(یادِ رفتگاں) آہ قمر سعید قریشی! - مولانا شیخ رحیم الدین

11 /

آہ قمر سعید قریشی !
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے!

مولانا شیخ رحیم الدین

۱۱ جولائی۲۰۲۵ء بروز جمعۃ المبارک یہ دل خراش اطلاع ملی کہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے قریب ترین ساتھی قمر سعید قریشی انتقال کر گئے ہیں۔میرے خیال میں ان کے لیے’’ساتھی‘‘ کا لفظ بہت حقیر اور کمتر ہے۔ جو صحیح لفظ میں سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا عاشق زار آج اس دارفانی سے دارالخلدکی طرف مراجعت کر گیا ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! یہ خبر دل و دماغ پر بجلی بن کر گری اور میں کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگیا۔۸۳ - ۱۹۸۲سے آج تک کے تمام واقعات اور وہ لمحات جو ان کی سرپرستی اور معیت میں گزرے ایک فلم کی شکل میں دماغ کی سکرین پر چلنے لگے اور اب سمجھ نہیں آرہا ہے کہ کہاں سے شروع کروں۔
قمر سعید قریشی صاحب۱۹۳۷ ء میں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔سکول و کالج کی تعلیم کے بعد سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد واپڈا کے مختلف ہائیڈرل پروجیکٹس سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ۱۹۶۱ءمیں آپ پاکستان ریلوے سے وابستہ ہو کر کوئٹہ میں تعینات ہوئے اور پھر پاکستان کے مختلف شہروں سیالکوٹ‘ فیصل آباد اور لاہور میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور اپنی خدمات احسن طریقے سے انجام دیں۔
ڈاکٹر اسرار احمد ؒ منٹگمری(ساہیوال) سے لاہور منتقل ہوئے اور دروسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تو ۱۹۶۸ءمیں قمر سعید قریشی صاحب رابطے میں آگئے۔محترم ڈاکٹر صاحب کے دل میں دعوتِ دین کی جو تڑپ شعلہ جوالہ بن کر سرگرداں تھی وہ قمر سعید قریشی کے سینے میں منتقل ہوئی اور اب یہ ایک اور ایک دو نہیں بلکہ ایک اور ایک گیارہ بن گئے۔ اس کے بعد قمر صاحب کے نزدیک زندگی کا مقصد ڈاکٹر صاحب کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جو ڈاکٹر صاحب کے دل و دماغ میں پرورش پا رہا تھا‘منصہ شہود پرلانا تھا۔ اس کے لیے آپ نے اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا۔ اپنے عزیزوں اور گھر والوں سے واجبی سا تعلق رکھا لیکن ان کے حقوق برابر ادا کرتے رہے۔ ان دونوں حضرات نے جب دعوت الی القرآن کا کام شروع کیا تو بے سرو سامانی کا عالم یہ تھا کہ قمر سعید صاحب کے پاس ایک ویسپا سکوٹر تھا جس پر اکثر ڈاکٹر صاحب کو پیچھے بٹھا کر وہ دروس میں لے جایا کرتے تھے‘ حتیٰ کہ بعض دفعہ میثاق کی طباعت و اشاعت کے لیے مکتبہ جدید پریس بھی اسی ویسپا پر لے جاتے تھے۔۱۹۷۲ء میں محترم ڈاکٹر صاحب ؒ نے مرکزی انجمن خدام القرآن لاہورکے قیام کا اعلان کیا تو قمر سعید قریشی مؤسسین میں شامل تھے۔ صدر مؤسس محترم ڈاکٹر اسرار احمد نے قمر سعید صاحب کو انجمن کی رکن سازی کی مہم چلانے کا کہا اور یہ ٹاسک دیا کہ آپ۴۰۰ حضرات سے بالمشافہ مل کر ان کو انجمن کا رکن بنانے کی کوشش کریں۔ الحمدللہ اس مردِقلندر نے چار سو سے زائد افراد سے فرداً فرداً مل کر ان کو رکن بننے کی دعوت دی۔ ان کی اس دعوت پر بہت سارے حضرات لبیک کہہ کر انجمن کے رکن بنے اور وہ بھی انجمن کے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم ہو گئے۔
۱۹۷۵ء میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے تنظیم اسلامی کے قیام کا اعلان کیا تو قمر سعید قریشی صاحب اس کے تاسیسی ارکان میں شامل تھے۔ آپ نے اپنی ذات کو ڈاکٹر صاحب کی ذات میں گم کر دیا تھا ۔آپ ڈاکٹر صاحب کے چشم و ابرو کے اشارے کو اپنے لیے حکم کا درجہ سمجھتے تھے اور اس حکم کی بجا آوری میں اپنے جسم و جان کی ساری توانائیاں لگا دیتے تھے۔ ربّ کریم بھی اپنے اس مخلص بندے کی لاج رکھتے تھےاور وہ مشکل سے مشکل کام آسانی سے حل ہو جاتے تھے۔ مَیں نے قمر سعید قریشی صاحب کو۱۸،۱۸ گھنٹے کام کرتے دیکھا ہے۔۱۹۸۶ء کے رمضان المبارک میں ان کی مصروفیات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ان کے اندر اللہ تبارک و تعالیٰ نے کتنی خداداد صلاحیتیں رکھی ہیں۔ آپ صبح نو بجے کے قریب انجمن کے دفتر سے رابطے کے لیے نکلتے اور مغرب سے قبل واپس آتے‘ جبکہ یہ رمضان المبارک جون جولائی میں تھا۔ پھر رات بھر دورۂ ترجمہ قران میں شریک رہتے اور آنے والے حضرات سے رابطہ فرماتے‘ ان سے انجمن اور تنظیم کے اغراض و مقاصد بیان کر کے اس کام کو آگے بڑھانے کی سبیلیں نکالتے ۔
محترم قمر سعید قریشی انجمن اور تنظیم کے ڈھانچے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔ آپ ان دونوں تناظیم میں مختلف ذمہ داریوں پر فائز رہے‘اور جس عہدے پر بھی رہے اس کا حق ادا کر دیا۔ آپ ایک طویل عرصے تک مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے ناظم اعلیٰ رہے۔ آپ کی زبان میںقدرے لکنت تھی‘ اس لیے ان کو تقریر اور درس دیتے ہوئے میں نے نہیں دیکھا۔ آپ نے اس کمی کو اپنی تنظیمی صلاحیتوں اور تحریری قابلیت سے پورا فرمایا۔ آپ ایک دن میں کئی کئی صفحات کے دسیوں خطوط تحریر فرماتے۔ خطوط تحریر کرنے میں آپ کا انداز ناصحانہ اور برادرانہ ہوتا تھا۔ آپ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ انجمن اور تنظیم کے متعلقین سے ذاتی رابطہ رکھتے تھے‘ ان کی خوشی اور غمی کے مواقع پر اپنی مصروفیات اور عوارض کو پس پشت ڈال کر شرکت فرماتے۔ ایک دفعہ اسلام آباد میںمقیم انجمن کے ایک رکن کے بیٹے کے ولیمے میں صرف آدھ گھنٹے کے لیے تشریف لے گئے اور واپس لاہور آگئے اور یہ سارا سفر پبلک ٹرانسپورٹ پر کیا ۔ آپ اپنے ماتحت عملے سے بھی ذاتی تعلق رکھتے تھے۔ان کی خوشی و غمی میں شامل ہوتے اور اپنی خوشی کے مواقع پر عملہ کے لوگوں کو شامل کرتے تھے۔
قمر سعید قریشی صاحب انتہائی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ بہت عمدہ اور صاف ستھرا لباس زیب تن فرماتے۔ ان کے استعمال کی اشیاء بھی بہت اعلیٰ قسم کی ہوا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ مجھے اپنا قلم دیا کہ اس میں ریفل ڈلوانا ہے اور یہ ریفل مال روڈ پر ایک معروف دکان سے ملے گا۔ میں وہاں پہنچا اور قلم کا ریفل مانگا تو دکان دار نے قیمت بہت زیادہ بتائی۔ مَیں دوسری دکان پر گیا تو وہاں یہ ریفل بہت قلیل قیمت میں مل رہا تھا۔ میں نے قمر صاحب سے فون پر رابطہ کیا اور یہ صورتحال بتائی تو آپ نے فرمایا: بھئی یہ جس کمپنی کا قلم ہے اسی کمپنی کا ریفل ڈلوانا ہے‘ آپ قیمت پر نہ جائیں۔
محترم قمر سعید صاحب ارادے اور عزم کے پکے تھے‘ جب کسی کام کا ارادہ کر لیتے تو اس کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے بغیر ان کو سکون نہ ملتا تھا۔مثال کے طور پر آپ نے قرآن مجید حفظ کرنے کا ارادہ کیا جبکہ آپ کی عمر کافی ہو چکی تھی اور اس عمر میں حفظ کرنا ناممکن ہوتا ہے‘ لیکن اس آہنی اعصاب کے مالک نے اس وقت تک چین نہیں لیا جب تک قرآن پاک مکمل حفظ نہ کر لیا۔ پھر اس حفظ کو برقرار رکھنے کے لیے جو محنت شاقہ کی وہ ہم نوجوانوں کے لیے لائق تقلید ہے۔
