معاہداتِ امن اور مسلم اُمہ کا کردارشجاع الدین شیخ‘ امیر تنظیم اسلامی
امریکی صدر ٹرمپ نے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں کہا کہ امریکہ اور ایران کے تعلقات میں گزشتہ کئی عشروں سے جاری کشیدگی میں اب کمی ہوگی۔اِس کے علاوہ اُنہوں نے ایران پر امریکہ کی جانب سے عائد پابندیوں میں نرمی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تعمیر نو کے لیے تہران تیل برآمد کرسکے گا اور ساتھ ہی یہ توقع بھی ظاہر کی ہے کہ ایران اور امریکہ میں مذاکرات جلد شروع ہوسکتے ہیں‘ تاہم ایرانی جوہری پروگرام پر معاہدہ بھی زیر ِغور ہے۔ ہیگ میں جاری نیٹو سربراہی اجلاس کے موقع پر خطاب میں انہوں نے کہا ہے کہ ہم ایران کو کسی صورت ایٹمی طاقت نہیں بننے دیں گے اور اگر اس نے یورینیم افزودگی کا پروگرام دوبارہ شروع کیا تو اس پر دوبارہ حملہ کریںگے۔ اِس بات سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ امریکی صدر نے جب سے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا ہے‘دنیا بھر میں کہیں جنگیں شروع ہو رہی ہیں تو کہیں اعلانِ جنگ بندی ہو رہا ہے‘ حالانکہ اُنہوں نے تو حلف اُٹھانے سے پہلے بلکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی یہ کہا تھا :’’ سب سے پہلے امریکہ‘‘ یعنی امریکہ اب کسی دوسرے ملک میں مداخلت نہیں کرے گا ۔گویا جو ہونا تھا وہ ہو چکا‘ اب مزید جنگیں نہیں ہوں گی۔ دنیا حیران تھی کہ امریکہ اب اگر تیسری دنیا کے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا تو پھر کیا کرے گا!جس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی صدر منتخب کیا جارہا تھا‘ غزہ میں تازہ ترین اسرائیلی مظالم کو شروع ہوئے ایک سال سے زیادہ عرصہ بیت چکا تھا۔اہل غزہ اپنے بل بوتے پر مزاحمت جاری رکھے ہوئے تھے جس کے جواب میں اسرائیل فلسطین میں نسل کشی میں مصروف تھا ۔ اِس دوران میں نصف لاکھ سے زیادہ بے گناہ مسلمان بچے‘ خواتین‘ نوجوان اور بزرگ شہید کیے جا چکے تھے۔ پورے غزہ میں کوئی ایک خاندان بھی ایسا نہیں تھا جس کا کوئی نہ کوئی فرد اُس مزاحمت کے دوران شہید نہ ہوا ہو۔ اپنے دعوے کے پیش نظر تو ٹرمپ صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ اسرائیل سے کہتے کہ چونکہ اب میں دنیا میں امن قائم کرنا چاہتا ہوں‘اس لیے تم فلسطین کے وہ تمام علاقے خالی کر دو جن پر تم نے گزشتہ سالوں میں قبضہ کیاہے تاکہ اہل غزہ سکون سے زندگی بسر کر سکیں ‘مگر ایسا نہیں ہوا۔
امریکی صدر کے حلف اٹھانے سے صرف ایک دن پہلے اہل غزہ اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تو اس پر مسلم دنیا میں خوشی کی لہر پھیل گئی۔خیال کیا جا رہا تھا کہ ٹرمپ صاحب نے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی اتنا بڑا کام کر دیا ہے تو بعد میں کیا کچھ نہیں کریں گے۔ عہدہ سنبھالنے کے کچھ ہی دنوں کے بعد روس اور یوکرین کی جنگ کا موضوع زیر بحث آیا تو صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی سے کہا:’’اب روس کے ساتھ اگر جنگ جاری رکھنی ہے تو اپنے بل بوتے پر لڑیں‘امریکہ اب’’مزید‘‘مدد نہیں کرے گا ۔‘‘ یوکرین کے صدر اور صدر ٹرمپ کی ملاقاتوں اور ہدایات پر تبصرے ابھی زیر بحث تھے کہ اسرائیل نے امن معاہدہ توڑ تے ہوئے اہل غزہ پرتاریخ کی بدترین بمباری کی۔ایسے میں ٹرمپ صاحب نے اہل غزہ سے ’’اظہارِ ہمدردی‘‘ کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ علاقہ کو خالی کر کے دوسرے علاقوں میں چلے جائیں۔ گویا امن قائم کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ اہل ِغزہ وہ بات مان لیں جس کی وہ گزشتہ کئی سالوں سے مزاحمت کر رہے ہیں ۔
