اسماء اللہ الحسنیٰ(۲)از: پروفیسر حافظ قاسم رضوان(۶) السَّلامُ
لفظ سَلامٌ بطور اسم صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔ اس کے معنی سالم ہیں یعنی وہ ذات جو سلامتی میں کامل ہو‘ جس کی سلامتی کوخطرئہ زوال نہ ہو‘ وہ جو دوسروں کو سلامتی بخشتی ہو۔ السَّلام (اَمن دینے والا)سورۃ الحشر کی آیت۲۳ میں دیگر اسماء الحسنیٰ کے ساتھ آیا ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرمﷺ ہر نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے:
((اللّٰهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ، وَمِنْكَ السَّلَامُ، تَبَارَكْتَ يَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ))
’’اے اللہ تُو سلامتی والا ہے اور تُوہی سلامتی عطا کرنے والا ہے‘ اے عظمت و بزرگی اور بڑی سخاوت وفیاضی والے! تو بڑا بابرکت ہے۔‘‘
صحیح بخاری کے مطابق اُمّ المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضرت جبریل علیہ السلام نے حضورﷺ کے واسطے سے اللہ تعالیٰ کا سلام اور اپنا سلام پہنچایا تو انہوں نے جواب میں کہا: اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ السَّلَامُ وَمِنْہُ السَّلَام ’’بے شک اللہ تعالیٰ تو خود سلامتی کا مالک ہے اور ہم کو سلامتی اُسی سے ملتی ہے۔‘‘
سلام مصدر بھی ہے ۔جنّت میں اہل ِایمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلام ملے گا۔ سورئہ یٰسٓ میں ارشاد ہے : {سَلٰمٌ قف قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (۵۸)} ’’سلام کہا جائے گا ربّ ِرحیم کی طرف سے‘‘۔ملائکہ بھی اہل ایمان کو سلام کریں گے اور وہاں اہل ایمان آپس میں بھی ایک دوسرے کو سلام کے ہی تحفے بھیجا کریں گے۔ سورئہ یونس کی آیت۱۰ میں ارشاد ہے : {وَتَحِیَّتُہُمْ فِیْہَا سَلٰمٌ ج }’’ اور اس (جنّت)میں ان کی (آپس کی )دعا ’سلام‘ ہو گی۔‘‘
حضور اکرمﷺ کا اپنی اُمّت پر ایک حق یہ بھی ہے کہ آپؐ پر کثرت سے صلوٰۃ و سلام بھیجا جائے۔ سورۃ الاحزاب میں ارشادِ ربانی ہے: { یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) } ’’اے ایمان والو! تم بھی آپؐ پر رحمتیں اور سلام بھیجا کرو۔‘‘ جب بھی مسلمان آپس میں ملیں تو حدیث کے مطابق ایک دوسرے کو سلام کرنے کا حکم ہے ۔
(۷) الْمُؤْمِنُ
اس کے معنی کی دو صورتیں ہیں: اول کہ مؤمن ‘ ایمان سے بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ مؤمن ہے کہ بندے کو ایمان عطا کرتا ہے۔ سورۃ الحجرات میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد ہوا: {وَلٰـکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ}(آیت۷) ’’لیکن اللہ نے تمہارے نزدیک ایمان کو بہت محبوب بنا دیا ہے۔‘‘ سورۃ المجادلہ میں صحابہؓ کی شان میں فرمایا:{اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْاِیْمَانَ}(آیت۲۲) ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا نام مؤمن (ایمان سے) اس لیے بھی ہے کہ وہ خود بھی اپنی ذات کی شہادت (گواہی) دیتا ہے جیسے کہ یہ شہادت ایمان لانے والا بندہ بھی ادا کرتا ہے۔ سورئہ آلِ عمران میں ارشاد ہوا:
{شَہِدَ اللہُ اَنَّــہٗ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَلا وَالْمَلٰٓئِکَۃُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَــآئِمًا م بِالْقِسْطِ ط لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (۱۸)}
’’اللہ خود گواہ ہے کہ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور سارے فرشتے (گواہ ہیں) اور اہل علم بھی (اس پر گواہ ہیں) ‘وہ عدل وقسط کا قائم کرنے والا ہے۔ اُس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ وہ زبردست ہے‘ کمال حکمت والا ہے۔‘‘
دوم کہ مؤمن امن سے بنا ہے ‘ اللہ تعالیٰ مؤمن ہے جو امن بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بیت اللہ کو جائے امن بنایا۔ سورۃ البقرۃ میں ارشادِ ربانی ہے :
{وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًاط } (آیت۱۲۵)
’’اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر (بیت اللہ) کو قرار دے دیا لوگوں کے لیے اجتماع (اور زیارت) کی جگہ اور اسے امن کا گھر قرار دے دیا۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے توحید کو قلوب کا امن بتلایا ہے ۔ سورۃ الانعام میں فرمایا:
{اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ(۸۲)}
’’یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو کسی طرح کے شرک سے آلودہ نہیں کیا وہی لوگ ہیں جن کے لیے امن ہے اور وہی راہ یاب ہوں گے ۔‘‘
(۸) الْمُھِیْمِنُ
لفظ ’’مُھَیْمِن‘‘ میں میم ثانی بالکسر ہے ۔ اس کے معنی ہیں : (ا)نگہبان (ب) وہ جو دوسرے کے خوف سے ہم کو محفوظ و مامون بنا دے (ج) وہ امین جو کسی کا حق ضائع نہ کرے (د) وہ جو ہر ایک خوف و خطر کو دور کر دے۔ ان جملہ صفات میں یہ باری تعالیٰ کا نام ہے ۔ سورۃ المائدۃ کی آیت۴۸ میں قرآن مجید کو مُھَیْمِن فرمایا گیا ۔ ارشادِ ربانی ہے:
{وَاَنْزَلْـنَـآ اِلَـیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْـکِتٰبِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہِ }
’’اور(اب اے نبیﷺ) ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی حق کے ساتھ جو اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان پر نگران ہے۔ ‘‘
گویا کہ قرآن پاک اپنے سے پہلی الہامی کتابوں کے مضامین کا نگہبان ہے ۔قاموس میں ہے کہ مھیمن اصل میں مآمن (دو ہمزہ کے ساتھ) تھا‘ ہمزہ اول کو حرف ھا سے بدل لیا گیا اور ہمزہ ثانی کو حرف یا سے‘ یوں مھیمن ہو گیا۔
(۹) الْعَزِیْز
یہ عزّت سے بنایا گیا ہے۔ عزت کے معنی قوت و شوکت اور غلبہ کے ہیں ۔عزیز وہ ہے جس میں یہ صفات بدرجہ ٔ اَتم پائی جائیں۔ سورۃ الحشر کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے اسماء کے حوالے سے العزیز (غالب) کا اسم آیا ہے۔
اہل ِدنیا نے زر و مال ‘ جمعیت و تعداد کی کثرت کا نام عزت رکھ چھوڑا ہے۔ یہ وہ بُت ہے جو دنیا والوں کو سب سے پیارا ہے اور وہ اس پر اپنی جان و ایمان کو بخوشی قربان کر دیتے ہیں۔ لوگ دنیا والوں کے پاس عزت ڈھونڈتے ہیں‘ جبکہ سورۃ المنافقون میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : {وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ}( آیت۸ ) ’’حالانکہ اصل عزّت تو اللہ‘ اُس کے رسولؐ اور اہل ایمان کے لیے ہے۔‘‘ اسی طرح سورۃ النساء میں فرمایا گیا : {فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلہِ جَمِیْعًا(۱۳۹)} ’’حالانکہ عزت تو کُل کی کُل اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘
قرآن حکیم میں لفظ ’’عزیز‘‘ یا ’’العزیز‘‘ ۹۲ مرتبہ آیا ہے۔ سورئہ یوسف میں چار مرتبہ یہ لفظ ’’عزیز ِمصر‘‘ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ باقی تمام مقامات پر یہ اکثر و بیشتر اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام کے طورپر آیا ہے ۔ اکثر مقامات پر یہ اسم دوسرے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ جوڑے کی صورت میں آیا ہے۔ مثلاً: سب سے زیادہ العَزِیْزُ الْحَکِیْم یا عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ قرآن مجید میں ۴۲ مرتبہ آیا ہے۔ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْم ۱۳ بار‘ الْعَزِیْزُ الْعَلِیْمُ ۶ بار‘ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ یا الْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ ۷ بار آیا ہے۔ اسی طرح الْعَزِیْزُ الْغَفَّار ۳ مرتبہ‘ الْعَزِیْزُ الْحَمِیْد ۳ مرتبہ‘ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَام۴ مرتبہ اور عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ ایک مرتبہ آیا ہے‘ جبکہ ایک جگہ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌ اور ایک جگہ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ بھی آیا ہے۔ ان جملہ آیات پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ مالک الملک جسے ساری مخلوق پر غلبہ ٔ تام اوراقتدارِ کامل حاصل ہے‘ جو لائق ِحمد و ثنا ہے‘ وہ اپنےاقتدار اور قدرت کااستعمال حکمت‘ رحم‘ غفران‘ حلم اورعلم کے ساتھ فرماتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے لمحہ ٔ فکریہ ہے جن کو دنیائے فانی میں چند روزہ محدود غلبہ کسی مقام یا اشخاص پرحاصل ہو گیا ہو اور وہ اپنے اختیارات کا استعمال بغیر سوچے سمجھے اندھا دھند کرتے ہیں‘ یہ دیکھے بغیر کہ اس کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں۔
(۱۰) اَلْجَبَّار
یہ جبر سے ہے جس کے معنی درستی کے ہیں۔ اس کے مقابلے میں لفظ کسر آتا ہے جس کے معنی شکستگی کے ہیں ۔ انسان کے لیے جَبّار کا لفظ ’’جبّار النخل‘‘ کے حوالے سے بتایا گیا ہے‘ یعنی وہ کھجور جو اتنی بلند ہو کہ اس پر چڑھنے کا حوصلہ نہ پڑے‘ کیونکہ سرکش‘ سنگ دل‘ بے رحم لوگ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں کہ ان سے خلق خدا کو آزار و تنگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا ‘ وہ کسی کا حق اپنے اوپر نہیں سمجھتے‘ اسی لیے جبار کہلاتے ہیں۔ سورئہ ہود میں قومِ عاد کے حوالے سے ارشاد الٰہی ہے : {وَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۵۹)} ’’اور انہوں نے پیروی کی ہر سرکش و دشمن ِحق کے حکم کی۔‘‘اسی طرح سورئہ ابراہیم میں سرکش نافرمان قوموں کے حوالے سے فرمایا گیا: {وَخَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ(۱۵)} ’’اور تمام سرکش ضدی لوگ نامراد اور ناکام ہوگئے۔‘‘سورۃ الحشر کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے اسماء کے حوالے سے الجبَّار (زور آور‘ سختی کرنے والا) کا لفظ بھی آیا ہے۔ اسی جبر سے جبروت بھی بنا ہے ‘ جو کہ اس کا مبالغے کا صیغہ ہے۔ سنن ابی دائود کے مطابق حضور کریمﷺ سجدے میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے : ((سُبْحَانَ ذِی الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَکُوْتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمَۃِ)) ’’پاک ہے وہ ذات جو بہت غلبے اور قدرت والی ہے اور ملک و بادشاہت والی ہے اور بڑائی اور عظمت والی ہے۔‘‘
(۱۱) اَلْمُتَکَبِّر
یہ لفظ کِبَرْسے بنا ہے جس کے معنی رفعت‘ شرف ‘بڑائی اور بزرگی کے ہیں۔اہل دنیا کا نام متکبر اس لیے برا ہے کہ ان میں درحقیقت رفعت و شرافت ذاتی نہیں ہوتی‘ اضافی اوصاف سے وہ جھوٹے غرور میں آ کر متکبر بن جاتے ہیں اور اپنی نوع کے دیگر انسانوں کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگ جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جسے حقیقت میں کبریائی حاصل ہے اور وہی ذات ہے جو اپنی صفت میں خود کو متکبر کہہ سکتی ہے۔ سورۃ الحشر کے آخر میں اللہ تعالیٰ کے اسماء کے ذیل میں المُتَکَبِّر(کبر اور بڑائی والا) بھی آیا ہے۔ بندوں کے ذیل میں اس لفظ کا استعمال بطور فعل سورۃ الزمر کی آیت۵۹ میں نافرمانی اور سرکشی کے حوالے سے ہوا ہے : {بَلٰی قَدْ جَآءَتْکَ اٰیٰتِیْ فَکَذَّبْتَ بِہَا وَاسْتَکْبَرْتَ}’’کیوں نہیں! تیرے پاس میری آیات آئی تھیں توتُونے ان کو جھٹلا دیا تھا اور تکبّر کیا تھا۔‘‘المتَکَبِّر اسمائے حسنیٰ میں سے ہے اور اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ معبود جو اپنی ذات میں علو و برتری میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہے اور جو صفاتِ ذمیمہ اور اخلاقِ رذیلہ سے ہر لحاظ سے برتر و بالا ہے۔
(۱۲) الْخَالِقُ
یہ اسم خَلَقَ(ن) سے بنا ہے اور خلق کے معنی تقدیر و اندازہ ہے۔ خالق وہ ذات ہے جس نے ماہیات کا اندازہ اور ذوات کا تعین فرمایا‘ جو حقائق کو عدم سے وجود میں لایا ۔ لفظ خلق کا استعمال قرآن مجید کی مختلف آیات میں ہوا ہے ۔ سورۃ الاعراف میں ارشاد ہے:{اِنَّ رَبَّـکُمُ اللہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ}(آیت۵۴) ’’بے شک تمہارا پروردگار وہی اللہ ہے جس نے پیدا کیے آسمان اور زمین‘‘۔سورۃ الانبیاء میں فرمایا:{وَہُوَ الَّذیْ خَلَقَ الَّیْلَ وَالنَّہَارَ} (آیت۳۳) ’’اور وہی ہے جس نے پیدا کیا رات اور دن کو۔‘‘سورۃ الملک میں بتایاگیا: {الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ}(آیت۲)’’جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا۔‘‘سورۃ الزخرف میں ارشاد ہوا:{خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّہَا}(آیت۱۲) ’’ جس نے بنائے ہیں تمام مخلوقات کے جوڑے۔ ‘‘سورئہ یٰسٓ میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے : {وَہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمُ(۷۹)}’’ اور وہ ہر مخلوق کا مکمل علم رکھنے والا ہے۔‘‘
آیاتِ بالا پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مادی و غیر مادی (ہر دو قسم) اشیاء پر خلق کا لفظ استعمال ہوا ہے‘ البتہ خلق کا لفظ کسی مادی شے کو کسی خاص شکل میں تیار کرنے پر بھی آتا ہے جیسے کہ سورئہ آلِ عمران میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی ارشاد ہوا:{اَنِّیْ اَخْلُقُ لَـکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَہَیْئَۃِ الطَّیْرِ}(آیت۴۹) ’’میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی مانند صورت بناتا ہوں۔‘‘ انہی معنی کے لحاظ سے سورۃ المؤمنون میں فرمانِ الٰہی ہے:{فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ(۱۴)} ’’پس بڑا با برکت ہے اللہ‘ تمام تخلیق کرنے والوں میں بہترین تخلیق کرنے والا۔‘‘ سورۃ الحجر میں ارشاد فرمایا: {اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ الْخَلّٰقُ الْعَلِیْمُ(۸۶) }’’یقیناً آپؐ کا رب پیدا کرنے والا‘ خوب جاننے والا ہے۔‘‘پس اللہ تعالیٰ خالق بھی ہے‘ خلّاق بھی ہے اور احسن الخالقین بھی ۔یہ تینوں الفاظ اگرچہ ایک صفت خلق سے تعلق رکھتے ہیں‘ لیکن ہر ایک میں جداگانہ کیفیت و خصوصیت موجود ہے۔
(۱۳) الْبَارِیُٔ
یہ اسم ’’بَرَأْ‘‘ (ف) سے ہے‘ یعنی نیست سے ہست کرنا۔ عدم سے وجود میں لانا۔ بَرَأَ اللّٰہُ الْخَلقَ بَرْءًا وبُرُوْءًا۔ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوتا ہے : {فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِئِکُمْ} (آیت۵۴) ’’پس اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف۔‘‘سورۃ الحشر کے آخر میں اسمائے الٰہی کے ذیل میں یہ اسم بھی آتا ہے : الْبَارِیُٔ(وجود بخشنےو الا)۔
(۱۴) اَلْمُصَوِّرُ
اس اسم مبارک کا معنی ہے: صورت بنانے والا۔ سورئہ آلِ عمران میں فرمایا:{ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآئُ ط}(آیت۶) ’’وہی ہے جو تمہاری صورت گری کرتا ہے (تمہاری مائوں کے) رحموں میں جس طرح چاہتا ہے۔‘‘سوۃ الحشر کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے حوالے سے اَلْمُصَوِّرُ(صورت بنانے والا) بھی آتا ہے۔ دنیا میں جو انسان مصور کہلاتے ہیں‘ وہ صورت بنانے والے نہیں ہوتے بلکہ صورت کی نقل اتارنے والے ہوتے ہیں۔ پھر وہ نقل بھی اصل سے کوئی حقیقی مطابقت نہیں رکھتی۔ مصور ِحقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے‘ جس نے کروڑوں‘ اربوں ‘ کھربوں صورتیں بنائی ہیں۔ اس کے باوجود ہر ایک صورت دوسرے سے بالکل الگ ہے۔ اس تفریق کو اول جنس میں‘پھر نوع میں‘ پھر صنف میں اور پھر افراد میں دیکھیں‘ یہ تمام سلسلہ عجائب در عجائب امور پر مشتمل ہو گا۔ وہی ذات باری تعالیٰ ہے جو عدم کو وجود بخشتی ہے‘ وہی ہے جو جسم کو روح عطا کرتی ہے‘ وہی ہے جو سب کو اپنی اپنی شکل و صورت میں انفرادی و امتیازی شان بخشتی ہے۔
(۱۵) الْغَفَّار
غَفَرَ (ض) غَفْرًا وَغُفْرَانًا کے معنی ہیں چھپانا‘ ڈھانپ دینا ۔ غَفَرَ الْمَتَاعَ فِی الْوِعَاءِ ’’کپڑے صندوق میں رکھ لیے‘‘۔ غَفَرَ الشَّیْبَ بِالْخِضَابِ ’’سفید بالوں کو خضاب سے چھپا دیا۔‘‘ اسی مصدر سے غَفُور بھی آتا ہے غَافِر بھی اور غَفَّار بھی۔ سورۃ المؤمن میں ذاتِ باری تعالیٰ کے حوالے سے ارشاد ہوا: {غَافِرِ الذَّنْبِ}(آیت۳) ’’گناہ کا بخشنے والا۔‘‘ سورۃ نوح میں فرمایاگیا: {اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا (۱۰)} ’’یقیناً وہ بہت بخشنے والا ہے۔‘‘ سورۃ الزمر میں باری تعالیٰ کے حوالے سے ارشاد ہوا: { اَلَا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفَّارُ(۵)} ’’آگاہ ہو جائو! وہ زبردست ہے ‘ بہت بخشنے والا‘‘۔ عزّت و قوت اور قدرت و شوکت کے ساتھ غفران کی شان اور بھی اونچی ہو جاتی ہے۔ سورۃ النجم میں فرمایا گیا : { اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِط} (آیت۳۲ ) ’’یقیناً آپؐ کا ربّ بہت ہی وسیع مغفرت والا ہے ۔‘‘سورۃ الاعراف میں ارشاد ہوتا ہے : {وَاَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ(۱۵۵)} ’’اور یقیناً تمام بخشنے والوں میں تُو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔‘‘ان آیات میں ایسے اسمائے مرکبہ استعمال ہوئے ہیں جو غفران کے مصدر سے ہیں اور یہ سب اس کے مراتب کو بحیثیت وسعت و اہلیت و خیریت ظاہر کرنے والے ہیں۔
اس اسم نے فیض حاصل کرنے کے لیے کثرت سے استغفار کرنا چاہیے۔ صحیح بخاری میں مندرجہ ذیل دعا کو ’’سیّدالاستغفار‘‘ فرمایا گیا ہے:
((اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ، لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ، خَلَقْتَنِیْ وَاَنَا عَبْدُکَ، وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، اَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْءُ بِذَنْبِیْ، فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ))
