جاہلیت ِقدیمہ اور جاہلیت ِجدیدہ کا امتزاجایوب بیگ مرزا
حیرت کی بات ہے کہ آج کی دنیا خود کو مہذب کہتی ہے اور بڑی بڑی محفلوں میں کہا اور سنا جاتا ہے کہ آج کے تہذیب یافتہ‘ ترقی پسند اور مہذب معاشرے میں فلاں انوکھا واقعہ ظہور پزیر ہوا ہے۔ پرانے زمانے اور ماضی بعید کے معاشروں کی جاہلیت کا ذکر بڑی نفرت سے کیا جاتا ہے۔ راقم کو نہ جدید معاشرے کی روز افزوں ترقی پر کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی پرانے ادوار کے بعض جاہلانہ رسوم و رواج اور طور طریقوں پر تنقید سے اختلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اگر ہم ماضی اور حال پر گہری اور وقیع نگاہ ڈالیں تو حال کی ترقی صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے ہی سے نظر آتی ہے۔ انسان نہ صرف خود ایک مشین بن چکا ہے بلکہ روبوٹ کا نام دے کر مشینی انسانوں سے حقیقی انسانوں والا کام لے رہا ہے۔ پھر یہ کہ سالوں اور مہینوں کے سفر دنوں اور گھنٹوں میں طے ہو رہے ہیں ۔ البتہ انسانیت کے سفر کا کیا حال ہے؟ اس سفر میں اخلاقیات کا پڑاؤ کہاں پر ہے؟ہمدردی‘اخوت اور محبت کے الفاظ کس طرح انسان کے ذاتی اور سیاسی مفادات سے جُڑ کر بے معنی ہو چکے ہیں۔ سیاسی اور معاشی مفادات عدل و انصاف کو بری طرح کچل کر ظلم و ستم اور درندگی کو نہ صرف جائز اور درست قرار دے چکے ہیں بلکہ اس سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں۔
رومی بادشاہوں کے ظلم و ستم کہ وہ اپنے دشمن کو بھوکے شیر کے پنجرے میں ڈال کر قہقہے لگاتے تھے‘ اس قدیم جاہلانہ زمانے کا ذکر کر کے کانوں کو ہاتھ لگائے جاتے ہیں‘ لیکن غزہ میں مارے جانے والے‘ بھوک سے مجبور ہو کر ہاتھوں میں برتن لیے قطار میں کھڑے لڑ کھڑاتے لوگوں پر بمباری اور ان کا قتل عام اور اس پر خاموشی کیا تہذیب ِنو اور روشن خیالی ہے جس کی مذمت نہیں کی جا سکتی؟اس کا بڑا خوب صورت حل پیش کیا جاتا ہے کہ اہل غزہ اپنا علاقہ خالی کر دیں۔ راقم کی رائے میں پرانے زمانے کے بادشاہوں کے اس طرح کے مظالم اگر جاہلیت ِقدیمہ تھی تو آج یہ منافقت سے لپٹی اور لتھڑی تہذیب ِنو اور نام نہاد مہذب معاشرہ جاہلیت ِجدیدہ کی واضح اور روشن مثال ہے۔ پہلے جو کام ایک ظالم بادشاہ کرتا تھا اب وہی کام یہ نام نہاد مہذب معاشرہ ریاستی سطح پر کرتا ہے لیکن پھر بھی اصرار یہ ہے کہ ہمیں مہذب معاشرہ اور معزز دنیا کہا جائے۔ برس ہا برس بلکہ شاید صدیاں لگ جائیں لیکن تاریخ اپنا فیصلہ لازماً سنائے گی کہ ہلاکو اور چنگیز خان زیادہ ظالم تھے یا نیتن یاہو اور ٹرمپ ان سے بڑھ کر تھے۔یہ بات انتہائی تکلیف دہ ہے کہ ہماری حکومت نے اِسی صدر ٹرمپ کو امن کا نوبل پرائز دینے کی سفارش کی ہے۔
یاد رہے جنگ عظیم اول اور دوم دونوں جدید دنیا اور مہذب معاشرے کے سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھیں جن میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ اہل علم تو جانتے ہی ہوں گے‘ عام قاری کے لیے عرض ہے کہ دونوں بڑی جنگیں اہل یورپ کے درمیان ہوئی تھیں لیکن پہلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا۔ مسلمانوں کی مرکزیت ختم ہوئی اور قومی ریاستیں وجود میں آگئیں ۔ دوسری کا نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی طاقت کا مرکز برطانیہ سے امریکہ منتقل ہو گیا۔ یاد رہے اس وقت یہودی امریکی معیشت میں اہم کردار سنبھال چکے تھے اور میڈیا میں بھی ان کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہو چکا تھا۔ برطانوی معیشت چونکہ اپنا بوجھ بھی سنبھال نہ پا رہی تھی لہٰذا اس نے اس منتقلی کو نہ صرف غنیمت جانا بلکہ دل و جان سے قبول بھی کر لیا۔ یہاں یہ بات قارئین کے لیے حیران کن ہو گی کہ روتھ شیلڈ ایک مشہور یہودی خاندان جنگ عظیم کے دونوں فریقوں یعنی انگلینڈ اور جرمنی کی ہر قسم کی مدد کر رہا تھا۔ گویا اس جنگ کو ایندھن فراہم کر رہا تھا۔ یورپ کمزور ہوا اور ایک نئی عالمی طاقت امریکہ ابھر کر سامنے آ گئی۔ ادھر سوویت یونین جو پہلے ہی ایک عالمی قوت کی حیثیت سے اثر و رسوخ رکھتا تھا‘ جنگ عظیم میں جرمنی کو شکست دینے کے بعد باقاعدہ ایک عالمی قوت کی حیثیت سے اپنی طاقت کا لوہا منوا چکا تھا۔ لہٰذا امریکہ اور سوویت یونین دو عالمی قوتیں وجود میں آگئیں اور انہوں نے یورپ کو یوں بانٹ دیا کہ مغربی یورپ امریکہ کے زیر اثر آگیا اور مشرقی یورپ پر سوویت یونین کو کنٹرول حاصل ہو گیا۔ ہم نے بات کا آغاز کیا تھا جاہلیت ِقدیمہ اور جاہلیت ِجدیدہ پر گفتگو سے‘ تو قارئین اگر پرانے زمانے کی جاہلیت یہ تھی کہ غلاموں اور کنیزوں کی خرید و فروخت ہوتی تھی تو نئے زمانے کی جاہلیت یہ ہے کہ انفرادیت تو ختم ہو چکی ہے لیکن ریاستیں بکنے لگی ہیں۔
لیگ آف نیشنز جو بڑی قوتوں کے مقاصد پورے نہیں کر رہی تھی‘ اسے ختم کرکے اقوامِ متحدہ ‘سلامتی کونسل جیسے ادارے قائم کیے گئے جنہیں دونوں عالمی قوتیں اپنے اپنے سیاسی مقاصد اور مفاد کی تکمیل کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ معاشی سطح پر امریکہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے ادارے وجود میں لایا اور ان اداروں کے ذریعے غریب ممالک کو قرضے کے جنجال میں الجھا کر ان کی داخلی اور خارجی پالیسی پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ بعض ریاستیں امریکہ کے زیر اثر آگئی ہیں اورجو ریاستیں معاشی لحاظ سے زیادہ کمزور تھیں انہوں نے اپنے ملک کی داخلی اور خارجی پالیسی کے حوالے سے ان عالمی قوتوں سے ڈکٹیشن لینا شروع کر دی۔پھر جب سوویت یونین افغانستان میں مداخلت کے نتیجہ میں شکست و ریخت سے دوچار ہو گیا تو دنیا یونی پولر ہو گئی‘ یعنی امریکہ واحد سپریم پاور آف ورلڈ بن گیا۔ اس پر امریکہ نے یہ بات ڈھکی چھپی نہ رکھی بلکہ نیو ورلڈ آرڈر کا اعلان کر دیا گیا۔گویا اب دنیا میں وہ ہوگا جو امریکہ چاہے گا۔ پھر امریکہ نے دنیا بھر خاص طور پر معاشی طور پر کمزور ممالک سے جو رویہ اختیار کیا اس سے آقا اور غلام کا تصور گہرا اور بالکل واضح ہو کر سامنے آیا۔ اب دنیا میں ایک آقا ریاست اور بہت سی غلام ریاستیں ہیں۔ گویا جاہلیت ِقدیمہ میں جو انفرادی غلامی کا سلسلہ جاری تھا‘ جاہلیت ِجدیدہ میں اس نے ریاستی غلامی کی شکل اختیار کر لی ہے۔ پرانے زمانے میں طاقتور ریاست کمزور ریاست سے خراج وصول کرتی تھی‘آج غریب ریاست کو قرض کے چُنگل میں پھنسا کر سود اور سود در سود وصول کیا جاتا ہے۔ قتل و غارت گری پہلے تلواروں اور نیزوں سے ہوتی تھی‘ اب ٹینکوں اور بمباری سے ہوتی ہے۔لہٰذاراقم کو یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ تہذیب یافتہ معاشرہ اور مہذب دنیا کے دعوےداروں نے انسانیت اور اخلاقی اقدار کا جنازہ پرانے زمانے کی نسبت زیادہ دھوم دھام سے نکالا ہے ۔
’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا مقولہ پرانا ہے لیکن آج بھی پورے زور شور سے کچھ نہ کچھ کمی بیشی کے ساتھ دنیا بھر میں نافذ ہے۔ البتہ مغربی ممالک اور مشرقی ممالک (مسلمان ممالک بھی کہا جا سکتا ہے) میں اس حوالے سے ایک فرق ہے‘ اور یہ بہت بڑا فرق ہے کہ مغربی ممالک اپنے باشندوں اور شہریوں کے ساتھ تو معاملات پر کافی حد تک بلکہ شاید مکمل طور پر قانونی انداز میں اور اپنے آئین اور قانون کی بالادستی قائم کرتے ہوئے عمل پیرا ہوتے ہیں جبکہ ساری بددیانتی بلکہ صحیح تر الفاظ میں بدمعاشی غیروں خاص طور پر مسلمانوںسے کرتے ہیں۔ دوسری طرف اکثر مسلمان ممالک میں جمہوریت نہیں ہے ۔ بادشاہت ہے یافوجی طالع آزما ہیں‘جو اکثر و بیشتر عوامی حمایت سے محروم ہوتے ہیں ‘ لہٰذا انہیں ان عالمی قوتوں کا سہارا لینا پڑتا ہے جن کے وہ مقروض ہوتے ہیں ۔چنانچہ یہ غاصب حکمران غیروں کے تو مداح بن کر بلکہ عملی طور پر انہیں آقا کادرجہ دے کر ان سے ڈیل کرتے ہیں جبکہ سارا ڈنڈا اپنے شہریوں اور خاص طور پر اپنے سیاسی مخالفین پر چلاتے ہیں۔گویا مسلمان حکمران خود ان بڑوں کے غلام ہیں اور اپنے شہریوںکو بھی اپنے ان آقائوں کی غلامی کرنے پر مجبور کردیتے ہیں۔
دور جانے کی ضرورت نہیں‘ اپنے پاکستان ہی کی مثال لے لیں۔ آج سے۷۸ سال پہلے پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا اور جمہوری انداز میں وجود میں آیا تھا۔ بدقسمتی سے نہ پاکستان میں اسلام کا نفاذ ہو سکا اور نہ ہی پاکستان میں کبھی حقیقی جمہوریت اپنی جگہ بنا سکی۔ اس پر ہم غیروں پر الزام دھر سکتے ہیں کہ ان کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کا نتیجہ ہے‘ لیکن کون اس حقیقت کا انکاری ہو سکتا ہے کہ اصل قصوروار خود ہم پاکستانی ہیں۔۱۹۵۱ء میں تمام مسالک کے۳۱ علماء نے۲۲نکات پر اتفاق کرتے ہوئے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کی بنیاد طے کی اور حکومت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا‘ لیکن تب سے ہی تمام حکومتیں اسلام کے نفاذ میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہیں۔ حال ہی میں بڑی دیدہ دلیری سے شریعت اور شعائر اسلامی کے خلاف حکومتی فیصلے سامنے آئے ہیں۔ مثلاً لڑکی کی شادی کی عمر کا تعین کرنا اور اسلام آباد میں شراب کے پرمٹوں کی بھرمار ‘وغیرہ وغیرہ ۔
یہاں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے کہ حکومتیں اگر اسلامی نظام قائم نہ کرنے کی مجرم ہیں تو ہمارے علماء کرام نے اس حوالے سے کون سی کوشش اور جدوجہد کی ہے؟ اسلامی جماعتوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف تو دھرنے دیے اور اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیے لیکن اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد سرے سے نظر نہیں آتی۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہےکہ پہلے جو انتخابات میں اسلامی نظام کا نعرہ لگایا جاتا تھا‘ اب اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔ رہ گئی بیچاری جمہوریت‘ اس کی جڑوں پر تو آغاز ہی میں میزائل مار دیا گیا تھا جب صوبہ سرحد کی عوامی حکومت کو ایک انتظامی حکم سے ختم کر دیا گیا۔ جمہوریت کشی میں ہمارے تمام اداروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اگر ایوب خان‘ یحییٰ خان‘ ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے مارشل لاء لگائے تو عدلیہ نے آگے بڑھ کر فوجی طالع آزماؤں کو آمَنَّا وَصَدَّقْنَا کہا ۔ وہ سیاست دان جنہیں جمہوریت کے لیے اپنی جان‘ مال سب کچھ قربان کرنا چاہیے تھا‘ اس لیے کہ سویلین بالادستی اسی صورت میں قائم رہ سکتی تھی ‘ جب بھی مارشل لاء لگا تو وہ سیاست دان دو حصوں میں تقسیم ہو گئے۔ اگر کچھ نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا تو اکثریت نے انہیں ’’جی آیاں نوں‘‘ کہا۔ لہٰذا اسٹیبلشمنٹ سیاست دانوں کو گھسیٹتی رہی اور وہ ’’bloody civilians‘‘ کی گالی بڑے مؤدب ہو کر سنتے رہے۔
یہ چار مارشل لاء تو کھلے کھلے اور ببانگ دہل تھے۔ پھر اپریل۲۰۲۲ء میں انوکھا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اسلحہ کی نوک پر وقت کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی قرارداد منظور کروائی گئی۔ اس وقت کا آرمی چیف جنرل باجوہ اعلانیہ طور پر اس میں ملوث تھا۔ پھر ایک ایسا ہائبرڈ نظام قائم کیا گیا جس کی مثال شاید دنیا بھر میں کہیں نہ ملے۔ ایک ایسی ڈمی حکومت قائم کی گئی جس کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں کہ اپریل۲۰۲۲ء میں ختم کی گئی حکومت کے تمام سیاسی مخالفین کو اکٹھا کیا گیا‘ حالانکہ وہ اس سے پہلے ایک دوسرے کے بدترین سیاسی حریف تھے۔ ایک دوسرے پر بدترین کرپشن کے الزامات لگاتے تھے اور ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے۔ عجب بات ہوئی کہ۲۰۱۸ء کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت جسے اپریل۲۰۲۲ء میں ختم کیا گیا‘ وہ اپنی برخاستگی کے وقت انتہائی غیر مقبول ہو چکی تھی۔ اس ہائبرڈ حکومت کی کرپشن اور ملک میں مہنگائی وغیرہ کی وجہ سے تحریک انصاف انتہائی مقبول ہو گئی‘ لہٰذا اس مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ تحریک انصاف کے سربراہ کو گرفتار کر لیا گیا ۔ البتہ یہ تدبیر الٹی ثابت ہوئی اور گرفتار سیاسی رہنما ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبول‘ مقبول تر بلکہ مقبول ترین ہو گیا۔ اب یہ ہائبرڈ نظام قائم کرنے والوں کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ لہٰذا ڈمی حکومت کے کھلاڑی اور اسٹیبلشمنٹ ایک دوسرے کو تحریک انصاف کی مقبولیت کے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ خیال ہے کہ وہ جلد اپنے اختلافات ختم کرنے پر مجبور ہوں گے‘ اس لیے کہ ان اختلافات کا فائدہ ان کے مشترکہ دشمن قیدی نمبر۸۰۴ کو پہنچ سکتا ہے۔
اب چونکہ ماہ نومبر قریب آرہا ہے اور فوج کے سربراہ اپنی ایکسٹینشن چاہتے ہیں ‘ مرکز کی نام نہاد حکومت اُس حوالے سے اپنے کچھ مطالبات منظور کروانا چاہتی ہے۔ اب تک تو یہ سسٹم یوں چل رہا تھا کہ تمام داخلی اور خارجی سطح کے فیصلے یعنی حقیقی حکومت تو فوج کے سربراہ کر رہے تھے اور ڈمی حکومت کے کھلاڑیوں کو اجازت دی ہوئی تھی کہ وہ لوٹ مار کرتے رہیں۔ لہٰذا مصدقہ اطلاعات کے مطابق۳۰۰ ارب روپیہ شوگر کی پہلے برآمداور پھردرآمد میں کمایاگیا۔ قصہ کوتاہ‘ کرپشن تمام حدود کراس کر گئی تھی۔ سیالکوٹ کاADC(R) اقبال سنگھیڑاجس کا تعلق نواز شریف کے قریبی ساتھی خواجہ آصف کے ساتھ ہے‘ وہ الیکشن میں اُس حلقہ کاR.O تھا‘ اصلاً وہ خواجہ صاحب کا فرنٹ مین ہے۔ حکومت آرمی چیف کی ایکسٹینشن کا نوٹیفکیشن نہیں نکال رہی جبکہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کی یہ کرپشن سامنے لے آئی اور موصوف کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گویااب اندرونی طور پر کھینچ تان شروع ہو گئی ہے۔اب دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے!
بیرونی اور خارجی سطح پر خطرات بدستور منڈلا رہے ہیں۔مودی اپنی شکست پر دانت پیس رہا ہے اور بدلہ لینے کی تیاریاں کر رہا ہے۔اور داخلی سطح پر معاملہ یہ ہے کہ ہماری معیشت ڈوب رہی ہے ۔گزشتہ تین سال میں بیرونی سرمایہ کاری کے بڑے بڑے حکومتی دعوے سامنے آئے۔ ایک محکمہ بنایا گیا جسے ٹاسک ہی یہ دیا گیا کہ وہ بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرے گا لیکن یہ سب محض اعلانات ہی ثابت ہوئے اور بیرونی سرمایہ دار پاکستان میں سرمایہ کاری پر تیار نہ ہوا۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں کے پہاڑ پاکستانیوں پر لَد گئے ہیں۔ تین سال پہلے جی ڈی پی ۶ء۲فیصد تھا جو کم ہو کر بمشکل ۲ء۵ فیصد رہ گیا ہے۔ ۴۴فیصد کے قریب پاکستانی غربت کی لکیر کے نیچے آ گئے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے اور ہم پاکستانی کس کام میں لگے ہوئے ہیں! آیئے غور کریں کہ کہیں ہمارا معاشرہ جاہلیت ِ قدیمہ اور جاہلیت ِ جدیدہ کا امتزاج بن کر سامنے تو نہیں آ رہا؟ راقم نے یہ ساری داستان کسی کی مخالفت یا دلچسپی کے لیے بیان نہیں کی بلکہ موجودہ صورت ِحال میں سیاست دانوں‘ اسٹیبلشمنٹ اور تمام سٹیک ہولڈرز کو خبردار کرنا مقصود ہے کہ ہوش کے ناخن لیں۔ہماری کشتی ڈوب رہی ہے۔۷۱ ۱۹ میں نہ سقوطِ ڈھاکہ کے وقت امریکی بیڑا ہمیں بچانے آیا تھا نہ آج ٹرمپ کی دوستی ہمیں بچا سکے گی۔ ہمیں اپنے تحفظ کے لیے سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنا اور معیشت کو سنوارنا ہو گا‘وگرنہ امریکہ‘ اسرائیل اور بھارت کا ابلیسی اتحادِ ثلاثہ بڑے خطرناک عزائم رکھتا ہے۔ہمارے مسائل کا عارضی حل آئین اور قانون کی بالادستی ہے جبکہ مستقل اور دائمی حل اسلامی نظام کا پاکستان میں نفاذ ہے۔ وما علینا الا البلاغ!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025