یہود‘ قرآن اور ہمڈاکٹراسراراحمدؒ‘بانی تنظیم اسلامیخطبہ ٔمسنونہ کے بعد تلاوتِ آیات:
اَعُوْذ باللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰن الرَّجِيْم - بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
{یٰبَنِیْٓ اِسْرَاۗئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(۴۷) } (البقرۃ)
{ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق وَبَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ ط ذٰلِکَ بِاَنـَّــہُمْ کَانُـوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَیَـقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(۶۱)} (البقرۃ)
رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَيَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِی يَفْقَھُوا قَوْلِی ....
آج کے موضوع پر اس سے قبل بھی مختلف حوالوں سے بات ہو چکی ہے۔ کم از کم میرے بچپن یا نوجوانی تک تومعاملہ یہ تھا کہ لفظ’’ یہودی‘‘ کو ہم گالی کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہودی کس بلا کا نام ہے ! ہماری زبان میں لفظ سؤر بولنا بھی پسند نہیں کیا جاتاتھا‘ حالانکہ وہ بھی اللہ کی مخلوق ہے ۔ اسی طرح یہودی لفظ بھی زبان پر لاتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس ہوتی تھی۔آج وہی یہودی دنیا میں ایک بہت بڑی طاقت بن چکا ہے۔ اس وقت عالمی سیاست کے پیچھے درحقیقت کچھ اور ہے جبکہ سامنے کچھ اور نظر آ رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہودیت کا ہے ۔ اب لوگوں میں بہت آگاہی ہو گئی ہے کہ یہ ایک قوم اور نسل ہے ۔ شروع سے ہم پڑھتے آئے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ میں جن پر اللہ کا غضب نازل ہونے کا ذکر ہے‘ وہ یہودی تھے۔ میرے بچپن اور جوانی تک ان کی کوئی دُنیاوی حیثیت نہیں تھی۔ یہ تو ۱۹۴۸ء میں ’’اسرائیل ‘‘کے نام سے ایک ملک وجود میں آیا۔اس ملک کے حوالے سے تب لوگ نہیں سمجھتے تھے کہ یہ ایک یہودی ملک ہے۔ آج ازروئے قرآن سوچیں کہ یہ کون ہیں! ان کا معاملہ کیا ہے؟ ہمارے ساتھ ان کی نسبت کیا ہے؟ قرآن مجید میں ان کا ذکر کن حوالوں سے کیا گیا ہے؟
یہود یا بنی اسرائیل ہم سے پہلے کی اُمّت ِمسلمہ تھے۔ جیسے ہم سیدنا محمدﷺ کے اُمتی ہیں‘ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اُمتی ہیں ۔جیسے حضرت محمدﷺ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہیں اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹےحضرت اسحاق علیہ السلام اورپھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک نسل چلی‘ جن کا لقب ’’اسرائیل‘‘ تھا۔ عبرانی زبان میں اس کا مطلب ہے : عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے جو بنی اسرائیل (اسرائیل کے بیٹے) کہلائے۔ ان سے جو قومیں اُبھریں‘ لاکھوں لوگ پیدا ہوئے وہ سب کے سب بنو اسرائیل کہلائے۔ نسلی قومیت کے اعتبار سے یہ اگرچہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے زمانے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے تک موجود تھےلیکن ان کی حیثیت ایک اُمّت کی نہیں بلکہ قوم کی تھی۔ اخلاقی اور عملی اعتبار سے ان میں برائیاں پیدا ہو گئی تھیں‘ البتہ توحید ان کے اندر بہت اچھی طرح رچی بسی تھی۔ یہ بت پرستی سے ہمیشہ اجتناب کرتے رہے۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے ان کو ایک اُمّت کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ اُمّت کتاب کی بنیاد پر بنتی ہے‘ چنانچہ جب ان کو تورات عطا ہوئی تب یہ اُمّت بن گئے۔ حضرت مسیح علیہ السلام سے ۱۴۰۰ سال قبل انہیں تورات عطا کی گئی ۔ازروئے الفاظِ قرآنی:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَلَا تَکُنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَاۗئِہٖ وَجَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَاۗئِ یْلَ (۲۳)} (السجدۃ)
’’اورہم نے موسیٰ ؑ کو بھی کتا ب عطا کی تھی تو آپ کسی شک میں نہ رہیے اُس کی ملاقات سے اور اس ( تورات) کو ہم نے بنادیاتھاراہنمائی بنی اسرائیل کے لیے۔‘‘
یہیں سے یہ فرق نوٹ کر لیں کہ قرآن پوری نوعِ انسانی کے لیے ہدایت بن کر آیا ہے جبکہ تورات صرف بنی اسرائیل کے لیے ہدایت نامہ تھی۔ بہرحال یہ قوم ایک اُمّت ِمسلمہ کی حیثیت سے قائم رہی۔ ان کو اپنے بارے میں زعم ہو گیاتھا کہ ہم اللہ کے لاڈلے اور چہیتے ہیں۔ واقعی ان پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہواتھا‘ اس میں کوئی شک نہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ان کو فرعونیوں سے نجات دلائی۔ مصر سے نکلنے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بڑے بڑے معجزے دکھائے گئے۔ اس کے بعد ان کو راستہ دینے کے لیے عصا کی ضرب سے سمندر پھٹ گیا۔ عصائے موسوی سے ایک چٹان سے بارہ چشمے بہ نکلے۔ ہر قبیلے کا علیحدہ چشمہ تاکہ آپس میں لڑائی نہ ہو۔ ہر قوم نے اپنا گھاٹ معین کرلیا۔صحرائے سینا میں ان کودھوپ کی سختی سے بچایاتو ان کے اوپر مسلسل ابر چل رہا تھا۔ بھوک لگی تو معجزانہ طریقے سے اللہ نے ان کو من و سلویٰ عطا کیا ۔پھر اللہ نے ان کو کتاب دی۔کوہِ طور صحرائے سینا میںہے۔چالیس دن کا چلہ کروا کر جس میں آپؑ مسلسل روزہ سے تھے‘ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا کی۔ دس احکامات دیے جو کہ پتھر کی سلوں کے اوپر کندہ تھے۔ قرآن پاک میں دو مرتبہ ان کا تفصیل سے ذکر آیا ہے جبکہ ایک حدیث نبویؐ ہے‘ جس کے راوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں:
((لَتَرْکَبُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وذِرَاعًا بِذِرَاعٍ وَباَعًا بِبَاعٍ، حَتّٰی لَوْ اَنَّ اَحَدَھُمْ دَخَلَ جُحْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمَ، وَحَتّٰی لَوْ أَنَّ أَحَدَھُمْ جَامَعَ أُمَّہُ لفَعَلْتُم))(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی‘ ومجمع الزوائد)
’’تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کی پیروی کروگے بالشت در بالشت‘ہاتھ در ہاتھ اور باع(دونوں ہاتھوں کی لمبائی)در باع‘ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بل میں گھسا ہو گا تو تم بھی ضرور گھسو گے۔ اور اگر ان میں سے کسی بدبخت نے اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کی ہو گی تو تم بھی ایسا ضرورکروگے۔‘‘
امام بخاری ومسلم کی نقل کردہ روایت کے آخر میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا یہ سوال بھی درج ہے کہ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی؟ ’’اے اللہ کے رسولﷺ ! کیا پہلے لوگوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا : فَمَنْ؟ ’’تو اور کون مراد ہیں؟‘‘ یعنی تم سے پہلے کی اُمّت یہود ونصاریٰ ہی توہیں ۔
سورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل سے خطاب پر مشتمل جو مسلسل دس رکوع آئے ہیں‘ ان میں یہود کے عقیدے کی گمراہیوں‘ ان کے عمل کی گمراہیوں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ہمیں آئینہ دکھایا گیا ہے کہ تم نے بھی ایسا کرنا ہے‘ اس سے بچو۔ یہود کو زعم ہو گیا تھا کہ ہم تو اللہ کے چہیتے اور لاڈلے ہیں۔ہمیں تو آگ چھو ہی نہیں سکتی ‘اگر چھوئے گی بھی تو چند روز کے لیے۔مسلمانوں کو بھی زعم ہو گیا ہے کہ ہم اُمّت ِمحمدیؐ ہیں‘ جہنم میں اگر جائیں گے تو تھوڑی دیر کے بعد ہمیں نکال لیا جائے گا۔ جبکہ اللہ نے نہ تورات میں ایسا وعدہ کیا تھا اور نہ قرآن میں یہ وعدہ ہے ۔اگر دل میں حقیقی ایمان ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر گناہوں کا پلڑا بھاری ہوا تو جہنم میں داخل کرنے کے بعد سزا دے کر نکال لیا جائے گا ‘ لیکن اگر محض نام کا مسلمان ہے اور دل میں ایمان کی رمق بھی موجودنہیں ہےتو ایسا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ یہ مسلمانوں سے نہیں بلکہ اہل ایمان سے وعدہ ہے۔ اس وقت میں تفصیل نہیں جا سکتا۔ اس کی بہترین مثال سورۃ الحجرات کی یہ آیت ہے:
{قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا ۭ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ۭ } (الحجرات:۱۴)
’’یہ بدو کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں ۔( اے نبی ﷺ! ان سے) کہہ دیجیے : تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ بلکہ تم یوں کہو کہ ہم مسلمان (اطاعت گزار) ہوگئے ہیں اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘
زبان کے اقرار سے ایک انسان مسلمان تو بن گیا لیکن مومن بننا تب ہوتا ہے جب اسے دِلی یقین بھی حاصل ہو جائے‘ ورنہ نہیں۔
چنانچہ یہ گمراہی بھی ہم میں پیدا ہوئی کہ ہم اللہ کے حبیب مکرمﷺ کے پیروکار ہیں اور شفاعت پر ہمارا لازماً حق ہے۔ متعدد احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے لوگ آپﷺ کے پیروکار نہیں ہیں۔ جیسے یہ حدیث مبارکہ ہے:
((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ))(صحیح البخاری)
’’جسے میری سُنّت پسند نہیں ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
یہ کوئی نسلی معاملہ نہیں بلکہ عقیدے اور ایمان کا معاملہ ہے ۔اللہ کے سارے وعدے ایمان کی بنیاد پر ہیںـ ۔ بہرحال جو برائیاں یہود میں آئیں وہ ہم میں بھی درآئیں۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا‘حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما اس کےراوی ہیں:
((لَیَأْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ))(سنن الترمذی)
’’میری اُمّت پر بھی مصائب و حوادث اسی طرح واقع ہوں گے جیسے بنی اسرائیل پر ہوئے ‘بالکل ایسے جیسے ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے۔‘‘
یہ تشبیہ انتہائی فصیح و بلیغ ہے۔ ان دونوں اُمتوں میں دو ہزار سال کا فصل ہے۔ ۱۴۰۰ قبل مسیح میں تورات نازل کی گئی جبکہ ۶۰۰ ء کے بعد حضورﷺ پر قرآن نازل ہوا۔ یہ کُل ملا کر ۲۰۰۰ سال ہو گئے۔ فاصلہ تو بہت ہوگیا مگر جو ان پر بیتا بعینہٖ وہی ہم پر بیت رہا ہے۔ اس پر میں نے ۱۹۹۳ء میں اعتکاف کی حالت میں چند مضامین تحریر کیے تھے جو میری اس کتاب میں شامل ہیں: ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتوں کا ماضی ‘حال اور مستقبل‘ اور مسلمانانِ پاکستان کی خصوصی ذمہ داری۔‘‘ تاریخی تسلسل کے بغیر تو چلنا ناممکن ہے ۔کہاں سے چلے تھے ؟کدھر پہنچے ہیں؟ ان میں کون کون سے مقامات آئے ہیں؟ کہاں جانا ہے؟ سورئہ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے عروج و زوال کے چار اَدوار کا ذکر کیا ہے :
{وَاٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَاۗئِ یْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلًا (۲) ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ ۭ اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا(۳) وَقَضَیْنَآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَاۗئِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّاکَبِیْرًا(۴) فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ اُوْلٰىھُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّنَآ اُولِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ ۭ وَ کَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلًا(۵) ثُمَّ رَدَدْنَا لَکُمُ الْکَرَّۃَ عَلَیْھِمْ وَ اَمْدَدْنٰکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِیْنَ وَجَعَلْنٰکُمْ اَکْثَرَ نَفِیْرًا(۶) اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ ۣ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَھَا ۭ فَاِذَا جَاۗءَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ لِیَسُوْۗءٗا وُجُوْھَکُمْ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ کَمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّلِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا(۷) عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ ۚ وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ۘ وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا(۸)} (بنی اسرائیل)
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب (تورات) دی اور ہم نے اُسے ہدایت بنایابنی اسرائیل کے لیےکہ تم مت بنائو میرے سوا کسی کو کارساز۔اے اُن لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے سوار کرایا تھا نوح ؑکے ساتھ‘یقیناً وہؑ ہمارا بہت ہی شکر گزار بندہ تھا۔اور ہم نے متنبہ کر دیا تھا بنی اسرائیل کو کتاب میں کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچائو گے اور بہت بڑی سر کشی کرو گے۔پھر جب ان دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آگیاتو ہم نے تم پر مسلط کر دیے اپنے سخت جنگجو بندے تو وہ تمہاری آبادیوں میں گھس گئے ‘ اور (یوں ہمارا) جو وعدہ تھا وہ پورا ہو کر رہا۔پھر ہم نے تمہاری باری لوٹائی ان پر اور ہم نے مدد کی تمہاری مال و دولت اور بیٹوں کے ذریعے سے اور بنا دیا تمہیں کثیر تعداد (والی قوم)۔اگر تم نے کوئی بھلائی کی تو خود اپنے ہی لیے کی ‘اور اگر کوئی برائی کمائی تو وہ بھی اپنے ہی لیے کمائی۔پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا‘تا کہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور وہ داخل ہو جائیں مسجد میں جیسے کہ داخل ہوئے تھے پہلی مرتبہ‘اور تباہ و برباد کر کے رکھ دیں (ہر اُس شے کو )جس کے اوپر بھی انہیں قبضہ حاصل ہو جائے۔ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے‘ اور اگر تم نے وہی روش اختیار کی تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے۔اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا رکھا ہے۔‘‘
سیدنامحمدﷺ کی بعثت تک یہ چار دورگزر چکے تھے: ایک عروج‘ ایک زوال پھر ایک عروج‘ ایک زوال ۔ پہلا عروج ایک طرح سے ان کی خلافت ِراشدہ کا دور کہلائے گا ‘جیسے ہمارے ہاں خلافت ِراشدہ کو ایک زریں دور کہا جاتا ہے ۔اس میں تین متفق علیہ خلافتیں ہیں حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر‘ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی‘ جبکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں اختلاف ہو گیا تھا۔ پورا عالم ِاسلام حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں نہیں تھا‘ شام اور مصر باہر رہے تھے۔ اسی طرح بنی اسرائیل کی تاریخ میں تین بادشاہوں کا زمانہ اس دور کا عہد ِزریں کہلاتا ہے: حضرت طالوت‘ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کےبیٹوں نے مملکت کو دو حصوں میں تقسیم کر لیا تھا۔اسرائیل کے نام سے شمالی مملکت بنی جبکہ یہودا کے نام سےجنوبی مملکت بنی۔ اسرائیل کا پایہ تخت سامریہ تھا جبکہ یہودا کا یروشلم ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے یروشلم میں مسجد تعمیر کی تھی لیکن یہ لوگ اسےٹیمپل (ہیکل سلیمانی) کہتے ہیں۔ یہ عروج کا پہلادور تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد زوال کا آغاز ہو گیا ۔ان کے اندر اعتقادی‘ اخلاقی اور عملی گمراہیاں درآئیں۔ نفس پرستی‘ شہوت پرستی اور دولت پرستی پیدا ہوئیں ‘البتہ توحید برقرار رہی۔ پھر اللہ نے ان پر عذاب کے کوڑے برسائے۔
ان کی فضیلت پر مشتمل آیات سورۃ البقرۃ میں دو مرتبہ وارد ہوئی ہیں۔چھٹے رکوع کی پہلی آیت(۴۷) اور پندرہویں رکوع کی پہلی آیت (۱۲۲) کے الفاظ یکساں ہیں:
{یٰبَنِیْٓ اِسْرَاۗئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَo}
’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے اُس انعام کو جو میں نے تم پر کیا تھااور یہ کہ میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت عطا کی تھی۔‘‘
یہ قرآن کہہ رہا ہے ‘ تورات نہیں ۔البتہ پھر قرآن یہ بھی کہتا ہے :
{وَضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ۤ وَبَاۗءُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ ط}(البقرۃ :۶۱)
’’ان پر ذِلت اور مسکنت تھوپ دی گئی اور وہ اللہ کی طرف سے عذاب لے کر لوٹے۔‘‘
یہاں ایک نکتہ ہے کہ وہی اُمّت جو پہلے محبوب ہوتی ہے‘ پھر مغضوب کیوں ہو جاتی ہے!