اِس دوران میں غزہ میں بدترین غذائی قلت پیدا ہوگئی تو پاکستان سمیت کئی اسلامی اور غیراسلامی ممالک میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔کئی مسلم ممالک کے عوام پاکستان کی طرف پُراُمید نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ وہ اسرائیل کو منہ توڑ جواب دے ۔پھرپاکستان کی تمام دینی جماعتوں نے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اسرائیل کے خلاف جنگ کا فتویٰ دے دیا جس سے حکومت ِپاکستان کو بھی پریشانی لاحق ہوئی ۔اِس پریشانی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کو مصروف کرنے کے لیے بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا مگرافواج پاکستان کی جوابی کارروائی سے بھارت بھی بوکھلا گیا اورچند گھنٹوں میں ہی سفید جھنڈے لہرا دیے۔اِس ’’جنگ بندی‘‘کا کریڈٹ بھی صدر ٹرمپ نے ’’حاصل‘‘ کیا۔اِس کے بعد ابھی بھارت اپنے نقصانات کا جائزہ ہی لے رہا تھا تو یوکرین نے روس پر فضائی حملے کردیے جس میں روس کو بڑا نقصان پہنچانے کے دعوے کیے گئے مگر روس نے بھی جوابی حملے کرکے یوکرین کوٹھنڈا کردیا۔ اس جنگ میں بھی صدر ٹرمپ کے جنگ بندی کرانے کے دعوے کی گونج سنائی دیتی رہی۔
پھر پاکستان اور بھارت نے الگ الگ وفود امریکہ اور یورپ بھیجے تاکہ دنیا کے سامنے اپنا اپنا موقف بیان کریں۔ پاکستانی وفد نے اپنا پیغام صدر ٹرمپ تک پہنچاتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مصالحت کرانے میں اپنا کردار ادا کریں‘ جس پر ہم نے تبصرہ کیا تھا کہ صدر ٹرمپ کا مصالحت میں کردار دو بلیوں میں کیک کی تقسیم کرنے والے کی طرح کا ہی ہوسکتا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے امریکی صدر کی مداخلت قبول کرنے سے صاف انکار کر دیاتھا۔اسی دوران میں اسرائیل نے ایران پر حملہ کرکے اس کے چوٹی کے قائدین کے علاوہ ایٹمی سائنس دان بھی شہید کر دیے ۔ ایران نے جب اسرائیل پر جوابی حملے کیے تو اسرائیلی عوام کو وہ تمام مناظر دیکھنے کو ملے جو گزشتہ ڈیڑھ برس سے نہتے اہل غزہ دیکھتے چلے آرہے تھے۔ اسرائیلی عوام اور حکومت دونوں کے لیے یہ صورت حال غیر متوقع تھی۔ ایسے میں جب اس نے امریکہ سے مدد طلب کی تو بادل نخواستہ اُس نے ایران پر کچھ اس طرح سے حملہ کیا کہ لاٹھی بھی ٹوٹ گئی اور سانپ بھی نہیں مرا۔ آخر کار امریکہ اور اُس کے ایجنٹ اسرائیل نےجنگ بندی کا اعلان کردیا جسے ایران نے اس شرط پر قبول کرلیا ہے کہ آئندہ شرارت نہیں کرنا۔اس وقت ایران کاایک معمولی شرط پر جنگ بندی پر راضی ہونا یقیناً اس بات کا ثبوت ہے کہ اُس نے امریکہ اور اسرائیل پر یہ واضح کردیا ہے کہ اب اگر کوئی شرارت ہوئی تو کم از کم اسرائیل تو ایسا مزہ ضرور چکھ لے گا کہ وہ اس کا ذائقہ بتانے کے قابل نہیں ہو گا۔
ادھر غزہ میں اسرائیل کو جتنی بھی ہزیمت اُٹھانا پڑی ہے‘اس میں ایران کا بڑا ہاتھ ہے۔یہ ہاتھ قانونی طورپر تو یقیناً کسی کو نظر نہیں آیا مگر اِس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں ہے۔ ایسے میں ایران کو اسرائیل کے خلاف جنگ بندی یقیناً اس شرط پر ہی کرنی چاہیے تھی کہ اسرائیل فلسطین سے اپنی فوجیں نکال کر۱۹۶۷ءوالی پوزیشن پر لے جائے ۔اِس وقت صورت حال یہ ہے کہ خطے میں دو اسلامی ممالک اپنے پڑوسی ہنود اور یہود سے جنگ جیت چکے ہیں جبکہ افغانستان پہلے ہی امریکہ اور روس کو شکست دے چکا ہے ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ یہ تینوں ممالک مل کر بیت المقدس کی آزادی اور عالم ِاسلام کی رہنمائی کے لیے کسی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر کوئی لائحۂ عمل طے کریں تاکہ دین کی سربلندی کے کام کا آغاز ہوسکے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025