سورۃ الکوثر : چند تشریحی پہلومولانا عبدالمتین
مدیر مدرسہ دار ارقم ‘لیاری ‘کراچیتعارف
(۱) سورة الکوثر قرآن پاک کی سب سے چھوٹی سورت ہے ۔
(۲) پہلی آیت کے لفظ’’ کوثر‘‘ کی نسبت سے اس سورت کا نام ’’کوثر‘‘ رکھا گیا ہے۔
(۳) اس سورۂ مبارکہ میں اللہ ربّ العزت نے مقامِ رسالت اور شانِ رسالت کا بیان فرمایا ہے۔ رسالت کا عقیدہ نہایت اہم اور بنیادی عقیدہ ہے اسی لیے پورے قرآن میں جگہ جگہ توحید‘رسالت اور آخرت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
(۴) اس سورت میں رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور مرتبہ کا ذکر ہے۔
(۵) اس سورت میں نماز اور قربانی کا بھی بطور خاص ذکر کیا گیا ہے کہ نماز بدنی عبادات کا نچوڑ ہے اور قربانی مالی عبادات کا بہترین خلاصہ ہے۔
(۶) یہاں خاص طور پر آپ ﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ لوگوں کی باتوں سے دل برداشتہ نہ ہوں ۔آپ کا مقام و مرتبہ ان باتوں سے کہیں اونچا ہے اور رہے گا۔
(۷) سورت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر ادا کرنے کا طریقہ بھی سکھایا گیا ہے۔
(۸) سورت میں دین دشمنوں کے بدترین انجام کی پیشین گوئی بھی کی گئی ہے۔
(۹) سورت میں ہر بندئہ مؤمن کے لیے تسلی کا سامان ہے جو لوگوں کے طعنے سنتا رہتا ہے اور اسے پریشان کیا جاتا ہے۔انہیں تسلی دی جارہی ہے کہ اللہ ایسے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے اور ان کو کبھی گرنے نہیں دیتا۔
(۱۰) وہ لوگ جو مظلومیت اور دشمنی کا شکار ہیں ان کے لیے بھی یہ سورت بہت اہم ہے۔
پس منظر
رسول اللہ ﷺ کے صاحب زادے حضرت قاسم یا حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بچپن میں ہی انتقال ہوا تو کفارِ مکہ جشن منانے لگے‘ یہاں تک کہ نبی ﷺ کا چچا ابولہب لوگوں کے پاس جاکر مبارک باد دینے لگا کہ ’’مبارک ہو! محمد کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے‘‘۔ کفار کی سوچ یہ تھی کہ اب محمد (ﷺ) کی کوئی نرینہ اولاد تو ہے نہیں‘ سب لڑکیاں ہی ہیں اور نسل تو لڑکوں سے چلتی ہے جن کا انتقال ہوچکا‘ لہٰذا ان کی نسل آگے چلے گی ہی نہیں۔ جب نسل ہی نہیں چلنے والی تو ان کاپیغام بھی ان کی زندگی ہی تک محدود رہے گا اور اس طرح ان کے بعد کوئی نہیں ہوگا جو ان کے پیغام کو آگے لے جاسکے۔ وہ آپس میں یہ کہتے پھرنے لگے کہ اس کی پروا مت کرو‘ ابھی چاہے کتناہی شور شرابا ہورہا ہے لیکن یہ سب زیادہ عرصے تک چلنے والا نہیں۔ کچھ وقت کی ہی بات ہے کہ ان کے دنیا سے جاتے ہی ان کی تحریک دم توڑدے گی اور پھرسے ہمارے بتوں کا بول بالا ہوگا۔
اس سورت میں اللہ ربّ العزت نے رسول اللہ ﷺ کو دو خوش خبریاں ایک ساتھ سنائی ہیں کہ آپ اپنے بچے کی وفات پر اور ان دشمنوں کے تبصروں سے پریشان نہ ہوں‘ کیونکہ:
(۱) ہم آپ کو ’’کوثر‘‘ جیسے اعزاز اور انعام سے نواز رہے ہیں۔
(۲) جہاں تک دشمنوں کی بات ہے ‘وہ تو خود بے نام و نشان اور عبرت کا نمونہ بننے والے ہیں۔
ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ صحابہؓ کےساتھ بیٹھے ہی تھے کہ آنکھ لگ گئی ۔ پھرجھٹکے سے اٹھے تو مسکرانے لگے۔ صحابہؓ نے مسکراہٹ کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بہت بڑے اعزاز سے نوازا ہے ۔ ابھی وحی نازل ہوئی ہے۔ پھر آپ ﷺ نےصحابہؓ سے پوچھا :تمہیں معلوم ہے مجھے کیا ملا ہے؟ ان کی جانب سے لاعلمی کا اظہار کرنے پر آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے ’’کوثر‘‘ سے نوازا گیا ہے ۔
آیت۱: {اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (۱) }
’’ ( اے پیغمبرﷺ ! ) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے۔‘‘
’’ کوثر‘‘ کیا ہے ؟
کوثر سے مراد خیر کثیر ہے‘ یعنی خیر کا اتنا بڑا اور زبردست سلسلہ جس میں دنیا اور آخرت کی ہر خیر اور بھلائی شامل ہے۔ اس میں جنت کی ’’کوثر‘‘ نامی خاص نہر بھی شامل ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں :
الْكَوْثَرُ الْخَيْرُ الْكَثِيرُ الَّذِي أَعْطَاهُ اللّٰهُ إِيَّاهُ، قَالَ أَبُو بِشْرٍ قُلْتُ لِسَعِيدٍ: إِنَّ أُنَاسًا يَزْعُمُونَ أَنَّهُ نَهَرٌ فِي الْجَنَّةِ، فَقَالَ سَعِيدٌ: النَّهَرُ الَّذِي فِي الْجَنَّةِ مِنَ الْخَيْرِ الَّذِي أَعْطَاهُ اللّٰهُ إِيَّاهُ (صحیح البخاری:۶۵۷۸)
’’ کوثر سے مراد بہت زیادہ بھلائی ( خیر کثیر ) ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺکو عطا فرمائی ۔ ابوبشر کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر سے کہا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کوثر جنت میں ایک نہر ہے‘ تو انہوں نے کہا کہ جو نہر جنت میں ہے وہ بھی اس خیر اور بھلائی کا ایک حصہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو دی ہے ۔ ‘‘
یعنی کوثر کا تعلق ہر قسم کی خیر اور بھلائی سے ہے جس میں جنت کی نہر ’’کوثر‘‘ بھی شامل ہے اور یہ سب کچھ آپ ﷺکے اعزاز میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے دیا جارہا ہے۔
کوثر میں کون کون سی بھلائیاں شامل ہیں‘ اس کے متعلق علماء فرماتے ہیں:
(۱) نبوت و رسالت کا ملنا (۲) آپ ﷺکا خاتم النّبیین ہونا
(۳) شب قدر کا تحفہ ملنا (۴) قرآن کریم کا نازل ہونا
(۵) معراج کا سفر (۶) معراج کے سفر میں نماز کا تحفہ ملنا
(۷) رمضان المبارک اور روزوں کا سلسلہ
(۸) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جیسے جاں نثار ساتھیوں کا ملنا
(۹) اُمّت ِمحمدیہ ﷺ کا بہترین اُمّت ہونا
(۱۰) مختلف جنگوں‘غزوات اور فتح مکہ کی صورت میں کامیابی کا ملنا وغیرہ
(۱۱) حوضِ کوثر
حضرت عبد اللہ بن زید المازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
((مَا بَيْنَ بَيْتِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ وَمِنْبَرِي عَلٰى حَوْضِي))
(صحیح البخاری:۱۸۸۸)
’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوضِ کوثر پر لگے گا ۔ ‘‘
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
’’میرا حوض ( لمبائی چوڑائی میں) مہینے کی مسافت کے برابر ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے اور اس کے برتن (تعداد یا خوب صورتی میں) ایسے ہیں جیسے آسمان کے ستارے۔جس نے اس نہر میں سے ایک دفعہ پی لیا وہ پھر کبھی بھی پیاسا نہ ہو گا۔‘‘
اس نہر کا فاصلہ سینکڑوں کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ اس کاپانی دودھ سے زیادہ سفید‘شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سےزیادہ ٹھنڈا ہوگا۔ اس نہر کی دیواریں سونے کی ہوں گی۔ اس نہر میں پینے کے پیالوں کی تعداد آسمان کےستاروں کی تعدادکےبرابر ہوگی۔ اس نہر کی مٹی کی خوشبو مشک و عنبرسے زیادہ خوشبودار ہوگی۔ اس نہر کا فرش یاقوت اورہیرے جواہرات سے بنا ہوگا۔ سبحان اللہ!
نبی اکرم ﷺنےصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سےفرمایا کہ اس نہر پر میں تم کو پانی پلاؤں گا۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسول اللہ ﷺ! آپ ہمیں پہچانیں گے کیسے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’میں تمہیں تمہارے وضو کے اعضاء کی چمک سے پہچان لوں گا۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ‘فرماتے ہیں :
((لَمَّا عُرِجَ بِالنَّبِيِّ ﷺ إِلَى السَّمَاءِ قَالَ: أَتَيْتُ عَلٰى نَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُؤِ مُجَوَّفًا، فَقُلْتُ: مَا هٰذَا يَا جِبْرِيلُ؟ قَالَ: هٰذَا الْكَوْثَرُ)) (صحیح البخاری:۴۹۶۴)
’’ جب نبی کریم ﷺ کو معراج ہوئی تو آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ میں ایک نہر کے کنارے پر پہنچا جس کے دونوں کناروں پر خولدار موتیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا :اے جبریل! یہ کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ حوض کوثر ہے ( جو اللہ نے آپ کو دیا ہے ) ۔ ‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((أَنَا فَرَطُكُمْ عَلَى الْحَوْضِ، لَيُرْفَعَنَّ إِلَيَّ رِجَالٌ مِنْكُمْ حَتَّى إِذَا أَهْوَيْتُ لِأُنَاوِلَهُمُ اخْتُلِجُوا دُونِي، فَأَقُولُ أَيْ رَبِّ، أَصْحَابِي، يَقُولُ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ)) (صحیح البخاری:۷۰۴۹)
’’میں حوضِ کوثر پر تم لوگوں کا استقبال کروں گا‘ اور تم میں سے کچھ لوگ میری طرف آئیں گے۔جب میں انہیں ( حوض کا پانی) دینے کے لیے جھکوں گا تو انہیں میرے سامنے سے ہٹا لیا جائے گا۔ میں کہوں گا: اے میرے رب ! یہ تو میرے ساتھی(اُمتی) ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ’’آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئی باتیں نکال لی تھیں۔‘‘
آیت۲ : {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(۲)}
’’پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔‘‘
نعمتوں پر شکر ادا کرنا
سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں کوثر جیسی عظیم نعمت ملنے کے بعد اس پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی نعمت کے ملنے پر اس کی قدر دانی کا یہی طریقہ ہے کہ ربّ کریم کا شکر ادا کیا جائے۔
قرآن کریم سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ شکر ادا کرنے سے نعمت میں برکت ہوجاتی ہے جبکہ ناقدری کرنے سے وہ نعمت چھینی بھی جاسکتی ہے۔ سمجھ دار شخص وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر تفکر کرے‘ انہیں بار بار یاد کرکے غور و فکر کرے۔ اس طرح نعمتوں میں اضافہ ہوتا ہے‘ گناہوں سے بچنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اللہ ربّ العزت کے ساتھ بندے کا تعلق قائم ہو جاتا ہے۔
حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہ فرماتے ہیں :
’’انسان کی دو ہی حالتیں ہیں ۔ایک جس میں اسے کچھ مل رہا ہے اور دوسرا جس میں نہیں مل رہا۔ جو کچھ مل رہا ہے اس پر شکر کرنا سیکھے اور جو نہیں مل رہا اس پر صبر کرکے اللہ سے بار بار ہر چھوٹی بڑی چیز مانگنے کی عادت بنالے۔ جو شخص یہ دو کام کرے گا اس کا اللہ ربّ العزت کے ساتھ تعلق بہت جلدی بنے گا جو کہ بہت ہی آسان اور مختصر طریقہ ہے۔ ‘‘
آیت مبارکہ میں اللہ ربّ العزت نعمت ملنے پر شکر ادا کرنے کا طریقہ بھی خود سکھا رہے ہیں۔ اس آیت میں شکر ادا کرنے کے دو طریقوں کا ذکر ہے:
