(دعوت و تحریک) نفاذِ شریعت کے لیے طریق کار پر ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور مفتی محمد تقی عثمانی کا اتفاق - انجینئر نوید احمدؒ

17 /

نفاذِشریعت کے لیے طریق ِکارپر
ڈاکٹر اسرار احمد ؒاور مفتی محمدتقی عثمانی کا اتفاق
انجینئر نوید احمد

ڈاکٹر اسرار احمد ؒ نے ۱۹۷۵ء میں تنظیم ِاسلامی قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اِس فیصلہ سے قبل ۱۹۷۴ء میں ایک خطاب کے دوران اُنہوں نےاِس فیصلہ کا پس منظر بیان کیا۔اُن کے نزدیک جماعت ِاسلامی کے قیام کا مقصد تو حکومت ِالٰہیہ کا قیام تھا‘ لیکن انتخابی سیاست میں آنے کی وجہ سے اب اُس کی اوّلین ترجیح جمہوریت کی بحالی بن چکی ہے۔اپنے مذکورہ خطاب میں ڈاکٹرصاحب ارشاد فرماتے ہیں:
’’۱۹۴۷ء میں جیسے ہی مسلمانانِ ہند کی قومی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور پاکستان کے نام سے ایک آزاد مسلمان ریاست قائم ہوئی اور متعدد اسباب سے ایک توقع سی نظر آئی کہ یہاں اسلام کے نام پر ایک سیاسی تحریک چلائی جاسکتی ہے‘ اُنہوں(مولانا مودودیؒ) نے اپنے اُصولی موقف کو ترک کرکے ‘بغیر اِس کے کہ کوئی علمی و فکری انقلاب آیا ہو یا اخلاقی و عملی تبدیلی معاشرے میں برپا ہوئی ہو‘ نظامِ حکومت کی ’’اصلاح ‘‘ کے لیے عملی سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ توقع تو موہوم سے موہوم تر ہوتی چلی گئی‘ البتہ سیاست کی سنگلاخ وادی میں یہ تحریک ’’وَلٰکِنَّہٗ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ‘‘ کے مصداق پست تر موقف اختیار کرنے پر مجبور ہوتی چلی گئی۔
پہلے خیال تھا کہ خالص اسلام کے نام اور محض اپنے زورِ بازو کے بل پر یہ مرحلہ سر ہوجائے گا‘ لہٰذا کمالِ شانِ استغناء کے ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں کی اشتراکِ عمل کی پیشکشوں کو ٹھکرادیا گیا۔ جب پنجاب کے۱۹۵۱ء کے الیکشن کے بعد یہ مغالطہ دُور ہوا تو خیال ہوا کہ مذہب کے نام پر دوسری مذہبی جماعتوں کے تعاون سے یہ مہم سر کی جائے۔ پھر جب معلوم ہوا کہ یہ بھی ممکن نہیں اور چڑھائی اتنی سخت ہے کہ گاڑی اِس سیکنڈ گیئر میں بھی آگے نہیں بڑھ سکتی تو گویا پہلا گیئر آزمایا گیا اور ایک درجہ اور نیچے اُتر کر محض جمہوریت کے نام پر مذہبی و لادینی تمام عناصر کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی۔ سابق صدر ایوب مرحوم کا پورا گیارہ سالہ دورِ حکومت اِسی ’’بحالی ٔ جمہوریت‘‘ کی مہم کی نذر ہوگیا۔ لیکن جب اُن کے اقتدار کی عمارت گری تو اُس کے ملبے سے کچھ ’’اور‘‘ ہی برآمد ہوگیا!
ہمارے پیشِ نظر اِس وقت نہ تو تاریخ نگاری ہی ہے نہ جماعت ِاسلامی کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی یا قیاس آرائی‘ نہ ہم اِس وقت اِس بحث ہی میں الجھنا چاہتے ہیں کہ مولانا مودودی کے اِس ’’انقلابِ حال‘‘ کے اسباب کیا تھے (اِس پر ہم اپنی تالیف ’’تحریک ِجماعت ِاسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں مفصل بحث بھی کرچکے ہیں)۔ ہمیں اِس معاملے کے جس پہلو سے اصل دلچسپی ہے وہ یہ ہے کہ جماعت ِاسلامی کے اِس ’’انتقالِ موقف‘‘ سے احیائے اسلام کے ہمہ جہتی عمل میں ٹھیٹھ اُصولی اسلامی تحریک کی جگہ پھر سے خالی ہوگئی اور اِس مہیب خلا کوپُرکرنے کی کوئی صورت تاحال پیدا نہیں ہوئی جو اپنے پیش رو مولانا آزاد اور ان کی جماعت حزبُ اﷲ کی طرح مولانا مودودی اور اُن کی قائم کردہ جماعت اسلامی نے جیتے جی مرحوم ہوکر پیدا کیا ہے۔‘‘(۱)
اِس کے بعد ڈاکٹرصاحب فرماتے ہیں:
’’جماعت ِ اسلامی کے موقف میں یہ تبدیلی اُصولاً ۱۹۴۷ء ہی میں پیدا ہوگئی تھی ‘ لیکن کم و بیش دس سال یہ اپنی قوت کے زور میں بڑھتی چلی گئی اور اس تبدیلی کا احساس بھی لوگوں کو نہیں ہوا۔ لیکن۵۶-۵۷ء میں جماعت میں اِس احساس نے زور پکڑا اور طریق ِ کار کے بارے میں ایک اختلافِ رائے ظاہر ہوا جس نے ایک ہنگامے کی صورت اختیار کرلی۔ نتیجتاً جماعت کے ’’اکابر‘‘ کی اکثریت چند ’’اصاغر‘‘ سمیت جماعت سے کٹ گئی۔ اُن ’’اصاغر‘‘ میں سے ایک اِن سطور کا راقم بھی ہے۔ بعد ازاں ’’بڑے‘‘ تو اپنے اپنے ’’بڑے‘‘ کاموں میں مشغول و مصروف ہوگئے‘ لیکن یہ ’’چھوٹا‘ ‘ ؎
ایک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنّم اب تک
اِس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک!
کے مصداق اپنے دل و دماغ کو اُس جنّت ِگم گشتہ کے خیال سے فارغ نہ کرسکا‘ بلکہ جیسے جیسے دن بیتے اُس کا حال یہ ہوتا چلا گیا کہ ؎
تخم جس کا تُو ہماری کشتِ جاں میں بو گئی
شرکتِ غم سے یہ اُلفت اور محکم ہو گئی!
وہ جب جماعت سے علیحدہ ہوا‘ اُس کی عمر کل پچیس برس تھی۔ بالکل نَو عمری کا عالم‘ نہ علم نہ تجربہ‘ لہٰذا پورے دس برس اُس نے اِس انتظار میں بسر کیے کہ’ ’بڑوں‘‘ میں سے کوئی ہمت کرے اور از سر ِنو سفر کا آغاز کردے۔ لیکن اﷲ کو یہ بھی منظور نہ ہوا‘ تا آنکہ ۶۶-۶۷ء میں اُس نے خود کمر ِہمت کسی اوربفحوائے الفاظِ قرآنی ’’اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ‘‘(’’یقیناً یہی قرآن ہے جو رہنمائی فرماتا ہے اُس راہ کی طرف جو سب سے سیدھی اور سب سے درست ہے!‘‘) درسِ قرآن کی صورت میں ٹھیٹھ اسلامی دعوت کے لیے ذہنی و فکری سطح پر میدان ہموار کرنے کا کام شروع کردیا۔ اُس کے کام کو اﷲ نے شرفِ قبول عطا فرمایا اور چند ہی سالوں میں اُس کے قائم کردہ ’’حلقہ ہائے مطالعہ ٔ قرآن‘ ‘ کی کوکھ سے’ ’مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور‘ ‘برآمد ہوگئی اور اب اُس کے بھی دو ہی سال بعد وہ اسی ٹھیٹھ اُصولی اسلامی تحریک کے اِحیاء کے لیے ’’تنظیم اسلامی‘‘ کے قیام کا ارادہ کررہا ہے!
اُسے خوب معلوم ہے اُس کے پاس نہ مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کی سی عبقریت اور ذہانت و فطانت ہے‘ نہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی کی سی صلاحیت ِکار اور محنت و مشقت کا مادّہ۔ پھر نہ وہ شعلہ بیان خطیب ہے نہ صاحب ِ طرز ادیب‘ بایں ہمہ ایک احساسِ فرض ہے جو چین نہیں لینے دیتا اور ایک عظیم تحریک کی امانت کے بار کا احساسِ گراں ہے جس نے اُسے ع ’’ہر چہ باداباد‘ ماکشتی در آب انداختیم‘‘ کے مصداق اِس پُر خطر وادی میں کود پڑنے پر مجبور کردیا ہے!‘‘(۲)
ڈاکٹر صاحب کی رائے تھی کہ انتخابی سیاست میں دیگر جماعتوں کا حریف بن کر اسلام کے نفاذ کے مشن کومتنازعہ معاملہ (issue) بنادیا جاتا ہے۔ پھر عملی جدّوجُہدمیں جمہوریت کو نفاذِ اسلام پر ترجیح دے دی جاتی ہے۔ نفاذِ اسلام کے لیے موجودہ حالات میں کامیابی کا امکان پُرامن احتجاجی جدّوجُہد کے ذریعہ نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مذکورہ خطاب جولائی ۱۹۷۴ء میں کیا تھا۔ اِس کے دو ماہ بعد ستمبر۱۹۷۴ء میں تحریک ِختم ِنبوت نے احتجاجی طریق کار اختیار کرتے ہوئے شاندار کامیابی حاصل کی۔ اِس کامیابی کو مثال بناتے ہوئے مفتی محمدتقی عثمانی صاحب نے ماہنامہ ’’البلاغ‘‘ میں دینی سیاسی جماعتوں کونفاذِ شریعت کے لیے احتجاجی طریق کار اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’جوحضرات اسلامی نظام کی خاطر سیاست میں اور پھر اسمبلی میں داخل ہوئے تھے وہ یہ سوچ کر مطمئن ہیں کہ جمہوریت اسلامی نظام کی پہلی سیڑھی ہے ‘لہٰذا اِس راہ میں ہماری ہر کوشش اسلام ہی کی خاطرہے‘ جب یہ پہلی سیڑھی طے ہو جائے گی تو ہم اسلام کے لیے آگے بڑھیں گے۔ مشکل یہ ہے کہ وقت ایسا فلسفی نہیں ہے جو اِن منطقی توجیہات کی رعایت کرکے اپنی رفتار بدل دے ۔ اُس کا سفر تو لگا تار جاری ہے ‘اور الحاد و بے دینی کے جو بیج عرصہ ٔدراز پہلے بوئے گئے تھے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تناور درخت بن چکے ہیں ‘ان پرنت نئے پھل پھول آرہے ہیں۔ ہم اٹھائیس سال(یہ تحریر ۱۹۷۵ء کی ہے‘ یعنی قیام پاکستان کے اٹھائیس سال بعد کی ۔) سے ان درختوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے اس بات کے منتظر ہیں کہ پہلے ان تک پہنچنے کا راستہ صاف اور آرام دہ ہو‘ قطع نظر اس سے کہ جب تک یہ آرام دہ راستہ تیار ہو گا اُس وقت تک یہ درخت کتنے جوان اور توانا ہو چکیں گے اور ان کی آل اولاد پیدا ہو کر کتنی طاقت ور بن چکی ہو گی‘‘۔ (۳)
بعد ازاں اپنی درد مندانہ گزارشات کا خلاصہ مفتی صاحب نے اِن الفاظ میں پیش فرمایا:
’’ عرصہ سے ہماری سیاسی سرگرمیوں میں جمہوریت کے مطالبے کا عنصر زیادہ اور نفاذِ شریعت کے سنجیدہ مطالبے کا عنصر کم ہوتا جارہا ہے۔ ہماری دینی‘ سیاسی جماعتیں جمہوری آزادیوں کی طرف اِس درجہ متوجہ ہیں کہ اسلام کے نفاذ سے متعلق بہت سے ضروری کام نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ ہم نے’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘کو بطورِ مثال پیش کرکے عرض کیا تھا کہ بحالاتِ موجودہ نفاذِ شریعت کی جدّوجُہدکاپہلا قدم اس کونسل کی اصلاح ہونا چاہیے اور افسوس کہ اِس کی طرف کسی نے بھی خاطر خواہ توجہ نہیں کی۔‘‘(۴)
مفتی صاحب کی اِن گزارشات کو ہفت روزہ’’ایشیا‘‘کے مدیر نے اپنے اداریہ میں ’’سبکسارانِ ساحل‘‘کا تبصرہ قرار دیا اور شکوہ کیا:
’’ان کے (یعنی البلاغ کے)اِس شکایت نامے میں طنزو تعریض کے کانٹوں کی چبھن محسوس ہوئے بغیر نہیں رہتی۔‘‘(۵)
مدیر صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’جو لوگ عملی سیاست کے خم و پیچ کا تجربہ نہیں رکھتے وہ اس کا کم اندازہ کرسکتے ہیں کہ نکتہ ٔآغاز اور منزل کے درمیان کتنی وادیاں اور کتنے موڑ آتے ہیں‘ نیز یہ کہ ساحل پر کھڑے لوگ حلقہ ٔموج کے اندر دام ہائے صد کام نہنگ سے واقف نہیں ہوسکتے۔‘‘(۶)
مفتی صاحب نے مدیر صاحب کے تأثر اور شکوہ کا جواب اِن الفا ظ میں دیا:
’’اِن گزارشات سے ہمارا مقصد کسی نئے مباحثے کا دروازہ کھولنا اُس وقت تھا ‘نہ آج ہے۔ وہ تو اک دکھے ہوئے دل کی فریاد تھی جس میں تأثر کی شدت نے کچھ تلخ نوائی پیدا کر دی ہو تواسے ہماری نا اہلی سمجھ لیجیے کہ ہم سے ’’نالہ پابند ِنے‘‘ نہ ہو سکا اور اس سے اگر کسی حساس دل کو واقعتاً ٹھیس پہنچی ہے تو ہمیں معذرت خواہی میں بھی تأمل نہیں‘ کیونکہ ہمارا مقصد دلوں کو ٹھیس پہنچانا تھا ہی نہیں‘ البتہ جو بات ہم نے عرض کی تھی اس پر چونکہ ہمیں آج بھی اصرار ہے اس لیے ہم اس کی تھوڑی سی مزید تشریح آج پھر پیش کرنا چاہتے ہیں: ع شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات!‘‘(۷)
اس کے بعد مفتی صاحب تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ہماری گزارش یہ ہے کہ ہم سبکسارِساحل سہی لیکن کیا ہم جیسے ساحل پر کھڑے ہوئے لوگ موجوں سے برسر ِپیکار جیالوں کو یہ بتانے کا حق بھی نہیں رکھتے کہ آپ کے عقب پر ایک ہولناک طوفان حملہ آور ہے۔ آپ کی اس ہمت و شجاعت پر ہزار آفریں کہ آپ ’’آمریت‘‘ کے نہنگوں سے نبردآزما ہیں تاکہ جب عوام اپنی رائے کا کھل کر اظہار کر سکیں تو ان کی کوششوں سے اسلام قائم ہو ‘لیکن نہنگوں کی اس فوج کی طرف توجہ دلانے والا گردن زدنی کیوں ہے جو سالہاسال سے لگا تار عوام کے دلوں سے اسلام کو کھرچنے میں مصروف ہے ‘تاکہ اگر کبھی عوام کو اظہارِ رائے کی مکمل آزادی نصیب ہو بھی جائے تو وہ اپنے اوپر خد ا کے بجائے خواہشاتِ نفس کی حکمرانی قائم کریں ‘اور ان کی جمہوریت کے سائے میں انسدادِ فحاشی کے بجائے ہم جنس پرستی کے بل منظور ہوں۔ آپ اسلام کا مؤثر مطالبہ کرنے کے لیے اس بات کے منتظر ہیں کہ پہلے عوام کو تحریر و تقریر کے مواقع فراہم ہوجائیں اور وہ ان کے ذریعہ اسلام کی آواز بلند کر سکیں ‘لیکن اگر ان مواقع کے فراہم ہونے میں اٹھائیس سال اور لگ گئے تواس بات کی کیا ضمانت ہے کہ تحریر و تقریر کے یہ ذرائع کفر و الحاد کے پرچار اور لادینیت کے مطالبوں میں استعمال نہیں ہوں گے؟‘‘(۸)
مدیر صاحب نے بحالی ٔ جمہوریت کی جدّوجُہدکو نفاذِ شریعت کا ابتدائی مرحلہ قرار دیا اور اسے بھی کارِ اجرو ثواب قرار دیا۔ مدیر موصوف تحریر فرماتے ہیں:
’’جو عازمِ حج بنکوں‘بازاروں اور ہسپتالوں کے چکر کاٹتاہے اس کی یہ سرگرمیاں بھی عبادتِ حج کے ضمن میں آتی ہیں۔ اسی طرح جو شخص مسجد کی تعمیر کی لیے سرکاری دفتروں اور چندہ دینے والوں کے پاس بھاگ دوڑ کرتا ہے وہ بھی تعمیر ِمسجد ہی کا ثواب حاصل کررہا ہے۔‘‘(۹)
مفتی صاحب اِس کے جواب میںرقم طراز ہیں:
’’ ہم معاصر موصوف کے اس خیال سے حر ف بحرف متفق ہیں‘ لیکن ہمارا سوال تو اس شخص کے بارے میں ہے جو حج کی درخواست اس لیے نہیں دیتا کہ ملک پر ظالم و جابر حکمران مسلط ہیں اور پہلے انہیں اقتدار سے اتار کر ایک صحیح اسلامی حکومت قائم کرنا زیادہ ضروری ہے تاکہ لوگوں کوحج ادا کرنے کے لیے پریشانیاں اٹھانی نہ پڑیں اور وہ آزادی کے ساتھ یہ مقدّس عبادت ادا کرسکیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کا حکم آپ کے نزدیک کیا ہے؟ نیز اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو مسجدوں کی تعمیر کی سنجیدہ کوشش اس لیے نہیں کرتا کہ دراصل یہ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور پہلے حکومت کو صحیح معنوں میں اسلامی بنا لیا جائے تو مسجدیں خود بخود تعمیر ہو جائیں گی۔
اتنی بات ہم جیسے سطح بینوں کے فہم سے بالا تر نہیں ہے کہ ایک عبادت کو اداکرنے کے لیے جتنے کام ضروری ہوتے ہیں ان میں مصروف ہونا بھی عبادت ہی کادرجہ رکھتا ہے‘ لیکن اوّل تو ایسی ضروریات کی فہرست تیار کرنے میں زیادہ منطقی باریکیاں بھی بسا اوقات انسان کے اس ازلی دشمن کی طرف سے سجھائی جاتی ہیں جو کسی کوعبادت میں مصروف دیکھنا نہیں چاہتا۔ دوسرے‘ وضو کرنابے شک نماز سے بے رخی نہیں‘ لیکن اگر کوئی شخص ساری زندگی وضو ہی کرتا رہے اور نماز کا نمبر ہی نہ آنے دے تو اسے کیا کہا جائے گا؟ یہ بات بلا شبہ نماز کے آداب میں داخل ہے کہ تمام اعضاء کوخوب اچھی طرح تین تین بار دھویا جائے ‘اس کے سنن و مستحبات کی پوری رعایت کی جائے اور اس میں پورے اطمینان کامظاہرہ کیا جائے ‘ لیکن اگر ان آداب وسنن میں مشغول ہونے سے نماز کا وقت نکل جانے کا اندیشہ ہو تو کیا ان آداب کی ادائیگی پر اصرار فرائض سے بے رخی نہیں کہلائے گا؟ فقہاء نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اگر کسی ایسی نماز کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہو جس کی قضا نہیں ہو سکتی (مثلاً نمازِجنازہ) تو وضو کے بجائے تیمّم ہی پر اکتفا کرلینا چاہیے۔ لیکن جو شخص ایسے وقت میں بھی وضو ہی نہیں اس کے تمام آداب کی ادائیگی پرمُصر ہو ‘کیا اس کی باریک بینی بھی قابلِ ستائش ہے؟‘‘(۱۰)
مدیر موصوف نے اِس کے جواب میں حزبِ اختلاف کی وہ خدمات شمار کی ہیں جن کے ذریعہ ملک کو ایک قابلِ قبول دستور میسر ہوا۔ مفتی صاحب اِس پر یوں تبصرہ فرماتے ہیں:
’’ ہمیں ان خدمات کا صدقِ دل سے اعتراف ہے ‘اورجہاں تک یاد ہے ہم نے اس کے اعتراف میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا‘لیکن ہماری گزارش یہ ہے کہ جب تک ملک کا کوئی دستور نہیں تھا‘یا ایسا دستور تھا جسے بدلے بغیر گاڑی نہیں چل سکتی تھی اس وقت تک حالات کچھ اور تھے‘ لیکن اب ایک ایسا آئین تیار ہو چکا ہے جس کے بارے میں حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے ہی بار بار اعتراف کیاہے کہ وہ بعض قابلِ اصلاح امور کے باوجود بنیادی طور پر جمہوری ہے ‘کیا اب اسلام کی نام لیوا جماعتوں کو اپنی کوششوں کا رخ بدلنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی؟ کیا اب بھی ’’جمہوریت کی بحالی‘‘ ہی ملک کا سب سے بنیادی اور سب سے اوّلین مسئلہ ہے؟ کیا اب بھی اسلام کے نفاذ کی مؤثر کوشش (معاذاللہ) بے وقت کی راگنی ہے؟ اور کیا اب بھی تن من دھن داؤ پر لگانے ‘خونِ معصوم کا نذرانہ پیش کرنے اور عوام کا امن وسکون بھینٹ چڑھانے کے لیے ’’جمہوریت‘‘ ہی کی دیوی باقی رہ گئی ہے؟ اگر حکومت کی طرف سے کچھ ناروا پابندیاں اب بھی باقی ہیں توانہیں اٹھانے کی جدّوجُہدکا نفاذِشریعت کی جدّوجُہد سے آخر کیا تعارض ہے؟ آپ نفاذِشریعت کی کوشش کو اوّلیت دے کر ساتھ ساتھ ان پابندیوں کے خلاف کوشش اب بھی جاری رکھ سکتے ہیں ‘لیکن ’’پہلے جمہوریت پھر اسلام‘‘ وہی پرانا فارمولا آخر کب تک چلتا رہے گا؟(۱۱)
مدیر صاحب نے اسلام کے لیےجدّوجُہدکی رکاوٹوں کاذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا:
’’آپ عوام کی رائے دین کے حق میں ہموارکرنے کے لیے نکلتے ہیں ‘لیکن دفعہ۱۴۴ آپ کا راستہ روک لیتی ہے۔ آپ اس غلط روش پر تنقید یا احتجاج کرنا چاہتے ہیں‘ لیکن قلم پکڑ لیا جاتاہے ‘اور زبان بند کر دی جاتی ہے۔ کیا آپ اسے سیاست کی دلدل کہہ کر پیچھے ہٹ جائیں گے ‘یا جدّوجُہد کے لیے اور بھی کمر بستہ ہو جائیں گے؟‘‘(۱۲)
مفتی صاحب اِس دلیل کا جواب یوں دیتے ہیں:
’’ہمیں معلوم نہیں کہ موجودہ حالات میں سیاسی جماعتوں کو پیچھے ہٹنے کا مشورہ کس نے دیا ہے‘ لیکن اس تصور کا کیا علاج ہے کہ نفاذِشریعت کے لیے آگے بڑھنے کے مطالبے کو پیچھے ہٹنے کی تجویز سے تعبیر کیا جائے اور ’’کمر بستہ‘‘ صرف اُس شخص کو کہا جائے جو جمہوریت کے اندھے جھنڈے کے نیچے نعرے لگا رہا ہو؟ سوال یہ ہے کہ ختم ِنبوت کے لیے جو کامیاب تحریک چلائی گئی‘ دفعہ۱۴۴ اِس کا راستہ کیوں نہیں روک سکی ؟ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کے لیے جب رائے عامہ ہموار کی گئی تو اُس وقت زبان و قلم پر لگی ہوئی ناروا پابندیاں کیوں آڑے نہیں آئیں؟ اس تحریک کے دوران بھی حکومت یہی تھی‘ ایمرجنسی بھی آج کی طرح قائم تھی‘ دفعہ۱۴۴ کا ہتھیار بھی جگہ جگہ استعمال ہو رہا تھا‘ پریس پر پابندیاں بھی آج سے زیادہ تھیں‘ لیکن اِن تمام رکاوٹوں کے باوجود تحریک ِختم نبوت پوری شان و شوکت کے ساتھ جاری رہی‘ اور بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اگر آپ اُس وقت بھی یہ دلیل استعمال فرماتے کہ جب تک جمہوری آزادیاں بحال نہ ہوں اُس وقت تک اس قسم کی تحریک چلانا بے سودہے ‘ اور بحالاتِ موجودۂ ’’بحالی ٔ جمہوریت‘‘ کے سوا کوئی اور تحریک چلانا بے کار ہے ‘تو کیا اُمّت ِمسلمہ کو یہ دن دیکھنا نصیب ہو سکتا؟
ہماری گزارش تو صرف اتنی تھی کہ ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ جس پر موجودہ دستور کے تحت نفاذِشریعت کا دارومدارہے اس کی اصلاح کے لیے کوئی مؤثر آواز کیوں بلند نہیں ہوتی؟ اور اس غرض کے لیے کوئی سوچی سمجھی تحریک کیوں نہیں چلائی جاتی؟ ہم فاضل معاصر سے بصد ادب یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ہمارے سوال کا کوئی جواب ان کی طویل تحریر میں موجود ہے؟ جس طرح آپ دفعہ۱۴۴ کے باوجود جمہوریت کی بحالی کے لیے ’’کمربستہ‘‘ ہو سکتے ہیں ‘ جس طرح آپ زبان و قلم کی پابندیوں کے باوجود انتقالِ اقتدار کی تدبیریں سوچ سکتے ہیں‘ جس طرح آپ پریس کا گلا گھٹ جانے کے باوجود ’’ختم ِنبوت‘‘ کی تحریک چلا سکتے ہیں ‘ اسی طرح ’’نفاذِ شریعت‘‘ کا ایک سوچا سمجھا پروگرام سوچ کر اور اس کے معیّن مطالبات طے کر کے اسلا م کے لیے کوئی تحریک کیوں نہیں چلا سکتے ؟
حقیقت یہ ہے کہ وقت کے اس اہم ترین سوال کا جواب برائے جواب دینا ہی پیش نظر ہو تو اس کی بہت سی تاویلات وتوجیہات اور دل کو تسلی دینے کی بہت سی باتیں سوچی جاسکتی ہیں ‘لیکن اگر ہم اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس سوال کا وہ جواب تلاش کرنا چاہیں جو ہمارے ضمیر کومطمئن کر سکے تو وہ اس کے سوا نہیں ہو گا کہ ’’نفاذِ شریعت‘‘ کا وہ جذبۂ بیتاب ہمارے دلوں میں سرد پڑتا جا رہاہے جو کوئی تحریک چلانے کے لیے روحِ رواں کا کام کرتا ہے۔ ’’جمہوریت‘‘ کے نعرے لگاتے لگاتے ہم نے اپنی ترجیحات کی ترتیب عملاً بدل ڈالی ہے۔لادینی جماعتوں سے اشتراک کے نتیجے میں جمہوری آزادیوں کی بحالی اور حکومت بدلنے کی خواہش ہماری نظر میں ’’نفاذِ شریعت‘‘ سے زیادہ اہمیت اختیار کرگئی ہے ‘ورنہ جس طرح ’’تحریک ِختم نبوت‘‘ کے وقت واقعتاً جوش و خروش تھا اور دل سے چاہا گیا تھا کہ یہ تحریک پوری شوکت کے ساتھ چلے ‘ اس لیے دفعہ۱۴۴ اور پریس کی پابندیاں اس تحریک کا راستہ نہ روک سکیں‘ اسی طرح اگر ’’نفاذِ اسلام‘‘ کی سچی تڑپ موجود ہو ‘ہم لادینی جماعتوں کے شوروشغب سے مرعوب ہونا چھوڑ دیں ‘اور اپنی سوچ بچار اور عملی جدّوجُہد میں ’’نفاذِشریعت‘‘ کے مطالبے کو وہی اہمیت دیں جس کا وہ مستحق ہے تو یقین کیجیے کہ ’’دین کے حق میں رائے عامہ ہموارکرنے کاکام‘‘ جو فاضل معاصر کے بقول دفعہ ۱۴۴ کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے ‘ آج بھی ہوسکتاہے۔‘‘(۱۳)
اپنی گزارشات کے آخر میں مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’ آخر میں یہ گزارش ضرور ہے کہ اسلام کی نام لیو ا جماعتوں کی نیت نہ ہم پہلے زیر ِبحث لائے تھے اور نہ آج وہ زیربحث ہے۔ہماری معروضات سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ خدانخواستہ ہم اسلام کی تمام نام لیوا جماعتوں کی نیت پر حملہ آورہیں‘ بلکہ غلطیاں پوری نیک نیتی کے ساتھ بھی ہو سکتی ہیں۔ ایسا بکثرت ہوتا ہے کہ کسی کام میں ایک نیک نیت شخص کا انہماک غلو کی حد تک پہنچ جاتا ہے اور بعض دوسرے پہلو اُس کی نظر سے اوجھل ہوجاتے ہیں ‘اور ایک فرومایہ شخص جو اس کام میں منہمک نہیں اپنی ’’سبکساریٔ ساحل‘‘ کے باوجود انہیں محسوس کر لیتاہے۔ ایسی صورت میں اگر و ہ ان خاص پہلوؤں کی طرف توجہ دلائے تو اس پر ملول ہونے کی بجائے ٹھنڈے دل سے غور کر لینا غواصی وشجاعت کے منافی نہیں ‘بلکہ اس کے عین مطابق ہے۔
ہم جس بات کو دیانتاً فیما بیننا وبین اللّٰہحق سمجھتے ہیں‘ اور جسے اپنے ملک کی دینی و سیاسی جماعتوں تک پہنچانا ہم اپنا فرض سمجھتے تھے ‘اس کا اظہار آج دوبارہ ہم کرچکے۔ اگر ملت کے رہنماؤں کو ہماری ان دردمندانہ معروضات میں کوئی بات قابل ِقبول محسوس ہو تو اسے قبول فرمائیں اور اگر ہم اب بھی مطمئن نہ کرسکے ہوں تو اللہ اپنے دین کا کفیل ہے ‘ اسی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اور رہنمایانِ قوم کو بھی اس راستہ کی ہدایت فرمائے جو ملک و ملت کے لیے مفید تر ہو۔ آمین!‘‘(۱۴)
ڈاکٹر اسرار احمدؒ اور مفتی محمدتقی عثمانی صاحب تو اس پر متفق ہیں کہ نفاذِ شریعت انتخابی طریقہ سے نہیں بلکہ احتجاجی طریقہ ہی سے ممکن ہے۔ الحمد للہ! سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمدصاحبؒ بھی اب اسی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مورخہ ۲۶؍ اکتوبر ۲۰۱۲ء کو روزنامہ جنگ میں’’ایک نئی انقلابی قیادت: پاکستان کی ضرورت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:
’’ اس میں شک نہیں کہ آزاد اور غیر جانبدار انہ انتخاب وقت کی اہم ضرورت ہے اور ملک میں جمہوریت کے تسلسل کا تقاضا ہے کہ بروقت غیر جانبدارانہ اور آزادانہ انتخابات کے مناسب انتظامات کیے جائیں‘ لیکن موجودہ حالات میں کسی عبوری حکومت کے لیے‘ چاہے اس کا سربراہ کتنا بھی غیر جانبدار اور امین کیوں نہ ہو‘ مکمل طور پر صاف ستھرے انتخابات منعقد کرنا ممکن نہیں ہوگا‘ کیونکہ انتخابی عمل میں انتخابی امیدواروں اور انتظامیہ کا بنیادی کردار ہوتاہے اور فی الحال ہمیں وہ انتخابی عملہ اور وہ صاف ستھری انتظامیہ میسّر نہیں ہے۔ انتظامیہ کی اصلاح کرنا کسی عبوری حکومت کے بس کی بات نہیں‘ اس کے لیے کسی انقلابی حکومت کی ضرورت ہے ۔ فی الحال انتخابات کے نتیجے میں ہمیں کسی انقلابی تبدیلی کی توقع نہیں کرنی چاہیے‘ البتہ جزوی اصلاح کے لیے نسبتاً بہتر حکومت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ہم جن سازشی طاقتوں کے نرغے میں ہیں اور جس گمبھیر صورتِ حال کا ہمیں سامنا ہے اس سے نکلنے کے لیے مصر اور تیونس کی طرز کے عرب بہار کی طرح ایک پاکستانی بہار کی ضرورت ہے۔‘‘
حواشی
(۱) ڈاکٹراسرار احمد ‘تنظیم اسلامی کا تاریخی پس منظر‘مکتبہ تنظیم اسلامی ‘ جون۲۰۰۵ء‘ ص۳۹تا۴۰
(۲) ایضاً‘ ص۴۰تا۴۲
(۳) مفتی محمدتقی عثمانی ‘نفاذِ شریعت اور اُس کے مسائل ‘مکتبہ دارالعلوم کراچی ۱۴‘ رجب۱۴۳۰ھ‘ ص۱۰۸تا۱۰۹
(۴) ایضاً‘ ص۱۰۵ (۵) ایضاً‘ص۱۰۶ (۶) ایضاً (۷) ایضاً (۸) ایضاً‘ ص۱۰۶تا۱۰۷ (۹) ایضاً‘ص۱۰۷ (۱۰) ایضاً‘ ص۱۰۷تا۱۰۸ (۱۱) ایضاً‘ص۱۰۹ (۱۲) ایضاً‘ ص۱۰۹تا۱۱۰
(۱۳) ایضاً‘ ص۱۱۰تا۱۱۱ (۱۴) ایضاً‘ ص۱۱۱تا۱۱۲