(حسن معاشرت) بدگمانی اور تجسس - حافظ محمد اسد

10 /

بدگمانی اور تجسّسحافظ محمد اسد
استاذ ‘قرآن اکیڈمی یٰسین آباد‘ کراچی

اللہ سبحانہ وتعا لیٰ نے انسانوں کو مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے ۔ جب انسان کو اپنے سے زیادہ دوسرے لوگوں کے ’’عیب وہنر‘‘ کی فکر دامن گیر ہونے لگے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اب اس شخص نے اپنی صلاحیتوں کو غلط سمت میں لگا کر اپنی اخلاقی تباہی کی طرف قدم بڑھا لیا ہے۔ اس روحانی بیماری کاآغاز بدگمانی سے ہوتاہے۔جب بدگمانیاں ہوں گی تو غیبت اور حسد جیسے مہلک امراض پیدا ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ بدگمانی کے حرام ہونے کی صورت کیا ہے ؟
شارح بخاری علامہ بدرُالدین عینیؒ فرماتے ہیں :
’’گمان وہ حرام ہے جس پر گمان کرنے والا مُصِرہو (یعنی اصرار کرے) اور اسے اپنے دِل پر جمالے۔وہ گمان جو دِل میں آئے اور قرار نہ پکڑے وہ مذموم نہیں ۔‘‘ بحوالہ( عمدۃ القاری‘ ج۱۵‘ ص۲۱۸‘ تحت الحدیث: ۶۰۶۵)
آج المیہ یہ ہے کہ بدگمانی اور تجسّس کو ہم نے گناہ سمجھنا چھوڑ دیاہے ‘حالانکہ قرآن کریم کی نص سے ثابت ہے کے بدگمانی کرنا بھی گناہ ہے اور کسی کی ٹوہ لگانا بھی حرام ہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ الحجرات کے دوسرے رکوع میں جن معاشرتی برائیوں کاذکر کیاہے ان میں بدگمانی اور تجسّس کو بایں طور بیان فرمایا ہے:
{یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ز اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًاط اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ ط وَاتَّقُوا اللہَ ط اِنَّ اللہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ (۱۲)}
’’اے ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو‘بےشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے ہوئےبھائی کا گوشت کھائے ‘تو یہ تمہیں گوارا نہ ہوگا۔اور اللہ سے ڈرو ‘بےشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
آیت کے پہلے حصے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو بہت زیادہ گمان کرنے سے منع فرمایا‘کیونکہ بعض گمان ایسے ہیں جو محض گناہ ہیں ۔لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ گمان کی کثرت سے بچا جائے۔( ابن کثیر‘ الحجرات‘ تحت الآیۃ: ۱۲‘ ۷ / ۳۵۲)
ہمارے معاشرے میں بد گمانی کا مرض عام ہے ۔موجودہ دور میں جب کسی شخص کو موبائل پر فون کیاجاتا ہے اور وہ نہ اٹھا ئے تو سب سے پہلے یہی گمان کیاجاتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر نہیں اٹھایا یا وہ بات نہیں کر نا چاہتا۔فون کرنے والا ایسی یقینی کیفیت میں مسلسل اس شخص کی برائیاں دل ہی دل میں کرتا رہتا ہے‘اور گناہوں کابوجھ سمیٹتا رہتاہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے اور وہ شخص کسی مجبوری کی وجہ سے فون نہیں اٹھا تا۔
اسی طرح کسی کا خط اس کی بغیر اجازت دیکھنا بھی جائز نہیں۔فی زمانہ خط وکتابت کا نظام چونکہ بدل چکا ہے اس لیے اس کااطلاق موبائل پیغامات اور ای میل وغیرہ پر بھی ہوگا۔اس حوالے سے بھی ہمارے ہاں بڑی کوتاہی پائی جاتی ہے ۔خاص طور پر میاں بیوی کے اکثر جھگڑوں کاسبب اسی موبائل کی بے احتیاطی کانتیجہ ہوتاہے۔حدیث مبارکہ میں اس بارے میں سخت وعید ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ نَظَرَ فِيْ كِتَابِ اَخِيْهِ بِغَيْرِ اِذْنِهِ‘ فَاِنَّمَا يَنْظُرُ فِي النَّارِ))(سنن ابی داوٗد:۱۴۸۵)
’’ جس کسی نے اپنے بھائی کا خط اس کی اجازت کے بغیر دیکھا (یعنی پڑھا) تو گویا وہ جہنم دیکھ رہا ہے۔‘‘
اس روایت کی رو سے فی زمانہ اس معاملے میں احتیاط بے حد ضروری ہے ۔برے گمان سے بچنا ایک صاحبِ فہم انسان کا وتیرہ ہونا چاہیے۔
اچھے گمان کی عادت ڈالیے
دوسرے سے اچھا گمان کرنا چاہیے ‘اس طرح انسان کئی گناہوں سے بچ جاتا ہے ۔برا گمان جو غیر ارادی طور پر دل میں آجائے وہ مذموم نہیں ہے‘البتہ اس گمان کو جمالینا اور سوچ میں پڑ جانا برا ہے۔ اِمام محمدغزالیؒ فرماتے ہیں :
’’بدگمانی کے پختہ ہونے کی پہچان یہ ہے کہ مظنون کے بارے میں تمہاری قلبی کیفیت تبدیل ہوجائے‘ تمہیں اُس سے نفرت محسوس ہونے لگے‘تم اُس کو بوجھ سمجھو‘اس کی عزت واِکرام اور اس کے لیےفکرمند ہونے کے بارے میں سستی کرنے لگو۔‘‘(بحوالہ احیاء العلوم‘ کتاب آفات اللسان‘ ج۳‘ص۱۸۶)
اچھا گمان یہ ہے کہ ایک آدمی اگر رمضان المبارک کےموقع پر دن کےاوقات میں کسی ہوٹل سے نکل رہا ہے تو وسوسہ آ ئے گا کہ یہ روزہ دار نہیں ہے‘لیکن فوراً خیال کرے کہ کسی بیمار کے لیے کھانا لینے آیا ہوگا یا افطار کے لیے پہلے سے لے کر جارہاہے وغیرہ۔ اسی طرح کسی نے فون نہیں اٹھایا تو سوچے کہ مصروف ہوگا اور اس شخص کے لیے خیر کی تمنّا کرے۔ حدیث مبارکہ میں اچھے گمان کو ’’حسنِ عبادت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((حُسْنُ الظَّنِّ مِنْ حُسْنِ الْعِبَادَةِ‘‏‏‏)) (سنن ابی داوٗد:۴۹۹۳)
’’ اچھا گمان رکھنا حسنِ عبادت میں سے ہے ۔ ‘‘
گویا اچھا گمان کرنا عبادت میں شامل ہوا ۔جب برا گمان اور تجسّس خرابیاں بھی پیدا کر رہاہے اور نص قرآنی سے اس کا حرام ہونا بھی ثابت ہو گیا تو اب اچھا گمان کرنے میں کیا چیز مانع ہے ؟ حکما ءفرماتے ہیں اس کاسبب ’’ تکبر‘‘ کے سوا کیا ہو سکتاہے ۔لہٰذا اس کاعلاج بھی لازمی ہے۔
اپنے عیوب کی فکر کیجیے
انسان کو اگر اپنے عیوب کی فکر دامن گیر ہو جائے اور وہ اپنے انجام کی فکر میں لگ جائے کہ میرارب مجھ سے ناراض نہ ہو‘ جہنم کی آگ سے بچنے کی فکر ہو تو پھر کسی کے عیب پر نگاہ نہیں جائے گی۔بہادر شاہ ظفر فرماتے ہیں:
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر‘ رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا!
بد گمانی سے بچنے کی تدابیر
(۱) کسی کی خامیوں کو ٹٹولنے اور اس کی ٹوہ میں رہنے کے بجائے اس کی خوبیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ جودوسروں کے متعلق حسنِ ظن رکھتا ہے اُس کے دل میں راحتوں کا بسیرا ہوتا ہے جبکہ جس پر شیطان کا ہتھیار کام کر جائے وہ بد گمانی کی بری عادت میں مبتلا ہو جاتاہے اور اُس کے دل میں وحشتوں کا ڈیرا ہوتا ہے ۔
(۲) جب بھی کسی کے بارے میں دِل میں برا گمان آئے تو اسے جھٹک دیجیے اور اس کے عمل پر اچھا گمان قائم کرنے کی کوشش فرمایئے۔
(۳) خود نیک بنیے تاکہ دوسرے بھی نیک نظر آئیں۔ عربی مقولہ ہے : اِذَا سَاءَ فِعْلُ الْمَرْءِ سَاءَتْ ظُنُوْنُہ یعنی جب کسی کے کام برے ہوجائیں تو اُس کے گمان (یعنی خیالات ) بھی برے ہوجاتے ہیں۔اپنی اِصلاح کی کوشش جاری رکھیے کیونکہ جو خود نیک ہو وہ دوسروں کے بارے میں بھی نیک گمان (یعنی اچھے خیالات ) رکھتا ہے۔
(۴) بری صحبت سے بچتے ہوئے نیک صحبت اِختیار کیجیے۔جہاں دوسری برکتیں ملیں گی وہیں بدگمانی سے بچنے میں بھی مدد حاصل ہو گی۔حضرت بشر بن حارثؒ فرماتے ہیں : صُحْبَۃُ الْاَشْرَارِ تُوْرِثُ سُوْءَ الظَّنِّ بِالْاَخْیَار یعنی بروں کی صحبت اچھوں سے بدگمانی پیدا کرتی ہے ۔(بحوالہ رسالہ قشیریۃ‘ باب الصحبۃ‘ ص۳۲۸)
(۵) جب بھی دِل میں کسی کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتوخود کو بدگمانی کے انجام اور عذابِ الٰہی سے ڈرائیے۔
(۶) کسی کے لیے دِل میں بدگمانی آئے تو اُس کے لیے دُعائے خیر کیجیے اور اُس کی عزّت واِکرام میں اضافہ کردیجیے ۔
(۷) جب بھی کسی کے بارے میں ’’بدگمانی‘‘ ہونے لگے تواپنے رب کریم کی بارگاہ میں یوں دُعا مانگیے :’’یاربّ!تیرا یہ کمزور بندہ دُنیا وآخرت کی تباہی سے بچنے کے لیے اِس بدگمانی سے اپنے دِل کو بچانا چاہتاہے۔یا اللہ! مجھے شیطان کے خطرناک ہتھیار ’’بدگمانی‘‘ سے بچا لے۔مجھے ’’حسنِ ظن‘‘ جیسی عظیم دولت عطا فرما دے۔‘‘
دُعا ہے کہ ہمیں خوفِ خدا سے معمور دِل‘ رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا ہو ۔ آمین یاربّ العالمین!