(تقرّب الی اللٰہ) نمازِ تہجد کی اہمیت و فضیلت - حافظ عطاء الرحمٰن

9 /

نمازِ تہجد کی اہمیت و فضیلتحافظ عطاء الرحمٰن

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ یہ حدیث روایت کرتے ہیں کہ:
’’جب قیامت کا دن ہوگا (تمام خلائق ایک میدان میں جمع ہوں گے) اُس وقت ایک منادی پکار کر کہے گا: ’’ابھی سارا مجمع جان لے گا کہ عزت و اکرام کے لائق کون لوگ ہیں! کہاں ہیں وہ لوگ جن کے پہلو بستروں سے الگ رہتے تھے‘ وہ اپنے رب کو پکارتے تھے خوف اور اُمید رکھتے ہوئے اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے تھے؟‘‘پھر یہ لوگ کھڑے ہوں گے اور لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے چلے جائیں گے۔ پھر (دوبارہ) منادی پکار کر کہے گا: ’’ابھی سارا مجمع جان لے گا کہ عزت و اکرام کے لائق کون لوگ ہیں! کہاں ہیں وہ لوگ جن کو تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی تھی؟‘‘ یہ لوگ بھی کھڑے ہوں گے اور لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کرآگے چلے جائیں گے۔ پھر (تیسری مرتبہ) منادی پکارلگائے گا اور کہے گا: ’’ابھی سارا مجمع جان لے گا کہ عزّت و اکرام کے لائق کون لوگ ہیں! کہاں ہیں وہ لوگ جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے تھے؟‘‘ پھر یہ لوگ بھی کھڑے ہوں گے جو کہ بہت ہوں گے۔ اس کے بعد جو لوگ باقی رہ جائیں گے ان پر حساب اور انجام ہوگا۔‘‘ (شعب الایمان)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے مقرب ‘محبوب بندوں اور جنت میں بلند درجات پانے والے اہل ِایمان کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ساری رات غفلت میں سوکر نہیں گزارتے بلکہ راتوں کو اُٹھ کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں‘ اُس کے سامنے باادب کھڑے ہوتے ہیں‘ عاجزی سے سجدے کرتے ہیں‘ اُس کو پکارتے ہیں اور اُس کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں۔ چنانچہ :
٭ سورۃ السجدہ میں اہل ِایمان کی عبادت میں شب بیداری اور اس کے بدلے میں آخرت میں ملنے والی عالی شان نعمتوں کا تذکرہ اس طرح ہوا ہے:
{تَتَجَافٰی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًاز وَّمِمَّا رَزَقْنٰـہُمْ یُنْفِقُوْنَ(۱۶) فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّــآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ج جَزَآئً  بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ (۱۷)}
’’ان کے پہلو خواب گاہوں سے الگ ہوجاتے ہیں اس طور پر کہ وہ اپنے رب کو (ثواب کی) امید سے اور (عذاب کے) خوف سے پکارتے ہیں‘ اور وہ ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں۔ سو کوئی شخص نہیں جانتا کہ ایسے لوگوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان چھپاکر رکھا گیا ہے۔ یہ ان کے (نیک) اعمال کا بدلہ ہے۔‘‘
رات کے وقت اکثر لوگ سونے میں مشغول ہوتے ہیں‘ ایسے میںراحت و آرام کو چھوڑ کر نماز اور عبادت میں مشغول ہونا اتنا آسان نہیں بلکہ یہ بڑا مشقت والا کام ہے ۔اس میں اخلاص و للہیت ہی غالب ہوتی ہے یعنی ریا و نمود کا خطرہ بھی زیادہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس نیک عمل کے بدلہ میں سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا ایسا سامان تیار کیا ہے جس کا کوئی شخص کبھی تصوّر بھی نہیں کر سکتا۔
٭ سورۃ الذاریات میں ارشاد ہے کہ متقی لوگوں کو جنت میں نعمتیں جن اچھے اعمال کے بدلے میں ملیں گی ان میں ایک عظیم عمل شب بیداری کا ہے۔ فرمایا:
{اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ(۱۵) اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰىہُمْ رَبُّہُمْ ط اِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ (۱۶) کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّـیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ(۱۷) وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ(۱۸) } (الذّٰرِیٰت)
’’بے شک متقی لوگ جنتوں اور چشموں میں ہوں گے ‘ ان کے رب نے ان کو جو کچھ عطاکیا ہوگا وہ اسے (خوشی خوشی) لے رہے ہوں گے‘ (اور یہ کیوں نہ ہو؟) وہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) اچھے کام کرتے تھے ‘ وہ لوگ رات کو بہت کم سوتے تھے اور (باوجود اس کے) وہ سحری کے وقت (اپنی کوتاہی پر) استغفار کرتے تھے۔‘‘
٭ سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں’’ عباد الرحمٰن‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے مقرب اور مقبول بندوں کی متعدد صفات کا ذکر ہے‘ اُن میں شب بیداری کا تذکرہ اس طرح ہوا ہے:
{وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)}
’’اور وہ رات گزارتے ہیں اپنے رب کے سامنے سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے۔‘‘
٭ سورئہ آلِ عمران میں جنت کے مستحق لوگوں کی صفات بیان ہوئی ہیںکہ وہ صبر کرنے والے‘ سچ بولنے والے‘ فرماں برداری کرنے والے‘ مال خرچ کرنے والے اور سحری کے وقت اللہ سے مغفرت طلب کرنے والے لوگ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے متعدد ارشادات میں بھی عبادت اور قیام میں رات گزارنے کی فضلیت و اہمیت بیان ہوئی ہے۔ چند احادیث درج ذیل ہیں:
٭ حضرت ابواُمامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((عَلَیْکُمْ بِقِیَامِ اللَّیْلِ، فَاِنَّہُ دَأْبُ الصَّالِحِینَ قَبْلَکُمْ، وَ ھُوَ قُرْبَۃٌ لَکُمْ اِلٰی رَبِّکُمْ وَ مَکْفَرَۃٌ لِلسَّیِّئَاتِ وَمَنْہَاۃٌ عَنِ الْاِثْمِ)) (الترمذی)
’’تم رات کے قیام (یعنی تہجد کی نماز) کو لازم پکڑو‘ کیونکہ یہ تم سے پہلے کے نیک لوگوں کا معمول رہا ہے ‘اور یہ تمہارے لیے اپنے ربّ کا قرب حاصل کرنے کا (اہم) ذریعہ ہے‘ اور یہ برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے روکنے والا ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے تہجد کی نماز کی پابندی کا حکم دینے کے ساتھ اس کے کچھ فوائد اور اچھے نتائج وثمرات بھی بیان فرمائے ہیں۔ رات کو اُٹھ کر نماز اور عبادت میں وقت گزارنا گزشتہ اُمتوں کے نیک بندوں کا دستور اور معمول رہا ہے۔ گویا اگر تم اس کا اہتمام کروگے تو تم بھی اللہ کے نیک بندوں میں شمار ہوگے۔ ہر انسان اپنی پسندیدہ اور آئیڈیل شخصیات کی پیروی کرتا ہے اور مسلمان کی پسندیدہ شخصیات تو اللہ کے نیک بندے (عباد اللہ الصالحین) ہیں‘ لہٰذا ہم کو ان کی پیروی کرنا چاہیے‘ اور ان کی طرح شب بیداری کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ہمارے لیے اُسوئہ حسنہ اور بہترین نمونہ رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ ہے اور ہمیں آپ ﷺ کی اتباع کا حکم دیا گیاہے۔
٭ عبادت میں شب بیداری یا قیام اللیل میں آپﷺ کے معمول کے بارے میں اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:
فَاِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ لَا یَدَعُہُ ، فَاِنْ مَرِضَ قَرَأَ وَھُوَ قَاعِدٌ (مسند احمد)
’’رسول اللہ ﷺ اسے کبھی نہیں چھوڑتے تھے‘ اگر آپ بیمار ہوتے تو بیٹھ کر پڑھتے تھے۔‘‘
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے یہ بھی مروی ہے کہ ’’آپ ﷺ کی رات کی نماز اتنی لمبی اور اتنی حسین ہوتی تھی کہ کچھ نہ پوچھو۔‘‘ اور آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ رات کی نماز کی طوالت اور کثرت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے قدم مبارک( سوج جاتے اور) پھٹ جاتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا:یا رسول اللہﷺ! آپؐ اتنی مشقت کیوں اُٹھاتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو آپؐ کی اگلی اور پچھلی سب خطائیں معاف کردی ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا:
((اَفَلَا اُحِبُّ اَنْ اَکُونَ عَبْدًا شَکُورًا))(صحیح البخاری:۴۸۳۷)
’’کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ بننا پسند نہ کروں؟‘‘
٭قیام اللیل رب تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے ۔ رات کو جاگ کر نمازِ تہجد میں وقت گزارنا ایک اہم نفلی عبادت ہے اور فرائض و واجبات کی ادائیگی کے ساتھ اس کے اہتمام سے بندئہ مومن کو اللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی محبت نصیب ہوجاتی ہے۔ حدیث قدسی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
((…مَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ، فَاِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِی یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِی یُبْصِرُ بِہٖ، وَیَدَہُ الَّتِی یَبْطِشُ بِہَا، وَرِجْلَہُ الَّتِی یَمْشِی بِہَا، وَاِنْ سَأَلَنِی لَأُعْطِیَنَّہُ، وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِی لَأُعِیذَنَّہُ (صحیح البخاری)
’’…میرا بندہ نوافل کی ادائیگی سے بھی میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔پھر جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اُس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے‘ اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے‘ اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے‘ اور اس کا پائوں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔ اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ میری پناہ طلب کرے تو میں اسے ضرور پناہ دیتا ہوں۔‘‘
٭ حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
((أَقْرَبُ مَا یَکُونُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ الْآخِرِ، فَاِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَکُونَ مِمَّنْ یَذْکُرُ اللّٰہَ فِی تِلْکَ السَّاعَۃِ فَکُنْ))(رواہ الترمذی و ابوداوٗد)
’’ربّ تعالیٰ اپنے بندے سے سب زیادہ قریب ہوتا ہے رات کے آخری حصے کے درمیان میں۔ اس لیے اگر تم ان لوگوں میں ہوسکتے ہو جو اس وقت اللہ کا ذکر کرتے ہیں‘ تو ہوجائو!‘‘
٭ قیام اللیل (تہجد کی نماز) گناہوں کا کفّارہ بھی ہے اور برائیوں سے روکنے والا بھی ۔ ایک دوسری روایت میں اس کی وضاحت اس طرح ہوئی کہ کسی آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے شکایت کی کہ فلاں آدمی رات کو نماز پڑھتا ہے‘ پھر دن میں چوری بھی کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ رات کی نماز اُس کو اِس برائی سے روک دے گی جو تم کہہ رہے ہو۔‘‘ (مشکوٰۃ)
نیکی اور گناہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آدمی نیکی کے راستہ پر چلنے کا فیصلہ کرکے اس پر گامزن ہوجائے تو رفتہ رفتہ ساری برائیاں اس سے چھوٹ جاتی ہیں۔ یہ بات قرآن مجید میں بھی بیان ہوئی ہے کہ{اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ ط} (ھود:۱۱۴) ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔‘‘ نیک کاموں میں نماز کی بڑی اونچی شان ہے۔ ایک حدیث میں ہے: ((اَلصَّلَاۃُ خَیْرُ مَوْضُوْعٍ)(طبرانی) یعنی شریعت میں وضع کردہ اعمال میں نماز سب سے افضل عمل ہے۔ جیسے فرض نماز دوسرے فرائض میں فضیلت رکھتی ہے اسی طرح نفل نماز دیگر نوافل میں فضیلت رکھتی ہے اور نفل نمازوں میں سب سے افضل تہجد کی نماز ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ((أَفْضَلُ الصَّلَاۃِ بَعْدَ الْفَرِیضَۃِ قِیَامُ اللَّیْلِ)) (سنن النسائی) ’’فرض نماز کے بعد سب سے فضیلت والی نماز رات کی نماز ہے۔‘‘ نماز کی ایک خاصیت قرآن کریم میں یہ بیان ہوئی ہے کہ {اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِط}(العنکبوت:۴۵) ’’بے شک نماز بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے۔‘‘ گویا تہجد کی نماز کے اہتمام سے بندئہ مومن کے دل میں ایسی نورانیت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس سے گزشتہ گناہوں کی سیاہی اور نحوست بھی ختم ہوجاتی ہے اور آئندہ کے لیے گناہوں سے دل متنفرسا ہوجاتا ہے ۔اس کے نتیجے میں نیک اعمال کا شوق زیادہ ہوجاتا ہے اور عبادت کی رغبت بڑھ جاتی ہے۔ اس کے بعد بندئہ مومن کے لیے قربِ الٰہی کی منازل طے کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ پھر اُسے تہجد کی نماز میں جو لذت اور حلاوت ملتی ہے وہ اسے دوعالم ہی سے بیگانہ کردیتی ہے۔ بقول علامہ اقبال:؎
دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی!
قیام اللیل کی لذت سے آشنا ہوجانے سے متعلق ایک حکایت ہے کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ سے شاہِ سنجر نے درخواست کی کہ اگر آپ اجازت دیں تو نیم روز علاقے کی آمدنی آپ کی خانقاہ کے لیے وقف کردوں۔ آپ نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ مجھے نیم شب کی جو دولت عطا ہوئی ہے اس کے ہوتے ہوئے تمہارے نیم روز کی دولت کا ایک جو بھی نہیں لوں گا ۔
چوں چتر سنجری رخِ بختم سیاہ باد
در دل اگر بود ہوس ملک ِسنجرم
زانگہ کہ یافتم خبر از ملک ِنیم شب
من ز ملک نیمروز بیک جو نمی خرم
’’شاہِ سنجر کی سیاہ رنگ کی چھتری کی طرح میرے بخت کا چہرہ سیاہ ہوجائے اگر میرے دل میں ملک سنجر کی ذرا سی بھی ہوس ہو۔ جب سے مجھے نیم شب (آدھی رات) کی سلطنت حاصل ہوئی ہے میں تمہاری نیم روز کی سلطنت کا ایک جو بھی نہیں لوں گا۔ ‘‘
ابوسلیمان رحمہ اللہ ایک بزرگ گزرے ہیں ۔ان کا قول ہے:
أَھْلُ اللَّیْلِ فِیْ لَیْلِہِمْ أَلَذُّ مِنْ أَھْلِ اللَّہْوِ فِیْ لَہْوِھِمْ، وَلَوْ لَا اللَّیْلُ مَا أَحْبَبْتُ الْبَقَاءَ فِی الدُّنْیَا
’’شب بیدار لوگوں کو اپنی شب بیداری میں جو لذت نصیب ہوتی ہے وہ عیاشی کرنے والوں کو اپنے سامانِ عیش میں حاصل نہیں ہوتی۔ اور اگر رات نہ ہوتی تو مَیں دنیا میں باقی رہنا پسند نہ کرتا۔‘‘
گویا دنیا میں لذت و سکون اور راحت صرف مادی چیزوں ہی سے حاصل نہیں ہوتی‘ کچھ معنوی اور روحانی چیزیں انسان کے لیے زیادہ لذت و سکون اور راحت کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
مذکورہ بالا حدیث کی بعض روایات میں ان الفاظ کا اضافہ بھی ہے: ((وَمَطْرَدَۃٌ لِلدَّاءِ عَنِ الْجَسَدِ)) یعنی قیام اللیل جسم سے بیماری کو دورکرتا ہے۔ گویا تہجد کی نماز سے جہاں بہت سے روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں وہیں یہ جسمانی صحت کے لیے بھی بہت مفید ہے۔
٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
((یَنْزِلُ رَبُّنَا تَبَارَکَ وَتَعَالٰی کُلَّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا حِینَ یَبْقٰی ثُلُثُ اللَّیْلِ الْآخِرُ، یَقُولُ: مَنْ یَّدْعُونِی فَأَسْتَجِیبَ لَہُ؟ مَنْ یَّسْأَلُنِیْ فَأُعْطِیَہُ؟ مَنْ یَّسْتَغْفِرُنِیْ فَأَغْفِرَ لَہُ؟ (متفق علیہ)
’’جب رات کا آخری تہائی باقی رہ جاتا اُس وقت اللہ تبارک وتعالیٰ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا مانگے تو مَیں اُس کی دعا قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے اپنی حاجت کا سوال کرے کہ مَیں اُس کی حاجت پوری کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے کہ مَیں اُس کی مغفرت کروں؟‘‘
٭ حضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: أَیُّ الدُّعَاءِ أَسْمَعُ؟’’کون سی دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ((جَوْفُ اللَّیْلِ الْآخِرِ وَدُبُرُ الصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوبَاتِ))’’رات کے آخری حصے کے بیچ کی دعا اور فرض نمازوں کے بعد کی دعا۔‘‘ (سن الترمذی)
تہجد کی نماز کے وقت کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق تک تہجد کا وقت ہے۔ اس دوران میں جو نفلی نماز پڑھی جائے گی وہ تہجد ہی شمار ہوگی‘ البتہ رات کا آخری تہائی حصہ افضل و اعلیٰ ہے۔ دعا کی قبولیت کے اعتبار سے اسے خاص فضیلت حاصل ہے۔
٭تہجد کی نماز کا اہتمام کرنے والوں کے لیے احادیث میں ایک بشارت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ ان کے لیے جنت میں داخلہ آسان ہوجاتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ میں نے حضور ﷺ سے سب سے پہلے جو بات سنی وہ یہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا:
((یَا أَیُّہَا النَّاسُ أَفْشُوا السَّلَامَ، وَ أَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصِلُوا الْأَرْحَامَ، وَ صَلُّوا بِاللَّیْلِ وَ النَّاسُ نِیَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِسَلَامٍ)) (ابن ماجہ)
’’اے لوگو! سلام کو عام کرو‘ لوگوں کو کھانا کھلائو‘ صلہ رحمی کرو‘ اور رات کو اُٹھ کر نماز پڑھو جب کہ سب لوگ سو رہے ہوتے ہیں (یہ کام کرو) تو تم جنت میں سلامتی سے داخل ہو جائو گے۔‘‘
٭سردی کے موسم میں قیام اللیل نسبتاً آسان ہوتا ہے‘ کیونکہ دن چھوٹے اور راتیں لمبی ہوتی ہیں‘ لہٰذا اس موسم میں خاص طور پر قیام اللیل کا اہتمام زیادہ کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے حدیث مبارکہ میں بھی ترغیب آئی ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا:
((اَلشِّتَاءُ رَبِیعُ الْمُؤْمِنِ ، قَصُرَ نَہَارُہُ فَصَامَ ، وَطَالَ لَیْلُہُ فَقَامَ)) (رواہ البیھقی)
’’سردی کا موسم بندئہ مومن کا موسم ِبہار ہے‘ اس کا دن چھوٹا ہوتا ہے تو وہ روزہ رکھتا ہے اور اس کی رات لمبی ہوتی ہے تو وہ (تہجد کی نماز میں) قیام کرتا ہے۔‘‘
یعنی بندئہ مومن اس قیمتی موقع کو ضائع نہیں کرتا بلکہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ ہمیں بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دن میں روزے اور رات میں نماز کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اگر اس موسم کے دوتین مہینے یہ اہتمام کرلیں گے تو‘ ان شاء اللہ‘ یہ ہمارا مستقل معمول بن جائے گا اور بعد میں بھی نمازِ تہجد کا سلسلہ جاری رکھنا آسان ہوجائے گا۔ ان دنوں (نومبر تا جنوری) میں عام طور پر رات آٹھ بجے تک عشاء کی نماز سے لوگ فارغ ہوجاتے ہیں۔ اگر رات کو نو بجے بھی سوجائیں تو صبح چار بجے تک سات گھنٹوں میں نیند پوری ہوجاتی ہے۔ شروع کے چند دن شاید کچھ مشکل محسوس ہو لیکن کچھ دن اپنے نفس کو اس کا پابند بنانے کے بعد نماز کے لیے اٹھنے میں آسانی ہوجائے گی۔ پھر یہ سلسلہ جاری رکھنا بھی آسان ہوگا۔ ان شاء اللہ!
٭ تہجد کی نماز کی اہمیت و فضیلت یوں تو سب اہل ِایمان کے لیے ہے البتہ ع ’’جن کے رُتبے ہیں سوا‘ ان کو سوا مشکل ہے‘‘ کے مصداق‘ جو حضرات معاشرے میں کسی درجہ کے دینی رہنما سمجھے جاتے ہیں یا وہ حضرات جو دین کا کام کرتے ہیں( دعوت اِلی اللہ‘ تبلیغ‘ دینی تعلیم وتعلّم اور درس و تدریس‘ قرآن وسُنّت کے علوم کی ترویج و اشاعت‘ معاشرے کی دینی اصلاح‘ احیائے اسلام اور غلبہ و اقامت ِدین کی جدّوجُہد وغیرہ) ان حضرات کے لیے تہجد کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس کو یوں سمجھیے کہ رسولِ اکرم ﷺ پر ابتدائی زمانہ میں جو قرآن مجید نازل ہوا اُس میں سورۃا لمزّمل بھی ہے‘ جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو قیام اللیل کا حکم دیا ہے اور ساتھ ہی فرمایا ہے کہ اس سے نبوت کا بارِ عظیم اُٹھانے اور اس کی ذمہ داری اداکرنے کی طاقت حاصل ہوگی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓــاَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(۲) نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا(۳) اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا(۴) اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(۵) اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّــیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَقْوَمُ قِیْلًا(۶) اِنَّ لَکَ فِی النَّہَارِ سَبْحًا طَوِیْلًا(۷)}
’’اے چادر میں لپٹنے والے! رات کو کھڑے رہا کرو مگر تھوڑی سی رات۔ یعنی آدھی رات‘ یا اس میں سے قدرے کم کردو‘ یا اس سے کچھ بڑھادو اور قرآن کو خوب ٹھہرٹھہر کر پڑھو۔ ہم آپ پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔ بے شک رات کے وقت اٹھنا ایسا عمل ہے جس سے نفس اچھی طرح کچلا جاتا ہے اور بات بھی اچھے طریقے پر کہی جاتی ہے۔ دن میں تو آپ لمبی مصروفیت میں رواں دواں رہتے ہو۔‘‘
جو لوگ احیائے دین‘ اشاعت ِدین یا غلبہ دین کے کام کو ایک دینی فریضہ اور اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں انہیں یہ بھی اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارے کاندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہے۔ اب وہ دن گئے کہ جب ٹانگیں پھیلاکر رات بھر سوتے رہتے تھے۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے ہمیں مستعد رہنا ہے اور یہ استعداد حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ قیام اللیل ہے۔بقول علامہ اقبال : ؎
جب عشق سکھاتا ہے آدابِ خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرارِ شہنشاہی
عطار ہو ‘ رومی ہو ‘ رازی ہو ‘ غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی
نمازِ تہجد کے اہتمام کے لیے کرنے کے کام
 رات کو اٹھنے کی نیت اور پختہ ارادہ کرکے سونا۔ پختہ ارادہ میں یہ بھی شامل ہے کہ اٹھنے کا انتظام کرکے سویا جائے ۔ سونے سے پہلے ہی وضو کے پانی اورجائے نماز کا انتظام بھی کرلیا جائے۔ جب آدمی کسی اچھے کام کی نیت اور پختہ ارادہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ کام بآسانی ہوجاتا ہے‘ اگر آدمی کسی وجہ سے وہ کام نہ بھی کرسکے تو نیت کا ثواب بہرحال اسے مل جاتا ہے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ أَتٰی فِرَاشَہُ وَھُوَ یَنْوِی أَنْ یَقُومَ یُصَلِّی مِنَ اللَّیْلِ فَغَلَبَتْہُ عَیْنَاہُ حَتّٰی أَصْبَحَ کُتِبَ لَہُ مَا نَوٰی، وَکَانَ نَوْمُہُ صَدَقَۃً عَلَیْہِ مِنْ رَبِّہٖ عَزَّ وَجَلَّ)) (سنن النسائی)
’’جو شخص (رات کو سونے کے لیے) اپنے بستر پر آیا اور اس نے نیت کی کہ وہ اُٹھ کر رات کی نماز پڑھے گا‘ پھر اس پر نیند کا غلبہ ہوا یہاں تک کہ صبح ہوگئی اُس کے لیے وہ لکھ دیا جاتا ہے جس کی اُس نے نیت کی اور اُس کی نیند اُس کے رب تعالیٰ کی طرف سے اُس پر بخشش ہوجاتی ہے۔‘‘
رات کو جلدی سونا۔ اگر آدمی جلدی سوجائے تو جلدی اُٹھنا آسان ہوتا ہے۔ اگر بلامعقول وجہ کے رات دیر تک جاگتا رہے گا تو تہجد کی نماز کے لیے اُٹھنا مشکل ہوجائے گا۔
کھانا کم کھانا۔ زیادہ پیٹ بھر کر کھانے سے سستی بھی ہوجاتا ہے اور نیند بھی ضرورت سے زیادہ آتی ہے‘ ایسی صورت میں تہجد کے لیے اُٹھنا مشکل ہوسکتا ہے۔
 سونے کے لیے سادہ بستر استعمال کرنا۔ زیادہ نرم اور ملائم بستر رات کے قیام میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ اُمّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی نے پوچھا : نبی اکرم ﷺ رات کو جس بستر پر آرام کرتے تھے وہ کیسا تھا؟ آپؓ نے فرمایا: ’’آپﷺ کا بستر ایک ٹاٹ تھا جسے ہم دوہرا کرکے بچھاتے تھے۔ ایک دن میں نے اس خیال سے وہ ٹاٹ چوہرا کرکے بچھادیا کہ یہ آپ کے لیے زیادہ آرام دہ ہوجائے گا۔ پھر جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے پوچھا: یہ رات کو کون سا بستر بچھایا تھا؟ میں نے کہا کہ یہ وہی ٹاٹ ہے جو پہلے ہم بچھاتے ہیں البتہ اب میں نے اسے چوہرا کردیا ہے تاکہ آپ کے لیے نرم ہوجائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے پہلی حالت پر ہی بچھادو‘ کیونکہ اس کی نرمی رات کی نماز کے لیے اُٹھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔‘‘ (شمائل ترمذی)
 گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ اگر آدمی نیکی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے تو اسے لازماً گناہوں کو چھوڑنا ہوگا ورنہ یہ گناہ نیکی کے راستے پر چلنے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک گناہ کی وجہ سے میں پانچ ماہ تک قیام اللیل سے محروم ہوگیا تھا۔ کسی نے پوچھا: وہ کون سا گناہ تھا؟ فرمایا: میں نے ایک آدمی کو روتے ہوئے دیکھا تو اپنے دل میں یہ خیال کیا کہ یہ دکھلاوا (ریاکاری) کررہا ہے۔
 قیام اللیل کے لیے گھر میں باہمی تعاون کرنا۔ شوہر اور بیوی‘ والدین اور اولاد تہجد کی نماز کے لیے ایک دوسرے کو آمادہ بھی کریں اور تعاون بھی۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
((رَحِمَ اللّٰہُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلّٰی، وَأَیْقَظَ امْرَأَتَہُ فَصَلَّتْ، فَاِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِی وَجْہِہَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللّٰہُ امْرَأَۃً قَامَتْ مِنَ اللَّیْلِ فَصَلَّتْ، وَأَیْقَظَتْ زَوْجَہَا فَصَلّٰی، فَاِنْ أَبٰی نَضَحَتْ فِی وَجْہِہِ الْمَاءَ))(ابوداوٗد، مسند احمد)
’’اللہ تعالیٰ رحم کرے اُس شخص پر جو رات کو اٹھا‘پھر اس نے نماز پڑھی اور اس نے اپنی بیوی کو جگایا ‘پھر اس نے (بھی) نماز پڑھی ۔پھر اگر اس نے اٹھنے سے انکار کیا تو شوہر نے اس کے منہ پر پانی چھڑکا۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے اُس عورت پر جو رات کو اُٹھی‘ پھر اس نے نماز پڑھی اور اس نے اپنے شوہر کو جگایا ‘پھر اُس نے (بھی) نماز پڑھی۔ پھر اگر اس نے اٹھنے سے انکار کیا تو بیوی نے اس کے منہ پر پانی چھڑکا۔‘‘
٭ آخر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی وہ حدیث پیش ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا: ’’عبد اللہ خوب آدمی ہے‘ اگر یہ رات کو اُٹھ کر نماز پڑھا کرے!‘‘
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللّٰہ عنھما قَالَ: کَانَ الرَّجُلُ فِی حَیَاۃِ النَّبِیِّﷺ اِذَا رَأَی رُؤْیَا قَصَّہَا عَلَی النَّبِیِّ ﷺ، فَتَمَنَّیْتُ أَنْ أَرٰی رُؤْیَا أَقُصُّہَا عَلَی النَّبِیِّ ﷺ، وَکُنْتُ غُلَامًا شَابًّا أَعْزَبَ، وَکُنْتُ أَنَامُ فِی المَسْجِدِ عَلٰی عَہْدِ النَّبِیِّ ﷺ، فَرَأَیْتُ فِی المَنَامِ کَأَنَّ مَلَکَیْنِ أَخَذَانِی فَذَھَبَا بِی اِلَی النَّارِ، فَاِذَا ھِیَ مَطْوِیَّۃٌ کَطَیِّ البِئْرِ، وَاِذَا لَہَا قَرْنَانِ کَقَرْنَیِ البِئْرِ، وَاِذَا فِیہَا نَاسٌ قَدْ عَرَفْتُہُمْ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ، أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ النَّارِ، فَلَقِیَہُمَا مَلَکٌ آخَرُ، فَقَالَ لِی: لَنْ تُرَاعَ، فَقَصَصْتُہَا عَلٰی حَفْصَۃَ، فَقَصَّتْہَا حَفْصَۃُ عَلَی النَّبِیِّ ﷺ، فَقَالَ: ((نِعْمَ الرَّجُلُ عَبْدُ اللّٰہِ لَوْ کَانَ یُصَلِّی بِاللَّیْلِ)) قَالَ سَالِمٌ: فَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ لَایَنَامُ مِنَ اللَّیْلِ اِلَّا قَلِیلًا (صحیح البخاری)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺکی حیاتِ مبارکہ میں جو شخص کوئی خواب دیکھتا تو وہ اس کو رسول اللہ ﷺکے سامنے بیان کرتا۔ میری بھی آرزوتھی کہ مَیں بھی کوئی خواب دیکھوں اور اس کو رسول اللہ ﷺکے سامنے بیان کروں۔ میں ایک نوعمر جوان لڑکا تھا اور رسول اللہ ﷺکے زمانے میں مسجد میں سویا کرتا تھا۔ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ جیسے دوفرشتوں نے مجھے پکڑا اور جہنم کی طرف لے گئے۔ مَیں نے دیکھا کہ دوزخ کے کنارے پر کنویں کی منڈیر کی طرح منڈیر بنی ہوئی ہے اور اس کے دو ستون ہیں جس طرح کنویں کے ستون ہو تے ہیں اور اس کے اندر لو گ ہیں جن کو میں پہچانتا ہوں۔ تو مَیں نے کہنا شروع کر دیا: مَیں آگ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں‘ مَیں آگ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ اسی دوران ان دونوں فرشتوں سے ایک اور فرشتہ آکر ملا‘ اُس نے مجھ سے کہا: تم مت ڈرو۔ میں نے یہ خواب (اپنی بہن) اُمّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بیان کیا‘ حضرت حفصہ ؓنے رسول اللہ ﷺ سے بیان کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’عبد اللہ خوب آدمی ہے‘ اگر یہ رات کو اُٹھ کر نماز پڑھا کرے۔‘‘ سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما رات کو بہت کم سوتے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اُن خوش نصیب لوگوں میں شامل فرمائے جو قیام اللیل کا اہتمام کرتے ہیں اور اپنی رب کی خاص عنایتوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔ آمین !
نگہ اُلجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں
خرد کھوئی ہوئی ہے چار سو میں
نہ چھوڑ اے دل! فغانِ صبح گاہی
اماں شاید ملے اللّٰہ ھُو میں!
(تشکّر: ماہ نامہ’’ حکمت بالغہ‘‘ جھنگ)