اللہ کا پہلا عذاب ان پر ۷۰۰ قبل مسیح میں آیاجب آشوریوں نے شمال سے آ کر حملہ کیا اور ان کی مملکت ختم کر دی ۔سو سال بعد مشرق سے بابل (موجودہ عراق) کے بادشاہ بخت نصرکے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے عذاب کا کوڑابرسایا۔اس نے چھ لاکھ یہودی قتل کیے اور چھ لاکھ کو قیدی بنا کر عراق لے گیا جبکہ یروشلم کی کل آبادی بارہ لاکھ تھی۔ یروشلم کی ایک اینٹ بھی سلامت نہیں رہی۔ ہیکل سلیمانی گرا دیا گیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب حضرت عزیر علیہ السلام نے یروشلم کو دیکھا تو ان کی زبان پر یہ الفاظ آ گئے :{اَنّٰی یُحْیٖ ہٰذِہِ اللہُ بَعْدَ مَوْتِہَاج }’’اللہ اس بستی کو‘ اس کے مردہ اور برباد ہو جانے کے بعد کس طرح زندہ اور آباد کرے گا؟‘‘وہ اللہ کے نبی تھے۔ تباہی اس درجے کی تھی کہ ہیکل برباد ہو گیا تھااور ایک بھی ذی نفس باقی نہیں رہاتھا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو موت اور دوبارہ زندگی کا مشاہدہ کرایا۔ { فَاَمَاتَہُ اللہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ۭ } (البقرہ:۲۵۹) ’’اللہ نے سو برس تک ان پر موت طاری کر دی‘پھر ان کو اٹھایا۔‘‘
اس زوال کی انتہا ۵۸۷ قبل مسیح میں ہوئی جب ہیکل سلیمانی اور یروشلم کو ختم کر دیا گیا اور یہ بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی طرح ہانک کرلے جائے گئے ۔ عراق میں یہ ڈیڑھ سو برس تک ایسی حالت میں رہے ۔ پھر اللہ نے ان میں حضرت عزیر علیہ السلام کو مبعوث کیا جنہوں نے ان کے ایمان کی تجدید کی اور کہا کہ اللہ کی جناب میں توبہ کرو‘ اپنے عمل اور اخلاق درست کرو‘ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے گا۔ اس کے بعد سائرس (یاکیخورس) جو ایران کے بادشاہ تھے اور بہت ہی نیک آدمی تھے‘ انہوں نے عراق پر حملہ کیا اور وہاں کی سلطنت کو ختم کر کے بنی اسرائیل کو کہا کہ تم جائو اور اپنا ملک آباد کر لو۔ یہی بادشاہ ’’ذوالقرنین‘‘ کہلاتے ہیں جو یہودیوں کے محسن اعظم ہیں۔ اسی لیےیہودیوں نے قریش سے کہا تھا کہ اگر محمدؐ نبی ہیں تو بتائیں ذوالقرنین کون ہیں!
بنی اسرائیل کے عروج کا دوسرا دور آیا تو انہوں نے ہیکل سلیمانی کو آباد کیا ۔ دوبارہ اسی عیش پرستی‘ شہوت پرستی اور دولت پرستی میں مبتلا ہو گئے تو پھر عذاب آیا۔یہ دوسرا زوال تھا۔ یونانیوں نے پہلا حملہ کیا اور سکندر اعظم انہیں روندتا ہوا گزر گیا۔ پھر اس کے جرنیل سلوکس کی حکومت قائم ہوئی۔ وہ ہٹے تو رومن آ گئے۔ انہوں نے ان کو پسپا کیا۔ یہاں تک کہ ۷۰ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آ گئے۔اب وہاں رومن کا اقتدار تھا۔ رومن گورنر کے حکم سے بقول ان کے حضرت مسیح علیہ السلام و سولی پر چڑھایا گیا‘ اس لیے کہ یہودیوں نے کہا تھا کہ یہ مرتد اور واجب القتل ہے۔ اللہ نے ان کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا‘ اگرچہ یہودیوں نے تو ان کو اپنے بس پڑتے سولی پر چڑھا دیا تھا۔ بہرحال ایک رومن جرنیل ٹائٹس کے ہاتھوں ۷۰ عیسوی میں دوبارہ یروشلم اور ہیکل سلیمانی مسمار ہوا اور یہودیوں کو فلسطین سےنکال دیا گیا ۔ اس تاریخ سے ان کا وہ دور شروع ہوتا ہے جسے یہExodus کہتے ہیں‘ یعنی دنیا میں ہمارے منتشر ہونے کا دور۔ کچھ یہودی ایشیا کے مختلف علاقوں میں آ گئے‘ کچھ یورپ چلے گئے ‘کچھ امریکہ میں چلے گئے ‘کوئی کہیں اور چلا گیا۔ یہ وقت حضورﷺ کی ولادت سے ۵۰۰ برس قبل کا تھا۔ چنانچہ حضورﷺ کی ولادت سے ۵۰۰ برس پہلے جو ان کا خروج شروع ہوا تھا‘ وہ ۱۹۱۷ء تک چلا۔ یہ ۱۸۰۰ برس ان کے ایسے گزرے ہیں کہ ان کا فلسطین میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔یہ یہود کی تاریخ کا اجمالی تجزیہ ہے۔
