(ظروف و احوال) پاکستان اور اسرائیل - ایوب بیگ مرزا

11 /

پاکستان اور اسرائیلایوب بیگ مرزا

آج کل بعض پاکستانی اپنے دانشوری بگھارتے ہوئے بڑے پُرزور انداز میں یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ: اگر مشرقِ وسطیٰ کی عرب ریاستیں جن کا اصلاً اسرائیل سے تنازع ہے ‘وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو پاکستان کے لیے اسرائیل کو تسلیم کر لینے میں کیا رکاوٹ ہے؟ پاکستان کا تو اسرائیل سے براہِ راست کوئی جھگڑا ہی نہیں ۔راقم کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ یہ ان نام نہاد دانشوروں کی جہالت ہے یا حماقت کہ یہ لوگ یہودیوں سے مسلمانوں کی مڈ بھیڑ صرف جغرافیائی بنیادوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ کچھ بڑی طاقتوں نے سازش کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین میں گھسا دیا ۔ پھر اپنے ان ہی سرپرستوں کے ذریعے اسرائیل کو وجود میں لایا گیا۔آغاز میں اسرائیل کے لیےپانچ ہزار مربع کلومیٹررقبہ ہتھیایا گیااور پانچ لاکھ یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا ۔آج اسرائیل کا رقبہ۲۲ ہزارمربع کلومیٹر اور آبادی نوے لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ لہٰذا مسلمان عرب ریاستوں کا اسرائیل سے یہ اضافی جھگڑا ہے کہ اسرائیل نے ان کے علاقوں پر قبضہ کیا ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ عربوں کی بزدلی اور نا اہلی کی وجہ سے ہوا کہ وہ سکڑتے چلے گئے اور اسرائیل پھیلتا چلا گیا ۔
تاہم’’اسرائیلی ریاست نا منظور‘‘ کی اصل اور حقیقی وجہ دینی اور روحانی ہے ۔اس حوالے سے دیکھا جائے تو مسلمان عرب کا ہو یا عجم کا‘ اسے اسرائیل کے خلاف ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا۔ قرآن و حدیث کی رُو سے بھی یہ اُس کی دینی ذمہ داری ہے۔ پاکستان تو مملکت ِخداداد ہے جو نظریہ اسلام کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ لہٰذا ہمیں اسرائیل کی محض مخالفت ہی نہیں کرنی بلکہ اسے نیست ونابود کرنے کے لیے بھی پاکستان کو صف ِاوّل میں کھڑا ہونا ہوگا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو ’’مغرب کا ناجائز بچہ‘‘ قرار دیا تھا۔ قائد ملت لیاقت علی خان نے امریکہ میں یہودیوں کے روبرو یہ بات کہی تھی کہ Gentlemen! Our souls are not for sale۔لیاقت علی خان کوئی مذہبی رہنما نہیں تھے لیکن ان پر بھی یہ بات واضح تھی کہ یہ بدنی( یعنی جغرافیائی) نہیں روحانی مسئلہ ہے ۔تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے بھی دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ : ’’سارا عرب بھی اگر اسرائیل کو تسلیم کرلے تب بھی پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا‘ کیونکہ یہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے ۔‘‘یہی وجہ ہے کہ سلطنت ِعثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید ‘جو اگرچہ سیاسی اور معاشی لحاظ سے انتہائی کمزور ہو چکے تھے ‘انہیں جب صہیونیوں نے یہ پیشکش کی کہ اگر وہ یہودیوں کو فلسطین میں الگ ریاست بنانے کی اجازت دے دیں تو وہ سلطنت ِعثمانیہ کے تمام قرضے ادا کر دیں گے‘تو خلیفہ کا جواب یہ تھا کہ وہ اس مقدس زمین کی خاک کی چٹکی بھی یہودیوں کو دینے کو تیار نہیں۔
