اطاعت ِرسول ﷺ کی اہمیت
حافظ عاکف سعید
{وَمَآ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج وَمَا نَھٰىکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج } (الحشر:۷)
’’سو جو چیز تم کو پیغمبرؐ دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں(اس سے) بازرہو ۔ ‘‘
یہاں اسلامی زندگی کا ایک بنیادی اصول دیا گیا ہے کہ جو کچھ رسولﷺ تمہیں عطا کریںاسے خوش دلی سے قبول کر لو اور جس چیز سے روک دیں‘ اس سے رک جائو۔ رسولﷺ جو کچھ تمہیں بتا رہے ہیں وہ سب کا سب دین ہے۔ وہ اللہ کا فیصلہ اور اُس کا حکم ہے۔ اس لیے کہ آپﷺ کوئی بھی بات اپنی طرف سے نہیں فرماتے‘ بلکہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ اللہ ہی کے اِذن سے ہوتاہے۔ {وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰی(۳) اِنْ ہُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی(۴)}(النجم) ’’اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتے ہیں۔ یہ تو اللہ کا حکم ہے جو(ان کی طرف) بھیجا جاتا ہے۔‘‘اللہ کے نبیﷺ کی بات بھی وحی کی بنیاد پر ہوتی ہے‘ اگرچہ وہ وحی غیر متلو ہوتی ہے ۔ لہٰذا یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ رسولِ خدا ﷺ نے جو حکم دیا ہے یہ قرآن میں کہاں آیا ہے!کسی کو بھی یہ پوچھنے کااختیار نہیں ہے۔ جس ہستی نے قرآن نازل کیا ہے‘ اُسی نے حضورﷺ کو یہ اتھارٹی عطا فرمائی ہے کہ آپ ؐ کی اطاعت کی جائے‘ اس لیے کہ آپؐ کی اطاعت اللہ ہی کی اطاعت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ ط} (النسا:۶۴) ’’اورہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اسی لیے کہ اللہ کے حکم سے اُ س کی اطاعت کی جائے۔‘‘{ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ ج}(النساء:۸۰) ’’جو شخص رسولؐ کی فرماںبرداری کرے گا تو بے شک اُس نے اللہ کی فرماں برداری کی۔‘‘
رسول( معاذ اللہ!) ڈاک کا ہرکارہ نہیں ہوتا‘ جیسے کہ آج کل منکرین حدیث کے ہاں تصور پایا جاتا ہے‘ بلکہ اللہ کا نمائندہ ہوتا ہے‘ جس کی اطاعت لازم ہے۔انکارِ حدیث کا فتنہ ہمارے ہاں سرسید احمد خان ہی کے دور سے شروع ہو گیا تھا۔بعد ازاں یہ فتنہ بڑھتا رہا ۔ غلام احمد پرویز کی صورت میں یہ کھل کر سامنے آیا۔آج اسی کا ظہورہم ایک ’’جدید سکالر‘‘ کی شکل میں دیکھ رہے ہیں جو حدیث اور سُنّت کواُس کا اصل مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے دین کی عجیب و غریب تعبیرات کر رہے ہیں۔ داڑھی کے بارے میں پوچھیں تو کہہ دیں گے کہ داڑھی کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ (معاذ اللہ!)جو چیز قرآن میں نہیں ہے‘ اس کا دین میں کوئی مقام نہیں ہے ۔ کیاحضورﷺ کے اقوال‘ آپ ؐ کا عمل‘ آپ ؐ کی تائید دین نہیں ہے؟اگرچہ اطاعت اصلاًاللہ تعالیٰ کی ہے جو ربّ العالمین ہے ‘ مالک الملک اور خالق و آقا ہے‘ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندے کو کامل اتھارٹی کے ساتھ اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا‘ تو اب کسی کے لیے یہ گنجائش نہیں ہے کہ اللہ کے نمائندے کی بات کو حجت تسلیم نہ کرے۔ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود یہ کہتا ہے کہ میرا نمائندہ جو کچھ کہے وہ میری ہی طرف سے ہوتا ہے ‘توپھر اُس کی اطاعت میں کوئی شبہ نہ رہا۔
اِس آیت کی تشریح ایک حدیث سے ہوتی ہے‘ جس کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا :’’ مَیں جس کام سے تم کو روک دوں اس سے رک جائو‘ اور جس کام کا حکم دوںاس کواپنی استطاعت کے مطابق بجا لائو (اس پر عمل کرو)۔‘‘(صحیح مسلم) یعنی مجھے یہ اتھارٹی اللہ نے دی ہے ۔ لہٰذا میں جس چیز کا حکم دوں وہی دین ہے‘ اس کو تھام لو‘ اور جس سے روک دوں اس سے باز آجائو ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں عہد ِصحابہؓ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نےگودنے والیوں‘ گدوانے والیوں‘(سفید بال) نوچنے والیوں‘ خوبصورتی کے لیے دانتوں کی جھریاں بنانے والیوں اور تخلیق خداوندی کو بدلنے والیوں پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کی اطلاع بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی تو وہ آکر حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگی: مجھے خبر پہنچی ہے کہ آپ نے ایسی ایسی عورت پر لعنت کی ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’ مَیں ایسی عورتوں پر لعنت کیسے نہ کروں‘ اللہ کے رسول ﷺنے جن پر لعنت کی ہےاور جو کتاب اللہ کے حکم کے مطابق بھی ملعون ہیں!‘‘اس عورت نے کہا: دونوں لوحوں کے درمیان جو کتاب موجود ہے میں نے وہ(ساری) پڑھی۔ اس میں تو مجھے کہیں نہیں ملا۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:’’ اگر تم نے قرآن کو(بغور) پڑھا ہوتا تو تمہیں(یہ حکم) مل جاتا۔ کیا تم نے نہیں پڑھا کہ اللہ نے فرمایا ہے:{وَمَآ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ج وَمَا نَھٰىکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْاج }‘‘ ۔عورت نے کہا: کیوں نہیں! (یہ آیت تو میں نے پڑھی ہے)۔ فرمایا:’’ تو اللہ کے رسولؐ نے(ایسا کرنے کی) ممانعت کر دی ہے۔‘‘(صحیح بخاری) وہ عورت بغاوت کرنے والی نہیں تھی‘ جیسا کہ آج پوری دنیا میں عورتوں کو ایک باغیانہ کردار دے دیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے کوئی بحث و مباحثہ نہ کیااوربات فوراً قبول کر لی۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو احرام کی حالت میں سلے ہوئے کپڑے پہنے دیکھا تو حکم دیا کہ یہ کپڑے اُتار دو۔ اس شخص نے کہا کہ آپؓ اس کے متعلق مجھے قرآن کی کوئی آیت بتا سکتے ہیں جس میں سلے ہوئے کپڑوں کی ممانعت ہو۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ہاں وہ آیت میں بتاتا ہوں۔ پھر یہی آیت وَمَآ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوْلُ پڑھ کر سنا دی۔ امام شافعی ؒ نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا کہ میں تمہارے ہر سوال کا جواب قرآن سے دے سکتا ہوں‘ پوچھو جو کچھ پوچھنا ہے۔ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک محرم نے زنبور(بھڑ) مار ڈالا تواس کا کیا حکم ہے؟ امام شافعی ؒ نے یہی آیت وَمَآ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوْلُ تلاوت کر کے حدیث سے اس کا حکم بیان فرما دیا۔ (قرطبی)
اس آیت کی تفسیر میں مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:’’یہاں رسول کا یہ درجہ جو واضح فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ وہ دے وہ لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جائو‘اگرچہ اس کا ایک خاص محل ہے لیکن اس سے جو حکم مستنبط ہوتا ہے وہ بالکل عام ہو گا۔ یعنی زندگی کے ہر معاملے میں رسولﷺ کے ہر حکم ونہی کی بے چون و چرا تعمیل کی جائے گی ۔ اس لیے کہ رسول کی حیثیت جیسا کہ قرآن میں تصریح ہے‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیے ہوئے ایک واجب الاطاعت ہادی کی ہوتی ہے۔ فرمایا ہے:{وَ مَآ اَرْسَلُنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ} (النساء:۶۴) ’’اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔‘‘ گویا اس ٹکڑے کے دو مفہوم ہوں گے: ایک خاص ‘دوسرا عام۔ اپنے خاص مفہوم کے پہلو سے یہ اپنے سابق مضمون سے مربوط ہو گا اور اپنے عام مفہوم کے اعتبار سے اس کی حیثیت اسلامی شریعت کے ایک ہمہ گیراصول کی ہو گی۔‘‘
سورۃ الحشر کی مذکورہ بالاآیت میں آگے فرمایا:
{ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (۷)}
’’اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔‘‘
اللہ سے ڈرتے رہو‘اُس کا تقویٰ اختیار کرو‘ اس لیے کہ اللہ کا تقویٰ سب سے بڑی متاع ہے۔تقویٰ اللہ کی ناراضی سے ڈرنے کا نام ہے۔ جب آدمی کے دل میں یہ ڈر ہوتا ہے تووہ طاعات پر آمادہ ہوتا اور معصیات سے بچتا ہے۔ جب دل تقویٰ سے خالی ہوتا ہے تو انسان اپنے لیے غلط روی کے راستے تلاش کرتا ہے‘ حیل و حجت کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ کے فرمان کے الفاظ تورہ جاتے ہیں‘ لیکن ان کی روح نکال دی جاتی ہے۔ جیسے بنی اسرائیل نے اصحابِ سبت کے واقعہ میں کیا تھا۔ انہیں ہفتہ کے دن کاروبارسے روکا گیا تھا۔جیسے آج مسلمانوں پر نمازِ جمعہ کی اذان(یعنی اذانِ ثانی) سے نماز کے ادا ہو جانے تک کاروبارِ دنیوی حرام ہے‘اسی طرح یہود کے لیے ہفتہ کا پورا دن دنیاوی کاروبار ممنوع تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اس دن وہ اللہ کو یادکریں ‘ اللہ کی بندگی کریں‘ اللہ سے لو لگائیں‘ذکر و اذکار کریں۔ یہودیوں کی ایک بستی والوں کو جو مچھلیاں پکڑتے تھے ‘اللہ نے سبت کے حکم کے حوالے سے آزمائش میں ڈال دیا۔ چونکہ وہ ہفتہ کے دن مچھلیاں نہیں پکڑتے تھے‘ لہٰذا اُس دن مچھلیاں ساحل کے قریب گھومتی پھرتی نظر آتی تھیں۔یہ صورتحال اُن کے لیے موجب اضطراب ہوتی تھی۔ چنانچہ انہوں نے حیلہ نکالا کہ ہفتہ کے دن ساحل سمندر کے گرد گڑھے کھودتے تھے‘ اور پانی کو مچھلی سمیت اُن گڑھوں میں لے آتے اور شام کو پانی کی واپسی کا راستہ بند کردیتے تھے‘ تا کہ اب جو مچھلیاں اِدھر آگئیں وہ واپس نہ جاسکیں۔ اتوار کی صبح جا کر یہ مچھلیاں پکڑلیتے تھے۔ اس حرکت پر جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کی نافرمانی نہ کرو‘ دین و شریعت کے ساتھ کیا مذاق کر رہے ہو‘ تو وہ کہتے کہ ہم نے اللہ کا حکم تو نہیں توڑا‘ ہم نے تو ہفتہ کو مچھلی کو ہاتھ تک نہیں لگایا‘ ہم نے تو کوئی دنیوی کاروبار نہیں کیا۔ جب تقویٰ نہ ہو تو پھر اسی طرح کے حیلے نکالے جاتے ہیں۔ بہر کیف اللہ تعالیٰ نے اس حیلہ گری کی سخت سزا دی‘ جس کا ذکر سورۃ الاعراف میں آیا ہے۔ جب دل میں تقویٰ ہو گا‘ تو پھر اِس طرح کی حیلہ گری نہیں ہو گی بلکہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی سچی اطاعت ہو گی اور تقویٰ کی بڑی برکات ظاہر ہوں گی۔ اس لیے حکم دیا گیا کہ دیکھو اللہ سے ڈرو ۔ ایک دن اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ تم ایک دوسرے کے سامنے جواب دہ نہیں مگر اللہ کے سامنے ہر ایک کو جو اب دینا ہے۔اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ تمہارے اندر کیا ہے‘ اور پھر یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ عذاب دینے میں بہت سخت ہے۔؎
نہ جا اُس کے تحمل پر کہ ہے بے ڈھب گرفت اُس کی
ڈر اُس کی دیرگیری سے کہ ہے سخت انتقام اُس کا!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025