مسلمانوں کا پہلا دور عروج عربوں کی زیرقیادت شروع ہوا۔ خلافت ِراشدہ‘ بنواُمیہ اور بنو عباس ۔ دنیا میں ہر طرف ان کا ڈنکا بج رہاتھا ۔اس کے بعد پہلے شمال سے زوال آیا۔ ۱۰۹۹ء میں یروشلم مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ یورپ کے عیسائی ۸۸ برس تک اس پر قابض رہے۔ ۱۱۸۷ء میں صلاح الدین ایوبی نے اس کا بڑا حصہ واپس لیا۔ اس کے بعد مشرق سے تاتاری حملہ آور ہوئے۔ کروڑوں مسلمانوں کا قتل ِعام ہوا۔ انہوں نے خراسان کا پورا وسیع و عریض علاقہ ‘ پورا افغانستان اور ایران تہس نہس کر دیا۔ تاتاریوں کی دہشت کا عالم یہ ہوگیا تھا کہ اگر ایک تاتاری دس بیس مسلمانوں کے پاس آکر کہتا کہ یہاں پر کھڑے رہو ‘ میں گھر سے تلوار لا کر تمہیں قتل کروں گا تو وہ مسلمان دہشت زدہ ہو کر کھڑے رہتے تھے اور وہ آ کر ان کو ذبح کرتا تھا ۔یہ ہے وہ عذاب جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہودکے حوالے سے کیا ہے :
{ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق } (البقرۃ:۶۱)
’’اور ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی۔‘‘
قتل ہو جانا اور ہے جبکہ دہشت زدہ ہو جانا اور شے ہے۔ مسکنت دراصل کمزوری اور کم ہمتی ہے۔ کمزور لوگوں کی وجہ سے قوم کے اندر مقابلے کی طاقت ختم ہو جاتی ہے۔ یہ دہشت تھی جو مسلمانوں پر طاری ہو گئی ۔۱۲۵۸ء میں بنوعباس کے آخری خلیفہ کو محل سے نکالا گیا اور تاتاریوں نے اسے جانور کی کھال میں لپیٹ کر اس پر گھوڑے دوڑا دیے۔ اس خلیفہ کانام مستعصم باللہ تھا۔اس پر شیخ سعدی نے یہ نوحہ کہا تھا: ؎
آسماں را حق بود گر خوں ببارد بر زمیں
بر زوالِ ملک مستعصم امیر المؤمنیں!(آسماں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ امیر المؤمنین مستعصم باللہ کی مملکت کے زوال پر زمین پر خون کی بارش برسائے۔)
ہمارا دوسرا دورِ عروج انہی تاتاریوں کی نسل سے آیا ہے۔جنہوںنے کروڑوں مسلمانوں کو قتل کیا تھا‘ اللہ نے ان کو اسلام کی توفیق عطا کر دی اور وہ خود مسلمان ہوگئے۔ان میں ترکانِ صفوی بھی تھے اور ترکانِ عثمانی بھی ۔ خلافت ِعثمانی ان کے پاس آگئی۔ یہ عرب نہیں بلکہ اصل میں تاتاری تھے۔ دنیا میں ان کی عظیم سلطنت قائم ہوئی۔ پھر ہماراحال وہی ہوا جو سابقہ اقوام کا ہوتا رہا۔ عیاشیاں اور دنیا پرستی ہم پر غالب آ گئیں۔ چنانچہ ہم پر پھر عذاب آیا۔ کہیں انگریز آگئے‘ کہیں فرانسیسی تو کہیں ہسپانوی آ گئے۔ پورا عالم اسلام یورپ کی نوآبادیاں بن گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ ختم ہو گئی اور اس کا نام ونشان مٹ گیا۔یہ تین براعظموں پر محیط تھی: پورا شمالی افریقہ‘ پورا مغربی ایشیا اور مغربی یورپ۔ ایک عظیم مملکت اپنا وجود کھو بیٹھی اور اس کی جگہ چھوٹا سا ملک ترکی باقی رہ گیا۔ یہ تمام اس عظیم سلطنت کی باقیاتِ صالحات ہیں ۔ یہ بوسنیا ہے‘ یہ فلاں ہے اور وہ فلاں ہے۔ اس دور کے بچے کھچے اثرات بلغاریہ اور یوگوسلاویہ میں ہیں۔ یہ چار دور ہم پر مکمل ہو گئے تھے۔
پانچواں دور پچھلی صدی کے آغاز میں شروع ہوا۔۱۸۹۷ء میں صہیونیت (Zionism) کی ایک تحریک شروع ہوئی ۔انہوںنے اپنے پروٹوکول متعین کیے۔ بیس برس کے اندر اندر اتنا رسوخ حاصل کر لیا کہ اس وقت کی سپر پاور اور عظیم سلطنت برطانیہ کے ذریعے سند مل گئی کہ یہودی فلسطین میں واپس آ کر آباد ہوسکتے ہیں۔ وہاں یہ جائز اور ناجائز دونوں طریقوں سے آئے۔ عربوں کی جائدادیں خریدیں۔ ان کے گھر خریدے۔ ان کے کھیت خریدے ۔یہ اس طرح سودا کرتے تھے کہ بھئی تمہارے گھر کی قیمت دو لاکھ ہے ہم تین لاکھ دیتے ہیں‘ تم کل تک یہاں سے نکل جائو۔ پیسہ بے تحاشا تھا۔ بینکنگ کے سلسلے میں انہوں نے پورےیورپ کو جکڑا ہواتھا۔اس کے ۳۱ برس بعدیعنی ۱۹۴۸ء میں اسرائیل قائم ہو گیا۔ اب یہ عالمی سطح پر آیا۔ اپنی ایک چھوٹی سی حکومت بنائی۔یہ ہے وہ معاملہ جس سے ہم دوچار ہیں۔ ایک وقت تھا جب مولانا الطاف حسین حالی نے کہا تھا : ؎
اے خاصہ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
اُمّت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے!