’’اے اللہ! تُو میرا ربّ ہے‘ معبود تُو ہے اور کوئی نہیں۔ تُو نے ہی مجھے پیدا کیا ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں اور تیرے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں جتنا کہ مجھ سے ہو سکتا ہے۔اپنے کرتوتوں کی برائی سے میں تیری پناہ کا خواہاں ہوں۔ تیری نعمتیں جو مجھ پر ہیں مجھے ان کا اقرار ہے اور مجھے اپنے گناہوں کا بھی اقرار ہے۔پس تُو مجھے بخش دے‘ گناہوں کو تیرے سوا اورکوئی نہیں بخشتا۔‘‘
(۱۶) اَلْقَھَّارُ
یہ قہر سے ہے جس کے معنی غلبہ کے ہیں۔ قہار وہ ذات ہے جو ہر ایک غالب سے غالب تر ہے ‘ جو ہر ایک زبردست کو زیر کرنے والی ہے۔ سورۃ الانعام میں فرمایا گیا:{وَھُوَ الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ ط} (آیت۱۸) ’’اور وہی ذات اپنے بندوں کے اوپر پوری طرح غالب ہے۔‘‘ سورۃ الاعراف میں فرعون کی زبان سے کہلوایا گیا : {وَاِنَّا فَوْقَھُمْ قٰھِرُوْنَ(۱۲۷)} ’’اور یقیناً ہم ان پر پوری طرح غالب ہیں۔‘‘کسی انسان کا یہ دعویٰ کہ وہ کسی دوسرے انسان یا قوم یا ملک پر غلبہ ٔ تام رکھتا ہے‘ اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ فرعون کا قول بنی اسرائیل کے حوالے سے تھا۔ ایسا دعویٰ تو ذلت و رسوائی اور ہلاکت و تباہی کا موجب ہوتا ہے۔ یہ اسم تو صرف ربّ العالمین ہی کے لائق ہے جو ہماری روح اور ہمارے جسم پر پورا غلبہ رکھتا ہے۔ ہمارا زمین پر چلنا پھرنا‘ زیر آسماں بے فکر رہنا سہنا محض اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء سے ہم کو فائدہ اٹھانے کا حق (حق تمتع) دیا ہے‘ ورنہ یہی زمین ہم کو اپنا لقمہ بنا سکتی ہے اور یہی آسمان ہم کو پر ِکاہ کی طرح جلا سکتا ہے۔ ذرا درج ذیل آیاتِ قرآنی پر غور کریں:
سورئہ یوسف میں فرمایا: {ءَاَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ(۳۹)} ’’کیا بہت سے متفرق ربّ بہتر ہیں یا پھراکیلا اللہ جوسب پر حاوی و غالب ہے؟‘‘ سورۃ الرعد میں ارشاد ہے:{وَہُوَ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ (۱۶)} ’’اور وہ ہے یکتا‘ سب پر حاوی۔‘‘سورئہ صٓ میں ارشاد ہوتا ہے:{وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّا اللہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ(۶۵) }’’اور نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے‘وہ اکیلا ہے اور ہر چیز پر پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ ‘‘سورئہ ابراہیم میں ارشاد ہوتا ہے:{وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ(۴۸) }’’اور یہ حاضر ہو جائیں گے اللہ کے سامنے جوواحد و قہار ہے۔‘‘سورۃ المؤمن میں روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کی طرف سے صدا بلند ہو گی اور پھر اُسی کی طرف سے جواب ہو گا:{لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَط لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ(۱۶)} ’’کس کے لیے ہے بادشاہی آج کے دن؟ (جواب ملے گا:) اکیلے اللہ کے لیے ہے جو تمام کائنات پر چھایا ہوا ہے۔‘‘غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اسم قہار میں ایک نرالی اور جلالی شان ہے۔ وہ الوہیت اور وحدانیت کے سوا کسی اور اسم کے ساتھ استعمال نہیں ہوا۔ یہی اسم ہمیں بتلاتا ہے کہ وجود کو اعیان پر اور واجب الوجود کو امکان پر کس طرح غلبۂ کلی حاصل ہے کہ کوئی شے‘ کوئی امر‘ کوئی زمان‘ کوئی مکان اُس ذاتِ واحد کے غلبے سے باہر نہیں۔قرآن پاک میں القھار ۶ مرتبہ اور ہر دفعہ الواحد کے ساتھ آیا ہے۔
(۱۷) الْوَھَّابُ
