اسماء اللہ الحسنیٰاز: پروفیسر حافظ قاسم رضوان
سورۃ الاعراف میں ارشادِ ربانی ہے :
{وَلِلہِ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ ط سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۸۰) }
’’اور تمام اچھے نام اللہ ہی کے ہیں ‘ تو پکارو اُسے اُن (اچھے ناموں) سے‘ اور چھوڑ دو اُن لوگوں کوجو اُس کے ناموں میں کجی نکالتے ہیں۔عنقریب وہ بدلہ پائیں گے اپنے اعمال کا۔‘‘
سورئہ بنی اسرائیل ‘آیت۱۱۰میں ارشادِ ربانی ہے:
{قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ط اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ج }
’’آپؐ کہہ دیجیے کہ تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر۔جس نام سے بھی تم پکاروسب اچھے نام اُسی کے ہیں۔‘‘
سورۃ الحشرمیں ارشادِ ربانی ہے:
{ہُوَ اللہُ الْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ط یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَہُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۲۴)}
’’وہی ہے اللہ ‘تخلیق کا منصوبہ بنانے والا‘ وجود بخشنے والا‘ صورت گری کرنے والا۔ تمام اچھے نام اُسی کے ہیں۔ اُسی کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں اور زمین میں ہے۔ اور وہ بہت زبردست ہے ‘کمال حکمت والا۔‘‘
حُسنیٰ‘ أحسن کی تانیث ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اچھے ناموں سے مراد وہ نام ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی مختلف صفات‘ اُس کی عظمت و جلالت اور اُس کی قدرت و طاقت کا اظہار ہوتا ہے۔ لفظ ’اسم‘ سمو سے بنایا گیا ہے‘ جس کے معنی ہیں کسی چیز کی بلندی‘ برتری‘ اونچی اور چوٹی کی وہ علامت جس سے وہ چیز دیگر اشیاء سے ممیز ‘ برتر اور علیحدہ شمار میں آتی ہے۔ چونکہ تعین اسم کے فوائد و اغراض یہی ہیں‘ اسی لیے نام کو اسم کہا جاتا ہے۔ اس کی جمع اسماء ہے۔
(۱) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں :
((لِلّٰهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اِسْمًا، مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدًا، لَا يَحْفَظُهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَهُوَ وَتْرٌ يُحِبُّ الْوَتْرَ)) (صحیح البخاری)
’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹) نام ہیں یعنی ایک کم سو‘ جس نے ان کو حفظ (یاد) کر لیا وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق سے محبت رکھتا ہے۔‘‘
(۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں :
((اِنَّ لِلّٰہ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ اِسْمًا، مَنْ حَفِظَھَا دَخَلَ الْجَنَّۃَ، وَاللّٰہُ وِتْرٌ یُحِبُّ الْوِتْرَ)) وفی روایۃ ابن ابی عمر: ((مَنْ اَحْصَاھَا)) (صحیح مسلم)
’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹) نام ہیں‘ جس نے ان کو حفظ کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا۔ اللہ تعالیٰ طاق ہے اور طاق کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘ اور ابن ابی عمر کی روایت میں حفظھا کی جگہ اَحْصَاھَا (ان کو شمار کر لیا) ہے۔‘‘
(۳) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں :
((إِنَّ لِلّٰهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ)) وَزَادَ هَمَّامٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺَ : ((إِنَّهُ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ)) (متفق علیہ)
’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں‘ ایک کم سو‘ جس نے ان کو شمار کر رکھا وہ جنت میں داخل ہوا۔‘‘ اور ہمام نے ابوہریرہ کی روایت میں نبی اکرم ﷺسے یہ فقرہ زیادہ کیا کہ ’’وہ (اللہ) طاق ہے اور طاق کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘
(۴) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں :
((إِنَّ لِلّٰهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ))(سنن الترمذی)
’’بے شک اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹)نام ہیں‘ جس نے ان کو شمار کر رکھا وہ جنت میں داخل ہوا۔‘‘
(۵) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرمﷺ سے روایت کیاہے :
((إِنَّ لِلّٰهِ تَعَالٰى تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا، مِائَةً غَيْرَ وَاحِدَةٍ، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ، هُوَ اللّٰهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ.....الخ)) (سنن الترمذی)
’’یقیناً اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹)نام ہیں‘ ایک کم سو‘ جس نے ان کو شمار کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا‘ اور وہ (نام) ہیں :اللہ جس کے سوا کوئی (اور) معبود نہیں‘ الرحمٰن الرحیم ..... وھی آخر‘‘
(۶) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے ‘بے شک نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
((إِنَّ لِلّٰهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا، مِائَةً إِلَّا وَاحِدًا، إِنَّهُ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ، مَنْ حَفِظَهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَهِيَ: اللّٰهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْأَوَّلُ الْآخِرُ ..... وھی آخر)) (سنن ابن ماجہ)
’’یقیناً اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹)نام ہیں‘ ایک کم سو‘ بے شک وہ (اللہ) طاق ہے اور طاق کو پسند فرماتا ہے۔جس نے ان ناموں کو (قولاً وعملاً) حفظ کر لیا وہ جنت میں داخل ہوا‘ اور وہ نام یہ ہیں :اللّٰهُ الْوَاحِدُ الصَّمَدُ الْأَوَّلُ الْآخِرُ ..... وھی آخر‘‘
احادیث کی رو سے جن میں تفصیلی اسماء الحسنیٰ موجود ہیں ‘ تین طرق ہیں جو کہ محدثین میں مشہور ہیں:
(ا) پہلا طریق امام ترمذی کا ہے جس کی سب سے زیادہ شہرت ہے ۔اس طریق کو محدثین کی زبان میں طریق (روایت) صفوان بن صالح کہتے ہیں۔ اس طریق کو امام ترمذی کے علاوہ معمولی اختلاف کے ساتھ طبرانی‘ ابن حبان اور ابن خزیمہ نے بھی بیان (روایت) کیاہے۔
(ب) دوسرا طریق زہیر بن محمد کا ہے جسے ابن ماجہ نے بیان کیا ہے۔ اس میں ترمذی کے ناموں کے مقابلے میں زیادہ اختلاف ہے۔
(ج) تیسرا طریق عبدالعزیز بن حصین کا ہے جسے حاکم نے اپنی مستدرک میں بیان کیا ہے۔ اس میں کئی اسماء‘ ترمذی و ابن ماجہ دونوں سے مختلف ہیں۔
جامع ترمذی کی حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
((إِنَّ لِلّٰهِ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ اسْمًا، مَنْ أَحْصَاهَا دَخَلَ الْجَنَّةَ))
’’اللہ تعالیٰ کے ننانوے (۹۹) نام ہیں‘ جس نے ان کو شمار کر لیا (گھیر لیا) وہ جنت میں داخل ہوا۔‘‘
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے فرمانے سے یہ ثابت ہوا کہ اسم پاک ’’اللہ‘‘ کے سوا ننانوے نام اور ہیں جو اسی اسم ذات کی طرف مضاف ہیں۔ گویا کہ یہ قرین قیاس ہے کہ ننانوے کا شمار اسم ’’اللہ‘‘ کے علاوہ ہو اور یہ اسم اپنی شمولیت کے بعد شمار کو پور اپورا سو بنا دیتا ہو۔ یہی مفہوم رائج ہے۔ یہاں حدیث میں جو ’’اَحْصَاھَا‘‘ کا استعمال ہوا ہے‘ اس کے علماء نے متعدد معنی بیان کیے ہیں۔ اکثر نے اس کے معنی ’’حَفِظَھَا‘‘ اختیار کیے ہیں‘ کیونکہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ’’اَحْصَاھَا‘‘ کی جگہ ’’حَفِظَھَا‘‘استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اَحْصَاھَا کے متعدد معنی ہیں‘ جبکہ اس مفہوم کی بھی تردید کی گئی ہے کہ صرف زبانی یاد کر لینا ہی اَحْصَاھَا کے مقصد کو پورا کر دیتا ہے۔ ’’فتح الباری‘‘ میں ہے:
(۱) اَحْصَاھَا کے معنی یہ ہیں کہ دعا مانگنے والا صرف چند اسماء پر ہی اکتفا نہ کر لے بلکہ جملہ اسماء کو پڑھ کر دعا مانگا کرے۔
(۲) ان اسماء کے حقوق پر قیام اور اس کے مقتضی ٰپر عمل کرنا مراد ہے۔ مثلاً ’’الرزاق‘‘ کہے تو اللہ تعالیٰ کی رزق رسانی پر پورا اعتبار بھی کرے۔
(۳) اَحْصَاھَاسے مراد معانی اسماء کا بخوبی سمجھ لینا ہے۔ محاورہ ہے : فلانٌ ذُوحصاۃٍ یعنی فلاں شخص صاحب ِعقل و ہوش ہے۔
قرطبی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے امید ہے کہ مندرجہ بالا تینوں صورتوں میں سے خواہ کوئی بھی صورت ہو‘ صحت نیت کے بعد ہر ایک صورت بندے کو جنت میں لے جانے کے لیے کافی ہے۔
(۴) اَحْصَاھَا کے معنی معرفت کے ہیں‘ کیونکہ جو ان اسماء کاعارف ہوگا وہ مؤمن ہوگا اور جومؤمن ہو گا وہ جنت میں ہی جائے گا۔ معرفت میں اعتقاد کو بھی شامل سمجھیں۔ مثلاً جو دہریہ ہے اسے اسم خالق پر اعتقاد نہیں اورجو صرف فلسفی ہے اسے اسم قادر کے معنی پر پورا یقین نہیں ۔
(۵) اَحْصَاھَا کے معنی عمل کرنا کے ہیں۔ مثلاً جو اللہ تعالیٰ کو حکیم سمجھتاہے وہ اس کے جملہ احکام کو بحسب حکمت ہونا بھی تسلیم کرنا ہے۔ اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کو قدوس جانتا ہے‘ وہ یہ اعتقاد بھی رکھتا ہے کہ وہ ذات جملہ نقائص سے منزہ و پاک ہے۔ ابووفاء بن عقیل نے انہی معانی کو تسلیم کیا ہے۔
(۶) ابن ابطال کا کہنا ہے کہ طریق عمل کے معنی یہ ہیں کہ بعض اسماء تو وہ ہیں کہ جن کی صفات کا اقتدا ہو سکتا ہے ‘ مثلاً رحیم و کریم کہ ان صفات پر بندہ خود کو بھی ان کا خوگر بنا سکتا ہے اور بعض صفات وہ ہیں کہ جن کا اقتدا بندےکے لیے ممکن نہیں ‘جیسے جبار و عظیم وغیرہ۔ ایسے اسماء کے متعلق طریق عمل یہ ہے کہ ان صفات کو اللہ تعالیٰ سے خاص سمجھے‘ ان کا اقرار کرے اور خشوع و خضوع اختیار کرے۔ جن اسماء سے وعدئہ نعمت ملتا ہو‘ ان میں طمع و رغبت پیدا کرے اور جن اسماء میں وعید ہو‘ اس مقام پر خوف و خشیت کو لازم احوال بنائے۔ ’حفظھا‘ اور ’اَحْصَاھَا‘ کے معنی یہی ہیں۔
اب بفضلہ شرح اسماء الحسنیٰ کی ابتدا کی جاتی ہے :
(۱) اللہ
یہ اسم مبارک اللّٰہ کا خاصہ ہے کہ ’’الٰہ‘‘ پر الف لام تعریف داخل ہو کر جزو کلمہ بن گیا‘ یہاں تک کہ بعض نے اللہ کو اسم ذاتی قرار دیا اور الف لام تعریف ہونے سے انکار کیا ہے۔ یہ اسم اللہ ہی کا خاصہ ہے کہ اس پر تائے قسم وارد ہوتی ہے‘ ورنہ حرفِ ت بمعنی قسم کسی اور اسم پروارد نہیں ہوتا۔ یہ اسم اللّٰہ ہی کا خاصہ ہے کہ اَلْحَمْدُ کا استعمال اسی ذات کے لیے ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہا جاتا ہے‘ الحمد للرحمٰن یا الحمد للرحیم وغیرہ نہیں بولا جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ جس طرح یہ اسم مسمیٰ کی ذات و صفات سب پر مجموعاً حاوی ہے ‘ اسی طرح لفظ حمد بھی جملہ نعمت کمال و جلال کا جامع ہے۔ لہٰذا کامل تر اسم کے لیے کامل لغت کی ضرورت تھی۔ یہ اسم اللہ ہی کا خاصہ ہے کہ اس کے آخر میں حرفِ میم شامل کیا جاتا ہے اور وہ حرفِ ندا کا کام دیتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ الگ سے حرفِ ندا شامل نہیں رہتا‘ یعنی اَللّٰھُمَّ کی جگہ یا اَللّٰھُمَّ نہیں کہہ سکتے۔اللہ ہی وہ اسم ذات ہے جو جملہ صفات کو اپنے اندر موجود رکھتا ہے۔ اللہ ہی وہ اسم ذات ہے کہ صفات اس کے مسمیٰ سے نہ خارج ہیں‘نہ زائد ہیں اور نہ ہی اس کی ذات و صفات میں تفریق ممکن ہے۔ اللہ ہی وہ ذات ہے کہ جس کا عرفان ‘عقل اپنے شواہد سے‘ فطرت اپنے معالم سے‘ رُوح اپنے مدارج سے ‘ قلب اپنے حقائق سے اور ایمان اپنی تصدیق سے حاصل کرتا ہے۔اللہ ہی وہ ذات ہے جو نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ہے۔
(۱) {قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَتَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ز وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْرُط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیـْــرٌ(۲۶)}(آل عمران)
’’کہو: اے اللہ! تمام بادشاہت کے مالک! تُو حکومت اور اختیار دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اورتُوسلطنت چھین لیتا ہے جس سے چاہتا ہے‘ اور تُو عزّت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اورتُو ذلیل کر دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ تیرے ہی ہاتھ میں سب خیر ہے۔ یقیناً تُو ہر چیز پر قادرہے ۔‘‘
(۲) {قُلِ اللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عٰلِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ اَنْتَ تَحْکُمُ بَیْنَ عِبَادِکَ فِیْ مَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ(۴۶)} (الزمر)
’’آپؐ کہیے: اے اللہ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! غائب اور حاضر کے جاننے والے! یقیناً تُوفیصلہ کرے گا اپنے بندوں کے مابین اُن تمام چیزوں میں جن میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔‘‘
صحاحِ ستہ کی اکثر کتب میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے ایک شخص کو یہ دعا کرتے سنا:
((اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ، لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ، الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ، يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ، يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ))
’’اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس وسیلے سے کہ ساری حمد تیرے لیے ہے‘ تیرے سوا کوئی اور معبود نہیں‘ تُو واحد (اکیلا)ہے‘ تیرا کوئی شریک نہیں‘ تُو ہی احسان کرنے والا اور آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے اے جلال اور عطاء و بخشش والے‘ اے زندہ و جاوید‘ اے آسمانوں اور زمینوں کو تھامنے والے!‘‘
تو آپﷺ نے فرمایا:’’اس شخص نے اللہ سے اس کے اسم اعظم کےذریعے سوا ل کیا ہے کہ جب بھی اس کےذریعے سوال کیا جائے تو وہ عطا کرتا ہے ‘ اور جب اس کے ذریعے دعا مانگی جائے تووہ قبول کرتا ہے۔‘‘
((اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ))
’’اے اللہ! مجھے اپنے حلال کے ساتھ حرام سے کفایت کرنا اور مجھے اپنے فضل کے ساتھ اپنے غیرسے بے پروا کرنا۔‘‘
’’اللہ‘ ‘اسم عَلم ہے اور ذات باری تعالیٰ کے لیے خاص الخاص ہے۔ علمائے راسخین کے قول کے مطابق یہ اسم کسی سے مشتق نہیں۔صحیح بخاری‘ سنن ترمذی اور دیگر کتب حدیث میں بعض الفاظ کے فرق سے حضورﷺ کی زبانی ہمیں یہ دعا ’’سید الاستغفار‘‘ سکھائی گئی ہے :
((اَللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، وَ أَبُوءُ إِلَيْكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَعْتَرِفُ بِذُنُوبِي، فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ))
’’یااللہ! میرا پروردگار تُو ہی ہے‘ تیرے سوا کوئی معبودنہیں‘ تُو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں ‘ تیرے عہد اور وعدہ پر اپنی استطاعت کے موافق قائم ہوں۔ جو کچھ بھی میں نے کیا اس کی بدی سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔تیری جس قدر نعمتیں مجھ پر ہیں ان کا مجھے اقرار ہے‘ مجھے اپنے گناہوں کا بھی اقرار ہے۔پس تُو مجھے معاف کر دے‘ بے شک گناہوں کو صرف تُو ہی معاف کر سکتا ہے۔‘‘
(۲) اَلرَّحْمٰنُ
رحمٰن اور رحیم دونوں کا اشتقاق رحمت سے ہے مگر ہر دو اسماء میں خصوصیات جداگانہ بھی ہیں۔ الرحمٰن علمیت کے لحاظ سے اسم اللہ کے برابر ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی آیت۱۱۰ میں فرمانِ الٰہی ہے:
{قُلِ ادْعُوا اللہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ ط اَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ج }
’’(اے نبیﷺ!) کہہ دیجیے کہ اللہ کہو یا رحمٰن کہو۔ان میں سے کچھ بھی کہہ لو ‘ اللہ کے تو سب نام احسن و بہتر ہیں۔‘‘
رحمٰن ‘ رحمت سے مبالغے کا صیغہ ہے۔ نظامِ عالم کی بنیاد اسی رحمت سے ہے۔ رحمٰن وہ ہے جس میں رحمت بدرجہ ٔ اَتم موجود ہو۔ سورۃ الانبیاء‘ آیت۱۱۲ میں ارشاد ہوتا ہے:
{وَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ }
’’اور ہمارا ربّ بڑا مہربان ہے جس سے مدد طلب کی جاتی ہے۔‘‘
سور ۃ الرحمٰن کی ابتدائی آیات میں واضح کیا گیا:
{اَلرَّحْمٰنُ (۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (۲) خَلَقَ الْاِنْسَانَ (۳) عَلَّمَہُ الْبَیَانَ(۴) }
’’رحمٰن نے قرآن سکھایا‘ اُسی نے انسان کو پیدا کیا‘ اور اسے بولنا سکھایا۔‘‘
سورئہ مریم کی آیت ۹۳ میں بتایا گیا :
{اِنْ کُلُّ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّآ اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا(۹۳)}
’’نہیں ہے کوئی آسمانوں اور زمین میں مگر وہ آئے گا رحمٰن کے حضور بندے کی حیثیت سے۔‘‘
مستدرک حاکم اور مسند بزار میں ایک خاص دعا نقل کی گئی:
اَللّٰھُمَّ فَارِجَ الْھَمِّ کَاشِفَ الْغَمِّ، مُجِیْبَ دَعْوَۃِ الْمُضْطَرِّیْنَ، رَحْمٰنَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَرَحِیْمَھُمَا، مَا اَنْتَ تَرْحَمُنِیْ فَارْحَمْنِیْ بِرَحْمَۃٍ تُغْنِیْنِیْ بِھَا عَنْ رَحْمَۃٍ مَنْ سِوَاکَ
’’اے اللہ! دل کی فکر کو دور کرنے والے‘ غم کو کھول دینے والے ! اے بے قراروں کی پکار کو سننے والے‘ اور اے دنیا اور آخرت میں رحمت فرمانے والے‘ اور ہر دو جہاں میں رحم کرنے والے‘ مجھ پر رحم تو ہی فرمائے گا‘ اس لیے تُو ہی مجھ پر رحم فرما ایسی رحمت کے ساتھ جو مجھے سب کی رحمت سے بے پروا بنا دے۔‘‘
(۳) اَلرَّحِیْم
یہ اسم بھی رحم سے بنا ہے۔ یہ وہ نام ہے جو رحمٰن کے ساتھ ایک بڑا تعلق رکھتا ہے۔ رحم کا اطلاق عموماً درماندہ ‘ بے کس‘ عاجز و ناتواں اور مصیبت رسیدہ پر کیا جاتا ہے جبکہ رحیم وہ ہے جو ایسے بندوں پر التفات کرنے والا‘ ان کی بگڑی ہوئی کو بنا دینے والا اور ٹوٹی ہوئی کو جوڑ دینے والا ہو۔ طوفانِ نوح کے موقع پر جب حضرت نوح علیہ السلام بیٹے کو کشتی پر بیٹھنے کی دعوت دیتےہیں اور وہ کہتا ہے کہ میں پہاڑ پر چڑھ کر اس سے بچ جائوں گا‘ تو جواب میں حضرت نوح علیہ السلام کا قول نقل کیا گیا ہے:
{قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ ج } (ھود:۴۳)
’’ نوح نے کہا:آج کے دن کوئی بچانے والا نہیں ہے اللہ کے امر سے‘سوائے اُس کے جس پر اللہ ہی رحم فرما دے۔ ‘‘
{الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ0 } (الفاتحہ)
’’بہت رحم فرمانے والا‘ نہایت مہربان ہے۔‘‘
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
((اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمْکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ))
’’تم زمین والوں پر رحم کرو‘ آسمان والا تم پر رحم کرے گا ۔‘‘
اسی طرح ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا))
’’جوہمارے چھوٹے پر رحم نہیں کرتااور ہمارے بڑے کی عزت و توقیر نہیں کرتا‘ وہ ہم میں سےنہیں۔‘‘
سورۃ الحجرات میں ارشاد ہوتا ہے:
{اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ (۱۲) }
’’ یقیناًاللہ تو بہ کا بہت قبول فرمانے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے۔‘‘
سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے :
{ اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۴۳)}
’’بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کے ساتھ شفقت کرنے والا ‘ مہربان ہے۔‘‘
سورۃ النساء میں ارشاد ہے:
{اِنَّ اللہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا(۲۹)}
’’یقیناً اللہ تعالیٰ تم پر بہت مہربان ہے ۔‘‘
حضورِ اقدسﷺ کی مشہور دعا جو آپؐ نے سفر طائف سے واپسی پر کی‘ اُس کا ایک حصہ ہے:
((اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ)) (بحوالہ تاریخ طبری‘ج۱)
’’یا الٰہی! میں اپنی کمزوری‘ بے سروسامانی اور لوگوں کی تحقیر کی بابت تیرے سامنےفریاد کرتا ہوں‘ تُو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘
(۴) اَلمَلِکُ
لغت میں مَلِک بادشاہ کو کہتے ہیں۔دنیا میں اور لوگ بھی مَلِک کہلاتے ہیںاور یہ نام رکھنا شرک بھی نہیں۔ قرآن مجید میں بھی اس کا استعمال اور لوگوں کے لیے ہوا ہے۔ سورئہ یوسف میں الملک کا لفظ آیا ہے اور اس سے مراد بادشاہ ِمصرہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
{وَقَالَ الْمَلِکُ اِنِّیْٓ اَرٰی سَبْعَ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ .....} (آیت۴۳)
’’ بادشاہ نے کہا کہ میںخواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں.....‘‘
قرآن مجید پر غور و فکر اورتدبر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے’’ الملک‘‘ کا اطلاق بحالت مضاف بھی ہوا ہے۔ سورۃ الناس میں فرمایاگیا:
{قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ (۱) مَلِکِ النَّاسِ(۲)}
’’کہیے کہ مَیں پناہ میں آتا ہوں تمام انسانوں کے رب کی۔تمام انسانوں کے بادشاہ کی۔‘‘
یہاں ’’مَلِکِ النَّاسِ‘‘ کے معنی ہیں کل بنی نوع انسان کا بادشاہ۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جملہ نوعِ انسانی کی حکومت اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہی ہو گی۔سورئہ طٰہٰ کی آیت۱۱۴ میںارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فَتَعٰلَی اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ ج }
’’تو بہت بلند و بالا ہے اللہ‘ بادشاہ حقیقی۔‘‘
یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی قطعہ اراضی کا مالک تو ہے مگر اس پر حکمران نہ ہو‘مگر مَلک کے لیے صفت حکمرانی کا ہونا ضروری ہے‘ خواہ وہ اس قطعہ اراضی پر مالکانہ حقوق نہ بھی رکھتا ہو۔ واضح رہے کہ سورۃ القمر کی آیت {عِنْدَ مَلِیْکٍ مُّقْتَدِرٍ(۵۵)} میں مَلِیک بھی اَلْمَلِک کے معنی میں ہی ہے۔
(۵) الْقُدُّوسُ
لفظ قُدُّوْس اسم ہے اور اس کا فعل باب نصَر ینصُر سے آتا ہے۔ یہ تنزیہی نام ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ ربّ العالمین جملہ نقائص و عیوب سے پاک و منزہ ہے۔سنن نسائی کی روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ بعد از فراغت وتر ’’سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْس، سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْس، سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْس، رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَ الرُّوْحِ‘‘ پڑھا کرتے تھے ۔سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْس کے ارشاد میں اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کی گئی ہے اور اس کے ساتھ رَبُّ الْمَلَائِکَۃِ وَالرُّوْح کے فرمان میں حکمت یہ ہے کہ فرشتے بھی قدسی کہلاتے ہیں۔حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی روح القدس (پاک روح)کہا جاتا ہے۔
ایک مسلمان کو یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے تقدس کے معنی صرف اس قدرنہیں ہیں کہ وہ لوازمِ بشریہ سے پاک و برتر ہے‘ بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدوسیت یہ ہے کہ نوری ملائکہ اور پاک روح میں جو بھی ممکنہ نقائص ہو سکتے ہیں ‘ وہ بھی اُس کی ذات میں نہیں۔ مثلاً روح اور ملائکہ کا مخلوق ہونا‘ ان کے آغاز کی ابتدا نیز ان کے انجام کی غایت۔وہ ذاتِ سبحانی ہر ایسے نقص سے پاک اور ان سب سے بالاتر ہے۔
{ہُوَ اللہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَج اَلْمَلِکُ الْـقُدُّوْسُ } (الحشر:۲۳)
’’وہی اللہ ہے (کہ) جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ شہنشاہ‘ نہایت پاک۔‘‘
(جاری ہے)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025