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے اغراض و مقاصد کو آگے بڑھانے اور اس کی بنیادوں کو مضبوط کرنے میں اپنے جسم و جاں کی ساری توانائیاں لگا دیں۔ محترم قمر سعید قریشی صاحب حضرت ڈاکٹر صاحب کے انتقال کے بعد بجھ سے گئے تھے‘ اور کیوں نہ بجھتے‘ ان کا آئیڈیل‘ ان کا محبوب‘ ان کا ہادی اور پیر و مرشد اب دنیا میں نہیں رہا تھا۔ اس فراق میں وہ روز بروز گھلتے گئے اور زندگی ان کے لیے اجیرن بن گئی۔ چنانچہ وہ جو کبھی شمع محفل ہوا کرتے تھے اب انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی اور اس غم و صدمے کو اپنے اندر سمولیا جس کی وجہ سے کئی امراض لاحق ہو گئے اور ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ والی صورتحال ہو گئی۔ کئی سال کی گوشہ نشینی اور امراض کو سہتے سہتے آخر کار وقت موعود آ پہنچا اور آپ نے داعی ٔاجل کو خوش دلی سے لبیک کہتے ہوئے جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ ع خدا رحمت کندایں عاشقانِ پاک طینت را !
نماز جنازہ بعد نماز عشاء ادا کی جانی تھی۔ میت جب نماز جنازہ کے لیے مسجد جامع القرآن‘ قرآن اکیڈمی لاہور لائی گئی تو مسجد اپنی تمام تر وسعت کے باوجود تنگی ٔداماں کی شکایت کرنے لگی۔ نماز جنازہ میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ قریباً ہر ایک کی زبان موصوف کی للہیت اور انسان دوستی کے تذکروں سے تر تھی اور ہر ایک ان کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ کر رہا تھا۔ میرا ذہن فوراً اس محاورے کی طرف مبذول ہو گیا کہ ’’زبانِ خلق کو نقارئہ خدا سمجھو۔‘‘ اتنے سارے لوگوں کی گواہی اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ وہ مقبولِ بار گاہ بندے تھے۔
اس موقع پر ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے فرزند رشید محترم ڈاکٹر عارف رشید صدر انجمن خدّام القرآن لاہور نے سوگواروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ابی نے ایک بار ایک نجی محفل میں فرمایا تھا: ’’ روزِ محشر جب اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوگی اور وہ مجھ سے پوچھیں گے کہ تم کیا نیک عمل لائے ہو؟ تو میں عرض کروں گا کہ قمر سعید قریشی اور ڈاکٹر نسیم الدین خواجہ لایا ہوں۔‘‘
نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے ضمن میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ کراچی سے تشریف لائے ۔آپ نے اس موقع پر مختصر مگر جامع انداز میں موت و حیات کے موضوع پر خطاب فرمایا اور نماز جنازہ کی امامت فرمائی ۔نماز جنازہ میں انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے ذمہ داران اور عہدے داران کی کثیر تعداد حاضر تھی اور سب نے انتہائی دل گرفتگی سے اپنے بزرگ ساتھی کو دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ الوداع کیا۔ انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے ذمہ داران اور ارکان قمر سعید قریشی صاحب کے پس ماندگان کے غم میں برابر کے شریک ہیں اور دعا گو ہیں کہ ربّ کریم ان کو یہ عظیم صدمہ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان سب کو موصوف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کے مشن کو آگے سے آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یاربّ العالمین!
مضمون کے اختتام پر اپنے استاد و مربی شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہ کے چند اشعار ہدیتاً پیش ہیں ‘جو کہ ہم سب کے لیے مشعل ِراہ ہیں:
باقی کوئی دنیا میں رہا ہے نہ رہے گا
جانا ہے اسے کل جو آیا ہے یہاں آج
ناگاہ کوئی دم میں یہ لد جائے گا ڈیرا
دھوکے ہیں یہ سب جن پہ ہے منزل کا گماں آج
دنیا تو بس اِک مرحلہ ہے راہِ عدم کا
اور موت کے محمل میں ہے رخت دل و جاں آج
آسی یہ غنیمت ہیں تری عمر کے لمحے
وہ کام کر اب تجھ کو جو کرنا ہے یہاں آج!