(دعوتِ فکر) عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کا علاج - ممتاز ہاشمی

11 /

عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کا علاجممتاز ہاشمیپورے عالم اسلام اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی مغربی تہذیب اور دیگر مشرکانہ اقدامات پر ہر اہل ایمان پریشانی اور دکھ میں مبتلا ہے ۔اس پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی مندرجہ ذیل آیت پر غور کرنا چاہیے:
{اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ لا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِط وَاللہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹)} (النور)
’’یقیناً جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔‘‘
اس آیت کی روشنی میں ہم جب مسلمان ممالک میں ناچ گانے کی مخلوط محفلوں کے انعقاد اورفسق وفجور اور بے حیائی پر مبنی دیگر سرگرمیوں پر غور کریں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ سب ہمارے اعمال کے نتیجے کے طور پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ایک عذاب ہے۔ وہ تمام لوگ جو ان سرگرمیوں کے انعقاد یا ان کے فروغ کا باعث بن رہے ہیں ‘یا ان میں شریک ہو رہے ہیں ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب کا دوٹوک اعلان کیا ہے۔
پاکستان میں بھی یہ سرگرمیاں عرصہ دراز سے جاری و ساری ہیں ‘اور وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ انتہائی شرم ناک بات ہے کو وہ واحد ملک جس کے قیام کی بنیاد ہی دین اسلام کو قائم کرنا تھا ‘جس کا وعدہ ہمارے آباء و اجداد نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کیا تھا‘ آج اس کے عوام کی غالب اکثریت ان بڑھتے ہوئے باغیانہ رجحانات پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے ۔یہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں ہمیں اس حدیث نبوی ؐ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
((یُوْشِکُ الاُمَمُ اَنْ تَدَاعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الاَکَلَۃُ اِلٰی قَصْعَتِھَا)) فَقَالَ قَائِلٌ: مِنْ قِلَّۃٍ نَحْنُ یَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: ((بَلْ اَنْتُمْ یَوْمَئِذٍ کَثِیْـرٌ وَلٰـکِنَّـکُمْ غُثَاءٌ کَغُثَاءِ السَّیْلِ، وَلَـیَنْزِعَنَّ اللّٰہُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّکُمُ الْمَھَابَۃَ مِنْکُمْ، وَلَـیَقْذِفَنَّ فِیْ قُلُوْبِکُمُ الْوَھْنَ)) قِیْلَ: وَمَا الْـوَھْنُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: ((حُبُّ الدُّنْیَا وَکَرَاھِیَۃُ الْمَوْتِ)) [سنن ابی داوٗد، کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام]
’’قریب ہے کہ دیگر قومیں تم پر ایسے ہی ٹوٹ پڑیں جیسے کھانے والے پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ تو ایک کہنے والے نے کہا: کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ تم اس وقت (تعداد میں) بہت ہو گے‘ لیکن تم سیلاب کی جھاگ کے مانند ہو گے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دشمن کے سینوں سے تمہارا خوف نکال دے گا‘ اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا۔ تو ایک کہنے والے نے کہا: اللہ کے رسول! وہن کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے ۔‘‘
اس حدیث کی روشنی میں آج ہم مسلمانوں اور عالم ِاسلام کا حال دیکھیں تو صورتِ حال ایسی ہی دکھائی دے رہی ہے۔ مسلمان ممالک کے حکمران طبقے‘ سول اور ملٹری بیوروکریسی‘ عدلیہ وغیرہ کی اکثریت بالعموم منافق‘ کرپٹ‘ ظالم ‘ عیاش اور اسلام دشمن عناصر کے ایجنٹ ہیں۔ ان کا مسلمانوں پر مسلط ہونا اللہ کے عذاب کی گواہی دے رہا ہے کیونکہ ہمارے اندر ایمان کا فقدان ہے اور مذکورہ بالا حدیث کے مطابق دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ہے۔اگرچہ ہم اپنے آپ کو آزاد کہلاتے ہیں مگر ہم میں ذہنی غلامی نہایت گہرائی تک سرایت کر چکی ہے۔ نتیجہ کے طور آج کم و بیش پورا عالم ِاسلام ذہنی غلامی اور پس ماندگی میں مبتلا ہے۔
مختلف علاقوں میں مسلمانوں پر ظلم اور زیادتی پر دنیا خاموش رہتی ہے۔ مسلمان ممالک بھی اپنے آپ کو رسمی احتجاجی بیانات تک محدود رکھتے ہیں ‘کیونکہ وہ اپنے آقاؤں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ حالیہ تاریخ میں ‘خاص طور پر فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں مسلم ممالک نے کفار کی خاموش حمایت کی ہے۔ چنانچہ لاکھوں مظلوم ومجبور مسلمانوں کے قتل میں عالم ِ اسلام بھی واضح طور پر کفار کے جرائم میں برابر کا شریک ہے۔ سورۃ البقرہ میں یہود پر فردِ جرم عائد کرتے ہوئے جہاں ان کے جرائم کی فہرست سامنے رکھی گئی ہے وہاں انہیں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ:
{ثُمَّ اَنْتُمْ ہٰٓؤُلَآئِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِہِمْ ز تَظٰہَرُوْنَ عَلَیْہِمْ بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ط وَاِنْ یَّاْتُوْکُمْ اُسٰرٰی تُفٰدُوْہُمْ وَہُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ اِخْرَاجُہُمْ ط اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَـکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ج فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّـفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَیَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُرَدُّوْنَ اِلٰٓی اَشَدِّ الْعَذَابِ ط وَمَا اللہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ(۸۵)} (البقرۃ)
’’پھر تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنے ہی لوگوں کو قتل بھی کرتے ہو اور اپنے ہی لوگوں میں سے کچھ کو ان کے گھروں سے نکال دیتے ہو‘ اُن پر چڑھائی کرتے ہو گناہ اور ظلم و زیادتی کے ساتھ۔ اور اگر وہ قیدی بن کر تمہارے پاس آئیں تو تم فدیہ دے کر انہیں چھڑاتے ہو‘ حالانکہ اُن کا نکال دیناہی تم پرحرام کیاگیا تھا۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو نہیں مانتے؟ تو نہیں ہے کوئی سزا اُس کی جو یہ حرکت کرے تم میں سے سوائے ذِلّت و رسوائی کے دنیا کی زندگی میں‘ اور قیامت کے روز وہ لوٹا دیے جائیں گے شدید ترین عذاب کی طرف۔ اور اللہ غافل نہیں ہے اُس سے جو تم کر رہے ہو۔‘‘
یہود کے اس طرزِ عمل میں مسلمانوں کے موجودہ حالات اور کردار کے بارے میں واضح اشارہ موجود ہے۔ اس سے یہ وضاحت ہو جاتی ہے کہ آج مسلمان کیوں ذلیل و خوار ہیں۔ مذکورہ آیت میں واضح اعلان کیا گیا ہے کہ ایسے مسلمانوں کو روزِ قیامت شدید ترین عذاب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔ یہ یقینی طور پر انتہائی تشویش ناک صورت حال ہے جب کہ ہر مسلمان کی پہلی ترجیح دوزخ سے بچنا اور جنت کے حصول کی کوشش کرتے رہنا ہے۔
ایک مسلمان کو یہاں تک پہنچانے میں جو عمل سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے وہ جھوٹ اور منافقت ہے۔ جھوٹ بولنے سے دوسری تمام برائیوں کو خود بخود پنپنے کا موقع ملتا ہے اور آخر کار یہ نفاق کی انتہائی شکل اختیار کرتے ہوئے انسان کو پختہ منافق کے درجے پر پہنچا دیتا ہے۔ قرآن مجید میں منافق کے انجام کے بارے میں واضح طور پر ارشاد ہے:
{اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِج وَلَنْ تَجِدَ لَہُمْ نَصِیْرًا(۱۴۵) }(النساء)
’’منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے ۔ ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے ۔‘‘
اس بارے میں مزید وضاحت مندرجہ ذیل احادیث سے ہو جاتی ہے:
(۱) حضر ت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ)) (صحیح البخاری:۳۳)
’’منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے‘ اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔‘‘
(۲) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
((إِنَّ مِنْ شَرِّ النَّاسِ ذَا الْوَجْهَيْنِ الَّذِي يَأْتِي هٰؤُلَاءِ بِوَجْهٍ وَهٰؤُلَاءِ بِوَجْهٍ)) (صحیح مسلم:۶۶۳۰)
’’ لوگوں میں سے بدترین شخص دو چہروں والا ہوتا ہے ‘ جو کچھ لوگوں کے پاس ایک چہرے سے آتا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں کے پاس دوسرے چہرے سے آتا ہے ۔‘‘
(۳) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
((عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ، فَإِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى الْبِرِّ، وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ وَيَتَحَرَّى الصِّدْقَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ، فَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الْفُجُورِ، وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَمَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ وَيَتَحَرَّى الْكَذِبَ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا)) (صحیح مسلم:۶۶۳۹)
’’تم صدق پر قائم رہو‘ کیونکہ صدق نیکی کے راستے پر چلاتا ہے اور نیکی جنت کے راستے پر چلاتی ہے ۔ انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے اور کوشش سے سچ پر قائم رہتا ہے ‘ حتیٰ کہ وہ اللہ کے ہاں سچا لکھ لیا جاتا ہے‘ اور جھوٹ سے دور رہو‘ کیونکہ جھوٹ کج روی کے راستے پر چلاتا ہے اور کج روی آگ کی طرف لے جاتی ہے ۔ انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کا قصد کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسے جھوٹا لکھ لیا جاتا ہے۔‘‘
ربّ العالمین نے مسلمانوں کو نفاق سے بچنے اور اس دنیا میں غالب ہونے کا طریقہ بھی اس طرح سے بیان کیا ہے:
{وَلَا تَہِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۱۳۹) } (آل عمران)
’’اور کمزوری نہ دکھاؤ اور نہ غمگین ہو ( کیونکہ ) اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے ۔‘‘
ہر زمانے اور دور میں ایسے لوگوں کی موجودگی ہو گی جو لوگوں کو اس نفاق سے بچانے اور حق و سچائی پر قائم رہنے کے لیے رہنمائی فراہم کرنے کا باعث ہوں گے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَO} (الحجرات)
’’مومن تو وہ ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ( پختہ ) ایمان لائیں پھر شک و شبہ نہ کریں اور اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے رہیں۔( اپنے دعوائے ایمان میں ) یہی سچے اور راست گو ہیں ۔‘‘
{وَلْـتَـکُنْ مِّنکُمْ اُمَّـۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَـاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴)} (آل عمران)
’’تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور بُرے کاموں سے روکے ‘ اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں۔‘‘
مؤمن کی شخصیت کے خدوخال کو مفکر اسلام علامہ اقبال نے اشعار کے پیرائے میں یوں بیان کیا ہے:؎
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اَفلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن
جچتے نہیں کنجشک و حمام اس کی نظر میں
جبریل و سرافیل کا صیّاد ہے مومن
ایمان کے دعوے داروں کی اس عارضی زندگی کا اصل مقصد نفاق سے بچنا اور حقیقی مؤمن بننا ہے تاکہ آخرت میں کامیابی کے حصول کی امید کی جاسکے۔ اس عمل میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنے لائحہ عمل کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ قرآن و سُنّت میں بیان کردہ مؤمن کی خصوصیات کواپنانےکی کوشش اور اس دنیا میں دین اسلام کے غلبے کی جدّوجُہد ہی ہمیں  آخرت میں کامیابی کے حصول میں مددگار ثابت ہو گی۔لہٰذا موجودہ طاغوتی نظام کو ختم کر کے اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کو قائم کرنے کی جدّوجُہد میں ہر مسلمان کا انفرادی کردار‘اس کے دستیاب وسائل اور حیثیت کا پیمانہ ہی قیامت کے روز جزا اور سزا کا تعین کرے گا۔ اس کے لیے اپنے اردگرد مؤمن لوگوں کی تلاش کریں اور ان کے ساتھ مل کر اس جدّوجُہد میں سُنّت ِرسول ؐپر چلتے ہوئے اپنے حصے کا کام کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو غلبہ و اقامت ِ دین کے لیے مختص کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین!