(درسِ قرآن ) سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ(۱) - ڈاکٹر اسرار احمد

10 /

سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃ(۱)
مدرّس:ڈاکٹر اسرار احمدؒ

تمہیدی مباحثسورتوں کے مابین نسبت ِزوجیت
آج ہم اللہ کے نام سےقرآن حکیم کی مدنی سورتوں کےسب سے پہلے گروپ کا آغاز کررہے ہیں۔ تلاوت کے اعتبار سے قرآن حکیم کے سات احزاب یا منازل ہیں۔ اس کے علاوہ معنوی اعتبار سے سات گروپس کی تقسیم پر قبل ازیں (’’تعارفِ قرآن‘‘ کےذیل میں) گفتگو ہو چکی ہے۔ ان میں سے ہر گروپ میں پہلے ایک یا ایک سے زائد مکی اور اس کے بعد ایک یا ایک سے زائد مدنی سورتیں ہیں۔ پہلے گروپ کے آغاز میں مکی سورت سورۃ الفاتحہ ہے اور پھر مسلسل چار مدنی سورتیں شامل ہیں: البقرہ‘ آل عمران‘ النساء اور المائدہ۔ اگرچہ حجم کے اعتبار سے ان میں سب سے بڑا گروپ تیسرا ہے جو تقریباً ساڑھے سات پاروں پر مشتمل ہے‘ اس لیے کہ اس میں سورۂ یونس تا سورۃ المؤمنون چودہ مکی سورتیں شامل ہیں‘ لیکن اس اعتبار سے کہ چار سب سے بڑی مدنی سورتیں یہاں پر یکجاآ رہی ہیں‘ اس پہلے گروپ کی ایک خصوصی اہمیت ہے۔ یہ چار مدنی سورتیں دو جوڑوں کی شکل میں ہیں۔ سورۃ البقرہ اور سورئہ آل عمران ایک جوڑا ہے‘ سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ دوسرا جوڑا ہے۔
دو علیحدہ علیحدہ جوڑوں کے لیے سب سے اہم علامت یہ ہے کہ پہلی دونوں سورتیں سورۃ البقرہ اورسورۃ آل عمران حروفِ مقطعات الٓمٓ سے شروع ہورہی ہیں‘ جبکہ اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ النساء اورسورۃ المائدہ بغیر کسی تمہید کے‘ بغیر حروفِ مقطعات کے براہ راست شروع ہو جاتی ہیں۔ سورۃالنساء کاآغاز ہوتا ہے: {یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ} اور سورۃ المائدہ کاآغاز ہورہا ہے : {یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ }۔ اس سے نمایاں ہو رہا ہے کہ دو دو سورتیں آپس میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں ۔
سورۃ البقرہ اور آل عمران بہت سے اعتبارات سےاہم ترین جوڑا ہیں‘ اورسورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ سمیت خاص طور پر مدنی سورتوں کا یہ سب سے بڑا گلدستہ (cluster) ہے۔ تمام مدنی سورتوں کا کل حجم مجموعی طور پر قرآن حکیم کا تقریباً ایک تہائی بنتا ہے‘ دس پاروں سے قدرے کم۔ اُن میں سے سوا پانچ پارے انہی چار سورتوں پر مشتمل ہیں۔ گویا کہ نصف مدنی قرآن اِن چار سورتوں یا دو جوڑوں کی شکل میں مصحف کے بالکل آغاز میں آ گیاہے۔ سورتوں کے ہر جوڑے کا ایک عمود ہوتا ہےجو مرکزی مضمون پر مشتمل ہوتا ہے‘ تاہم اس جوڑے کا عمود دُہرا ہے۔ یعنی دو مرکزی مضامین ہیں‘ اگرچہ وہ باہم مربوط ہیں۔ نمبر ایک شریعت اسلامی‘ شریعت محمدیﷺ جس کا نقطۂ آغاز سورۃ البقرۃ ہے۔ تمام احکامِ شریعت کی ابتدائی صورتیں اس سورت میں موجود ہیں۔ شریعت کا نزول تدریجاً ہوا ہے‘ لہٰذا آخری احکام فوری طور پر ابتدا ہی میں نازل نہیں ہوئے۔ اوّل تو یہ کہ مکی دور میں بہت کم احکام آئے ہیں۔ مکی سورتیں جو کہ دو تہائی قرآن ہے ‘اس میں زیادہ تر ایمان کی بحثیں ہیں۔ کفار کے اعتراضات اور اُن کے جوابات ہیں‘ردّ و قدح ہے۔ کچھ اخلاقی تعلیمات ہیں‘وہ بنیادی انسانی اخلاقیات جن کے بارے میں کوئی اختلاف ممکن نہیں۔ مثلاًسچ بولنا‘ غریب کو کھانا کھلانا‘ ایفائے عہد وغیرہ ۔ مکی سورتوں کا تیسرا بڑا اہم مضمون انباء الرسل یعنی رسولوں کے حالات ہیں جو کہ بتکرار و اعادہ آئے ہیں۔ مکی سورتوں میں احکام بہت کم آئے ہیں۔ بڑا بنیادی حکم نماز پڑھو‘ یا یہ کہ خرچ کرو‘ لیکن وہ بھی اس معنی میں نہیں کہ نظام زکوٰۃ عطا کیا گیا ہو‘ بلکہ اللہ کی خوشنودی کے لیے ‘اپنے تزکیے کے لیے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو‘ زیادہ تر غریبوں اور مساکین پر۔ یہ بھی گویا کہ بنیادی انسانی اخلاقیات سےمتعلق ہے۔ جہاں تک احکامِ تشریعی کا تعلق ہے جن سے قانونِ شریعت بنتا ہے‘ اس کا ابتدائی خاکہ( blue print) سورۃ البقرہ میں آیا ہے۔پھر اس میں تدریجاً تبدیلیاں ہوتی رہیں اور ارتقائی مراحل طے ہوتے رہے۔اس اعتبارسے سورۃ المائدہ تکمیل شریعت کی سورت ہے اور سورۃالبقرہ آغازِ شریعت کی سورت ہے۔ ویسے یہ کہ کچھ معاشرتی احکام سورۃ النور میں اور پھر آگے چل کر سورۃ الاحزاب میں بھی مل جائیں گے ۔مالِ غنیمت کاحکم سورۃ الانفال میں مل جائے گا۔ کچھ متفرق احکام دوسری جگہوں پر بھی مل جائیں گے۔ تاہم بحیثیت ِمجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ احکام ِشریعت کا گروپ ہے۔ اس میں شریعت ِ محمدی ﷺ کا ابتدائی خاکہ سورۃ البقرہ میںاور اس کی تکمیلی صورت سورۃ المائدہ میں ہے‘ جس کا زمانۂ نزول تقریباً ۷ہجری ہے۔ گویا ۷ ہجری تک پہنچتے پہنچتے یہ تمام احکامِ شریعت اپنی تکمیلی صورت کو پہنچ گئے تھے۔
اس اعتبار سے پہلے گروپ کے عمود کے جزو اوّل کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} سے براہِ راست تعلق ہے۔ سورۃ الفاتحہ اس گروپ کی واحد مکی سورت ہے اور اس کے آخرمیں ہمیں یہ دعا تلقین کی گئی ہے جو کہ سلیم العقل اور سلیم الفطرت انسانوں کی ایک ضرورت ہے:{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} ہمیں راہنمائی عطا فرما‘ہمیں ہدایت بخش سیدھے راستے کی۔ وہ سیدھا راستہ کون سا ہے؟ وہ شریعت کا راستہ ہے۔ ’’شرع‘‘ کے معنی درحقیقت راستے‘ طریقے اور قانون کے ہیں۔ راستے کے لیے شارع‘ طریق اور صراط کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس گروپ کے اندر اس دعا {اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo} کا جواب ہے جوان چار سورتوں کے اندر (سورۃ البقرۃ تا سورۃ المائدۃ) اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطاہو گیاہے۔
اس گروپ کے عمود کا دوسرا حصّہ اہل ِکتاب پراتمامِ حجت ہے۔ اُس وقت اہل ِکتاب کے دو گروہ تھے جو قرآن کے براہ راست مخاطب تھے: یہود اور نصاریٰ۔ سورۃ البقرہ میں زیادہ تر گفتگو یہود سے جبکہ سورئہ آل عمران میں زیادہ تر گفتگو نصاریٰ سے ہوئی ہے۔ سورۃ النساء اور سورۃ المائدہ میں دونوں سے ملی جلی گفتگو ہے ۔قرآن مجید میں اہل ِکتاب کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی اور اس حد تک دی گئی کہ اتمامِ حجت ہو گیا۔ ہر پہلو سے اُنہیں بات سمجھا دی گئی۔ ہر اسلوب سے حقیقت کو واضح کر دیا گیا۔ ہر دلیل سے اس بات کو مبرہن کر دیا گیا۔ اُن پر ان کی اپنی کتابوں اور اُن کے اپنے اعتقادات کے حوالے سے حجت قائم کر دی گئی۔ان کے اپنے انبیاء ورسل علیہم السلام کی تعلیمات کا حوالہ دے کر بات کو واضح کر دیا گیا۔ گویا کہ ہر اعتبار سے قطع عذر ہو گیاکہ وہ نبی اکرمﷺ پر ایمان لانے میں کوئی عذر رکھتے ہوں یاان کے پاس کوئی بہانہ موجود ہو جو کسی درجے میں بھی valid (مؤثر) ہو۔ اسی کو اتمامِ حجت یعنی حجت قائم کر دینا کہتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی ہٹ دھرمی کے ساتھ اَڑا رہے تو اَڑا رہے ‘مگر یہ کہ اُس کے پاس کوئی معقول سبب یامعقول عذر نہ رہے۔ چنانچہ اس گروپ کا اور اس اتمامِ حجت کا تعلق بھی گویا کہ سورۃ الفاتحہ ہی سے جڑا ہوا ہے۔
یہاں یہ بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے کہ اگر مثبت طور پر { اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ۵} کہہ دیا جاتا تو کافی ہو جاتا‘لیکن منفی اعتبار سے بھی واضح کیا گیا: {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo}۔ اس پر تقریباً اجماع ہے کہ ’’الْمَغْضُوْب عَلَیْہِمْ‘‘ سے بنی اسرائیل اور ’’الضَّآلِّیْنَ‘‘سے نصاریٰ مراد ہیں۔ یہ گویاکہ اسی کی شرح ہورہی ہے۔ چنانچہ عمود کا دوسرا حصّہ سورۃ الفاتحہ کے {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo} سے متعلق ہے اوراس کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے۔ یوںاس گروپ کے عمود کے دونوں اجزاء سورۃ الفاتحہ میں موجود ہیں۔{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo}  کا جواب یہ ہو گیا کہ راہنمائی کے لیے یہ شریعت موجود ہے۔ قوانین اور اوامر و نواہی موجود ہیں۔ یہ کرو‘ یہ نہ کرو‘ اس سے بچو‘ اس کا التزام کرو‘ یہی صراطِ مستقیم ہے۔ {غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَo} کے حوالے سے یہود و نصاریٰ پر آخری اتمامِ حجت کر دیا گیا۔اس اعتبار سےاس گروپ کےعمود کے دونوں رُخ ایک مکی سورت اور چار مدنی سورتوں میں زیر بحث آ گئے۔ اس طرح تصویر کے دونوں رُخوں میں  مناسبت بہ تمام و کمال سامنے آ گئی۔
مدنی سورتوں کا پہلا جوڑا
سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران مدنی سورتوں کا پہلا جوڑا ہے ۔ خود نبی اکرمﷺ نے ان دونوں کے لیے ایک لفظ کا اطلاق فرمایا ہے اور انہیں ’’الزَھْرَاوَیْن‘‘ قرار دیا ہے (حالت ِرفع میں الزَّھْراوَان اور حالت ِجر ی یا نصبی میں اَلزَّھْرَاوَیْن)۔ زَھْراء کہتے ہیں نہایت تاب ناک‘ روشن چیز کو۔یہ لفظ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے نام کے ساتھ آتا ہے: فاطمۃ الزھراء ۔درحقیقت ان کےچہرےکا دمکتا ہوا انداز اور اس پرمستزاد نورِروحانیت سے اس کی دمک میں جواضافہ ہوا تو آپ فاطمۃ الزہراءؓقرار پائیں۔ ’’الزَھرَاء‘‘ سے تثنیہ کا صیغہ بنتا ہے : الزھراوان یا الزَھراوَین ۔ حضورﷺ نے ایک حدیث میں ان دونوںسورتوں کو اس ایک لفظ سے تعبیر کیا۔ اسی طرح آپؐ نے ان کے لیے غَمَامتَانِ، غَیَایَتَان، ظُلَّتَان، حِزقان، فِرقان کے الفاظ بھی فرمائے۔ یہ چھ الفاظ احادیث میں  وارد ہوئے ہیں کہ جن میں نبی اکرمﷺ نے ان سورتوں کی مجموعی فضیلت بیان کی ہے اوران دونوں کو ایک لفظ کے اندربریکٹ کیاہے۔ یہ حدیث مسلم شریف کی ہے اورا س کے راوی ابوامامہ باہلی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے اللہ کے رسولﷺ کویہ فرماتے ہوئے خود سنا:
((اِقْرَءُوا القُرآنَ، فإنَّهُ يَأْتِيْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ شَفِیْعًا لِاَصْحَابِہٖ))
’’لوگو! قرآن پڑھا کرو‘ اس لیے کہ یہ قیامت کے دن اپنے لوگوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا۔‘‘
یعنی ان لوگوں کے لیے جنہیں زندگی میں قرآن سے محبت رہی یاقرآن کوپڑھتے رہے‘ قراءت کرتے رہے ‘اس سے دلچسپی رکھتے رہے ‘اس کا مطالعہ کرتے رہے ‘اس پرغوروفکر کرتے رہے۔ اس کے بعد یوں سمجھیے کہ یہ عام پر خاص کا اضافہ ہے:
((اِقْرَءُوا الزَّهْراوَينِ: البَقَرةَ و سُورۃَ آلِ عِمرانَ، فَإِنَّھُمَا تأْتِيَانِ يَومَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّھُمَا غَمامَتانِ، أَوْ كَأَنَّھُمَا غَيايَتانِ، أَوْ فِرقانِ مِنْ طَيرٍ صَوَافَّ، تُحاجَّانِ عَنْ اَصْحَابِھِمَا)) (۱)
’’خاص طور پر دو نہایت تاب ناک اور روشن سورتوں البقرہ و آل عمران کی قراءت کیا کرو۔ اس لیے کہ یہ دونوں سورتیں قیامت کے روز اس حال میں آئیں گی گویا کہ وہ دو بدلیاں ہوں‘ یا دو سائبان ہوں‘ یا پرندوں کی دو ٹکڑیاں ہوں جو صفیں باندھے ہوئے اُن لوگوں کے حق میں بحث و مباحثہ کریں گی جو ان سے خصوصی تعلق رکھنے والے ہوں گے۔‘‘
’’مُحَاجَّہ‘‘ ہوتاہے کسی کی طرف سے بچائو کرنے میں‘ تکرار کے ساتھ بات کرنا‘ دلیل کے مقابلے میں دلیل دینا۔ جوبھی ان دونوں سورتوں سے خصوصی شغف رکھنے والے لوگ ہوں گے‘ ان دونوں سورتوں کو پڑھنے والے ہوں گے‘ ان سے محبت کرنے والے اور ان دونوں سے تعلق رکھنے والے ہوںگے‘ ان کی طرف سے وہ دفاع کریں گی ‘ ان کی سفارش کریں گی۔ تو غَمامَتانِ، غَيايَتانِ، فِرقانِ اور الزَّهْراوَينِ کے الفاظ اس حدیث کے اندر آگئے ہیں ۔
دوسری روایت بھی مسلم شریف کی ہے۔ حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ مَیں نے اللہ کے رسولﷺ کویہ فرماتے ہوئے خود سنا:
((يُؤْتٰى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَ أَهْلِهِ الَّذِيْنَ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ بِهٖ، تَقْدُمُهُ سُورةُ البقَرَةِ و آلُ عِمرانَ))
’’لائے جائیں گے‘قیامت کے دن قرآن بھی اورقرآن والے بھی جو ا س پر عمل کرتے تھے (اللہ تعالیٰ ہمیں ان میں شامل فرمادے) سورۃ البقرۃ اورسورۃ آل عمران اُن کے آگے آگے چل رہی ہوں گی۔‘‘
وَضَرَبَ لَھُمَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ ثَلَاثَۃَ اَمْثَالٍ مَا نَسِیْتُھُنَّ بَعْدُ قَالَ: کَاَنَّھُمَا غَمَامَتَانِ اَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَیْنَھُمَا شَرْقٌ، اَوْ کَاَنَّھُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَیْرِ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِھِمَا)) (۲)
’’(اس کے بعد راوی حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ) حضور اکرمﷺ نے ان دونوں سورتوں کے لیے تین مـثالیں بیان کیں‘جن کومیں اب تک بھول نہیں سکا۔ آپؐ نے فرمایا:’’(یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن ایسے ظاہر ہوں گی) جیسے کہ دوبدلیاں ہیں‘ یا دوسیاہ رنگ کے سائبان ہیں (یعنی اپنے پڑھنے والے اور محبت کرنے والوں پر سایہ کررہی ہوںگی ) اُن کے درمیان ایک روشنی ہو گی‘ یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑنے والے پرندوں کی دو ٹولیاں ہیں‘ وہ اپنے صاحب (صحبت میں رہنے والے) کی طرف سے مدافعت کریں گی۔‘‘
اگر دو بدلیاں ملی ہوئی ہوںاوران کے درمیان کوئی خلا نہ ہوجس میں روشنی آرہی ہوتو وہ دوعلیحدہ نہیں ہوں گی ۔دو بدلیاں یا دو سائبان جن کے درمیان روشنی ہو گی‘ اس مثال سے واضح ہوا کہ ان کے اندر معنوی اعتبار سے تسلسل ہے‘ لیکن دونوںسورتیں علیحدہ ہیں۔ سورۃالبقرۃ علیحدہ ہے ‘سورۃ آل عمران علیحدہ ہے ۔یا حضورﷺ نے ایسے تشبیہ دی کہ جیسے کبھی کبھی پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ آتے ہیں تواس کی وجہ سے سایہ ہوجاتاہے اوروہ دھوپ کو روک لیتے ہیں ‘سورج کوڈھانپ لیتے ہیں۔ تووہ گویاکہ پروں کوپھیلا کر اڑنے والےپرندوں کی دو ٹکڑیوں کی مانند ہوںگی ۔اوریہ دفاع کریں گی ‘سفارش کریں گی‘ جھگڑا کریں گی اپنے لوگوں کی طرف سے ‘ان کی مدافعت کریں گی ‘ان کی وکالت کریں گی ۔
سنن الترمذی میں اس روایت کے یہ الفاظ آئے ہیں:
((تَاْتِیَانِ کَاَنَّھُمَا غَیَابَتَانِ وَ بَیْنَھُمَا شَرْقٌ، اَوْ کَاَنَّھُمَا غَمَامَتَانِ سَوْدَاوَانِ ، اَوْ کَاَنَّھُمَا ظُلَّـۃٌ مِنْ طَیْرٍ صَوَافَّ تُجَادِلَانِ عَنْ صَاحِبِھِمَا)) (۳)
’’وہ دونوں سورتیں آئیں گی‘ گویا کہ وہ دو چھتریاں ہیں‘ جن کے درمیان روشنی جھلک رہی ہو گی‘ یا وہ دونوں کالی بدلیاں ہیں‘ یا پھر وہ پرندوں کے جھنڈ کی طرح ہوں گی ‘ جو پر پھیلائے ہوں گی‘ اپنے اصحاب کی طرف سے لڑجھگڑ کر دفاع کریں گی۔‘‘
ان تینوں احادیث سے ان دونوں سورتوں کی فضیلت ظاہر ہوئی اور ان کا جوڑا ہونا بھی ثابت ہوا۔اس لیے کہ ان دونوں کو حضورﷺ نے ایک نام سے بریکٹ کیا ہے۔ یاد رہے کہ آخری دو سورتوں سورۃ الفلق اورسورۃ الناس دونوں کا مضمون ایک ہے‘ اِس لیے اِنہیں ’’مُعَوَّذَتَین‘‘ (جن کے ذریعے اللہ کی پناہ مانگی جاتی ہے)کہاجاتاہے ۔ اسی طرح حضورﷺ نے بڑے اہتمام کے ساتھ ان دونوں سورتوں کو’’ الزَّھْراوین‘‘ کہہ کر ایک جوڑا قرار دیا ہے۔
’’الزّھْراوَین‘‘ میں نسبت ِزوجیت کے وجوہ و اسباب
قرآن حکیم کی سورتوں کے اندر جو نسبت ِزوجیت ہے اُس کے دو پہلو ہوں گے۔ بعض اعتبارات سے ان کے درمیان مشابہت بہت نمایاں ہو گی اور بعض اعتبارات سے ایک معکوس (reciprocal) نسبت ہو گی‘ یا یوں کہہ لیں کہ تکمیلی (complementary) نسبت ہو گی کہ دونوں مل کر ایک مضمون مکمل کر رہی ہوں گی‘ یا ہو سکتا ہے کہ ایک مضمون کا ایک رُخ ایک سورت میں آ گیا ہواور دوسرا رُخ دوسری سورت میں آ گیا ہو۔ زوجین میں دونوں چیزیں لازم ہیں۔ جیساکہ حیوانات کے اندر ایک نوع کی دو جنسیں (مذکر‘ مؤنث) ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہوتی ہیں۔ شیراورشیرنی کی اپنی ایک باہم مشابہت ہے ۔ ننانوے فیصد توان کی شکل میں مشابہت نظرآئے گی ۔ اسی طرح بیل اورگائے کا معاملہ ہے‘ لیکن بعض اعتبارات سے ان کا جسمانی نظام ایسا بنایا گیا ہے کہ وہ ایک مقصد کی تکمیل کر لیں۔ اس اعتبار سےفرق ہے لیکن وہ فرق ایسا نہیں ہے کہ جس کے مابین وحدتِ مقصد موجود نہ ہو۔ مقصد ایک ہی ہے۔ اسی طریقے سے سورتوں میں جب نسبت ِزوجیت تلاش کریں تودوپہلو دیکھنے کو ملیں گے۔ ایک طرف تو مشابہت کے پہلو نمایاں ہونے چاہئیں۔ پھر کن اعتبارات سے یہ مل کر کسی مضمون کی تکمیل کر رہے ہیں‘اور وہ کون سے پہلو ہیں کہ جن کا ایک رُخ ایک سورت میں آ گیا ہو اور دوسرا رُخ دوسری سورت میں ۔ جب ہم ان سورتوں کا مطالعہ کریں گے تو یہ چیزیں تفصیل سے سامنے آئیں گی۔
اس وقت دونوں اعتبارات سے چند چیزیں نوٹ کرلیجیے ۔ ظاہری مشابہت کے حوالے سے ایک بات بہت نمایاں ہے کہ سورۃ البقرہ بھی حروفِ مقطعات ’’ الٓمٓ‘‘ سے شروع ہو رہی ہےاور سورۃآل عمران بھی ۔ اس کے بعدپھر بیسویں پارے میں جا کر چار مکی سورتیں ملیں گی جو حروفِ مقطعات الٓمٓ سے شروع ہو رہی ہیں۔ یعنی سورۃ العنکبوت‘ سورۃ الروم‘ سورۃ لقمان او رسورۃ السجدۃ۔ مدنی سورتوںمیں یہ دوہی سورتیں ہیں جوحروفِ مقطعات ’’الٓم‘‘ سے شروع ہو رہی ہیں۔
دوسری مشابہت یہ کہ ان دونوں کے آغاز میں قرآن حکیم کی عظمت کی طرف خصوصی توجہ دلائی گئی ہے ۔سورۃ البقرۃ کا آغاز ہوتا ہے :
{الٓـمّٓ (۱) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَج فِیْہِ ج ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(۲)}
’’الف‘ لام‘ میم۔ یہ الکتاب ہے جس میں ادنیٰ شک نہیں ہے ‘اور متقین کے لیے سامانِ ہدایت ہے۔‘‘
حروفِ مقطعات ’’الٓم‘‘ کے فوراً بعد قرآن مجید کی عظمت اور اس کے ہدایت ہونے کی طرف راہنمائی ہے۔ اس سے بھی زیادہ شاندار اور پُر جلال انداز میں یہی مضمون سورئہ آل عمران میں آ رہا ہے :
{الٓــــمّٓ(۱) اللہُ لَآ اِلٰــہَ اِلَّا ہُوَ لا الْحَیُّ الْـقَـیُّـوْمُ(۲) نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَاَنْزَلَ التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِیْلَ(۳) مِنْ قَـبْلُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَاَنْزَلَ الْفُرْقَانَ ط}
’’الف‘ لام‘ میم۔ اللہ وہ معبودِ برحق ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں‘ وہ زندہ ہے سب کو قائم رکھنے والا ہے۔( اے نبیﷺ!) اللہ نے آپؐ پر یہ کتاب اُتاری ہے حق کے ساتھ جو تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے اُس کی جو اس کے سامنے موجود ہے‘ اور اُسی اللہ نے اُتاری تھی تورات اور انجیل‘ اس سے قبل لوگوں کے لیے ہدایت نامہ بنا کر‘ اور اُس نےہی اُتارا ہے الفرقان۔‘‘
مشابہت کا تیسرا پہلو بہت نمایاں ہے جو اختتامِ سورت پر آتا ہے۔ سورۃ البقرہ کے اختتام پر ایک نہایت عظیم دعا آئی ہے:
{ رَبَّـنَا لَا تُؤَاخِذْنَــآ اِنْ نَّسِیْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَاج رَبَّـنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَـیْـنَـآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَـبْلِنَاج رَبَّـنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج وَاعْفُ عَنَّاوقفۃ وَاغْفِرْ لَـنَاوقفۃ  وَارْحَمْنَــآوقفۃ} (البقرۃ:۲۸۶)
’’اے ہمارے ربّ! ہماری پکڑ نہ کرنااگر ہم بھول جائیں یا ہم سے خطا ہو جائے ‘ اور اے ہمارے ربّ! ہم پر ویسا بوجھ نہ ڈال جیسا کہ تو نے ان لوگوں پر ڈالا تھا جو ہم سے پہلے تھے۔ اوراے ہمارے ربّ! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈالنا جس کی ہم میں طاقت نہ ہو۔ ہم سے درگزر فرماتا رہ‘ اور ہمیں بخشتا رہ اور ہم پر رحم فرما۔‘‘
اسی انداز سے‘ تھوڑے سے فرق کے ساتھ سورئہ آل عمران کےاختتام سے پانچ آیات پہلے عظیم دعا آئی ہے جو کئی آیات پر مشتمل ہے:
{ رَبَّـنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلًاج سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ(۱۹۱) رَبَّــنَــآ اِنَّکَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ اَخْزَیْـتَہٗ ط وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۱۹۲) رَبَّــنَــآ اِنَّــنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّـنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ اَنْ اٰمِنُوْا بِرَبِّکُمْ فَاٰمَنَّاق رَبَّـنَا فَاغْفِرْلَـنَا ذُنُوْبَنَا وَکَفِّرْ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَتَوَفَّــنَا مَعَ الْاَبْرَارِ(۱۹۳) رَبَّـنَا وَاٰتِنَا مَا وَعَدْتَّـنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَلَا تُخْزِنَا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ط  اِنَّکَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ(۱۹۴) }
’’اے ہمارے ربّ! تُو نے یہ سب کچھ بے مقصد تو پیدا نہیں کیا ہے‘ تُو پاک ہے (اس سے کہ کوئی عبث کام کرے) پس تُو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ اے ہمارے ربّ! بے شک جس کو تُو نے دوزخ میں ڈال دیا اُسےتو تُو نے رسوا کر دیا۔ اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ اے ہمارے ربّ! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا‘ جو ایمان کی ندا دے رہا تھا‘ کہ ایمان لائو اپنے ربّ پر‘ تو ہم ایما ن لے آئے۔ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے اور ہمیں اپنے نیکوکار بندوں کے ساتھ موت دیجیو۔ اے ہمارےربّ! ہمیں عطا فرما وہ سب کچھ جس کا تُو نے وعدہ کیا ہے ہم سے اپنے رسولوں کے ذریعے سے‘ اور ہمیں رسوا نہ کیجیو قیامت کے دن۔ یقیناً تُو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرےگا۔‘‘
حجم کے اعتبار سے یہ دونوں دعائیں تقریباً برابر ہیں‘ اگرچہ سورۃ البقرہ میں ایک ہی آیت ہے ‘جبکہ آل عمران میں متعدد آیات ہیں۔ دونوں نہایت جامع دعائیں ہیں اور نہایت عظیم آیات ہیں جن پردونوں سورتوں کا اختتام ہو رہا ہے۔
نسبت ِزوجیت میں یہ جو تقسیم ہے کہ ایک ہی مضمون یا شے کے دو پہلو یادورُخ بیان ہو رہے ہوں‘ اور ان میں سے ایک پہلو ایک سورت میں آ رہا ہو اور ایک دوسری سورت میں‘ اس اعتبار سے چار چیزیں نوٹ کر لیجیے۔ سب سے نمایاں چیز یہ کہ سورۃ البقرۃ میں بنی اسرائیل یعنی یہود کے بارے میں نہایت مفصل گفتگو ہوئی ہے‘انہیں دعوت بھی دی گئی‘ اتمامِ حجت بھی کیا گیا اور ان پر فردِ جرم بھی عائد کر دی گئی۔
{یٰــبَنِیْٓ اِسْرَآئِ‘یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ......}
آیت ۴۰ سے آیت ۱۵۰ تک مسلسل بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے‘ جب کہ سورئہ آل عمران میں یہی معاملہ نصاریٰ کے ساتھ ہے۔ ان کی سب سے بڑی گمراہی تثلیث کا عقیدہ‘ الوہیت ِمسیح ؑ کاعقیدہ اِس کی بڑی تفصیل کے ساتھ نفی کی گئی ہے۔ گویا کہ یہ دونوں سورتیں مل کر ایک مضمون کی تکمیل کر رہی ہیں۔ دعوت اور اتمامِ حجت یہود پر سورۃ البقرۃ میں اور نصاریٰ پر سورۃ آل عمران میں۔
اسی طریقے سے انفاقِ مال یا جہاد بالمال پر جامع ترین اور نہایت مفصل مقام‘ نہایت تاکیدی حکم سورۃ البقرۃ میں آیا ہے‘ جبکہ قتال یعنی جہاد بالنفس‘ ہتھیلی پر جان لے کر میدان میں آنا‘ یہ مضمون بڑی شرح و بسط کے ساتھ سورۃ آل عمران میں آیا ہے۔ قرآن حکیم میں جہاد کا لفظ جہاں بھی آتا ہے ‘ اس سے مراد جہاد بالمال والنفس ہوتا ہے۔
{وَّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ط} (التوبۃ:۴۱)
’’اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔‘‘
جہادبالمال یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں‘اُس کے دین کے غلبے کے لیے ‘اس کی دعوت کے لیے مال خرچ کرنا ‘اور اس جہاد کی بلند ترین شکل قتال ہے کہ اپنی جان لگا دینا۔ نقد ِجان ہتھیلی پر رکھ کر ایک شخص میدان میں آ گیا ہے‘ اپنی جان نثار کرنے پر تیار ہے۔یہ گویا کہ ایک ہی مضمون ہے۔ جیسےاہل کتاب کو دعوت اور اتمامِ حجت کا مضمون دوحصوں میں تقسیم ہو گیا‘یہود سورۃ البقرۃ میں اور نصاریٰ سورئہ آل عمران میں‘اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کا مضمون تقسیم ہو کر جہاد بالمال سورۃ البقرۃ میں اور جہاد بالنفس اور قتال فی سبیل اللہ سورئہ آل عمران میںبیان ہوا ہے۔
اسی طرح ذرا لطیف بات ہے کہ سورۃ البقرہ میں زیادہ زور (emphasis) یقین و ایمان پر ہے جبکہ سورئہ آل عمران میں زیادہ زور ’’اسلام‘‘پر ہے۔ یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ایک ہی شے ہے۔ ایمان ایک باطنی کیفیت ہے‘ یقین کی کیفیت جو دل کے اندر ہے اور انسان کے اسلام کا ظہور خارجی ہے۔ایمان کی بنیاد پر انسان کے عمل میں جو روِش ہو گی‘ اُس کا نام اسلام ہے۔تاہم یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ ہیں۔ ان کو بالکل ایک شے بھی نہیں کہا جا سکتا۔ جیسے کہ سورۃ الحجرات میں آیا ہے :
{قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط } (آیت۱۴)
’’یہ بدو کہہ رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ (اے نبیﷺ! ان سے) کہہ دیجیے: تم ہر گز ایمان نہیں لائے ہو‘ بلکہ تم یوں کہو کہ ہم مسلمان (اطاعت گزار) ہو گئے ہیں اور ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔‘‘
آپ دیکھیں گے سورۃ البقرہ میں:
{الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰــھُمْ یُنْفِقُوْنَ(۳) وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَـیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ(۴)}
’’جو ایمان رکھتے ہیں غیب پر‘ اور نماز قائم کرتے ہیں‘ اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔اور جو ایمان رکھتے ہیں اُس پر بھی جو (اے نبیﷺ) آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے‘ اور اُس پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) جو آپؐ سے پہلے نازل کیا گیا۔ اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔‘‘
پھر ۲۱ ویں رکوع میں سورت کے بالکل وسط میں آیت البر ہے:
{لَـیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّـوْا وُجُوْہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰــکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ ج }
’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو ‘بلکہ نیکی تو اُس کی ہےجو ایمان لائے اللہ پر‘ یومِ آخرت پر‘ فرشتوں پر‘ کتاب پر اور نبیوں پر۔‘‘
پھرسورت کے آخر میں:
{اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَـیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَ ط کُلٌّ اٰمَنَ بِاللہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف}
’’ایمان لائے رسول (ﷺ) اُس چیز پر جو نازل کی گئی اُن کی جانب اُن کے ربّ کی طرف سے اور مؤمنین بھی (ایمان لائے )۔ یہ سب ایمان لائے اللہ پر‘ اُس کے فرشتوں پر‘ اُس کی کتابوں پر اور اُس کے رسولوں پر۔ ‘‘
اب دیکھیےکہ سورۃ البقرہ کی ابتدا ‘وسط اور انتہا تینوں جگہوں پر ایمان کے بارےمیں اہمیت کےساتھ گفتگو ہو رہی ہے ۔سورئہ آل عمران میں اسلام کے بارے میں یہی انداز نظر آئے گا:
{اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ قف } (آیت۱۹)
’’یقیناً دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔‘‘
پھر آیت ۸۵ میں فرمایا:
{وَمَنْ یَّــبْـتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّــقْبَـلَ مِنْہُ ج وَہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۸۵)}
’’اور جو کوئی اسلام کے سوا کوئی اور دین اختیار کرنا چاہے گا تو وہ اُس کی جانب سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اور آخرت میں وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہو کر رہے گا ۔‘‘
چنانچہ سورۃالبقرۃ میں زیادہ زور ایمان پر ہے جبکہ آل عمران میں زیادہ زور اسلام پر ہے۔
قرآن مجید میں ایمان کے بھی دو عملی مظاہر قرار دیے گئے ہیں۔ دل میں اگر ایمان موجود ہے تو اس کا ظہور جب انسان کے عمل میں ہو گا تو اس کے دو علیحدہ علیحدہ اہم مظاہر ہیں۔ ایک مظہر ہے نماز‘ روزہ‘ تقویٰ‘ خضوع وخشوع‘ ذکر کے اندر لذت‘ عبادات میں  حلاوت۔ دوسرا مظہر ہے جہاد و قتال‘ اللہ کی راہ میں تکلیفیں اُٹھانا‘ صبرو مصابرت‘ ایثار و قربانی‘ میدان میں آنا‘ مقابلہ کرنا‘ باطل سے پنجہ آزمائی ۔ایمان کے نتیجے میں عمل کے یہ دو رُخ اور دو مظاہر ہیں۔ اس میں بھی تقسیم ہے۔ سورۃ البقرۃ کے آغاز میں متقین کی صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا:
{اُولٰٓـئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ ق وَاُولٰٓـئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)}
’’یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے ربّ کی طرف سے ہدایت پر ہیں‘ اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
ایک رُخ یہاں بیان کر دیا گیا جبکہ دوسرا رخ سورئہ آل عمران میں آ رہا ہے۔ چنانچہ آیت ۱۹۵ اور ۲۰۰ اسی مضمون کو نمایاں کر رہی ہیں۔ فرمایا:
{فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰـــتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ وَلَاُدْخِلَنَّہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰـرُج ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللہِ ط وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ(۱۹۵)}
’’ سو جنہوں نے ہجرت کی اور جو اپنے گھروں سے نکال دیے گئے اور جنہیں میری راہ میں ایذائیں پہنچائی گئیں اور جنہوں نے (میری راہ میں) جنگ کی اور جانیں بھی دے دیں‘مَیں لازماً اُن سے اُن کی برائیوں کو دور کر دوں گا اور لازماً داخل کروں گا انہیں ان باغات میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ۔اور یہ بدلہ ہو گا اللہ کے پاس سے ‘اور بہترین بدلہ تو اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘
{یٰٓـاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْاقف وَاتَّـقُوا اللہَ لَـعَلَّـکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۲۰۰)}
’’اے اہل ِایمان! صبر کرو اور صبر میں اپنے دشمنوں سے بڑھ جائو اور مربوط رہو‘ اور اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رکھو تاکہ تم فلاح پائو۔‘‘
یہ ہے ایمان کا دوسرا مظہر جس کونمایاں کیاگیا ہے۔اللہ کی راہ میں جنگ‘تکلیفوں کا جھیلنا‘ گھر بار چھوڑ دینا ‘صبرو مصابرت‘ مصائب کو برداشت کرنا‘ قتل ہونااور قتل کرنا بھی۔ سورئہ آل عمران کے اختتام پر یہ دوسرا پہلو آیا ہےاور سورۃا لبقرۃ کے آغاز میں پہلا پہلو نظر آتا ہے۔ اسی کی ایک بہت نمایاں مثال سورۃ الانفال میں ہے جہاں دونوں پہلو جمع کر دیے گئے‘ لیکن اس طور سے کہ شروع میں سورۃ البقرہ والا پہلو ہے ۔ مؤمنوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ جب اللہ کا نام لیا جائے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں‘ قرآن کی آیات سن کر ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے‘ اپنے ربّ پر توکل کرتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں۔ یہ ساری کیفیات بیان کرنے کے بعد فرمایا:
{اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاط } (آیات۲ تا ۴)
’’یہی لوگ ہیں جو حقیقی مؤمن ہیں۔ ‘‘
آخر میں آیاکہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی‘ مال و جان سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا‘ اور وہ لوگ جنہوں نے انہیں پناہ دی اور ان کی نصرت کی (انصار)ان کے بارے میں فرمایا:{اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاط}’’یہی ہیں حقیقی مؤمن۔‘‘ (آیت۷۴)
معلوم ہوا کہ مؤمن کی شخصیت کے دو رُخ ہیں۔ دونوں کی تکمیل سے ایک مؤمن کی شخصیت کا ہیولیٰ صحیح طور پر سامنے آتا ہے‘ ورنہ وہ یک رُخا رہ جائے گا۔ایک رُخ وہ ہے جو خانقاہوں میں نظر آتا ہے۔ وہاں جہاد و قتال اور اللہ کی راہ میں باطل سے پنجہ آزمائی نہیں ہے‘ لیکن مراقبے ہیں۔وہا ں بھی ظاہر ہے کہ مجاہدے توہوتے ہیں ‘نفس کُشی اور مخالفت ِنفس کے اندر مبالغے بھی ہوتے ہیں‘لیکن دوسرا رُخ نہیں ہے۔ایک رُخ یہ ہو سکتا ہے مردِ میدان تو ہو لیکن سوز کی اُس کیفیت سے خالی ہوجسے اقبال نے کہا ہے: ع’’کبھی سوز و سازِ رومی کبھی پیچ و تابِ رازی !‘‘ اگر باطنی سوز نہیں‘ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت نہیں تو ایک کھوکھلی اور بے روح سی چیز ہے۔یہ دونوں چیزیں مل کر درحقیقت بندۂ مؤمن کی شخصیت کی تکمیل کرتی ہیں ۔سورۃ البقرہ کے آغاز میں ایک رُخ نماز‘ زکوٰۃ‘ خشیت‘ تقویٰ‘ ایمان‘ آخرت کا یقین اور سورئہ آل عمران میں دوسرا رُخ جہاد و قتال‘ ہجرت‘ صبر ومصابرت آیاہے۔ بعد میں تفصیل سے پڑھتے ہوئے یہ تصور نکھرتا چلا جائے گا کہ کس طرح یہ دونوں سورتیں مل کر ایک ہی مضمون کی تکمیل کرتی ہیں۔ ان دونوں سورتوں میں نسبت زوجیت کی ایک کامل مثال ہے۔ اس کے لیے سب سے بڑی دلیل حضورﷺ کا فرمان ہے کہ آپؐ نے ان دونوں سورتوں کو متعدد مشترکہ نام دیے اوریہ تمام الفاظ تثنیہ کے استعمال کیے‘ تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ دونوں سورتیں مل کر ایک مضمون کی تکمیل کرتی ہیں اور آپس میں ایک جوڑے کی نسبت رکھتی ہیں۔
سورۃ البقرۃ کی عظمت : حدیث ِ نبویؐ کی روشنی میں
سورۃالبقرہ کی عظمت پر نبی اکرمﷺ کی دو احادیث ملاحظہ کیجیے۔ دونوں کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ ہیںاور دونوں ترمذی شریف کی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((لِکُلِّ شَیْءٍ سَنَامٌ ، وَ اِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ ، وَفِیْھَا آیَۃٌ ھِیَ سَیِّدَۃُ آیِ الْقُرْآنِ، ھِیَ آیَۃُ الْکُرْسِیِّ))(۴)
’’ہر شے کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرۃ ہے۔ اس میں ایک آیت ہے جو تمام آیاتِ قرآنیہ کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔‘‘
جیسے اونٹ کی ایک کوہان ہوتی ہے ‘ ہرشے کاایک نقطۂ عروج ہے‘جسے انگریزی میں climaxسے تعبیر کرتے ہیں‘اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرہ ہے۔واقعہ یہ ہے کہ آیت الکرسی عظیم ترین آیت ہے ۔اس کے بارے میں حضور ﷺ نے وہی بات فرمائی جو سورۃ الاخلاص کے بارے میں فرمائی۔ سورۃ الاخلاص کو حضورﷺ نے ثُلُثُ القرآن ( تہائی قرآن ) قرار دیا اور آیت الکرسی کو رُبْعُ الْقُرآن ( چوتھائی قرآن ) قرار دیا ہے۔ اس اعتبار سے آیت الکرسی کی بڑی عظمت ہے۔
دوسری حدیث ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
((لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِـرَ، وَاِنَّ الْبَیْتَ الَّذِیْ تُقْرَأُ فِیہِ الْبَقَرَۃُ لَا یَدْخُلُہُ الشَّیْطَانُ)) (۵)
’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو۔ بےشک وہ گھر کہ جس میں سورۃ البقرہ کی تلاوت کی جاتی ہو‘ اس میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘
یہ گویا کہ اُ س گھر کے لیے ایک حصارکا‘دفاع کا اور حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ جس گھر میں سورۃالبقرۃ کے پڑھنے کا اہتمام و التزام ہوتا ہو‘ باربار اس کا چرچا ہوتا رہتا ہو تو شیاطین اس گھر سے بھاگتے ہیں ۔
زمانۂ نزول
یہ سورئہ مبارکہ۴۰ رکوع پر مشتمل ہے۔ آیات کے اعتبار سے ہمارے ہاں کے مصحف میں ۲۸۶ کا عدد ملے گا۔تاہم مختلف قراءتوں کے لحاظ سے ایک اوپر یا ایک نیچے کا فرق ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک ۲۸۵ آیات شمار میں آتی ہیں اور بعض کے نزدیک ۲۸۷ بھی ہیں۔ البتہ ۲۸۶ کے عدد پر تقریباً اجماع ہے ۔واضح رہے کہ یہ صرف گنتی کا فرق ہے۔ ایسا نہیں کہ کسی آیت کے بارے میں اختلاف ہو کہ وہ قرآن کا حصّہ ہے یا نہیں۔ کہیں کسی جگہ پر ایک آیت کی گنتی ہو جاتی ہے اور کہیں نہیں ہوتی۔ متن میں ہرگز کوئی فرق نہیں ہے‘ الفاظ میں کوئی کمی بیشی نہیں ہے۔
اتنی طویل سورت کے بارے میں اس بات پراجماع ہے کہ یہ بیک وقت نازل نہیں ہوئی۔ بعض طویل سورتیں بھی ایسی ہیں جن کے بارے میں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بیک وقت نازل ہوئیں۔ مثلاً سورۃ الانعام بڑی طویل سورت ہے‘ ۲۰رکوعوں پر مشتمل ہے‘ سورۃ البقرہ کے نصف کے مساوی ہے۔ اس کے بارے میں روایات ہیں کہ یہ بیک وقت نازل ہوئی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب اُسے لے کر نازل ہوئے تو ۷۰ ہزار فرشتے اُن کے جلو میں تھے۔ یہ اس کی خاص شان ہے۔البتہ سورۃ البقرۃ کے بارے میں تقریباً اجماع ہے کہ ہجرت کے فوراً بعد سے شروع ہو کر غزوۂ بدر سے پہلے پہلے تک قرآن کی جو آیات نازل ہو چکی تھیں اُن سب کو حضورﷺ نے اس سورۂ مبارکہ کی شکل میں جمع کرایا۔ یہ تقریباً دو سال کا وقفہ بنتا ہے۔ اس عرصے کے دوران وقتاً فوقتاً جو آیات نازل ہوتی رہیں ان کے بارے میں حضور ﷺ فرما دیتے کہ اِس کو فلاں آیت کے بعد رکھو‘ اس کو فلاں آیت کے بعد۔ اس طرح حضورﷺ کی اپنی زیر ہدایت‘ آپؐ کی اپنی حیاتِ دنیاوی کے دوران پورا قرآن مرتب ہو گیا تھا۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترتیب نزولی اور ہے‘ ترتیب مصحف اور ہے۔
اندازہ یہ ہوتا ہے کہ سورۃ محمد(ﷺ) بھی غزوئہ بدر سے قبل نازل ہوئی۔ سورئہ محمد کا دوسرا نام سورۃ القتال بھی ہے۔ گویا کہ اس میں قتال کی فرضیت بھی آئی۔ اس اعتبار سے سورۃ البقرہ اور سورۃ محمد دونوں کو جمع کر لیجیے تو قرآن مجید کا یہ وہ حصّہ ہے جو ہجرت کے بعد سے غزوئہ بدر سے پہلے تک نازل ہوا۔ البتہ کچھ ایسی آیات ضرور ہیں جو اس زمانے میں نازل نہیں ہوئیں ۔چنانچہ سورۃ البقرہ کی آخری دوآیات کو مکیات کہا جا سکتا ہے‘اس لیے کہ یہ ہجرت سے پہلے حضورﷺ کوعطا ہوگئیں۔ ان کی خصوصی شان یہ ہے کہ بقیہ قرآن تو لوحِ محفوظ سے زمین پر نازل ہوا ‘حضورﷺ نے وصول کیا جب کہ آپؐ زمین پر تھے‘لیکن یہ دو آیات عطا ہوئی ہیں جب آپﷺ شب ِمعراج کے موقع پر خود آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے۔ یہ اُمّت کےلیے عظیم ترین تحفہ ہیں جو شب معراج کے موقع پر حضور ﷺکو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ان کے علاوہ بھی کچھ آیات خاص طور پر جو سود کی حرمت کے متعلق ہیں‘ ان کے بارے میں بالاجماع ہمیں یہ معلوم ہے کہ یہ آیات ۹ہجری میں نازل ہوئیں۔ ۲ ہجری میں غزوئہ بدر ہوا‘ تو اس اعتبار سے وہ سود والی آیات ۷ سال بعد کی ہیں لیکن ان کو بھی مضمون کی مناسبت سے نبی اکرمﷺ نے سورۃالبقرہ میں مناسب مقام پر شامل کیا۔ اس طرح کے استثناءات شاید اور بھی ہوں لیکن شاذ کے درجے میں ہوں گے۔ البتہ استثناءات قانون کی توثیق کرتے ہیں (Exceptions prove the rule) ۔بحیثیت مجموعی یہ کہا جائے گا کہ سورۃ البقرۃ سب سے پہلی مدنی سورت ہے‘ یعنی ہجرت کے بعد سے غزوۂ بدر سے متصلاً قبل تک اس کا زمانۂ نزول ہے۔
