(دعوتِ فکر) رمضان کیسے گزاریں؟ - خورشید انجم

17 /

رمضان کیسے گزاریں!خورشید انجم
مرکزی ناظم تعلیم وتربیت‘تنظیم اسلامی

الحمد للہ‘رمضان کا مبارک مہینہ سایہ فگن ہے۔ معلوم نہیں کہ اگلے سال یہ بابرکت موقع ہمیں نصیب ہوتا بھی ہے یانہیں ‘لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس ماہِ مبارک کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہوں۔
رمضان المبارک کی عبادات ایک ایسا سلسلہ ریاضت ہے جس پر عمل پیر اہونے سے انسان نفس اور شیطان سے محفوظ رہتا ہے۔ انسا ن کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اسے تقویٰ کی دولت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت کرنا آسان ہوجاتا ہے اور نتیجتاً آئندہ کی زندگی سنور جاتی ہے۔ البتہ یہ تبھی ممکن ہے جب رمضان کو اس کی حقیقی روح کے مطابق بسر کیا جائے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’ جس نے رمضان بھر کے روزے رکھے‘ اس کی حدود کو پہچانا اور جن چیزوں سے بچنا تھا ان سے بچا‘ تو اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘(ابن حبان)
رمضان میں ان امور سے بچا جائے
آپ سے گزارش ہے کہ درج ذیل امور سے اجتناب کیجیے ‘کیونکہ یہ رمضان کی برکات کو ضائع کرنے والے ہیں:
(i)جھوٹ ‘غیبت اور چغلی وغیرہ :حضور اکرمﷺ کا فرمان ہے :
((مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِهِ، فَلَيْسَ لِلّٰهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ))(صحیح البخاری)
’’ جس نے (روزے میں) جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کوکوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑدے۔‘‘
(ii)دوسروں سے جھگڑنا:رمضان المبارک صبر کا مہینہ ہے۔ جہاں ہمیں کھانے پینے پر صبر کرنا ہے‘ وہیں اپنے مزاج پر بھی صبر کرنا ہے۔ نبی اکرمﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
((إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ يَوْمًا صَائِمًا، فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ، فَإِنِ امْرُؤٌ شَاتَمَهُ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ))(صحیح مسلم)
’’جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو وہ نہ تو فحش گوئی کرے اور نہ ہی شور وغل مچائے۔ اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑنے کی کوشش کرے تو اس سے کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں۔‘‘
(iii)سحرو افطار میں اسراف :رمضان المبارک میں زیادہ کھانے پینے سے انسان اس کی برکات سے محروم رہتاہے۔ رمضان تو کم کھانے کا مہینہ ہے تاکہ انسان کا نفس کمزور ہوکر اس کامطیع ہو جائے۔
(iv)لغویات سے لطف اندوز ہونا :حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ روزہ صرف اسی کانام نہیں کہ انسان کھانے پینے سے رُکارہے بلکہ یہ جھوٹ‘ فضول اورلغو(لایعنی ) کاموں سے بھی بچنے کانام ہے۔ افسوس کہ ہم ’’روزہ بہلانے یا گزارنے‘‘ کےلیے بہت سارے لغو کاموں مثلاً لڈو‘ کیرم بورڈ‘تاش وغیرہ میں مشغول ہو جاتے ہیں ۔ یہ ایک طرح سے روزہ کی توہین ہے۔
(v)بے پردگی او ربدنظری:قرآن مجید میں نظروں کو جھکا کر رکھنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اگر روزہ رکھ کر انسان اپنی نگاہ کی حفاظت نہ کرے تو یہ عمل اسے اجروثواب سے محروم کر سکتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے بدنظری کرنے والے پر اور اس عورت پر جو اپنے آپ کو بدنظری کے لیے پیش کرے‘ دونوں پر اللہ کی لعنت کی ہے۔
رمضان میں کرنے والے کام
ماقبل اُن امور کاتذکرہ کیا گیا جن سے رمضان المبارک میں بچنا چاہیے‘اب ذیل میں اُن امور کا بیان ہے جن کو زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ رمضان المبارک کی زیادہ سے زیادہ برکات حاصل ہوسکیں۔
(i)قرآن حکیم سے تعلق قائم کرنا : رمضان المبارک میں کم ازکم ایک مرتبہ مکمل قرآن مجید کی تلاوت ضرور کیجیے۔ مزید برآں قرآن حکیم کے معنی ومفاہیم سے آگاہی کے لیے ترجمہ وتفسیر کا مطالعہ بھی کریں۔ درس اور دورۂ ترجمہ قرآن کی محفلوں میں شرکت کریں۔ بفحوائے حدیث ِنبوی ﷺ رمضان کی راتوں میں قرآن کے ساتھ جاگنے والے کے حق میں قرآن سفارش کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی سفارش قبول فرمائیں گے۔فرمانِ نبویؐ ملاحظہ ہو:
((اَلصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ، يَقُولُ الصِّيَامُ: أَيْ رَبِّ إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ، وَيَقُولُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النُّوْمَ بِاللَّيْلِ، فَشَفِّعْنِي فِيهِ، فَيُشَفَّعَانِ))(رواہ البیھقی فی شعب الایمان)
’’روزہ اور قرآن بندے کے لیے سفارش کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا:اے میرے رب ! میں نے دن کے وقت اسے کھانے پینے اور خواہشات سے روکے رکھا‘ اس کے حق میںمیری سفارش قبول فرما! اور قرآن عرض کرے گا: میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکے رکھا‘ اس کے حق میںمیری سفارش قبول فرما۔ پس ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔ ‘‘
(ii)حصولِ مغفرت کی سعی وجدّوجُہد :حضور اکرمﷺ نے فرمایا:
((رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ، وَرَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الْكِبَرَ فَلَمْ يُدْخِلَاهُ الْجَنَّةَ))(سنن الترمذی)
’’ اس شخص کی ناک خاک آلود ہو( یعنی وہ شخص برباد ہوجائے) جو رمضان کا مہینہ توپائے مگر اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر جائے۔ اور اس شخص کی بھی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ کو بڑھاپے میں پایا ہو اور وہ دونوں اسے (ان کے ساتھ حسنِ سلوک نہ کرنے کی وجہ سے) جنت کا مستحق نہ بنا سکے ہوں۔‘‘
لہٰذا اس ماہ میں خاص طور پر خود اپنے لیے‘ اپنے والدین‘ اپنے اہل وعیال ‘ اعزہ واقارب‘ رفقاء اور تمام مؤمنین کے لیے زیادہ سے زیادہ مغفرت کی دعا کریں۔
(iii)اللہ کی راہ میں خرچ کرنا:اِنفاق فی سبیل اللہ حصولِ تقویٰ وتزکیۂ نفس کا خصوصی ذریعہ ہے اور رمضان میں اس کا اجر بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
(iv)روزہ افطار کرانا :حدیث میں روزہ افطار کرانے والے کو روزہ دار کے اجر کے برابر کی نوید سنائی گئی ہے۔ یہاں تک فرمایا گیا کہ یہ اجر وہ شخص بھی پاسکتا ہے جو لسی یا پانی کے ایک گھونٹ پر بھی کسی کو روزہ افطار کرادے۔فرمانِ نبویﷺ ہے:
((مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا)) (سنن ابن ماجہ)
’’جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا اور روزہ دار کے ثواب میں سے کوئی کمی بھی نہیں ہو گی۔‘‘
(v)اعتکاف :رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف نبی اکرمﷺ کی مستقل سُنّت ہے۔ آپ ﷺ ایک سال اعتکاف نہ کر سکے تو اگلے سال دوعشروں کا اعتکاف فرمایا۔اعتکاف میں شب ِقدر کی بھی فضیلت حاصل ہو جاتی ہے۔
(vi) لیلۃ القدر کی تلاش: نبی اکرمﷺ کا حکم ہے کہ’’شب ِقدر کو آخری عشرے میں تلاش کرو‘‘۔ دیگر روایات میں آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کوتلاش کرنے کی تاکید ہے۔
(vii)تراویح اور تہجد:انسان دن کو روزہ رکھ کر اپنے نفس کو کمزور اور رات کو قرآن سن کر اپنی روح کو طاقتور بناتا ہے۔ یہ عمل انسان کی روحانی ترقی کا ذریعہ ہے۔ رمضان میں نوافل کا اجر فرض کے برابر کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا تراویح ‘تہجد اور دیگر نوافل کا ضرور اہتمام کیجیے۔
(viii)اخلاصِ نیت: ہرکام اللہ کی رضا اور آخرت کی نجات کے لیے سر انجام دیجیے۔ اپنی نیت کو مسلسل ٹٹولتے رہیے کہ کہیں اس عمل میں دکھاوا تو شامل نہیں ہوگیا۔
محترم رفقاء! رمضان المبارک مغفرت ومعافی اور روحانی ترقی کا مہینہ ہے۔ رمضان کے بعد والی ہماری زندگی رمضان سے پہلی والی زندگی سے مختلف ہونی چاہیے۔ہمیں خود محسوس ہو کہ ہمارے اندر رمضان کے بعد تبدیلی آئی ہے۔ہم ارکانِ اسلام کی پابندی‘ حقوق العباد کی ادائیگی کا اہتمام اور حلال وحرام میں تمیز پہلے سے زیادہ کرنے لگے ہیں۔ دعوت وتبلیغ‘ اقامت ِدین کی جدّوجُہد اور جہاد فی سبیل اللہ میں پہلے سے زیادہ وقت دینا شروع کر دیاہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ہم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکر ادا کریں کہ اُس نے کسی درجے میں ہمیں رمضان کی برکات سے مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔
رمضان المبارک میں اپنے نظم ِزیریں اور نظم ِبالا کو بھی دعاؤں میں ضرور یاد رکھیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت پر استقامت عطا فرمائے اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین!