(تزکیہ و تربیت) تلاوتِ قرآن اور اُسوئہ صحابہؓ - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

17 /

تلاوتِ قرآن اور اُسوۂ صحابہؓڈاکٹر رضی الاسلام ندوی


انسانی تاریخ کے عجائب میں سے ہے کہ ایک ایسی قوم جو تہذیب وتمدن سے یکسر ناآشنا‘ جنگ وجدال اورلوٹ مارکی خوگر اور حلال و حرام کی تمیز سے بے گانہ تھی‘وہ تہذیب و شرافت اور امن و امان کی علَم بردار کیسے بن گئی! جو جہالت کی گھٹاٹوپ تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ماررہی تھی‘ وہ علم کی شمعیں کیوں کر جلانے لگی؟ جس کے افراد ایک دوسرے کے خون کے اس قدرپیاسے رہتے تھے کہ صدیوں کی معرکہ آرائیوں سے بھی ان کی دشمنی کی شدت میں کمی نہ آتی تھی‘ وہ کیسے باہم شیرو شکر اور بھائی بھائی بن گئے‘ حتیٰ کہ ایک دوسرے پر اپنی جان‘ مال‘ جائیداد‘ گھربار اور دوسری محبوب چیزیں نچھاور کرنے لگے؟ جن کی نجی زندگی بے حیائی‘ آوارگی‘ عریانیت اور فحاشی میں غرق رہتی تھی‘ وہ کیسے عفت و پاکیزگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے لگے؟
تجزیہ کرنے والے جو بھی تجزیہ کریں اور اسباب و علل تلاش کرنے والے جو بھی توجیہات کریں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے اندر یہ بنیادی تبدیلی قرآن کریم کی بدولت واقع ہوئی تھی۔ یہ قرآن ہی تھا جس نے یکسر ان کی کایاپلٹ دی تھی‘ ان کو ذلّت و نکبت کی کھائی سے عزّت و عظمت کے بامِ عروج پر پہنچادیاتھا۔ انہیں جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں لے آیاتھا اور وحشت و سفاکیت کے خوگر ان کے مزاج کو بدل کر انہیں تہذیب و شائستگی کاامام بنادیاتھا۔ پھر جوں جوں قرآن کریم سے ان کا تعلق کم زور ہوتاگیا‘ دوسری قومیں ان پر شیر ہوگئیں اور ذلّت وبے توقیری ان کا مقدر بن گئی۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی ہے کہ: ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!
صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سیرت قرآن کریم سے اثرپزیری اور اس کے ساتھ میدانِ عمل میں اُترنے کااولین نمونہ ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کا قرآن سے تعلق کیسا تھا! قرآنی آیات نازل ہوتی تھیں اور وہ انہیں سنتے تھے تو ان پر کیااثر ہوتاتھا؟ تلاوت کرنے اور آیات یاد کرنے کا ان کاکیا معمول تھا؟ قرآن حکیم کے احکام و تعلیمات سے انہوں نے کس طرح اپنی زندگی کو آراستہ کیاتھا؟ اس کاپیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے انہوں نے کتنی جدّوجُہد کی تھی ؟ اس کا حکم نافذ کرنے اور اس کااقتدار قائم کرنے کے لیے انہوں نے کیا قربانیاںدی تھیں؟
قرآن کریم سے تعلق کا اوّلین اظہار اس کی تلاوت سے ہوتاہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس کے غایت درجہ مشتاق رہتے تھے۔ وہ اپنے شب وروزکے زیادہ تر اوقات اس کی تلاوت میں گزارتے تھے۔ اس کے لیے انہوں نے قرآن مجید کو مختلف حصوں (احزاب) میں تقسیم کر رکھا تھا۔ اوس نامی ایک تابعی بیان کرتے ہیں کہ میں نے متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے دریافت کیاکہ :آپ لوگوں نے قرآن کو مختلف حصوں میں تقسیم کررکھاہے۔ اس اعتبار سے ایک حصےمیں کتنی سورتیں ہوتی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: تین‘ پانچ‘ سات‘ نو ‘ گیارہ اور اخیر کی تمام چھوٹی سورتیں ایک حصےمیں شامل ہیں۔(۱)
صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کم سے کم وقت میں پورا قرآن مجیدپڑھ لینا چاہتے تھے۔ اس معاملے میں غلو سے روکنے اور اعتدال کی روش پر قائم رکھنے کے لیے آنحضرتﷺ نے بعض پابندیاں عائد کردی تھیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے ایک موقع پر دریافت کیا: اللہ کے رسولؐ! میں قرآن کو کتنے دنوں میں ختم کروں؟ فرمایا: ایک مہینے میں۔ انہوں نے عرض کیا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ فرمایا: بیس دن میں ختم کرلو۔ انہوں نے اسی طرح اور بھی کم دنوں میں ختم کرلینے پر اپنی قدرت ظاہر کی تو آنحضرتﷺ نے ان کی رعایت سے پندرہ دن‘ پھر دس دن‘ پھر سات دن میں ختم کرنے کی اجازت دی‘ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
((اِقْرَأ فِی سَبْعٍ وَلَا تَزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ))(۲)
’’سات دن میں پورا قرآن پڑھ لو‘ اس سے کم میں ہرگز ختم نہ کرو۔‘‘
بعض روایتوں میں ہے کہ ان کے اصرار پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں تین دنوں میں قرآن ختم کرنے کی اجازت دے دی۔ جب انہوں نے عرض کیاکہ وہ اس سے بھی کم وقت میں پورا قرآن پڑھ سکتے ہیں تو آپﷺ نے ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:
((لَا یَفْقَہُ مَنْ قَرَأَہُ فِی اَقَلٍّ مِنْ ثَلَاثٍ))(۳)
’’جو شخص تین دنوں سے کم وقت میں قرآن ختم کرے گا‘ وہ ٹھیک طریقے سے اسے سمجھ نہیں سکتا۔ ‘‘
امام نووی ؒ نے متعدد صحابہ‘ تابعین اور بعد کے دور کے بزرگوں کے نام تحریر کیے ہیں جو ایک دن میں قرآن ختم کرلیتے تھے‘ بلکہ ان میں سے بعض ایک دن میں دو قرآن ختم کرلیتے تھے۔ (۴) البتہ رسول اللہ ﷺ کی ناپسندیدگی کی وجہ سے ایسا کرنا غیرمسنون معلوم ہوتاہے ۔
تلاوتِ قرآن کاایک ادب یہ ہے کہ اس کو بہت جلدی جلدی نہ پڑھاجائے۔ایسا محسوس نہ ہو کہ سر کابوجھ اُتارا جارہاہے‘ بلکہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھاجائے۔ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کی قراءت ِقرآن میں ایک ایک حرف صاف سنائی دیتاتھا۔(۵) یہی معاملہ صحابہ کرامؓ کابھی تھا۔ ایک موقع پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا:
’’میں ترتیل کے ساتھ صرف ایک سورہ پڑھوں‘ یہ میرے نزدیک اس سے زیادہ بہتر ہے کہ ﴿بغیر ترتیل کے ﴾ پورا قرآن پڑھ لوں۔‘‘(۶)
ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک شخص نے کہا: میں مفصل سورتیں ﴿سورۃ الحجرات سے سورۃ الناس تک ایک رکعت میں پڑھ لیتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا: ھَذًّا کَھَذِّ الشِّعْرِ ! اس کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو اشعار کی طرح جلدی جلدی پڑھ لیتے ہو۔(۷)اس موقع پر انہوں نے مزید فرمایا: ’’کچھ لوگ قرآن اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترتا‘ حالاں کہ قرآن مجیدجب دل میں اترجائے اور اس میں جاگزیں ہوجائے تب نفع دیتاہے۔‘‘(۸)
رسول اللہ ﷺ نے قرآن کریم کو خوش الحانی کے ساتھ پڑھنے کا حکم دیاہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:
((زَیِّنُوْا القُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ))(۹)
’’قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو۔ ‘‘
دوسری حدیث میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:
((مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالقُرآنِ فَلَیْسَ مِنَّا))(۱۰)
’’جس شخص نے قرآن کو خوش الحانی سے نہیں پڑھا‘ وہ ہم میں سے نہیں۔ ‘‘
اسی بناپر صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم بہت خوش الحانی کے ساتھ قرآن کی تلاوت کیاکرتے تھے‘ جس سے سننے والوں پر محویت طاری ہوجاتی تھی۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر کے باہر نماز کے لیے ایک جگہ مخصوص کررکھی تھی‘ جہاں بیٹھ کر وہ قرآن مجیدکی تلاوت بھی کیا کرتے تھے۔ ان کی آواز سن کر مشرک عورتیں اور بچّے اکٹھے ہوجاتے اور بڑے انہماک سے قرآن مجیدسنتے تھے۔ یہ دیکھ کر مشرکین اس اندیشے میں مبتلا ہوگئے کہ کہیں قرآن ان پر اپنا اثر نہ دکھانے لگے اور وہ ایمان نہ لے آئیں۔ چنانچہ انہوں نے مکہ کے بااثر سردار ابن الدغنہ سے شکایت کی‘جس نے ہجرت سے قبل مکہ میں حضرت ابوبکرؓ کوجوار (امان) دے رکھی تھی ۔ اس نے حضرت ابوبکرؓ کواس کام سےروکنا چاہا تو آپؓ نے اس کی جوار واپس کردی ۔(۱۱)
خوش الحانی سے قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو شہرت حاصل تھی۔ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف لے گئے اور دیکھاکہ ایک شخص بہت خوش الحانی سے قرآن مجیدکی تلاوت کررہاہے۔ دریافت فرمایا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے ان کا نام عبداللہ بن قیسؓ بتایا۔ آپؐ نے فرمایا:
((اُعْطِیَ مِزْمَاراً مِنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاوٗد))(۱۲)
’’ انہیں تونغمہ دائودی عطا کیاگیاہے۔ ‘‘
مشہور صحابی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کااصل نام عبداللہ بن قیسؓ تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے ان سےفرمایا:
((لَو رأیْتَنِی وَاَنَا اَسْتَمِـعُ لِقِرَاءَتِکَ البَارِحَۃَ، لَقَدْ اُوتِیْتَ مِزْمَاراً مِنْ مَزَامِیْرِ آلِ داوٗدَ)) (۱۳)
’’میں نے گزشتہ رات تمہاری قراءت سنی‘ بہت متاثر ہوا۔ تمہیں تو نغمہ داؤدی عطا کیا گیاہے۔ ‘‘
ابوعثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ: ’’میں نے چنگ وبربط کی آواز کو بھی ابوموسیٰ اشعریؓ کی خوش الحان قراءت سے بہتر نہیں پایا۔‘‘(۱۴)یہ صرف حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی انفرادی خصوصیت نہ تھی بلکہ ان کے پورے قبیلے کا امتیازی وصف تھا۔ ایک غزوہ کے لیے سفر کے دوران صحابۂ کرام ؓنے ایک جگہ پڑائو ڈالا۔ اگلے دن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اگرچہ میں نے دن میں نہیں دیکھاتھا کہ اشعریوں نے کس جگہ اپنے خیمے لگائے ہیں‘ لیکن رات میں ان کی قرآن خوانی سن کر مجھے ان کی جائے قیام کا پتا چل گیا۔‘‘(۱۵)
صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے قرآن سننے کی فرمائش کیاکرتے تھے۔ روایات میں آتاہے کہ وہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میںحاضر ہوتے تو آپؓ ان سے فرماتے :’’ ہمیں اللہ کا شوق دلائو۔‘‘ وہ فوراً قراءت شروع کردیتے۔(۱۶)
ان کی قراءت کو اُمہات المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن بھی نہایت شوق سے سنتی تھیں۔(۱۷)ایک مرتبہ اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہیں گئی ہوئی تھیں۔ انہیں گھر واپس آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ آنحضرتﷺ نے وجہ دریافت کی تو عرض کیا: ’’آپؐ کے اصحاب میں سے ایک صاحب قرآن مجیدپڑھ رہے تھے۔ میں نے ایسی قراءت کبھی نہیں سنی‘‘۔ آپؐ ان کے ساتھ ہولیے۔ دیکھا تو وہ حضرت سالم مولیٰ ابن ابی حذیفہؓ تھے۔ اس موقع پر آپﷺ نے فرمایا:
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذیْ جَعَلَ فِی اُمَّتی مِثْلَکَ))(۱۸)
’’ اللہ کا شکر ہے کہ میری اُمت میں تم جیسے لوگ موجود ہیں۔‘‘
ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نےحضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمٰن بن سائب رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی قراءت سن کر ان کی تعریف کی اور فرمایا: ’’تم قرآن بہت خوش الحانی سے پڑھتے ہو۔‘‘ (۱۹)
قرآن کریم نے سابقہ قوموں کے بعض اصحابِ علم کاتذکرہ کرتے ہوئے ان کاایک وصف یہ بھی بیان کیاہے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو ان پر گریہ و خشیت طاری ہوجاتی ہے:
{وَيَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ يَبْكُوْنَ وَيَزِيْدُہُمْ خُشُوْعًا(۱۰۹)} (بنی اسرائیل)
’’اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گرجاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتاہے۔‘‘
احادیث میں رسول اللہ ﷺ کابھی یہی وصف مذکور ہے۔ حضرت ابوذررضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات آپﷺ نمازکے لیے کھڑے ہوئے‘ جب سورۃ المائدہ کی اس آیت پر پہنچے:
{اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُكَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ(۱۱۸)} (المائدۃ)
’’اب اگر آپ انہیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں‘ اور اگر معاف کردیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔‘‘
تو باربار اسی آیت کو دہراتے رہے‘ یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔(۲۰)
یہی حال تمام صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کابھی تھا۔ جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو ان پر بے خودی طاری ہوجاتی تھی۔ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر ہوجاتے تھے۔ کوئی آیت رقت انگیز ہوتی تو اسی کو بار بار دہراتے ۔ اگر مضمون عذاب سے متعلق ہوتا تو اللہ کی پناہ کے طالب ہوتے تھے۔ اکثر شدّتِ گریہ سے ان کی حالت غیرہوجاتی تھی۔
یمن سے کچھ لوگ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنے آئے۔ ان کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی گئی تو وہ رونے لگے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ’’ایسا ہی حال ہمارا بھی ہوتاتھا۔‘‘ حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ فجر کی نماز میں سورۂ یوسف پڑھی تو زارو قطار رونے لگے۔ دوسری روایت میں اسے عشاء کی نمازبتایاگیاہے۔ ممکن ہے‘ یہ الگ الگ مواقع کابیان ہو۔ روایت میں ہے کہ وہ اتنے زور زور سے روئے کہ مقتدی ان کی آواز سنتے تھے۔
حضرت عباد بن حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مَیں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت کررہی تھیں۔ جب سورۃ الطور کی اس آیت پر پہنچیں:
{فَمَنَّ اللہُ عَلَيْنَا وَوَقٰىنَا عَذَابَ السَّمُوْمِ(۲۷)}
’’ آخرکار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جھلسادینے والی ہوا کے عذاب سے بچالیا۔‘‘
تو اس پر ٹھہرٹھہر کر بار بار اسی کو دہرانے لگیں اور اللہ تعالیٰ سے عذابِ جہنم سے بچانے کی دعا کرنے لگیں۔ میں نے دیکھاکہ وہ میری طرف متوجہ نہیں ہیں تو میں وہاں سے نکل کر بازار چلاگیا۔ وہاں اپنی ضرورت پوری کی اور کچھ دیر کے بعد دوبارہ ان کی خدمت میں پہنچا تو دیکھاکہ وہ اسی آیت پر ٹھہری ہوئی ہیں۔ بار بار اسی کو پڑھ رہی ہیں اور اللہ سے دُعا کررہی ہیں۔
حضرت تمیم الداری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک رات سورۃ الجاثیہ پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے:
{اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ كَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ۝۰ۙ} (الجاثیۃ: ۲۱)
’’کیا وہ لوگ جنہوں نے بُرائیوں کا ارتکاب کیاہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کردیں گے!‘‘
تو مسلسل اسی کو دہراتے رہے‘ یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔
حضرت ابورجاء ؒ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے چہرے پرمسلسل رونے کی وجہ سے نشانات پڑگئے تھے۔(۲۱)صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے زیادہ سے زیادہ اوقات تلاوتِ قرآن کریم میں گزارتے تھے۔ وہ دن میں بھی اس کی تلاوت کرتے تھے اور رات میں بھی۔ گھر میں بھی تلاوتِ قرآن میں مصروف رہتے اور مسجد میں بھی۔(۲۲)
رسول اللہ ﷺ اپنے حجرے سے برآمد ہوئے تو مختلف صحابہؓ کو اپنے اپنے انداز سے تلاوتِ قرآن مجیدکرتے ہوئے پایا۔ آپؐ نے فرمایا:
((اِقْرَءُوْا فَکُلٌّ حَسَنٌ، وَسَیَجیْیُٔ اَقَوَامٌ یُقِیْمُوْنَہُ، کَمَا یُقَامُ القِدْح، یَتَعجَّلُوْنَہُ وَلَا یَتَاَجَّلُوْنَہُ)) (۲۳)
’’’پڑھتے جائو‘ سب کاطرزاچھاہے۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی آئیں گے جو قرآن کو تیرکی طرح سیدھا کریں گے لیکن ان کامقصد دنیاہوگی ‘آخرت نہ ہوگی۔‘‘
ایک مرتبہ آپﷺ نے صحابہ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
((اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کِتَابُ اللّٰہِ وَاحِدٌ، وَمِنْکُمْ الاحمرُ وَمِنکُمْ الاَبْیَضُ، وَمِنکُمُ الاَسْوَدُ)) (۲۴)
’’اللہ کاشکر ہے اُس کی کتاب ایک ہے لیکن تم میں سرخ‘ سفید اور سیاہ قسم کے لوگ ہیں۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں قرآن کی گونج سنی تو فرمایا:’’یہ لوگ قابل مبارک بادہیں۔ ایسے لوگ نبیﷺ کو بہت محبوب تھے۔‘‘(۲۵)
سخت مصیبت اور پریشانی کے عالم میں بھی صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اس شوق میں کوئی کمی نہ آتی تھی اور قرآن ان کے لیے تسکین اور طمانیت کا باعث بنتاتھا۔ روایت میں ہے کہ جس وقت بلوائیوں نے خلیفہ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر پر حملہ کیا‘ وہ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے اور اسی حالت میں ان کی شہادت ہوئی۔(۲۶)
تلاوتِ قرآن مجید کا ایک ادب یہ ہے کہ مصحف کی ترتیب کو ملحوظ رکھاجائے۔ ترتیب کی رعایت کے بغیر اِدھر اُدھر سے پڑھ لینا یا الٹی ترتیب سے پڑھنا مناسب نہیں۔ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے کہا: ’’فلاں شخص قرآن مجید کو الٹی ترتیب سے پڑھتاہے۔‘‘ انہوں نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا: ذٰلِکَ مَنْکُوسُ القَلْبِ ’’وہ دل کااندھا ہے۔‘‘(۲۷)
قرآن کی تلاوت کرتے وقت سنجیدگی‘ انہماک اور توجہ نہایت ضروری ہے۔ دورانِ تلاوت اِدھراُدھر دیکھنا‘ کوئی دوسرا کام کرنے لگنا‘ کسی سے بات چیت شروع کردینا موزوں نہیں ہے۔ اس سے غیردلچسپی اور غیرسنجیدگی کااظہارہوتاہے۔ یہ قرآن مجیدکے ساتھ ہمارے تعلق کے اعتبار سے مناسب رویّہ نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں آتاہے کہ وہ قرآن کی تلاوت شروع کرتے تھے تو جب تک اس سے فارغ نہ ہوجاتے‘ کسی سے بات نہ کرتے تھے۔(۲۸)
قرآن کی تلاوت خود کرنے کے علاوہ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے سے اسے سناجائے۔ یہ رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے معمولات میں سے تھا۔ بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺنے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواہش کی کہ مجھے قرآن مجید سنائو۔ انہوں نے حیرت سے عرض کیا: آپؐ کو قرآن سنائوں‘ جب کہ وہ تو آپؐ ہی پر اُترا ہے! آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں‘ میں اسے دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔‘‘ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں: میں نے سورۃ النساء ابتدا سے پڑھنی شروع کی‘ یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: ’’بس‘رُک جائو!‘‘ وہ آیت یہ ہے:
{فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّۃٍ بِشَہِيْدٍ وَّجِئْنَابِكَ عَلٰي ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِيْدًا(۴۱)}
’’پھرسوچوکہ اُس وقت یہ کیاکریں گے جب ہم ہر اُمّت میں سے ایک گواہ لائیں گے اور ان لوگوں پر تمہیں (یعنی محمد ﷺ کو) گواہ کی حیثیت سے کھڑا کریں گے۔‘‘
میں آپؐ کی طرف متوجہ ہوا تو دیکھاکہ آپؐ کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو جاری ہیں۔(۲۹)
آج کے دور میں قراءت ِقرآن کی ریکارڈنگ سے بھی یہ کام لیاجاسکتا ہے۔ دنیا کے مشہور قراءکی ریکارڈنگ موجود ہے۔ اسے ٹیپ ریکارڈر‘ کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ‘ موبائل اور دوسرےآلات کی مدد سے سناجاسکتا ہے۔
حواشی
(۱) سنن ابی داوٗد‘ ابواب شہر رمضان‘ باب تخریب القرآن‘ ۱۳۹۳
(۲) سنن ابی داوٗد‘ کتاب شہر رمضان‘ باب فی کم یقرأ القرآن‘۱۳۸۸‘ صحیح البخاری:۲۵۰۵‘۵۰۵۴‘ صحیح مسلم:۱۱۵۹
(۳) بخاری‘ مسلم‘ ابوداوٗد‘ حوالہ بالا
(۴) النووی‘ ابوزکریا یحییٰ بن شرف‘ التبیان فی آداب حملۃ القرآن‘ تحقیق و ترویج: عبدالقادر الارنووط‘ دمشق‘ ص: ۴۶-۴۹
(۵) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الصلاۃ‘ باب استحباب الترتیل فی القراءۃ‘ کتاب قیام اللیل‘ باب ذکر صلاۃ الرسولﷺ باللیل‘ ۱۲۲۹‘ مسند احمد‘ ۴/۲۹۴‘۳۰۰
(۶) النووی علیہ الرحمہ ‘ التبیان‘ ص ۷۰
(۷) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب الترتیل فی القراءۃ‘ ۵۰۴۳‘ صحیح مسلم: ۸۲۲
(۸) صحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین‘ باب ترتیل القراءۃ واجتناب الھذ:۲۲۸
(۹) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الصلاۃ‘ ۱۴۶۸‘ سنن النسائی: ۱۰۱۵‘ سنن ابن ماجہ: ۱۳۴۲
(۱۰) سنن ابی داوٗد: ۱۴۶۹‘۱۴۷۰‘ سنن ابن ماجہ:کتاب اقامۃ الصلاۃ‘ باب فی حسن الصوت بالقرآن‘ ۱۳۳۷‘ مسند احمد‘ ۱/۱۷۲
(۱۱) ابن ھشام‘ السیرۃ النبویۃ‘ دارالمعرفۃ بیروت‘۱/۳۴۵۔ ۳۴۴
(۱۲) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الصلاۃ‘ باب فی حسن الصوت بالقرآن‘ ۱۳۴۱
(۱۳) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب حسن الصوت بالقراءۃ للقرآن‘ ۵۰۴۸‘ صحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین‘ باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن‘ ۷۹۳
(۱۴) ابن حجرعسقلانی‘ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ‘ دارالمعرفۃ بیروت‘ ۲۰۰۴ء ۲/۱۱۱۲ ‘ تذکرہ حضرت عبد اللہ بن قیس ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ
(۱۵) صحیح البخاری: ۴۲۳۲‘ صحیح مسلم ‘ کتاب فضائل الصحابۃ‘ باب من فضائل الاشعر یین‘ ۲۴۹۹
(۱۶) ابن حجر عسقلانی‘ الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ‘ ج۴‘ص۲۱۳
(۱۷) ابن سعد‘ الطبقات الکبریٰ‘ دارالفکر بیروت‘ ۱۹۹۴ء‘ تذکرہ ابی موسیٰ الاشعری‘ ۲ / ۱۱
(۱۸) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الصلاۃ‘ باب حسن الصوت بالقرآن‘ ۱۳۳۷
(۱۹) ابن حجر عسقلانی‘ الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ‘۱ / ۶۸
(۲۰) سنن النسائی: ۱۰۱۰‘ سنن ابن ماجہ: ۱۳۵۰
(۲۱) النووی علیہ الرحمہ ‘ التبیان‘ ص:۸۷
(۲۲) صحیح البخاری:۵۰۱۱‘ ۵۰۱۸‘ ۵۰۳۷ ‘ ۵۰۳۸ ۔
(۲۳) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الصلاۃ‘ باب مایجزیٔ الأمی والأعجمی من القراءۃ‘۸۳۰
(۲۴) سنن ابی داوٗد‘ حوالہ بالا‘ ۱۳۸
(۲۵) النووی‘ التبیان‘ ص: ۸۶
(۲۶) ابن عبدالبر‘ الاستیصاب فی معرفۃ الاصحاب‘ تذکرہ عثمان بن عفان‘ ۳ / ۸۷
(۲۷) النووی‘ التبیان‘ ص۹۹
(۲۸) صحیح البخاری‘ کتاب التفسیر‘ ۴۵۲۶
(۲۹) بخاری: ۴۵۸۲ ‘ مسلم: ۸۰۰‘ ابوداوٗد: ۳۶۶۸‘ ترمذی: ۳۰۲۴‘ ۳۰۲۵