(تذکر و تدبر) قرآنی سورتوں کے مابین نسبت ِ زوجیت - ڈاکٹر اسرار احمد

11 /

قرآنی سورتوں کے مابین نسبت ِ زوجیت
سورۃ الحاقہ کے درس کی تمہیدی گفتگو

ڈاکٹر اسراراحمدؒ

سورۃ الحاقہ کی لفظی اور اسلوبی مناسبت دو سورتوں سے ہے۔ ایک تو سورۃ القارعہ کے ساتھ ‘جو آخری پارے میں ہے۔ جس طرح یہاں آغاز ہوا ہے:{اَلْحَآقَّۃُ(۱) مَا الْحَآقَّۃُ(۲) وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا الْحَآقَّۃُ(۳)} بعینہٖ سورۃ القارعہ بھی اسی انداز میں شروع ہوتی ہے:{اَلْقَارِعَۃُ(۱) مَا الْقَارِعَۃُ(۲) وَمَآ اَدْرٰىکَ مَا الْقَارِعَۃُ(۳)} ۔ایک اور مناسبت یہ ہے کہ سورۃ القارعہ میں بھی ایک جگہ پر’’ھا‘‘ صرف اضافی طور پر قافیہ کی ضرورت کے لیے یا سکتے کے لیے آئی ہے: {وَمَآ اَدْرٰىکَ مَاہِیَہْ(۱۰) } ’’تمہیں کیا معلوم کہ وہ کیا ہے؟‘‘ یہ دراصل ’’هِیَ ‘‘ہےلیکن اس کو’’هِیَہْ ‘‘ پڑھا اور لکھا جاتا ہے‘ اس لیے کہ اس سے وہ صوتی آہنگ قائم ہوتا ہےجو قافیہ کی ضرورت ہے۔ یہ وصف اس سورئہ مبارکہ میں بہت نمایاں ہے۔ اس میں جواکثر آیات ’’ھا‘‘ پر ختم ہو رہی ہیں ‘ ان میں’’ھا‘‘ لفظ کا اصل حصہ نہیں بلکہ اسی ردھم اور صوتی آہنگ کے لیے‘ ایک وقفے کے لیے‘ سکتے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ — گویا کہ یہ اضافی حرف ہے۔
سورۃ الحاقہ کی معنوی مناسبت سورۃ الواقعہ کے ساتھ سب سے زیادہ ہے۔ ایک تو وہ بھی شروع ہوتی ہے:{اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ (۱) لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ (۲)} سے اوراس سورئہ مبارکہ میں بھی وہ الفاظ آئے ہیں:{فَیَوْمَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ(۱۵)} گویا کہ آغاز کے اعتبار سے بھی مناسبت ہے۔البتہ آخری آیات کے اعتبار سے یہ دو ہی سورتیں(سورۃ الواقعہ اور سورۃ الحاقہ) ہیں جن کا اختتام ہوا ہے:{فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِo } پر۔چنانچہ ابتدا کے اعتبار سے بھی اور اختتام کے اعتبار سے بھی دونوں سورتوں میں لفظی مناسبت ہے۔
اس کے علاوہ سورۃ الواقعہ کے آخری یعنی تیسرے رکوع اور سورۃ الحاقہ کے آخری یعنی دوسرے رکوع میں بڑی گہری مناسبت ہے۔ قرآن مجید کی عظمت کا بیان اور یہ آیت {تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَo} دونوں سورتوں میں ہے۔ پھر آخری سے پہلی آیت سورۃ الحاقۃمیں {وَاِنَّہٗ لَحَقُّ الْیَقِیْنِ(۵۱)} اور سورۃ الواقعہ میں {اِنَّ ہٰذَا لَہُوَ حَقُّ الْیَقِیْنِ(۹۵)} آئی ہے۔ ان تمام آیات کے معانی میں بہت مشابہت ہے۔لہٰذا سورۃ الحاقہ کی لفظی اور اسلوبی مناسبت ایک تو سورۃ القارعہ کے ساتھ ہے اور دوسرے سورۃ الواقعہ کے ساتھ۔
اب ایک خاص مضمون قرآن حکیم کی سورتوں کے جوڑے جوڑے ہونے کا معاملہ ہے۔اس کی طرف مولانا حمید الدین فراہیؒ نےبھی تفسیر قرآن کے ضمن میں توجّہ دلائی۔ قرآن مجید کا داخلی نظم خاص طور پر ان کے غور و فکر کا موضوع بنا ہے۔ اس کے ضمن میں مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے جو قدم آگے بڑھایا‘ اس میں سورتوں کے گروپوں کی تعیین بھی ہےاور مزید یہ حقیقت کہ قرآن حکیم کی اکثر و بیشتر سورتیں جوڑوں کی شکل میں ہیں۔ اس نسبت ِزوجیت سے مراد یہ ہے کہ دو سورتیں مل کر کسی مضمون کی تکمیل کر رہی ہیں۔ ایک مضمون ایک سورۃ میں ہے‘ دوسرا مضمون دوسری سورۃ میں‘ اور دونوں مل کر کسی ایک مضمون کو بیان کر رہی ہیں ۔ یہ نسبت ِزوجیت ہے۔ انگریزی میں اسے complementary اور supplementary کہتے ہیں۔گویا دو چیزیں آپس میں ایک دوسرے کو complement کر رہی ہوں یا supplement کر رہی ہوں۔ مضامین کا اس طرح کاتعلق قرآن مجید کی اکثر و بیشتر سورتوں میں ہے اور وہ جوڑوں کی شکل میں ہیں۔
تخلیق کے ضمن میں اللہ تعالیٰ کا مستقل قانون یہ معلوم ہوتا ہے :{وَمِنْ كُلِّ شَیْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَیْنِ}(الذاریات:۴۹) یعنی ہم نے جو شےبھی پیدا کی ہے وہ جوڑوں کی شکل میں ہے۔ حیوانات اور نباتات میں جوڑوں کا ہونا بالکل نمایاں ہے۔اسی طرح اور بھی چیزوں میں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں یہ کوئی خاص وصف ہے۔ اسی کے حوالے سے ایک بڑی لطیف سی بات ہے کہ یہ دنیا کی زندگی بھی نامکمل ہے جب تک اس کے ساتھ اس کا جوڑا شامل نہ ہو‘یعنی آخرت کی زندگی ۔دنیا اور آخرت ایک دوسرے کے مابین نسبت ِزوجیت کے حامل ہیں۔ یہی وہ فلسفہ ہے کہ انسان کی اخلاقی حِس کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں ہےجب تک کہ آخرت کو نہ مانا جائے۔جیسے مرد نامکمل ہے عورت کے بغیر‘ عورت نامکمل ہے مرد کے بغیر‘ دونوں درحقیقت ایک مقصد کی تکمیل کرنے والے ہیں‘ایسے ہی یہ دنیا اور آخرت ایک دوسرے کے بغیر نامکمل رہیں گے۔ یہ دونوں مل کر ایک حقیقت کی تکمیل کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں بھی یہ نسبت ِ زوجیت اکثر سورتوں میں موجود ہے۔کہیں تو بہت نمایاں ہے‘ جیسے مدنی سورتوں کے جوڑے سورۃ الطلاق اور سورۃ التحریم —دونوں کا آغاز ’’یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ‘‘سے ہو رہا ہے۔ ان دونوں کا موضوع مسلمانوں کی معاشرتی زندگی‘ عائلی زندگی‘ گھریلو زندگی‘ شوہر اور بیوی کے مابین تعلق ہے۔اس کی ایک انتہا یہ ہے کہ عدم موافقت ہو جائے تو طلاق تک نوبت آجائے ‘جو سورئہ طلاق کا مضمون ہے۔دوسری انتہا یہ ہے کہ باہمی محبت اتنی ہو جائے کہ ایک دوسرے کی دل جوئی کی وجہ سے دین کے احکام میں خلل آنے لگے۔ یہ سورۃ التحریم کا مضمون ہے۔معلوم ہوا کہ دونوں سورتوں نے مل کر ایک موضوع کی تکمیل کردی۔
اسی طرح ۲۹ویں پارے کے آغاز میں جو چھ سورتیں آئی ہیں‘ ان کے بعد ساتویں اور آٹھویں سورتیں ہیں: سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر۔{یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ(۱) قُمِ ......یٰٓـــاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ(۱) قُمْ....}  مزمل اور مدثر — دونوں کے بالکل ایک ہی معنی ہیں: ’’اے کمبل میں لپٹنے والے‘ اے اپنے کپڑے میں لپٹ کر لیٹنے والے! کھڑے ہو جاؤ‘ کمربستہ ہو جاؤ!‘‘ ایک کھڑا ہونا ہے رات کا:{قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(۲)} وہ ہے ذاتی تربیت‘ ذاتی مشقت اور ریاضت جوابتدائی دور میں حضور اکرم ﷺسے کرائی گئی۔ دوسرا کھڑا ہونا ‘کمر بستہ ہونا دن کا ہے ‘ دعوت و تبلیغ کے لیے :{قُمْ فَاَنْذِرْ(۲) وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ(۳)} معلوم ہوا کہ بہت ہی نمایاں طور پر ان دونوں سورتوںکے مابین نسبت ِ زوجیت موجود ہے۔
قرآن مجید کے آغاز میں سورۃ البقرۃ اور سورۃ آلِ عمران کے درمیان بھی نسبت ِ زوجیت بہت نمایاں ہے۔دونوں کو حضور اکرم ﷺنے ایک نام دیا ہے: الزَّهْرَاوَین ’’دو انتہائی تاب ناک اور روشن سورتیں۔‘‘دونوں کا آغاز’’الٓمّٓ ‘‘ سے ہوتا ہے اوردونوں کے اختتام پر بڑی عظیم دعائیں ہیں۔اسی طرح قرآن مجید کا اختتام جن دو سورتوں پر ہوتا ہے‘ ان کا بھی ایک ہی نام ہے: مُعَوَّذَتَیْن۔ دونوں میں تعوذ کا مضمون ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک میں سکھایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ان چیزوں کے حوالے سے پناہ طلب کروجو انسان پر خارج سے حملہ آور ہوتی ہیں۔ — کسی شخص کا حسد‘ کوئی جادو کر رہا ہے‘ ٹونا ٹوٹکا کر رہا ہے‘ رات کی تاریکی میں بلائیں‘ — ان سب سے انسان اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے۔ اگلی سورت میں تعوذہے خود انسان کے اپنے نفس سے — جو وسوسے اٹھتے ہیں۔اگرچہ پھونکیں مارنے والا شیطانِ لعین ہے ‘ لیکن وہ انسان کے اندر سے ہو کر فساد پیدا کرنےوالی شےہے۔
مَیں نے یہاں دو دو جوڑے بتا دیے کہ ایک تو ان چھ سورتوں (سورۃ الملک‘ سورۃ القلم‘ سورۃ الحاقہ‘ سورۃ المعارج‘ سورۃ نوح اور سورۃ الجن) سے متصلاً قبل اور پھر ان کے بعد بھی جوڑوں کا معاملہ بالکل نمایاں ہے۔ جہاں تک سورۃ الفاتحہ کا تعلق ہے‘ وہ تو گویا ایک تاج ہے پورے قرآن مجید کے لیے۔ اسے’’اُمّ الکتاب‘‘‘’’اساس الکتاب‘‘کہا گیا ہے۔ وہ تو ایک بالکل منفرد حیثیت کی حامل سورت ہے۔ قرآن مجید کی بقیہ سورتوں میں اکثر و بیشتر نسبت ِزوجیت نمایاں ہے۔ ایک بات کو اصلاحی صاحب نے اصولاً تسلیم کیا ہے کہ بعض سورتیں منفرد ہیں‘ بلکہ انہوں نے لفظ ’’ضمیمہ ‘‘استعمال کیاہے ۔البتہ میرا خیال یہ ہے کہ یہ لفظ شاید مناسب نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ بعض سورتیں منفردمزاج کی ہیں‘ ان کے ساتھ کوئی جوڑا نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ لفظ ’’ضمیمہ‘‘ کا اطلاق ایک سورت کے ساتھ توبہت صحیح ہے‘ اور وہ ہے سورۃ الحجرات۔ اس میں شک نہیں کہ یہ سورۃ الفتح کا ضمیمہ ہے۔ سورۃ الفتح کے آخری رکوع میں جو شان آئی ہے حضور اکرمﷺ کی{مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ جاور پھر صحابہ ؓکی{وَالَّذِیْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ} درحقیقت اسی کی شرح سورۃالحجرات میں مل رہی ہے۔ البتہ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ کسی ضمنی حیثیت یا ضمنی اہمیت کی سورت ہے۔ سورۃ الحجرات بڑی عظیم سورت ہے۔
تاہم‘ یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ قرآن مجید کی تمام سورتیں جوڑوں کی شکل میں نہیں ہیں۔ بعض جگہ پر منفرد مزاج ‘منفرد مرتبہ و مقام کی اور منفرد حیثیت کی سورتیں ملتی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور سب سے عظیم سورۃ الفاتحہ ہے ۔اس کا کوئی لفظی اور معنوی جوڑا بہرحال موجود نہیں ہے۔میرے نزدیک شروع میں سورۃ الفاتحہ منفرد ہے‘ پھر جوڑا جوڑا چل رہے ہیں سورۃ التوبہ تک۔ سورۃ البقرۃ اور سورۃ آلِ عمران نمایاں ترین جوڑا ہے۔ سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ معنوی اور لفظی ہر اعتبار سے جوڑے کی شرطیں پوری کررہی ہیں ۔ سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف بھی نمایاں ترین جوڑا ہے۔پھر سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ ہے۔
یہاں تک تو یہ جوڑے چلے آرہے ہیں ‘ البتہ اس کے بعد جواگلا گروپ آتا ہے ‘ اس میں تین تین کے چھوٹے گروپ ہیں۔ان میں دو دو کے مابین وہ مناسبت اور مشابہت موجود ہے جو ان میں نسبت ِزوجیت کو ثابت کرتی ہےجبکہ ایک ایک بالکل منفرد مزاج کی سورۃ ہے۔سورۃ یونس اور سورۃ ہود مضامین کی مشابہت کے اعتبار سے جوڑے کی شرط پر پوری اُترنے والی ہیں‘لیکن سورۃ یوسف بالکل منفرد ہے ۔ اس پوری سورت میں شروع سے آخر تک ایک ہی نبی کے حالات بیان ہو رہے ہیں۔اس اعتبار سے یہ پورے قرآن مجید میں منفرد ہے کہ کہیں اور یہ انداز نظر نہیں آئے گا ۔ اس میں وہ اصولی مضامین جو مکی سورتوں کے ہیں ‘وہ بھی بہت کم ہیں۔ ’’اَنْبَاءُالرُّسُل‘‘ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں۔ ایک نبی کے حالاتِ زندگی‘ ان کی شخصیت ‘ان کے کردار ‘ان کی نیکی ‘ان کے علم ‘ان کے حلم‘ ان کی رفعت‘ ان کی عصمت ‘ ان کے کردار کی بلندی کونمایاں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو تین سورتیں آتی ہیں ان میں سورۃ الرعد اور سورۃ ابرا ہیم جوڑے کی شکل میں ہیں‘جبکہ سورۃ الحجر بالکل منفرد ہے ۔وہ اس جگہ سے مناسبت رکھتی نظر نہیں آتی‘ اس لیے کہ وہ ابتدائی زمانے کی سورۃ ہے جبکہ پہلی دو سورتیں آخری دور کی ہیں۔ اس کے بعد سورۃ النحل منفرد ہے جبکہ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف کے درمیان پوری نسبت ِزوجیت موجود ہے۔پھر سورۃ مریم ‘سورۃ طٰہٰ اور سورۃالانبیاء کا گروپ ہے۔ ان میں سورۃ طٰہٰ منفرد ہے‘جبکہ سورۃ مریم اور سورۃ الانبیاء کے مابین نسبت ِزوجیت ہے۔ اس کے بعد سورۃالمومنون اور سورۃالحج کا جوڑا ہے جبکہ سورۃ النور منفرد مدنی سورۃ ہے۔ اس کے ساتھ کوئی دوسری مدنی سورۃ موجود ہی نہیں ہے۔
پھر جوڑوں کی شکل میں سورۃ الفرقان اور سورۃ الشعراء ‘سورۃ النمل اور سورۃالقصص ‘ سورۃ العنکبوت اور سورۃ الروم ‘ سورۃ لقمان اور سورۃ السجدہ ہیں ۔پھر سورۃ الاحزاب منفرد ہے۔ پھر تمام سورتیں جوڑوں کی شکل میں چلتی چلی جائیں گی۔ ان میں سورئہ یٰسین جسے حضوراکرمﷺ نے قرآن مجید کا قلب قرار دیا ‘اس کا بھی قرآن میں کوئی جوڑا نہیں ہے ‘ وہ منفرد ہے۔ آگے پھر جوڑے ہیں ۔ سورۃ الحجرات کو سورۃ الفتح کا ضمیمہ کہہ لیجیے ‘اس اعتبار سے کہ اس کے ایک مضمون کی تفصیل دی گئی ہے۔ اگرچہ اس میں مسلمانوں کی حیاتِ ملّی کے لیے جو رہنما اصول آگئے اس کے حوالے سے وہ قرآن حکیم کی اہم ترین سورتوں میں سے ہے‘لیکن اس ترتیب کے اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی حیثیت ضمیمہ کی ہے۔ سورۃ الفتح کے آخری رکوع کا وہ ضمیمہ بنتی ہے۔
آگے چلیے تو مکی سورۃ’’ قٓ‘‘ منفرد ہے‘ اس کا کوئی جوڑا نہیں۔ البتہ سورۃ الذاریات اور سورۃ الطور ‘ سورۃ النجم اورسورۃ القمر ‘سورۃ الرحمٰن اور سورۃ الواقعہ جوڑوں کی شکل میں ہیں۔ پھر دس مدنی سورتیں جوڑوں کی شکل میں نمایاں ہیں۔ ان میں نمایاں ترین جوڑا سورۃ التحریم اور سورۃ الطلاق ہے۔ اس سے پیچھے چلیے تو سورۃ التغابن اور سورۃ المنافقون ہیں۔ ایک میں ایمان کی حقیقت بیان ہوئی ہے جبکہ دوسری میں نفاق کی حقیقت۔ اس سے پیچھے سورۃ الجمعہ اور سورۃ الصف ہیں‘ جن میں ایک حضورﷺکے مقصد بعثت کو بیان کررہی ہے اور دوسری حضورﷺ کے اساسی طریقہ کارکو۔یہ تمام سورتیں معنوی اعتبار سے جوڑوں کی شکل میں ہیں۔
اس گروپ کے اندر سورۃ الملک بھی منفرد سورۃ ہے۔ اگر تکلف اور تصنع کرنا ہو تو سورۃ الملک اور سورۃ القلم کو جمع کردیجیے ۔سورۃ الحاقہ اور سورۃ المعارج کو جمع کر دیجیے ۔سورۃ نوح اور سورۃ الجن کو جمع کر دیجیے‘ان کو جوڑا قرار دے دیجیے ‘لیکن مضامین کے اعتبار سے یہ جوڑے نہیں بنتے ۔سورۃ الملک منفرد ہے۔جوڑے کی نسبت بنتی ہے سورۃ الحاقہ اور سورۃ القلم میں۔ اسی طریقے سے جوڑا بنے گا سورۃ المعارج اور سورۃ نوح ۔پھرسورۃ الجن بالکل منفرد ہے ۔ اس کا تو مضمون بھی وہ ہے کہ قرآن مجید میں جنوں کی حقیقت اور ان کے معاملات اس طریقے سے کسی ایک سورۃ میں نہیں آئے۔ اس کے بعد جوڑوں کی شکل میں نمایاں سورتیں ہیں: سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر‘ سورۃالقیامہ اور سورۃ الدہر‘سورۃ المرسلات اور سورۃالنبا‘سورۃالنازعات اور سورئہ عبس۔ یہ سلسلہ جوڑوں کی شکل میں  آخر تک چلتا جائے گا۔ یہ ہے وہ رائے جو جوڑوں کے اعتبار سے مولانا اصلاحی صاحب نے قائم کی ہے۔ اصولاً اس سے اتفاق کے بعد کہیں کہیں اس اصول کے اطلاق اور انطباق میں جو اختلاف ہے وہ میں نے بیان کر دیا ۔
ان میں بعض سورتیں جو منفرد ہیں وہ فاصلے پر جوڑوں کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔مثلاً سورۃالنور اور سورۃالاحزاب اپنی جگہ پر منفرد سورتیں ہیں لیکن مضامین کے اعتبار سے دونوں میں ربط ہے۔ ایک میں گھر کے اندر کا پردہ‘ ایک میں گھر کے باہر کا پردہ۔ منافقین کی ریشہ دوانیوں کا موضوع سورۃ النور میں بھی بڑی تفصیل سے بیان ہوا اور سورۃ الاحزاب میں بھی۔ پھر دونوں سورتوں میں مسلمانوں کی معاشرتی زندگی کے بارے میں واضح ہدایات ہیں۔ اس اعتبار سے ان کے مابین ایک جوڑا ہونے کی نسبت قائم ہو جاتی ہے۔ اسی طریقے پر اگرچہ ’’معوذتین ‘‘ایک جوڑا ہے سورۃالفلق اور سورۃ الناس کالیکن سورۃ الناس کے مضمون اور سورۃ الفاتحہ کو جوڑیے تو ان میں بڑی گہری مناسبت ہے۔سورۃ الناس میں اللہ تعالیٰ کا تعارف تین الفاظ سے ہو رہا ہے : {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ (۱) مَلِکِ النَّاسِ(۲) اِلٰـہِ النَّاسِ(۳)} یہ تعوذ ہے جو درحقیقت عبادت ہی کی ایک شکل ہے۔ ہم پناہ مانگتے ہیں اس ہستی کی جسے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیں پناہ دینے پر قادر ہے۔وہ’’عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ‘‘ہے۔وہ ہر آن ہمارے ساتھ ہے ‘وہ ہماری حفاظت کر سکتا ہے۔ عبادت کا بھی یہی تصوّر ہے کہ ہم اسی ہستی کی عبادت بھی کرتے ہیں۔
سورۃ الفاتحہ میں اللہ تعالیٰ کےتعارف میں سب سے پہلے لفظ ’’ربّ ‘‘آیا ہے : {اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo}۔ آگے چل کر ملک کا لفظ آتاہے: {مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِo}۔مٰلِکِ اور مَلِکِ میں کوئی فرق نہیں ہے‘ بلکہ یہ دو قراءتیں بھی ہیں ۔پھر الٰہ {اِلٰـہِ النَّاسِ(۳)} اور الٰہ وہ ہے جس کی عبادت کی جائے : {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo}۔معلوم یہ ہوا کہ مضامین کے اعتبار سے سورۃ الفاتحہ اور سورۃ الناس کا بھی ایک ربط ہے۔ چنانچہ پہلی سورۃ سورۃ الفاتحہ اور آخری سورۃ سورۃ الناس کےمابین بڑی گہری مناسبت ہے۔ اسی طریقے سے سورۃ یوسف اور سورۃ طٰہٰ بھی منفرد ہیں لیکن ایک اعتبار سے ان دونوں میں ایک نسبت ِ زوجیت قائم ہوتی ہے ۔