یہ وَھَبَ (ف) وَھْبًا وَھِبَۃً سے ہے۔ وَھَّاب کے معنی کثیر الھبۃ اور دائم العطاء ہیں۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ھبۃ کی حقیقت وہ عطیہ ہے جو بلا کسی غرض و امید اور بلاکسی عوض کے ہو۔ سورئہ آل عمران میں ذاتِ باری تعالیٰ کے حوالے سے ارشاد ہوا : {اِنَّکَ اَنْتَ الْوَہَّابُ(۸)} ’’یقیناً تُو ہی سب کچھ دینے والا ہے ۔‘‘جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل اور اسحاق(علیہما السلام)کا عطیہ دیا گیا تو آپ نے ان الفاظ میں اللہ ربّ العزت کا شکر ادا کیا: {اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَاِسْحٰقَ ط} (ابراھیم:۳۹) ’’کُل شکر اور کُل ثنا اُس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے عطا فرمائے‘ باوجود بڑھاپے کے‘ اسماعیلؑ اور اسحاق ؑ(جیسے بیٹے)۔ ‘‘سورئہ صٓ میں ارشاد الٰہی ہوا:{ وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمٰنَ ط} (آیت۳۰) ’’اور ہم نے دائودؑ کو سلیمانؑ (جیسا بیٹا) عطا کیا۔ ‘‘حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دُعا پر جب اللہ تعالیٰ نے ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبی بنایا تو سورئہ مریم میں فرمایا گیا:{وَوَہَبْنَا لَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَآ اَخَاہُ ہٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳) } ’’اور ہم نے اُسے عطا کیا اپنی رحمت سے اُس کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر۔‘‘سورۃ الشعراء میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبانی دعانقل کی گئی ہے:{رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا وَّاَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ (۸۳) }’’اے میرے پروردگار !تُو مجھے حکمت عطا فرما اور مجھے اپنے صالح بندوں میں شامل کر دے۔‘‘
آیاتِ بالا پر غور کرنے سے پتہ چلے گا کہ عموماً اسم وَھَّاب کے ساتھ رحمت کا ذکر ضروری ہے اور ربّ العالمین کی جملہ عطایا کا مدار اُس کی رحمت پر ہی ہے ‘اور اسی رحمت سے ہی صفت وہابیت کا ظہور ہوتا ہے۔ وَھَّاب وہ ذات ہے کہ عطائے صوری و معنوی اور عطیاتِ دُنیوی و اُخروی کی وہی مالک ہے۔ بندے کے پاس اس کے اپنے گھر کی بالکل کوئی شے نہیں۔ جو کچھ بھی اس کے پاس ہے‘ وہ سب عطائے الٰہی اور اُس کی بے پناہ سخاوت و عطا کا نتیجہ ہے۔
(۱۸) الرَّزَّاقُ
رزق کے معنی اکل وشُرب کی اشیاء اور مال و متاع وغیر ہ ہیں۔ وہ سب چیزیں جن سے انسان لذت نیز حسی اور ذہنی فائدہ حاصل کرتا ہے‘ رزق میں شامل ہیں۔ سورۃالذاریات میں فرمایا گیا:{اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْـقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ(۵۸)} ’’یقیناً اللہ ہی سب کو رزق دینے والا‘ قوت والا‘ زبردست ہے۔‘‘سورۃ المؤمنون میں ارشاد ہوا:{وَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۷۲)} ’’اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘اسی طرح سورۃ الجمعہ میں ہمیں بتایا گیا : {وَاللہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱)}’’اور اللہ بہترین رزق عطا کرنے والا ہے۔‘‘سورۃ الحج میں فرمانِ الٰہی ہے: {وَاِنَّ اللہَ لَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۵۸)} ’’اور یقیناً اللہ ہی بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘
بعض اوقات ماں باپ‘ حاکم‘ محسن‘ امیر یا بادشاہ کو یہ گمان ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو رزق دیتے ہیں۔ عارضی طو رپر اگر یہ لوگ اپنے دعویٰ میں سچے بھی ہوں‘تب بھی واضح ہوتا ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کی رزق رسانی بدرجہ اَتم اور اَکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دیکھیں تو کوئی روٹی کا بھوکا ہے‘ کوئی گوشت کا‘ کوئی گھاس کا تو کوئی ذوق و شوق کا‘ کوئی محبت کا تو کوئی ذکر کا اور کوئی توجہ کا۔ ہر ایک کو اُس کا مطلوبہ رزق بہم پہنچانا اُسی رزّاقِ مطلق کا کام ہے۔ ایک غذا کےاندر معدہ‘ اعصاب‘ شرائین‘ جگر‘ تلی اور قلب و دماغ کی پرورش کرنے والے الگ الگ اجزاء ہیں اور ہر ایک عضو اپنی اپنی غذا کو چوس لیتا اور دوسرے عضو کا حصہ اس کے لیے چھوڑدیتا ہے۔ ایک ہی جسم کے اندر رزق کی ایسی تقسیم اُس ربّ العالمین کے سوا کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔
(۱۹) الْفَتَّاحُ
لغت میں فتح کے معنی کشائش و کشودگی (کھولنے) کے ہیں۔ کلید (چابی) کو مفتاح اسی لیے کہا جاتا ہے۔ فتح کے معنی کسی چیز کا پہلا حصہ بھی ہیں۔ فواتح القرآن یعنی قرآن پاک کی ابتدائی سورتیں۔ فاتحۃ الکتاب‘ الحمد شریف کو کہا جاتا ہے ۔ الفَتَّاح سے مراد کھولنے والا‘ فیصلہ کرنے والا ہے۔ اب قرآن کریم میں اس کے استعمال کے مختلف معانی پر غور کیجیے :
{وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَہُمْ}(یوسف:۶۵)’’اور جب انہوں نے کھولا اپنا سامان۔‘‘ سورۃ الاعراف میں فرمایا:{وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ }(آیت۹۶) ’’اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر کھول دیتے آسمانوں اور زمین کی برکتیں۔‘‘حضرت نوح علیہ السلام کی التجا سورۃ الشعراء میں نقل ہوئی ہے:{فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا }(آیت۱۱۸)’’تو اَب دو ٹوک فیصلہ فرما دے میرے اور ان کے مابین ۔‘‘ سورۃ السجدہ میں ارشاد ہے:{قُلْ یَوْمَ الْفَتْحِ لَا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِیْمَانُہُمْ} (آیت۲۹)’’(اے نبیﷺ!) آپ کہیے کہ فیصلے کے دن ان لوگوں کا ایمان لانا انہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا ۔‘‘ یہاں قیامت کو ’’یوم الفتح‘‘ کہا گیا ہے کہ اس روز ساری حقیقت کھل کر واضح ہوجائے گی۔ سورۃ الفتح کی پہلی آیت میں حضورﷺ سے مخاطب ہو کر ارشادِ ربانی ہے : {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(۱)} ’’یقیناً ہم نے آپ ؐکو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔‘‘
اسی طرح مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دعا پڑھی جاتی ہے :اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ’’اےاللہ! میرےلیے رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
غور کریں کہ ’’فَتَّاح‘‘ وہی ذاتِ باری تعالیٰ ہے جو مشکلات و مہمات کو کھول دیتی ہے‘ جو دل کو حق کے لیے کھول دیتی ہے اور جو زبان پر علوم (حق) کو جاری فرما دیتی ہے۔ سورۃ سبا میں فرمانِ الٰہی ہے: {قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ ط وَہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ(۲۶)}’’آپؐ کہہ دیجیے کہ ہمارا رب ہم سب کو (ایک دن)جمع کرے گا ‘پھر وہ فیصلہ کردے گا ہمارے مابین حق کے ساتھ‘ اور وہ خوب فیصلہ کرنے والا‘ خوب جاننے والا ہے۔‘‘گویا فَتَّاح وہی ذاتِ باری تعالیٰ ہے جو اہل ِحق و اہل باطل کے درمیان فیصلہ فرماتی ہے۔ اہل ایمان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ِمقدّس سے ہی کشائش ظاہری و باطنی کی اُمید رکھنی چاہیے۔ (جاری ہے)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025