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے!اس کے بعد تحریکیں شروع ہوئیں۔ ہندوستان میں جماعت اسلامی‘ ایران میں فدائین‘ مصر میں اخوان المسلمون اور ترکی میں نورسی تحریک ۔میں اس خوش فہمی میں تھا کہ ہم زوال کے نقطے تک پہنچ چکے ہیں‘ا ب ہمارا عروج دوبارہ شروع ہو جائے گا ۔میرا اندازہ تھا کہ اب عروج کا وقت آگیا ہے۔۱۹۴۷ء میں ہم بھی آزا دہو گئے ۔ ہندوستان میں سے دو ٹکڑے مسلمانوں کو ملے: مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان۔ انڈونیشیا آزاد ہو گیا اور ملائیشیا بھی ۔ عرب ممالک آہستہ آہستہ آزاد ہوتے چلے گئے۔ اسی دوران ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے عربوں کو شرم ناک شکست دی۔ اسرائیل جب آزاد ہوا تو ایک چھوٹی سی ریاست تھامگر پھر اس نے مصر سے جزیرہ نمائے سینا کا علاقہ لے لیا۔ شام سے گولان کی پہاڑیاں لے لیں۔ اردن سے دریائے اردن کا مغربی کنارہ چھین لیا۔ بیت المقدس اس وقت تقسیم (divided)تھا ‘آدھا یہودیوں اور آدھا مسلمانوں کے پاس تھا جبکہ مسجد اقصیٰ پوری طرح مسلمانوں کے زیر انتظام تھی لیکن ۱۹۶۷ء میں پورا یروشلم ان کے قبضے میں چلا گیا۔ عربوں کو بدترین شکست ہوئی ۔۱۹۷۱ء میں اتنی ہی شرم ناک شکست پاکستان کو ہوئی ۔ پچانوے ہزار کڑیل جوان ہندو کے قیدی بنے۔ اس کے بعد وہ لہر آئی جب لاہور میں مسلم ممالک کی سربراہی کانفرنس ہوئی۔
افسوس کی بات ہے کہ۱۹۷۴ء کی میری رائے بدل گئی ہے۔ ہمارے زوال کا ابھی آخری نقطہ نہیں آیا۔ابھی بہت بڑی تباہی آ رہی ہے۔ وہ نقطہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی محبوب اُمّت پر عذاب کیوں بھیجتا ہے؟بنی اسرائیل کو یہ زعم ہو گیا تھا کہ ہم اللہ کے لاڈلے بیٹے ہیں:{نَحْنُ اَبْنٰٓـــؤُا اللہِ وَاَحِبَّـــآؤُہٗ ط}(المائدۃ:۱۸) ’’ہم تو اللہ کے بیٹے ہیں اور اُس کے بڑے چہیتے ہیں۔‘‘قرآن تصدیق کرتا ہے کہ ہم نے ان کو علم کی وجہ سے چنا اور پسند کیا تھا : {وَلَقَدِ اخْتَرْنٰـہُمْ عَلٰی عِلْمٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ (۳۲)}(الدخان) ’’اور ہم نے علم رکھنے کے باوجود اُن(بنی اسرائیل) کو اقوامِ عالم پر ترجیح دی تھی۔‘‘ایسی قوم پر ایسے ایسے عذاب کیوں آئے؟ جس قوم کے پاس اللہ کی کتاب ہو ‘شریعت ہو وہ اللہ کی نمائندہ ہوتی ہے۔ اگر وہ شریعت اور کتاب کو پیٹھ پیچھے پھینکتی ہے تو وہ کافروں سے بڑھ کر مجرم ہے۔ ہمارا بھی یہی حال ہو گیا ہے۔ شریعت ِمحمدیؐ کے عامل‘ حامل ِقرآن۔ علامہ اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ آج کا بندہ پیسے کا پرستار ہے۔ اپنے آپ کو عبدالرحمٰن کہتا ہے جبکہ حقیقت میںعبدالدینار و عبدالدرہم ہے ۔ بات صحیح ہے۔ جو عذاب اُن پر آیا‘ وہی عذاب آج ہم پر ہے۔ وہی سیلاب کا عذاب ہم پر آ رہا ہے۔ ’’نیوورلڈآرڈر‘‘ کا لفظ پہلی مرتبہ امریکی صدر بش سینئر نے استعمال کیا۔ ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے ذریعے پوری دنیا کے کاروبار کو کنٹرول میں لیا۔ اس کے بعد ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن پوری دنیا کی زراعت کو اپنے قبضے میں لینے کے لیے قائم کی۔دنیا میں کوئی ملک اپنا بیج پیدا نہیں کر سکے گا‘ بیج ہم سے لینا ہو گا۔ وہ ایسا بیج دیں گے جو ’’خصی‘‘ ہو گا۔ ایک فصل کے بعد دوسری فصل نہیں اُگے گی۔ یہ جو دجالی فتنہ بڑی تیزی سے آ رہا ہے ‘ اس کا ہدف عالم ِاسلام ہے۔
میں نے تاتاریوں کی دہشت کا ذکر کیا تھا۔بعینہٖ آج وہی حال ہمارا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ایران کے بعد عراق اور پھر پاکستان ہدف ہو سکتا ہے۔ اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے ۔ جنرل مشرف چاہے کتنا ہی بش کے نام کی تسبیح پڑھتے رہیں مگر پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکہ کو کھٹک رہا ہے۔ عراق پر حملہ ہونا ہے۔ اب ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے کہ صدر صدام نے شام کو کیمیائی ہتھیار دے دیے ہیں‘ لہٰذا شام پربھی حملہ ہونا چاہیے۔ سوڈان اور لیبیا تو ان کے پہلے ہی حریف ہیں۔ سعودی عرب ان کا بغل بچہ ہے ۔ آلِ سعود پہلے برطانیہ کے وظیفہ خوار تھے جبکہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا ‘تیل کا وجود نہیں تھا۔ شاہی خاندان کو وظیفہ ملتا تھا جس سے وہ اپنا کام چلاتے تھے۔ اب یہ امریکہ کے گھڑے کی مچھلی ہیں ۔ امریکہ کو یہ تکلیف ہے کہ ان کوجو قرآن پڑھایا جا رہا ہے اس میں جہاد کا ذکر ہے۔ سعودی قرآن کی تحریف کیسے کریں گے ؟خطبوں میں تو انہوں نے روک دیا ہے کہ جہادی آیات پر خطبے نہ دیے جائیں۔اسی طرح قرآن میں موجود یہود و نصاریٰ کی آیات کو خطبے میں نہ لیا جائے۔ یہ قانون نافذ ہو چکا ہے۔ البتہ مدارس میں تو قرآن پورا پڑھایا جاتا ہے۔ اللہ نے اس کا خود ذمہ نہ لیا ہوتا تو شاید یہ جہاد کی آیات بھی قرآن سے نکال دیتے۔ع ’’خود بدلتے نہیں ‘قرآں کو بدل دیتے ہیں!‘‘
