گھریلو تنازعات : اسباب و تدارکحافظ محمد اسد
گھریلو جھگڑے تقریباً عام ہیں اور کچھ خاندان خانگی اُمور پر تنازعات کے باعث بکھر بھی گئے ‘یعنی نوبت علیحدگی تک جا پہنچی۔ اس ضمن میں یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسے تنازعات کا سبب کیا ہے اور کیسے اس مسئلہ پر قابو پانا ممکن ہے! اکثر دیکھا گیاہے کہ مرد اہل خانہ کو وقت نہیں دیتے جبکہ عورت ہمیشہ اپنے شوہر کی مکمل توجہ چاہتی ہے ‘اوراس میں کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ خاص طور پر اکلوتی لڑکیاں جن کو اپنے ماں باپ کے گھر میں ہمیشہ توجہ اور لاڈ پیار ملتا ہے اُن کا معاملہ یہ ہے کہ سسرال میں بھی اسی طرح بھرپور توجہ چاہتی ہیں جو ممکن نہیں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کو تھوڑا سا بھی نظر انداز کرنا ان کے رویے اور سلوک میں تبدیلی لے آتا ہے۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اکلوتی بیٹی نے بھی آخر ایک دن سسرال چلے جانا ہے‘ لہٰذا اپنی بیٹیوں کو بلا وجہ نہیں بگاڑنا چاہیے۔ اُن کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ وہ سسرال کے ماحول میں ہم آہنگی پیداکریں ‘ورنہ دن بدن طلاقوں کی شرح میں اضافے سے معاشرہ جس بگاڑ کی طرف چل پڑا ہے اس میں کمی نہ آسکے گی۔ ہمارے ہاں طلاق یافتہ عورت کا دوبارہ گھر بس جانا بے حد دشوار ہوتا ہے۔
خاندانی اختلافات دور کرنے میں رکاوٹ
زوجین کے مابین اختلافات دور کرنے میں جو چیز سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے وہ خودبینی اور خود پسندی ہے۔ انسان جب صرف اپنی خوبیوں کو دیکھتا ہے اور اپنے آپ کو’’عقل کُل‘‘ سمجھتا ہے تو اُسے اپنے میں کبھی کوئی خامی نظر نہیں آتی۔ اس وقت اور بھی برا ہوتا ہے جب دونوں میاں بیوی اس مرض میں مبتلا ہوں‘ لہٰذا دونوں اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں مشکل بنالیتے ہیں۔
خاندانی اختلافات کے چند اسباب
میاں بیوی کے خیالات کا ایک دوسرے سے نہ ملنا بھی تنازع کا ایک سبب بن سکتا ہے۔ ایک خاتون سے جب ازدواجی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میرے میاں کو ہر وقت گھومنے پھرنے کا شوق ہے جبکہ مجھے گھر پر رہ کر خانہ داری کرنے میں مزہ آتا ہے۔ وہ چائنیز کھانے کے دل دادہ ہیں لیکن مجھے چٹ پٹے کھانے اچھے لگتے ہیں۔ سات سال ہو گئے‘نہ میری پسند بدل سکی نہ ان کی ۔میرا خیال ہے ہماری پسند نا پسندکبھی ایک نہ ہوسکے گی لیکن گزارہ ہو رہا ہے ۔کبھی وہ میری ‘کبھی میں ان کی بات مان لیتی ہوں۔ اگر ہم ضد یا ہٹ دھرمی کرتے تو شاید ایک ساتھ نہ چل پاتے۔
ایسے حالات میں مرد حضرات کو بھی اپنے رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ جس طرح وہ اپنے کاروبار پر توجہ دیتے ہیں‘ اسی طرح اپنے گھر والوں کو بھی وقت دیں تاکہ گھر کا ماحول بہتر ہو۔ اخلاق و محبت کا ماحول پیدا ہو۔حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
((اِنَّ الرِّزْقَ لَیَطْلُبُ الْعَبْدَ کَمَا یَطْلُبُهُ اَجَلُهُ))(مسند البزار‘ح:۴۰۹۹)
’’ بندے کو رزق ایسے تلاش کرتا ہے جیسے بندے کی موت اس کو تلاش کرتی ہے۔ ‘‘
جب رزق انسان کو موت کی طرح تلاش کرتا ہے تو اس میں اضافے کی کوششوں میں دن رات ضائع کیوں کیے جائیں‘ لہٰذا اپنے گھروالوں پر بھی توجہ دیں۔
تنازع کا آغاز