مضامین کا اجمالی تجزیہ
اس سورئہ مبارکہ کے مضامین کا تجزیہ بھی اپنی جگہ پر بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر اس تجزیے کے حوالے سے ان مضامین کو ذہن نشین کرنے کی کوشش کی جائے تو بڑی سہولت حاصل ہوتی ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کاخصوصی فضل ہے کہ اس کے ضمن میں اُس نے میرے ذہن کو بعض ایسی تشبیہات کی طرف منتقل کر دیا کہ ان کے حوالے سےاس کے مضامین کو یاد رکھنا‘ ذہن نشین کرنااور سمجھنا آسان ہو جائےگا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کے لیے میں نے ایک نام تجویز کیا ہے: سُورۃُ الاُمَّتَین ۔ یہ بھی تثنیہ کا صیغہ ہے۔ یہ دو اُمتوں کی سورت ہے۔مجھے یہ جرأت اس وجہ سے ہوئی کہ جیسے کہ ہم سورۃ الفاتحہ کے بارے میں حدیث پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
((قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِيْ وَبَيْنَ عَبْدِيْ نِصْفَيْنِ ، وَلِعَبْدِيْ مَا سَأَلَ)) (صحیح مسلم، ح۳۹۵)
’’مَیں نے نماز کو (سورۃ الفاتحہ جو اصل نماز ہے اسے) اپنے اوراپنے بندے کے درمیان دوبرابر نصفین میں تقسیم کر دیا ہے‘اور مَیں نے اپنے بندے کو دیا جو اُس نے مجھ سے مانگا۔‘‘
اسی طرح اس سورۃ کو بھی اللہ تعالیٰ نے گویا دو نصف حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس کے نصف اوّل میں تمام تر خطاب سابقہ اُمّت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل سے ہے۔بنی اسرائیل کی تاریخ بحیثیت اُمّت ِمسلمہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شروع ہوتی ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام پر بالقوۃ (potentially)ختم ہو جاتی ہے۔ اگرچہ یہود ایک قوم کی حیثیت سے ‘ایک نسل کی حیثیت سے اب بھی پائے جاتے ہیں اور حضورﷺ کے زمانے میں بھی موجود تھے‘ لیکن اُمّت کے اعتبار سے ان کا دَور درحقیقت۱۳ سو قبل مسیح سے شروع ہو کر حضرت مسیح علیہ السلام پر آ کر ختم ہوگیا تھاجب انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی دعوت کو ماننے سے نہ صرف انکار کیا‘ بلکہ اپنے بس پڑتے انہیں سولی پر چڑھا دیا۔ اس اعتبار سے وہ اسی وقت معزول ہو چکے تھے‘ لیکن ان کی معزولی کے فیصلے کا ظہور ہوامحمد عربیﷺ کی بعثت پر۔
اس سورئہ مبارکہ کے دوسرے حصے میں موجودہ اُمّت مسلمہ سے خطاب ہے جن کی تاریخ۱۴۰۰ برس کی ہو گئی ہے۔ اس سورۂ مبارکہ کے نزول کے وقت گویا یہود کی معزولی کا اعلان ہو رہا ہے۔ چنانچہ پہلے نصف میں اکثر و بیشتر براہِ راست انہی سے خطاب ہے اور باقی میں روئے سخن ان ہی کی طرف ہے‘ چاہے براہِ راست خطاب ان سے نہ ہو۔ دوسرے حصے میں کُل کا کُل خطاب موجودہ اُمّت ِمسلمہ یعنی اُمّت ِمحمد ﷺ سے ہے۔ سورۃ البقرہ کے نصف ِاوّل میں آیات ۱۵۲ ہیں جبکہ نصف ثانی میں آیات ۱۳۴ ہیں‘ کُل ۲۸۶ آیات۔ البتہ یہ جوفرق نظر آرہاہے اس کو تعدادِ رکوعات compensateکر رہی ہے۔۱۵۲ آیات ۱۸ رکوعوں میں‘ جبکہ ۱۳۴ آیات ۲۲ رکوعوں میں ہیں۔ گویا کہ بعد والی آیات کا حجم زیادہ تر بڑا ہےکہ وہ ۲۲رکوعوں میں پھیلی ہوئی ہیں اگرچہ تعداد کے اعتبار سے کم ہیں ۔
اب ان میں جو مزید تقسیم ہے اسے اگر اس وقت ذہن نشین کر لیں تو ایک ایک حصے سے گزرتے ہوئےپورے سلسلۂ درس کے ساتھ ہماری ایک ذہنی ہم آہنگی رہے گی ۔ پہلے ۱۸ رکوعوں میں تقسیم عمودی( vertical)ہے:پہلے ۴رکوع‘ درمیانی ۱۰ رکوع‘ آخری ۴ رکوع ۔ درمیان کے ۱۰ رکوعوں میں گفتگو براہِ راست بنی اسرائیل سے ہے:
{یٰــبَنِیْٓ اِسْرَآئِ‘یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَوْفُوْا بِعَہْدِیْٓ اُوْفِ بِعَہْدِکُمْ ج وَاِیَّایَ فَارْہَبُوْنِ(۴۰)} (البقرۃ)
’’اے بنی اسرائیل! یاد کرو میرے اُس انعام کو جو مَیں نے تم پر کیا‘اور تم میرے وعدے کو پورا کرو تاکہ میں بھی تمہارے وعدے کو پورا کروں‘ اور صرف مجھ ہی سے ڈرو!‘‘
یہاں پانچویں رکوع سے بات شروع ہوئی ہےاورپھرپندرہویں رکوع کے شروع میں:
{یٰـبَنِیْ اِسْرَآءِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَـیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(۱۲۲)} (البقرۃ)
’’اے اولادِ یعقوب! یاد کرو میرے اُس انعام کو جو مَیں نے تم پر کیا‘ اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت دی تھی اہل عالم پر۔‘‘
وہاں جاکروہ بات مکمل ہوئی ۔ پورے ۱۰ رکوع مسلسل بنی اسرائیل سےخطاب ہے ۔
پہلے۴ رکوعوں کو ہم تمہیدی کہہ سکتے ہیں۔ان میں براہِ راست بنی اسرائیل سے خطاب شروع نہیں ہوا۔ ایک اعتبار سے پہلے ۴ رکوع تمہیدی یوں بھی ہیں کہ وہ پورے قرآن کے لیے گویا دیباچہ بن جاتے ہیں۔ پہلے ۲ رکوعوں میں تین قسم کے انسانوں کی تقسیم ہے۔ ایک وہ جو اس قرآن سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں یا جنہوں نے اس قرآن سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ دوسرےوہ کہ جن پر ہدایت کا دروازہ بند ہو چکاہے۔ لاکھ سمجھا دیا جائے ‘وہ اَب ماننے والے نہیں۔ تیسرے وہ جو بین بین ہیں‘ کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں لیکن حقیقت میں نہیں مانتے۔ یہ تین قسم کے افراد اُس وقت بالفعل موجود تھے۔ ان تینوں میں سے تیسری قسم درحقیقت اہل کتاب یہودِ مدینہ کی تھی۔ لہٰذا سب سے زیادہ تفصیل تیسری قسم کی بیان ہوئی ہے‘ اس لیے کہ سارا روئے سخن ان ہی کی طرف ہے‘ اگرچہ دوسری قسم کے اندر بھی ان کا جزو شامل ہے۔البتہ ایک اعتبار سے یہ چار رکوع ابدی اہمیت کے حامل ہیں کہ گویا ان میں بیان کیا جا رہا ہے کہ کون لوگ ہیں جو قرآن کی ہدایت سے فائدہ اُٹھا سکیں گے‘ کون لوگ ہیں کہ جن پر اس قرآن کی ہدایت کا دروازہ بند ہے‘ اور کون وہ ہیں جو کچھ بین بین ہیں۔ کچھ فائدہ اٹھا بھی لیتے ہیں‘تھوڑا بہت چل بھی لیتے ہیں‘ لیکن پھر ٹھٹھک کر کھڑے ہو جاتے ہیں‘ ہمت جواب دے جاتی ہے۔
دنیا میں کسی بھی دعوت کے ردّ عمل کے طور پر یہ تین قسم کے لوگ ہمیشہ سے رہے ہیں۔ ایک وہ جنہوں نے اس دعوت کو قبول کیا اورہرچہ باداباداپنے آپ کو پورے طور پر اس کے رنگ میں رنگ دیا اور اس کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو اَڑ گئے۔ ہٹ دھرمی‘ دشمنی‘ عناد اور تعصب کی وجہ سے رُک گئے ہیں کہ کوئی دلیل ‘ کوئی گواہی ‘ کوئی استدلال اُن کے لیے مفید نہیں ہوتا۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جو ایک درجے میں کسی حد تک مان تو لیتے ہیں لیکن یہ کہ پورے طور سے ماننا اور اپنے آپ کو اس دعوت سے وابستہ کر لینا‘ یہ جرأت ان کے بس کا روگ نہیں ہوتی۔ یہ تین قسم کے لوگ ہمیشہ تھے‘ ہمیشہ رہیں گے۔ اس اعتبار سے یہ بات گویا کہ آفاقی سچائی (universal truth) کے درجے میں ہے‘ لیکن ان کے پردے میں روئے سخن یہود کی طرف ہے ۔ اس اعتبار سے بھی وہ نصف اوّل کے مضامین میں شامل ہیں۔ باقی رکوع۳‘۴ میں دین کی بنیادی تعلیم ہے۔
سورۃ البقرہ کے نزول کے وقت قرآن کا دو تہائی حصّہ تو نازل ہو چکا تھا جبکہ اس سورت کو قرآن مجید کے بالکل شروع میں رکھا گیا ہے۔ دین کی جوبنیادی تعلیمات ہیں‘ جو فلسفہ ہے‘ جو حکمت دین ہے وہ تو پورے کا پورا سورت کے نزول سے پہلے مکی قرآن کی صورت میں نازل ہو چکا تھا‘ تو اب حکمت خداوندی کا تقاضا ہوا کہ اُس دو تہائی قرآن کی بنیادی تعلیمات کا خلاصہ اس سورۃ کے آغاز میں رکھ دیا جائے کہ جب ایک عام قاری ٔ قرآن اس سورت کو پڑھ رہا ہو تو اس کے سامنے مکی قرآن کے مضامین کا خلاصہ آجائے‘ پھر وہ آگے بڑھے۔ لہٰذاسورۃ البقرہ کےابتدائی ۴ رکوع اس اعتبار سے تمہیدی ہیں۔ پھر۱۰ رکوعوں (۵ تا ۱۴ )میں بنی اسرائیل سے خطاب ہے۔ آخری چار رکوعوں میں یہ تحویل (transition)کہ اُمّت ِ مسلمہ کے مقام و منصب سے بنی اسرائیل کو معزول کر کے اُمّت ِ محمد ﷺ کو اس پر فائز کیا جا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک نسل(بنی اسرائیل) جن کو اللہ تعالیٰ نے’’اُمّت ِ مسلمہ‘‘ کا مقام و منصب عطا کیا ہوا تھا‘ان سے وہ منصب چھین کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کی دوسری شاخ (یعنی بنی اسماعیل) کو یہ منصب عطا کیا جا رہا ہے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں نبی آخر الزماںﷺ کی بعثت ہوئی اور آپﷺ پر جو لوگ ایمان لائے تو ان سے ایک نئی اُمّت وجود میں آئی۔ اب ان کو اس مقام پر کھڑا کیا جا رہا ہےاور یہ منصب ان کو عطا کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ خود نقطہ ٔ جامع ہیں‘ جہاں ان دونوں اُمتوں کا سلسلہ جا کر ملتا ہے ‘ اس اعتبار سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ‘تعمیر کعبہ کا ذکر ‘پھر تحویل قبلہ یعنی مسلمانوں کا قبلہ کعبۃ اللہ کو قرار دینا گویا کہ علامت ہے اس کی کہ سابق قبلے والے یعنی یہود جن کا قبلہ بیت المقدس رہا‘ اب وہ معزول کر دیے گئے ہیں۔ اب اس کعبہ کے گرد ایک نئی اُمّت‘ اُمّت ِمحمدﷺ وجود میں آ گئی ہے اور اس کو اُمّت ِ مسلمہ کے مرتبے پر فائزکر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جو بقیہ ۲۲ رکوع ہیں اُن میں براہِ راست اُمّت مسلمہ سے خطاب شروع ہوا۔گویا کہ تحویل ِقبلہ ایک طرح کی تاج پوشی( coronation)تھی کہ اب اُمّت ِمسلمہ اس مقام پر فائز کر دی گئی۔
اُمّت ِ مسلمہ سےاس خطاب میں بظاہر مضامین گڈمڈ نظر آتے ہیں۔ ابھی نماز کا ذکر ہو رہا تھا‘ آگے جہاد کا ذکر شروع ہو گیا‘ ابھی کوئی اور بات آ گئی ‘تومضامین میں بظاہر کوئی تسلسل نہیں ہے۔ اس کے لیے یہ تمثیل و تشبیہ بڑی خوب صورت ہے کہ ایک ایسی رسی کا تصور کریں جو چار لڑیوں سے بٹی ہوئی ہے اور ان لڑیوں کے رنگ جدا جدا ہیں‘مثلاً سفید‘ سرخ‘ نیلی‘ سبز یا پیلی۔ جب ان چاروں لڑیوں کو باہم بَٹ دیا جائے گا تو کوئی رنگ بھی مسلسل نظر نہیں آئے گا‘ سارے رنگ کٹے پھٹے نظر آئیں گے۔ ایک طرف سفیدہے ‘پھرسرخ‘ پھر نیلا ‘ پھر کوئی اور رنگ ۔لیکن اگر ان لڑیوں کو کھول دیں تو معلوم ہو گا کہ ہر لڑی سیدھی ہے‘ مسلسل ہے۔سفید ڈوری بھی سیدھی ہے‘نیلی بھی سیدھی ہے ۔ اس اعتبار سے یہ چار لڑیاں ہیں جو باہم آپس میں ایک رسّی کی شکل میں بٹی ہوئی ہیں۔ ان کو بھی دو دو کے دو جوڑوں میں سمجھیے۔ ایک ہیں احکامِ شریعت یعنی یہ کرو‘ یہ نہ کرو! اور ایک ہے جہاد فی سبیل اللہ۔ پھر پہلے کے بھی دو حصے ہیں۔ احکامِ شریعت میں ایک حصّہ عبادات اور دوسرا حصّہ معاملات پر مشتمل ہے۔ دوسری طرف جہاد میں ایک حصّہ جہاد بالمال ہے اور دوسرا حصّہ قتال یعنی جہاد بالنفس ہے۔ یہ جو چار لڑیاں ہیں‘ ایک لڑی میں عبادات اور دوسری لڑی میں معاملاتِ انسانی سے متعلق احکام ہیں۔ تیسری لڑی میں انفاق فی سبیل اللہ یعنی جہاد بالمال اور چوتھی لڑی میں قتال فی سبیل اللہ یا جہادبا لنفس ہے۔ ان چاروں لڑیوں کو اس طریقے سے بٹ دیا گیا ہے کہ یہ ایک رسّی کی شکل اختیار کر گئی ہیں کہ یہ چاروں مضامین ایک دوسرے کے بعد مختلف وقفوں سے آ رہے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان سب میں خطاب اُمّت ِمسلمہ سے ہے۔ اس اعتبار سے اب ان میں جو polarization اور چار مضامین کی تقسیم ہے وہ عمودی (vertical)نہیں بلکہ افقی (horizontal)ہے۔ چاروں لڑیاں آپس میں بٹے ہونے کی وجہ سے بظاہر کٹی پھٹی نظر آ رہی ہیں لیکن مضامین میں ایک معنوی تسلسل ہے۔ سورۃ البقرۃ کے مضامین کا تجزیہ اس ترتیب سے واضح ہوتا ہے:
نصف اوّل
نصف ثانی
۱۸ رکوع ‘ ۱۵۲ آیات پر مشتمل
بنی اسرائیل سے براہِ راست خطاب
(سوا دس رکوعوں میں)
۲۲ رکوع ‘۱۳۴ آیات پر مشتمل
اُمّت ِمسلمہ سے خطاب
پہلے ۴ رکوع( ۱‘۲‘۳‘۴ )تمہیدی ہیں‘ جن میںقرآن کے تعارفی مضامین آ گئے ہیں۔
رکوع۱‘۲
رکوع۳‘۴
تین اقسام کے لوگ
مکی قرآن سے بنیادی
تعلیمات کا خلاصہ
رکوع ۵ تا ۱۴ : براہِ راست یہود سے خطاب
رکوع ۱۵ تا ۱۸ :تحویلی ------ سابقہ اُمّت معزول ۔ موجودہ اُمّت منصوب
نصف ثانی میں۴ مضامین کی لڑیاں:
(۱) احکام ِعبادات
(۲) احکامِ معاملات
(۳) جہاد بالمال
(۵) جہاد بالنفس (قتال)
(جاری ہے)
حواشی
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ‘ باب فضل قراء ۃ القرآن و سورۃ البقرۃ‘ ح۸۰۴۔ مشکاۃ المصابیح‘ کتاب فضائل القرآن‘ ح ۲۱۲۰۔
(۲) صحیح مسلم‘ کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ‘ باب فضل قراء ۃ القرآن و سورۃ البقرۃ‘ ح ۸۰۵-
(۳) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب سُورۃ آل عمران‘ ح ۲۸۸۳۔ علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے۔ صحیح الترمذی‘ ح ۲۳۱۲۔
(۴) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب فضل سورۃ البقرۃ و آیۃ الکرسی‘ ح ۲۸۷۸۔ اضافی حوالہ جات کے لیے ملاحظہ ہو مشکاۃ المصابیح‘ ح ۲۱۷۹۔
(۵) ح۲۸۷۷۔ صحیح مسلم‘ ح ۱۸۲۴۔