سورۃ یوسف پوری کی پوری ایک نبی حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات پر ہے‘ جبکہ سورۃ طٰہٰ کا تقریباً اکثر حصہ ایک رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات پر مبنی ہے‘ نسبت معنوی یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر میں داخل ہوئے اور آباد ہوئے جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں وہ مصر سے جان بچا کر نکلے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک طرح سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے ذریعے سےدستگیری فرمائی۔یوں ایک معنوی ربط ان دونوں سورتوں کے مابین قائم ہوجاتا ہے۔اسی طریقے سے سورۃ یٰسین اور سورۃ ق کے مضامین کے اعتبار سے ‘ ان کے ردھم‘ ان کے مضامین کی جامعیت کے حوالے سے ایک ربط قائم ہوتا ہے۔
جو باتیں آج آپ کے سامنے عرض کی گئی ہیں‘ اصلاً تو یہ فراہی مکتب فکر کا نتیجہ ٔفکر ہے‘ اور ’’حق بحق دا ررسید ‘‘کے مصداق جب اس کا تذکرہ ہوتو انہی کے حوالے سے ہونا چاہیے۔ اگرچہ شروع میں ہمارے متقدمین میں سے بھی بعض نے نظم قرآن کے بارے میں کچھ گفتگو کی ہے‘ لیکن یہ بڑی سرسری نوعیت کی ہے ‘ اس میں وہ کہیں زیادہ گہرائی میں نہیں گئے ہیں۔ بعض حضرات کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ شاید ہمارے متقدمین نے ان چیزوں پر غور نہیں کیا‘ یا یہ کہ ان کی نگاہیں وہاں تک نہیں پہنچیں۔ یہ بالکل غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید اللہ کی کتاب ہے۔حدیث ِنبویؐ کےمطابق اس کے عجائب کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے‘ بار بار پڑھنے سے یہ کبھی پرانا نہیں ہوگا‘اس کے علوم کبھی ختم نہیں ہوں گے اور اہل ِعلم اس سے کبھی سیر نہیں ہو سکیں گے۔
کسی بھی شخص کے بارے میں یہ نہ سمجھیے کہ وہ تفسیر قرآن کے ضمن میں آخری بات کہہ چکا ہے۔ احکامِ دین کی بنیاد زیادہ تر محمد رسول اللہ ﷺکے عمل پر ہے۔اس کی اصل بنیاد سُنّت ِرسول ﷺ ہے۔قرآن مجید میں احکام بہت ہی اختصار‘بہت ہی اجمال کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ یہ پورے قرآن کا بمشکل بیسواں حصہ بنے گا‘ یعنی۳۰ پاروں میں سے وہ آیات ڈیڑھ پارے سے زیادہ نہیں ہو سکتیں جن میں شریعت کے احکام ہیں ۔چنانچہ جہاں تک احکام کا تعلق ہے ‘ اس میں آپ پیچھے کی طرف چلیے۔ ع’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو‘‘۔ اسلاف کی طرف جائیے ۔اسلاف سے اور پیچھے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم تک جائیے ۔مزید پیچھے جائیے محمد رسول اللہ ﷺکی ذاتِ مبارکہ تک۔ احکامِ شریعت کے ضمن میں ہمیں پیچھے دیکھنا ہے اور پیچھے ہی کی طرف جانا ہے‘ یہاں تک کہ ((مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابي)) ’’جس پر میرا عمل ہے اور میرے صحابہ کا عمل ہے‘‘ تک پہنچ جائیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم پیچھے ہٹتے ہٹتے وہاں تک پہنچ جائیں!
البتہ جہاں تک حکمت کا ‘ علم کا ‘معرفت کا ‘فلسفے کا‘ سائنسی مظاہر اور مظاہر فطرت کی توجیہہ کا تعلق ہے ‘ اس میں ہمیں آگے سے آگے جانا ہوگا ۔ظاہر ہے امام رازیؒ تو اس دور میں تفسیر لکھ رہے تھے جب کہ ابھی فزکس ‘ کیمسٹری ‘ زوآلوجی ‘ باٹنی اور فلکیات وغیرہ پر معلومات بہت کم تھیں۔ اکثر و بیشتر قیاسات پر مبنی تھیں۔ قرآن مجید میں ان مضامین کے بارے میں جہاں اشارات آئے ہیں ان میں ہم امام رازی کی پیروی نہیں کریں گے بلکہ جدید سائنس نے جو بھی انبار علم کا اور معلومات کا ہمارے قدموں میں لا ڈالا ہے‘ اس سے استفادہ کریں گے۔
اسی طریقے سے قرآن مجید پر غور و فکر ‘حکمت ِقرآن ‘فلسفہ قرآن ‘حکمت ِایمانی ‘ معرفت ِقرآن کے جو نکات ہیں ان پر بھی غور و فکر جاری رہے گا ۔ ہمارے ہاںلوگ اس اعتبار سے تنگ نظر ہیں کہ اگر پچھلوں نے یہ بات کہہ دی ہے توان سے آگے کوئی بات نہیں کر سکتے ۔گویا کہ یہاں پر وہ سب سے بڑی گالی دے دیتے ہیں کہ یہ تفسیر بالرائے ہے کہ آپ اپنی رائے سے قرآن مجید میں کلام کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے میں نے اس حدیث کا حوالہ دیا ۔ دوسرے میں آپ کو refer کرنا چاہتا ہوں بیہقیٔ وقت کی طرف‘ جو اِس دور کے مانے گئے۔ کم سے کم علمائے دیوبند کے حلقے میں یہ شے مسلّم ہے کہ بیہقی وقت کا مقام مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ کا ہے۔یعنی حدیث اور فقہ میں یہ اس دور کے امام تھے۔ انہوں نے اس موضوع پر بڑی خوب صورت تحریر لکھی ہے کہ تفسیر بالرائے کے ضمن میں یہ غلط خیال لوگوں کے ذہن میں پیدا ہو گیا ہے۔ قرآن مجید کےعلم کے اندر جو نئے نئے نکات ہیں انہیں انسان اگر علم کی بنیاد پر ‘زبان کی بنیاد پر دلیل کے ساتھ بیان کرے تو اس کان کے ہیرے کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ اگر ہم یہ سمجھ لیں کہ اگلے جو کچھ کہہ گئے بس وہ آخری بات ہے تو پھر تو گویا کان ختم ہو گئی‘ یا اس کے ہیرے اب آپ مزید نکالنے کی کوشش نہیں کر رہے۔
اس پہلو سے نظم ِقرآن کے حوالے سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ مولانا فراہیؒ سے جو بات شروع ہوئی ‘ اسے آگے بڑھایا مولانا اصلاحیؒ نے۔ قرآن مجید کی سورتوں کے گروپوں اور جوڑوں کے معاملہ سے اصولی اعتبار پرمجھے کامل اتفاق ہے۔بعض سورتوں کے منفرد ہونے کے ضمن میں مولانا اصلاحی صاحب کا قول میں آپ کو سنا چکا ہوں ۔البتہ اس اصول کے اطلاق اور انطباق میں بعض جگہ پر مجھے ان سے اختلاف ہے کہ منفرد سورتوں کو بھی انہوں نے جوڑوں میں ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ گویااس میں صرف تکلف نہیں‘ تصنع تک کی بات ا ٓگئی اور یہ بات مجھ سے اور حضرات نے بھی کہی کہ اگر ہم اس طرح کی نسبت ِزوجیت نکالنے لگے تو یہ قرآن مجید کی ہر دو سورتوں کے مابین نکل آئے گی۔ مجھے اس بات کے اندر کچھ وزن معلوم ہوا ‘اور میں نےاس لیے تفصیل سے یہ بات کردی ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی وجہ سے اس اصول کو پوری طرح ردّ کر دیا جائے۔ ہوتایہ ہے کہ انسان اگر قبول کرتا ہے تو بالکلیہ کرتا ہے جبکہ کسی شے کو ردّ کرتا ہے تو وہ بھی مکمل طور پر ردّ کردیتاہے۔ میرے نزدیک اصولاً یہ بات صحیح ہے کہ غور و فکر جاری رہنا چاہیے۔