(عرض احوال) ختم ِنبوت اور ہماری ذمہ داریاں - رضاء الحق

10 /

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ختم ِنبوت اور ہماری ذمہ داریاں

قیامِ پاکستان کے بعد سے ۱۹۶۵ء تک ستمبر کے مہینے کی پاکستان میں کوئی خاص تخصیص نہیں تھی مگر پاک بھارت جنگ کے بعد سےاس مہینے کو خاص اہمیت حاصل ہو گئی ۔ایک عرصہ تک ۶ستمبرکو سرکاری چھٹی بھی ہوتی رہی ہے۔ اِس کے۹ سال بعد اورآج سے ۵۱ سال قبل ۷ستمبر۱۹۷۴ءکو ایک عظیم تحریک کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا توپاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہوگئے کہ جیسے وہ بارگاہِ رسالت میں سرخرو ہو گئے ہوں۔
ان سطور کے تحریر ہونے تک ماہِ ربیع الاول کا آغاز نہیں ہوا‘ لیکن اس امر کا امکان ہے کہ اِس سال یوم ختم نبوت اور۱۲ربیع الاول شاید پہلی مرتبہ ایک ساتھ آئیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ختم نبوت پر پہرہ دینا ہر مسلمان کا فرض اور اس کے ایمان کا تقاضا ہے ۔ اسی فرض کی ادائیگی کے لیے قادیانیت کے فتنے کا تعاقب کیا گیا اوردینی طبقات کی طرف سے تحریک چلائی گئی تھی۔
قرآن مجید کی سورۃ الا حزاب ( آیت ۴۰ )میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :{ مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط} ’’(دیکھو!)محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں بلکہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں پر مہر ہیں۔‘‘ ختم نبوت کی دلیل کےطور پرقرآن حکیم میں فقط یہ ایک ہی آیت نہیں ہے بلکہ کم وبیش۱۰۰ مقامات پراس حوالے سے دلائل موجودہیں ۔
خود حضورﷺ نے فرمایا:((اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ)) ’’مَیں آخری نبی ہوں‘ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ ‘‘ آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام بھی آجائیں تو میری اتباع کے سوا اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی جب اِس دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے تو وہ نئے نبی کی حیثیت سے نہیں آئیں گے بلکہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت پر ہی عمل کریں گے۔
بنیادی طور پر انبیاء و رُسل کا اصل مقصد اتمامِ حجت ہےتاکہ روزِ محشر کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اے اللہ ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ تیری رضا کن چیزوں میں ہے! وہ کیا اوامر ہیں جن پر ہم نے عمل کرنا ہے اور وہ نواہی کون سے ہیں جن سے تُو نے منع کر دیا۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کیوں فرمائی ۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ (آیت۳۰ ) میں فرمایا: {وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓـئِکَۃِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط } ’’اور یاد کرو جب کہ کہا تھا تمہارے ربّ نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک خلیفہ۔‘‘
حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ یعنی نائب بنایا جو کہ بہت اونچا مقام اور منصب ہے ۔ جب اپنے اس ارادے کا اظہار فرشتوں کے سامنے فرمایا تو ان کی طرف سے یہ بات سامنے رکھی گئی کہ :{قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَآءَج وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَنُقَدِّسُ لَکَ ط} (البقرۃ:۳۰)’’اُنہوں نے کہا :کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ّر کرنے والے ہیں جو اس میں فساد مچائے گا اور خون ریزی کرے گا؟اور ہم آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ۔ چنانچہ پہلے انسان کی تخلیق حضرت آدم علیہ السلام کے طور پر ہوئی اور وہ پہلے نبی بھی تھے۔ اس کے بعد ان کی ذریت کا سلسلہ آگے چلا ہے ۔
دنیا میں اعمال کے ضمن میں انسان کواختیار دے دیا گیا اور اس کی ہدایت اور راہنمائی کے لیےحضرت آدم علیہ السلام ہی سے انبیاء کا سلسلہ شروع کر دیا اور آخری نبیﷺ تک کم و بیش ایک لاکھ۲۴ ہزار انبیاء اور۳۱۳ رسول اللہ تعالیٰ نےمبعوث فرمائے۔ ہر دور میں اور ہر قوم میں انبیاء کو بھیجا گیا ۔
نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا مطالعہ کریں تو آغازِ وحی سے زندگی کے آخری لمحے تک آپ ﷺ نے جو عمل متواتر کیا ہے وہ ہے لوگوں تک دین کی دعوت کو پہنچانا ‘ ان پر اتمامِ حجت قائم کرنا ‘ اس کی بنیاد پر ایک جماعت کی تشکیل اور معرکۂ حق و باطل میں اللہ کے دین کے غلبے کے لیے لڑنا ۔
