(منبرو محراب) اسرائیل نا منظور - شجاع الدین شیخ

10 /

اسرائیل نا منظور
دینی‘ تاریخی‘ اورپاکستانی موقف
شجاع الدین شیخ
(قرآن اکیڈمی‘ کراچی میں۱۱ جولائی۲۰۲۵ء کا خطاب جمعہ)

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد!
اسرائیل کو منظور کرانے کے حوالے سے جو مستقل کوششیں چلی آرہی ہیں‘ ان میں ایک مرتبہ پھر زور شور سے وزن ڈالا جا رہا ہے۔ ’’ابراہم اکارڈز‘‘ کے عنوان تلےمسلم ممالک اور پاکستان سے بھی تقاضا کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی نا جائز صہیونی ریاست کو قبول کیا جائے۔ کبھی این جی اوز کے ذریعے یہ بات آتی ہے‘ کبھی میڈیا میں مختلف پروگرامز میں بات آتی ہے‘ کبھی امریکہ کی طرف سے بات اٹھائی جاتی ہے‘ کبھی مسلم ممالک کے کچھ ذمہ داران کی طرف سے بات اٹھائی جاتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں پاکستان کے چند وزراء کی زبان سے بھی یہ بات اٹھتی رہی ہے‘ تو آج ضرورت محسوس ہوئی کہ اس پر کلام ہو۔ دینی اعتبار سے ‘ تاریخی اعتبار سے ‘ اور پاکستان کی تاریخ کے اعتبار سے بھی بانیانِ پاکستان کے الفاظ میں یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ آخر ہم مسلمانانِ پاکستان خاص طور پر اسرائیل کو کیوں قبول نہیں کر سکتے اور کیوں ہمیں اسے قبول نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ محض کوئی جذباتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کی دینی بنیاد بھی ہے ‘تاریخی بنیاد بھی ہے‘ اخلاقی بنیاد بھی ہے ۔ حالات بھی ہمارے سامنے ہیں کہ جن میں ہم سمجھتے ہیں کہ بھرپور آواز اس پر بلند کریں اور اسرائیل کو ہرگز منظور نہ کیا جائے۔ اس بات کو ہم پروموٹ کرنے کی کوشش کریں۔ ویسے تو کئی معاملات پیش آتے رہتے ہیں جن پر کلام ہونا چاہیے۔ دو تین باتوں کی طرف مختصر اشارہ کرکے پھر اس موضوع کی طرف آؤں گا۔
تین ضمنی معاملات
توجہ طلب بات ہے کہ ماہ محرم الحرام میں ملک کے اندر ایک فرقہ واریت کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے۔ ایک فرقے کی کچھ رسومات کی بنیاد پر صورت حال ایسی ہو جاتی ہے کہ جیسے ملک حالت ِجنگ میں ہے۔ہم بار بار توجہ دلاتے ہیں کہ گستاخیوں کا سلسلہ رکتا نہیں ہے۔ ایک طرف سوشل میڈیا پر گستاخیاں ہیں جو قرآن کریم‘ انبیاءکرام علیہم السلام ‘ خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ با برکات ‘ صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے حوالے سے ہیں۔ گاہے بگاہے ہم نے عمومی الفاظ میں اس پر ماضی میں توجہ دلائی لیکن ہر سال ماہ محرم الحرام میں کہیں نہ کہیں سے کوئی بات اٹھتی ہے اور علی الاعلان سوشل میڈیا پر اس کو لایا جاتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین بالخصوص حضرت امیر معاویہ ‘سیدنا ابوبکر صدیق ‘سیدنا عمر فاروق( رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) کے تعلق سے گستاخانہ باتیں کی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے ہم نے یہ بات بھی بیان کی کہ اگرکسی فرقے کے افراد کچھ مقدس شخصیات کی تعریف نہیں کر سکتے‘ ان کے فضائل بیان نہیں کر سکتے تو نہ کریں‘ کوئی مسئلہ نہیں‘ لیکن زبان درازی تو نہ کریں۔ بد کلامی تو نہ کریں۔ برے الفاظ تو استعمال نہ کریں۔
اس ضمن میں ہمارے ریاستی اداروں کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا ۔اگر ہمارے مقتدر طبقات اور حکمرانوں کے مفادات پر ضرب پڑتی ہو‘ ان کی غلط باتوں پر توجہ دلائی جاتی ہو تو یہ ایکشن بھی لیتے ہیں۔ مخالفین کااٹھا لیا جانا‘ گرفتار کر لیا جانا ‘ گھرانے کے افراد کو اٹھا لیا جانا ‘ چادراور چار دیواری کا تقدس پامال کیا جانا‘ یوٹیوب چینلز کا بند کر دیا جانا تو ہمیں دکھائی دے رہا ہے مگر رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارے میں گستاخیاں کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی جا رہی‘ نہ اس پر کوئی روک لگائی جا رہی ہے۔ یہ وہ شے ہے جو منفی جذبات کو پروان چڑھاتی ہے اور نتیجتاً معاشرے کے اندر انتشار پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات ہم نے ماہ محرم الحرام کے آغاز پر بھی کہی تھی اور عاشورہ کے بعد بھی میں عرض کر رہا ہوں کہ حکمرانوں کو غیرت آنی چاہیے ۔ ان کے سیاسی فیصلوں پر کوئی اعتراض کرے‘ ان کے غلط کاموں پر کوئی بات کرے تو اس کے خلاف ایکشن لیا جائے لیکن صحابہ کرام ؓکی شان میں یہ جو گستاخیاں ہو رہی ہیں اس پر ایکشن نہیں لیا جا رہا تو اپنے گریبانوں میں ان کو جھانکنا چاہیے کہ کل اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دیں گے!
دوسری بات شہر کراچی کے تعلق سے ذرا ایک مقامی مسئلہ ہے ۔ ایک طرف تو حکومت ِ سندھ نے بڑے بڑے جرمانے اور چالان کے اعلانات کر دیے ہیں کہ ایسا کرو گے تو اتنا جرمانہ ہو گا‘ ویسا کرو گے تو اتنا جرمانہ عائد ہوگا ۔یعنی دماغ تو پہنچا ہوا ہے انٹرنیشنل سٹینڈرڈز پر کہ ہم ٹریفک کے قوانین کی پابندی کروائیں گے۔ پولیس کے چھ چھ اہل کار بدمعاشوں کی طرح کھڑے ہو کر ایک موٹر سائیکل والے کو روکتے ہیں۔ شہری مصیبت اٹھا رہے ہیں۔دوسری جانب سڑکوں کی حالت یہ ہے کہ بچے کھلے گٹر کے اندر گر کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔سڑکوں کی حالت ایسی ہے کہ لگتا ہے کسی تباہ شدہ زمین کے اوپر ہم رہ رہے ہوں۔ یہ ایک عجیب صورت حال ہے کہ حکمرانوں کے گھروں کے اند رتو عیاشیوں کے سامان موجود ہوں جبکہ عوام کو جینے کا بنیادی حق بھی نہ دیا جائے۔باتیں بین الاقوامی معیارات کی ہوں اور حقیقت یہ ہو کہ شہر کی سڑکیں انتہائی ناکارہ۔ ڈی ایچ اے میں تین مرتبہ ترقیاتی کام ہوا لیکن حالیہ بارشوں نے اس کا بھی پول کھول دیا ہے۔ وفاقی حکومت کی سطح پر آ جائیں تو سننے میں آتا ہے کہ ایف بی آر کا یہ ٹارگٹ ہے‘ وہ ٹارگٹ ہے ۔ سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار طبقے سے اکٹھا ہوتا ہے۔ بڑے بڑےتاجروں کے اوپر کوئی ٹیکسز نہیں۔ محصولات وصول کرنے کے لیے اور جبر کرنے کے لیے عوام الناس ہی رہ گئے ہیں‘ اس پر غور کرنا چاہیے۔
خاص مواقع پر ہمارے حکمرانوں کی طرف سے بڑے پیارے پیغامات جاری ہوتے ہیں۔یکم محرم الحرام حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یومِ شہادت ہے۔ سرکاری پیغامات میں بتایا گیا کہ وہ بڑا سنہرا دور تھا‘ گڈ گورننس مثالی تھی۔ اس سے کس نے انکار کیا ہے ‘ لیکن سوال یہ ہے کہ آپ کیا کر رہے ہو آخر! کیا یہ صرف بیانات دینے کا معاملہ ہے یا آپ کے پاس جو اختیار ہے اس کے مطابق اللہ کے آگے جواب دہ بھی ہو گے؟اسی طرح بتایا جاتا ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا نہایت اعلیٰ بلند مرتبہ ہے کہ کس طرح ظلم و استبداد کے خلاف سینہ سپر ہو گئے‘لیکن خود حکمرانوں نےعوام کی زندگی جس طرح دوبھر کر رکھی ہے‘ اس کے لیے اللہ کو کیا جواب دیں گے؟
لیاری میں عمارت منہدم ہونے کا سانحہ پیش آیااور۲۷ شہادتیں ہو گئیں۔ یہ تو ایک بلڈنگ کا معاملہ ہے‘ایسی کتنی ہی عمارتوں کے ڈیزائن کی ناجائز طریقے پر منظوری دی گئی اور وہ بلڈنگز بن گئیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ جب کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس کے بعد آوازیں اٹھنا شروع ہوتی ہیں اور ضابطے کی کارروائی کا تقاضا کیا جاتا ہے۔
بہرحال ‘یہ میں نے تین امور کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک‘ گستاخوں کے خلاف حکومت کو ایکشن لینا چاہیے۔ یہ ہماری ایمانی غیرت کا تقاضا ہے۔ دوسری بات یہ کہ عوام ہی پر سارے ٹیکسز کا بوجھ ہے۔اشرافیہ اورمعاشرے کے خوش حال طبقات‘ جن میں ہمارے حکمران اور ایلیٹ کلاس بھی شامل ہے‘ ان سے وصولی کے معاملات میں اتنی سرگرمی دکھائی نہیں دیتی‘ بلکہ انہیں مراعات سے نوازا جاتا ہے۔ عام آدمی ایک آسان ٹارگٹ ہے۔ اس سے جتنا وصول کرنا چاہیں گے‘ کر لیں گے۔ یہ ظلم ہے‘جس پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو جواب دینا پڑے گا۔ تیسری بات ایک مخدوش عمارت سے متعلق تھی۔ہم اور آپ اسی شہر کے رہنے والے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس کس طرح غیر قانونی طور پر بلڈنگ بنانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ بنیادی معیارات کا بھی ان میں خیال نہیں رکھا جاتا۔ چنانچہ اس طرح کے معاملات پیش آتے ہیں۔ اگر واقعتاً عمارتیں مخدوش ہو چکی ہیں اور تکنیکی معیار کے مطابق ان کی زندگی مکمل ہو چکی ہےتوپھر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ یہاں کے رہنے والوں کے لیے کوئی متبادل انتظامات کر کے دیے جائیں۔ دینی طبقات سے ایک شکوہ یہ بھی ہوتا ہے کہ باقی سب باتیں ہوتی ہیں لیکن ان معاملات پر کلام نہیں ہوتا‘ یہ معاملات دین سے باہر نہیں ہیں ۔ظلم کہیں بھی ہو‘ ہے تو ظلم ۔ اس کے خلاف ہمیں بات کرنی چاہیے۔ اگر ایک طبقے کو نوازا جا رہا ہو اور عوام الناس کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہو تو یہ بھی ظلم ہے اور اس کے خلاف بھی بات ہونی چاہیے۔ یہ تین مختصر باتیں مجھے آپ کے سامنے رکھنی تھیں۔
اب آئیے آج کے موضوع کی طرف ۔ اسرائیل کو قبول کروانے کی مستقل کوششیں ماضی سے چلی آ رہی ہیں۔ ہمارے پچھلے حکمرانوں پر پریشرز رہے اور کچھ ان میں سے آگے بڑھ بڑھ کر گیت بھی گاتے رہے کہ آخر اسرائیل کو قبول کر لینے میں حرج کیا ہے ۔ اس میں ہمارے فوجی حکمران بھی شامل ہیں اور سول حکمران بھی۔ یہ معاملہacross the board چلتا رہا ہے۔ دبتا ہے اور پھر تھوڑے عرصے کے بعد اس کو دوبارہ اٹھایا جاتا ہے‘ یہ دیکھنے کے لیے کہ مسلمانوں میں کوئی جذبات باقی بھی ہیں یا نہیں۔ جب یہ جذبات ختم ہو جائیں گے اور ان کی روح بالکل مردہ ہو جائے گی تو پھر اسرائیل کو قبول کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی‘ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر پھر گریٹر اسرائیل کے منصوبے بھی بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس تناظر میں ہم چاہیں گے کہ آج کچھ دینی اعتبار سے‘ تاریخی اعتبار سے‘ بانیانِ پاکستان کے بیانات کے اعتبار سے‘ اخلاقی پہلو کے اعتبار سے کلام ہو۔ یہ چیز ہماری یاد دہانی اورlearningکا بھی ذریعہ بنے۔ اگر یہ پریشر ڈویلپ ہو رہا ہے تو پھر ہماری طرف سے آواز اٹھنی چاہیے کہ اسرائیل کو قطعاً قبول نہ کیا جائے۔
خوش نما عنوان کی حقیقت
آج کل’’ ابراہم اکارڈز‘‘ کی بات چل رہی ہے۔ بعض مرتبہ انگریزی زبان میں بہت زیادہ بدتمیزی دکھائی دیتی ہے۔’’ابراہیم‘‘کتنا پیارا نام ہے اور یہ دنیا کی ہر زبان میں معروف ہے ۔ ایک زبان کی خاص اصطلاح ہوتی ہے تو اسی کو دوسری زبان میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن قابل احترام ناموں کو بگاڑا گیا ہے۔ ’’ابراہیم‘‘ کو ’’ابراہم‘‘ کر دیا ہے ۔’’سلیمان‘‘ کو’’ سولمن‘‘ کر دیا ہے۔ بہرحال تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ماننے والے ہیں تو ایک مشترکہ بات کے اوپر اتفاق کر لیتے‘ اس میں حرج کی کیا بات ہے! کتنا شوگر کوٹڈ معاملہ ہے!مجھے انتظار ہے اس بات کا جب کوئی سورہ آل عمران کی آیت۶۴ بھی quote کر دے گا :
{قُلْ یٰٓــاَہْلَ الْکِتٰبِ تَـعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ  بَیْنَنَا وَبَیْنَـکُمْ………}
’’(اے نبیﷺ) کہہ دیجیے: اے اہل کتاب! آئو ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان بالکل برابر ہے…‘‘
کل کوئی یہ آیت ہمیں بھی سنا دے گا کہ قرآن تمہیں کہتا ہے کہ اہل کتاب سے مشترکہ امور پر بات کرو۔اسی طرح اہل کتاب میں سے بھی کوئی اٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ مشترکہ امور پر بات کر لو۔چنانچہ بڑا خوب صورت عنوان دیا گیا ’’ابراہم اکارڈ‘‘ یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ماننے والے مل کر کوئی معاہدہ کر لیں۔ سوال یہ ہے کہ سید نا ابراہیم علیہ السلام کو ماننے والے اصل لوگ کون ہیں؟ آج تو یہودی ‘یہودی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ نصرانی‘ نصرانی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں‘ لیکن سورئہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّلَا نَصْرَانِیًّا وَّلٰــکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًاط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۶۷)}
’’(تمہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ) ابراہیم ؑ نہ تو یہودی تھے نہ نصرانی‘بلکہ وہ تو بالکل یکسو ہو کر اللہ کے فرماں بردار تھے۔اور نہ وہ مشرکوں میں سے تھے۔‘‘
اس آیت کے پس منظر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب رسول اکرم ﷺنے توحید کی دعوت ان لوگوں کے سامنے رکھی تو قرآن نے مشترکہ شخصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تذکرہ فرمایا کہ اللہ کے رسول ﷺ کوئی نئی بات پیش نہیں کر رہے ہیں۔ یہودیو! اگر تم ابراہیم علیہ السلام کو ماننے کا دعوی کرتے ہو ‘نصرانیو! اگر تم ابراہیم علیہ السلام کو ماننے کا دعوی کرتے ہو‘مشرکین! اگر تم ابراہیم علیہ السلام کو ماننے کا دعوی کرتے ہوتومحمد ﷺ زیادہ قریب ہیں ابراہیم علیہ السلام کے۔ آپؐ ابراہیم علیہ السلام کی صحیح تعلیم تمہارے سامنے رکھ رہے ہیں۔ تم یہودی بن گئے اور عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ تم نصرانی بن گئے اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا قرار دے دیا ۔ مشرکین مکہ بھی ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں ہونے کے دعوے دار ہیں مگر۳۶۰ بتوں کی گندگی میں مبتلاہیں۔ اللہ تعالیٰ فرما رہےہیں کہ تمہارے دعوے باطل ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے‘ نہ نصرانی تھے اور نہ مشرک ۔ وہ تو یکسو ہوجانے والے مسلم تھے ۔آگے فرمایا :
{اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰہِیْمَ لَـلَّذِیْنَ اتَّــبَعُوْہُ وَہٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاط} (آل عمران:۶۸)
’’یقیناً ابراہیم ؑ سے سب سے زیادہ قربت رکھنے والے لوگ تو وہ ہیں جنہوں نے اُن کی پیروی کی‘اور اب یہ نبی (حضرت محمدﷺ) اور جو اُن پر ایمان لائے (اس نسبت کے زیادہ حقدارہیں)۔‘‘
محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے والے ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔اگر تم نسل ابراہیم ؑ میں ہونے کی بنیاد پر اپنے آپ کو ابراہیم علیہ السلام کے قریب سمجھتے ہو تویہ نسلی رشتہ تمہارےتعلق کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ تمہارا تعلق اگر ہوگا تو اس بنیاد پر ہوگا کہ تم کیا واقعتاً ابراہیم علیہ السلام کا اتباع کرتے ہو‘ ان کی پیروی کرتے ہو‘ ان کی تعلیمات پر عمل کرتے ہو!چونکہ تم نے وہ سب چھوڑ رکھا ہے تو اب نبی اکرم ﷺ اور ان پر ایمان والے ابراہیم علیہ السلام کے قریب ترین ہیں۔
اسی طرح سورۃالحج کی آخری آیت میں فرمایا:
{وَجَاہِدُوْا فِی اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ط ہُوَ اجْتَبٰـىکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ط مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ ط}(آیت:۷۸ )
’’اور جہاد کرو اللہ کے راستے میں جیسا کہ جہاد کا حق ہے۔اُس نے تمہیں چُن لیا ہےاور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔اپنے جدّ ِامجد ابراہیم ؑکی ملت(پرقائم رہو!)‘‘
یعنی محمد رسول اللہ ﷺکے ماننے والے ابراہیم علیہ السلام کی ملت اور ان کے طریقے پر ہیں ۔ ابراہیم علیہ السلام کی ملت کیا ہے؟ اس حوالے سے سورۃ البقرہ میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗ اَسْلِمْ لا قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱۳۱)}
’’جب بھی کہا اُس سے اُس کے پروردگار نے کہ مطیع فرمان ہو جا‘تو اُس نے کہا: مَیں مطیع فرمان ہوں تمام جہانوں کے پروردگار کا۔‘‘
یعنی ابراہیم علیہ السلام کی ملت‘ آپ ؑ کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کا جو حکم آئے اپنے آپ کو اس کے سامنے جھکا دو۔ سورۃ الحج کی آیت ۷۸ میں آگے فرمایا: {مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰہِیْمَ طتم اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کی ملت یعنی طریقے پر ہو۔{ہُوَ سَمّٰىکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ لا مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ہٰذَا} انہوں نے تمہارا نام مسلم رکھا۔ یہودی نہیں رکھا‘ نصرانی نہیں رکھا‘ مسلم رکھا {وَفِیْ ہٰذَا}اور اس قرآن کریم میں بھی تمہارا یہی نام رکھا گیا ۔
ان آیات کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اصل تعلق نبی اکرمﷺ کا اور ان پر جو ایمان لائے ان کا ہے۔ باقی یہود رہے‘ نصرانی رہے‘ مشرکین رہے‘ انہوں نے تو بگاڑ پیدا کر دیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم سے علیحدہ ہوگئے۔ محمد رسول اللہ ﷺنے آکر ابراہیم علیہ السلام کی اصل تعلیم کو تمہارے سامنے پیش کیا ۔ اب ان پر ایمان لاؤ گے تو واقعتاً ابراہیمی قرار پاؤ گے‘ واقعتاً مسلم قرار پاؤ گے۔ اس سے کم تر پر تم ابراہیمی ہونے کا دعوی کرو تو یہ بات درست نہیں ہے ۔چنانچہ یہ جو اس وقت شوشہ چھوڑا گیا جو کہ پہلے بھی چھوڑا گیا تھا‘ ۲۰۱۹ء سے اس کی کوششیں شروع ہوئیں‘ ٹرمپ کے پہلے دور میں‘اب یہ دوسرا دور ہے ٹرمپ کی صدارت کا اور ’’ابراہم اکارڈز‘‘ کے نام سے مسلم ممالک کو لالی پاپ دے کر‘سرمایہ کاری اور کاروبار کے نام پر اس معاہدے میں جکڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسرائیل کو قبول کیا جائے‘جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ہرگز قبول نہیں کیا جانا چاہیے ۔یہ وضاحت تو ہو گئی ’’ابراہم اکارڈ‘‘ کے لفظ ابراہیم کے تعلق سے کہ یہ بات بڑے شوگر کوٹڈ انداز میں پیش کی جا رہی ہے‘ حالانکہ یہود اور نصاریٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات پر نہیں ہیں۔ آج اگر کوئی ہے تو وہ محمد رسول اللہﷺ کی امت ہے کہ جو ملت ابراہیم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر قائم ہے ۔
قومی پس منظر
اب تھوڑا سا پس منظر اس بات کا میں آپ کے سامنے رکھوں کہ ہر تھوڑے عرصے میں یہ پھلجھڑیاں ہمارے یہاں چھوڑی جاتی ہیں ۔ہمارے ایک سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو کہا گیا کہ قائد اعظم نے تو کہا تھا کہ اسرائیل مغرب کا ناجائز بچہ ہے اور ہم اسے ہر گز قبول نہیں کر سکتے ‘تو کاکڑ صاحب نے کہا کہ اگر قائد اعظم نے کوئی بات کہہ دی تو وہ کوئی نبی تھوڑی تھے! یعنی اتنی بے باکی کے ساتھ بات کی۔پہلے دن سے ریاست کی ایک پالیسی چلی آ رہی ہے۔ ہم کب کہہ رہے ہیں کہ قائداعظم نبی تھے‘مگر یہ تو بتایا جائے کہ پاکستان کی پالیسی کب تبدیل ہوئی ہے! یہ کس پارلیمنٹ میں تبدیل ہوئی؟ کس جگہ تبدیل ہوئی ہے؟ ہمارے پاسپورٹ پر لکھا ہوا ہے کہ یہ اسرائیل کےلیےvalid نہیں ہے ۔ پالیسی کس نے تبدیل کر دی ؟ پھر این جی اوز کے ذریعے سے رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔فن کاروںاور گلوکاروں کو اسرائیل کا دورہ کرایا جاتا ہے ۔ماضی میں ایک دو دینی شخصیات کو بھی کروا دیا گیا تو ان کی زبان پر بھی بات آ گئی۔ ماضی کے ٹاک شوز میں بھی باتیں آ گئیں۔ ہمارے ایک بلکہ دو آرمی چیفس کی باتیں بھی زبان پر آ گئیں کہ اگر ہم اسرائیل کو قبول کر لیں تو یہ فوائد حاصل ہوں گے‘ ایسا ہوگا اور ویسا ہوگا ۔
اس سے آگے بڑھ کر سعودی عرب کے ولی عہد جناب محمد بن سلمان نے ’’فاکس نیوز‘‘ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ کی مدد سے سعودی عرب اور اسرائیل باہمی تعلقات قائم کرنے کے انتہائی قریب آ چکے ہیں ۔بات یہاں تک چلی گئی۔اس امر سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ سعودیہ کے اسرائیل کو قبول کرنے کا انتظار بہت سے مسلم ممالک کو ہے ۔ شاید ہمارے حکمران بھی سعودیہ کےکندھے پر رکھ کر بندوق چلانا چاہیں گے۔یہ انٹرویو ۷ / اکتوبر۲۰۲۳ء کو حماس کے اسرائیل پر حملہ سے پہلے دیا گیا تھا۔ حماس نے دیکھا کہ سارے مسلم ممالک اسرائیل کو قبول کرنے کے لیے دب جائیں گےتو پھر مسجد اقصیٰ کےcause کے لیے کھڑا کون ہوگا ! اس کی حرمت اور حفاظت کے لیے کون کھڑا ہوگا؟ تب حماس نے یہ اقدام کیا تھا۔ ہمارے ذہن میں تھوڑی سی تاریخ رہنی چاہیے۔
دینی نقطہ نظر
قرآن کریم کے آغاز میں سورۃ الفاتحہ ہے ‘جس کی تلاوت ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں کرتے ہیں۔اس سورت کے آخر میں ہم پڑھتے ہیں :{صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ۵ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ o} ’’اے اللہ! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تیرا انعام ہوا ‘ جن پر تیرا غضب نہیں ہوا اور وہ گمراہ نہیں ہوئے!‘‘ یہ غضب کس پر ہوا ہے ؟سورۃ البقرہ میں ذکر ہے کہ یہود پر اللہ کا غضب ہوا۔ مسند احمد میں اللہ کے رسولﷺ کی واضح حدیث ہے کہ آپﷺ نے فرمایا’’ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں‘‘۔ ہمیں تو ہر نماز کی ہررکعت میں یاد دلایا جا رہا ہے کہ یہود کے راستے پر نہ چلنا کیونکہ یہ وہ قوم ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہوا ہے۔ہر نماز کی ہر رکعت میں مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی جا رہی ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت ۸۲ ان دنوںبار بار پیش کی گئی ہے کہ:
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج }
’’تم لازماًپائو گے ا ہل ایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
دورِ نبویﷺ میں بھی یہود اور مشرکین کا گٹھ جوڑ تھا۔ آج بھی یہود اور ہنود‘جو موجودہ دور کےمشرک ہیں‘ ان کا گٹھ جوڑ موجود ہے۔ نیتن یاہو اورنریندر مودی پاکستان کے بارے میں ایک ہی پیج پر ہیں ۔قرآن کریم بتاتا ہے کہ اسلام دشمنی میں ‘مسلمانوں کی دشمنی میں‘ ایمان والوں کی دشمنی میں تم سب سے بڑھ کر دشمن یہود کو پاؤ گے اور وہ جنہوں نے شرک کیا۔ اسی طرح جب ہم سورۃ البقرہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ڈیڑھ سو آیات کے بعد نبی اکرم ﷺ کی امت سے براہ راست خطاب ہوتا ہے۔ مشہور آیت ہے:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِط} (البقرۃ:۱۵۳)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو۔‘‘
سورۃ البقرہ کاکم و بیش ایک بڑا حصہ جو تقریباً۱۰ رکوعوں اور۱۵۰ آیات پر مشتمل ہے‘ وہ بنی اسرائیل کے بارے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دور میں ان کو فضیلت دی تھی۔ قرآن مجید میں سورۃ البقرۃ کی آیت ۴۷اور آیت ۱۲۲ میں فرمایا گیا:
{وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(۴۷)}
’’اور یہ کہ میں نے تمہیں فضیلت عطا کی تمام جہانوں پر۔‘‘
ہزاروں انبیاء آئے‘ کتابیں آئیں‘ بادشاہت ملی۔ پھر کیا ہوا ؟ یہی لوگ تھے جنہوں نے کتاب کو پس ِپشت ڈالا۔سورۃ البقرۃ کی آیت۱۰۱ کے مطابق:
{نَــبَذَ فَرِیْقٌ مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ ق کِتٰبَ اللہِ وَرَآئَ ظُہُوْرِہِمْ}
’’ اہل ِکتاب کی ایک جماعت نے اللہ کی کتاب کو پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا۔‘‘
یہی لوگ ہیں جنہوں نےانبیاء کوشہید کیا ۔یہی لوگ ہیں جن کے علماء نے اللہ کی کتاب میں تبدیلیاں کی ‘ تحریف کی اور دنیا کمائی۔ یہود ہی کے بارے میں قرآن حکیم کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے جرائم کی وجہ سے ان پر اپنا غضب نازل کیا۔ سورۃ البقرۃ کی آیت ۶۱کی رُو سے:
{وَضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّــۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ ق}
’’اور ان پر ذلت و خواری اور محتاجی و کم ہمتی تھوپ دی گئی۔‘‘
پھر ان کو معزول کیا گیا۔ پہلے یہ اُمّت ِمسلمہ تھے۔ انبیاء کرام ؑکے مشن میں شریک کیے گئے تھے۔ اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈالنا‘ انبیاء کو شہید کرنا‘ وعدوں کوبار بار توڑنا‘ اللہ کی مسلسل نافرمانی کرنا‘ اللہ کے دین کے حصے بخرے کرنا‘ اللہ کی کتاب کے ایک حصے کو ماننا اور ایک حصے کو نہ ماننا‘انسانیت کے ساتھ ظلم و ستم کا معاملہ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کےاتنے جرائم گنوائے اور پھر ان کو معزول کر کے رسول اکرم ﷺ کے متبعین کو اُمّت ِمسلمہ قرار دیا۔ یہ بات سورۃ البقرہ کی آیت۱۴۳ میں بیان ہوئی ہے۔ بیت المقدس پہلے مسلمانوں کے لیے بھی قبلہ تھا‘ اب اس کی جگہ بیت اللہ کو قبلہ معین کیا گیا۔ یہ ایک علامت تھی کہ اُمت تبدیل ہو گئی ہے۔ قرآن کریم فرما رہا ہے:
{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّـتَـکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ} (البقرۃ:۱۴۳)
’’اور (اے مسلمانو!) اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک اُمت ِوسط بنایا ہے‘ تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو۔‘‘
یہ جو’’ ابراہم اکارڈ‘‘ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کر کےملفوف انداز میں مشترکات کی باتیں کی جا رہی ہیں‘ قرآن کریم سے رجوع کرنے پر پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امتحانات سے گزار کر منصب امامت عطا فرمایا تو انہوں نے عرض کیا: یا اللہ !میری اولاد کو بھی امامت کا منصب ملے گا ؟اس پر فرمانِ الٰہی ہوا:
{ لَا یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ(۱۲۴)} (البقرۃ)
’’میرا یہ عہد ظالموں سے متعلق نہیں ہو گا۔‘‘
آپ کی نسل میں جو ظالم ہوں گے ‘ ان کے لیے امامت کا وعدہ نہیں ہے۔یہ اُس وقت بھی ظالم تھے‘ آج بھی ظالم ہیں۔ہمارے استاد ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے ایک بہت عمدہ خطاب فرمایا تھا‘ جس کا عنوان تھا: ’’انسانیت کے سب سے بڑے دشمن۔‘‘اس کا حاصل یہ ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے۔ اسے حسد ہوا پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام سے۔ اس حسد کی وجہ سے وہ بنی آدم کا دشمن بنا۔ آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے یہود کو حسد ہوا‘ وہ انسانیت کے دشمن ہیں۔ اپنے علاوہ دوسروں کو وہ gentilesکہتے ہیں۔ دوسروں کو قتل کرنا‘ مار دینا ان کی سرشت میں موجود ہے ۔ ان کے جملے ایسے ہیں کہ جن کو پڑھ کر انسان کانپ جائے۔ اسرائیل کے وزراءاور مذہبی پیشوائوں کے فلسطینیوں کے بارے میں بیانات ہیں کہ ان کو مار دیا جائے‘ ان کو اڑا دیا جائے ‘ ان کو تباہ کر دیا جائے‘ ان کو قتل کر دیا جائے ‘ ان پر ایٹم بم برسا دیا جائے‘ کسی طرح ان کو ختم کر دیا جائے۔غزہ کی رہائشی ایک بچی کو۲۵۵ گولیاں ماری گئی ہیں۔ اللہ اکبر کبیرًا! کیا یہ لوگ انسان کہلانے کے مستحق ہیں؟ یہ ظالم ہیں اور اللہ کا فیصلہ ہے کہ ظالموں کے لیے امامت کا میرا کوئی وعدہ نہیں۔ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام کو استعمال کر کے یہ ہمارے ذہن کو خراب کر رہے ہیں ۔
یاد رکھیے کہ ہمارے لیے تمام انبیاء کرام علیہم السلام قابل ادب و احترام ہیں۔اگر ہم ایک کابھی انکار کریں تو مسلمان نہیں ہو سکتے۔ ہمیں سب کو ماننا ہے:{ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف} ’’ ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی ایک میں بھی تفریق نہیں کرتے۔‘‘ لیکن ہمارے لیے شریعت اب محمد رسول اللہﷺ کی چلے گی ۔ تمام انبیاء کرام واجب الاحترام ہیں‘ البتہ واجب الاتباع صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ بابرکات ہے۔ فقہاء اور اصولِ دین مرتب کرنے والے علماء نے ایمان کی تعریف میں بڑا قیمتی جملہ ہمیں عطا کیا: تصدیق بما جاء بِہِ النبُّی ﷺ کہ ایمان یہ ہے کہ جو خبر محمد ﷺنے عطا فرمائی اس کی تصدیق کرنا۔ آپ کا‘ میرا ایمان اس بات پر موقوف ہے ۔ آپ اور میں سابقہ انبیاءکرام کو بھی اس لیے مانتے ہیں کہ محمدرسول اللہ ﷺ نے ایسا بتایا ہے۔ قرآن حضور ﷺکی زبان سے ہمیں ملا۔انہی اہل کتاب کے بارے میں قرآن کہتا ہےکہ تمہارے لیے مسلم نام رکھا گیالیکن تم نے یہود نام رکھ لیا‘ نصاریٰ نام رکھ لیا۔ انہوں نے تو خود اپنے آپ کو بیک فٹ پر ڈال دیا۔ وہ مسلمان رہنا ہی نہیں چاہتے ۔ یہ یہودیت چاہتے ہیں‘ نصرانیت چاہتے ہیں۔ بگاڑ والی چیزیں چاہتے ہیں۔ اصل دین انہوں نے چھوڑ دیا۔ چنانچہ’’ ابراہم اکارڈ‘‘ کے نام سے مشترکات کی بات کرنا درحقیقت ہمارے عقیدے کو چیلنج کرنے والے معاملات بھی ہیں۔ اس کے بارے میں ہمیں چوکنا رہنا چاہیے۔
تاریخی حوالہ جات
رسول اللہ ﷺ کے دور میں یہود اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے۔ انہوں نے بڑی سازشیں کیں ‘ یہاں تک کہ حضور ﷺ کو شہید کرنے کا ناپاک منصوبہ بھی بنایا ‘ معاذ اللہ! غزوئہ احزاب کے موقع پر۱۰ سے۱۲ ہزار کا لشکر پورے عرب سے آیاجس کے لیے ساری محنت کرنے والےیہی یہود تھے۔ چنانچہ رسولِ اکرم ﷺ نے ان کی سازشوں پر مدینہ منورہ سے بھی ان کو نکالا۔ان کے جو تین قبائل تھے بنو قینقاع‘ بنو قریظہ اور بنو نضیر ان کو ایک ایک کر کے اللہ کے رسول ﷺ نے مدینہ منورہ سے نکالا۔جب یہ خیبر میں جمع ہوکر وہاں سے بیٹھ کر سازشیں کرتے تھے تو خیبر کے یہود کے خلاف بھی رسول اللہ ﷺ نے اقدام فرمایا تھا۔ اس معاملے کو سمجھنے کے اعتبار سے یہ ہمارا دینی پیراڈائم ہے۔
اسی طریقے پر مسجد اقصیٰ کی حرمت کے حوالے سے یہ بات ہم نے بار بار بیان کی کہ تین مسجدوں کی نیت کر کے شد رِحال کیا جا سکتا ہے۔ وہ تین مسجدیں ہیں: مسجد حرام‘ مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ ہمارے لیے یہ تینوں حرم ہیں۔اسرائیل کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہےکہ مسجد اقصیٰ پر بھی ان کی حاکمیت تسلیم کر لی جائے گی۔ مسجد ِحرام‘ مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ تو بڑی بات‘ کیا ایک عام مسجد کے کسی ایک انچ پر بھی کسی کا قبضہ مسلمان گوارا کر سکتا ہے ؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کوئی تصور کر سکتا ہے کہ کوئی حرم مکہ پر قبضہ کر لے اور اس قبضے کو ہم قبول کر لیں؟ مسجد نبوی ہمارے لیے حرم ہے‘ اس پر کوئی قبضہ کر لے تو کیا ہم قبول کر سکتے ہیں ؟ مسجد اقصیٰ ہمارے لیےحرم ہے ‘ اس پر کوئی قبضہ کر لے کیا کوئی مسلمان قبول کر سکتا ہے؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دینی معاملات کے اعتبار سے ہمیں یہ clarity رہنی چاہیے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جب عیسائیوں نے بیت المقدس کا انتظام و انصرام مسلمانوں کے حوالے کیا تو اس شرط پرکہ یہودی یہاں پر نہیں رہیں گے۔ سیدنا عمرفاروقؓ نے ان کی یہ شرط قبول کی کہ یہاں آباد نہیں ہو سکتے‘ بس زیارت کرنے کو آئیں اور چلے جائیں۔ یہود کا بھی اس سے تعلق تو ہے۔ البتہ یہ معاملہ کہ بیت المقدس اوراس کے گردو نواح میں یہود کو آباد ہونے کی اجازت نہیں ہے‘ سیدنا عمر فاروقؓ کے دور سے طےہے۔اس کا مطلب ہےکہ یہاں کسی اور کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی تولیت اور اس کا انتظام مسلمانوں کے پاس ہوناچاہیے۔
اب تین احادیث سنیں۔ یہ بات دینی پیراڈائم میں ہے۔ پہلی روایت مسلم شریف میں ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ تم جزیرۃ العرب میں جہاد کرو گے۔جہاد یہاں قتال کے معنی میں ہے۔ فرمایا:’’ تم جزیرۃ العرب میں جہاد کرو گے اور اللہ فتح عطا فرمائے گا۔‘‘چنانچہ سر زمین عرب پر جہاد ہوا‘ قتال ہوااور اللہ کا دین غالب ہوا۔ آگے فرمایا:’’پھر فارس سے جہاد کرو گے‘ اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا۔ پھر روم سے جہاد کرو گے‘ اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا۔‘‘تاریخ شاہد ہے کہ خلفاء راشدین کے دور میں یہ علاقے بھی مسلمانوں کو مل گئے۔ اس کے بعد فرمایا :’’ پھر تم دجال سے جہاد کرو گے‘ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف بھی فتح عطا کرے گا‘‘۔ غور کیجیے کہ دجال نے اسی علاقے میں آنا ہے۔ وہ یہود کا لیڈر بن کر آئے گا۔ اس سے لڑنے کے لیے فوجوں نے خراسان کے علاقے سے جس میں پاکستان کا شمالی علاقہ بھی شامل ہے‘ جانا ہے۔لہٰذا ابھی دجال سے تو قتال باقی ہےجبکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے خلاف بھی فتح عطا فرمائے گا۔
اگلی روایت بھی مسلم شریف کی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:’’ قیامت قائم نہیں ہوگی حتیٰ کہ مسلمان یہودیوں سے قتال کریں گےاور مسلمان انہیں قتل کریں گے۔ اس وقت اگر کوئی یہودی پتھر اور درخت کے پیچھے چھپے گا تو وہ پتھر اور درخت پکار کر کہے گا: اے مسلمان! اللہ کے بندے ! یہ یہودی میرے پیچھے ہے‘ آؤ اور اسے قتل کرو‘ البتہ غرقد کا درخت نہیں کہے گا۔‘‘ اسرائیل میں بڑے پیمانے پر غرقد کی پلانٹیشن ہوئی ہے۔ ہم لوگ نہیں پڑھتے‘ وہ پڑھے بیٹھے ہیں۔ ہمیں چیزیں مستحضر نہیں یا بیان نہیں ہوتیں لیکن انہیں اچھی طرح پتہ ہے۔اس حدیث کاعملی مظاہرہ ابھی باقی ہے ۔ یہ اللہ کے رسول ﷺ کی واضح حدیثیں ہیں۔
اگلی حدیث جامع ترمذی میں ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا :’’ خراسان سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے‘ انہیں کوئی نہیں روک سکے گا یہاں تک کہ انہیں بیت المقدس میں نصب کیا جائے گا۔ ‘‘ اگر بار بار اسرائیل کے قبول کرنے کی بات آئے گی تو ہم اہل پاکستان کو بار بار خراسان یاد دلائیں گے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں خراسان کا علاقہ ایران کے کچھ حصے‘ افغانستان کے بیشتر حصے اور پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر مشتمل تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ یہاں سے سیاہ جھنڈے نکلیں گے۔ یعنی لشکر نکلیں گے جن کے جھنڈوں کا رنگ سیاہ ہوگا اور وہ جناب مہدی کی نصرت کو جائیں گے۔ جناب مہدی کی نصرت بھی ہوگی‘حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی تشریف لائیں گے اور دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوگا۔ مستقبل میں جو فوجوں نے اِدھر سے جانا ہے تو اِدھر والے کیا اسرائیل کو قبول کریں گے؟ وہ تو یہود کو قتل کریں گے‘ مسجد اقصیٰ کو آزاد کرائیں گے۔ اللہ کے دین کو غالب کریں گے۔اس چیز کو سوچیں۔ اس حوالے سے ہماری سوچ بالکل واضح ہونی چاہیے۔نئی نسل کے دل و دماغ میں یہ بات بیٹھنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا یقین عطا فرمائے!
پاکستانی موقف
پاکستان کے موقف کے حوالے سے بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھے کہ پاکستان علاج ہے اور اسرائیل مرض ہے۔ علاج پہلے آیااگست۱۹۴۷ء میں جبکہ مرض کا ظہور ہوا مئی۱۹۴۸ء میں۔یہ بات قائد اعظم نے پہلے دن سے ہمیں سمجھا بھی دی ہے۔پاکستان کے ایک انگریزی اخبار’’ٹریبیون‘‘ کی ۲۲نومبر۲۰۲۳ء کی اشاعت میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ برطانیہ میں منعقدہ ۱۹۳۹ء کی گول میز کانفرنس میں قائداعظم نے ایک وفد بھیجا کہ مفتی اعظم فلسطین محترم امین الحسینی صاحب کو قائد اعظم کا یہ پیغام پہنچایا جائے کہ برطانیہ کا وائٹ پیپر جس میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی بات کی گئی‘حقائق کےمنافی ہے۔ یہی برطانیہ تھا جس نے۱۹۱۷ء میں بالفور ڈیکلریشن کے ذریعے یہود کو یہاں آباد کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ قائداعظم نے زور دے کر کہا کہ وہاں صرف ایک ہی ریاست قائم ہونی چاہیے اور وہ فلسطینی ریاست ہے۔ وہاں فلسطین کے مسلمانوں کی اکثریت ہے۔لہٰذا آل انڈیا مسلم لیگ اسی کی حمایت کرتی ہے اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتی ہے۔آج دوریاستی حل کی باتیں ہو رہی ہیں جبکہ قائدا عظم نےواضح طور پر کہا کہ ایک ہی فلسطینی ریاست ہونی چاہیے ۔
’’قرارداد لاہور‘‘ ۱۹۴۰ء میں پاس ہوئی تھی‘اس کا نام’’ قرارداد پاکستان ‘‘بعد میں رکھا گیا۔۲۳ مارچ۱۹۴۰ء کے جلسے کی صدارت قائد اعظم نے کی اور سب سے پہلے فلسطین کی واحد ریاست کا مطالبہ پیش کیا گیا۔ اس کے بعد’’ قراردادلاہور‘‘ پیش کی گئی کہ برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کا ایک الگ ملک ہونا چاہیے۔ حامد میر صاحب نے ہماری کانفرنس میں بہت عمدہ بات کہی تھی کہ فلسطین کی محبت‘ مسجد اقصیٰ کی محبت اور یہ ایشو ہمارے ڈی این اے میں شامل ہے۔ جس دن ہم’’ قراردادِ لاہور‘‘ پیش کر رہے تھے جو مستقبل میں ’’قرارداد پاکستان‘‘ قرار پائی‘ اسی دن ایک آزاد فلسطینی ریاست کی قرارداد بھی پیش ہو رہی تھی۔ قائد اعظم نے اسرائیل جو کہ۱۹۴۸ء میں قائم ہوا‘ اس کے قیام سے پہلے کہہ دیا تھا کہ جب تک ایک بھی مسلمان مرد اور عورت زندہ ہے‘ اسرائیل کے وجود کا کوئی جواز قابل قبول نہیں ہے۔ اسرائیل کے قائم ہونے کے بعد قائداعظم نے کہا تھا کہ یہ مغرب کا ناجائز بچہ ہے‘ جو ظلم کی بنیاد پر‘ غاصبانہ طور پر اور بدمعاشی کی بنیاد پر برطانیہ اور امریکہ کی کوششوں سے قائم ہوا ہے۔
اب کہا جا رہا ہے کہ اگر اسرائیل کو قبول کر لیں تو بڑے معاشی فوائد ملیں گے۔ ٹرمپ کے نمائندےعربوں کو اپنا کیس پیش کرتے ہیں کہ اگر تم اسرائیل کو قبول کر لو تو اتنی انویسٹمنٹ ہوگی۔پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان امریکہ کے سرکاری دورے پر گئے تو یہود نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ ان کی نگاہ بڑی دور تک دیکھتی ہے۔ میزبان نے تقریر کے دوران کہا کہ اگر پاکستان اسرائیل سے تعلقات قائم کر لے تو ہم پاکستان کو ناقابل یقین حد تک فوائد پہنچائیں گے۔لیاقت علی خان نے کہا کہ: Gentlemen! Our souls are not for sale.تم چند ٹکے دے کر ہمارا عقیدہ اور ہماری ایمانی غیرت خریدنا چاہتے ہو۔ یہ تھی ریاست پاکستان کی سرکاری پالیسی۔ آج اِدھر اُدھر سے ہمیں منوانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
ہمارے استاد ڈاکٹراسرار احمدؒ فرماتے تھے : عرب ممالک تو کیا‘اگر ساری دنیا بھی اسرائیل کو قبول کر لے تو پاکستان ایسا کبھی نہ کرے ۔ہمارے ڈی این اے میں اسرائیل کی مخالفت ہے۔ ہماری فوجوں نے کل وہاں قتال کرنا ہے۔ ہم نے جناب مہدی کا ساتھ دینا ہے ۔ ہم نے اقصیٰ کی حفاظت کرنی ہے۔ ہم نے ان ظالموں کو ختم کرنا ہے۔اسرائیل کو قبول کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر بالفرض اس ظالمانہ ریاست کو ہم قبول کرتے ہیں‘ اس ناجائز قبضے کو ہم قبول کرتے ہیں تو کل کشمیر کا مقدمہ کیسے لڑ سکیں گے! کشمیر پر بھارت کے قبضے کے خلاف کیسے بات کر سکیں گے؟ہم سمجھتے ہیں کہ ان بنیادوں پر ہمیں بات چلانی چاہیے۔ ہم تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے مسلسل بات کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی کریں گے۔ پبلک فورمز پر بھی کریں گے ۔ اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ہم عوام سے‘ علماء سے‘ دینی ہی نہیں سیاسی جماعتوں سے بھی کہیں گے اور حکمرانوں سے بھی کہیں گے کہ اپنے اس موقف کا دوبارہ جائزہ لے لیں۔ پاکستان کے لیے اسرائیل کو قبول کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
وآخردعوانا ان الحمد للّٰہ ربِّ العالمین!