(۱) نماز کی ادائیگی (۲) قربانی
’’لِرَبِّکَ‘‘ یعنی ’’اپنے رب کے لیے‘‘ جس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جب نعمت ربّ نے دی ہے تو نماز اور قربانی کا عمل بھی اُسی کو راضی کرنے کے لیے کرو۔ لہٰذا اپنے عمل میں اخلاص اور خالص پن پیدا کرو۔ ریاکاری اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نیک کام مت کرو‘ ورنہ یہ بے وفائی کا سودا ہوجائے گا کہ لیا کسی سے جبکہ شکریہ کسی اور کا ادا کررہے ہیں۔نماز اور قربانی کا نام لے کر دین کے دو بڑے شعبوں کی طرف اشارہ فرمایا‘ کیونکہ اللہ کی عبادت کرنے کے دو ہی طریقے ہیں :
(۱) جانی عبادت (۲) مالی عبادت
جانی و بدنی عبادات میں نماز‘روزہ اور حج جیسی عظیم عبادات شامل ہیں جن میں انسان اپنی جان اور بدن کی توانائی خرچ کرکے اللہ کی رضا حاصل کرتا ہے ۔ مالی عبادات میں زکوٰۃ‘قربانی اور حج جیسی عبادات شامل ہیں جن میں بندہ اپنا مال لگاکر اللہ کی رضا مندی حاصل کرلیتا ہے۔
سورۃ الکوثر کی دوسری آیت میں اللہ ربّ العزت جانی اور مالی دونوں عبادات کا ایک ساتھ ذکر کررہے ہیں کہ نماز اور قربانی ان دونوں کی ایک مجموعی شکل ہے۔آیت میں خاص طور پر نماز اور قربانی کا حکم دیا گیا ہے‘ کیونکہ نماز اللہ ربّ العزت کی یاد کا سب سے بڑا ذریعہ جبکہ قربانی مال خرچ کرنے کا سب سے بہترین مصرف ہے۔
خلاصہ یہ کہ اللہ ربّ العزت جب تمہیں کوئی نعمت دیں تو تم نماز ‘روزہ‘ حج‘ زکوٰۃ اور قربانی وغیرہ جیسی عبادات کا اہتمام کرو۔ اس طرح تم نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے لائق بن سکوگے۔
آیت۳ : {اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَالْاَبْـتَرُ(۳)}
’’یقین جانو تمہارا دشمن ہی بے نام و نشان ہونے والا ہے۔‘‘
دشمنانِ نبیؐ کے لیے اعلان
سورۃ الکوثر کی تیسری اور آخری آیت میں اللہ ربّ العزت اپنے محبوب نبی سروردوعالم محمد مصطفیٰﷺ کو پیار بھری تسلی دے رہے ہیں۔ جب محبوب کو طعنے دیے جارہے ہیں عین اسی موقع پر اللہ کی رحمت جوش میں آرہی ہے کہ خبردار‘ میرے محبوب کو کچھ مت کہنا کیونکہ ان کی تو بات ہی کچھ اور ہے ۔ آج کے بعد بس تم اپنی فکر کرو ۔
’’ابتر‘‘ عربی زبان میں ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جس کی کوئی نرینہ اولاد نہ ہو اور اس وجہ سے اس کی نسل آگے نہ چل سکے۔جو طعنہ آپ ﷺ کو دیا گیا ‘اللہ ربّ العزت نے اپنے حبیب کا بدلہ خود لیتے ہوئے انہی کی زبان میں جواب دیا کہ جس کو تم ’’ابتر‘‘ کہہ رہے ہو اس کا تم کچھ بگاڑ نہیں سکتے بلکہ اس طعنے کا شکار تم خود بننے والے ہو۔
اللہ ربّ العزت نے اپنا وعدہ اس طرح سچا فرمادیا کہ آج ڈیڑھ ہزار سال گزرنے کے باوجود آپ ﷺ کے نام کی دھوم مچا رکھی ہے جبکہ دشمن کا کچھ اَتا پتا نہیں۔نسبی خاندان کے ساتھ ساتھ اللہ ربّ العزت نے آپﷺ کی روحانی اولاد کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ’’اُمّت مسلمہ‘‘کے نام سے جاری فرمادیا۔
اللہ ربّ العزت نبی مکرم ﷺ کوتسلی دے رہے ہیں کہ یہ لوگ آپ کے خلاف جو سازشیں کر رہے ہیں وہ تارِعنکبوت(مکڑی کا جالا) ثابت ہوں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خاتونِ جنت بی بی فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مبارک بطن سے ساداتِ رسول کے نام سے دنیا کے چپے چپے میں آپ کی اولاد موجود ہے جن میں حسنی اور حسینی دونوں خاندان موجود ہیں۔جب آپ ﷺمکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے نکلے توصرف سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ساتھ تھے اور جب واپس مکہ تشریف لائے تو دس ہزار کا لشکر فاتح بن کر اسی شہر میں داخل ہوا جہاں آپؐ کے دشمن ہوا کرتے تھے اور طعنے دیا کرتے تھے۔ آپؐ کے مبارک دور میں مکمل جزیرۂ عرب اسلام کے قریب آگیا۔ آپؐ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دور میں آدھی دنیا میں اسلام چھا گیا۔
ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں آج تک آپ ﷺکا مبارک نام اذان کی صورت میں پوری دنیا میں کہیں نہ کہیں گونج رہا ہوتا ہے۔نماز میں درودشریف کی صورت میں‘قرآن میں‘ حدیث میں‘ذکر و اذکار اور مناجات میں‘ ہر جگہ آپؐ کا نام نامی عقیدت ‘محبت اور عشق و سرور کے ساتھ لیا جاتا ہے۔اسی طرح سیرتِ مصطفیٰ ﷺ پر دنیا میں سب سے زیادہ مواد تیار کیا جاچکاہے اور صرف آپؐ کی مختصر سیرت نہیں بلکہ ایک ایک ادا کو محفوظ کرکے اُمت تک پہنچایا جارہا ہے ۔بالخصوص فن شعر و شاعری میں نعتیہ کلام کی ایک طویل فہرست ہے جو بڑھتی جارہی ہے۔
خلاصہ یہ کہ آپﷺ کی سیرت و کردار کی ہر ادا سے لے کر آپؐ کی زبان سے ادا شدہ ہر لفظ تک اور آپؐ کےپیغام سے آپؐ کے روضہ مبارک تک سب کچھ محفوظ ہے ۔یہ سب کا سب آپؐ کی یاد تازہ کررہا ہے۔ آپ ﷺ کا نامِ مبارک زبان پر آنے کی صورت میں عقیدت و محبت کے گہرے جذبات پیدا ہونے لگتے ہیں اور زبان درود وسلام سے ترہوکر آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔
آیت میں آپ ﷺ کے دشمنوں کے خاتمے کا جو اعلان اللہ ربّ العزت فرمارہے ہیں یہ صرف اُس دور کے ابو جہل اور ابو لہب کے لیے نہیں‘ بلکہ قیامت تک جو جو آپؐ کی ذات یا آپؐ کے پیغام کے ساتھ دشمنی کریں گے ان کے لیے یہی اعلان رہے گا۔ بقول اقبال: ؎
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبیاس دور میں بھی بولہبی شرارتیں سر اٹھاتی رہتی ہیں۔ کوئی آزادئ اظہارِ رائے کے نام پر گستاخی کرتا ہے‘کوئی کارٹون بنالیتا ہے‘کوئی آپؐ کی حدیث کا انکارکر گزرتا ہے اور کوئی آپؐ کے منصب کو چھیننے کی کوشش کرکے ختم نبوت پر ڈاکا ڈالتا ہے۔اللہ ربّ العزت نے اُمّت ِمسلمہ کو‘ الحمدللہ ‘یہ توفیق دے رکھی ہے کہ وہ بظاہر کیسے بھی ہوں لیکن اپنے پیارے نبیﷺ کی عظمت کے لیے ہرممکن جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔اس کے لیے تحریری‘ تقریری‘ سیاسی‘ قانونی‘ قومی‘ بین الاقوامی انداز کی ہر ممکن کوشش شامل ہوتی ہے۔یہ سب ہزار بار کرنا پڑے تو ہزار بار بھی کرلیتے ہیں تاکہ باطل کو سمجھ آجائے کہ یہ اُمّت اپنے نبیﷺ کی حرمت پر کبھی بھی کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے دے سکتی ہے۔
تاریخ میں ایسی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جن میں مسیلمہ کذاب کے خلاف صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘ غلام احمد قادیانی کے خلاف مہر علی شاہ صاحب گولڑوی‘ لاہور میں غازی علم الدین‘ جرمنی میں عامر چیمہ‘لیاری میں غازی عبدالقیوم اور موجودہ دور میں قادیانی مقدمات کے خلاف بہت سے اکابر علماء‘ صوفیاء‘اللہ والے اور اُمّت کے مجاہدین نظر آتے ہیں۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ باطل کے مقدر میں اللہ ربّ العزت نے ہمیشہ کے لیے {اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَالْاَبْـتَرُ(۳)} کا اعلان کردیا ہے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025