حضور ﷺکی رسالت عالمگیر ہے۔ آپ ﷺکو سارے عالم پر اسلام کے غلبے کے لیے بھیجا گیا ہے ۔لہٰذا جب تک پوری زمین پر اللہ کا دین غالب نہیں ہو جاتا‘ حضورﷺ کا مشن تکمیل کو نہیں پہنچے گا ۔ مسلم شریف کی روایت ہےکہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’میرے ربّ نے ساری زمین مجھے لپیٹ کر دکھا دی‘ میں نے اس کے مشرق بھی دیکھے‘ مغرب بھی دیکھے ‘ اورمیری اُمّت کا اقتدار وہاں تک پہنچے گا جہاں تک زمین مجھے لپیٹ کر دکھا دی گئی۔ ‘‘ ایک اور حدیث میں ہے کہ’’روئے زمین پر کوئی گھر یا خیمہ نہیں بچے گا جس میں اللہ کا دین داخل نہ ہو ‘عزت دار کی عزت کے ساتھ اور ذلیل کی ذلت کے ساتھ۔‘‘ یعنی یا تو لوگ اسلام قبول کرکے مسلمانوں کے مساوی مرتبہ پائیں گے‘ یا پھر ذِمّی بن کر اسلامی ریاست کی بالادستی قبول کریں گے ۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ایسا ہوکر رہے گا‘کیونکہ یہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ کب ہوگا‘یہ صرف اللہ جانتاہے۔ بحیثیت مسلمان ہمار ا امتحان ہے کہ ہم حضورﷺکے اِس مشن کے لیے کیا کر رہے ہیں !کس وقت کس کی موت آجائے ‘ ہم اللہ کو کیا جواب دیں گے ؟
یہ مملکت ِخداداد ہم اللہ اور اُس کے رسول ﷺکے نام پر لے کربیٹھے ہوئے ہیں۔ ختم ِ نبوت کےعملی تقاضے کی تکمیل کے لیے پاکستان حاصل کیا گیا تھا ۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا: ’’مَیں نے دنیا کے مسائل پر جہاں تک غور کیا‘ ان کا حل اسلامی شریعت کے سوا کہیں نظر نہیں آیا۔‘‘اب سوال پیدا ہوا کہ اسلامی شریعت کیسے نافذ ہوگی جب تک کہ ہمارے پاس اپنا آزاد خطہ نہ ہو۔ اسی طرح قائداعظم نے فرمایا :’’ میرا ایمان ہے کہ پاکستان رسول اللہ ﷺ کا روحانی فیضان ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ خلافت راشدہ کے اصولوں کو سامنے رکھ کر عہد حاضر کی اسلامی فلاحی ریاست دنیا کے سامنے پیش کریں۔‘‘ آج ہمارے جملہ مسائل اور مصائب کی بنیادی وجہ اس عہد سے روگردانی ہے ۔ ہم کچھ بھی کر لیں ‘ ہمارے مسئلے حل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے جب تک کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ وفاداری کی طرف لوٹ کر نہ جائیں۔اللہ تعالیٰ سے اسی بے وفائی کے نتیجہ میں ہم آدھا ملک کھو چکے ہیں۔ آج بلوچستان اور کے پی کے میں آوازیں اُٹھ رہی ہیں تو سندھ میں بھی مسائل چل رہے ہیں۔ رہ گیا پنجاب‘ تو اس کے ساتھ بھی کئی عوارض لگے ہوئے ہیں ۔ یہ تمام مسائل اور عوارض تب ہی ختم ہو ں گے جب ہم اللہ سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کریں گے ۔
بہت واضح احادیث ہیں کہ قبل از قیامت پورے کرئہ ارضی پر اللہ کا دین بالفعل قائم اور نافذ ہوگا‘ان شاءاللہ! ایسا نہیں ہے کہ دیگر اقوم ختم ہو جائیں گی بلکہ حقیقت میں اسلام کا نظام سب پر غالب آجائے گا ۔ موجود ہ حالات میں شاید اس کا تصورنہیں کیا جاسکتا ۔بظاہر تمام طاقت اور ٹیکنالوجی باطل قوتوں کے پاس ہے ۔ اِس کی ایک مثال فلسطین میں دیکھی جا سکتی ہے کہ مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے اور۵۷ مسلم ممالک کے دو ارب مسلمان کچھ نہیں کر پارہے۔
کسی بھی مسلمان‘ خصوصاً پاکستانی مسلمان کے لیے یہ بڑی خوش بختی کی بات ہے کہ اُس کے پاس ایک مکمل ضابطہ حیات قرآن حکیم کی صورت میں موجود ہے۔ جب ہم قرآن مجید کامطالعہ کرتے ہیں تو اس میں نمازکا حکم بھی ہے ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ اور حج کا حکم بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جہاد کا حکم بھی نظر آئے گا ۔یعنی جسے ایمانِ حقیقی کہتے ہیں‘ اس کی اصل شکل قرآن میں نظر آئے گی ۔
حضورﷺ نے فرمایا کہ افضل جہاد اس شخص کا ہے جو اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ کرتا ہے اور اسے اللہ کا مطیع ِفرمان بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ جہاد کا آغاز اپنے نفس سے ہوگا اور یہی سب سے اہم مرحلہ ہوتاہے۔ جس طرز زندگی کے ہم عادی ہوچکے اس میں کوئی تبدیلی نہیں لانا چاہتے جبکہ دوسری طرف اللہ کی شریعت ہے ۔ حضور ﷺنے فرمایا:’’ اُس شخص کا تو ایمان ہی معتبر نہیں جس نے قرآن حکیم کی حرام کردہ شے کو اپنے لیے جائز اور حلال قرار دے دیا‘‘۔ لہٰذا سب سے پہلے جہاد اپنے نفس کے خلاف ہوگا اور اس کے لیے قرآن سے رہنمائی لینی ہوگی۔ اس کو پڑھنا اور سمجھنا ہوگا اور پھر اس پر عمل کرنا ہوگا ۔ پھر اس راستے پر چل کر نہی عن المنکر کا فریضہ بھی ادا کرنا ہوگا ۔ لوگوں کی مخالفت اور تلخ باتیں برداشت کرنا ہوں گی۔ کہیں تشدد اور نقصان بھی سہنا ہوگا ۔ ہو سکتا ہے دین کی گواہی دینے کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے کی نوبت بھی آجائے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اسی طرز پر دین کی شہادت پیش کی تھی ۔یہی اصل ’’دین‘‘ ہے ۔