(حسن معاشرت) کسب ِحلال - سعد عبداللہ

11 /

کسب ِحلالسعد عبد اللہ
استاذ قرآن انسٹیٹیوٹ لطیف آباد‘حیدر آباد

ہاتھ سے کما کر کھانا اور کسی ہنریا صنعت کو معاش کے طور پر اختیار کرنا کوئی معیوب بات نہیں‘ بلکہ سوال سے بچنے اور رزقِ حلال کمانے کی نیت سے پیشہ اختیار کرنا بڑی فضیلت اور ثواب کا کام ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
((التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ))(۱)
’’سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء‘ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔‘‘
حضرت آدم علیہ السلام ہل چلاتے تھے۔ حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سیتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کھیتی باڑی کرتے تھے۔ حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ علیہما السلام بکریوں کی نگہبانی کرتے تھے۔ حضرت داؤد علیہ السلام لوہے کی زِرہیں بناتے تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام امورِ سلطنت چلاتے تھے۔ ہمارے نبی محمد مصطفیٰﷺ مقامِ اجیاد پر بکریوں کی نگہبانی فرماتے تھے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا    ڮ وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ۭ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ (۱۶۸)} (البقرۃ)
’’اے لوگو! کھاؤ جو چیزیں زمین میں ہیں حلال اور پاکیزہ ‘اور شیطان کے نقشِ قدم پر مت چلو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ نبی اکرمﷺ فجر کی نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یہ دعا مانگتے:
((اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَّرِزْقًا طَیِّبًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا))(۲)
’’اے اللہ! میں آپ سے علمِ نافع‘ پاکیزہ و حلال رزق اور مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔‘‘
تجارت میں برکت
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، اَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا، بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا، مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا))(۳)
’’خرید و فروخت کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں (کہ بیع فسخ کر دیں یا برقرار رکھیں)۔ پس اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور ہر بات کھول کھول کر بیان کی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہو گی ‘ اور اگر انہوں نے کچھ چھپائے رکھا یا جھوٹ بولا تو ان کے خرید و فروخت کی برکت ختم کر دی جائے گی۔‘‘
شراکت داری میں نصرتِ خداوندی
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’جب تک دو شراکت داروں (partners) میں سے کوئی ایک دوسرے کے ساتھ خیانت نہیں کرتا ‘ میں ان کے درمیان تیسرا ہوتا ہوں (یعنی میری تائید و نصرت اور برکت ان کے ساتھ شاملِ حال رہتی ہے)‘ لیکن جیسے ہی کوئی ایک خیانت کرتا ہے میں ان کے درمیان سے نکل جاتا ہوں۔‘‘(۴)
پورا پورا ناپ / تول کر دینا
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(۳۵) } (بنی اسرائیل)
’’اور جب (کوئی چیز) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرو اور (جب تول کردوتو) ترازو سیدھا رکھ کر تولو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بہت بہتر ہے۔‘‘
{وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ(۱) الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ (۲) وَاِذَا کَالُوْہُمْ اَوْ وَّزَنُوْہُمْ یُخْسِرُوْنَ(۳) اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّـہُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ(۴)لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ(۵) یَّوْمَ یَـقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶)} (المطففین)
’’تباہی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے‘ جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں توپورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو گھٹا کر دیتے ہیں۔ کیا یہ لوگ اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ وہ (مرنے کے بعد دوبارہ) ایک بڑے سخت دن کے لیے اٹھائے جائیں گے ‘ جس دن سب لوگ ربّ العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔ ‘‘
حضرت سوید بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اور مخرفہ عبدی مقامِ ہجر سے کپڑے کا بنا ہوا سامان فروخت کرنے کے لیے آئے۔ نبیﷺ بھی ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے ایک پاجامے کا بھاؤ تاؤ فرمایا۔میرے پاس ایک وزن کرنے والا شخص تھا جو اُجرت لے کر وزن کیا کرتا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے اس وزن کرنے والے شخص کو نصیحت فرمائی:
((زِنْ وَأَرْجِحْ))(۵)
’’تولو اور جھکتا ہوا تولو۔‘‘
عیب بتا کر مال فروخت کرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ اناج کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے۔ آپﷺ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو انگلیوں پر تری آگئی۔ آپﷺ نے پوچھا: ’’اے اناج کے مالک! یہ کیا ہے؟‘‘ اُس نے کہا: یا رسول اللہﷺ! یہ بارش میں بھیگ گیا۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
((أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ كَيْ يَرَاهُ النَّاسُ، مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي))(۶)
’’پھر تم نے اس بھیگے ہوئے اناج کو اوپر کیوں نہ رکھا کہ لوگ دیکھ لیتے؟ (اور عیب پر آگاہ ہو جاتے)۔ جو شخص دھوکا دے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
ایک اور موقع پر آپﷺ نے فرمایا:
((لَا یَحِلُّ لِأَحَدٍ أَن یَّبِیْعَ شَیْئًا إِلَّا بَیَّنَ مَا فِیْہِ، وَلَا یَحِلُّ لِمَنْ عَلِمَ ذٰلِکَ إِلَّا بَیَّنَہُ ))(۷)
’’ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز فروخت کرے جب تک کہ اس کے عیبوں کو بیان نہ کردے ۔ اور جو بھی اس کے عیبوں کو جانتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ انہیں (خریداروں کے سامنے) بیان کرے ۔ ‘‘
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:
(( اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، وَلَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ بَاعَ مِنْ أَخِیْہِ بَیْعًا فِیْہِ عَیْبٌ إِلَّا بَیَّنَہُ لَہُ ))(۸)
’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ اور کسی مسلمان کے لیےحلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو عیب والی چیز فروخت کرے ‘ سوائے اس کے کہ وہ اس عیب کو اس کے لیے بیان کردے۔ ‘‘
قسمیں کھا کھا کر مال فروخت نہ کرنا
سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:
((إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَلِفِ فِي الْبَيْعِ، فَإِنَّهُ يُنَفِّقُ ثُمَّ يَمْحَقُ))(۹)
’’بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے بچو‘ کیونکہ وہ پہلے (بیع کو) فروغ دیتی ہے‘ پھر (برکت اور نفع کو) مٹا دیتی ہے۔‘‘
نیز رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے :
((اَلْحَلِفُ مُنَفِّقَۃٌ لِّلسِّلْعَۃِ وَمُمْحِقَۃٌ لِلْکَسْبِ))(۱۰)
’’ قسم سے سودا بک جاتا ہے اور کمائی ( کی برکت ) مٹ جاتی ہے ۔ ‘‘
بعض لوگ اپنا تجارتی ساز وسامان جلد از جلد بیچنے کے لیے گاہکوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں ۔یہ اِس قدر سنگین گناہ ہے کہ قیامت کے روز ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ بات کرنا پسند کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا بلکہ انہیں دردناک عذاب میں مبتلا کرے گا ۔ العیاذ باللہ!نبی کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے :
((ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَلَا یَنْظُرُ إِلَیْہِمْ، وَلَا یُزَکِّیْہِمْ، وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ))
’’تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ قیامت کے روز نہ بات چیت کرے گا ‘ نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا ‘ اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا ۔ ‘‘
آپﷺ نے یہ الفاظ تین بار کہے تو حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : ’’وہ یقیناً ذلیل وخوار ہوں گے اور خسارہ پائیں گے ۔ یا رسول اللہﷺ ! وہ کون ہیں ؟ ‘‘آپﷺ نے فرمایا :
((اَلْمُسْبِلُ إِزَارَہُ، وَالْمَنَّانُ، وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہُ بِالْحَلِفِ الْکَاذِبِ))(۱۱)
’’اپنے تہ بند کو (ازراہِ تکبر) نیچے لٹکانے والا ‘ احسان جتلانے والا اور اپنے سودے کو جھوٹی قسم کھا کر بیچنے والا ۔ ‘‘
دھوکا دہی اور ملاوٹ سے بچنا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا ))(۱۲)
’’جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں‘ اور جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
حرام آمدنی والے کی دعا قبول نہیں ہوتی
نبی اکرمﷺ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ دور دراز کا سفر کرتا ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ وہ بکھرے بال اور غبار آلود کپڑوں والا ہے۔ یہ شخص اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلا کر کہتا ہے:’’ اے میرے پروردگار! اے میرے پروردگار! ‘‘لیکن اس کا کھانا بھی حرام‘ پینا بھی حرام‘ لباس بھی حرام اور حرام سے ہی اس کے جسم کی نشوونما ہوئی ۔تو ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے؟ ( صحیح مسلم )
ذخیرہ اندوزی کی ممانعت
حضرت معمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((مَنِ احْتَکَرَ فَھُوَ خَاطِیٌٔ))(۱۳)
’’ذخیرہ اندوزی کرنے والا گناہ گار ہے۔‘‘
دوسری روایت میں الفاظ ہیں:
((لَا یَحْتَکِرُ اِلَّا خَاطِیٌٔ))(۱۴)
’’ذخیرہ اندوزی گناہ گار ہی کرتا ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’جو شخص مسلمانوں کی غذائی ضروریات کی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اسے کوڑھ اور تنگ دستی کے مرض میں مبتلا فرمادیتے ہیں۔‘‘ (ابن ماجہ)
قیمتوں میں مصنوعی اضافہ کرنے کا وبال
رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’جس نے قیمتوں میں کسی قسم کی دخل اندازی کی تاکہ مسلمانوں پر چیزیں مہنگی کر دے تو اللہ تعالیٰ پر واجب ہے کہ ایسے شخص کو قیامت کے دن آگ کے ہولناک حصے پر بٹھائے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبلؒ)
سلف ِصالحین کا طرزِ عمل
سلف ِصالحین کے زمانے میں جب مرد کمانے کے لیے نکلتا تھا تو گھر کی خواتین اسے کہتی تھیں کہ حرام کمانے سے بچنا‘ کیونکہ ہم بھوک پر تو صبر کر سکتے ہیں مگر دوزخ کی آگ پر صبر نہیں کرسکتے!
حواشی
(۱) سنن الترمذی:۱۲۰۹ (۲) سنن ابنِ ماجہ:۹۲۵
(۳) صحیح البخاری: ۲۱۱۱ (۴) المستدرک علی الصحیحین للحاکم
(۵) سنن الترمذی: ۱۳۰۵ (۶) صحیح مسلم‘ ح ۲۸۴
(۷) المستدرک : ۲۱۵۷ ۔ صححہ الحاکم ووافقہ الذھبی
(۸) سنن ابن ماجہ : ۲۲۴۶‘ وصححہ الألبانی
(۹) صحیح مسلم: ۴۱۲۶
(۱۰) صحیح البخاری : ۲۰۸۷ ‘ صحیح مسلم :۱۶۰۶
(۱۱) صحیح مسلم : ۱۰۶ (۱۲) صحیح مسلم : ۲۸۳
(۱۳) صحیح مسلم:۴۱۲۲ (۱۴) صحیح مسلم:۴۱۲۳