(حسن معاشرت) اسلام اور عورت - امۃ المعطی

10 /

اسلام اور عورتامۃ المعطی

’’پردہ‘‘ آزادیٔ نسواں کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جو آج مغربیت زدہ عورت کے حواس پر بری طرح چھایا ہوا ہے۔ یہ عورت جو کہ آج بے حجاب ہونے کو بے قرار ہے‘ کل تک معاشرے کا مظلوم ترین طبقہ تھی۔ اس کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہ تھی۔ اس کی پیدائش باعث ِ شرمندگی تھی۔ قربان جائیے‘ اُس حبیب ِ خدا ﷺ پر جس نے عورت کو پستی و مظلومیت کی اَتھاہ گہرائیوں سے نکال کر معاشرے میں باعزت مقام دیا۔ لیکن افسوس‘ صد افسوس‘ اسے یہ باعزت مقام پسند نہیں آیا۔ وہ ایک انتہا سے نکالی گئی تھی تو اس نے اپنے آپ کو دوسری انتہا تک پہنچا دیا۔ وہ شرم وحیا کا مجسمہ کہی جاتی تھی‘ اب وہ بے حیائی کا نمونہ بن چکی ہے۔ وہ ہر قسم کے اشتہارات کی زینت ہے اور یہ بات اس کے لیے باعث ِشرمندگی نہیں بلکہ وہ اسے اپنے لیے باعث ِ فخر سمجھتی ہے۔ ایک شاعر نے آزادی ٔ نسواں کے موضوع پر ایک نہایت فکر انگیز پیغام کی حامل نظم کہی ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں: ؎
شعلے کی طرح کیوں سربازار نکل آئی؟
کس نے تجھے بھڑکایا ہے اے دختر اسلام!
لگتی ہے کلی کتنی بھلی شاخِ چمن پر
ہاتھوں میں پہنچ کر کوئی قیمت نہیں رہتی
جو شمع سرعام لٹاتی ہے اُجالے
اُس شمع کی گھر میں کوئی عزت نہیں رہتی
تسلیم کہ پردہ ہوا کرتا ہے نظر کا
نظروں میں بھی برداشت کی قوت نہیں رہتی
مَردوں کے اگر شانہ بشانہ رہے عورت
کچھ اور ہی بن جاتی ہے‘ عورت نہیں رہتی!
آگے فرماتے ہیں:
کردار پہ کیوں چھاپ ہے مغرب زدگی کی
جب فاطمہ و رابعہ بصری ہے ترا نام
اے دختر اسلام!
وہ رتبہ عالی کوئی مذہب نہیں دیتا
کرتا ہے جو عورت کو عطا مذہب اسلام
اے دختر اسلام!
ہمارا دین’’اسلام‘‘ عورت کو ہر لحاظ سے یعنی بحیثیت ماں‘ بیوی‘ بیٹی اوربہن جو باعزت مقام عطا کرتا ہے وہ دنیا کے کسی دوسرے مذہب میںنہیں۔ عورت کو ہر لحاظ سے جو تحفظ اسلام عطا کرتا ہے‘ اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔آج ہم ‘ آزادیٔ نسواں کے چکر میں اسلام کی اصل تعلیمات کو بھول گئے ہیں۔ قرآن میں ستر و حجاب کے جو احکامات ہیں ہم ان کی من مانی تاویلیں تلاش کرتے ہیں۔ آئیے کوشش کریں کہ پردے کے بارے میں قرآن کی تعلیمات اور نبی اکرمﷺ کے احکامات کو سمجھیں اور عمل کریں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور نبی اکرم ﷺ کی زندگی ہم سب کے لیے بہترین اُسوہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ} (الاحزاب:۲۱)
’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے۔ ‘‘
مسلمان مَردوں کے لیے تو ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے آپﷺ کی ذاتِ اقدس نمونہ ہے لیکن مسلمان خواتین کے لیے آنحضرت ﷺ کی سیرت اور زندگی مکمل نمونہ نہیں بن سکتی۔ بطورِ خاتون‘ بطورِ بیوی‘ بطورِ بیٹی اور بطورِ ماں یہ اُسوہ ہمیں نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں تو نہیں ملے گا‘ حالانکہ یہ بہت ضروری ہے۔ عورت کی ان حیثیات کے لیے بھی تو کوئی نمونہ ‘ کوئی آئیڈیل ہونا چاہیے جس کو دیکھ کر تاقیامت مسلمان خواتین اپنے طرزِ عمل کو متعین کرسکیں۔ سورۃ الاحزاب میں ہی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالی عنہن سے خطاب ہو رہا ہے کہ درحقیقت’’وہ‘‘ ہمیشہ کے لیے اُمت کی خواتین کے لیے نمونہ ہیں۔ بظاہر خطاب آنحضور ﷺ کی بیویوں سے ہے جس سے ہماری بعض بہنیں اس مغالطے میں مبتلا ہو گئی ہیں یا کر دی گئی ہیں کہ یہ تو انہی سے متعلق احکام ہیں اور عام مسلمان خواتین سے بات نہیں ہو رہی ۔ یہ بات ذہن میں واضح ہونی چاہیے کہ قرآن مجید میں یہ اسلوب کیوں ہے! یہ اس لیے ہے کہ ازواجِ مطہرات کو ان تمام معاملات میں مسلمان خواتین کے لیے آئیڈیل بننا تھاجو صرف خواتین سے متعلق اور مخصوص ہیں‘ ورنہ بحیثیت ِ عمومی اسوئہ حسنہ اور کامل نمونہ تو جناب محمد ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سورۃ الاحزاب کی آیت ۳۲ میں خطاب {یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ} سے ہوتا ہے جو آیت ۳۳ کے اختتام تک چلتا ہے۔
یہ دونوں آیات وہ ہیں جن سے پردے کے احکام کا آغاز اور مسلمان خواتین کے لیے ایک دائرہ کار متعین ہوا ہے۔ آواز کا فتنہ ‘ قرار فی البیوت اور تبرج کی ممانعت۔ اسی سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۳ میں مسلمان مَردوں کے لیے حکم نازل کیا جا رہا ہے:
{وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ط}
’’اور جب تمہیں ان سے (نبی ﷺ کی بیویوں سے) کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کی اوٹ سے مانگا کرو۔‘‘
یہاں قرآن مجید میں’’حجاب‘‘ کا لفظ آیا ہے اور علومِ فقہ میں یہ آیت ’’آیت حجاب‘‘ کے نام سے مشہور و معروف ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس آیت کے نزول سے پہلے متعدد مرتبہ عرض کر چکے تھے کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ کے ہاں بھلے اور برے سب ہی قسم کے لوگ آتے ہیں‘ کاش آپ اپنی ازواجِ مطہرات کو پردہ کرنے کا حکم دیتے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ازواجِ رسولؐ سے کہا:’’اگر آپ کے حق میں میری بات مانی جائے تو کبھی میری نگاہیں آپ کو نہ دیکھیں‘‘۔ لیکن رسول اللہ ﷺ چونکہ خود مختارنہ تھے‘ اس لیے آپ اشارئہ الٰہی کے منتظر رہے۔آخر کار یہ حکم آگیا۔ اس حکم کے بعد ازواجِ مطہرات کے گھروں میں دروازوں پر پردے لٹکا دیے گئے اور چونکہ حضور ﷺ کا گھر تمام مسلمانوں کے لیے نمونے کا گھر تھا اس لیے تمام مسلمانوں کے گھروں پر بھی پردے لٹک گئے۔‘‘
مولانا مودودی آگے لکھتے ہیں:
’’جو کتاب مَردوں کوعورتوں سے رُو دَر رُو بات کرنے سے روکتی ہے اور پردے کے پیچھے سے بات کرنے میں یہ مصلحت بتاتی ہے کہ ’’تمہارے اور ان کے دلوں کی پاکیزگی کے لیے یہ طریقہ زیادہ مناسب ہے‘ ‘ اُس سے آخر یہ نرالی روح کیسے کشید کی جا سکتی ہے کہ مخلوط مجالس اور مخلوط تعلیم اور جمہوری ادارات اور دفاتر میں مَردوں اور عورتوں کا بے تکلف میل جول بالکل جائز ہے اور اس سے دلوں کی پاکیزگی میں کوئی فرق نہیں پڑتا!‘‘
غور کیجیے‘ اُمہات المومنین کے متعلق کس کے دل میں براخیال پیدا ہو سکتا ہے؟ یہ اُسلوب اس بات پر دلالت کر رہا ہے کہ تمام مسلمان خواتین و حضرات کے لیے یہ مستقل ہدایت ہے۔ اسلام کے معاشرتی نظام میں صالح اقدار کے فروغ کے لیے یہی پاکیزہ طرزِ عمل ہے۔ ان احکام کی حکمتوں پر غور کریں۔ اللہ تعالیٰ خالق فطرت ہے‘ وہ جانتا ہے کہ مرد اور عورت کے مزاج‘ ان کے میلانات اور رحجانات کیا ہیں! ہم لاکھ پردے ڈالیں‘ ملمع سازی کریں‘ تہذیب و تمدن کے تقاضوں کو بہانہ بنائیں لیکن مرد میں عورت کے لیے جاذبیت‘ کشش اور نفسانی خواہشات کا جو داعیہ رکھا گیا ہے‘ اسے یہ داعیہ تخلیق کرنے والے سے زیادہ جاننے والا اور کون ہو سکتا ہے؟
ہمارے ہاں ایک گروہ ایسا ہے جو چہرے کے پردے کا قائل نہیں ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ قرآن مجید میں نقاب کا ذکر نہیں ہے جبکہ حج اورعمرہ میں عورت کا چہرہ کھلا رہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نقاب کا لفظ قرآن میں نہیں آیا لیکن یہ ایسی ہی بات ہے جو شراب پینے والے کہتے ہیں کہ پورے قرآن میں شراب کے لیے حرام کا لفظ نہیں۔ حدیث میں نقاب کا لفظ موجود ہے۔ یہ روایت سنن ابی دائود کی ہے جو صحاحِ ستہ میں شامل ہے:
جَاءتِ امْرأةٌ إلى النبيﷺ يقال لها اُمُّ خلّاد وهي مُنْتَقِبَةٌ تَسأل عَنِ ابْنِهَا وهو مقتول، فقال لها بَعْضُ اصحابِ النبيﷺ: جِئْتِ تسألين عَنِ ابْنِكَ وَاَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ، فقالت: إنْ اُرْزَأَ ابْني فَلَنْ اُرزَأَ حَيائِي، فقال رَسُولُ اللّٰهﷺ: ((ابْنُكِ لَهُ اَجْرُ شَهِيْدَيْنِ)) قَالَت: وَلَمْ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللّٰهِ؟ قَالَ: ((لِاَنَّهُ قَتَلَهُ اَهْلُ الْكِتَابِ)) (ح:۲۴۸۸)
’’ایک خاتون‘ جس کا نام اُمّ خلاد تھا‘ نبی اکرم ﷺ کے پاس اپنے بیٹے کا‘ جو مقتول ہوچکا تھا‘ انجام دریافت کرنے آئیں اور وہ نقاب پہنے ہوئے تھیں۔ نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی ؓ نے (ان کی اس استقامت پر تعجب کرتے ہوئے) کہا: نقاب پہن کر آپ اپنے بیٹے کا حال دریافت کرنے آئی ہیں؟ انہوں نے اس کے جواب میں فرمایا: میرا بیٹا مرا ہے‘ میری حیا تو نہیں مری۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے ان کو تسلی دی کہ تمہارے بیٹے کو دو شہیدوں کا اجر ملے گا۔ انہوں نے پوچھا: ایسا کیوں ہو گا یا رسول اللہ؟ آپﷺ نے فرمایا: اس لیے کہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔ ‘‘
اس حدیث میں لفظ مُنْتَقِبَۃٌ کا مادّہ نقب ہے‘ اسی سے نقاب مصدر ہے۔یہ خاتون اس حال میں نقاب ڈالے ہوئے تھیں کہ ایسے سانحہ پر تو اچھی خاصی دین دار خواتین کو بھی غم واندوہ کی کیفیت میں حجاب کا خیال نہیں رہتا۔اسی لیے ایک صحابی ؓ نے تعجب سے پوچھا کہ اس حال میں آپ نقاب میں آئی ہیں! ان خاتون کا جواب آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ’’میرا بیٹا مرا ہے ‘میری حیا نہیں مری۔‘‘
’’واقعہ اِفک‘‘ کے سلسلے میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ایک طویل حدیث مروی ہے جس میں انہوں نے صراحت سے ذکر کیا کہ صفوانؓ نے ان کو اس لیے پہچان لیا کہ انہوں نے حکم حجاب سے قبل انہیں(حضرت عائشہ ؓکو) دیکھا تھا۔
ان دونوں حدیثوں سے چہرے کے پردے کے بارے میں کوئی اِشکال نہیں رہتا۔ حج اور عمرے کے احرام میں عورت کے چہرے کے کھلے ہونے سے جو دلیل پکڑی جاتی ہے اس کے بارے میں ایسے حضرات وخواتین کو ایک اصول جان لینا چاہیے کہ استثنائی حالات کے احکام کو کلیات پر منطبق نہیں کیاجا سکتا۔ احرام کی حالات میں چہرہ کھلا رکھنے کی ایک استثنائی اجازت یا چہرہ ڈھانپنے یا دستانے پہننے کی ممانعت حدیث میں وارد ضرور ہوئی ہے لیکن اس سے چہرہ کے پردے کا بالکلیہ انکار کر دینا انتہائی غیر معقول طرزِ فکر ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث ِ مبارکہ بھی مروی ہے کہ:
’’احرام کی حالت میں جب قافلے ہمارے سامنے آتے تو ہم بڑی چادر سر کی طرف سے چہرہ پر اُلٹا لیتیں اور جب وہ گزر جاتے تو ہم اس کو اٹھادیتیں۔‘‘
اس حدیث ِ مبارکہ میں جو لفظ جلباب (بڑی چادر) آیا ہے‘ اس کی وضاحت سورۃ الاحزاب کی آیت ۵۹ میں ہے۔ جب گھر میں قرارپکڑنے اورحجاب کے احکام آگئے اور عورت کا اصل دائرہ کار اس کا گھر متعین ہو گیا تو یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کسی تمدنی ضرورت سے گھر سے باہر نکلنا ہو تو کیا کیا جائے! یہ بڑا اہم اور بنیادی سوال ہے۔فرمایا:
{یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَنِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ ط ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ ط وَکَانَ اللہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(۵۹)} (الاحزاب)
’’اے نبی(ﷺ)!اپنی بیویوں‘ اپنی بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی خواتین سے کہہ دیں کہ‘وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصّہ لٹکا لیا کریں۔یہ اس سے نزدیک تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو انہیں کوئی ایذا نہ پہنچا ئی جائے۔اور اللہ بہت بخشنے والا‘نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
عربی میں جلباب اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپ لے اور چھپا لے۔ یہ جلباب ایام جاہلیت میں بھی شریف خاندانوں کی خواتین کے لباس کا جزو تھا۔ قرآن مجید میں اس میں یہ اضافہ کیا گیا کہ اس کا ایک حصہ چہرے پر لٹکالیا جایا کرے۔ اس طرح چہرے کا پردہ شروع ہوا جس کی تفاصیل احادیث میں آئی ہیں کہ اس حکم کے نازل ہونے کے بعد ازواجِ مطہرات‘ بنات النبی ﷺ اور تمام مؤمن خواتین باہر نکلتے وقت چادر کو اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ پورا سر اور پیشانی اور پورا چہرہ چھپ جاتا تھا اور صرف ایک آنکھ کھلی رہ جاتی تھی۔ یہ ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلنے کے لیے پردے کا پہلا حکم ہے۔ ضرورت کی یہ پابندی نبی اکرم ﷺ نے لگائی ہے ۔چنانچہ صحیح بخاری میں روایت موجود ہے:
((قَدْ اَذِنَ اللّٰہُ لَکُنَّ اَنْ تَخْرُجْنَ لِحَوَائَجِکُنَّ)) (ح:۵۲۳۷)
’’اللہ تعالیٰ نے تم(عورتوں) کو اجازت دی ہے کہ تم اپنی ضروریات کے لیے گھر سے نکل سکتی ہو۔‘‘
’’ضرورت‘ ‘کا تعین اسلامی تعلیمات کے مجموعی مزاج کوسامنے رکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ہوسکتا ہے کسی خاتون کے گھر میں کمانے والا کوئی مرد موجود نہ ہو یا صرف مرد کی کمائی گھر کی ضروریات کے لیے کفایت نہ کرے تو شریعت نے اس کی گنجائش رکھی ہے ۔ البتہ باہر نکلتے ہوئے تمام پابندیوں کو ملحوظ رکھنا ہو گا اور ایسے اداروں میں کام کرنا ہو گا جہاں عورتیں ہی کارکن اور منتظم ہوں۔ مخلوط اداروں میں کام کرنا‘ ٹی وی اور ریڈیو میں انائونسر یا اخبارات اورٹی وی میں اشتہارات کا ماڈل یا ایئرہوسٹس یا اسی نوع کے دوسرے پیشے اختیار کرنے کا معاملہ جن میں مردوں سے براہِ راست سابقہ ہوتا ہو اور وہ ان کے لیے فردوسِ نظر بنتی ہوں‘ از روئے اسلام مسلم خواتین کے لیے قطعی ناجائز ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی ایک طویل حدیث ہے :
((اَلْعَیْنَانِ زِنَاھُمَا النَّظَر)) (متفق علیہ)
’’آنکھوں کا زنا نظر ہے۔‘‘
ان پیشوں سے متعلق اکثر وبیشتر حصولِ معاش کی مجبوری کم اور جذبہ نمائش زیادہ کار فرما ہوتا ہے۔ ان خواتین میں سے اکثر کو اپنے گھروں کی نگہداشت‘ گھریلو کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ملازمین رکھنے پڑتے ہوں گے۔ پھر ان پیشوں کے تقاضوں کے پیش نظر ان کو میک اَپ‘ بنائو سنگھار اور مخصوص ملبوسات پر کافی خرچ کرنا ہوتا ہو گا۔ کنوینس کے لیے اچھی خاصی رقم صرف ہوتی ہو گی۔ لہٰذا ان کی اپنی کمائی میں سے ایک چوتھائی یا ایک تہائی سے زیادہ بچت مشکل ہوتی ہو گی۔ ہماری مسلم بہنیں ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ کیا یہ نفع کا سودا ہے یا سراسر خسارے کا! یہ طرزِ عمل اسلامی تعلیمات سے بغاوت ‘ اپنی عاقبت کی بربادی اور اپنے خاندان کی روایات ‘ شرافت اور عزت سے سرکشی کا موجب ہے۔ البتہ لڑکیوں کے سکولوں اور کالجوں میں درس و تدریس کے لیے ملازمت کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ صرف پیشہ ہی نہیں‘ قومی خدمت بھی ہے۔ اسی طرح صرف عورتوں کے علاج معالجے کے لیے طب کے پیشے کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ بن ٹھن کر بازاروں میں شاپنگ کے لیے جانا‘ سیرسپاٹے کے لیے سولہ سنگھار سے لیس ہو کر تفریح گاہوں میں جلوہ افروز ہونا‘ مخلوط تقریبات میں شرکت کرنا‘ مردوں کے سامنے پریڈ اور کھیلوں وغیرہ میں حصہ لینا‘ ازروئے اسلام معصیت کے کام ہیں۔ ان اُمور میں کتاب وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں دوسری آراء ممکن ہی نہیں۔
اب تک سورۃ الاحزاب کے حوالے سے پردے کے ابتدائی احکام کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے۔ پردے کے احکام کی تکمیل سورۃ النور میں ہوئی ۔ چونکہ عورت کے گھر سے باہر نکلنے کے مسئلے کی وضاحت ہو رہی ہے لہٰذا سورۃ النور کی آیت ۳۱ کا ایک حصہ جو سابقہ گفتگو سے متعلق ہے‘ اس طرح ہے:
{وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ط}
’’اور وہ اپنے پائوں زمین پر مار کر نہ چلیں کہ ان کی اس زینت میں سے کچھ ظاہر ہو جائے جسے وہ چھپاتی ہیں ۔‘‘
خالق فطرت نے عورت کی چال اور اس کے خرام میں دلکشی اور جاذبیت رکھی ہے۔ اس کے ساتھ اگر زیوروں کی جھنکار بھی شامل ہو جائے تو یہ بھی مرد کی توجہ منعطف کرنے اور اس کے نفسانی محرکات بھڑکانے کا باعث ہو گی۔ لہٰذا غیر مردوں کے لیے قرآن نے اس کو سختی سے منع کر دیا۔ اسی طرح خوشبو لگا کر گھر سے نکلنے کی بھی بڑی تاکیدی ممانعت حدیث میں آئی ہے۔
گھر کے اندر کے پردے سے متعلق قرآنی احکامات کیا ہیں؟ سورۃ النور کی آیات ۲۷تا۳۱ میں اس حوالے سے واضح احکامات موجود ہیں۔ آیت ۳۰ میں تمام اہل ایمان مردوں اور آیت۳۱ کی ابتدا میں پہلا حکم مسلمان خواتین کو غض بصر کا دیاجا رہا ہے:
{قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌ  بِمَا یَصْنَعُوْنَ (۳۰ؔ) وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا}
’’(اے نبیﷺ!) مؤمنین سے کہیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔یقیناً اللہ با خبر ہے اُس سے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔اور مؤمن عورتوں سے بھی کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ‘اور وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں‘ سوائے اس کے جو اس میں سے از خود ظاہر ہو جائے۔ ‘‘
ان آیات میں غض بصر کا حکم دیا جا رہا ہے۔ جن لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ سڑک پر چلنے سے متعلق ہے‘ وہ بہت بڑے مغالطے میں پڑ گئے ہیں۔ سڑک پر چلنے کے متعلق تو وہ حکم ہے کہ عورتیں اپنی جلباب لپیٹ کر اور اس کا ایک پلو چہرے پر ڈال کر نکلیں۔ راستہ دیکھنے کے لیے ان کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی۔
ان آیات میں غض بصر سے مراد آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ممانعت‘ اپنے رشتہ داروں کے لیے بھی ہے ماسوائے شوہر کے۔ پھر دوسرے مردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنا تو نرافتنے کا باعث ہے۔ نظر شیطان کے تیروں میں سب سے بڑا تیر ہے۔
مرد کے ستر کی حدود نبی اکرمﷺ نے ناف سے گھنٹے تک مقرر کی ہیں‘ اس حصے کو بیوی کے سوا کسی کے سامنے قصداًیا بلا ضرورت کھولنا شریعت نے حرام کیا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے عورتوں کا ستر ہاتھ‘ منہ اور پائوں کے سوا پورے جسم کو قرار دیا ہے۔ چہرہ نامحرم مَردوں کے لیے بھی ستر میں شامل ہے۔ البتہ مَرد اور عورت دونوں کے لیے اَشد طبّی ضرورت کے پیش نظر طبیب اور جراح مستثنیٰ کیے گئے ہیں۔
ایسا لباس پہننے والی عورتوں کو جن کا بدن کپڑوں میں سے جھلکتا ہو‘ نبی اکرم ﷺ نے عریاں قرار دیا ہے۔ بخاری میں حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے ایک طویل روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں:
((فَرُبَّ کَاسِیَۃٍ فِی الدُّنْیَا عَارِیَۃ فِی الْآخِرَۃِ)) (ح:۱۱۵)
’’پس دنیا میں اکثر کپڑے پہننے والیاں‘ آخرت میں ننگی ہوں گی۔‘‘
یہاں ایسے باریک اور چست کپڑے مراد ہیں جن سے جسم جھلکے یا عورت کی رعنائی کی چیزیں نمایاں ہوں۔ سورۃ النور کی زیر مطالعہ آیت میں آگے خواتین کے گھر کے پردے کے لیے ایک اور حکم آرہا ہے:
{وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِہِنَّ عَلٰی جُیُوْبِہِنَّ ص}(النور:۳۱)
’’اور چاہیے کہ وہ اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیوں کے بکل مار لیا کریں۔‘‘
خمر کے معنی کسی چیز کے چھپانے کے ہیں۔ اسی سے لفظ خمار بنا ہے۔ امام راغب اصفہانی ؒنے ’’مفردات القرآن‘‘ میں لکھا ہے کہ لفظ خمار عورت کی اوڑھنی کے لیے بولا جاتا ہے جس کی جمع خُمُر آتی ہے۔ اس سے وہ اوڑھنیاں مراد ہیں جسے اوڑھ کر سر‘ کمر‘ سینہ سب اچھی طرح ڈھانک لیے جائیں۔ اسی کو ہمارے ہاں دوپٹا کہا جاتا ہے ‘یعنی گھر میں بھی محرموں کے لیے عورت کے چہرے‘ ہاتھ اور پائوں کے علاوہ پورا جسم ستر ہے۔ آگے بتایا جا رہا ہے کہ محرم کون ہیں!
{وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِہِنَّ اَوْ اٰبَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ اَوْ اَبْنَآئِہِنَّ اَوْ اَبْنَآئِ بُعُوْلَتِہِنَّ……} (النور:۳۱)
’’اور وہ نہ ظاہر کریں اپنی زینت کو(کسی پر) سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپوں کے‘یا اپنے شوہروں کے باپوں کے‘ یا اپنے بیٹوں کے‘ یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے… ‘‘
زینت کے ظاہر کرنے یا ہونے کے فرق کو ذہن میں رکھیں۔ اسی آیت میں پہلے یہ الفاظ آ چکے ہیں:
{وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا}(النور:۳۱)
’’اور وہ اپنی زینت کا اظہار نہ کریں‘ سوائے اس کے جو اس میں سےاز خود ظاہر ہو جائے ۔‘‘
یہ کون سی زینت ہے جس کے اظہار کی اجازت دی جا رہی ہے؟ عورت گھر میں پورے لباس کے ساتھ ہو پھر بھی اس کا چہرہ ہے‘ اس کے ہاتھ پائوں ہیں اور اس کا قد کاٹھ ہے۔ اس کو آخر عورت کیسے چھپائے ؟اس موضوع پر آیت کے آخر میں پروردگار فرما رہا ہے:
{وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱)}(النور)
’’اور اے اہل ِایمان !تم سب کے سب مل کر اللہ کی جناب میں توبہ کرو تا کہ تم فلاح پائو۔‘‘
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس معاملے میں اب تک جو لغزش‘ غلطی اور کوتاہی ہوتی رہی ہے‘ اس سے توبہ کرو اور آئندہ کے لیے اپنے طرزِ عمل کی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایت کے مطابق اصلاح کرو۔
حکیم الامت علامہ اقبال پردے کی اہمیت کے بارے میں فرماتے ہیں؎
بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری!
’’حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا کی طرح ہو جائو اورزمانے سے چھپ جائو کہ تمہاری آغوش میںحضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ جیسی شخصیات پرورش پائیں۔‘‘
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
’’جس قوم نے عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی وہ کبھی نہ کبھی ضرور اپنی غلطی پرپشیمان ہو گی۔ اگر اسے اس کے اصل فرائض سے ہٹا کر ایسے کاموں پر لگا دیا جائے جنہیں مرد انجام دے سکتا ہے تو یہ طریق کار یقیناً غلط ہو گا ۔مثلاً عورت جس کا کام آئندہ نسل کی تربیت ہے‘ کوٹائپسٹ یا کلرک بنا دینا نہ صرف قانونِ فطرت کی خلاف ورزی ہے بلکہ انسانی معاشرے کو درہم برہم کرنے کی افسوس ناک کوشش بھی ہے۔‘‘