(دین و سیاست) اسلام کا سیاسی نظام - ایوب بیگ مرزا

10 /

اسلام کا سیاسی نظامایوب بیگ مرزا

’’عدل‘‘ اسلام کا catchword ہےاور اسلامی نظام میں روح یا ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اجتماعی زندگی کے تین پہلو ہیں۔معاشرتی سطح پرمرد اور عورت ‘معاشی سطح پر آجر اورمستأجریعنی سرمایہ دار اور مزدور جبکہ سیاسی سطح پر حکمران اور عوام کے حقوق و فرائض میں عدل پیدا کرنا انسان کی سب سے بڑی اجتماعی ضرورت ہے ۔یادرہے کہ توازن عدل کا جزوِ لاینفک ہے۔ اس تحریر میں ہم سیاسی سطح پر عدل یعنی حکمران اور عوام کے درمیان عادلانہ توازن کےحوالے سے اسلام کے اصولوں کا ذکر کریں گے۔اسلام سیاسی سطح پر صرف بنیادی اصول دیتاہے جس کی روشنی میں وقت کے تقاضوں کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے مکمل عادلانہ و منصفانہ نظام طے کرنا ’’اَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ‘‘کے قرآنی اصول کے مطابق مسلمانوں کے اجتماعی شعور اور مرضی پر چھوڑ دیتا ہے ۔
سیاسی نظام کے حوالےسے شریعت کا پہلا اصول یہ ہے کہ اصل اور مطلق حاکم تو صرف اللہ تعالیٰ ہے اور وقت کے پیغمبر علیہ السلام اللہ کے خلیفہ ہوا کرتے تھےجو اللہ تعالیٰ کے احکامات نافذ کرتے اور ان کی روشنی میں زندگی کے بقیہ معاملات طے کرتے تھے۔ ختم ِنبوت کے بعد جس طرح وہ ذمہ داری جو رسول ادا کرتے تھے‘ اس اُمّت کو منتقل ہوئی‘ اسی طرح خلافت والا منصب بھی پوری اُمّت کو بحیثیت مجموعی منتقل ہوا۔چاروں خلفائے راشدین مختلف طریقے سے منتخب ہوئے‘ لہٰذا مسلمانوں کو آزادی حاصل ہے کہ وہ کسی بھی انداز میں اپنا خلیفہ منتخب کر سکتے ہیں‘شرط صرف ایک ہے کہ انہیں قرآن وسُنّت کی حدود کے اندررہنا ہوگا ۔ یہاں اس تاریخی واقعہ کی مثال دینا مفید ہوگا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حج کے ایام میں بتایا گیا کہ کچھ لوگ فلاں شخص کو آپ کے بعد خلیفہ بنانے کا ذکر کررہے ہیں تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ یہ تو لوگوں کا حق ہے کہ وہ طے کریں کہ ان کا خلیفہ کون ہو گا۔ گویا کسی کو اُن پر جبراً مسلط نہیں کیا جا سکتا (کوئی مسلط ہو جائے تو پھر عوام کو کیا کرنا چاہیے ‘یہ ایک الگ بحث ہے)۔ لہٰذا اُمّت ِمسلمہ کا ہر ہر فرد ’’اَلْمُسْلِمُ کُفْوٌ لِمُسْلِم ‘‘ کے اصول کے مطابق اللہ کا خلیفہ ہے جواپنا حق خلافت اپنے میں سے کسی دیانت دار اور اہل شخص کے سپرد کرکے اُسے بطور خلیفہ چن سکتا ہے ۔پھر بطور خلیفہ اُس کی ذمہ داری یہ ہو گی کہ قرآن و سُنّت کی بالادستی قائم کرے اور اس کی روشنی میں باہمی مشورہ سے بقیہ معاملات طے کرے ۔ پس ’’اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ‘‘ کے اصول کے مطابق مسلمانوں کا باہمی مشورہ سے اپنے میں سےکسی کو خلیفہ بنا لینا اسلام کے سیاسی نظام کادوسرا اصول ہے۔ ہم نے یہ وضاحت کرنا اس لیے ضروری سمجھا کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے دو طرفہ انتہا پسندی ہے۔ ایک طرف جمہوریت پسند ہیں جو کہتے ہیں کہ جمہور کو مطلق اختیارات حاصل ہیں ۔وہ سیاہ کرے یا سفید‘ اس پر کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے۔لوگوں کی لوگوں پر لوگوں کے لیے حکومت ہونی چاہیے۔ قرآن و سُنّت کی بالادستی کی اہمیت والے اسلامی اصول کو یا تووہ سمجھتے ہی نہیں یا نظر انداز کرتے ہیں۔ دوسری طرف مذہبی لوگ یہ کہہ کر بات ختم کردیتے ہیں کہ شریعت کی بالادستی قائم ہونی چاہیے لیکن اِس کے ساتھ عوامی منشا کو نافذ کرنے کی اہمیت والے اسلامی اصول کو یا تو وہ سمجھتے ہی نہیں یا نظر انداز کر دیتے ہیں۔
موجودہ دور میں اسلام کے سیاسی نظام کی صحیح سپرٹ اور عادلانہ توازن کی صحیح ترین توجیہہ ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نےاپنی کتاب ’’پاکستان میں نظامِ خلافت :کیا‘ کیوں اور کیسے؟‘‘ میں کی ہے۔ اس میں قرآن و سُنّت کی بالادستی اور مسلمانوں کی طرف سے حق رائے دہی کے ذریعے خلیفہ کےچناؤ کے دونوں اصولوں کی باریکیوں کو واضح کیا گیا ہے۔ آئین میں یہ طے کیا جائے کہ قرآن و سُنّت سے منافی قانون سازی کسی سطح پر بھی نہیں کی جا سکے گی۔ لہٰذا قرآن و سُنّت کی روشنی میں اہلِ علم اجتہاد کریں اور جدید اجتماعی مسائل کے مختلف حل تجویز کریں۔عوام الناس اپنے نمائندوں کے ذریعے جس اسلامی حل کو اپنے لیے زیادہ موزوں سمجھیں‘اسے اختیار کریں ۔اگر کوئی شخص یا جماعت سمجھے کہ فلاں حل قرآن و سُنّت کے دائرے سے باہر ہے تو وہ ملک کے آئین کی محافظ عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) میں جا کرقرآن و سُنّت اور جدید مسائل کے ماہرین کے سامنے دلائل سے ثابت کر دے اور منظور شدہ غیر اسلامی قانون کو کالعدم قرار دلوا دے۔نتیجتاً جو قانون بنے‘ انتظامیہ اسے مکمل شفافیت کے ساتھ نافذ کرےاورقانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے جس کے سامنے تمام شہری برابر ہوں‘ کسی کواستثنا حاصل نہ ہو۔ملک کا سربراہ بھی کسی غیر مسلم اقلیت کے ایک فرد کے ساتھ عدالت میں یکساں طور پر پیش ہو اور جج اسلامی قانون کی روشنی میں آزادانہ فیصلے سنائیں۔ مناسب وقفہ سے خلیفہ کے چناؤ کے لیے بروقت‘ شفاف اور غیرجانبدارانہ ماحول میں چناؤ کا تسلسل ضروری ہے ۔اس میں رکاوٹ ڈالنا معاشرہ میں حبس پیدا کرتا ہے‘جس کا نتیجہ انتشار اور انارکی ہے۔ماضی کی مسلمان سلطنتوں میں اقتدار کی خونی رسہ کشی اور گردن زدنی اسی کا نتیجہ تھی‘ جس سے بچنا ضروری ہے تاکہ عوامی انداز میں پُرامن سیاسی عمل انتہائی مناسب اور معتدل انداز میں جاری و ساری رہے۔ اللہ ربّ العالمین تمام جہانوں کا صرف حاکم ہی نہیں پروردگار بھی ہے ‘ لہٰذا اسلامی ریاست اللہ کے نائب کے طور پر شہریوں پر اللہ کا حکم نافذ کرنے ہی کی نہیں بلکہ ان کی پرورش اور کفالت کی ذمہ دار بھی ہے۔ دراصل یہ دونوں باتیں لازم و ملزوم ہیں۔خلافت ِ ِراشدہ میں قحط کے دوران کفالت کا معاملہ کمزور پڑا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چوری کی قرآنی حد پر مبنی سزا عارضی طور پر معطل فرما کر مثال قائم کر دی۔ اس حوالے سے بھی ہم انتہا پسندی کا شکار ہیں۔ مذہبی طبقہ کی نظر شرعی احکامات و حدود کے نفاذ پر ہے جبکہ جدید طبقہ صرف کفالت ِعامہ کے تصور کا قائل ہے ۔اسلام کی منشا ان میں جامعیت اور اعتدال پیدا کرنا نظر آتی ہے۔
اب حکمران اور عوام کے درمیان حقوق و فرائض کے توازن کی بات کرتے ہیں۔جس طرح مرد و عورت کی آزاد مرضی سےکیے گئے نکاح کے نتیجے میں قائم ہونے والے گھر کا قانونی سربراہ اور کفالت کا ذمہ دار مرد ہے جبکہ عورت پرشریعت کے دائرے میں اس کی اطاعت لازم ہے ‘ بالکل اسی طرح عوام الناس کی آزادانہ مرضی سے قائم ہونے والی حکومت کی اطاعت ان پر لازم ہےاور حکومت پر عوام الناس کی کفالت لازم ہے۔سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ کے مصداق حکومتی سربراہ دراصل قوم کی خدمت پر مامور ہوتا ہے ۔اس حوالے سے اپنے کندھے پر آٹا لاد کر پہنچانے جیسی خدمت اور حریت و مساوات کی کئی مثالیں دورِخلافت ِراشدہ میں موجود ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ
Authority brings responsibility and Responsibility gives Authority 

یعنی اختیار ذمہ داری سونپتا ہے اور ذمہ داری اختیار دیتی ہے۔جس کو جتنا اختیار ہو‘ اس کی اتنی ہی ذمہ داری ہے اور جس کی جتنی ذمہ داری ہے ‘اس کو اتنا ہی اختیار دیا گیا ہے۔
یہاں سے ہم اپنی بات کو پاکستان کے مخصوص معروضی حالات کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہمارے تمام عہدہ داروں اور اداروں بشمول عدلیہ‘ پارلیمنٹ‘ انتظامیہ‘ فوج اور سیاسی حکومتوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا جتنا اختیار ہے اتنی ہی ذمہ داری ہے ۔چونکہ آج کی جدید ریاست کی مختلف ذمہ داریاں اس قدر پیچیدہ اور اسپیشلائزڈ ہیں کہ ایک طبقہ دوسرے کی ذمہ داری ادا نہیں کرسکتا‘ لہٰذا جب آپ کسی اور کے اختیار پر قابض ہوں گے تو لا محالہ اس کی ذمہ داری بھی آپ پر آئے گی جوآپ سے ادا نہیں ہو سکے گی‘ جس کے آپ جواب دہ ہوںگے ۔ اسی طرح اگر کوئی فریق اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دے گا تواسے اپنے اختیارات سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا جس کے لیے اسے عوام کے سامنے جواب دہی کرنا ہوگی۔ذمہ داری اور اختیار کے اس توازن کوقائم کرنے کی آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔جہاں تک اس بحث کا تعلق ہے کہ اپنی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے یا دوسرے کے اختیار چھیننے میں پہل کس نے کی تویہ انڈا مرغی والی تاریخی بحث ہے‘ لہٰذا ہم اس سے کنارہ کشی کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے ۔
جمہوریت میں عوامی حاکمیت کا تصور ہے جب کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ِ اعلیٰ کو کلیتاً تسلیم کرتے ہوئے عوامی خلافت کا تصوّر ہے۔ہم حاکمیت اور خلافت کے فرق کو واضح کرچکے ہیں‘ اب ہمیں عوام کی اہمیت کو بھی سمجھنا ہو گا۔اگر عوام کی اخلاقی سطح اور سیاسی شعور پختہ نہ ہو تو متذکرہ بالا اصولوں پر نہ کوئی ریاست قائم ہو سکتی ہے نہ قائم رہ سکتی ہے۔ لہٰذا عوام میں پیسے اور طاقت کے حامل طبقہ کا اثر و رسوخ ختم کر کے ایسے اہل لوگ جو دیانت داری اور اخلاق کی اعلیٰ قدر و منزلت کے حامل ہوں‘ اُن کی صلاحیتیں بروئےکار لانا اس عادلانہ ریاست کو قائم کرنے کے لیے شرطِ اوّل ہے ۔اسی طرح عوام میں سیاسی شعور کے ذریعے ان کے اجتماعی فائدے اور نقصان کی اہمیت ان پر واضح کرنااور اس کے لیے ذاتی و گروہی مفادات کو قربان کرنے کا جذبہ بیدار کرنا دوسری شرط ہے۔ ظاہر ہے کہ مادہ پرستی اور مفاد پرستی کے مقابلے میں خداپرستی کی بنا پر اخلاقی و ملی جذبہ بیدار کرنے کا یہ کام کسی ایسی جماعت کے بغیر ممکن نہیں جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی کتا ب قرآنِ مجید کی داعی بن کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے تن من دھن قربان کرتے ہوئے میدان میں ڈٹ جائے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے۔بقول اقبال: ؎
تا خلافت کی بِنا دنیا میں ہو پھر اُستوار
لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر!