(انوار ھدایت) رمضان المبارک : نیکیوں کی نشوونما کا موسم بہار - پروفیسر محمد یونس جنجوعہ

17 /

رمضان المبارک: نیکیوں کی نشوونما کا موسم بہارپروفیسر محمد یونس جنجوعہ

رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے ۔یہ مہینہ امتیازی شان رکھتا ہے‘ کیونکہ اس میں قرآن حکیم نازل ہوا۔ رسول اللہﷺ کی بہت سی احادیث میں اس ماہِ مبارک کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ رمضان حصولِ ثواب کے لیے سازگار ماحول مہیّا کرتا ہے ۔اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا یہ معمول تھا کہ وہ رمضان کے استقبال کی خصوصی تیاری کرتے تھے۔ مسلمانوں کو اس مہینہ کے روزے رکھنے کا حکم ہے اور روزہ ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آغازِ رمضان سے ایک روز قبل رسول اللہﷺ نے ہمیں ایک خطبہ ارشاد فرمایا جس میں تفصیل کے ساتھ ماہِ رمضان کا تعارف کرایا اور شب و روز کے معمول بتائے ۔ آپﷺ نے فرمایا :
((یَا اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ اَظَلَّکُمْ شَھْرٌ عَظِیْمٌ، شَھْرٌ مُبَارَکٌ، شَھْرٌ فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَھْرٍ، جَعَلَ اللّٰہُ صِیَامَہُ فَرِیْضَۃً وَقِیَامَ لَیْلِہٖ تَطَوُّعًا۔ مَنْ تَقَرَّبَ فِیْہِ بِخَصْلَۃٍ مِنَ الْخَیْرِ کَانَ کَمَنْ اَدّٰی فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ، وَمَنْ اَدّٰی فَرِیْضَۃً فِیْہِ کَانَ کَمَنْ اَدّٰی سَبْعِیْنَ فَرِیْضَۃً فِیْمَا سِوَاہُ ، وَھُوَ شَھْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُہُ الْجَنَّۃُ، وَشَھْرُ الْمُوَاسَاۃِ، وَشَھْرٌ یُزَادُ فِیْہِ رِزْقُ الْمُؤْمِنِ ۔ مَنْ فَطَّرَ فِیْہِ صَائِمًا کَانَ لَہُ مَغْفِرَۃً لِذُنُوْبِہٖ وَعِتْقَ رَقَبَتِہٖ مِنَ النَّارِ، وَکَانَ لَہُ مِثْلُ اَجْرِہٖ مِنْ غَیْرِ اَنْ یُنْتَقَصَ مِنْ اَجْرِہٖ شَیْءٌ)) قُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ لَیْسَ کُلُّنَا یَجِدُ مَا یُفَطِّرُ بِہِ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: ((یُعْطِی اللّٰہُ ھٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰی مَذْقَۃِ لَبَنٍ اَوْ شَرْبَۃٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ اَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاہُ اللّٰہُ مِنْ حَوْضِیْ شَرْبَۃً لَا یَظْمَاُ حَتّٰی یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ، وَھُوَ شَھْرٌ اَوَّلُہُ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہُ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہُ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْکِہٖ فِیْہِ غَفَرَ اللّٰہُ لَہُ وَاَعْتَقَہُ مِنَ النَّارِ))
(رواہ البیھقی فی شعب الایمان، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الصوم)

’’لوگو! تمہارے اوپر ایک عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ یہ برکت والا مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ کے روزے فرض قرار دیے ہیں اور اس کی رات کی عبادت نفل قرار دی ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی سے اللہ تعالیٰ کی قربت تلاش کرے (یعنی رب تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نفل عبادت کرے) اس کا ثواب اتنا ہی ہوتا ہے جتنا رمضان کے سوا دوسرے مہینوں میں فرض کا۔ اور جو شخص اس مہینہ میں فرض ادا کرے اس کو غیررمضان میں ادا کیے ہوئے فرض سے ستر گنا ثواب ملتا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ یہ غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے وہ اس کے لیے گناہوں کی بخشش کا سبب ہوتا ہے اور دوزخ کی آگ سے نجات کا ذریعہ۔ اور اس کو بھی روزہ دار کے برابر ثواب ملتا ہے جبکہ روزہ دار کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں ہوتی‘‘۔ ہم نے پوچھا: یارسول اللہ! ہم سب کے پاس اتنا سامان نہیں ہے کہ اس سے ہم روزہ داروں کے روزے افطار کرائیں! آپﷺ نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرماتا ہے جو لسّی کے ایک گھونٹ ‘ ایک کھجور یا پانی کے ایک گھونٹ سے کسی کا روزہ افطار کرائے ‘اور جو شخص روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے اس کو اللہ تعالیٰ (روزِ قیامت) میرے حوض سے ایسا سیراب کرے گا کہ پھر اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی حتیٰ کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے گا ۔اور یہ مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ اس کے ابتدا میں رحمت ہے ‘درمیان میں مغفرت اور آخر میں دوزخ سے نجات۔ اور جس شخص نے اس مہینہ میں اپنے (روزہ دار) غلام پر کام کا بوجھ ہلکا کر دیا اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے اور اسے دوزخ کی آگ سے نجات دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث سے رمضان المبارک کا پروگرام واضح طور پر سمجھ میں آ رہا ہے کہ مسلمان دن کو روزہ رکھیں ‘یعنی رضائے الٰہی کی خاطر بھوک اور پیاس برداشت کریں‘ اور رات کو قیام کریں ‘ یعنی اجتماعی طور پر قرآن کی تلاوت اور سماعت کا اہتمام کریں جسے عرفِ عام میں نمازِ تراویح کہا جاتا ہے۔ چونکہ ان ایام میں تھوڑی عبادت کا زیادہ ثواب ملتا ہے اس لیے رمضان المبارک میں مساجد کی رونق بڑھ جاتی ہے ‘لوگ بکثرت نوافل پڑھتے اور تلاوت کرتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ، فُتِحَتْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ [وَفِیْ رِوَایَۃٍ : فُتِحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّۃِ] وَاُغْلِقَتْ اَبْوَابُ جَھَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ)) وَفِیْ اُخْرٰی: ((فُتِحَتْ اَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ)) (متفق علیہ)
’’جب رمضان شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے [ایک دوسری روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے] کھول دیے جاتے ہیں‘ اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ‘اور شیطانوں کو زنجیریں پہنا دی جاتی ہیں‘‘۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔‘‘
اس طرح رمضان المبارک میں ربّ العزت کی طرف سے نیکی کمانے کے لیے سازگار ماحول میسّر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں ایک لمحہ ٔفکریہ بھی ہے کہ سازگار ماحول کی فراہمی کے باوجود جو لوگ رمضان میں اپنے شب و روز کے معمولات تبدیل نہیں کرتے اور بدستور بُرائی پر عمل پیرا رہتے ہیں ‘وہ انتہائی ناپسندیدہ قرار پاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے غضب کے سزاوار بنتے ہیں‘ کیونکہ جو لوگ سرکش شیطانوں کے قید کر دیے جانے کے باوجود بھی گناہ کرتے ہیں گویا کہ وہ اپنی ذات کو گناہوں کا اس حد تک خوگر بنا چکے ہوتے ہیں کہ اب انہیں کسی بیرونی تحریص و ترغیب کی ضرورت نہیں رہتی‘ بلکہ ان کے باطن میں شیطان نے ہمہ وقتی بسیرا کر رکھا ہے۔
رمضان کا مہینہ باطنی صفائی کے لیے تربیت فراہم کرتا ہے۔ وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو اِس ماہِ مبارک کے ماحول سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ دن کو پورے آداب کے ساتھ روزہ رکھتے اور شب کو دل کی آمادگی کے ساتھ نمازِ تراویح اور فہم ِقران کی مجالس میں شرکت کرتے ہیں۔ ایسے لوگ روزے کی حالت میں جہاں کھانے پینے کی پاکیزہ‘ طیب اور حلال چیزیں نہیں کھاتے وہاں مکروہات‘ ممنوعات اور منکرات کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ جھوٹ اور غیبت سے بچتے اور برائیوں سے دُور رہتے ہیں۔ اس طرح ایک ماہ کی تربیت انہیں واقعی گناہوں سے متنفر اور نیکیوں سے مانوس کر دیتی ہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ کئی لوگوں نے رمضان المبارک کے بابرکت اور سازگار ماحول سے فائدہ اٹھایا اور منشیات کے استعمال جیسی بری عادات کو ترک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
بعض ناپختہ فہم لوگ رمضان المبارک کے پروگرام کی حکمت کو نظرانداز کرتے ہوئے اس ماہِ مبارک سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ تو ضرور رکھتے ہیں لیکن برائیوں کے ارتکاب سے پرہیز اُن کے پروگرام میں شامل نہیں ہوتا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ فِی اَنْ یَدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ)) (صحیح البخاری)
’’جو شخص (روزہ کی حالت میں) جھوٹ بولنا اور بُرا کام کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اِس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
گویا رمضان المبارک میں بھوکا پیاسا رہنا اور رات کا قیام حصولِ مقصد کے لیے واسطہ ہے اور اصل مقصد ِتقویٰ ہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
{یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(۱۸۳)} (البقرۃ)
’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا‘ تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘
پس روزہ وہی مفید ہے جو انسان کے معمولات پر اثر انداز ہو کر اسے پرہیزگار بنا دے۔ بالفاظِ دیگر اسے بھلائیاں مرغوب ہو جائیں اور برائیوں سے نفرت پیدا ہو جائے۔ فہو المطلوب!