(درسِ قرآن ) سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ (۴) - ڈاکٹر اسرار احمد

11 /

سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ(۴)مدرّس:ڈاکٹر اسرار احمدؒ


توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانہ
سورئہ فاتحہ کی سات آیات میں سے ساڑھے تین آیات اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اورتمجید پر مشتمل ہیں ‘ اور ان کا منطقی نتیجہ نکلتاہے ’’ توحید فی العبادت۔‘‘{اِیَّاکَ نَعْبُدُ} پروردگار سے ایک بہت بڑا عہد ہے کہ ’’ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے۔‘‘ امر واقعہ ہے کہ یہ کہتے ہوئے اگر ع ’’چو می گویم مسلمانم بلرزم!‘‘کی کیفیت کومدّنظر رکھا جائے تو چوتھی آیت کے دوسرے ٹکڑے سے اس کا ربط واضح ہو جائے گا۔ جیسے ہی انسان یہ کہے ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ تو ساتھ ہی اس کی دل جوئی اور تسلی کا پیغام موجود ہے ’’اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ یعنی اے ہمارے ربّ !ہم یہ اتنا بڑا عہد اور قول و قراراپنے زورِ بازو پر نہیں کر رہے ہیں ‘ بلکہ اس میں ہم تیری تائید اور توفیق کے محتاج ہیں۔ چنانچہ یہی ہے وہ رمز نبی کریم ﷺ کی اس دعائے ماثورہ میں جو کہ آپؐ ہر نماز کے بعد مانگا کرتےتھے : ((اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ)) ’’اے اللہ! میری مدد فرما اس پر کہ مَیں تجھے یاد رکھ سکوں(جیسا کہ تجھے یاد کرنے کا حق ہے)‘ تیرا شکر ادا کر سکوں (جیسا کہ تیرے شکر کا حق ہے) اورحسن و خوبی کے ساتھ تیری بندگی کر سکوں (جیسا کہ تیری بندگی کا حق ہے)۔‘‘
اس چوتھی آیت میں بھی ایک خاص اسلوب سے شرک کا سد ِباب کیا گیا ہے۔ اگر اسلوب یہ ہوتاکہ نَعْبُدُکَ وَنَسْتَعِیْنُکَ تو اس کے معنی ہوتے کہ ہم تیری بندگی کرتے ہیں اور کریں گے‘ اس میں غیر کی بندگی کی نفی نہ ہوتی۔ اسی طرح ہم تجھ سے مدد چاہتے ہیں اور چاہیں گے‘ اس میں غیر سے استعانت کی نفی نہ ہوتی ۔ عربی زبان میں ضمیر مفعولی کو پہلے لاکر حصر کا ایک مفہوم پیداہوجاتاہے۔ چنانچہ ’’نَعْبُدُکَ‘‘ نہیں کہا ‘ بلکہ فرمایا: {اِیَّاکَ نَعْبُدُ}’’ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے۔‘‘ یہاں شرک کا سد ِباب ہوا اور توحید پر زور آیا۔ یہ ہے توحید فی العبادۃ ۔{وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ} ’’اور صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگیں گے۔‘‘ یہ ہے توحید فی الاستعانت۔
توحید فی العبادۃ کے ضمن میں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ توحید کے دو رُخ معیّن کیے گئے ہیں۔ ایک ہے توحید فی العقیدہ۔ اس کو آپ کہہ سکتے ہیں نظریاتی توحید ‘ علمی توحید۔ یعنی اللہ ایک ہے ‘اللہ تنہا ہے ‘ اللہ کا کوئی ساجھی نہیں ہے ‘ اللہ کا کوئی مدّمقابل نہیں ہے‘ اللہ جیسا کوئی نہیں ہے ‘ اللہ کی صفا ت میں اُس کا کوئی مثل نہیں ہے۔یہ علمی انداز میں توحید کا اظہار ہے ۔ توحید کا دوسرا رُخ ہے توحید فی الطلب۔ یعنی مطلوب و مقصوداورمعبود صرف اور صرف وہی ہے۔ درحقیقت پہلی آیت {اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo} توحید فی العقیدہ یاعلمی اورنظری توحید کے ضمن میں اصل الاصول ہے‘ جڑ اوربنیاد ہے جب کہ {اِیَّاکَ نَعْبُدُ} توحید فی الطلب یا عملی توحید کا اقرار ہے کہ اُسی کی اطاعت ہو گی‘ مطاعِ مطلق صرف وہی ہے ۔مخلوق کی اطاعت اُس کی اطاعت کے دائرے کے اندر اندر ہو گی۔محبو بِ حقیقی وہی ہے اورسب مخلوق کے لیے محبت اُس کی محبت کے تابع ہوگی۔ مطلوبِ اصلی وہی ہے ‘ باقی سب کی حیثیت ذرائع کی ہوگی‘ مقصود کی نہیں۔یہ ہے درحقیقت تو حید فی الطلب یا توحید فی العبادۃ‘ یا اس کو عملی توحید کہیے‘جو اس ٹکڑے کے اندر مکمل طور پر آ جاتی ہے{اِیَّاکَ نَعْبُدُ}۔درحقیقت اللہ تعالیٰ کے تمام حقوق ایک لفظ ’’عبادت‘‘ میںآجاتے ہیں ۔ حضور اکرمﷺفرماتے ہیں:((اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ))(۳۳) ’’دُعا عبادت کا مغز اور لب ِلباب ہے‘‘ اور ((اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ))(۳۴) ’’دُعا ہی تو عبادت ہے۔‘‘
اسی آیت کادوسرا ٹکڑا ہے :{وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo}۔اس میں توحید فی الدعاء‘ توحید فی الاستعانہ‘ توحید فی الاستمداد سب جمع ہو گیا۔ یہ مختلف الفاظ ہیں جو باب استفعال سے آتے ہیں: استعانت‘ استنصار‘ استمداد‘ استدعاء‘ استغاثہ۔ استغاثہ سوائے اللہ کے کسی اور سے نہیں ہو گا۔ استعانت سوائے اللہ کے کسی اور سے نہیں ہو گی۔ استدعا سوائے اُس کے کسی اور سے نہیں ہو گی۔ استمداد سوائے اُس کے کسی اور سے نہیں ہو گی۔ مَیں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں کہ اس میں اصلاً مراد ہے فوق الاسباب ‘کسی سے تعاون کی درخواست کرنا ۔ ایک ہے مادّی قانون کے اندراور تحت الاسباب کسی سے مدد طلب کرنا‘یہ بالکل دوسری چیز ہے۔ وہاں گھڑا رکھا ہے اور پانی بھی ہے‘ مَیں نے کسی سے کہا کہ ذرا مجھے پانی پلادو‘ یہ بھی استعانت ہے ‘ استمداد ہے۔ مَیں نے کسی سے مدد چاہی ہے ‘ اُس نےمیری ایک ضرورت پوری کی ہے ‘ اس کے لیے مَیں اُس کا شکریہ ادا کرتا ہوں ‘ لیکن مادّی اسباب و وسائل اور ظاہری اسباب و علل کے اندر امداد اور استعانت طلب کرنا مختلف شے ہے‘جبکہ ماوراء الاسباب‘کوئی غیر محسوس طریقے پر ‘مادّی طریقوں سے بلند ترکسی سلسلہ میں کسی سے مدد طلب کرنا ‘ کسی سےاستغاثہ کرنا ‘ کسی کوپکارنا‘ کسی سے دعا کرنا ‘یہ بالکل دوسری شے ہے۔ اگر اللہ کے سوا کسی سے استمداد ہے‘ کسی سے استعانت ہے ‘ کسی سے استدعا ہے ‘ کسی سے استغاثہ ہے تو وہ شرک ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔
تاہم اسبابِ ظاہری کے اندر کسی سے امدا دطلب کرنےمیں شرکِ خفی پیدا ہو سکتا ہے‘اگرانسان کے ذہن پر یہ چیز مسلط ہوجائے کہ کسی شخص میں اپنے طور پر یہ طاقت موجود ہے کہ میری ضرورت پوری کرسکتا ہے اور یہ حقیقت ذہن سے اوجھل ہوجائے کہ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ (کسی میں کوئی طاقت نہیں ہے جب تک کہ اللہ کا اِذن نہ ہو)۔مَیں نے اسے کہا ہے کہ مجھے پانی پلادے ‘ یہ مجھے پانی پلاسکتا ہے جب اللہ چاہے گا ‘ محض اپنے ارادے اور طاقت سے یہ مجھے پانی بھی نہیں پلاسکتا۔ اگر یہ چیز ذہن سے اوجھل ہوجائے گی تو یہ شرکِ خفی ہوجائے گا ۔البتہ اسبابِ ظاہری سے ماورا ہو کر کسی سے مدد طلب کرنا تو شرکِ جلی ہے‘ اس میں کسی شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔
حصّہ سوم (درخواست ِہدایت) کی تفہیمسورۃ الفاتحہ کا تیسرا حصّہ اگر چہ آخری تین آیات پر مشتمل ہے‘ تاہم یہ تینوں آیات مل کر ایک جملہ بنتی ہیں۔ اس کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک عام بات کےبعداب خاص بات کاذکرآرہا ہے۔استعانت عام ہے:اے ربّ ! ہم تیری ہی مدد چاہتے ہیں ۔مدد تو ایک عام لفظ ہے ‘ اس مدد کے ضمن میں جو خاص اور اہم ترین چیز ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں ہدایت عطا فرما:{ اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} پروردگار !ہم سب سے بڑھ کر جس چیز کے محتاج ہیں وہ ہدایت ہے۔
ہدایت : عظیم ترین نعمت ِخداوندی
سورئہ فاتحہ کی عظمت کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں سب سے پہلا نکتہ تو ذہن میں یہ رکھیےکہ بندے کو اپنے ربّ کے حضور حاضری کی نعمت میسرآئی۔ یہ میری اور آپ کی نماز نہیں ‘اُس بندے کی ہے جو واقعتاً ’’عبداللہ ‘‘ہو ‘جو کہہ سکے: اِنِّیْ عَبْدُ اللہِ ‘جو فی الواقع ’’عبدہ‘‘ ہو۔ ؎
عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر
ما سراپا انتظار او منتظر!
اس کا تصور کیجیے‘ وہ ربّ کے حضورمیں حاضر ہے اور وہ کیفیت ذہن میں لایئے: ’’اَلصَّلَاۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘(۳۵)۔ اس وقت وہ معناً معراج کی لذت سے فیض یاب ہو رہا ہے۔ یہاں پر دیکھیے کہ اُس نے مانگاکیا ہے! گویا تلقین ہورہی ہےکہ مانگنے کی اصل شے کیاہے! ایک ہے ہماری ذہنی سطح توہم دنیاوی نعمتیں طلب کریں گے۔ میرے ایک دوست جو امریکہ جارہے تھے ‘انہوں نےاپنی چھوٹی بچی سےپوچھا :بیٹی !مَیں تمہارے لیے وہاں سے کیا لاؤں؟ اُس نے اپنی ذہنی سطح کے مطابق کہاکہ میرےلیے وہاں سے ایک پنسل لے کرآئیے گا۔ اس لیے کہ اس کی ذہنی سطح ہے ہی اتنی ‘ اس سے بالاتر چیز کاابھی تک اس کےذہن میں تصوّرنہیں ہے۔توہرکوئی اپنی ذہن کی سطح کے مطابق ہی مانگتا ہے۔
اگرہمیں وہ لمحہ میسّر آجائے تو ہم کیا مانگیں گے ؟ ہماری نگاہ میں کس چیزکی قدر و منزلت ہوگی ؟ شاید دولت مانگیں ‘ ثروت مانگیں ‘ شہرت طلب کریں ‘ دنیاوی حیثیت و وجاہت طلب کریں‘ دنیاوی غلبہ واقتدار طلب کریں۔ یہاں تلقین ہورہی ہے کہ مانگنےکی اصل شے ’’ہدایت‘‘ ہے۔درحقیقت رہنمائی ہورہی ہےکہ اس پوری کائنات میں کوئی چیز اُس وقت تک نعمت نہیں ہے جب تک کہ اُس کے ساتھ نعمت ِہدایت شامل نہ ہو۔جن چیزوں کو تم نعمت سمجھے ہوئے ہو اگر ہدایت نہ ہو وہ توموجب ِزحمت بن جائیں گی۔ مثلاً دولت ہے‘ ہدایت نصیب نہیں ہے تو دولت سے آپ کیا کریں گے؟ عیاشیاں کریں گے ‘ بدمعاشیاں کریں گے ‘ اس دولت کو لوگوں پر رعب گانٹھنے کا ذریعہ بنائیں گے۔ چنانچہ یہ دولت بذاتِ خود نعمت نہیں بلکہ موجب ِ زحمت ہے‘موجب ِعذاب ہے۔ اولاد ہے لیکن ہدایت نہیں ہے تو آپ اولاد کو کیابناکر اٹھائیں گے ؟ اولاد سرکش بن کر اٹھے گی ‘ خدا کی باغی بن کر اُٹھے گی۔ یہ اولاد آپ کے لیے صدقہ جاریہ نہیں ہوگی۔ یہ آپ کےنامہ اعمال میں ہمیشہ ہمیش کے لیے گناہوں کے مزید اندراج کاذریعہ اور سبب بن جائے گی۔ معلوم ہوا کہ مجرد اولاد نعمت نہیں ہے۔ ہاں ! نعمت ِ ہدایت ہو تو پھر اولاد بھی نعمت ہے۔اتنی بڑی نعمت ہے کہ جلیل القدر پیغمبروں نے اس کے لیے دعائیں کیں ۔حضرت زکریا علیہ السلام نے دُعا کی: {رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ(۸۹) }(الانبیاء) ’’ پروردگار! مجھے اکیلا مت چھوڑنا‘ اور تُو سب سے بہتر وارث ہے۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نےدعا کی ‘ اور جب اسماعیل و اسحاق علیہما السلام جیسےبیٹے ملے ہیں تو ہدیۂ تشکر پیش کیا ہے: {اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ ط اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآئِ(۳۹)}(ابراھیم) ’’کل شکر اورکل ثنا اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے عطا فرمائے باوجود بڑھاپے کے اسماعیل و اسحٰق (جیسے بیٹے)۔ بے شک میرا ربّ دعائیں سننے والا ہے۔‘‘ اس آیت کے آخری ٹکڑےسے ظاہر ہوتاہے کہ دعائیں مانگ مانگ کراولاد لی ‘ تواسی پر آپ قیاس کرلیں کہ جتنی نعمتیں ہیں ‘وہ فی نفسہٖ نعمت نہیں ہیں۔ اصل نعمت‘ نعمت ِہدایت ہے جو ہر چیز کو نعمت بنادیتی ہے ‘ اوراگر وہ نہیں ہے تو ہر چیز نعمت نہیں بلکہ موجب ِزحمت ہو جائے گی۔ لہٰذا مانگنے کی اصل چیز ہدایت ہے۔
صراطِ مستقیم کی پہچان: وحی ٔالٰہی کی محتاج
سورئہ فاتحہ میں مضامین کا یہ ربط ہم ملاحظہ کر چکے ہیں کہ ایک سلیم الفطرت انسان عقل سلیم کی رہنمائی میں‘غوروفکر کے نتیجے میں یہاں تک تواز خود پہنچ جاتاہے۔آگے ہے اصل میں وہ بات کہ جہاں انسان گھٹنے ٹیک کر سوال کرنے پر مجبور ہے ‘ اور وہ ہے اس زندگی کے پُرپیچ سفرمیں سیدھی شاہراہ ’’صراطِ مستقیم‘‘ جو پُرپیچ نہ ہو ‘جس میں افراط وتفریط کے دھکے نہ ہوں ‘ جس میں اِدھراُدھر کابھٹکنا نہ ہو۔ اس کا تعلق عقل انسانی کے امکان میں نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنے ظروف و احوال سے بلند نہیں ہو سکتا۔ مرد ہے تو بحیثیت مرد سوچےگا ‘ وہ اپنے آپ کو عورت کی جگہ پر رکھ کر نہیں سوچے گا۔ اُس کے اپنے احساسات ہیں ‘اُس کی اپنی نفسیاتی ساخت ہے۔ جیسےانگریزی میں کہتے ہیں:
He will stay inside his skin and will not come out 

یعنی وہ اپنی چمڑی کے اندر ہی رہے گا‘ اس سے باہر تو نہیں آئے گا۔ لہٰذا وہ جو نظام تجویز کرے گا اس میں عورت کےلیے صحیح صحیح اورمعتدل مقام کا تعین کرنا ناممکن ہے‘ یا اِدھر ٹھوکر کھائے گا یا اُدھر ٹھوکر کھائے گا ۔کسی مزدورکے لیےیہ ناممکن ہے کہ وہ کارخانہ دار کی جگہ ہوکر سوچ سکے۔ اُس کے اپنے مسائل (problems)ہیں ‘وہ اُن تلخ حقیقتوں کو خوب جانتا ہے جو اُسے درپیش ہیں اور اُنہی میں الجھا ہوا ہے۔ وہ کارخانہ دارکی مجبوریوں کو نہیں  سمجھ سکتا ‘ جب کہ کارخانہ دار کےذہن پر اپنے مسائل مسلط ہیں۔ وہ محسو س نہیں کر سکتا کہ ایک غریب مزدور کے احساسات کیا ہیں!اب ظاہر بات ہےانسان اِدھر ہوگا یا اُدھر ہوگا۔ مرد ہوگا یا وہ عورت ہوگی ‘ یا وہ مزدور ہوگا یا کارخانہ دار ہوگا ‘یا وہ کاشت کار ہوگا یا زمیندار ہوگا ‘یا وہ حکومت میں ہوگا یا اُس پر حکومت کی جارہی ہوگی ۔انسان مختلف حیثیتوں میں رہتے ہوئے غورکرتا ہے‘سوچتاہے تو لازماً افراط وتفریط میں مبتلا ہوتا ہے۔
ان پیچیدہ مسائل میں مَیںنے تین چیزیں گنوائی تھیں ‘ اور یہ تین تقریبا ً عقدہ ہائے لاینحل ہیں:(۱) مرد اور عورت کے درمیان توازن‘ (۲)فرداوراجتماعیت کے مابین توازن ‘(۳)سرمایہ اورمحنت کے درمیان توازن۔ یہ سرمائے اور محنت ہی کی ایک شکل ہے کہ کوئی زمیندار ہے اور کوئی کاشت کار ۔ دوسری شکل یہ ہے کہ یہ کارخانہ دار ہے اور یہ مزدور ہے۔ اس تیسرے مسئلہ کوصنعتی انقلاب (industrial revolution) اورمشین کی ایجاد نے اتنا گمبھیر بنادیا ہے کہ اس کا حل کسی کے پاس نہیں۔ یا تو انسان ایک انتہا پر سرمایہ داری(Capitalism) کی طرف چلا جائے گا‘ یا دوسری طرف چھلانگ لگائے گا تو اسے سوائے کمیونزم کے کوئی راستہ نظر نہیں آئے گا۔یہ ہیں وہ دھکے جو نوعِ انسانی کھارہی ہے اوران میں انسان کی اصل ضرورت ’’صراطِ مستقیم‘‘ ہے۔
یہ جان لیجیے کہ نبوت ورسالت کی ضرورت کیوں ہے ! توحید تک تو انسان خود پہنچ سکتاہے ‘ آخرت تک بھی اُس کی رسائی ہے‘ البتہ ان چیزوں میں زیادہ یقین کی گہرائی نبوت و رسالت سے میسر آتی ہے۔ اصلاً یہ چیزیں اُس کےاپنے ذہن کےدائرے میں بھی ہیں ‘ لیکن گیرائی اور گہرائی میں اضافہ ہوگا تو نبوت اوررسالت کے ذریعہ سے۔ البتہ جہاں وہ نبوت ورسالت اور وحی کابالکلیہ محتاج ہے وہ ہے ’’صراط ِ مستقیم۔‘‘اس کے لیے قرآن مجید میں مختلف الفاظ آئے ہیں: الصِّرَاطِ السَّوِیِّ (طٰہٰ:۱۳۵) ’’بالکل درمیانی راستہ‘‘۔ خط ِ استوا ہم اُس فرضی خط کو کہتے ہیں جو کرئہ ارضی کو بالکل برابر دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اسی طرح سَوَاءَ السَّبِیْل (المائدۃ:۱۲) ’’توسط اور اعتدال کی شاہراہ‘‘اور قَصْدُ السَّبِیْلِ (النحل:۹) ’’سیدھا راستہ‘ بیچ کی راہ‘‘ یہ مختلف اصطلاحات ہیں جو ایک حقیقت کونمایاں کر رہی ہیں کہ انسان اس زندگی میں قدم قدم پر دو راہوں پر ‘سہ راہوں پر ‘ چوراہوں پر آتاہے‘ اوراگراُس نے ہدایت ِخداوندی کادامن نہ تھاما ہوا ہو توکہیں وہ غلط موڑ مڑ جا ئے گا۔ابتدا میں تو معلوم ہوگا کہ کوئی خاص فرق نہیں ‘محض دس ڈگری کافرق ہے ان دونوں راستوں میں‘ لیکن آگے بڑھتے جائیں گے تو وہ راستہ کھلتا چلا جائے گا اور اصل راستہ دور ہوتا جائے گا۔؎
خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج  
جب معلوم ہوگا کہ بہت دور نکل آئے تو پھر انسان ایک ردّعمل کے طور پرزور لگائے گاجس سے ہو سکتا ہے کہ کسی دوسری انتہا کو پہنچ جائے۔
حضورِ اقدسﷺ نے ایک مرتبہ باقاعدہ ڈایا گرام (نقشہ) بنا کر صحابہ کرام ؓ کو صراطِ مستقیم کی حقیقت سمجھائی۔ آپؐ نے زمین پرتنکےسےایک سیدھا خط کھینچا اورکچھ آڑے ترچھے خطوط‘ جو اس سیدھے خط کو کاٹ رہے تھے۔ ایک خط بائیں طرف سے آیااوروہ سیدھے خط کو کاٹتاہوا دائیں طرف گزرگیا ‘ پھر دائیں طرف سے آیا اورسیدھے خط کو کاٹتاہوا بائیں طرف نکل گیا۔پھر یہ بائیں والاخط لوٹا اور سیدھے خط کو کاٹ کر دائیں  طرف نکل گیا۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھیے کہ اس ڈایا گرام میں حضور اکرم ﷺ نے ایک عظیم حقیقت کو واضح کیا ہے کہ فطرت ِ انسانی ’’سواء السبیل‘‘ کی طرف زور تولگاتی ہے لیکن اس جگہ آکر رکتی نہیں بلکہ اس کو عبور کر جاتی ہے ‘ کیونکہ راہنمائی کا دامن ہاتھ میں نہیں ہے کہ معلوم ہوجائے کہ اب یہاں سےاپنا رخ درست کرنا ہے۔ اپنے زور میں پھر وہیں سے لوٹتی ہے کہ بہت غلط آگئے۔
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں!
اس کو میں ایک لفظ کے حوالے سے بیان کیا کرتا ہوں۔ ’’آزادی‘‘ ایک اعلیٰ قدر ہے‘ ہم سب مانتے ہیں۔آج سے کوئی تین سوبرس پہلے پوری دنیامیں جاگیرداری نظام (feudal system) تھا‘جس میں انسان انتہائی پستی میں مبتلا تھے۔نہ اُن کے حقوق تھے نہ اختیارات۔بادشاہ تھا اور اس کے نیچے جاگیردار تھے۔ تیس ہزاری ‘بیس ہزاری منصب دارتھے۔ہرجگہ لارڈز اور بیرنز تھے ۔ پوری دنیا میں‘مشرق اور مغرب میں‘ ہر جگہ یہی کچھ تھا۔ عوام کی حیثیت ان جاگیرداروں کے مقابلےمیں کمی کاری‘ خدمت گزاروں کی تھی۔ جب انسانوں میں وہ شعور پیدا ہواجس کو علامہ اقبال نے ’’ابلیس کی مجلس  شوریٰ ‘‘ میں ابلیس سے کہلوایا ہے؎
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خودشناس و خودنگر
جب یہ احسا س پید ا ہوا کہ آخر یہ بھی ہماری طرح دوہاتھ دوپاؤں رکھنے والے انسان ہیں‘ہم اِن سے کس طرح کمتر تو نہیں کہ ان کے سامنے پست اور مطیع ہو کر رہیں۔ یہ شعور پیدا ہوا تو نوعِ انسانی نے آزادی کی تلاش میں سفرکاآغاز کیا۔انقلابِ فرانس انسانی تاریخ میں ایک بہت بڑا نشانِ راہ ہے۔ جمہوریت اور آزادی کے دورکا آغاز ہوا‘ لیکن اس آزادی میں ایک عدم توازن شامل ہو گیا۔ دولت کے سلسلے میں بھی آزادی کہ میراپیسہ ہے‘ مَیں جو چاہوں کروں۔ وہی آزادی جو سیاست کے میدان میں انسان کو خوداختیاری اورجمہوریت کی طرف لے گئی‘ وہی آزادی معاشی معاملات میں سرمایہ داری کی طرف لے گئی۔ کچھ دیر کے بعد ہوش آیا کہ ہم تو آسمان سے گر کر کھجور میں اٹک گئے ہیں۔ ع ’’رُست از یک بند تا افتاد دَر بندے دگر!‘‘ جاگیردار کی غلامی سے نکلے تھے‘ سرمایہ دار کی غلامی میں مبتلا ہوگئے۔ وہ آزادی کی چڑیا تو ہاتھ نہ آئی۔ اب پھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ایک ردّ ِعمل ہوا جس کی انتہا کمیونزم ہے۔ کسی کا کچھ نہیں ہے۔سرمایہ اور سرمایہ پیدا کرنے والے ذرائع کسی کی انفرادی ملکیت میں نہیں ‘بلکہ اجتماعی ملکیت میں ہونے چاہئیں۔ ہے وہی آزادی کی تڑپ۔ پہلے جاگیردار کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کیا تھا‘ اب سرمایہ دار کی غلامی سے چھٹکار ا حاصل کرنے کی کوشش ہورہی ہے ‘ لیکن توازن اب بھی برقرار نہیں  رہا۔نتیجہ یہ نکلاکہ ریاست ایک بہت بڑی جاگیردار اور سرمایہ دار بن گئی۔ انسان پھر اُسی بندھن میں بندھے رہ گئے۔ اب مطلق العنانیت (totalitarian system) ہے۔کام کرو اور روٹی کھاؤ۔ آزادیٔ رائے اور اظہارِآزادی ٔرائے کس چڑیا کا نام ہے‘ اسے بھول جاؤ۔کیسے کیسے پنچھی ‘ کس کس مصیبت سے وہاں سے اُڑ کر پہنچتے ہیں کہیں آزاد دنیا میں ‘ آزاد فضا میں سانس لینے کے لیے۔ کیوں ؟ اس لیے کہ؎
یہ داغ داغ اُجالا‘ یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں!
وہ آزادی انسان کے ہاتھ میں نہیں آرہی۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان اپنی سوچ ‘ اپنےغور وفکر اور عمل کے ردّ عمل کا شکار ہوتا چلاجارہا ہے۔
ربّ کے حضور درخواست ِ ہدایت کی تکرار
یہ ہے وہ پس منظر جس میں گھٹنے ٹیک کر دعا کرنے کامقام ہے۔اکبر الٰہ آبادی کے مطابق ع ’’طالب ہو خدا سے کہ خدا ہی کا ہے یہ کام‘‘ یہاں تو اُسی سے مانگنا پڑے گا:
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo}
’’(اے ربّ!) تُو ہی ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت عطا فرما۔‘‘
ہدایت کے بارے میں مباحث عام تفاسیر میں مل جائیں گے ‘کہ ہدایت کے مختلف مدارج ہیں۔ راستہ سجھا دینا اور سمجھا دینا بھی ہدایت ہے اورانگلی پکڑ کر چلانااور منزل تک پہنچادینا بھی ہدایت ہے۔ اس ہدایت کی انسان کو ہر لحظہ ضرورت ہے۔ سیدھے راستے پر تو آگئے‘لیکن یہ معاملہ کوئی ایسا تو نہیں ہے کہ آگے کوئی دوراہا نہیں آنا۔ قدم قدم پر دوراہے ‘ سہ راہے اور چوراہے ہیں ۔ ہرآن اندیشہ ہے کہ یہاں سےتو بچ کر آگیاہوں آئندہ کہیں غلط نہ مڑ جائوں‘ لہٰذا {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} ۔آپ روزانہ پانچ وقت کئی مرتبہ دُہراتے کہ پروردگار! تیرا ہی دامن تھامیں گےتوان پُرپیچ راہوں سے سلامتی کے ساتھ گزر سکیں گے۔ ہم کسی غلط موڑپر نہ مڑ جائیں اورسیدھے اپنی منزلِ مراد پر جا پہنچیں‘ لہٰذا ہمیں صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی عطا فرما۔صراطِ مستقیم مرکب ِ توصیفی ہے ‘ بالکل سیدھا راستہ۔
اگلی دوآیات میںاس سیدھے راستے کی مزید وضاحت ہے۔ اس سے مزید رہنمائی مل رہی ہے کہ یہ کتنی بڑی دولت اور کتنی بڑی نعمت ہے۔انسان کو جس چیز سے محبت ہوتی ہےاس کاپھر وہ زیادہ تفصیل سے ذکر کرتا ہے ‘جیسے سورئہ طٰہٰ میں ہم نے دیکھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سےجو شرفِ مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہوا تھا اس میں بات کو طول دے رہے ہیں ۔ سوال صرف یہ تھا: {وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یٰمُوْسٰی(۱۷)}’’اے موسیٰ! تمہارےدائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ـ‘‘لیکن جواب ملاحظہ ہو:
{قَالَ ہِیَ عَصَایَ ج اَتَوَکَّؤُا عَلَیْہَا وَاَہُشُّ بِہَا عَلٰی غَنَمِیْ وَلِیَ فِیْہَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی(۱۸) } (طٰہٰ)
’’کہا:یہ میرا عصا ہے‘مَیں اس پر ٹیک بھی لگا لیتا ہوں ‘ اس سے اپنی بکریوں کے لیے (درختوں سے) پتے بھی جھاڑ لیتا ہوں ‘اور اس میں میرے لیے اور بھی کئی کام ہیں۔‘‘
سورۃ الفاتحہ میں {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے خود فرما دی۔اس کی مثبت اور نفی دواعتبارات سے توضیح ہورہی ہے۔ اس میں ہمارے لیے رہنمائی بھی ہےکہ جو کچھ مانگ رہے ہو اُ س کواچھی طرح سمجھ لو کہ کیا مانگ رہے ہو!
{صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵}
’’راستہ اُن لوگوںکاجن پرتیرا انعام ہوا۔ ‘‘
{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ}
’’جو نہ تومغضوب علیہم ہیں(کہ اُن پرتیراغضب نازل ہوا ہو)۔ ‘‘
{وَلَا الضَّآلِّیْنَo}
’’اور نہ گم کردہ راہ ہیں۔‘‘
یہ مثبت اور منفی انداز میں صراطِ مستقیم کی مزید وضاحت ہے۔ اس لیے میں نے عرض کیا تھا کہ یہ ایک ہی جملہ ہے۔ پرنسپل کلاز ہے {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} اور آخری دونوں آیات گویا subordinate clauses ہیں۔ یہ{الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ} کا بدل ہیں۔{صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ} بدلِ اوّل ہے‘ جبکہ {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo} بدلِ ثانی ہے۔
بنی نوعِ انسان کے تین گروہ
یہاں ہمارے سمجھنے کے لیے تین قسم کے اشخاص ہیں جن کا سورۃالفاتحہ میں ذکر آگیا: (۱) مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ(۲) مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ (۳) ضَّآلِّیْنَ۔ ایک گروہ کے راستے کو ہم نے چاہاہے کہ ہم پرکھول دیاجائے ‘ہمیں اس کی ہدایت دی جائے‘ جب کہ دوسرے دوسے ہم نے اللہ کی پناہ طلب کی ہے کہ ان کے راستے کی طرف کہیں ہمارا رخ نہ موڑ دیجیے گا۔
مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کون ہیں؟اَلْقُرْآنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہُ بَعْضًا یعنی’’قرآن کاایک حصّہ دوسرے کی تفسیر کرتا ہے‘‘کے مصداق سورۃ النساء میں بات واضح ہو گئی:
{وَمَنْ یُّطِـعِ اللہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا(۶۹)}
’’جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ)کی اطاعت پر کاربند ہوجاتے ہیں انہیں معیت نصیب ہوگی ان کی جن پر اللہ کا انعام ہوا ‘یعنی انبیاء‘ صدیقین ‘شہداء اور صالحین۔اور کیا ہی اچھے ہیں یہ لوگ رفاقت کے لیے۔‘‘
ذہن انسانی میں خیالات کی رفتار بڑی تیز ہوتی ہے۔ چنانچہ جب بھی زبان سے یہ الفاظ نکالیں{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۵} تو بجلی کے کوندنے کے سے انداز میں ذہن میں یہ چار الفاظ آجانے چاہئیں: {مِنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ ج۔یہ ہیں مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ جن پر اللہ تعالیٰ کاانعام ہوا۔ ان میں پھر درجات ہیں۔بلند ترین درجہ نبوت کا ہے‘ اس سے متصل مقام صدیقیت کاہے‘ پھر مرتبہ شہادت کا ہے ‘اور اس میں base lineسمجھ لیجیے صالحین ہوتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اجْعَلْنَا مِنْھُمْ وَارْزُقْنَا مَعِیَّتَھُمْ!
مَغْضُوْب عَلَیْہِم سے مراد کون ہیں؟
مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کو سمجھانے کے لیے تو کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ‘ البتہ منفی انداز میں جواسلوب آیا یہ ضرور وضاحت طلب ہے:
{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo}
مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ وہ ہیں جنہوں نے ہدایت کو پانے کے بعد اپنی شرارتِ نفس اور خباثت ِنفس کی بنا پر اس ہدایت سے منہ موڑا ‘کج روی اختیار کی اور اس کی سزا میں ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے معیّن کیا ہے کہ یہاں  مَغْضُوْب عَلَیْھِمْ سے مرادیہود ہیں جنہیں اوّلین شریعت ملی۔ تاریخی طورپرثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کوئی شریعت نازل نہیں ہوئی۔ حضرت نوح‘حضرت صالح ‘ حضرت ہود اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کاذکر قرآن میں پڑھیے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے رسول یہی ہیں‘جو اولوالعزم پیغمبر ہیں۔ان کےحالات میں شریعت کاذکر نہیں  ملےگا۔ساری بات توحید اورشرک پر ہوتی تھی۔ ابھی تمدنِ انسانی اتنا پیچیدہ نہیں ہوا تھا۔تمدن کی جواُلجھنیں میں نے گنوائی ہیں یہ تو ان میں ارتقا ہوا ہے۔ سب سے ابتدائی الجھن جوپیدا ہوگئی تھی وہ مرد اور عورت کے درمیان توازن کی ہے ۔ابھی نظامِ اجتماعی تھاہی کہاں کہ فرد اور اجتماعیت کے درمیان توازن کا مسئلہ پیدا ہوا ہوتا۔ اسی طریقے سے معاش انتہائی سادہ درجے میں تھا ۔
ایچ جی ویلز کا تاریخ کامقالہ میں نے پڑھا‘بہت عمدہ لکھاہے۔ وہ کہتا ہے کہ رومن ایمپائر میں پہلی مرتبہ کرنسی کارواج ہوا‘اس سے پہلے کرنسی نہیں تھی‘ اورمعاشیات کی ساری پیچیدگیاں اس کرنسی کی ایجاد کے ساتھ آئیں۔اس سے پہلے یہ پیچیدگیاں نہیں تھیں۔ایک شخص کرگے پربیٹھا ہوا کپڑا بُن رہا ہے ‘ دوسرے نے کھیت میں گندم بوئی ہے۔ یہ بارٹر سسٹم کے تحت ایکسچینج کر لیتے تھے۔جوکپڑا بُن رہا ہے ‘اسے بھی آخر اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنا ہے‘ وہ اس کپڑے سے کچھ چنے یا گندم لے لے گا‘ اور جس نے جاکرکھیت میں کام کیا ہے اسے بھی اپنا تن ڈھانپنا ہے تو وہ اس سے کپڑا لے لے گا۔جمع کرنے کاتصور ہی نہیں تھا۔ اپنے پاس کتنا اناج رکھ لیں گے اور کب تک رکھیں گے! کپڑا بننے والا کتنا بُن بُن کے رکھتا چلا جائے گا! ہاں جب معاملہ یہ ہوگیا کہ ایک تولہ سونے کی ڈلی مساوی ہے اتنے سومن گندم کے اوراس میں اتنے تھان کپڑے کے آسکتے ہیں تو جس نے سونا سنبھال کے رکھ لیا اُس کے ہاتھ میں ایک purchasing power مرتکز ہوگئی۔ایچ جی ویلز کے الفاظ یہ ہیں کہ انسان کوکچھ شعور نہیں تھاکہ کرنسی ایجاد کر کے اس نے کتنی بڑی لعنت کا طوق اپنی گردن میں ڈال لیا ۔لہٰذا جویہ سارا تدریجی ارتقا ہو رہا تھا اس میں شریعت کی ضرورت پیش آئی‘ جس میں تفصیلی احکام دیے جائیں کہ یہ کرو‘ یہ مت کرو!