مسلمانوں کے لیے آخری ‘ حتمی فیصلہ اور حکم تو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ہے۔ لہٰذا ایک طرف اللہ تعالیٰ ہمیں سورۃ المائدہ کی آیت۸۲ کے آغاز میں آگاہ کرتا ہے کہ تم اہل ِایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے ۔ دوسری طرف سورہ آلِ عمران کی آیت ۱۱۲ میں فرمایا گیا:
{ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَـآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُط ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ وَیَـقْـتُلُوْنَ الْاَنْبِیَـآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ ط ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ(۱۱۲)}
’’ان کے اوپر ذِلت تھوپ دی گئی ہے جہاں کہیں بھی پائے جائیں سوائے یہ کہ (انہیں کسی وقت) اللہ کا کوئی سہارا حاصل ہو جائے یا لوگوں کی طرف سے کوئی سہارا مل جائے‘ اور یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہو گئے اور ان کے اوپر کم ہمتی مسلط کر دی گئی۔ یہ اس لیے ہوا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے رہے اور انبیاء کو ناحق قتل کرتے رہے ۔اور یہ اس لیے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی روش اختیار کی اور حدود سے تجاوز کرتے رہے۔‘‘
تو پھر ہم اس قوم کو تسلیم کیوں کریں جس پر اللہ نے ذلت مسلط کر دی ہے اور ہم ان میں کیوں شمار کیے جائیں جو اس مغضوب قوم کو سہارا دیے ہوئے ہیں؟یاد رہے کہ سورۃ الفاتحہ جو ایک مسلمان نماز کی ہر رکعت میں دہراتا ہے‘ اسی سورت میں یہودیوں کو’’مغضوب علیھم‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجیدمیں آدم و ابلیس کا قصہ سات مرتبہ دہرایا گیا ہے جس میں ابلیس کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے‘ اپنی اس روش پر اکڑ جانے اور خود کو آدم سے برتر ثابت کرنے کی کوشش پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندئہ درگاہ کر دیا گیا۔ اسی مبارک کلام یعنی قرآن مجیدمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کا ذکر بڑی تفصیل سے آیا ہے ۔بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے بڑی عنایات کیں‘ سمندر کو پھاڑ کرایک کھلی سڑک کی شکل دے دی کہ وہ فرعون سے بچ سکیں ‘ کھانے کے لیے من و سلویٰ اُتارا ‘لیکن وہ قوم نافرمانی کرتی چلی گئی ۔یہاں تک کہ انبیاء کا ناحق قتل بھی کیا۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوا اور ان پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ذلت اور دوسروں کی محتاجی مسلط کر دی گئی ۔اگر ہم قرآن حکیم کو غور سے پڑھیں تو یہ بات بڑی آسانی سے اخذ کی جا سکتی ہے اور ایک مشابہت دکھائی دیتی ہے کہ جس طرح انسان کے زمین پر بسنے سے پہلے ابلیس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے راندئہ درگاہ کیا گیا اسی طرح دنیا میں یہود ظاہری طور پر تو بڑی ترقی کرتی اور آگے بڑھتی ہوئی قوم نظر آئے گی لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے اور تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ دُنیا میں وقفوں سے ایسے حکمران آئیں گے جو انہیں ذلت و خواری اور شکست و ریخت سے دوچار کرتے رہیں گے اور یہ نیست و نابود ہوتے نظر آئیں گے ۔ایسا تاریخ انسانی میں بارہا ہوا ہے۔ گزشتہ صدی میں یہ ہٹلر کے ہاتھوں بدترین انجام کو پہنچے تھے ۔لہٰذا ایسے وہ لوگ جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں‘ وہ ہوش کے ناخن لیں اور مسلمانوں کو برے انجام کی طرف نہ دھکیلیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا اُمّت ِمسلمہ کا خود کش حملہ ہوگا ۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کا اسرائیل سے کیا جھگڑا ہے ‘ایسے لوگ ماضی بعید ہی سے نہیں بلکہ ماضی قریب کے حالات سے بھی نابلد ہیں۔ کیا انہیں اسرائیل کے سابق وزیراعظم بن گوریان کا پیرس میں دیا گیا وہ بیان معلوم نہیں جو اس نے ۱۹۶۷ءکی جنگ جیتنے پر فتح کا جشن مناتے ہوئے دیا تھا کہ ہمارا اصل دشمن اور حریف پاکستان ہے کیونکہ وہ ایک نظریاتی اسلامی ملک ہے اور اس کے پاس مضبوط پیشہ ورانہ صلاحیت کی حامل فوج ہے ‘یہ عرب بیچارے ہمارا کیا مقابلہ کریں گے!یاد رہے کہ پاکستان اس وقت ابھی ایٹمی قوت بھی نہیں بناتھا۔ کیا ایسے نام نہاد دانشوروں کو معلوم نہیں کہ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کریں گے تو گویا ہم بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کر لیں گے جہاں مسجد اقصیٰ ہے۔ اس مسجد میں نبی اکرمﷺ نے تمام انبیاء کی جماعت کی امامت کی تھی اور پھر آسمانی سفر پر روانہ ہوئے تھے ۔کیا ان دانشوروں کو یہ معلوم نہیں کہ یہودیوں نے اسرائیل کی پارلیمنٹ کی پیشانی پر یہ کندہ کیا ہوا ہے کہ ’’اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک!‘‘ کیا انہیں معلوم نہیں کہ یہودی مدینہ منورہ پر بھی اپنا حق جتاتے ہیں جسے ہم مدینۃ الرسول کہتے ہیں‘ جہاں آپ ﷺ کا روضۂ اَقدس ہے۔ کیا ہم معاذ اللہ ‘معاذ اللہ اس روضہ کی بے حرمتی برداشت کر سکتے ہیںکہ نبی اقدسﷺ کے شہر کی خاک یہودیوں کے ناپاک پاؤں تلے آئے !
کیا ’’لا اِلٰہ اِلا اللہ‘‘ کی بنیاد پر بننے والی ریاست اس جابر‘ ظالم اور ناجائز ریاست کو تسلیم کرلے جو اس کے کلمہ گو بھائیوں کا غزہ میں دن رات قتل عام کر رہی ہے؟ کیاخوراک کے حصول کے لیے فاقہ زدہ لوگوں پر فائرنگ کرنے والوں کا انصاف سے کوئی تعلق ہو سکتا ہے؟ یہ دنیا کے دوسرے انسانوں اور ان تمام اداروں کے لیے چاہے وہ اقوام متحدہ ہو‘سلامتی کونسل ہو ‘ بنیادی انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار ہوں یا دنیا میں امن و امان اور سلامتی کی دُہائیاں دینے والے ہوں‘ ان سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے ۔ پاکستان کے مسلمانوں کے بارے میں دنیا جانتی ہے کہ یہ عملی طور پر کتنے بھی کمزور مسلمان کیوں نہ ہوں ‘دین سے ان کا جذباتی لگاؤ انتہائی شدید ہے۔ یہ نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں لیکن شعائر اسلام ‘ مقدس مقامات ‘نبی اکرم ﷺ کی مبارک ذات‘ آپﷺ کے پیارے شہر مدینہ اور آپﷺ کے مقدس مزار کی خاطر کٹ مرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ یہ بات غلط ہے یا صحیح لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی مسلمان مدینہ کو مکہ پر بھی ترجیح دیتا ہے اور خاص طور پر اس لیے کہ یہودی اپنی نسبت مدینہ سے جوڑتا ہے کہ انہیں وہاں سے نکالا گیا تھا۔ لہٰذا مدینہ کی طرف نگاہِ بد ڈالنے سے پہلے اسرائیل کو اپنے راستے سے پاکستان کو ہٹانا ہے۔ وہ پاکستان جس میں جذباتی مسلمان بستے ہیں اور وہ پاکستان جو ایٹمی صلاحیت کا حامل ہے۔پاکستان سے نمٹے بغیر گریٹر اسرائیل کا قیام ممکن نہیں ۔یہ بات اگر ہم جیسوں کو معلوم ہے تو اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو کہیں زیادہ گہرائی اور سنجیدگی سے معلوم ہو گی ۔لہٰذا نیتن یاہو کا حالیہ بیان حقیقت کے عین مطابق ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دانت توڑنا ہوں گے‘جبکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا اسرائیل سے براہ راست جھگڑا کیا ہے!
