(تذکرہ و تبصرہ) نئے تجارتی معاہدات اور امریکہ سے توقعات - شجاع الدین شیخ

10 /

نئے تجارتی معاہدات اور امریکہ سے توقعاتشجاع الدین شیخگزشتہ کئی دنوں خصوصاً ایران اسرائیل جنگ کے تھم جانے اور نیا مالی سال شروع ہونے کے بعد سے ہمارے ہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت اچھی ہوگئی ہے یا ہو رہی ہے یا ہو جائے گی۔پاکستان کی معیشت اچھی ہونا کسی بھی محب وطن کے لیے بڑی خوش خبری ہے مگر کوئی بھی عقل مند یہ بات تسلیم نہیں کرسکتا کہ کوئی شخص اپنے گھر کا قیمتی سامان اونے پونے بیچ کر سمجھے کہ اُس کے مالی حالات بہتر ہوگئے ہیں اور حاصل ہونے والی رقم کو اللوں تللوں میں لُٹا دے۔ ایک عرصے سے پاکستان کے عوام کو یہ بتایا جارہاہے کہ پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل مل اور اِس طرح کے کئی اور ادارے مسلسل نقصان میں جارہے ہیں‘ اِس لیے اِن کو بیچ دینا ہی ملکی مفاد میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن اداروں کی وجہ سے پاکستان کے ایک’’ دوست‘‘ ملک کو تکلیف ہے کہ اگر یہ ادارے ٹھیک طرح سے کام کرنے لگ گئے تو پاکستان پر اُس کی گرفت کمزور پڑ جائے گی یا وہ اُس کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ماضی میں ’’Absolutely Not‘‘ سن کر پاکستان اُس کے ہاتھ سے نکل ہی گیا تھا مگر نئے حکمران اُس صورتحال کو بدلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔
تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وفاقی حکومت نےاگلے پانچ سال میں تین مراحل میں ۲۴سرکاری اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کرلیا ہے۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر نج کاری عبدالعلیم خان نے اِس حوالے سے تفصیلات پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پہلے مرحلے یعنی ایک سال کے دوران میں ۱۰ اداروں‘ پی آئی اے‘ روزویلٹ ہوٹل ‘ فرسٹ ویمن بینک ‘ہا ؤس بلڈنگ فنانس کا رپو ریشن ‘ زرعی ترقیاتی بینک ‘ پا کستان انجینئرنگ کمپنی ‘ سندھ انجینئرنگ لمیٹڈ ‘ اسلام آ باد الیکٹرک کمپنی‘فیصل آباد الیکٹر ک کمپنی اور گوجرانوالہ الیکٹر ک کمپنی کی نج کاری ہوگی۔دوسرا مرحلہ جو ایک سے تین سال تک ہوگا‘ اس میں ۱۳اداروں پا کستان ری انشورنس کمپنی لمیٹڈ‘ اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن ‘ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن‘ جام شورو پاور کمپنی لمیٹڈ ‘سنٹرل پاور جنریشن کمپنی لمیٹڈ ‘ ناردرن پاور جنریشن کمپنی‘لاکھر اپاور کمپنی‘لاہور الیکٹرک کمپنی ‘ملتان الیکٹرک کمپنی‘ ہزارہ الیکٹرک کمپنی‘حیدرآباد الیکٹرک کمپنی‘ پشاور الیکٹرک کمپنی‘سکھر الیکٹرک کمپنی کی نج کاری ہوگی۔ تیسرا مرحلہ جو تین سے پانچ سال پر مشتمل ہوسکتا ہے‘ اس میں آخری ایک ادارے پوسٹل لائف انشورنس کمپنی کی نج کاری کی جائے گی۔
کچھ دن پہلے یہ خبر بھی آئی تھی کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان پرٹیرف ۲۹ فیصد سے کم کرکے ۱۹فیصد کردیا ہے جبکہ انڈیا کا ٹیرف ۲۵فیصد کردیا ہے۔ اس پر ہمارے ہاں ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ انڈیا میں مہنگائی بہت زیادہ ہوجائے گی‘ وہاں پیٹرول نہیں ملے گا اور پاکستان تیل نکال کر بھارت کو برآمد کیا کرے گا۔ وزیر مملکت برائےخزانہ کاکہناہے کہ امریکا سے معاہدے کے بعد پاکستان کو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ٹیرف ملا ہےجس سے یقیناً ہماری برآمدات میں اضافہ ہوگا۔
صدرٹرمپ کا یا امریکہ کا پاکستان پر اچانک مہربان ہوجانا حقیقت میں باعث ِ مسرت نہیں بلکہ باعث ِ تشویش ہے۔ آج سے تقریباً ۵دہائیاں قبل سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے امریکی خارجہ پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کا دشمن تو اُس سے بچ سکتا ہے لیکن اُس کا دوست اُس سے نہیں بچ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے امریکہ سے تعلقات بلکہ غلامی کی ۷۸ سالہ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ امریکہ نے ہراہم موڑ پر پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے۔ لہٰذا امریکہ کے پاکستان پر اچانک مہربان ہو جانااور فیلڈ مارشل صاحب کا چند ہفتوں کے وقفے سے دوبارہ امریکہ کا دورہ کرنا ملک و ملت کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
امریکہ پاکستان میں موجود قیمتی اور نایاب معدنیات خصوصاً تانبے کے ذخائر پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ ہمیں ہرگز یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی خارجہ پالیسی کے دو اہم ستون ہیں : ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی ہر قیمت پر غیر مشروط مدد کرنا اور دنیا بھر میں اپنی اجارہ داری کو قائم کرنا۔ بھارت چونکہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے دیے گئے اہداف کو پورا نہ کر سکا اِس لیے آج بظاہر اُن کے زیرِ عتاب ہے۔
دوسری طرف ایرانی صدر کا دو روزہ دورۂ پاکستان حقیقتاً پاکستان اور ایران دونوں کے لیے انتہائی خوش آئند ہے ۔ اِس دورے کے دوران کل ۱۲ معاہدات طے پائےجن کے اثرات وقت آنے پر ظاہر ہوں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ اِس دورہ کے دوران وزیراعظم پاکستان نے ایران کے پُرامن جوہری توانائی کے حصول کے حق کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ سراہا بھی۔ دوسری طرف ایرانی صدر کا یہ کہنا کہ’’متحد رہنے سے ہی ہماری خودمختاری قائم رہے گی‘‘ ایک حوصلہ افزا پیغام ہے۔ ہم ہمیشہ سے پاکستان‘ایران اور افغانستان کے درمیان اتحاد کی بات کرتے آئے ہیں۔ ان میں سے دو ممالک کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا‘ اس خواب کی دوتہائی تکمیل سمجھا جاسکتا ہے۔
امریکہ سے معاہدے تجارتی ہوں یا فوجی ‘اُن سے فائدہ ہمیشہ امریکہ یابعض اوقات معاہدہ کرنے والی پاکستانی ٹیم نے ہی اُٹھایا ہے جبکہ وطن عزیز نےہمیشہ نقصان ہی اُٹھایا ہے۔
اگلے چند ہفتوں میں پاکستان‘ چین اور بھارت کے سربراہان کی ملاقات متوقع ہےجس سے خطے میں کوئی اہم پیش رفت بھی ہو سکتی ہےبشرطیکہ مودی کشمیر اور خود بھارت میں مسلم دشمن پالیسیوں اور امریکہ و اسرائیل کے ساتھ اتحاد سے تائب ہو جائے‘ جس کا امکان بہت کم ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو امریکہ یا کسی بھی اور سپر پاور سے توقعات وابستہ کرنے کی بجائے خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ معدنی وسائل کی تلاش کے لیے امریکہ سے کیے جانے والے معاہدوں میں بھی شاید ہی کوئی شِق پاکستان کے مفاد میں لکھی گئی ہو ‘ورنہ تو ہمیشہ سے ’’چَت بھی میری اورپَٹ بھی میری ‘اَنٹا میرے باپ کا‘‘ والا حساب ہی رہا ہے۔ پاکستان بھی دو کشتیوں کا سوار بننے کی بجائے عالمی جنوب (Global South) کے ساتھ جُڑے رہنے کا اصولی فیصلہ کرے تو اچھا ہے۔
غزہ‘ کشمیر اور دیگر مسلم ممالک میں دشمن قوتوں کا ظلم و ستم روکنے کا اصل اور دیرپا حل تو یہ ہے کہ مسلم ممالک میں اتحاد و اتفاق پیدا ہو ۔ یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب نسل‘ رنگ اور دیگر عصبیتوں سے بالاتر ہو کرتمام ۵۷مسلم ممالک قرآن و سنت کو اپنا امام بنا کر اُن سے جڑ جائیں اور دین کے نفاذ کے لیے تن من دھن لگا دیں۔ اِسی میں پاکستان کی بقا اور سلامتی بھی مضمر ہے۔ اگر مسلمان ممالک اب بھی جسد ِ واحد کی صورت اختیار نہیں کرتے تو طاغوتی قوتیں ایک ایک کرکے انہیں نیست و نابود کر دیں گی اور اِس حوالے سے ایران کے بعد اگلی باری پاکستان کی بھی آسکتی ہے۔ اس کی ایک کوشش حال ہی میں بھارت نے امریکہ اور اسرائیل کی مدد سے’’ آپریشن سندور‘‘ کی صورت میں کی‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے پاکستان نے دشمنوں کو ہزیمت ناک شکست دی۔ اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے دین متین کے مطابق فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!