(تعلیم و تعلم) حصولِ علم کا ذریعہ :مطالعہ - احمد علی محمودی

10 /

حصولِ علم کا ذریعہ :مطالعہاحمد علی محمودی٭ مطالعہ کی تعریف
مطالعہ سے مراد کسی چیز کو غور و فکر ‘ توجہ اور سمجھ بوجھ کے ساتھ پڑھنا ہے تاکہ علم حاصل کیا جاسکے ‘ فہم میں اضافہ ہو اور انسان کی سوچ و کردار میں بہتری آئے۔ مطالعہ صرف الفاظ کو دیکھنے کا نام نہیں ‘ بلکہ اس کے مفہوم کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سادہ الفاظ میں مطالعہ وہ عمل ہے جس میں ہم کتابوں‘ مضامین یا کسی بھی تحریری مواد کو اس نیت سے پڑھتے ہیں کہ ہمیں کچھ نیا سیکھنے اور سمجھنے کو ملے۔
٭ انسان اور علم
علم اور انسان کا رشتہ فطری ‘ لازمی اور ابدی ہے۔ علم وہ روشنی ہے جو انسان کو اندھیروں سے نکال کر شعور ‘ بصیرت اور ہدایت کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے ‘ اور اس کی یہ برتری صرف عقل و شعور کی بنیاد پر ہے۔ اگر انسان کے پاس علم نہ ہو تو وہ اپنی عقل کا صحیح استعمال بھی نہیں کر سکتا۔ علم انسان کو نہ صرف دنیا کے مسائل سمجھنے کی صلاحیت دیتا ہے ‘ بلکہ اُسے اپنے خالق کی معرفت بھی عطا کرتا ہے۔ ایک جاہل انسان اندھی تقلید میں زندگی گزارتا ہے ‘ جبکہ ایک صاحبِ علم اپنی زندگی کو کسی مقصد ‘ فہم اور حکمت کے ساتھ گزارتا ہے۔ علم انسان کی روحانی ‘ اخلاقی اور معاشرتی ترقی کا ذریعہ ہے۔ یہی علم انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتا ہے اور اُسے اعلیٰ مقام عطا کرتا ہے۔ انسان علم کے بغیر اندھیرے میں بھٹکتا رہتا ہے۔ لہٰذا ایک کامیاب ‘ باوقار اور بااخلاق انسان بننے کے لیے علم حاصل کرنا اور اس علم کے تقاضوں کوپورا کرنا نہایت ضروری ہے۔
– مطالعہ ایک مفید عادت ہے جو انسان کی شخصیت ‘ سوچ ‘ فہم ‘ اور کردار سازی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ مطالعہ فرد کو نہ صرف تعلیمی میدان میں ترقی دیتا ہے ‘بلکہ اسے اخلاقی ‘ ذہنی اور معاشرتی طور پر بھی مضبوط بناتا ہے۔ مطالعے سے دوری جہالت اور پس ماندگی کا سبب بنتی ہے۔
٭ مطالعہ کی اہمیت :اسلامی تناظر میں 
اسلام ایک ایسا دین ہے جو علم ‘ فہم ‘ تحقیق اور غور و فکر کو بہت بلند مقام دیتا ہے۔ اس حوالے سے ذیل میں مطالعہ کی اہمیت مختلف پہلوؤں سے بیان کی گئی ہے :
(۱) قرآن کا پہلا حکم’’اِقْرَاْ‘‘(پڑھ) ہے۔ اسلام میں علم حاصل کرنے کی بنیاد ہی پڑھنے پر رکھی گئی ہے۔{اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ(۱)} (العلق)’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ ‘‘ پہلی وحی یہ ثابت کرتی ہے کہ اسلام علم اور مطالعہ کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔
(۲) علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلٰى كلِّ مُسْلِمٍ)) ( سنن ابن ماجہ )
’’ علم حاصل کرنا ہر مسلمان ( مرد اور عورت ) پر فرض ہے۔ ‘‘
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ مطالعہ اور علم کا حصول ایک دینی ذمہ داری ہے ‘ نہ کہ صرف دنیاوی فائدہ۔
(۳) علم انسان کو حق و باطل میں فرق کرنا سکھاتا ہے۔ مطالعہ سے انسان کو اللہ کی معرفت ‘ شریعت کی سمجھ ‘ اور زندگی کے مسائل کا اسلامی حل جاننے میں مدد ملتی ہے۔ علم کی روشنی میں انسان گمراہی سے بچ سکتا ہے۔
(۴) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم قرآن و حدیث کے علم کو حاصل کرنے کے لیے سفر کرتے تھے ‘ راتوں کو جاگتے تھے ‘ اور صرف اللہ کی رضا کے لیے مطالعہ و تعلیم کا اہتمام کرتے تھے۔
{یَرْفَعِ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ لا وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ ط} (المجادلۃ:۱۱)
’’ اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرمائے گا۔ ‘‘
اسلامی تناظر میں مطالعہ نہ صرف دینی فریضہ ہے ‘بلکہ یہ انسان کی دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کی کنجی ہے۔ قرآن ‘ حدیث ‘ سیرت ‘ فقہ ‘ اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ ہر مسلمان کو کرناچاہیے تاکہ وہ ایک باشعور ‘ نیک ‘ اور باعمل مسلمان بن سکے۔
٭ مطالعہ کے فوائد
(۱)علم میں اضافہ:مطالعہ ایک چراغ کی مانند ہے جو جہالت کی تاریکی کو علم کی روشنی سے بدل دیتا ہے۔ علم کا حصول تب ہی ممکن ہے جب مطالعہ کو مستقل عادت بنا لیا جائے۔ مطالعے کے ذریعے انسان نئے علوم و فنون سیکھتا ہے۔ مختلف موضوعات پر مطالعہ انسان کو دنیا کی حقیقتوں ‘ تاریخ ‘ دین اور سائنسی معلومات سے روشناس کرواتا ہے۔ مطالعہ انسان کو بصیرت اور فہم عطا کرتا ہے۔ انسان کی فکری ‘ علمی اور روحانی ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف علم میں اضافہ کرتا ہے بلکہ سوچنے ‘ سمجھنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت کو بھی نکھارتا ہے۔ جو قومیں مطالعہ کو اپنا معمول بناتی ہیں ‘ وہ ترقی کی راہوں پر گامزن ہوتی ہیں۔ مطالعہ کے ذریعے انسان نئے خیالات ‘ تجربات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں سے واقف ہوتا ہے۔ روزانہ مطالعہ کرنے کی عادت ہمیں وقت کی قدر سکھاتی ہے ‘تعمیری اور مثبت سوچ عطا کرتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ روزانہ کچھ وقت مطالعہ کے لیے ضرور مخصوص کریں ۔
(۲)سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت: مطالعہ انسان کے ذہن کو جِلا بخشتا ہے اور اُس کی فکری صلاحیتوں کو نکھارتا ہے۔ انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ ایک مسئلے کو مختلف نقطہ ہائے نظر سے کیسے دیکھا جاسکتا ہے! اس سے قوتِ مشاہدہ‘ تجزیہ کرنے کی صلاحیت اور منطقی استدلال پیدا ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص مطالعہ کرتا ہے ‘ تو وہ صرف معلومات حاصل نہیں کرتا ‘ بلکہ مختلف زاویوں سے سوچنے اور سمجھنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ مطالعہ ذہن کو نئے خیالات ‘ تصورات اور مسائل کا سامنا کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ منطقی انداز میں مسائل کو حل کرنے کی مہارت سکھاتا ہے‘ جس سے تنقیدی سوچ (critical thinking) پیدا ہوتی ہے۔ ادبی مطالعہ جذبات و احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے۔ مطالعہ صرف وقت گزارنے کا ذریعہ نہیں ‘ بلکہ ایک ذہنی مشق ہے جو انسان کے سوچنے ‘ سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتوں کو جِلا دیتی ہے۔
(۳) شخصیت کی تعمیر:مطالعہ شخصیت سازی کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اچھی کتب و لٹریچر سے انسان میں صبرو تحمل ‘ الفت و محبت ‘ عدل وانصاف ‘ دیانت وامانت ‘ اور اخلاص جیسی خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مطالعہ انسانی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ایک باشعور ‘ مہذب اور بااخلاق انسان کی تشکیل مطالعہ سے ہی ممکن ہے۔ مطالعہ نہ صرف علم میں اضافہ کرتا ہے ‘ بلکہ انسان کی سوچ ‘ طرزِ گفتگو ‘ اندازِ فکر اور کردار کو بھی سنوارتا ہے۔
(۴)وقت کا مفید مصرف: مطالعہ انسان کی فکری ‘ اخلاقی اور علمی ترقی کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ فارغ اوقات کو مفید بنانے کے لیے مطالعہ بہترین سرگرمی ہے جو انسان کو بے راہ روی سے بچاتی ہے۔ ایک باشعور انسان جانتا ہے کہ وقت ایک قیمتی سرمایہ ہے اور مطالعہ اس سرمائے کا بہترین استعمال ۔ مطالعے سے انسان کے علم میں وسعت اور شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ چاہے دینی کتب ہوں یا دنیاوی‘ ہر قسم کا مطالعہ انسان کی ذہنی بالیدگی میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مطالعہ انسان کو وقت کی قدر کرناسکھاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ فارغ وقت کو ضائع کرنے کے بجائے مطالعے کو اپنی زندگی کا معمول بنائیں۔
(۵)زبان و بیان میں بہتری :مطالعہ انسان کی فکری و لسانی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب ہم مختلف موضوعات پر کتابیں ‘ اخبارات ‘ مضامین اور ادبی تخلیقات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہماری زبان میں نکھار آتا ہے ‘ الفاظ کا ذخیرہ بڑھتا ہے اور جملے بنانے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ ادبی کتب کا مطالعہ خاص طور پر زبان و بیان کی اصلاح میں مددگار ثابت ہوتا ہے ‘ کیونکہ ان میں اعلیٰ معیار کی تحریر ‘ خوبصورت اسلوب اور مؤثر اندازِ بیان پایا جاتا ہے۔ مطالعہ نہ صرف نئے الفاظ سے روشناس کراتاہے ‘بلکہ ان کے درست استعمال کا طریقہ بھی سکھاتا ہے۔ اس کے علاوہ ‘ مطالعہ سے انسان کی سوچ میں گہرائی اور بیان میں روانی آتی ہے۔ مطالعہ زبان و بیان کو سنوارنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے جو ہر طالب ِعلم اور لکھاری کے لیے ضروری ہے۔
(۶)خود اعتمادی میں اضافہ: مطالعہ انسان کی شخصیت نکھارنے اور اُس کی فکری و ذہنی نشوونما کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ جب انسان باقاعدگی سے مطالعہ کرتا ہے تو اُسے علم میں وسعت حاصل ہوتی ہے ‘ جس سے اُس کی سوچ میں گہرائی آتی ہے۔ یہ انسان کو پُراعتماد بناتا ہے‘ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ کس موضوع پر کیا بات کر رہا ہے!
(۷)روحانی و ذہنی سکو ن: مطالعہ روح اور ذہن کو سکون فراہم کرنے کا بھی ایک مؤثر ذریعہہے۔ جب انسان کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے ‘ تو وہ دنیاوی اُلجھنوں سے ہٹ کر ایک نئی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے ‘ جہاں فکر و فہم کی روشنی اُسے اندرونی سکون عطا کرتی ہے۔ مطالعہ ذہنی تناؤ کو کم کرتا ہے ‘ خیالات کو منظم کرتا ہے اور انسان کی سوچ کو مثبت بناتا ہے۔ دینی و اخلاقی کتب کا مطالعہ انسان کو روحانی سکون فراہم کرتا ہے اور اُسے اللہ سے قربت کا احساس دلاتا ہے۔ مطالعہ انسان کے اندر صبر ‘ شکر ‘ قناعت اور سچائی جیسے اوصاف پیدا کرتا ہے ‘ جو روحانی بالیدگی کے لیے لازمی ہیں۔
٭ مطالعہ کی عادت: چند عملی طریقے
(۱) سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی رضا اور علم حاصل کرنے کی خالص نیت کریں۔ جب نیت اچھی ہو تو کام میں برکت ہوتی ہے۔
(۲) ایک مخصوص وقت مطالعے کے لیے مقرر کریں۔مستقل وقت عادت بنانے میں بہت مدد دیتاہے۔
(۳) چھوٹی شروعات کریں۔شروع میں ۱۰ سے ۱۵منٹ روزانہ پڑھنا شروع کریں۔ آہستہ آہستہ وقت بڑھاتے جائیں۔
(۴) دلچسپی کے موضوعات سے آغاز کریں۔وہ کتابیں یا موضوعات منتخب کریں جن میں آپ کو دلچسپی ہو۔
(۵) کتاب ہمیشہ ساتھ رکھیں۔اگر آپ کے پاس وقت ہو ( جیسے سفر میں یا انتظار کے دوران) ‘ تواسے مطالعے میں استعمال کریں۔ اس مقصد کے لیے چھوٹی کتاب یا موبائل میں پی ڈی ایف رکھنا مفید ہے۔
(۶) روزانہ یا ہفتے کا ایک ہدف بنائیں ‘ مثلاً : ’’ میں روزانہ پانچ صفحات پڑھوں گا یا اس ہفتے یہ کتاب مکمل کروں گا۔‘‘
(۷) مطالعے کو دوسروں سے شیئر کریں۔جو کچھ پڑھیں اُسے گھر والوں یا دوستوں کو مختصر انداز میں بیان کریں۔
(۸) مطالعے میں دلچسپی ‘ سمجھ اور عمل کی توفیق کے لیے دعا کرتے رہیں۔ ’’رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ‘‘ (اے میرے رب ! میرے علم میں اضافہ فرما۔ )
٭ مطالعہ کے ذرائع
مطالعہ کے ذرائع وہ وسائل اور طریقے ہیں جن کی مدد سے ہم علم حاصل کرتے ہیں یا کسی موضوع کو سمجھنے اور جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں درج ذیل اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :
(۱) طبع شدہ مواد:نصابی کتب ‘ حوالہ جاتی کتب جیسے کہ لغات ‘ انسائیکلوپیڈیا ‘ ادبی کتب‘ رسالے اوراخبارات
(۲) ڈیجیٹل ذرائع:ای بکس‘دستاویزی فلمیں‘تعلیمی ویب سائٹس ‘ آن لائن جرائد اور بلاگز
(۳) سمعی و بصری ذرائع :لیکچرز ‘ ریڈیو پروگرامز ‘ ٹی وی تعلیمی پروگرامز ‘ پوڈکاسٹس
(۴) تحقیقی ذرائع :تحقیقی مقالے ‘ سروے رپورٹس
(۵)تجرباتی ذرائع :مطالعہ کے گروپس اور مباحثے ‘ اساتذہ و علماء سے ملاقات اور سوالات ‘ ورکشاپس اور سیمینارز ‘ فیلڈ ورک یا مشاہدہ
٭ مطالعہ کے آداب
(۱) ایسی جگہ کا انتخاب کریں جو پُرسکون ‘ صاف ستھری اور بخوبی روشن ہو۔
(۲) مطالعہ منظم طریقے سے کریں ‘ جیسے کہ پہلے آسان کتابیں ‘ پھر مشکل ‘ تاکہ تسلسل برقرار رہے۔
(۳) اہم نکات ‘ اقوال ‘ آیات یا حوالہ جات کو نوٹ کرنے کی عادت بنائیں۔
(۴) دینی کتب کو ادب و احترام سے پڑھیں ‘ مناسب جگہ پر رکھیں۔ دوران مطالعہ غیر ضروری بات چیت ‘ موبائل کے استعمال یا ہنسی مذاق سے پرہیز کریں۔
(۵) مطالعہ صرف معلومات حاصل کرنے کے لیے نہ ہو ‘ بلکہ نیت یہ ہو کہ اس پر عمل کیا جائے گا۔
(۶) جو بات سمجھ نہ آئے ‘ اُسے بار بار پڑھیں اور غور و فکر کریں۔ کسی عالم یا استاد سے رہنمائی لینے میں بھی ہچکچاہٹ نہ ہو۔
(۷) مطالعہ سے پہلے اور بعد میں اللہ سے علم نافع ( فائدہ مند علم ) کی دعا مانگیں :اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْاَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ ’’ اے اللہ ! میں تجھ سے نفع دینے والا علم مانگتا ہوں ‘ اورا یسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے۔‘‘