یہ جو تیز و تند سیلاب آ رہا ہے‘ اس کی معرفت کو سمجھیے۔ اس کا ایک outward دل ہے جس کے اندر کوئی اور شے ہے۔ باہر کا خول ہے امریکہ‘ جو یہ کہتا ہے کہ ہم نے پوری دنیا کو کنٹرول کر کے ایک ملک بنانا ہے ۔اسے جہاں سے بھی اندیشہ ہوگا‘ وہ اس کے خلاف کارروائی کر سکتا ہے چاہے کوئی حقیقی جواز ہو یا نہ ہو۔ وہ حملہ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس کے لیے سارے بین الاقوامی قوانین اور دستور ختم ہوچکے ہیں۔ امریکہ میں مَیں خود جاتا رہا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ ہمیں آزادی تھی کہ ایک دفعہ کسٹم سے کلیئر ہو گیاتو اس کے بعد راستہ کھلا ہے۔ حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آتا تھا۔ مگر اب سارے بنیادی حقوق سلب ہوچکے ہیں۔ امریکی دانشور چیخ رہے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں مجھے ایک مضمون ملا جس میں ایک امریکن مصنف نے لکھا ہے کہ امریکہ کو ایک ’’پرل ہاربر‘‘ کی ضرورت تھی۔ جیسے دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں نے پرل ہاربر پر حملہ کیا تو یہ شیر ایک دم اُٹھ کھڑا ہوا اور ایٹم بم بھی استعمال ہو گیا‘اسی طرح ان کو ایک اور پرل ہاربر چاہیے تھا ۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ ان کا پرل ہاربر ہے۔ اس میں امریکہ کے اپنے جنگجولوگ شامل ہیں۔ یہ خود انہوں نے کروایا ہے تاکہ لوگوں میں انتقامی جوش پیدا ہو جائے اور وہ ایک بڑے دفاعی بجٹ کو منظور کر دیں۔یہ لکھنے والا کوئی مسلمان نہیں امریکہ کا شہری ہے۔ یہ ہے ورلڈ dominationکا وہ خواب جو امریکن چاہتے ہیں۔ دوسرا معاملہ تیل کا ہے۔ جنگ کے خلاف تین تین لاکھ کے جلوس نکلے ہیں کہ عراق پر حملہ نہ کیا جائے‘ لیکن پھر بھی انتخابات میں ری پبلکن پارٹی جیت گئی۔ انہوں نے ایسے ایسے سبز باغ دکھا رکھے ہیں کہ ہماری معیشت کا دار و مدار تیل پر ہے اور تیل کے بڑے ذخائر سعودی عرب اور عراق میں ہیں‘لہٰذا اب ان پر قبضہ کرنا ہے۔
امریکہ ایک خول کی مانند ہے۔ دراصل وہ اسرائیل کا تحفظ چاہتا ہے۔ چنانچہ خلیجی جنگ کے بعد امریکی کمانڈر انچیف نے صاف صاف کہہ دیا تھا : ’’ہم تو اس جنگ میں اسرائیل کو بچانے نکلے ہیں۔‘‘ عرب ممالک میںایک تو صدام حسین ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کو اندیشہ ہے ۔ اسرائیل کو دوسرا خوف ہے تو پاکستان سے ہے۔ ۱۹۶۷ء میں چھ روزہ جنگ کے بعد جب یہودیوں کو عظیم فتح حاصل ہوئی تو پیرس میں انہوں نے جشن منایا۔ اس موقع پربن گوریان نے تقریر کے دوران کہا تھاکہ ہمیں کسی عرب ملک سے کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اگر حقیقی خطرہ ہے توپاکستان سے ہے۔ پاکستان اس وقت تک ایٹمی طاقت نہیں بنا تھا‘ لیکن پاکستانی فوج اور پاکستانی عوام کے مذہبی جذبے کا معاملہ حساس تھا۔ اس حوالے سے اب وہ پہلے والی کیفیت نظر نہیں آتی۔سارا رعب و دبدبہ اب ختم ہو رہا ہے۔ ہماری فوج کو امریکہ نے Rogue Army (بدمعاشوں کی آرمی) قرار دیا تھا‘ لیکن جب جنرل پرویز مشرف ۲۰۰۱ءمیں بش کی جیب میں چلے گئے تو اب انہوں نے تھوڑا سانظر انداز کیا ہے‘ ورنہ یہ کہ آپ بچنے والے نہیں ہیں۔ سارے عرب ممالک میں محسوس ہو رہا ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے ‘ان کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ فلسطین کے اندر آج کتنے گھر ہیں جو اُڑا دیے گئے۔ فلاں شخص کو پکڑ کر مارڈالا۔ کہاں اسرائیل کے اندر ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا مرحلہ آ گیا تھا‘ اور کہاں سب نسیاً منسیا ہو گیا۔ اس نے ہر جگہ قبضہ کیا ہوا ہے ۔ دندناتا ہوا جدھر چاہے ٹینک لے جائے۔ روزانہ کتنے لوگ مار ے جارہے ہیں ۔ شیرون صاف کہہ رہا ہے کہ ہم ان کی کمر توڑ دینا چاہتے ہیں ‘کوئی activist باقی نہ رہے۔ ایسے الفاظ سننے کو مل رہے ہیں کہ عربوں کو زیادہ سے زیادہ وہ سٹیٹس دیا جائے گا جو امریکہ میں ریڈ انڈینز کو حاصل تھا۔تیس کروڑ عرب اور سب اسلامی ممالک دَم سادھےدیکھ رہے ہیں ۔یہ ہے وہ {ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ۤ} ۔
دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمان اور ۵۷ اسلامی ممالک ہیں مگر کیا مجال کہ جو ایک جگہ اکٹھے ہو جائیں۔ بیٹھ کر سوچیں کہ کیا طوفان آرہا ہے! ہمارےساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ کہنے کو ہم امریکہ کے بڑے دوست ہیں لیکن امریکہ میں ہمارے شہریوں کے ساتھ کیسا سلوک ہو رہا ہے ! ایک مسلمان پروفیسرکینیڈا سے واشنگٹن پہنچتا ہے ۔ اس نے ایک کانفرنس میں شرکت کرنی ہے ‘ جس کا باقاعدہ دعوت نامہ آیا ہوا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوا‘ کینیڈین شہریت ہے۔ پندرہ گھنٹے اس کو خراب کیا ہے۔ تنگ آ کر اس نے کہا کہ چھوڑ دیں‘واپس جا رہا ہوں توبتایا گیا کہ آپ واپس بھی نہیں جا سکتے جب تک آپ کے فنگر پرنٹ اور فوٹو نہ لے لیں۔ یہ سب کچھ ہو رہا ہے مگر ہماری حکومت کیا کررہی ہے؟ ڈاکٹر عامر عزیز کو اٹھا کر لے گئے۔ ڈاکٹر احمد خواجہ انتہائی نیک آدمی ہیں ‘ان کے اندر جذبہ تھا کہ اپنے افغان بھائیوں کی مدد کریں۔ اب یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ خاندان کے نو افراد ایک ہی رات میں اٹھا کر لے گئے ۔کراچی میں گئے ہوئے ان کے ماموں جو ۸۰ برس کے ہیں‘ ان کو بھی لے گئے۔ ہماری حاکمیت کو کھیل میں لگا دیا گیا ہے۔ الیکشن ہو رہے ہیں۔ وزارتیں تقسیم ہو رہی ہیں۔ یہ ہمارا میوزیکل چیئر ہے جبکہ اصل اختیار کسی اور کے پاس ہے۔ یہ ہے اصل میں وہ عذاب!
یہود کامسلمانوں سے تقابل کیا ہے؟ یہود کا جرم اکہرا ہے جبکہ ہمارا دوہرا۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہود کا یہ کام نہیں تھا کہ وہ باقی دنیا تک اللہ کا دین پہنچائیں۔ ان کو صرف یہ حکم تھا کہ عمل کرو۔ یہ نہیں تھا کہ پوری دنیا تک پہنچانا ہے۔ کتاب بھی دی گئی تو صرف بنی اسرائیل کے لیے‘جبکہ محمد رسول اللہﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَاۗفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا} (سبا:۲۸)
’’اورہم نے نہیں بھیجا ہے آپؐ کو مگر تمام د نیا والوں کے لیے بشیر ونذیر بنا کر۔‘‘
اب اُمّت کا یہ فرض تھا کہ وہ پوری دنیا تک اسلام کو پہنچائیں کجا یہ کہ ہم نے خودبھی اسلام کا دامن چھوڑ دیا۔ پوری دنیا میں کوئی اسلامی ملک ایسا نہیں ہے جس کو ہم نمونہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ سب سے بڑی بدبختی یہ ہے ہم نے ہندوستان کو تقسیم کرایا‘ لاکھوں آدمی مارے گئے‘ خونی لکیر کھنچوائی‘ عصمتیں لٹیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہوا مگر وہ اسلام آج تک قائم نہیں ہوا۔ عریانی اور فحاشی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ تینتیس فیصد خواتین یونین کونسل کی سطح پر لا کر میدان میں بٹھا دی گئی ہیں ۔ مخلوط معاشرت کا جوفتنہ اب آرہا ہے وہ کبھی نہیں آیا۔ پوری دنیا میں کہیں بھی تینتیس فیصد سیٹیں خواتین کے لیے مخصوص نہیں کی گئیں‘ چاہے کوئی بڑے سے بڑا جمہوریت کا دعوے دار ملک ہو۔ درحقیقت عالم اسلام کو برباد کرنے کے پروگرام دیے جا رہے ہیں کہ جو تہذیب ہماری ہے وہی تمہاری ہونی چاہیے۔ انہوںنے جو راستہ صدیوں میں طے کیا ہے ‘ وہ ہم سے طے کرانا چاہتے ہیں۔ اس سے بچائو کی ایک ہی صورت ہے کہ اگر ہم دنیا میں کسی ایک ملک میں اسلام کا نظام قائم کر کے دکھا دیں تو اللہ کی طرف سے اس کے عذاب کی گرفت سے نکل آئیں گے۔ہمیں گواہ بنایا گیا ہے اور گواہی بھی پوری دنیا کی۔ ارشادِ ربانی ہے:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَاۗءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْدًا ط} (البقرہ:۱۴۳)
’’اور( اے مسلمانو!) اسی طرح توہم نے تمہیں ایک اُ مّت ِوَسط بنایاہےتاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اوررسول ؐ تم پر گواہ ہو ۔‘‘
افسوس یہ ہے کہ وہ ملک جو اسلام کےنام پر بنا ‘وہیں اسلام نہیں آیا!
اقول قول ھذا واستغغر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
tanzeemdigitallibrary.com © 2025