اس کااصلاً ذکر ہمیں ملتاہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں۔ پہلی کتاب جو اُتری ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام پرکسی کتاب کے اترنے کاتذکرہ نہیں ملتا۔ صحف ِابراہیم علیہ السلام کاتذکرہ ملتا ہے لیکن وہ اب دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام کے ساتھ ’’ملّت ِابراہیمی‘‘ کا لفظ ملے گا۔ملّت ِابراہیمی کی پانچ چیزیں حضورﷺ نے گنوائی ہیں: ختنہ کرنا‘ زیر ِناف بال اُتار دینا‘ ناخن کاٹنا ‘مونچھیں کاٹنا‘ بغلوں کے بال اُتارنا وغیرہ(۳۶) ۔یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں’’مِنَ الْفِطْرَۃِ‘‘(فطرت کا حصّہ) قرار دیا گیا اور یہی درحقیقت وہ بنیادی تعلیمات ہیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب ہیں ۔باقی احکامِ شریعت یعنی حلال اورحرام ‘ جائز اور ناجائز ‘اوامر و نواہی ‘ واجب‘ مستحب‘فرض‘ مکروہ تحریمی‘ حرامِ مطلق کی تفصیل موجود نہیں تھی۔ جب تمدن میں پیچیدگیاں پیدا ہوئیں تب یہ سارے مسائل پیدا ہوئے۔ لہٰذا جو پہلی شریعت ہے ‘وہ شریعت ِموسوی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیروئوں نے اپنی خباثت ِنفس اورشرارت ِنفس کی وجہ سےاس شریعت میں تحریف کی۔ اس کواپنی خواہشات کاتختۂ مشق بنایا۔نتیجہ یہ ہوا کہ یہودی قوم مَغْضُوْب عَلَیْہِم کی نمایاں مثال بن گئی۔ یہ علامت (symbol) ہے مَغْضُوْب عَلَیْہِم کی۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
{وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ وَالْمَسْکَنَۃُق وَبَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ ط } (البقرۃ:۶۱)
’’ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی ‘اور وہ اللہ کا غضب لے کرلوٹے۔‘‘
چنانچہ مَغْضُوْب عَلَیْہِم ٹھہرے۔ انہوں نےہدایت ِخداوندی کے آنے کے بعد گمراہی کا راستہ اختیار کیا۔جیسے سورۃ الشوریٰ میں ارشاد ہوا:
{وَمَا تَفَرَّقُوْٓا اِلَّا مِنْ  بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْعِلْمُ بَغْیًا  بَیْنَہُمْ ط} (آیت۱۴)
’’اور انہوں نے تفرقہ نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا آپس میں ضدم ضدا کے باعث۔‘‘
انہوں نے تفرقے کی راہ جو نکالی ہے وہ کسی مغالطے یا اندھیرے کی وجہ سے نہیں ‘بلکہ علم کے آجانے کے بعد‘آپس میں ایک دوسرے پر غلبہ و اقتدار حاصل کرنے کے لیے ‘اپنی انانیت ‘اپنی ذات پرستی کے باعث نکالی ہے۔ تویہ ہیں مَغْضُوْب عَلَیْہِم۔
ضَالِّیْن سے مراد کون ہیں؟
اس لفظ کو اس کی اصل حقیقت کے اعتبار سے سمجھنا بہت ضروری ہے‘ اس لیے کہ یہ لفظ سورۃ الضحیٰ میں حضورﷺ کے لیے بھی آیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی(۷)}’’اُس نے آپؐ کو متلاشی ٔ حق پایا تو سیدھی راہ سجھائی۔‘‘اس لفظ کا مفہوم یہ ہے کہ یا تو ابھی کوئی ہدایت کاطالب ہے‘ ابھی تک اسے ہدایت ملی نہیں‘ کوشاں ہے ‘متلاشی ہے‘ اس کے حصول کے لیے محنت کررہا ہے۔ یایہ کہ کسی وقت نیکی کے جذبے میں حد ِاعتدال سے تجاوز کرکے صحیح راستے سے ہٹ گیا ہے۔ لفظ ’’ضَالّ‘‘ کے یہ دو مفہوم ہیں ۔
ایک تیسرا مفہوم بعض حضرات صرف نکتہ آفرینی کے طور پرپیدا کرتے ہیں‘اوروہ یہ کہ اگر کوئی شخص کسی کی محبت میں اس کیفیت کوپہنچ جائے کہ اس پرمحبت کا غلبہ ہوجائے‘ محبت میں مغلوب الحال ہوجائے تواس پر بھی ’’ضَالّ‘‘ کے لفظ کااطلاق ہوجائے گا۔ اصل میں یہ ساری کوشش اس لیے کرتے ہیں کہ حضورﷺ کے لیے جب یہ لفظ آ گیاتو اس کی ایسی تاویل ہونی چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ پرعشق خدا وندی کاغلبہ ہوگیا تھا‘ آپﷺ محبت ِ الٰہی سے مغلوب الحال تھے۔ لیکن یہ صرف نکتہ آفرینی ہی ہے۔
درحقیقت اس کے دو ہی مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ وہ شخص جس پرابھی ہدایت منکشف نہیں ہوئی (اس میں ہدایت کی طلب شدید ہے) اور وہ غوروفکر کررہا ہے‘ سوچ بچار کررہا ہے۔ غوروفکر اور عبرت پزیری کے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اس کے لیے شرح حدیث میں ’’التفکّر و الاعتبار‘‘کا لفظ آیا ہے ۔طالب ِہدایت ہے لیکن ہدایت ابھی منکشف نہیں ہوئی۔ دوسرے وہ جس کوہدایت ملی تو تھی لیکن اُس نے اس کے اندر ایک غلط رخ اختیار کر لیا ہے ‘البتہ خباثت ِنفس کی وجہ سے نہیں بلکہ نیکی کا جذبہ کچھ غیر متوازن ہو گیا ہے۔ یہ بھی’’ ضَالّ‘‘ میں شمار ہوتاہے۔
پہلے تواس دوسرے مفہوم کے اعتبار سے سمجھ لیجیے۔ اس لیے کہ حِبرالاُمّۃ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہاں ’’ضالِّین ‘‘ سے مراد متبعین حضرت مسیح علیہ السلام کوقرار دیا ہے(۳۷)۔ مَغْضُوْب عَلَیْہِم سے مراد یہود اور ضَالِّیْن سے مراد حضرت مسیح علیہ السلام کے پیرو ہیں جنہوں نے رہبانیت کی بدعت ایجاد کی ۔ انہوں نے یہ بدعت کسی خباثت ِنفس کی وجہ سے ایجاد نہیں کی۔ یہ حبِ دُنیا اورحب ِمال کے اندر حد ِاعتدال سے بڑھ جانے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ترکِ دنیا کی غرض محبت ِالٰہی ہے جس کی وجہ سے وہ گھربار چھوڑ رہے ہیں۔ شادی بیاہ نہیں کررہے ہیں‘نکاح کے بغیر زندگی بسر کررہے ہیں۔تپسیائیں(سخت ریاضت‘ مشقت والی عبادت) کر رہے ہیں۔پہاڑوں کی کھوہ اور غاروں میں پہنچے ہوئے ہیں۔ سانپوں اوربچھوئوں کے مسکنوں میں جاکر ڈیرہ لگا لیا ہے۔ کوئی پہاڑ کی چوٹی پرریاضت کررہا ہے۔ یہ سب کچھ جذبۂ نیکی کاعدم توازن ہے‘ جذبۂ نیکی کا حد ِاعتدال سے تجاوز ہے۔
اس بنا پر اگر کوئی صراطِ مستقیم سے ہٹ جائے تووہ ’’مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ‘‘ میں شمار نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ ’’مَغْضُوْب عَلَیْہِم‘‘ میں شمار ہونے کے لیے اس صحیح راستے سے اپنی خباثت ِنفس کی وجہ سے‘ دنیا کی محبت کی وجہ سے ‘نفسانی خواہشات کی پیروی کی وجہ سے ‘راہِ ہدایت واضح ہو جانے کے باوجود ہٹنا ہے۔ اُس کی بنیاد ہے شرارتِ نفس‘ جبکہ یہاں درحقیقت نیکی کاایک جذبہ ہے جو حد ِاعتدال سے تجاوز کرگیا ہے۔ لہٰذا ہے توگمراہی‘ لیکن اِس گمراہی اوراُس گمراہی میں زمین آسمان کافرق ہے۔ ’’مرد ی ونامردی قدمے فاصلہ دارد۔‘‘ بظاہر توگمراہی کے لفظ کا اطلاق دونوں پر ہوگا‘ یہود بھی گمراہ‘نصاریٰ بھی گمراہ‘ لیکن دونوں کی گمراہی میں بہت فرق ہے۔ یہ بات سورۃ الحدید میں بڑی وضاحت کے ساتھ آئی ہے:{وَرَھْبَانِیَّۃَنِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَـبْنٰـھَا عَلَیْھِمْ اِلَّا ابْتِغَآئَ رِضْوَانِ اللہِ} ’’اور رہبانیت کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کی‘ ہم نے اسے اُن پر لازم نہیں کیا تھا‘ مگر اللہ کی خوشنودی کی تلاش میں۔‘‘ ہم توفاطرفطرتِ انسانی ہیں ‘ہم نے انسانی فطرت بنائی ہےاوراس کے تقاضوں کو خوب جانتے ہیں۔ ہم نے کوئی غیر فطری  قدغن انسان کے فطری تقاضوں پر عائد نہیں کی‘ لیکن انسان نے خود عائد کرلی۔ یہ بدعت ہے جواس قوم نے ایجاد کی۔ہم نے تو اُن پرایک چیز فرض کی تھی کہ اللہ کی رضا حاصل کرو‘ وہ رضا حاصل کرنے میںغیرمعتدل ہوگئے۔ پھریہ کہ وہ اپنی خود عائد کردہ پابندی کونبھا بھی نہیں سکے۔{فَمَا رَعَوْھَا حَقَّ رِعَایَتِھَاج}(الحدید:۲۷) ’’پھر وہ اس کی پابندی نہ کرسکے جیسے کہ کرنی چاہیے تھی۔‘‘ فطرت سے کشتی لڑیں گے تووہ آپ کو چاروں شانے چِت کر دے گی۔کچھ لوگ مستثنیٰ ہوتے ہیں۔ ان کی قوت ِارادی اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ اپنی فطرت سے لڑ جاتے ہیں اور پوری زندگی لڑتےہوئےبسر کر دیتے ہیں۔ تاہم اکثریت کامعاملہ یہی ہو گا کہ طے تو کرلیں گے کہ شادی نہیں کریں گے ‘ ساری عمرمجرد رہیںگے ‘لیکن فطرتِ انسانی سے کب تک آدمی دھینگا مشتی کرے گا؟ اس کانتیجہ یہی نکلےگاکہ کہنے کوراہب خانہ ہے اور اس کے تہ خانوں میں حرامی بچوں کی قبریں بنی ہوئی ہیں۔یہ لوگ راہبائیں اور راہب تو بن گئے لیکن چونکہ یہ فطرتِ انسانی کے خلاف معاملہ تھا‘توفطرت نے ان کوپچھاڑ دیا۔
وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی
یہ تو ’’ضَالِّیْن‘‘ کا ایک مفہوم ہے‘ لیکن یہی لفظ ِ ’’ضَالّ‘‘ نبی اکرمﷺ کے لیےبھی آیاہے تو وہاں کس معنی میں آیا ہے؟ حضورﷺ کے لیے اس کا مفہوم ہو گا: ’’تلاشِ حقیقت میں سرگرداں۔‘‘ اندر ہدایت کی شدید طلب ہے ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی حدیث ہے کہ جب آپﷺ کی عمر چالیس برس پوری ہوئی:
ثُمَّ حُبِّبَ اِلَیْہِ الْخَلَاء فَکَانَ یَخْلُو بِغَارِ حِرَاءَ فَیَتَحَنَّثُ فِیْہِ.... (۳۸)
’’پھر حضورﷺ کوخلوت گزینی محبوب ہو گئی اور آپؐ غارِ حرا میں جاکر تنہائی میں عبادت کرتے تھے.... ‘‘
سوال پیدا ہوا کہ کیا عبادت کرتے تھے؟ ابھی تک جبریل علیہ السلام سے ملاقات نہیں ہوئی‘ ابھی نماز عطا نہیں ہوئی ‘قرآن کانزول شروع نہیں ہوا۔ پھرعبادت کس طرح کرتے تھے ؟ اس پر شارحین حدیث کاتقریباً اجماع ہے کہ آپﷺ کی عبادت تھی: کان صفۃ تعبدہ فی غار حراء التفکّر و الاعتبار! یعنی غارِ حرا میں حضورﷺ کی عبادت غور و فکر‘ سوچ بچار‘ عبرت پزیری پر مشتمل تھی۔ یہ کیاہو رہا ہے؟کیوں ہورہا ہے؟ یہ ظلم و تعدی کیوں ہے؟ کچھ لوگ ٹکڑوں کے محتاج ہیں اورکچھ لوگوں کے پاس حد درجہ افراط ہے تو ایسا کیوں ہے؟ یہ غلام ہمارے ہی جیسے انسان ہیں ‘ان پرکیوں یہ قیامت بیت رہی ہے؟ انسان اپنے اخلاق کے لبادے کوخود ہی کیوں تار تار کر رہا ہے؟ عصمت وعفت کیوں سربازار نیلام ہوتی ہے؟ پھر یہ تفکر اور غور و فکر کہ یہ کائنات کیا ہے! اس میں انسان کا کیا مقام ہے؟ اس کا مقصد ِ حیات کیا ہے؟
یہاں پر ایک سوال ہوسکتا ہے ‘شاید آپ کے دل میں بھی پیدا ہوجائے۔ مَیں بھی مانتا ہوں کہ نبی پیدائشی نبی ہوتا ہے۔محمد مصطفیٰﷺ تواس وقت بھی خاتم النّبییّن تھے جبکہ ابھی جسد ِآدم کی تیاری ہورہی تھی۔آپﷺ سے پوچھا گیا: ’’مَتٰی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّۃُ؟’’ آپؐ کو نبوت کب عطا ہوئی؟فرمایا: ((وَآدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ))(۳۹) ’’جب کہ آدمؑ ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے۔‘‘ لیکن وہ ہے عالم ارواح کامعاملہ۔ پھراس عالم جسدی میں وہ روح شامل ہوکرآئی ہے۔ یوں سمجھیے کہ عالم ارواح میں وہ ابھی بند کلی ہے‘ اس کلی کو ابھی کھلنا ہے‘ اس کی exfoliation ابھی ہونی ہے۔ بیج میں ایک مکمل درخت ہوتا ہے‘ لیکن وہ بالقوہ (potentially)ہے‘ اور بالفعل(actually) اس درخت کووجود میں آنے میں وقت لگتا ہے۔ یہی معاملہ ہے کہ آپﷺ اگرچہ پیدائشی خاتم النّبیین ہیں لیکن اس جسد کے ساتھ جب محمدرسول اللہﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تووہ سارے مراحل آپ ﷺنےطے کیے ہیں۔ بچپن بھی آیا ہے‘ لڑکپن بھی آیاہے‘ نوجوانی بھی آئی ہے ‘جوانی بھی آئی ہے۔ تدریجاًوہ exfoliation ہو رہی ہے۔ اب وہ وقت آنے والا ہے کہ وہ کلی کھلے گی اور پورے طور پر پھول بنے گی ؎
وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں
اِک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
لیکن ابھی اس کا وقت آنا تھا۔ درحقیقت اسی کا تقاضا فطرتِ محمدیﷺ میں پیدا ہو رہا تھا کہ گھربار سے ‘ملنے جلنے سے ‘میل ملاپ سے طبیعت میں کچھ اکتاہٹ سی ہو رہی ہے۔ وہ جو علامہ اقبال نے اپنے شعر میں نقشہ کھینچا ہے :؎
دنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یاربّ!
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو!
اب سوچ بچار کامادہ غالب ہوچکا ہے‘ اس لیے کہ وہ کلی ا ب کھلنے کو تیارہے۔ وہ فطرت اندر سے اپنازور لگا رہی ہے ۔ وہ محمد عربی ﷺ کو غار میں کھینچ کرلے گئی ہے اوروہاں اس پھول کو کھلنا ہے ‘لیکن اس کی ابتدائی سٹیج کو سورۃ الضحیٰ میں بیان کیاگیا: {وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی(۷) }’’اور آپ کو تلاشِ حقیقت میں سرگرداں پایا تو ہدایت دی۔‘‘ آپﷺ باب العلم پر دستک دے رہے تھے ‘حقیقت کے قریب تر پہنچ چکے تھے۔ وہ جو علامہ اقبال نے کہا ہے :؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے‘ منزل نہیں ہے!
محمدعربی ﷺ عقل کی منزلیں طے کررہے تھے اورظہورِ نبوت کا وقت آگیا تھا۔ علامہ اقبال ہی نے اس سارے عقدے کوخوب کھولا ہے کہ ؎
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر!
خرد کی گتھیاں سلجھانے کاایک مرحلہ ہے جس کے بعد یہ منزل آنی ہے:{وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰیo } ہم نے پایا آپؐکو ‘ہم نے دیکھا آپؐ کوکہ تلاشِ حقیقت میں سرگرداں ہیں تو ہدایت کے پردے اٹھادیے۔ وحی کاآغاز ہو گیا۔ یہاں اس معنی میں محمد رسول اللہﷺ  کے لیےلفظ ’’ضَالّ‘‘ آیا ہے۔ سورۃ الشوریٰ میں اس آیت (الضحیٰ:۷) کوبالکل واضح کردیاگیا:
{وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَـآ اِلَـیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاط مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَاط  وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۵۲)}
’’(اے نبیﷺ!)اسی طرح ہم نےآپ کی طرف وحی کی ایک روح اپنے امر میں سے۔آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے لیکن اس قرآن کو ہم نے ایسا نور بنا دیا ہے جس کے ذریعے سے ہم ہدایت دیتے ہیں اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں۔ اور یقیناًآپ سیدھےراستے کی طرف ہدایت دیتے ہیں۔‘‘
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} کی دعا کے جواب میں اب وہ بابِ ہدایت وا ہوا ہے بصورتِ نبوتِ محمدی ﷺ پوری نوعِ انسانی کے لیے:{وَاِنَّکَ لَتَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۵۲)}
اقول قولی ھٰذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات
حواشی
(۳۳) سنن الترمذی:۳۳۷۱ قال ابوعیسٰی: ھذا حدیث غریب من ھذا الوجہ.........
(۳۴) صحیح الجامع الصغیر للالبانی بحوالہ مسند احمد وسنن اربعۃ۔
 امام البانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ملاحظہ ہو حدیث ۳۴۰۷۔
(۳۵) یہ زبان زدِ عام جملہ صوفیاء کے اقوال میں سے ہے جو حدیث کے طور پر بیان کر دیا جاتا ہے۔ بہت ساری احادیث سامنے رکھیں تو ان سے یہ معنیٰ کشید کیا جا سکتا ہے۔ (مرتب)
(۳۶) صحیح البخاری:۲۶۹۷ و صحیح مسلم:۲۵۷-
(۳۷) الدر المنثور۱ / ۴۱۔۴۲ و مختصر تفسیر ابن کثیر۱ / ۲۴
 میں متعدد صحابہ کے حوالے سے آپﷺ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’مغضوب علیہم‘‘ سے مراد یہود اور ’’الضالین‘‘ سے مراد عیسائی ہیں۔
(۳۸) صحیح البخاری‘ کتاب بدء الوحی‘ ح۳ وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بدء الوحی الٰی رسول اللہﷺ ‘ح۱۶۰۔
(۳۹) سنن الترمذی:۳۶۰۹ واللفظ لہ۔ ومسند احمد:۲۰۵۹۶۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں: ((إِنِّي عِنْدَ اللّٰهِ مَكْتُوبٌ: خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَإِنَّ آدَمَ لمُنْجَدِلٌ فِي طِينَتِهِ)) ’’میں تو اس وقت سے اللہ تعالیٰ کے ہاں خاتم النبییّن لکھا ہوا ہوں جبکہ آدمؑ ابھی مٹی کی صورت میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘(شرح السنۃ:۳۶۶۲ ومسند احمد:۱۷۲۸۰‘وابنِ حبان: ۲۰۶۳۔ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ سنن الترمذی: ۳۸۷۰) امام الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ مشکاۃ المصابیح: ۵۷۵۹۔