(حقیقتِ دین) اسماء اللہ الحسنیٰ (۳) - پروفیسر حافظ قاسم رضوان

10 /

اسماء اللہ الحسنیٰ(۳)از: پروفیسر حافظ قاسم رضوان(۱۸) الرَّزَّاقُ
رزق کے معنی اکل وشُرب کی اشیاء اور مال و متاع وغیر ہ ہیں۔ وہ سب چیزیں جن سے انسان لذت نیز حسی اور ذہنی فائدہ حاصل کرتا ہے‘ رزق میں شامل ہیں۔ سورۃالذاریات میں فرمایا گیا:{اِنَّ اللہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْـقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ(۵۸)}’’یقیناً اللہ ہی سب کو رزق دینے والا‘ قوت والا‘ زبردست ہے۔‘‘سورۃ المؤمنون میں ارشاد ہوا:{وَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۷۲)} ’’اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘اسی طرح سورۃ الجمعہ میں ہمیں بتایا گیا : {وَاللہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱)} ’’اور اللہ بہترین رزق عطا کرنے والا ہے۔‘‘سورۃ الحج میں فرمانِ الٰہی ہے: {وَاِنَّ اللہَ لَہُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۵۸)} ’’اور یقیناً اللہ ہی بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘
بعض اوقات ماں باپ‘ حاکم‘ محسن‘ امیر یا بادشاہ کو یہ گمان ہو جاتا ہے کہ وہ دوسروں کو رزق دیتے ہیں۔ عارضی طو رپر اگر یہ لوگ اپنے دعویٰ میں سچے بھی ہوں‘تب بھی واضح ہوتا ہے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کی رزق رسانی بدرجہ اَتم اور اَکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دیکھیں تو کوئی روٹی کا بھوکا ہے‘ کوئی گوشت کا‘ کوئی گھاس کا تو کوئی ذوق و شوق کا‘ کوئی محبت کا تو کوئی ذکر کا اور کوئی توجہ کا۔ ہر ایک کو اُس کا مطلوبہ رزق بہم پہنچانا اُسی رزّاقِ مطلق کا کام ہے۔ ایک غذا کےاندر معدہ‘ اعصاب‘ شرائین‘ جگر‘ تلی اور قلب و دماغ کی پرورش کرنے والے الگ الگ اجزاء ہیں۔ایک ہی جسم کے اندر رزق کی ایسی تقسیم اُس ربّ العالمین کے سوا کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔
(۱۹) الْفَتَّاحُ
لغت میں فتح کے معنی کشائش و کشودگی (کھولنے) کے ہیں۔ کلید (چابی) کو مفتاح اسی لیے کہا جاتا ہے۔فتح کے معنی کسی چیز کا پہلا حصہ بھی ہیں۔ فواتح القرآن یعنی قرآن پاک کی ابتدائی سورتیں۔ فاتحۃ الکتاب‘ الحمد شریف کو کہا جاتا ہے ۔ الفَتَّاح سے مراد کھولنے والا‘ فیصلہ کرنے والا ہے۔ اب قرآن کریم میں فتح کے استعمال کے مختلف معانی پر غور کیجیے :
{وَلَمَّا فَتَحُوْا مَتَاعَہُمْ}(یوسف:۶۵)’’اور جب انہوں نے کھولا اپنا سامان۔‘‘ سورۃ الاعراف میں فرمایا:{وَلَوْ اَنَّ اَہْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ }(آیت۹۶) ’’اور اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر کھول دیتے آسمانوں اور زمین کی برکتیں۔‘‘حضرت نوح علیہ السلام کی التجا سورۃ الشعراء میں نقل ہوئی ہے:{فَافْتَحْ بَیْنِیْ وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا }(آیت۱۱۸) ’’تو اَب دو ٹوک فیصلہ فرما دے میرے اور ان کے مابین ۔‘‘ سورۃ السجدہ میں ارشاد ہے:{قُلْ یَوْمَ الْفَتْحِ لَا یَنْفَعُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِیْمَانُہُمْ} (آیت۲۹) ’’(اے نبیﷺ!) آپ کہیے کہ فیصلے کے دن کافروں کا ایمان لانا انہیں کچھ فائدہ نہیں دے گا ۔‘‘ یہاں قیامت کو ’’یوم الفتح‘‘ کہا گیا ہے کہ اس روز ساری حقیقت کھل کر واضح ہوجائے گی۔ سورۃ الفتح کی پہلی آیت میں حضورﷺ سے مخاطب ہو کر ارشادِ ربانی ہے : {اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا(۱)} ’’یقیناً ہم نے آپ ؐکو ایک بڑی روشن فتح عطا فرمائی ہے۔‘‘
اسی طرح مسجد میں داخل ہوتے ہوئے دعا پڑھی جاتی ہے :اَللّٰھُمَّ افْتَحْ لِیْ اَبْوَابَ رَحْمَتِکَ ’’اےاللہ! میرےلیے رحمت کے دروازے کھول دے۔‘‘
غور کریں کہ ’’فَتَّاح‘‘ وہی ذاتِ باری تعالیٰ ہے جو مشکلات و مہمات کو کھول دیتی ہے‘ جو دل کو حق کے لیے کھول دیتی ہے اور جو زبان پر علوم (حق) کو جاری فرما دیتی ہے۔ سورۃ سبا میں فرمانِ الٰہی ہے: {قُلْ یَجْمَعُ بَیْنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ یَفْتَحُ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ ط وَہُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ(۲۶)} ’’آپؐ کہہ دیجیے کہ ہمارا رب ہم سب کو (ایک دن)جمع کرے گا ‘پھر وہ فیصلہ کردے گا ہمارے مابین حق کے ساتھ‘ اور وہ خوب فیصلہ کرنے والا‘ خوب جاننے والا ہے۔‘‘ گویا فَتَّاح وہی ذاتِ باری تعالیٰ ہے جو اہل ِحق و اہل باطل کے درمیان فیصلہ فرماتی ہے۔ چنانچہ اہل ِایمان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات ِمقدّس سے ہی کشائش ظاہری و باطنی کی اُمید رکھنی چاہیے۔
(۲۰) الْعَلِیْمُ
علم سے عَلِیْم بنا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ عالم بھی آیا ہے۔ سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہوتا ہے :{وَکُنَّا بِکُلِّ شَیْ ئٍ عٰلِمِیْنَ(۸۱)}’’ اور ہم تمام چیزوں کا علم رکھنے والے ہیں۔‘‘ سورۃ الحشر میں ربّ العالمین کے بارے میں ارشادہے:{عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِج} (آیت۲۲) ’’وہ جاننے والا ہے چھپے کا اور کھلے کا۔ ‘‘اسی طرح اللہ تعالیٰ کے لیے عَلَّام کا لفظ بھی آیا ہے ۔ سورۃ المائدۃ میں ارشادِ ربانی ہے: {اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْـغُـیُـوْبِ(۱۱۶)} ’’یقیناً تمام پوشیدہ حقیقتوں کا جاننے والا تو بس تو ہی ہے۔‘‘ ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے اَعْلَمُ (سب سے زیادہ جاننے والا)کا لفظ بھی آیا ہے۔ سورۃ الانعام میں ہے: {اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ ط } (آیت۱۲۴) ’’اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کا کام کس سے لے اور کس طرح لے! ‘‘
مندرجہ ذیل آیات پر غور کرنے سے معلوم ہو گا کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے علیم ہونے کی صورت کے مختلف مدارج کون سے ہیں :
{اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ  بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۱۹)} (آل عمران) ’’یقیناً اللہ تعالیٰ جو کچھ سینوں کے اندر مضمر ہے اس سے بھی واقف ہے۔ ‘‘سورۃ النحل میں ارشاد ہے:{اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌم بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۲۸)}’’بے شک اللہ خوب جانتا ہے اُسے جو کچھ تم کر رہے تھے۔ ‘‘سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہے:{اَنَّ اللہَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۲۳۱)} ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہرشے کا جاننے والا ہے۔ ‘‘ سورئہ ہود میں ارشاد ہے: {یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ج} (آیت۵) ’’ اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپا رہے ہوتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔‘‘ سورۃ الرعد میں ارشاد ہے:{یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ ط} (آیت۴۲) ’’وہ جانتا ہے ہر جان جو کچھ کماتی ہے۔ ‘‘سورۃ الاحقاف میں ارشادہے:{قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللہِ ز } (آیت۲۳) ’’کہہ دیجیے :اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ ‘‘ سورۃ الاعراف میں ارشادِ ربانی ہے:{وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیْ ئٍ عِلْمًاط}(آیت۸۹) ’’اور ہمارے ربّ کے علم نے تو ہر شے کا احاطہ کیا ہواہے۔ ‘‘سورئہ سبا میں ارشادِ ربانی ہے: { یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَاط} (آیت۲) ’’وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتاہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے ‘اور جو کچھ آسمان سے نازل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں چڑھتا ہے۔ ‘‘
علم الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے علیم ہونے کے متعلق درج بالا چند آیات کا انتخاب کیا گیا ہے‘ ورنہ اس سے متعلق قرآن کریم میں اور بھی بہت سی آیات ہیں۔یہ آیات بتلاتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ سینہ و دل کی چھپی ہوئی باتوں اور بھیدوں کا جاننےو الا ہے اور اس کو اعمالِ انسانی کا بھی کامل علم ہے۔ زمین کے اندر کے راز‘ آسمانوں کے اوپر کے اَسرار‘ زمین سے اوپر کو اٹھنے والی چیزیں اور اوپر سے نیچے نازل ہونے والی چیزیں سب اُس ذات کے علم میں ہیں۔ گزری ہوئی امتیں‘ آنےوالی نسلیں سب کو وہ جانتا ہے۔ جن پاک ہستیوں کو نبوت و رسالت کے مناصب پر سرفراز کیا گیا‘ وہ سب علم الٰہی کا ثمر تھا۔ لوگ اہل علم کو تو دیکھتے ہیں لیکن اُس علیم سے بے خبر رہتے ہیں جس نے علم کو اور معلومات کو پیدا کیا‘ جس نے علم و معلومات میں وابستگی کر دی۔ جس ذات نے سوچنے والا دماغ ‘ سمجھنے والا دل‘ سننے والے کان اور بولنےو الی زبان پیدا کی۔ یہی تو وہ آلات ہیں جن پر وجودِ علم کا انحصار ہے۔ پس اگر کوئی علم کا چاہنےو الا ہے تو اسے چاہیے کہ آستانِ علیم پر جبیں سائی کرے اور یہیں اپنا سر جھکائے۔
(۲۱) السَّمِیْعُ
یہ باری تعالیٰ کے مشہور اسماء میں سے ہے۔ سمیع تو وہی ہے جو جملہ مسموعات اور جملہ اصوات کا سننے والا ہے۔ سمیع تو وہی ہے جو جملہ اقوال و الفاظ اور جملہ کلمات و عبادات کا سننے والا ہے۔ السَّمِیع کےمعنی بہت سننے والا کے ہیں۔سورۃ المجادلہ میں ارشاد ہوتا ہے : {قَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّتِیْ تُجَادِلُکَ فِیْ زَوْجِہَا وَتَشْتَـکِیْٓ اِلَی اللہِ ق وَاللہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَاط اِنَّ اللہَ سَمِیْعٌ  بَصِیْرٌ (۱)} ’’یقیناًاللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو( اے نبیﷺ!) آپ سے جھگڑ رہی ہے اپنے شوہر کے بارے میں اور وہ اللہ سے بھی فریاد کر رہی ہے۔ اور اللہ سن رہا ہے آپ دونوں کے مابین ہونے والی گفتگو۔ بے شک اللہ خوب سننے والا‘ خوب دیکھنے والا ہے۔ ‘‘
درج ذیل آیات میں الفاظ و کلمات کی سماعت کاثبوت ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:{لَقَدْ سَمِعَ اللہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَـآئُ  سَنَـکْتُبُ مَا قَالُوْا} (آل عمران:۱۸۱) ’’اللہ نے سن لیا ہے قول ان لوگوں کا جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ ہم لکھ رکھیں گے جو کچھ انہوں نے کہا ہے ۔ ‘‘سورئہ ابراہیم میں ارشاد ہوتا ہے : {اِنَّ رَبِّیْ لَسَمِیْعُ الدُّعَآئِ(۳۹)} ’’یقیناً میرا پروردگار دعائوں کا سننے والا ہے۔ ‘‘قرآن کریم میں اس اسم کا استعمال سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ اور السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ کی صورت میں ۲۵ مقامات پر ہوا ہے۔ چار مقامات پر سَمِیْعٌ بَصِیْرٌ اور ایک مقام پر {اِنَّہٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ(۵۰) } (سبا) ’’یقیناً وہ خوب سننے والا‘ بہت قریب ہے ‘‘آیا ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سمیع بمعنی علیم یا بصیر نہیں ہے بلکہ ہر ایک اسم مستقل اور اپنی جداگانہ خصوصیات لیے ہوئے ہے۔
یہ بھی بہت ضروری تھاکہ قرآن عظیم ایسے اسماء کے استعمال کے ساتھ شائبہ تشبیہ نہ پیدا ہونے دے‘ اس لیے بندے کی سماعت کی حقیقت بھی بیان فرما دی۔ سورۃ المؤمنون میں فرمایا: {وَہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْاَ بْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ ط} (آیت۷۸) ’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے بنائے ہیں کان‘ آنکھیں اور عقل ۔ ‘‘لہٰذا بندے کی سماعت کو اللہ تعالیٰ کی صفاتِ سماعت سے کوئی نسبت باہمی نہیں۔ سمیع تو بس وہی ذات ہے جو انسانوں کے ساتھ چرند و پرند اور درندوں کی بھی سنتا ہے۔ کروڑوں اصوات اور ہزاروں لاکھوں لغات اور لاتعداد معروضات اس کی سماعت میں خلل انداز نہیں ہو سکتیں۔ وہ بے زبانوں کی بھی سنتا ہے اور سب کی ضروریات کو نافذ فرماتا ہے۔
(۲۲) الْبَصِیْرُ
یہ بصر سے ہے۔ بصر اس صفت کو کہتے ہیں جو مشہودات کا ادراک کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف جملہ مبصرات و مدرکات و مشہودات کا ادراک حاصل ہے‘ بلکہ وہ الوان و اجسام‘ افعال و اعمال اور ہیئات و اشکال کا دیکھنے والا بھی ہے۔ ہر شے جس کا تعلق دید سے ہے ‘ وہ اس کو دیکھنے والا ہے۔ سورئہ آل عمران میں فرمایا:{وَاللہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ(۲۰)} ’’اوراللہ اپنے بندوں کے حال کو دیکھ رہا ہے ۔ ‘‘سورۃالانفال میں فرمایا:{فَاِنَّ اللہَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۳۹)}’’تو جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ یقیناً اس کو دیکھ رہا ہے۔ ‘‘سورۃ الشوریٰ میں فرمایا: {اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ بَصِیْرٌ(۲۷)} ’’یقیناً وہ اپنے بندوں (کے حالات) سے باخبر ‘ان کو دیکھنے والا ہے۔ ‘‘ یہ اسم قرآن کریم میں کہیں سَمِیْع کے ساتھ اور کہیں خَبِیْرٌ کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور انسان کو بھی ’’سَمِیْع و بَصِیْر‘‘ وہ ربّ العالمین ہی بنانے والا ہے۔ سورۃ الدھر میں فرمایا: {فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًا  بَصِیْرًا(۲)} ’’پھر ہم نے اس کو بنا دیا سننے والا‘ دیکھنے والا۔ ‘‘اُسی ذات نے اپنی مخلوق کے لیے بصائر کو نازل فرمایا۔سورۃ الانعام میں ارشاد ہے:{قَدْ جَآءَکُمْ بَصَآئِرُ مِنْ رَّبِّکُمْ ج } (آیت۱۰۴)  ’’(دیکھو) تمہارے پاس آ چکی ہیں بصیرت افروز باتیں تمہارے ربّ کی طرف سے۔ ‘‘وہی خالق کائنات ہے کہ بصائر کو اس کا ادراک نہیں اور اسے ابصار کا ادراک حاصل ہے۔ سورۃ الانعام میں فرمایا:{لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُز وَہُوَ یُدْرِکُ الْاَبْصَارَج} (آیت۱۰۳) ’’اُسے نگاہیں نہیں پا سکتیں‘جبکہ وہ (تمہاری) نگاہوں کو پا لیتا ہے۔ ‘‘سورئہ یونس میں فرمایا:{اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ} (آیت۳۱) ’’کون ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہیں تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں! ‘‘ذاتِ باری تعالیٰ ہی ہے جس نے کان کی ہڈی کو سننا‘ آنکھوں کی چربی کو دیکھنا اور زبان کے گوشت کو بولنا سکھایا۔ وہی ذاتِ حق ہے کہ جس کی نظروں کے سامنے سمندروں کی گہرائیاں‘ رات کی تاریکیاں نیز دلوں کی حالتیں اور طبائع کے اطوار وغیرہ ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ اللہ کو بصیر مانتے ہوئے کسی ایسے فعل کا ارتکاب قطعاً نہ کریں جو اُس کی مخلوق کے سامنے کرتے ہوئے ہچکچاتے ہوں۔