اب آئیے اس جال کی طرف جو’’ ابراہم اکارڈII‘‘ کے نام سے بچھایا جا رہا ہے۔ اس اکارڈ کا اصل سرغنہ امریکہ ہے ۔ امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے اس کا آغاز کیا اور خود درمیان میں کھڑے ہو کر مسلمانوں اور یہودیوں کا ہاتھ ایک دوسرے سے ملا کر کہا کہ تم تو ایک دوسرے کے کزن ہو‘ حالانکہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
{مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰــکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۶۷)} (آل عمران)
’’(تمہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ) ابراہیم ؑ نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی ‘بلکہ وہ تو یکسو ہو کر اللہ کے فرماں بردار تھے۔اور نہ وہ مشرکوں میں سے تھے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ قرآن کریم تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہودیت اور نصرانیت سے بالاتر اور یکسو مسلم قرار دیتا ہے جبکہ ہم ابراہم اکارڈ کے نام پر اس ڈرامے کو قبول کرنے پر تیار بیٹھے ہیں؟ اس اکارڈ کا ایک رکن یعنی اسرائیل دوسرے رکن یعنی مسلمان کے خون کی ندیاں بہا رہا ہے اور پھر بھی سب اس اکارڈ کے سائے میں اکٹھے ہو جائیں؟
اکارڈ Iہو یاII‘ یہ سب جھانسا‘ فریب اور فراڈ ہے۔ بڑا سادہ سا سوال ہے کہ عرب و عجم کے مسلمان اگر ابراہم اکارڈ کا حصہ بن جائیں تو پھر کیا گریٹر اسرائیل صہیونیوں کا ہدف نہیں رہے گا؟ کیا اسرائیل اپنی پارلیمنٹ کی عمارت پر کندہ یہ عبارت مٹا دے گا کہ:’’ اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک۔‘‘ کیا اسرائیل ایک اچھا بچہ بن کر اپنی ان سرحدوں پر قناعت کرلے گا؟ ہرگز ہرگز ایسا ممکن نہیں۔ یہ جو مئی۲۰۲۵ء میں پاک بھارت جنگ ہوئی ہے اور اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا ہے‘ اسے موجودہ صورت حال سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ درحقیقت نادیدہ قوتوں نے یہ مختصر جنگیں مستقبل میں ہونے والی بڑی جنگوں کے لیے اپنی سٹریٹجی طے کرنے کے لیے کروائی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں مسلمان ممالک کو فی الحال ان نادیدہ قوتوں کی شرانگیزیوں سے محفوظ رکھا۔ پاک بھارت جنگ تو درحقیقت’’ ٹیسٹنگ ٹیسٹنگ‘‘ تھی۔ یہ نادیدہ قوتیں پاکستان کی اصل عسکری اور جنگی قوت کا اندازہ لگا رہی تھیں‘ اس لیے انہوں نے اپنے حلیف بھارت کی آغاز میں کوئی مدد نہیں کی تاکہ پاکستان کی اصل قوت کا اندازہ ہو سکے اور چین کے طرزِ عمل کو بھی اس حوالے سے جانچا جا سکے۔ جب انہوں نے یہ مقاصد حاصل کر لیے تو پھر جلدی سے جنگ بندی کروا دی۔ پاکستان کے بارے میں یہ جانچنا ضروری تھا کہ وہ روایتی جنگ کے حوالے سے کتنے پانی میں ہے۔ البتہ ایران کے بارے میں اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو بڑا سرپرائز ملا ۔ منصوبہ یہ تھا کہ ایران کو جنگ میں نیچا دکھا کر وہاں رجیم چینج کر دی جائے اور ان حکمرانوں کو نیست و نابود کر دیا جائے جو’’ مرگ بر امریکہ‘‘ اور’’ مرگ بر اسرائیل‘‘ کے نعرے لگاتےہیں۔پھر وہاں رضا شاہ پہلوی کے خاندان کو دوبارہ تخت نشین کیا جائےاور ایران میں ایک امریکہ دوست حکومت قائم کی جائے۔ یہاں پھر معاملہ پاکستان سے جڑتا ہے۔ جب تہران سی آئی اے اور موساد کا ٹھکانا بن جائے تو پھر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خلاف سازش اور تخریب کاری سے اس کی ایٹمی صلاحیت کو نقصان پہنچایا جائے۔ یاد رہے نیتن یاہو برملا کہہ چکا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی قوت ختم کرنا ازحد لازم ہے۔ کبھی یہ کام امریکہ افغانستان میں بیٹھ کر کرنا چاہتا تھا۔ افغانستان میں انہیں ایک دن چین کا نصیب نہ ہوا۔ اب منصوبہ تھا کہ ایران میں رجیم چینج کر کے پاکستان کے خلاف یہ کارروائی کی جائے۔امریکہ پاکستان کے کسی ہمسایہ ملک میں جم کر بیٹھ کر ایسی تخریب کاری کرنا چاہتا ہے۔ یہ راقم کا محض اندازہ یا تبصرہ نہیں ہے بلکہ ہیلری کلنٹن آن ریکارڈ ہے کہ ہم نے ایک ایسی ریپڈ فورس تیار کی ہے جو پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر قبضہ کر لے گی۔ جب تک پاکستان ایٹمی قوت ہے‘ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں اپنے اہداف کبھی حاصل نہیں کر سکے گا۔ اسرائیل کے سابق وزیراعظم بن گوریان ہوں یا موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو‘ دونوں بالکل درست کہتے ہیں کہ ان کا اصل دشمن پاکستان ہے۔ اگر اب بھی پاکستان کے نام نہاد دانشور یہ کہیں کہ پاکستان کا اسرائیل سے کیا لینا دینا‘تو اُن کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
مسلمان عرب ریاستوں کے حکمران جس طرح اسرائیل کے سامنے بچھے جا رہے ہیں یہ صرف اور صرف اپنا اقتدار بچانا چاہتے ہیں ۔ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ گریٹر اسرائیل کا قیام یہود کا اصل ایجنڈا ہے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے صہیونی سب کچھ تہ تیغ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ لہٰذا کسی مسلمان عرب ریاست کی پہلے اور کسی کی بعد میں باری آ سکتی ہے۔صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ انسان صرف یہودی ‘باقی سب محض انسان نما جانور (Goyim) ہیں لہٰذا اُن سے کسی خیر کی توقع رکھنا خود فریبی ہے۔عربوں کو سمجھنا ہو گاکہ اسرائیل سے اچھے تعلقات بنانا اس کا ترنوالہ بننا ہے۔لہٰذا عربوں کو اس زاویہ سے سوچنا چاہیے کہ اگر مرنا ہی ہے تو کیوں نہ لڑ کر مرا جائے۔ تاریخ میں عزت پائیں گے ۔ اللہ اُن کی مدد کرتا ہے جو خود اپنی مدد کرتے ہیں۔ شاید تاریخ کا پانسا پلٹ جائے وگرنہ اللہ کے ہاں تو فلاح اور کامیابی نصیب ہو گی۔ اگر عرب ہمت کریں گے تو پاکستان کی ایٹمی قوت بھی انہیں میسر آ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔آمین یا ربّ العالمین!