کامیاب لوگوں کی چار عادات
حدیث ِرسولﷺ کی روشنی میںطارق سہیل مرزااللہ کے رسولﷺ نے ہمیں کامیاب زندگی کے لیے ایک دعا سکھائی ہے جو قرآن مجید میں آئی ہے:
{رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۲۰۱)}(البقرۃ)
’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اورہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ ‘‘
اس دعا سے پتا چلتا ہے کہ بہترین اور کامیاب زندگی وہ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں کا احاطہ کرے۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنی زندگی میں بھی انقلاب لائے اور دوسروں کی زندگی میں بھی۔ ان کی کامیابی اتنی مکمل ہے کہ وہ آج بھی ہمارے لیے رول ماڈل ہیں اور قیامت تک رہیں گے ۔ مذکورہ بالا دعا کی روشنی میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ مسلمان دنیا میں پیچھے رہنے کے لیے نہیں آیا۔اس نے دنیا میں آگے رہنا ہےتا کہ اللہ کا دین آگے ر ہے۔ اگر وہ دین کے غلبے کے لیے جدّوجُہد کر رہا ہے اور دنیا میں بھی آگے ہے تو وہ پوری طرح کامیاب ہے۔ اگر ہم دنیا میں اپنے زعم میں کامیاب رہے لیکن اللہ کا دین مغلوب رہا تو ہماری کامیابی حقیقی نہیں ۔
ایک کامیاب مسلمان وہ ہے جسے اُس کے خالق و مالک کی رضا حاصل ہو جائے۔ انسان اکیلے کامیاب زندگی نہیں گزار سکتا۔ زندگی میں کامیابی کے لیے ہمیں دوسروں کی مدد چاہیے۔ دوسرے افراد آپ سے تعاون کے لیے اس وقت تیار ہوں گے جب آپ کے ان سے مضبوط تعلقات ہوں گے۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ وہ کون سی قوت ہے جس کے باعث انسانوں کے درمیان تعاون کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ اس سوال کو ہم اس طرح بھی کر سکتے ہیں کہ عملی زندگی میں دو یا دو سے زیادہ افراد کے درمیان سب سے مضبوط binding force کون سی ہے !
انسانوں کے درمیان معاملات اعتبار اور بھروسے کی وجہ سے چلتے ہیں۔ان کی غیر موجودگی میں تمام رشتے بے روح ہو جائیں گےاور اپنی اصلیت کھو دیں گے۔رشتوں کے صرف نام باقی رہ جائیں گے ۔ایسے کون سے اعمال ہیں‘ وہ کون سی عادات ہیں جو انسانوں کے درمیان بھرو سے اور اعتماد کو ختم کرنے کا باعث بنتی ہیں؟ رسولِ اکرم ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں وہ اعمال چار ہیں‘ جو منافق کی نشانیاں بھی ہیں۔ایک حدیث ِنبویؐ کے الفاظ ہیں:
((آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ : إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْ تُمِنَ خَانَ))(متفق علیہ)
’’منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ بولے‘جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اُس کے پاس کوئی چیز بطور امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔‘‘
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمد ؒ ’’مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب‘‘ میں علاماتِ نفاق کے حوالے سے فرماتے ہیں:
’’یہ مضمون ایک اور متفق علیہ حدیث میں اس سے بھی زیادہ تاکیدی اسلوب میں آیا ہے۔ نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں :((اَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا)) کہ چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جس کسی میں وہ چاروں موجود ہوں تو وہ شخص پکا اور کٹر منافق ہے… اس حدیث میں تین باتوں کے علاوہ جن کا ذکر پچھلی حدیث میں تھا‘ چوتھی چیز آپﷺ نے یہ گنوائی :((وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ)) کہ جب کہیں جھگڑا ہو تو وہ آپے سے باہر ہو جائے‘ نہ زبان پر کنٹرول رہے نہ جذبات پر ۔یہ چوتھا وصف یا چوتھی علامت ہے منافق کی۔ حضورﷺ نے اس حدیث میں مزید وضاحت فرمائی کہ جس میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہیں وہ تو کٹر منافق ہےجبکہ جس میں ان میں سے کوئی ایک وصف پایا جاتا ہے اس میں اسی مناسبت سے نفاق موجود ہے۔‘‘(جلد دوم: ص۲۰۰)
یہ چار نشانیاں بھرو سے اور اعتماد کی قاتل ہیں‘ اس لیے ایک منافق شخص اسلامی معاشرے کے لیے نہایت خطر ناک ہے ۔
پہلی عادت
پہلا وصف یا عادت جس سے انسان کا بھروسا ختم ہوتا ہے اور جو اُس کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے‘ جھوٹ بولنا ہے ۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ جب بات کرے جھوٹ بولے۔ جھوٹ تمام برائیوں کی ماں ہے۔نبی اکرمﷺ کے پاس ایک شخص آیا اورکہا کہ مجھے کوئی ایسی نصیحت کیجیے کہ مَیں برائیوں سے بچ جاؤں۔ آپﷺ نے فرمایا :’’جھوٹ نہ بولو۔‘‘
جھوٹ کی ایک صفت یہ ہے کہ یہ انڈے بچے دیے بغیر نہیں رہتا ۔ اس طرح یہ بڑی تیزی سے پھلتا پھولتا ہے اور فرد کیcredibility کو کم کرتا جاتا ہے۔
دوسری عادت
دوسری عادت سے دنیا اور آخرت میں انسان کی کامیابی مشکوک ہو جاتی ہے ۔ حدیث کے الفاظ ہیں:وَاِذَا وَعَدَاَخْلَفَ یعنی ’’جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ۔‘‘
انسان کے بھرو سے اور اعتبار کو ٹھیس پہنچانے والی دوسری بڑی چیز وعدہ خلافی ہے۔ اسلام سے پہلے عربوں میں جو اچھی عادات تھیں اُن میں ایک وعدہ ایفا کرنا تھا۔ اسلام نے اس عمل کو دین کا حصہ بنا دیا اور اس حد تک نمایاں کیا کہ آپﷺ کے ارشاد کے مطابق جو مسلمان وعدے کی پابندی نہیں کرتا وہ اسی مناسبت سے منافق ہے۔وہ معاشرے میں اپنا اعتبار کھو دیتا ہے ۔
یہ ایک نہایت اہم بات ہے لیکن ہم میں سے اکثر اس کا شعور نہیں رکھتے اور اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہ کرنے کو معمولی امر جانتے ہیں۔شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بنیادی انسانی اخلاقیات پر عمل کی ایک قیمت چکانی پڑتی ہے ۔مثلاً بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے سچ بولنے سے ہمیں نقصان ہوتا ہے یا وعدہ پورا کرنے سے کسی مشکل کا خدشہ ہوتا ہے۔ ہم یہ قیمت ادا کرنے پر تیار نہیں ہوتے ‘ اس لیے جھوٹ بولتے ہیں‘ وعدہ خلافی کرتے ہیں یا خیانت کرتے ہیں ۔
بنیادی انسانی اخلاقیات پر عمل نہ کرنے کے اثرات مسلم اور غیر مسلم دونوں پر یکساں ہوتے ہیں۔ غیر مسلم کی تو صرف ساکھ متاثر ہوتی ہے‘مسلمان پر اس کے ساتھ منافق کا ٹھپا بھی لگ جاتا ہے ۔
تیسری عادت
تیسرا عمل جو بھرو سے اور اعتبار کو ختم کر کے کامیابی سے دورکرنے والا ہے‘وہ ہے خیانت ۔ آپﷺ نے فرمایا: وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ’’جب کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔‘‘
عام طور پر مال و اسباب کے لین دین میں کمی بیشی کو خیانت کہتے ہیں۔ تاہم اسلام میں خیانت کا مفہوم اس سے کہیں وسیع ہے۔ معاملات میں ہر طرح کا لین دین جس میں کمی بیشی یا دھوکے کا عنصر شامل ہو‘ اسے ہم خیانت کہہ سکتے ہیں ۔
معاملات میں لین دین کی ابتدا گفتگو سے ہوتی ہے ۔ بات چیت کے ذریعے ہم آپس میں خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں ۔ کچھ افکار ہم دوسروں کو دیتے ہیں اور کچھ خیالات ہم دوسروں سے لیتے ہیں۔جانبین کی یہ گفتگو ایک دوسرے کے پاس امانت ہوتی ہے۔ اجازت کے بغیر اس گفتگو کو دوسروں تک پہنچانا خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔
رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے:’’جب کوئی شخص کوئی بات کہے‘ پھر وہ چلا جائے تو اس کی بات امانت ہے۔‘‘( جامع ترمذی‘ سنن ابو داؤد)
کئی دفعہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم جو گفتگو کر کے فارغ ہوئے ہیں وہ کسی کی امانت ہے ۔ ہم اس میں خیانت کر دیتے ہیں‘ جس سےہماری ساکھ متاثر ہوتی ہے ۔
تعلقات خراب ہونے کی ایک وجہ
دوست احباب کے درمیان اور گھریلو رشتوں کے درمیان تعلقات عام طور پر گفتگو کی اسی خیانت کے باعث متاثر ہوتے ہیں۔مثلاً بیوی نے کوئی بات خاوند سے کی‘ و ہی بات خاوند نے اپنی والدہ تک پہنچادی یا خاوند کے بھائی‘ بہنوں تک پہنچ گئی۔ اسی طرح خاوند نے کوئی بات بیوی سے کی اور بیوی نے اپنے بھائی ‘ بہنوں تک پہنچا دی۔ دفتر میں ایک ساتھی نے دوسرے سے افسر کے متعلق کوئی بات کی ‘ اگلے دن وہ بات افسر تک پہنچ گئی۔زندگی میں یہ رویہ یا بے احتیاطی بھرو سے اور رشتوں کی قاتل ہے۔
ہمارا پہلا تعارف ہماری زبان ہے۔اسی سے ہم دوسروں پر اثر انداز ہوتے ہیںاور اسی سے ہم دوسروں کو اپنا ہم نوا بناتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زبان کو ’’امین‘‘نہیں بنا سکتے‘ تو اس کے دوسروں پر اثرات ہوں گے۔ ایسی صورت ِحال میں دوسرے کیسے ہم پر اعتبار کر سکتے ہیں ؟
زبان کو ’’امین‘‘ بنانے کا مطلب یہ ہےکہ ہماری زبان سے جو بات نکلے وہ سچی ہو۔ ہماری زبان جو وعدہ کرے وہ پورا ہو۔ہماری زبان سے جو بات ادا ہو وہ نرم انداز میں ہو۔ ایسی زبان پر کون اعتبار نہیں کرے گا اور کیوں نہیں کرے گا ؟ ایسی زبان تو نایاب ہے‘ ہر کوئی اس کا چاہنے والا ہے ‘ سب اس کے متلاشی ہیں۔ جس کے پاس ایسی زبان ہو وہ تو مومن ہے۔ کامیابی کیوں نہ اس کے قدم چومے گی! ایسی زبان کو اللہ کی مدد کیوں نہ حاصل ہوگی !
چوتھی عادت
غصہ یابد کلامی کرنے والے شخص کا بھرم قائم نہیں رہنا۔ یہ چیز دنیا اور آخرت میں خسارے کا باعث بنتی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے منافق کی چوتھی نشانی یون بیاں فرمائی: ((وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ)) کہ جب کہیں جھگڑا ہو تو وہ آپے سے باہر ہو جائے ۔
انسانوں کے باہمی معاملات میں سب سے کڑوی چیز غصہ یا بد کلامی ہے ۔اس کے اثرات تیزاب کی مانند ہوتے ہیں۔ غصہ برسوں کے تعلقات کو چند لمحوں میں خاک کر دیتا ہے۔ جو شخص غصہ ناک پر رکھ کر تعلقات بنانے چلا ہو‘ اس کی کامیابی کے امکانات نہایت کم ہوتے ہیں۔
ان چار اعمال کے اثرات انسان کی سیرت و کردار پر اتنے تباہ کن ہیں کہ ایک روایت میں یہ اضافی الفاظ بھی آئے ہیں :((وَاِنْ صَامَ وَصَلَّى وَزَعَمَ اَنَّهُ مُسْلِمٌ)) خواہ وہ شخص روزہ رکھتا ہو‘ نماز پڑھتا ہو اور اُسے یہ زعم ہو‘ وہ یہ خیال کرتا ہو کہ مَیں مسلمان ہوں‘ لیکن اگر یہ چاروں وصف اس میں موجود ہیں تو وہ پکا منافق ہے ۔
نفاق کی اقسام
نفاق کی دو اقسام ہیں:
۱ - ایمان اور عقیدے کا نفاق: یہ کفر کی بد ترین قسم ہے۔ اس کی نشان دہی صرف وحی سے ممکن ہے۔
۲- عملی نفاق: جسے سیرت و کردار کا نفاق بھی کہتے ہیں۔
ان عادات کے باعث انسان دین سے دور تو ہوتا ہی ہے‘ اس کے ساتھ دنیا میں بھی اس فرد کی نیک نامی متاثر ہوتی ہے۔ان معاملات کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔مجھے اور آپ کو اُس کے ان رویوں سے فرق پڑے گا ۔ اس لیے اسلام نے ان رویوں کو اتنی اہمیت دی ہے۔
عبادات اور معاملات
معاشرے عبادات سے نہیں‘معاملات سے چلتے ہیں۔ عبادات اپنی روح انسان کے معاملات میں منتقل کرتی ہیں‘جس سے معاملات میں خوب صورتی پیدا ہوتی ہے اور وہ بنیادی نظریے کے مطابق ڈھلتے ہیں۔ جس فرد یا معاشرے میں عبادات معاملات کو اپنی گرفت میں نہیں لیتیں یا معاملات پر اثر انداز نہیں ہوتیں وہاں معاملات‘ معاشرے میں منفی رویوں کو جنم دیتے ہیں۔ عبادات سمٹ کر مسجد یا گھر تک محدود ہو جا تی ہیں۔ فرد اور معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ عبادات اپنے اثرات کھو کر رسومات( rituals )میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔ ایسا معاشرہ جہاں منافقت کے ان چاروں اعمال پر عمل کیا جاتا ہو وہ خود تو بد نام ہوگا ہی‘ اس کے ساتھ جُڑی نمازیں اور روزے بھی بدنام ہو جائیں گے۔
جس فرد میں منافقت کی یہ چاروں عادات پائی جاتی ہوں ‘ اس کا مسلم معاشرے میں ترقی کرنا اور آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ مسلم معاشرہ تو دور کی بات‘ منافقت کی ان چار عادات کے ساتھ وہ کسی بھی اچھے معاشرے میں ترقی نہیں کر سکتا۔
موجودہ صورتِ حال
اس وقت معاشرے کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اگر ترقی کرنی ہے تو منافقت کے ان اعمال (جھوٹ‘ وعدہ خلافی‘ خیانت‘غصہ) کے بغیر ممکن نہیں۔مادی طور پر کسی بلندی تک پہنچنے کے لیے یہ خصوصیات بطور آلات استعمال ہوتی ہیں۔ یہ کوئی تخیلاتی بات نہیں بلکہ ہر شخص اسے دیکھ سکتا ہے۔ ’’مسلم فرد‘‘ اچھے انسان سے اوپر کی چیز ہے۔ اچھا مسلمان بننے کے لیے پہلے اچھا انسان بننا ضروری ہے ‘ اور اچھے انسان کے لیے ان چار عادات سے احتراز لازم ہے۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
لوگ کہتے ہیں کہ معاشرے میں کامیابی کے لیے وعدہ خلافی بھی کرنی پڑتی ہے‘ خیانت اور جھوٹ بولنا بھی ضروری ہے۔البتہ کوئی یہ نہیں کہتا کہ کامیابی کے لیے ’’ غصہ یا بد زبانی‘‘ بھی ضروری ہے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ بد زبانی سے بزنس بھی خراب ہوگا‘ نو کری اور تعلقات بھی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ غصہ یا بد زبانی کا ردّ ِعمل فوری ہوتا ہے۔ اس کے مقابل ہم وعدہ خلافی‘ خیانت اور جھوٹ پر فوری اور مؤثر ردّ ِعمل نہیں دیتے ۔ معاشرے نے ان برائیوں کو کافی حد تک قبول کر لیا ہے۔ ان میں ہم مصلحت سے کام لیتے ہیں۔ کارڈ پر لکھے وقت پر اگر کوئی شادی ہال پہنچ جائے تووہاں کوئی اور نہیں ہوتا۔
برائی کے حق میں معاشرے کی قوت
جب اکثریت کسی برائی کو قبول کر لیتی ہے تو معاشرے کی قوت اس برائی کے حق میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ پھر وہاں برائی کرنا آسان ہو جاتا ہے ‘ اور اچھائی کرنا مشکل۔ برائی کا فائدہ ہوتا ہے ‘ اچھائی سے نقصان ہوتا ہے۔ جب معاشرے کی قوت برائی کی پشت پر آجائے تو پھر نتیجہ وہ نکلتا ہے جس کی طرف قرآن مجید میں یوں اشارہ کیا گیا:
{وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃًج وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (۲۵) }
’’اور ڈرو اس فتنے سے جو تم میں سے صرف گنہگاروں ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا ‘اور جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔‘‘
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ معاشرہ اپنے منفی اعمال کے باعث برائی کے خلاف بحیثیت مجموعی فوراً ردّ ِعمل دینے کے قابل نہیں رہا ۔منافقت حریت فکر و عمل کے لیے دیمک کا کام کرتی ہے۔ ایسے منافق معاشرے میں نظریہ اپنا کردار ادا نہیں کر سکتا۔ اس گندے پانی میں نظریے کی مچھلی کا تیرنا ممکن نہیں۔
دعوتی سرگرمیاں: نظریاتی کارکنوں کا محاذِ جنگ
میں اور آپ تنظیم اسلامی کی صورت میں جو کام کر رہے ہیں‘ اُس کا مقصد کیا ہے ؟ اس وقت معاشرے کی قوت برائی کے حق میں ہے‘ اس لیے برائی کرنا آسان اور نیکی کرنا مشکل ہے۔ تنظیم اسلامی کی جدو جہد کا مقصد اس معاشرتی دبائو کو نیکی کی پشت پر واپس لانا ہے ۔ جب معاشرے کی قوت نیکی کی پشت پر آجائے گی تو نیکی کرنا آسان اور گناہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔نیکی کا پورا اجر ملے گا اور معاشرے میں اس کے مثبت اثرات نظر آئیں گے۔ یہ کہنا تو آسان ہے لیکن عملاً ایساکرنا ایک صبر آزما اور مشکل کام ہے۔ معاشرے کی اکثریت خاص کرمقتدر طبقات کے مفادات اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان مفادات کی قربانی دینا ایک مشکل کام ہے۔
جب ہم دین کا کام کرتے ہیں تو دنیا ہاتھ سے جاتی محسوس ہوتی ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے نظر یاتی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔معاشرے کے اس دباؤ کا مقابلہ نظریاتی طور پر مسلح افراد ہی کر سکتے ہیں۔ہماری نظریاتی قوت کی بنیاد قرآن و سُنّت کی تعلیمات ہیں۔ معاشرے میں تبدیلی کے لیے پہلے اپنی ذات میں تبدیلی ضروری ہے ۔ جب کوئی فرد تنظیم کی دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لیتا ہے تو یہ امر خود اس فرد میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔ دعوتی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے بڑھ کر کوئی اور تربیت گاہ نہیں ۔انفرادی اور اجتماعی دعوتی سرگرمیاں نظریاتی کارکنوں کا میدانِ جنگ ہیں۔ اس سے بڑھ کر ‘ نظریاتی کارکنوں کے کس بل نکالنے والا کوئی اور تربیتی پروگرام نہیں۔ اس سپاہی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے جو سامنے موجود میدانِ جنگ ہی میں نہ جائے۔ دعوتی سرگرمیاں انسان میں اعتماد پیدا کرتی ہیں۔ اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہیں۔
کامیابی کی چار عادات یعنی سچائی پر کار بند رہنا‘ وعدہ کی پابندی‘ امانت ودیانت اور غصہ پر قابو پانا مل کر کامیابی کی بنیاد بناتی ہیں ۔ان چاروں کے بغیر دینی اور دنیاوی کامیابیاں اپنا سفر شروع ہی نہیں کر سکتیں ۔ اسی لیے ان چار اعمال پر عمل درآمد نہ کرنے والا فرد مسلم معاشرے کے لیے ناکارہ ہے اور اسے پکا منافق کہا گیا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ایسے فرد کی ناکامی کی تصدیق اللہ کے رسول ﷺنے خود فرمائی ہے۔
یہ چاروں عادات بھرو سے اور اعتماد کی بنیاد ہیں ۔ جب تک لوگ آپ پر اعتماد نہیں کریں گے‘ زندگی کے کسی نتیجے میں آپ کی کامیابی ممکن نہیں۔ اعتماد اور بھروسا ہی زندگی میں آگے بڑھنے کی کلید ہے۔ اور یہی چار عادات اس چابی کےچار دانتے (کونے) ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری چابی کامیابی کا تالا کیوں نہیں کھولتی ؟وہ اس لیے نہیں کھولتی کہ ہماری چابی کے دانتے پورے نہیں ۔ کسی کی چابی کے دو ہیں‘ کسی کے تین دانتے ہیں۔ اگر پورے ہیں تو وہ تیز( sharp ) نہیں۔ کامیابی کے لیے چاروں دانتے sharp حالت میں ہونے چاہئیں ۔براہ مہربانی اپنی کامیابی کے چاروں دانتوں کو تیز کیجیے۔اللہ کے رسولﷺ کا فرمان غلط نہیں ہو سکتا!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025