اگر میاں بیوی کو اپنی بات سچ ثابت کرنے کے لیے دلائل دینے پڑیں تو سمجھ جائیں کہ گھر بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس مسئلے پر فوراً قابو پانے کی کوشش کریں۔ گھریلو تنازعات کی ایک اہم وجہ بیٹے کا والدین کو وقت نہ دینا بھی ہے۔ایک کھاتے پیتے گھرانے کے نوجوان کی شادی ہوئی۔ بیاہ سے پہلے اس مختصر سے کنبے میں گہری محبت تھی۔ شام کو کاروبار سے فارغ ہو کر گھر کے سارے افراد اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے‘ چائے پیتے‘ تلاوت سنتے اور بات چیت کرتے۔ شادی کے بعد اس نوجوان میں اچانک تبدیلی آگئی ۔وہ گھر میں داخل ہوتے ہی سیدھا اپنی بیوی کے کمرے میں چلا جاتا۔ وہیں کھانا کھاتا اور زیادہ وقت کمرے میں ہی گزارتا ۔ صبح ماں باپ‘ بہن بھائیوں سے ملے بغیر کام پر چلا جاتا۔ اس طرز عمل سے گھر والے محسوس کرتے کہ اُن کی زندگی میں ایک خلا سا پیدا ہو گیا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ اس خلا کو پُر کیا جائے۔ بسا اوقات ایسے میں ناراضگی کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور چند ہی دنوں میں ماتھے شکن آلودہ ہو جاتے ہیں۔ پھر چہ میگوئیاں‘ حسد ونفرت‘ طعن و تشنیع‘ کھلم کھلا مخالفت اور ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ بیٹے سے کہا جاتا ہے: بوریا بستر اٹھاؤ اور چلتے بنو۔ ساس بہو کو الزام دیتی ہے کہ میرا بیٹا جس کی سعادت مندی میں مجھے کبھی شبہ نہیں ہوا‘ تمہارے اس گھر میں قدم رکھنے کی دیر تھی کہ اس نے آنکھیں پھیر لیں۔ذرا سوچیں‘ اس موقع پراگر لڑکے کے والدین افہام وتفہیم سے کام لیتے تو یہ معاملہ کچھ دنوں تک ہی رہتا ‘پھر حالات معمول پر آجاتے ۔اس موقع پر حکمت عملی کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن ہمارے ہاں خاندان والے ایسی ایسی باتیں بناتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ ایسے معاملات میں بیٹے اور بہو کو پیار سے سمجھایا جائے‘ ان کی تضحیک نہ کی جائے۔ معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جائے ۔ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے بہتر ہے کہ مل بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
میاں بیوی کے تنازع کی وجہ عموماً کوئی تیسرا فرد ہی ہوتا ہے جو معمولی باتوں کو ہوا دے کر جھگڑے کو بڑھاتا ہے۔ اس کا تعلق سسرال سے ہو گایامیکے سے۔ اس لیے شریعت نے لڑکی کو سمجھایا ہے کہ دیکھو نکاح سے پہلے تمہاری ایک ماں تھی‘اب دو مائیں ہیں اور دو باپ ہیں۔ اسی طرح لڑکے کو بھی بتا دیا ہے کہ اب ساس سسر بھی گویا تمہارے والدین ہیں۔ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے ساس اور سسر کو ماں باپ کا درجہ دیا ہے۔ چناں چہ لڑکی کو چاہیے کہ خاوند کے گھر والوں کو خوش رکھے اور خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے گھر والوں کی عزّت وتکریم کرے ۔ خوش گوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لیے یہ ناگزیر ہے۔
عائلی زندگی سے متعلق اسلام کی تعلیمات
اسلام زندگی کے ہر پہلو کے متعلق رہنمائی دیتا ہے‘ جس میں عقائد‘ عبادات‘ عائلی و معاشرتی نظام‘ معاشی‘ سیاسی و عدالتی نظام شامل ہیں۔ معاشرتی نظام بگڑجائے تو صحیح اسلامی معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا۔ اس وقت معاشرے میں میاں بیوی اور ساس بہو کے حوالے سے تنازعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ جھگڑے خاندان کے افراد کا ذہنی سکون برباد کردیتے ہیں۔ بچوں پر مضر نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ جو تازِیست ان کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ وہ عدم تحفظ اور احساس کمتری کا شکار ہو کر زندگی گزارتے ہیں۔ ایسے جھگڑوں کے نتیجے میں خاندان ٹوٹ جاتے ہیں۔ طلاق کے اکثر واقعات غصہ کی کیفیت یا وقتی رنجش کی بنا پر پیش آتے ہیں۔ اس کے بعد تعلقات میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ بچوں کو زندگی میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میاں بیوی بھی نقصان اٹھاتے ہیں۔ صلح کے تعلق سے فرمان اِلٰہی ہے:
{وَاِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْـنِـہِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَہْلِہٖ وَحَکَمًا مِّنْ اَہْلِہَاج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّـوَفِّقِ اللہُ بَـیْـنَہُمَاط اِنَّ اللہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا(۳۵)} (النساء)
’’اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو‘ اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ ان میں موافقت پیدا کردے گا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
دونوں کی طرف سے مقرر کردہ حَکم /پنچ میاں بیوی کے درمیان صلح کی راہ تلاش کرنے بیٹھیں گے اور تحقیق کریں گے کہ ان کے درمیان تنازع کے کیا اسباب ہیں! اس ضمن میں مندرجہ ذیل نکات پر توجہ رکھیں:
تنقیص: سب سے پہلا اور مہلک عمل تنقیص ہے۔ زوجین کو ایک دوسرے سے شکایتیں ہونا توفطری ہے مگر جب شکایت تنقیص کی صورت اختیار کر جائے تب مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ شکایت اور تنقیص کے فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ لہٰذا حَکم کا کام ہے کہ تنقیص کو روکے۔
توہین وتحقیر: تنقیص کے بعد توہین کا عمل شروع ہوتا ہے۔ اس کی مثال بد زبانی اور برے القاب کا استعمال ہے۔ یہ بدترین عمل ہے جو دوسرے کو غصہ پر اُکسا تا ہے۔ اس کے نتیجے میں تنازع بڑھتا ہے۔ ایک فریق توہین کرتا ہے تو دوسرا اس کا جواب اپنے دفاع میں دیتا ہے۔ پھر الزام تراشی شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:
((اَلْمُسْلِمُ اَخُو الْمُسْلِمِ، لَا یَظْلِمُہُ وَلَا یَخْذُلْہُ وَلَا یَحْقِرُہُ، اَلتَّقْوٰی ھٰھُنَا (وَیُشِیْر اِلٰی صدرہ ثلاث مرار) بِحَسْبٍ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ اَنْ یَحْقِرَ اَخَاہُ الْمُسْلِمُ)) (صحیح مسلم)
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ اس پر ظلم نہیں کرتا‘ اسے بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا‘ اس کی تحقیر نہیں کرتا۔ تقویٰ یہاں ہوتا ہے (اور آپﷺ نے اپنے سینے کی طرف تین مرتبہ اشارہ فرمایا) ۔ کسی شخص کے شر کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔‘‘
مدافعت: ایک فریق توہین کرتا ہے تو دوسرا فریق اپنا دفاع کرنے میں لگ جاتا ہے‘ اس طرح تیسراعمل (مدافعت) وجود میں آتا ہے‘جس کی عملی صورت دوسرے فریق پر الزام رکھنے کی ہو جاتی ہے۔گویا یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ میں بالکل بے گناہ ہوں‘ ساری خرابیاں آپ میں ہیں‘ مجھ میں کوئی برائی نہیں۔ اس طرح مسئلہ حل نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھتا ہے۔
سرد مہری اور بات چیت میں تعاون نہ کرنا: درجِ بالا تینوں عوامل کے بعد چوتھے عمل یعنی سرد مہری اور بات چیت میں عدم تعاون کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ عمل مردوں سے زیادہ عورتوں میں عام ہے۔ ایک فریق دوسرے کو نظرانداز کرتا ہے۔ کسی بات کا جواب نہیں دیتا ‘ جس سے پہلا فریق اور غصہ میں آجاتاہے۔
جذبات کی رو میں بہ جانا: ایک فریق کا رویہ اگر جذبات کے تابع ہو جائے تو یہ اشارہ ہے کہ نکاح اب طلاق کے خطرے سے دوچار ہے۔ جذبات کے غلبے کا مطلب ہے دوسرے فریق کی تنقیص‘ توہین اور اس پرالزام تراشی۔ ایسا رویہ دوسرے فریق کو مشتعل کرتاہے۔ بہت سے افراد جذبات کے غلبے کے تحت بات چیت سے دوری اختیار کرتے ہیں یا گفتگو سے الگ ہوجاتے ہیں‘ جواب ہی نہیں دیتے۔ جواب نہ دینا منفی رویے سے تو بچاتا ہے مگر یہ طلاق کی طرف لے جاسکتا ہے۔
اصلاح کی کوشش کی ناکامی: اصلاحی کوششوں کے ناکام ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اب طلاق ہونا ہی ہے۔ اس کے باوجود اصلاح کی کوششوں سے اس مرحلے میں بھی مسئلہ کا حل نکل سکتا ہے۔ بعض اقدامات مؤثر ہوتے ہیں‘ جیسے معافی مانگنا‘ معاف کرنا یا مسکرانا۔ اس طرح کی روش اصلاح کی کوشش کہلائے گی۔ فریقین ماضی کے منفی واقعات دہراتے ہیں تو تعلقات کی ایک مسخ شدہ تصویر ابھرتی ہے جو رشتوں کے مستقبل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ حَکم کا کام یہ ہے کہ ماضی کے ناخوش گوار معاملات وواقعات کا ذکر نہ ہونے دے۔اسلام میاں بیوی کے اختلافات دور کرنے کی تاکید اور صلح کے لیے رہنمائی کرتا ہے۔
صلح کے نتائج
میاں بیوی کے درمیان صلح سے خاندان کا وجود کٹنے پھٹنے سے محفوظ رہتا ہے۔ خاندانی زندگی قائم رہتی ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں تو اولاد کو پُر امن اور مستحکم تربیت گاہ میسر ہوتی ہے۔ خاندانی جھگڑوں کا اصل سبب یہ ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی فریق اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کررہا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگوں کی تحقیر‘ مذاق اڑانا‘ بدگمانی‘ تجسس‘ غیبت‘ چغل خوری اور بہتان تراشی جیسے عیوب عام ہیں۔ عام طور پر یہ عادتیں برائیاں سمجھی ہی نہیں جاتیں۔ مرد ہوں یا خواتین‘ باہمی گفتگو اکثر انہی چیزوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ حَکم کو ذی علم ‘ دیانت دار اور نیک نیت ہونا چاہیے۔ وہ صدق دل سے چاہتے ہوں کہ زوجین میں اصلاح ہوجائے۔ اس کےلیے اخلاص کے ساتھ کوشش بھی کریں۔ چاہیے کہ دونوں حَکم میاں بیوی کے اختلاف کی وجہ تلاش کریں‘ انہیںسمجھائیں بجھائیں اور اصلاح پر آمادہ کریں تو اللہ کی مدد بھی شامل حال ہو گی۔
ایک سنہری اصول
سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ انہوں نے اُمّ درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا:’’اگر مجھے غصہ آئے تو مجھے راضی کرنا اور اگر تمہیں غصہ آئے گا تو میں تمہیں منا لوں گا‘ اور اگر ایسا نہ ہوا تو بہت جلد ہمارے درمیان جدائی ہو جائے گی۔‘‘(روضۃ العقلاء لابن حبان)
جناب نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ابلیس نے پانی پر تخت بچھا رکھا ہے۔ اُس کے کارندے دنیا میں جاتے ہیں‘ کارروائیاں کرتے ہیں اور پھر واپس آکر اُسے رپورٹ دیتے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ میں نے فلاں جگہ جا کر یہ کام کیا ‘ دوسرا آتا ہے کہ میں نے فلاں شہر میں جا کر یہ حرکت کی ہے ۔ شیطان کے دربار میں سب سے زیادہ شاباش اُس کو ملتی ہے جو بتاتا ہے کہ میں فلاں گھر گیا اور وہاں اتنا جھگڑا ڈالا کہ میاں بیوی میں طلاق ہوگئی۔ جناب رسول اللہﷺ فرماتے ہیں کہ ابلیس اپنے تخت پر کھڑا ہوتا ہے‘ اسے اپنے سینے سے لگاتا ہے اور اس کی پشت تھپتھپاتا ہے کہ اصل کام تو نے کیا ہے۔
گھروں کو دینی ماحول سے آباد کریں
سرور کائنات محمد عربیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
((صَلُّوْا فِیْ بُیُوْتِکُمْ وَلَا تَتَّخِذُوْھَا قُبُوْرًا)) (صحیح مسلم‘ ح:۱۸۲۱)
’’گھروں میں (بھی) نماز پڑھا کرو‘ اور گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔‘‘
گھروں میں اگر قرآن مجید کی تلاوت ہوگی ‘نماز ہوگی ‘ذکر ہوگا ‘درود شریف کا ورد ہوگا اور خیر کی باتیں ہوں گی تو فرشتے اللہ کی رحمت لے کر آئیں گے۔ اگر گھر میں نماز اور درود و اذکار سے غفلت ہو گی تو پھر شیطان اور اس کے کارندے ہی آئیں گے۔ فرشتوں یا شیاطین میں سے جو بھی گھر آئے گا ‘اس کے گھر پر اثرات ہوں گے۔ چناں چہ ہمارے تمام مسائل کا حل قرآن وسنت کو مضبوطی سے تھام لینا ہے‘ اس کے علاوہ ہمارے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں رسول کریمﷺ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارا گھر جنت نظیر بن جائے۔ آمین یا ربّ العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025