں۔(۳۱)
سورئہ فاتحہ کا ایک ایک لفظ شرک کا راستہ روک رہا ہے۔ ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ‘‘ میں شرک کی نفی ہوگئی۔دینے والاوہ ہے‘ کل کمالات اُسی میں ہیں۔ظاہر ہے کہ کسی دوسرے کے لیے نہ حمد ہے ‘ نہ شکر ہےاور نہ ہی اُس کے لیے انسان کے پاس تعریف باقی رہ گئی ہے۔ یہی چیز تو شرک کا ذریعہ بنتی ہے کہ کسی شے کی اتنی ہیبت ذہن پر طاری ہوجائے کہ انسان اُس کےسامنے بے ساختہ جھک جائے۔کسی کے مشکو ر اورمتشکر ہونے کا جذبہ اتنا شدید ہو کہ انسان اُس کے سامنے سر جھکادے ۔لہٰذا ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ‘‘ سے بھی درحقیقت شرک کی نفی ہوتی ہے۔
ایک دوسرا شرک دنیا میں ہمیشہ رہا ہے اوروہ ہے شفاعت ِباطلہ کا شرک کہ ہماری کئی ہستیاں ایسی ہیں جو ہمیں وہاں بچالیں گی ۔آخرت کو مانتے ہیں ‘جزا اورسزا کو مانتے ہیں ‘ لیکن کچھ ہستیاں ایسی بھی ہیں جو ہماری سفارش کریں گی اورہمیں چھڑالیں گی ۔اس کا نتیجہ کیا نکلے گا ؟یہ کہ بندے کا ایمان بالآخرۃ ہونے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہوجائے گا ‘ بالکل غیر مؤثر ہوجائے گا ۔ تیسر ی آیت میں درحقیقت اس تصور کی تردید اور نفی کی گئی ہے۔{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo} میں سب سے پہلے تو اس بات کا اظہار ہوگیا کہ ’’یومُ الدِّین‘‘ یعنی جزا و سزا کا دن آکر رہے گا۔ دین کا بنیادی مفہوم جزا وسزا اور بدلہ ہے۔مثلاً کہتے ہیں: دِنّاھم کَمَا دَانُوا! (ہم نے اُن کو بدلہ دیا جیسا کہ انہوں نےہمارے ساتھ کیا۔)اسی طرح عربی کا مقولہ ہے: کَمَا تُدِیْنُ تُدان!(جیسا کرو گے ‘ ویسا بھرو گے۔) یہ جزا اورسزا کا تصور ہے۔ عربی زبان میں قرض کو’’دَین‘‘ کہتے ہیں۔اتنی رقم آپ نے مجھے قرض دی ہے‘ وہ مجھےآپ کو لوٹانی ہے ۔ چنانچہ ’’دی ن ‘‘ کے مادہ میں لوٹائے جانےکا تصور ہے‘ جیسے کہ بدلہ میں ہے کہ آپ نے جو کچھ کیا اس کی جزا وسزا آپ کو لوٹا دی جائے گی۔ اگر آپ نےکسی کو کوئی چیز ا س نیت سے دی کہ واپس نہیں آنی ‘تو وہ تحفہ ‘عطیہ ‘ ہدیہ یا ہبہ ہے ‘ لیکن جو چیز پلٹ کر واپس آنی ہے وہ’’ دَین ‘‘ہے ۔ دِین اور دَین میں صرف زیر اور زبر کا فرق ہے‘بنیادی حروف تو وہی ہیں ۔ اس سے آپ کو عربی زبان کے معنی سمجھنے میں ایک بصیر ت حاصل ہوگی۔{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo} اللہ اُس دِن کا مالک ہےجو بدلے کا دن ہے‘ جزا وسزا کا دن ہے۔
عقل انسانی اور فطرت ِ انسانی انسان کو یہاں تک پہنچا دیتی ہے کہ انسانی اعمال ضائع ہونےوالے نہیں ہیں‘ بدلہ ضرور بالضرور ملنا چاہیے۔ یا تو ہم یہ مانیں کہ خیر خیر نہیں ہے اور شر شر نہیں ہے ‘ ہماری نگاہ کا دھوکا ہے‘تب تو بات ٹھیک ہوجائےگی ‘ ورنہ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں جو خلق ِخدا کے خادم ہیں ‘ اُن کےلیے تو تکلیفیں ہیں‘مصیبتیں ہیں ‘ آزمائشیں ہیں‘ اورجو کوئی اصولِ زندگی نہیں رکھتے ‘اُن کے لیے عیش وآرام ہے ‘جدھر سے ہاتھ پڑ جائے اُدھر سے نکال لو۔by hook or by crook جس طریقے سے بھی ہوسکے۔ انسان اگر عیش وآرام حاصل کرنے پرتل جائےتو ایسا آدمی یہاں عیش کرتا ہے‘ اللے تللے کرتا ہے ۔ا ب اگر کوئی اور زندگی نہیں ہے ‘ جز اوسزا کی جگہ نہیں ہے تو پھر یا تو یہ کہا جائے کہ اللہ بہت ظالم ہے‘اگرواقعتاً ہے (معاذاللہ!) ۔درحقیقت یہ ساری چیزیں آپس میں باہم ملی ہوئی ہیں ۔یہ بات وہی لوگ کہہ سکتے ہیں کہ جنہیں خدا کےوجود پر پورےوثوق کے ساتھ یقین نہیں ہے۔ اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین ہو اوریہ بھی معلوم ہو کہ اُس کےاندر تمام محاسن اورخوبیاں جمع ہیں توپھر کیسے ممکن ہے کہ وہ یہ سمجھے کہ اس کائنات کا خالق ایسا ظالم ہوگاکہ خیر کرنےوالوں کے لیے تو یہاں پر مصیبتیں اور مشکلات ہوں جبکہ جو بدی کی راہ اختیار کریں یا کسی اصول و ضابطے کے پابند نہ ہوں ‘اُن کی زندگی میں یہاں عیش وآرام ہو!اس میں اگر کوئی راستہ نکل سکتا ہے تو وہ یہ کہ ایک دن ( یَوْمُ الدِّیْن)آئے اور اُن کا بھرپور حساب کتاب ہو ‘ اور اس کےبعد ایک زندگی ہو ‘ جس میں پوری جزا یا سز ا مل سکے۔ یہ عقل و فطرت کا تقا ضا ہے۔ اسی بات کو حضرت لقمان نےاپنے بیٹے سے کہا تھا :
{یٰـبُنَیَّ اِنَّہَآ اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِیْ صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمٰوٰتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ یَاْتِ بِہَا اللہُ ط اِنَّ اللہَ لَطِیْفٌ خَبِیْرٌ(۱۶)}(لقمان)
’’اے بیٹے! اگر وہ( نیکی یا بدی )رائی کے دانے کے برابر بھی ہو ‘پھر خواہ وہ کسی چٹان میں یا آسمانوں میں یا زمین کے اندر ہو(کہیں بھی وہ عمل کیا گیا ہو ‘اللہ کی نگاہوں سے مخفی نہیں ہے) اللہ اُسے سامنے لے آئے گا۔ یقیناً اللہ بہت باریک بین‘ ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے۔‘‘
شفاعت ِ باطلہ کی نفی
یہاں تک تو عقل ِسلیم اور فطرتِ سلیمہ نے پہنچادیا ‘ اب اس سے آگے ایک قدم اورہے جو سورئہ فاتحہ اُ ٹھارہی ہے:{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}۔ اس لیے کہ شیطان بھی تو بہرحال آخری بات تو مان رہا ہے کہ قیامت تک انسان کےساتھ اُ س کی جنگ جاری رہےگی ‘ اُسے مہلت ملی ہوئی ہے ۔جو انسان یہاں تک آجاتاہے اُسے شیطان ایک اور پٹی پڑھاتا ہے کہ ہاں بات تو صحیح ہے ‘ تمہاری عقل غلط نہیں کہہ رہی ‘ تمہاری فطرت صحیح کہہ رہی ہے ‘ جز ا وسزا ہونی چاہیے‘ ع گندم از گندم بروید جو زجو ! یقیناً صحیح ہے ‘ نیکی کا نیک بدلہ ملنا چاہیے ‘ بدی کی سزا ملنی چاہیے ‘ لیکن کچھ ہستیاں ایسی بھی ہیں کہ جن کی اگرکچھ ڈنڈوت کرو ‘ اُن کی پوجاپاٹ کرو ‘ اُن کی کچھ سیوا کرو‘ تو پھر وہاں کی پکڑ سے بچ جاؤ گے ‘ یہ ہستیاں تمہاری سفارشی بن جائیں گی۔ چنانچہ قرآن مجید میں یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ جو ان دیویوں کو پوجتے تھے‘ وہ کہتے تھے: {ہٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللہِ ط}(یونس:۱۸) ’’یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں!‘‘ یہ ہمیں وہاں چھڑائیں گے‘ ہماری سفارش کریں گے۔
ایک اور بات ذہن میں رکھیے کہ انسان نے جب بھی اپنے ذہن کے محدود پیمانوں سے ذا ت وصفاتِ باری تعالیٰ کو ناپا تو اس میں اُس نے بہت ٹھوکریں کھائیں۔ اس دنیا میں ہم کسی کو دوست رکھتے ہیں توہماری دوستی میں ایک کمزوری دَرآتی ہے۔ گہر اتجزیہ کریں تو نظر آئے گاکہ ہمارے تحت الشعور میں یہ بات ہوتی ہے کہ کبھی ضرورت کے وقت ہمارا دوست ہمارے کام آئے گا‘ اس لیے دوستی نبھانی چاہیے ۔ جب انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ دوست وقت پر کا م آتا ہے تو اس احسا س کے تحت وہ دوستی نبھانے کے لیے کسی وقت دوست کاناجائز تقاضا بھی پورا کرتا ہے ۔وہ محسو س کرتا ہے کہ یہ جو کچھ مجھ سے اس وقت چاہتاہے یہ صحیح تو نہیں ہے مگر یہ دوست ہے اورمجھےیہ کرنا ہے۔ تجزیہ کیجیے تو بنیاد میں یہی بات ہے کہ کبھی مجھے بھی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ کبھی یہ میرا مددگارہوگا ‘ میرا سہارا بنے گا۔یہ وہ تصوّرہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ بھی چسپاں کردیا گیا ہے ۔ یقیناًاُ س کے بھی دوست ہیں‘ اولیا ء اللہ ہیں ‘ ا س میں کوئی شک نہیں ۔ قرآن مجید گواہی دیتا ہے :
{ اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ(۶۲)} (یونس)
’’آگاہ ہوجاؤ! اللہ کے دوستوں کے لیے نہ کوئی غم ہے اورنہ وہ حُزن سے دوچار ہوں گے۔ ‘‘
اب یہ جو ولایت اوردوستی کا تصور ہے ‘اسے جب ہم نے اپنی سطح پر ‘ اپنے پیمانے پر جانچا اور پرکھا تو اس کے ساتھ ایک وہ پہلو بھی شامل کردیا کہ دوستوں کا کہنا وہ کیسے ٹالے گا ! دوست اگر کسی کی سفارش کریں گےتو کیسے ممکن ہےکہ اُ س کی سفارش قبول نہ ہو جبکہ ہم اپنے دوستوں کی باتیں مانتے ہیں۔
غور کیجیے کہ قرآن کریم کس کس طریقے سے ان چیزوں کی نفی کرتا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی آخری آیت میں شرک کاتین اسلوبوں سے ابطال کیا گیا ہے ۔ابتد ااور اخیر میں تو مثبت انداز ہے جو سورئہ فاتحہ میں ہے۔فرمایا:{وَقُلِ الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا } ’’اور(اے نبی ﷺ!) آپ کہہ دیجیے کہ کُل شکر اور ثنا اُ س اللہ کے لیے ہےجس نے کسی کوبیٹا نہیں بنایا‘‘{وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ}’’اور نہ ہی کوئی اُس کا ساجھی ہے بادشاہی میں( اختیار میں )‘‘ {وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ } (الاسراء:۱۱۱)’’ اورنہ ہی کوئی اُ س کا دوست اور ولی ہے کسی کمز وری کے باعث۔‘‘ ’’ذُل‘‘ کہتے ہیں عاجزی کو ۔کسی عاجزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کسی کو اپنا دوست نہیں بنایا ‘ جیسے تم کسی کو اپنا دوست بناتے ہواورتمہیں احسا س ہوتا ہے کہ یہ کسی آڑے وقت میں میرے کام آئے گا۔ یہ جو آپ کے تحت الشعور میں ایک کمزوری مخفی ہے جس کے تحت آپ اپنے دوست کی کسی وقت ناجائز بات بھی ماننے پر اپنے آپ کو مجبور محسو س کرتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ اس کمزوری سے قطعاً پاک ہے۔
رشتہ داریوں میں تو یہ ہوتاہی ہے کہ اب داماد آگیا ہے‘اس کی بات کیسے ٹال دی جائے ؟ بہنوئی کی بات کیسے ٹال دی جائے؟ جس طریقے پر یہ معاملہ ہوتاہے وہ ہر معاشرے کا اپنا طریق کار ہے ۔ کہیں سالے کی اہمیت زیادہ ہے تو کہیں بھائی کی ۔ کہیں بھائی بھائی کو زیادہ تولے گا ‘ کہیں بھائی بہنوئی یاسالے کو زیادہ تولے گا۔ کہیں سسرالی رشتوں کی اہمیت زیادہ ہوجاتی ہےاورکہیں رحمی رشتوں کی۔ رشتہ داری میں لازمی طور پر کچھ نہ کچھ ماننا پڑتا ہے ‘ کہیں نہ کہیں کنی دبتی ہے۔اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس تصور کو ذہن سے یکسر نکال دو‘ اُ س کی کنی کسی سے نہیں دبتی ۔ اگر اُ س کے بھی دوست ہیں تو وہ اس بنیاد پر نہیں ہیں کہ اُسے کوئی عاجزی لاحق ہو‘ کوئی کمزور ی ‘ضعف یااحتیاج ہوکہ جس کی وجہ سے وہ دوست بنائے ہوئےہے{وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ }۔
یہ ہے شفاعت کا ہمارا وہ تصور جس کی قرآن نفی کر رہا ہے۔{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo} ’’وہ روزِ جزا کا مالک ہے‘‘۔اسی ’’روزِ جزا‘‘کو قرآن مجید میں بار بار سامنے لایا گیا ہے۔ وہاں پکار ہو گی‘ ندا ہو گی:{لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ط}’’آج کس کے لیے بادشاہی ہے ؟ ‘‘ {لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ(۱۶) }(المؤمن)’’اللہ کے لیے ہے جو تنہا ہے‘ اکیلا ہے۔‘‘
اسی شفاعت باطلہ کی نفی کہیں بایں الفاظ ہوتی ہے:
{مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ ط}
’’کون ہے جو شفاعت کرسکے گااُس کے ہاں ‘ مگر اُ س کی اجاز ت سے!‘‘
ہاں!شفاعت اذنِ ربّ سےہے‘ اللہ کی اجازت سے ہے۔ پھر وضاحت کردی گئی کہ شفاعت اس بات سے مشروط ہوگی کہ کوئی شفاعت کرنے والا غلط بات نہیں کرسکے گا۔ اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ کیا کوئی اس انداز سے اللہ کے روبرو شفاعت کرسکےگا کہ آپ نہیں جانتے ‘ مَیں آپ کو بتا رہاہوں کہ اصل معاملہ یہ ہے!کوئی ہے جو اللہ کو پڑھا سکے اور سکھا سکے؟ یہی وجہ ہے کہ آیت الکرسی میں ان دوچیزوں کو جوڑا گیاہے:
{یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ ج وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْ ئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَاشَآئَ ج }(البقرۃ:۲۵۵)
’’ وہ جانتاہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔اور وہ احاطہ نہیں کر سکتے اللہ کے علم میں سے کسی شے کا بھی سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔‘‘
جب علم الٰہی اور غیر اللہ کے علم کا کوئی تقابل ہی نہیں‘ وہ کوئی بھی ہوں ‘ انبیا ء و رسل(علیہم السلام) ہوں ‘ اولیا ء اللہ ہوں ‘ ملائکہ ہوں ‘ ان سب کا معاملہ یہ ہے کہ اللہ نے جتنا علم انہیں دے دیا ہے بس اُتنا ہی جانتے ہیں‘ تو وہاں یہ انداز تو کوئی نہیں اختیار کرسکتا کہ یہ آدمی اچھا ہے ‘ یہ بات آپ کے علم میں نہیں ہے‘ مَیں آپ کو بتارہاہوں ! اسی لیے وہاں شفاعت کوعلم سے جوڑاہے۔
مزید برآں‘ سورۃالنبا میں اس کو بھی واضح کر دیا:
{یَوْمَ یَـقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّاط لَّا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا(۳۸)}
’’جس روز کھڑے ہوں گے جبریل اور تمام فرشتے صفیں باندھے۔ وہ کوئی بات نہ کر سکیں گے‘ سوائے اُس کے جسے رحمٰن کی طرف سے اجازت مل جائے اور وہ بات بھی درست کرے۔‘‘
اُس روز روح الامین (جبریل علیہ السلام )اورتمام ملائکہ سب کے سب صفیں باندھے ہوئے کھڑے ہوں گے اور دَم مارنے کایارا نہ ہوگا‘ کوئی چوں نہ کرسکے گا ‘کوئی بات نہ کرسکے گا‘ سوائے اُس کے جسے رحمٰن کی طرف سے اجازت مل جائے۔ مزید یہ کہ اجاز ت ملنے کے بعد بھی وہ بات کہے تو درست کہے‘ کوئی غلط بات کہنےکا وہاں کوئی تصور نہیں ہوگا۔
در اصل یہ آیت مبارکہ{مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}آخرت کی جواب دہی کے بارے میں ہے ‘ محض اثباتِ آخرت نہیں ۔یہ سورت وہاں سے شروع ہوتی ہےکہ جہاں تک فطرت ِانسانی انسان کو لا سکتی ہے۔ وہاں تک تو انسان پہنچا ہوا ہے ‘ وہاں سے آگے کی بات ہورہی ہے۔ لہٰذا یہ بات کہ ایک جزا وسزا کادن ہے ‘ ایک دوسری زندگی ہے یہ تو گویا فطرت ِانسانی اورعقل انسانی از خو دیہاں پہنچ گئی ہے ۔اب جو ایک اضافی مغالطہ ہوسکتا ہے ‘ وہ وسوسہ جو شیطان پیدا کرتا ہے ‘ تاکہ اس علم کے باوجود انسان غلط راستے پر چلتا جائے ‘ اُس میں جسارت ‘ ڈھٹائی اور جرأت پید اہوجائے ‘ تو وہ شفاعت ِ باطلہ کا تصور ہے کہ کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت میں خلل انداز ہو سکے‘ جو اُس کے فیصلوں کو بدلوا سکے۔ ایک جہلاءکا انداز ہوتاہے اور اشعار میں کس کس طرح کی باتیں آ جاتی ہیں۔کہیں کوئی ملنگ یہ پڑھتا ہوا گزر رہاہوگا: ؎
خدا جنھوں پکڑے چھڑا لے محمد(ﷺ)
محمدؐ دے پکڑے چھڑا کوئی نئیں سکدا!اس کی کوئی تاویل کرنے پر آئے اور اِدھر سے ‘ اُدھر سے کھینچ تان کر کوئی ایسا مفہوم نکال دے کہ اسے درست قرار دے دے تو الگ بات ہے۔ ورنہ ایک عام آدمی پر اس کا یہ تصور قائم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو معاذ اللہ ‘ ثم معاذاللہ ‘یہ قدرت حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو بدلوا دیں۔ پھرتو وہ اللہ تعالیٰ سے بھی بالا تر ہستی ہوئی نا!اس طرح تو یہ معاملہ شرک نہیں ‘بلکہ شرک سے بھی بالاتر ہے۔
بنی اسرائیل میں شفاعت ِباطلہ کا تصور
یہ صرف بُت پرستوں کا معاملہ نہیں ہے کہ عرب کے بُت پرست یہ سمجھتے تھےکہ یہ جو ہمارے دیوی‘ دیوتا ہیں ‘ یہ لات ومنات اور عزیٰ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں ‘ بلکہ سورۃا لبقرۃمیں بنی اسرائیل سے جہاں خطاب شروع ہواہے وہاں بھی اور خطاب کے آخر میں بھی یہ مضمون بڑے شدّ ومدّ کے ساتھ آیا ہے:
{وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا یُؤْخَذُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ (۴۸)} (البقرۃ)
’’ڈرو اُس دن سے(بچو اُس دن کی حسرت ناکی سے )کہ جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی کام نہ آسکے گی‘ اور نہ کسی سے کوئی سفارش قبول ہوگی‘ اور نہ بدلے میں کوئی چیز قبول کی جائے گی‘ اور نہ ہی انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔‘‘
یہ ذہن میں رکھیے کہ شفاعت کے بارے میں قرآن مجید میں دوانداز بیان ہوئے ہیں۔ کہیں تو شفاعت کی کلیۃً نفی ہے: {لَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ}’’کوئی شفاعت اس سے قبول نہیں ہو گی۔‘‘ کہیں اثبات ہوتا ہے تو { اِلَّا بِاِذْنِہٖ}’’مگر اُس کی اجازت کے ساتھ۔‘‘ لہٰذا زیادہ سے زیادہ یہاں تک آنا چاہیے‘اس سے آگے کا کوئی تصور ہے تو بات اس کے بالکل برعکس ہو جائے گی۔قرآن مجید میں ایسے بہت سے مقامات ہیں جہاں شفاعت کی نفی کلی ہے۔ ہم یہ کہیں گے کہ یہ نفی کلی شفاعت ِباطلہ کی ہورہی ہے ۔جہاں یہ تصور قائم ہوجائےکہ کوئی ہستی اتنی زور آور ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے کے آگے رکاوٹ بن کر کھڑی ہوسکتی ہے تویہ شفاعت ِ باطلہ ہے۔ یا یہ تصور کہ کسی سے اللہ کی کنّی اتنی دبتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بات ماننے پر مجبور ہے‘ یہ بھی شفاعت ِ باطلہ ہے۔اس کی نفی پورے شدّومدّ کے ساتھ کی گئی ہے۔
ذرا سی ترتیب کے فرق کے ساتھ پہلے پارے کے پندرھویں رکوع میں پھر یہ مضمون آیا ہے۔ فرمایا:
{ وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّلَا یُقْبَلُ مِنْہَا عَدْلٌ وَّلَا تَنْفَعُہَا شَفَاعَۃٌ وَّلَا ہُمْ یُنْصَرُوْنَ(۱۲۳)}
’’اور ڈرو اُس دن سے کہ جس دن کوئی جان کسی دوسری جان کے کچھ بھی کام نہ آسکے گی‘ اور نہ اُس سے فدیہ قبول کیا جائے گا‘ اور نہ اسے کوئی شفاعت فائدہ دے سکے گی‘ اور نہ انہیں کوئی مدد مل سکے گی۔‘‘
حصّہ دوم (عبادت و استعانت )کی تفہیماس سورئہ مبارکہ کی تیسری آیت کے مطالعہ کے بعد ‘ اب ان تینوں کو جمع کرلیجیے :
{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}
اب وہ ترازو ذہن میں لائیے جومَیںنے حدیث ِ قدسی کے حوالے سے بناکر دکھایا تھا کہ سورئہ فاتحہ کے دوحصے ہیں ‘ پہلا حصہ کل کا کل اللہ کے لیے ہے ‘ آخری حصہ کل کا کل بندے کے لیے ہے ‘ درمیان کا حصہ برابر برابرتقسیم ہے ‘ تو نصفین ہوجائیں گے ‘ ایک نصف اللہ کے لیے اور دوسرا نصف بندے کے لیے۔ لہٰذا یہ ایک جملہ بنا: {اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}۔اس کا اگرایک جملہ کی شکل میں ترجمہ کیا جائے تو وہ یوں ہوگا :’’کُل شکر اور کُل ثنا اُس اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالن ہار ہے‘ جو رحمٰن ورحیم ہے‘ اور جوجزاوسزاکےدن کا مختا رِ مطلق ہے۔‘‘ ادبی و لغوی اعتبار سےیہ ایک جملہ بن گیا۔
عبد اور عبادت کا مفہوم
اس کے بعد درمیانی (چوتھی) آیت میں عجیب بات یہ ہے کہ ایک آیت میں دوجملے ہیں: {اِیَّاکَ نَعْبُدُ}مکمل جملہ ہے۔ فعل ‘فاعل اورمفعول تینوں مل کر جملہ بنتے ہیں۔ پھر درمیان میں ’’وَ‘ ‘ ہے جہاں سے ترازوکو پکڑا جاتا ہے۔{ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} دوسرا جملہ ہے۔پہلے ہم اِیَّاکَ نَعْبُدُ پر غور کرتے ہیں۔اصل لفظ جو سمجھنے والا ہے وہ ہے نَعْبُدُ ۔یہ عَبَدَ یَعْبُدُ سے فعل مضارع بنتا ہے اورجمع متکلم کا صیغہ ہے۔ عربی زبان میں فعل مضارع میں حال بھی آجاتاہےاور مستقبل بھی۔ چنانچہ نَعْبُدُ کے معنی ہوں گے: ’’ہم عبادت کرتے ہیں۔‘‘ یہ فعل حال ہوگیا۔ اوریہ بھی ہوں گے کہ:’’ہم عبادت کریں گے۔‘‘ یہ فعل مستقبل ہوا اورفعل مضارع میں یہ دونوں زمانے پائے جاتے ہیں۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ’’ نَعْبُدُ‘‘سےپہلے لفظ ’’اِیَّاکَ‘‘آیا ہے۔ اگر یہاں ’’نَعْبُدُکَ‘‘ ہوتا تو ترجمہ یوں کیا جاتا: ’’ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور کریں گے‘‘ لیکن چونکہ ضمیر مفعولی’’کَ‘‘ کو فعل سے پہلے لایا گیا اور اس کے لیے ’’اِیَّا‘‘کا اضافہ کیا گیا‘ یعنی ’’ اِیَّاکَ نَعْبُدُ ‘‘ تواس میں مزید تاکید ی مفہوم پیدا ہو گیا ۔ یعنی:’’ہم تیری ہی عباد ت کرتے ہیں اور تیری ہی عبادت کریں گے۔‘‘ پہلے ترجمہ کے اعتبار سے یہ اظہا ر ِ حال ہے اوراس لیے مَیں اس طرف اشارہ کررہاہوں کہ اگر فی الواقع ایسا نہ ہو ‘ اوریہ جملہ زبان سے ادا کیا جارہا ہو تو ایک احتمال کذبِ زبانی کا ہوگیا۔ زبان سے کہتے رہیں ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘‘ اور عملاً نہ کرتے ہوں ‘ تو یہ کہنا بجائے کوئی کریڈٹ دلوائے ‘ کوئی فائدہ پہنچوائے‘ ایک جھوٹ ہے ‘کیوں کہ اس میں اظہار ِحال کا پہلو ہے ‘ اور وہ ہے مخالف ِواقعہ‘ جومطابق واقعہ نہیں ہے تو اس میں یقیناً جھوٹ کا احتمال پید اہوجائے گا ۔ اگر اس کا ترجمہ مستقبل سے کرتے توپھر یہ ایک عہد اور معاہدہ ہے:’’ہم تیر ی ہی عبادت کریں گے۔‘‘
عباد ت کے معنی کیا ہیں ؟ عبد‘ درحقیقت ضد ہے مالک کا ۔ ایک دوسرے کے متضاد مفہوم کے جو الفاظ ہوتے ہیں ‘ ان سے بھی ہم ان الفاظ کو سمجھ سکتےہیں۔ عربی میں کہا جاتا ہے : تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِھَا تو متضاد الفاظ (antonyms) کے حوالے سے بھی مفہو م سمجھ میں آتاہے۔ ایک طرف مالک یا خودمختار اور دوسری طرف عبد یا غلام ہے۔ عبد وہ ہے کہ جو اپنے اختیار اور اپنی مرضی سے کچھ نہ کرسکے‘ بلکہ اس کے اوپر کسی اورکی مرضی اور اختیار مسلط ہو۔ فارسی زبان میں عبد کے لیےلفظ بندہ آتاہے اور اسی سے بندگی بنتا ہے۔؎
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکارمیں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!اور عبادت کےلیے سادہ ترین لفظ ’’بندگی‘‘ ہوگا۔
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۶)} (الذّٰریٰت)
’’مَیں نے جنوں اورانسانوں کو نہیں پیدا کیا مگر اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں ۔‘‘
زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی!البتہ اس لفظ کے اصل مفہوم کو سمجھنے کے لیے چند چیزیں نوٹ کرلیجیے ۔ایک توعرب کہےگا: ’’البَعِیْرُ الْمُعَبَّد‘‘ وہ اُونٹ جو خوب سدھا یاہوا ہو۔ آپ گھوڑے کا تصور کرلیجیے‘ہم لوگ اونٹ سے زیادہ واقف نہیں ہیں۔ایک گھوڑا وہ ہے جو کسی کو قریب نہیں پھٹکنے دیتا اورایک گھوڑا وہ ہے جسے خوب سدھا لیا گیا ہے ‘ وہ اپنے مالک کے اشارے پر چلتاہے ‘اس کےلیے ذرا سا لگام کا اشارہ ہی کافی ہے۔اسےپتہ چل جائے کہ میرا مالک کیا چاہتاہے‘ وہ بالکل اسی طرح چلتا ہے۔‘ الفرسُ المُعَبَّد یا البَعِیرُ المُعَبَّد وہ گھوڑا یا اونٹ جو اپنے مالک کا بالکل مطیع فرمان بن جائے ‘ فرماںبردار بن جائے۔ الطریقُ المُعَبَّد کہتے ہیں وہ راستہ جس کو چل چل کر ہموار کردیا گیا ہو۔ ایک راستہ وہ ہے کہ جس پر عام لوگ ابھی تک چلے نہیں ہیں۔ آ پ کہیں کسی جنگل میں راستہ بنا رہے ہیں تو اس راستے کی شکل کوئی اور ہوگی ‘اور جہاں لوگ چلتے رہے ہوں ‘تو وہ ایک طرح کا ہموار راستہ بن جاتاہے‘ چاہے پگڈنڈی ہو۔ یہ ہے اصل میں لفظ عبد کی باطنی حقیقت!
کوئی چیز جو کہ سرنگوں ہو ‘ پامال ہو ‘ اشاروں پر چلنےوالی ہو ‘ فرماںبردار ہو ‘ وہ ہے عبد۔ البتہ یہ کیفیت کبھی تو جبری ہوسکتی ہے ‘ جیسےانگریز آئے اورانہوں نےہمیں اپنا غلام بنالیا ‘ اب ہم ان کا کہنا مان رہے ہیں ۔اس جبری اطاعت پر بھی قرآن مجید میں لفظ ِعبادت کا اطلاق ہوا ہے۔جب موسیٰ اورہارون علیہما السلام فرعون کے دربارمیں دعوت دینے کے لیے ‘ اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے گئے‘تو فرعون نے بڑے طنطنے اور غرور کے ساتھ کہا : {وَقَوْمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ(۴۷)}(المؤمنون)’’ان دونوں کی قوم تو ہماری غلام قوم ہے۔‘‘ ایک محکوم قوم کے افراد ہوکر ان کی اتنی جرأت ہوگئی ہے کہ آج ہمارےسامنے سینہ تان کر کھڑے ہوئے ہیں اورہم سےکہہ رہےہیں کہ ہم ان کو اللہ کا نبی و رسول مانیں اور ان کی اطاعت کریں ! اورہم ان کومان لیں کہ یہ اُ س ہستی کے نمائندے ہیں جسے یہ اپنا ربّ کہتے ہیں ۔ کسی کو رسول ماننے کا معنی یہ ہے کہ آپ کو اُس کی اطاعت کرنی پڑے گی۔ یہ کیا اُلٹی گنگا ہے کہ ہماری محکوم قوم کے افراد آج ہمارےسامنے کھڑے ہو گئے ہیںکہ ہم ان کی اطاعت کریں !
ایک تو فرعون نے یہ لفظ استعمال کیا بندگی کے مفہوم میں ‘پھر ایک دوسرے موقع پر فرعون نے موسیٰ علیہ السلام پر یہ طنز کیا: {اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا} (الشعراء:۱۸)’’کیا ہم نے تمہیں چھوٹےہوتے اپنے ہاں پالا نہیں تھا؟‘‘مَیں اگراس کا مفہوم اداکروں تو اپنی گفتگو میں ہم کہیں گے:’’اے موسیٰ ! کیا تم ہمارے ہی ٹکڑوں پر نہیں پلے ہو ؟‘‘ہمارے ہی گھرمیں نہیں رہے؟ نُرَبِّکَ وہی لفظ آگیا۔ ہم نےتمہیں پالا پوسا ہے ‘ پرورش کی ہے ‘ اورآج تم ہمیں اپنے رب کی بندگی کی دعوت دینے آ گئے ہو؟ہماری بلی اور ہمیں ہی میائوں!تو موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: تمہیں یہ تو یاد رہا کہ تم نے مجھے اپنے گھر میں پالا پوسا ہے ‘ کھلایا پلایا ہے‘ لیکن:
{وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ(۲۲) } (الشعراء)
’’اور یہ وہ احسان ہے جو تم مجھے جتلا رہے ہو جس کے عوض تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے!‘‘
میری پوری قوم کو غلام بنایا ہوا ہے۔ ان سے جبری مزدوری کروارہے ہو‘بیگار لے رہے ہو ‘ اور انہیں ظلم کی چکی میں پیسا ہو اہے ‘ وہ تمہیں یاد نہ آیا ‘ اوراس قوم کے ایک فرد کو تم نے اپنے خاندان کے ساتھ اپنے محل میں رکھ کر اُس کی پرورش کردی تووہ احسان یا دہے۔تو یہ لفظ ِ عبد اُس تعلق (relationship )کو ظاہر کرنے کے لیے کہ جو آلِ فرعون اوربنی اسرائیل میں اُس وقت تھا‘قرآن مجید میں دوجگہ استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا مجرد اطاعت ‘مجرد غلامی بھی اس کا مفہوم ہے ‘ چاہے وہ جبری ہی ہو ‘ لیکن اصطلاحاً لفظ ’’عبد‘‘ اللہ کے لیے آئے گا اور عبادت کے لفظ میں اضافی طور پر یہ مضمون شامل ہوگا کہ یہ بندگی ‘ یہ اطاعت‘ یہ عاجزی اور یہ تذلل زبردستی کی نہ ہو ‘مارے باندھے کی نہ ہو ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے جذبہ سے سرشار ہوکر اطاعت کی جائے ‘ تب وہ عبادت بنے گی۔
جذبۂ تشکر کا نتیجہ: جذبۂ پرستش
عبد اور معبود کا یہ تعلق سورئہ فاتحہ کے آغاز ہی سے ظاہر ہو رہا ہے :{اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo} وہ منعم ہے‘وہ محسن ہے ‘ وہ رزّاق ہے ‘ وہ خالق ہے ‘ وہ پروردگار ہے ‘ وہ پالن ہار ہے ‘ وہ رحیم ہے ‘وہ رحمٰن ہے۔ اس تصور کے نتیجے میں وہ جذبہ اُبھر کر انسان کو آمادہ کرتاہے کہ ہمہ تن اپنے آپ کو اُس ہستی کے سامنے ڈھیر کرڈالے ‘ اُس کے قدموں میں ڈال دے ‘ اُ س کےسامنےبچھادے۔ درحقیقت ترازو کا وہ پلڑا جو پہلی تین آیات کی تین ڈوریوں پر مشتمل ہے وہ جڑا ہو اہے چوتھی آیت سے {اِیَّاکَ نَعْبُدُ}۔ جس اللہ کا یہ مقام و مرتبہ اُس کےاسماء وصفات سے ظاہر ہورہاہے‘ جواب میں اُس کے لیے ہمارے پاس کیا ہونا چاہیے تھا ؟عبادت!کہ بندہ اُس کے انعامات اور احسانات کے تصور سے اور اُس کے جذبہ ٔتشکر اور محبت سے سرشارہوکر ‘ اُس کےسامنےاپنے آپ کو جھکادے۔
اس بات کو بڑی خوب صورتی کےساتھ امام ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیم ؒنےواضح کیا ہے۔ اگرچہ جمہور کے نزدیک مجر د لفظ عباد ت کے معنی ہیں کسی کے سامنے اپنے آپ کو گرا دینا (العبادۃ التذلل)‘لیکن یہ گرادینا جبراً بھی ہوسکتاہے۔ امام ابن تیمیہؒ اور حافظ ابن قیمؒ کے نزدیک اللہ کی عبادت یہ ہے: العبادۃ تجمع اثنین: غایۃَ الحُبِّ مع غایۃ الذُّلِّ والخُضوع یعنی دو چیزیں جمع ہوں گی تو عبادت بنے گی:ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ انتہا درجے کی محبت اور دوسرے انتہا درجےکی عاجزی اور تذلل یعنی اُس کے سامنے اپنے آپ کو بچھادینا۔
سورئہ لقمان کےدرس کے سلسلے میں یہ بات واضح ہو چکی ہےکہ جذبۂ تشکر سے عبادت کا بڑاگہرا ربط وتعلق ہے ‘اس لیے کہ جب انسان کسی ایسی ہستی کا شکر کرناچاہتا ہے کہ جس کی وہ خد مت بھی بجا لاتا ہو‘ تب تو معاملہ مختلف ہے۔ والدین کے آپ پر احسانات ہیں اور آپ بھی ان پر احسان کرنے والے ہیں کہ آپ نے ان کی مقدور بھر خدمت کی۔اس سے کچھ نہ کچھ دل میں اطمینان ہوجاتاہے۔ اگر اولاد سعادت مند ہواور والدین کا انتقال ہو جائے تو دل میں ایک حسرت رہتی ہے کہ ہمیں کوئی زیادہ موقع نہ ملا کہ ان کی خدمت کر سکتے۔ بہرحال دنیا میں کسی کا بھی کوئی احسان ہو تو فطر تِ انسانی کا تقاضا ہے کہ وہ احسان کا بدلہ چکانا چاہتی ہے:
{ہَلْ جَزَآئُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُ(۶۰)} (الرحمٰن)
’’ احسان کا بدلہ کیا ہوسکتا ہے سوائےاحسان کے! ‘‘
جس نے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہےتم بھی اس کےساتھ بھلائی کرو۔ یہ جزا بھی شکر کابدلہ ہے‘ یہ بھی فطرت کا تقاضا ہے ‘ لیکن کوئی ہستی ایسی بھی ہے جس کےاحسانات وانعامات کا تو آپ کو بڑا گہرا شعور حاصل ہوگیالیکن آپ اس کی کوئی خدمت نہیں کرسکتے۔ مثلاً سورج کےبارے میں کسی نے سوچا کہ یہ ہمارا بڑا محسن ہے ‘ ہماری فصلیں اسی سے پکتی ہیں ‘ یہ ہوائوں کا چلنا‘ یہ بارشوں کا برسنا ‘ہمارا سارا نظام اسی سے چلتا ہے۔ کون ہے جو سمندر کےبخارات کی بوندوں کو اُوپر اٹھاکر لےجارہا ہے؟ چنانچہ جس کو بھی یہ شعور حاصل ہوگیا تو اس کے دل میں اس سورج کے لیے شدید جذبۂ شکر پید اہوگیا ‘ لیکن وہ سورج کی کیا خدمت کرے ؟کیا سیوا کرے؟کیا بدلہ چکائے ؟ جہاں احسا سِ شکر توہو لیکن انسان کوئی بدلہ نہ چکا سکتا ہو ‘ وہاں وہ ہاتھ جوڑتا ہے ‘حمد کے ترانے گاتا ہے‘اُس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرتا ہے‘ سر جھکا دیتا ہے‘ سجدہ کردیتاہے۔ یہ درحقیقت اُ س کا جذبۂ تشکر ہے ‘ جس نےجذبۂ پرستش کی شکل اختیار کرلی۔سر جھکانا کیا ہے؟ عاجزی ہے۔ رکوع اس عاجزی کے اظہار کا ابتدائی درجہ ہے اور سجدہ گویا انتہا درجے کی عاجزی کا اظہار ہے۔
غور کیجیے کہ سورج کو سجد ے کیوں کیے گئے؟ اس کی یہی توجیہہ ہے۔ انسان بغیر کسی سبب کے یوں ہی اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔ آخر سورج کی پرستش ہورہی ہے۔ لوگ انتظار میں کھڑے ہیں کہ جب سورج ذرا سا سر نکالے تو اس کی پوجا پاٹ شروع ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ تین اوقات میں ہمارے لیےسجدہ کرنا حرام کردیا گیا ہے۔طلوعِ شمس کے وقت سجدہ نہ ہو ‘ مبادا کسی کو خیال ہوجائے کہ اِس کا سورج کی پرستش سے کوئی تعلق ہے۔ غروبِ شمس کے وقت سجد ہ نہ ہو‘ اورجب سورج عین نصف النہار پر ہو اس وقت سجد ہ نہ ہو۔دنیا میں جس چیز کی سب سے زیادہ پرستش کی گئی ہے وہ سورج ہے۔ شماس دیوتا ‘ آمون را وغیرہ کے ناموں سے ہر جگہ سورج کی پرستش کی گئی ہے۔ کلدانیا میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی وہاں سب سے بڑا دیوتا سورج تھا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عالم ِمادّی اور عالم اسباب میں ہمارے سلسلہ ٔحیات کی ضروریات کا جو سائیکل چل رہا ہے ‘ اس میں سورج کو بڑی ہی اہم) (crucial حیثیت حاصل ہے ۔تو جن کی نگا ہ اس عالم ّمادّی اور اسباب میں اُلجھ کر رہ گئی ‘اس سے آگے گزر نہ سکی وہ مسبّب الا َسباب تک نہ پہنچ سکے۔ وہ جو اقبال نے کہا ؎
گاہ مری نگاہِ تیز چِیر گئی دلِ وجود
گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں! کبھی انسان کی نگا ہ عالم اسباب ہی میں اُلجھ کر رہ جاتی ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ عالم ِ اسباب میں جو اہم ترین چیز نظر آئے گی وہ سورج ہے۔چنانچہ سورج کو اس لیےپوجا گیا کہ جذبہ ٔتشکر لازما ً جذبۂ عبادت کی شکل اختیار کرتا ہے ۔ اگر وہ تشکر کسی ایسی بالاتر ہستی کا ہے‘ جس کی آپ کوئی خدمت بجا نہیں لا سکتے‘ جس کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتے تو یہ جذبۂ تشکر پرستش کا رخ اختیار کر سکتا ہے۔
عبادت : کلی اور ہمہ وقتی اطاعت
قرآن کریم کی سورۃ الذاریات کی یہ آیات ملاحظہ کیجیے:
{وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۶) مَــآ اُرِیْدُ مِنْہُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَــآ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ(۵۷) اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْـقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ(۵۸)}
’’اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اس لیے کہ وہ میری بندگی کریں۔مَیں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا‘اور نہ مَیں یہ چاہتا ہوں کہ یہ مجھے کھلائیں ‘ پلائیں۔یقیناً اللہ ہی سب کو رزق دینے والا‘ قوت والا‘ زبردست ہے۔‘‘
مجھے اپنے بندوںسے نہ کوئی رزق چاہیے ‘ نہ مجھے یہ احتیاج ہے کہ وہ مجھے کھلائیں پلائیں ۔اللہ تو خود ہی رزّـاق ہے‘ بڑی طاقت والا ‘ بڑی قدرت والا ‘ وہ تو ان چیزوں سے ماورا ہے۔ اُ س کی بندگی یہ ہوگی کہ اپنے آپ کو اُس کے سامنے جھکاؤ ‘اُس کی اطاعت قبول کرو‘ زندگی میں اُس کےبندے بن کر رہو ‘ اُس کی فرماںبرداری اختیار کرو۔ یہ بات البتہ ذہن میں رہے کہ یہ فرماںبرداری نہ جزوی ہوسکتی ہے اورنہ جز وقتی ۔
آج کل ’’آجر اور مستأجر کے باہمی تعلق ‘‘ (Employer-employee relationship) کا ہمارا جو تصوّر ہے‘ اس کی وجہ سے وہ آقا اور بندے والا تصور ذہنوں سے نکل چکا ہے‘ اس لیے کہ ہمیں اس کی کوئی مثال سامنے نظر نہیں آتی۔ اگر کوئی شخص ایک دن کی مزدوری پر کام کررہاہے ‘ وہ آٹھ گھنٹے کام کرے گا اوروہی کام کرے گا جس کاآپ کےساتھ معاہدہ طے پایا ہے۔ شام کو اجرت لے کر وہ فارغ ہے ۔ آپ اُس کے آقا اورمالک نہیں ہیں ۔ کوئی ملازم ہے تو جو اُس کےفرائض ہیں وہ اداکرے گا۔ کوئی کلرک ہے تو آپ اس سے جھاڑو نہیں دلوا سکتے۔ ایک اور شخص جس سے آپ نےٹھیکے (contract )پر کوئی معاملہ طے کیاہےتوآپ اس سے کوئی اورمطالبہ نہیں کرسکتے۔ عبدیت کو جزوی یا جز وقتی ملازمت پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔یہ جو عبدیت ہے یہ کلی اور ہمہ وقتی ہے ۔بندہ تو ہر وقت بندہ ہے ‘ اسے ہر وقت ہر حکم مانناہے‘ کسی حکم کو وہ لوٹا نہیں سکتا ‘ اس لیے کہ یہاں کوئی contract نہیں ہے ‘ یہ کوئی معاہدے کی بنیاد پر کام نہیں ہورہا‘ بلکہ یہ بندگی ہے ‘ جو جزوقتی یا جزوی نہیں ہو سکتی۔
اس میں اللہ تعالیٰ کایہ کرم اور رحمت ہے کہ اُ س نے استثناء (exception) رکھا ہے کہ کہیں بھول جاؤ ‘ کہیں خطا ہوجائے تو پریشانی اورپشیمانی کے ساتھ لوٹ آؤ‘میں معاف کردوں گا۔ یہ اُس کاکرم ہے‘ وگرنہ واقعہ یہ ہے کہ وہ تعلق اتنا نازک ہے کہ آپ نے اس کے ایک حکم سے سرتابی کی تو وہ تعلق ختم ہوگیا‘ لیکن اُس نے ہماری کمزوریوں کو جو ہماری پیدائش میں موجود ہیں ‘ان کا لحاظ کیا ہے۔ اُسی نے یہ فرمایا ہے : {وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(۲۸)}(النساء)’’اور انسان کمزور پید اکیا گیا ہے۔ ‘‘
انسان میں نسیان بھی ہے ‘ بھول بھی جاتاہے۔ چنانچہ دعا سکھائی گئی:
{رَبَّـنَا لَا تُؤَاخِذْنَــآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَاج} (البقرۃ:۲۸۶)
اے ہمارے پروردگار!اگر بغیر ارادے کے ہم سے کوئی خطا ہوگئی ہو‘ ہم کہیں بھول گئے ہوں ‘ چوک گئےہوں ‘ کہیں ہم جذبات کی رو میں بہ گئے ہوں تو ہم سے درگزر فرمانا‘ ہمارا مواخذہ نہ کرنا!انسان جیسے ہی متنبہ ہوجائے کہ مجھ سے خطا ہوئی ہے ‘ مَیں مقامِ بندگی کے نامناسب روش اختیارکربیٹھا ہوں ‘ وہ لوٹے گا تو اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا ۔البتہ بندگی اپنے مفہوم کے اعتبار سے نہ جز وی ہوسکتی ہے اور نہ جز وقتی ہوسکتی ہے ‘بلکہ وہ کلی اورہمہ وقتی اطاعت ہوگی ‘ اورمحبت کے جذبہ سے سرشارہوکر ہوگی ۔ اب اگر یہ کیفیت ہے اور انسان کہے ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘تو وہ سچ کہہ رہاہے ‘اور اگر یہ کیفیت نہیں ہےاوروہ کہہ رہا ہے: ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘تو اُس نے اظہارِ حال کے اعتبار سے جھوٹ کہا ہے۔وہ اپنے قول میں صادق نہیں ہے ‘ وہ ایسی بات کہہ رہا ہے جس پر وہ پورا نہیں اُتر رہا ۔ اس اعتبار سے یہ چونکادینے والی چیز ہے ۔ یہی وہ بات ہے جس کو اقبال نے کہا ہے ؎
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را!’’جب مَیں کہتا ہوں کہ مَیں مسلمان ہوں تو لرز اٹھتا ہوں‘ اس لیے کہ میں کلمہ لا اِلٰہ اِلا اللہ کے لوازم اور تقاضوں کو جانتا ہوں۔‘‘
یہاں سےوہ بات آگے چلے گی تو پھراس کا تعلق جڑتا ہے ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ‘‘ سے‘ کہ کتنی بڑی بات مَیں کہہ رہا ہوں ‘ مجھ پر لرزہ طاری ہورہا ہے۔پروردگار! مَیں اس میں تیری مدد کا محتاج ہوں ‘ تُو ہی اعانت فرمائےگا‘ تُوہی مدد فرمائے گا تو مَیں اپنی بات پر پورا اُتر سکوں گا ۔ اپنےزورِبازو پر اتنی بڑی بات زبان سے نہیں نکال رہا‘ بلکہ یہ بھی درحقیقت اللہ کے حوالے کردینے والی بات ہے۔ اُسی کا ایک پہلو ہےکہ مَیں نے ارادہ کیا ہے‘ عزم کیا ہے۔مَیں تجھ سے عہد کررہا ہوں لیکن جب تک تیری تائید اور نصرت شامل ِحال نہ ہو گی‘ اس عہد پر پورا اُترنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔
نبی کریم ﷺ کی جومسنون دعائیں ہیں ‘نماز کےبعد کےکچھ اذکار ِ مسنونہ ہیں ‘ ا ن میں سے ایک یہ بھی ہے :
((اللّٰھُمَّ اَعِنِّي عَلٰى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ))(۳۲)
’’ا ے اللہ! میری مدد فرمااس پر کہ مَیں تیرا ذکر کروں‘تیرا شکر اداکرسکوں‘ اور باحسن ِ وجوہ تیری بندگی کر سکوں ۔‘‘(آمین یا ربّ العالمین!)
(جاری ہے)
حواشی
(۳۰) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب الانتہاء عن المعاصی‘ح۶۴۸۳ وصحیح مسلم‘ کتاب الفضائل‘باب شفقتہ ﷺ علی امتہ‘ ح۵۹۵۷۔
(۳۱) ملا حظہ ہو:حقیقت و اقسامِ شرک‘ تالیف ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ
(۳۲) مسند احمد :۵/ ۲۴۴‘ وسنن ابی داوٗد:۳۶۱‘ وسنن النسائی:۱۳۰۴۔امام البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025